عورتوں پر تشدد /دلہن سوزی:
لڑکیوں کے ساتھ تفریق وامتیاز کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ عورتیں اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں خاص طور سے سسرالی زندگی میں تشدد، مارپیٹ ، جنسی استحصال ، جہیز کے لیے زدوکوب ، قتل اوراغوا کا شکار بنتی ہیں ۔ عورتوں کے خلاف ان جرائم کا ارتکاب پوری دنیا میں کیا جارہا ہے ، مگر جہیز کے لیے ان کے قتل کی لعنت سارک ممالک خاص کر ہندوستان میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے ۔ 1998ءکے دوران ملک میں چار ہزار نوسو پچا س عورتوں کوجہیز کے لالچ میںماردیا گیا ۔ ؎۱ ایک دوسری تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گھریلو تشدد کی وجہ سے ملک میں ہر گھنٹے انسٹھ 59خواتین خود کشی کرلیتی ہیں۔یہاں پر ہر گھنٹے عصمت دری کے دو واقعات اورہر گھنٹے جہیز کے لیے ایک عورت قتل کردی جاتی ہے ، فی الجملہ ہر گھنٹے خواتین کے خلاف سترہ 17واقعات پیش آتے ہیں ۔ ؎ ۲
خود کشی :
خود کشی انسانی معاشرے کی ایک بڑی لعنت ہے ۔ دنیا میں ہر سال آٹھ لاکھ لوگ مختلف اسباب کے تحت خود کشی کرلیتے ہیں ۔ ہندوستان میں ہر سال ایک لاکھ پینتیس ہزار لوگ خود کشی کرتے ہیں۔ ان میں سے چھیالیس ہزار لوگ وہ ہوتے ہیں جن کی عمریں پندرہ سال سے انتیس 29کے درمیان ہوتی ہیں۔ ہندوستان میں خود کشی کرنے والے اسی 80فی صد لوگ پڑھے لکھے ہوتے ہیں ۔ خود کشی کے اسباب میں گھریلو مسائل ، بیماری ، محبت میں ناکامی ، نشہ خوری ، معاشی بدحالی ، غربت اورجہیز کے لیے تنگ کرنے کی صورت میں پیش آئے ذہنی تناؤ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ اس کے لیے عام طورپر زہر خورانی ، پھانسی اوردوسرے ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں۔
ایڈس زدہ افراد:
ایڈس ایک بھیانک مرض ہے ۔ اس کی زد میں مرد، عورتیں اوربچے سبھی آرہے ہیں ۔ یہ بہ ذات خود مرض نہیںہے ، بلکہ یہ باب الامراض ہے ۔ اس میں انسانی جسم کی قوت مدافعت جومختلف بیماریوں کا مقابلہ کرتی ہے، ختم ہوجاتی ہے ، بدقسمتی سے اس کا اب تک کوئی کافی وشافی علاج دریافت نہیں ہوسکا ہے ۔ اس سے متاثرین کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے ۔ پوری دنیا میں اس مرض سے 33ملین (تین کروڑتیس لاکھ) سے زائد افراد متاثرہیں ۔ ہمارے ملک میں22لاکھ مرد اورعورتیں متاثر ہیں۔ بڑی تعداد میں بچے بھی زد میں ہیں: ناواقفیت کی وجہ سے بعض غلط فہمیاں بھی پیدا ہورہی ہیں ، جن کی وجہ سے متاثرین کوسماج اورمعاشرے میں طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ خاص طور سے اس کا علاج دریافت نہ ہونے کی وجہ سے ایڈس زدہ افراد مایوسیوں کی دلدل میں گرتے جارہے ہیں اوران کے بارے میں نفرت اورتفریق کے جذبات جنم لیتے ہیں اور ان کوگھر ، خاندان اورمعاشرے سے الگ تھلگ کردیا جاتا ہے ۔ حتیٰ کہ بعض اوقات معالجین اورڈاکٹر حضرات بھی غیر انسانی اور نامناسب رویہ اختیار کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے مسائل میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے ۔
مذکورہ مسائل سے مسلمانوں کا تعلق:
مذکورہ مسائل مشترکہ انسانی مسائل ہیں ان کے شکار جہاں ملک کی دوسری آبادیاں ہیں وہیں پر مسلمان بھی اس کے شکار ہیں، سماجی نابرابری جہاں ملک کے ایک مخصوص آبادی کا بہت بڑا چیلنج ہے وہیں پرمسلمانوں کے لیے بھی یہ ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ عدل وانصاف کی عدم دستیابی جہاں ملک کے عام لوگوں کے لیے ایک مسئلہ ہے وہیں مسلمانوں کے لیے بھی یہ ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ خصوصاً موجودہ پس منظر میں جب کہ مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات بھی لگ رہے ہیں اورمسلم نوجوانوں کوبغیر ثبوت کے جیلوں میں بند کیا جارہا ہے ۔ ان کے لیے ملک میںعدل وانصاف کی دستیابی ایک بہت اہم ضرورت ہے ۔ جرائم کے شکار یا جرائم کے ارتکاب دوسری کمیونٹی کے لوگ کرتے ہیں یا ہوتے ہیں ، اسی طرح جرائم کے شکار مسلمان بھی بنتے ہیں اوروہ بھی جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ غربت اورمفلسی ملک کا ایک مشترکہ مسئلہ ہے سبھی قومتیوں کے لوگ اس میں مبتلا ہیں۔ گداگری کرنے والے مسلمان بھی ہیں اور دوسرے لوگ بھی ہیں ۔ اسی طرح بچیوں کے ساتھ تفریق وامتیاز مسلم معاشرہ میں بھی پایا جاتا ہے اور دوسرے معاشرے میں بھی۔ گھریلو تشدد ودلہن سوزی جس طرح غیر مسلم معاشرہ کرتا ہے اسی طرح مسلمان معاشرہ بھی اس میں مبتلا ہے ، خود کشی کرنےوالے جس طرح غیر مسلم ہوتے ہیں اسی طرح بہت سے مسلمان بھی خود کشی کرلیتے ہیں ۔ ایڈس زدہ لوگ جس طرح غیر مسلم ہیں اسی طرح بہت سے مسلمان بھی اس میں مبتلا ہیں۔ غرض کہ یہ سارے مسائل بلا تمیز وامتیاز کے انسانی اورمشترکہ مسائل ہیں ، اس لیے ان مسائل کوسب کومل جل کر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اوران کے حل کرنے میں کسی طرح کا امتیاز روا نہیں رکھنا چاہیے۔
مذکورہ مسائل اوراسلامی تعلیمات:
اسلام ساری انسانیت کا مذہب ہے ، وہ کسی مخصوص ملک یا نسل کا مذہب نہیں ہے ، بلکہ ساری انسانیت کا مذہب ہے ۔ دنیا میں بسنے والی ہر قوم ، نسل اورفرد اس کا مخاطب ہے اورساری انسانیت کے مسائل کویکساں نظر سے دیکھتا ہے ۔ ساری انسانیت کے تمام مسائل کویکساں توجہ اوراہتمام سے وہ حل کرنا چاہتا ہے ۔ اس نے انسانوں کے درمیان تفریق کی دیواروں کومنہدم کیا ہے ۔ رنگ ونسل ، امیر و غریب کسی بھی وجہ امتیاز کواس نے وجہ شرف قرار نہیں دیا ۔ اس نے وجہ شرف ٹھہرایا ۔ تقویٰ اور خوف خدا کو ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی امتیازی اور اعلیٰ تعلیمات میں مساوات ، عدل وانصاف ، کمزور طبقا ت کے ساتھ ہمدردی اورغم گساری ،عورتوں کی تکریم ، تحفظ نفس اور ایثار وقربانی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ اسلام میں ان پہلوؤں سے متعلق بہت واضح تعلیمات دی گئی ہیں جن سے ملک کے ان مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے اورایک تکثیری معاشرے کوامن وسکون عطا کیا جاسکتا ہے ۔ ذیل میں ان مسائل سے متعلق اسلامی تعلیمات تھوڑی تفصیل کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں اس سے اندازہ ہوگا کہ اسلام ایک تکثیری معاشرے کے مسائل کوکس خوبی کے ساتھ حل کرتا ہے ۔
مساوات:
اسلام نے رنگ، نسل، زبان اور علاقہ کی بنیاد پر شرف وعزت کی ساری جڑیں کاٹ دی ہیں اور صرف تقویٰ اورایمان کوشرف کی بنیاد قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ (الحجرات:۱۳)
’’ اے لوگو ہم نے تم کوایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اورپھر تمہاری قومیں اوربرادریاں بنائیں تا کہ تم ایک دوسرے کوپہچانو، در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سے عزت والا وہ ہے جوتمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ۔ یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اورباخبر ہے ۔‘‘)
ایک حدیث میں اس بات کی پوری وضاحت کردی گئی ہے کہ رنگ ونسل اور علاقہ و زبان کی بنیاد پر کوئی عزت نہیں بلکہ سب یکساں اوربرابر ہیں۔
’’اے لوگو! تمہارا رب ایک اللہ ہے اورتمہارا باپ ایک (آدم ہے ، پس عربی کوعجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ عجمی کوعربی پر کوئی فضیلت ہے اورنہ گورے کے لیے کالے اورنہ کالے کے لیے گورے پر کوئی فضیلت ہے مگر تقویٰ کی بنیاد پر۔‘‘ (مسند احمد، ۵؍۴۱۱)
اسلام نے نہ صرف مساوات کی بنیادیں فراہم کی ہیں بلکہ ان عوامل کا قلع قمع کردیا ہے جس سے نابرابری، تفریق اور عصبیت پیدا ہوتی ہے ۔ ارشاد ہے :
’’وہ ہم میں سے نہیں ہے جوعصبیت کا دعویٰ کرے ، وہ ہم میں سے نہیں ہے جوعصبیت کی بنیاد پر قتال کرے اور وہ ہم میں سے نہیں جوعصبیت پر مرجائے۔‘‘(ابوداؤد ، کتاب الآداب ، باب العصبیۃ)
عدل وانصاف:
اسلام کی ایک عظیم الشان دفعہ عدل وانصاف ہے ۔ عدل کے معنیٰ کسی چیز کو حق کے مطابق تقسیم کرنے کے ہیں ۔ انصاف کے بھی یہی معنیٰ ہیں ۔ اصطلاح میں عدل کسی معاملے میں افراد وتفریط کے بیچ توازن قائم کرنے کو کہا جاتا ہے اورقانون کی زبان میں عدل کے معنیٰ ہیںکسی مقدمے کا حق کے مطابق فیصلہ کرنا ۔ اسلام نے اسلامی معاشرہ یا ریاست کے لیے عدل کووہ اہمیت دی ہے جوکسی اورنظر یے نے نہیں دی ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ اللہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ۰ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ (النحل:۹۰)
’’ اللہ تعالیٰ عدل، احسان اورصلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اوربدی، بے حیائی اورظلم وزیادتی سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو۔‘‘
قرآن مجید کے نزدیک عدل کی روش پر عمل پیرا ہونا تقویٰ کا اعلیٰـ ترین مظہر ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ۰ۡوَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۰ۭ اِعْدِلُوْا۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۰ۡوَاتَّقُوا اللہَ۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (المائدہ:۸)
’’ اے لوگو جوایمان لائے ہو اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ تم انصاف سے پھر جاؤ ۔عدل کرو یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ اللہ سے ڈرکر کام کرتے رہو جوکچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘
عدل قائم کرنے کے مختلف مواقع ہیں اس کا پہلا موقع آدمی کی خود اپنی ذات ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ دوسروں کے لیے وہ پسند کرے جوخود اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔ اسی طرح وہ اپنے لیےحقوق کا اسی قدر خواہاں ہوجس قدر وہ دوسروں کے لیے چاہتا ہے ۔ قرآن مجید میں اس کی صراحت کردی گئی ہے ۔ ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاۗءَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ۰ۚ اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْرًا فَاللہُ اَوْلٰى بِہِمَا۰ۣ فَلَا تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓى اَنْ تَعْدِلُوْا۰ۚ وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا (النساء: ۱۳۵)
’’ اے لوگو جوایمان لائے ہوانصاف کے علم بردار خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور فریق معاملہ کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اوررشتے داروں پر کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب۔ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خوا ہ ہے ۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اگر تم نے لگی لپٹی بات کی یا سچائی سے پہلو بچایا توجان رکھو کہ جوکچھ تم کرتے ہو اللہ کو ا س کی خبر ہے۔‘‘
عدل وانصاف کے تین پہلو ہیں۔ قانونی عدل وانصاف، اجتماعی عدل وانصاف، بین الاقوامی عدل وانصاف ۔ قانونی عدل کے معنیٰ یہ ہیں کہ تمام لوگوں کے لیے قانون برابر ہو۔ اس میں کوئی تفریق وتمیز نہ ہو، رنگ ونسل، امارت، غربت اور علاقہ ومذہب کی بنیاد پر اس میں کوئی امتیازنہ کیا جائے بلکہ یکساں طور پر سب پر قانون کانفاذ ہو ۔ اسلام کی یہی تعلیم ہے اوراسلامی قانون کی اہم دفعہ یہی ہے، چنانچہ خود حضور اکرم ﷺ نے ایک واقعہ میں اپنی بیٹی کے ہاتھ کاٹھ دینے کا حوالہ دیا ہے ۔ ارشاد ہے:
’’ کیاتم اللہ کی حدود میں سفارش کرتے ہو، بے شک ماقبل کی قومیںاسی لیے برباد ہوئیں کہ جب ان کا اعلیٰ چوری کرتا تواسے سزا نہیں دی جاتی لیکن ان کا ادنیٰ چوری کرتا تواسے سزادی جاتی تھی۔ قسم خدا کی اگرفاطمہ بنت محمد (یعنی میری بیٹی) بھی چوری کرتی تومیں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘(بخاری ، کتاب الحدود، باب کراہیۃ الشفاعۃ فی الحد اذا رفع الی السلطان)
اجتماعی عدل سے مراد یہ ہے کہ معاشرہ میں مختلف افراد اورحیثیتوں کے درمیان تفاوت کے باوجود مساوات قائم ہو اورشریف ورذیل، کمتر وبرتر اورچھوت اچھوت کی تفریق وتقسیم نہ کی جائے ۔ بلکہ تمام سماجی ومعاشرتی معا ملات میں سب کویکساں درجہ دیا جائے۔ اسلام اسی عدل وانصاف کی دعوت دیتا ہے۔
اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰكُمْ (الحجرات:۱۳)
’’تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جوتم میں سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا )متقی (ہے ۔‘‘
بین الاقوامی عدل یہ ہے کہ اسلام جس عدل وانصاف کے قیام کی دعوت دیتا ہے اس کا دائرہ صرف مسلم معاشرہ تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ پوری انسانیت تک وسیع ہے ۔ چنانچہ اسلام نے غیر متحارب غیر مسلموں سے بھی مواسات کا حکم دیا ہے ۔ ارشاد ہے:
لَا يَنْہٰكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْہِمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ (الممتحنۃ: ۸)
’’ اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اورانصاف کا برتاؤ کرو جنہو ں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اورتمہیں تمہارے گھر وںسے نہیں نکالا ہے اللہ انصاف کرنے والوں کوپسند کرتا ہے ۔‘‘
غربت وافلاس اورگدا گری کے خاتمہ کی تدابیر اوراسلامی تعلیمات
اسلام میں آدمی کو اپنے ہاتھ کی کمائی کھانے کی تلقین کی گئی ہے اوراس کوبہترین رزق قرار دیا گیا ہے جسے آدمی نے اپنی محبت سے حاصل کیا ہو لیکن یہ عین ممکن ہے کہ اس کے باوجود آدمی محتاجگی کا شکار ہوجائے ایسی صورت میں اسلام نے اس کے حقوق تسلیم کیے ہیں اورصاحب استطاعت اور حکومت کومکلف کیا ہے کہ وہ ان غریبوں کی حاجت پوری کریں جوخود اپنی حاجت پوری نہ کرسکتے، ارشاد ہے:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۭ فَرِيْضَۃً مِّنَ اللہِ۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ(التوبۃ:۶۰)
’’ یہ صدقات تودر اصل فقیروں اورمسکینوں کے لیے ہیں اوران لوگوں کے لیے جوصدقات کے کام پر مامور ہیں اوران کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو۔ نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اورقرض داروں کی مدد کرنے اورراہِ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے ا ور اللہ سب کچھ جاننےوالا دانا اوربینا ہے۔‘‘
دولت کی منتقلی کا ایک ذریعہ ثابت ہے۔ اسلام نے اس بارے میں واضح تعلیمات دے کرغربت وافلاس اور گدا گری کا انسداد کیا ہے ۔ ارشاد ہے :
لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ۰۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ كَثُرَ۰ۭ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا (النساء:۷)
’’ مردوں کے لیے حصہ ہیں جووالدین اوراقرباء نے چھوڑے اورعورتوں کے لیے حصہ ہیں جو والدین اور اقربا نے چھوڑے چاہے کم ہوں یا زیادہ یہ ایک………کردہ بات ہے ۔‘‘
اسلام نے مردوں اور عورتوں کے الگ الگ حصے مقرر کرکے غربت کا ازالہ کیا ہے
شریعت اسلامیہ نے غربت وافلاس کے ازالہ کی ایک تدبیر وصیت اورنذرکی بھی بتائی ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ شریعت میں جملہ ورثاء کے حصے کو مقر ر کردیا گیا ہے لیکن آدمی کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنی موت سے قبل اپنے مال وجائیداد میں سے کچھ حصہ(زیادہ سے زیادہ ایک تہائی) کسی غریب کے نام وصیت کرجائے۔ اسی طرح نذر ، عقیقہ ، صدقۃ الفطر اورقربانی کے گوشت سے غریبوں کو فائدہ پہنچانے کا اسلام نے حکم دیا ہے ۔ یہ ازالہ غربت کی وہ تدابیر تھیں جو آدمی حسب استطاعت صدقات وخیرات کرسکتا ہے ۔ حدیث میں وارد ہے :
’’ ہرمسلمان پرصدقہ کرنا واجب ہے ۔‘‘ (بخاری ، کتاب الزکوٰۃ)
اسلام گداگری کے عمل کوپسند نہیں کرتا ہے ، جہاں اسلام نے گداگروں کونہ جھڑکنے کی تعلیم دی ہے وہیں پر اس نے گداگری کی سخت مذمت بھی کی ہے ۔ ارشاد ہے :
’’ جوشخص لوگوں سے سوال کرنے لگے (بھیک مانگنے لگتا ہے) توقیامت کے دن جب وہ اللہ کے سامنے آئے گا تواس کے چہرے پر گوشست کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی۔‘‘)بخاری ، کتاب الزکوٰۃ ، باب من سأل الناس تکثرا)
گداگری کی کثرت، غلط سماجی نظام کی علامت ہے ۔ گداگری سے سماج اورگداگر دونوں متاثر ہوتے ہیں۔گداگری کے عام ہونے سے چوری اور بدکاری جیسے دوسرے جرائم کی بھی اشاعت ہونے لگتی ہے، اسی وجہ سے اسلام نے اس کا سد باب کیا ہے ۔غربت وافلاس کے ازالۂ کے لیے اسلام نے اسلامی ریاست اوراسلامی معاشرہ پر بھی ذمہ داریاں ڈالی ہیں۔ اس نے نجات کے فروغ کا حکم دیا ہے ۔ ذخیرہ اندوزی کی مذمت کی ہے۔ معاشی جدوجہد کوعبادت قرار دیا ہے ۔ اس نے نظام تکافل رائج کیا ہے۔ غرض کہ مختلف طور سے اسلام غربت اورگداگری کے انسداد کی تدابیر کرتا ہے ۔
عورتوں کے ساتھ ظلم
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوصنف کی شکل میں پیدا کیا ہے ۔ مرد اورعورت: یہ صنفی فرق صرف انسانوں میں نہیں پایا جاتا بلکہ تمام حیوانوں بلکہ جدید تحقیقات کے مطابق نباتا ت میں بھی موجود ہے ۔ جوڑے جوڑے کی شکل میں چیزوں کے ہونے میں ان کی خوبیاں اورخصوصیات ظاہر ہوتی ہیں ۔ انسان چونکہ ایک مدنی الطبع مخلوق ہے اور سماج اورمعاشرہ بنا کر رہتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے خاندان کے دوستوں ،مرد اورعورت کوقرار دیا ۔ جس معاشرہ میں یہ دونوں ستون قائم نہ رہیں وہ معاشرہ باقی نہیں رہ سکتا۔ اسلام کے نزدیک عورت اور مرد دونوں معاشرے کے لیے ضروری ہیں۔ اس نے عورتوں کے متعلق ان تمام تصورات کی نفی کی ہے جوعورتوں کی تحقیر، تفریق، استحصال اورظلم پر مبنی ہیں ۔ اسلام نے عورتوں کو یکساں حیثیت سے متعارف کرایا ۔ عہد جاہلیت میں لڑکیوں کوزندہ در گور کردیا جاتا تھا ۔ قرآن مجید میں اس کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے ۔ قتل اولاد کو سخت ترین گناہ قرار دیا گیا ۔ عورتوں کووراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا۔ قرآن مجید میں ان کاحصہ متعین کیا گیا ۔ فقیر وفاقہ کے اندیشے سے لڑکیوں کے قتل کے سلسلےمیں اللہ تعالیٰ نے رزق رسانی کی یقین دہانی کرائی ہے ۔ ظلم وزیادتی پر آخرت کے عذاب سے ڈرایا گیا ۔ اسلام نے لڑکیوں کونجات کا سبب قرار دیا اور عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ۔ عورتوں کے معاشرتی اورسماجی حقوق متعین کیے ۔ ان کوبا عزت زندگی گزارنے کے تمام اسباب فراہم کیے ۔ ماںکے حقوق بتائے ۔ زوجین سے متعلق قرآن مجید میں متعدد احکام ہیں۔ ان سب باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام عورتوں کے مسائل کوبہت سنجیدگی سے حل کرتا ہے ۔
خود کشی اوراسلام:
موجودہ دور میں بہت سے لوگ مسائل اورمشکلات سے گھبرا کر خود کشی کرلیتے ہیں ۔ یہ ایک خطرناک صورت حال ہے ۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ دنیا آزمائش ہے اوریہاں مسائل اورمشکلات کے انبارہیں۔ ہرشخص یہاں کسی نہ کسی مصیبت میں گھرا ہوتا ہے ، یہاں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جوسدا خوشی اورخوش حالی میں رہے ۔ اسے کبھی تنگ دستی ، مرض یا حادثے کا سا منا نہ کرنا پڑتا ہو اوریہ سب روز مرہ کے معمولات ہیں ۔ ان سب کے بارے میں اسلام کا موقف یہ ہے کہ جوکچھ یہاں رونما ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اوراس کی مشیت سے ہوتا ہے اوراس میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ۔ ارشاد ہے :
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۰ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ۱۵۵ۙ (البقرہ:۱۵۵)
’’اور ہم ضرور تمہیں خوف وخطر ، فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جولوگ صبر کریں انہیں خوش خبری دے دو۔‘‘
زندگی میں مسائل ومشکلات دو وجو ہ سے پیش آتی ہیں ۔ ایک آزمائش کے لیے اوردوسرے تنبیہ کے لیے ۔ ان دونوں صورتوں میں صبر وہ بنیادی کلید ہے جسے اسلام نے پیش کیا ہے اورجس سے آدمی مصیبتوں کے طوفان میں بھی ثابت قدم رہتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے لئے دنیا وآخرت میں بھلائی ہی بھلائی ہے ۔ جوصبر کی صفت سے متصف ہوں ۔ارشاد نبوی ہے :
’’مسلمان کوکوئی مرضـ لاحق ہوجائے ،کسی قسم کی تکان ہو ، کوئی فکر وملال ، تکلیف اورغم ہو، یہاں تک کہ کوئی کانٹا اسے چبھ جائے تو بھی اللہ اس کی وجہ سے اس کے گناہوں کو معاف کرتا ہے ‘‘(بخاری ، کتاب المرض ، باب ما جاء فی کفارۃ المرض)
اسلام نے صبر کے ساتھ مصیبت زدہ کے ساتھ ہمدردی کا حکم دیا ہے ۔ ارشاد نبوی ہے :
’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ تواس پر ظلم کرتا ہے اورنہ اسے کسی ظالم کے حوالے کرتا ہے ، جوشخص اپنے بھائیوں کی مدد میں لگا ہوتا ہے اللہ اس کی مد د میں ہوتاہے ۔ جوشخص کسی مسلمان کی تکلیف دور کرے تواللہ قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف اس کی دور کرے گا جوشخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی پردہ پوشی کرےگا۔‘‘ ( بخاری ، کتاب المظالم ، باب لا یظلم المسلم المسلم )
شریعت اسلامیہ کے نزدیک موت کی تمنا کرنا یا موت کواز خود لگے لگا لینا حرام ہے ۔ ارشاد ہے :
’’تم میں سے کوئی موت کی تمنا نہ کرے کیوں کہ اگروہ نیکوکار ہے توامید ہے کہ اس کی نیکی میں اضافہ ہو اوراگروہ گناہ گار ہے تو ہوسکتا ہے کہ اسے توبہ کی توفیق مل جائے۔ (بخاری ، کتاب المرض ، باب نہی تمنی الموت)
خود کشی حرام ہونے کے ساتھ خود کشی کرنے والے کو آخرت کی سزا سنائی گئی ہے ۔ حدیث میں کہا گیا ہے کہ آدمی جس طریقے سے خود کشی کرے گا جہنم میں اسے اسی طریقے سے سزادی جائے گی ۔
ایڈس زدہ افراد کے مسائل اوراسلامی تعلیمات
اسلام موت کو ایک ناقابل افکار حقیقت کے طور پر پیش کرتا ہے جس کا سا منا ہر مخلوق کو کرنا پڑتا ہے لہٰذا ایڈس زدہ افراد کو موت کے خوف میں مبتلاہوکر باقی زندگی نہیں گزارنا چاہیے ۔ اسلام نے صبر کو ایک نسخۂ کیمیا بنا کر پیش کیا ہے جس سے بڑی سے بڑی بیمار ی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔اسلام نے مریضوں کے ساتھ ہمدردی کا خصوصی حکم دیا ہے اورکسی بھی مرض سے یہ حکم منسوخ نہیں ہوسکتا ۔ چاہے وہ مرض متعدی ہی کیوں نہ ہو ۔ اسلام نے قریبی رشتہ داروں کے جوحقوق متعین کیے ہیں ان میں بیماری کی صورت میں ان کی تیمار داری اور خدمت بھی ہے ۔ ایڈس جن اسباب سے پھیل رہا ہے اسلام ان اسباب کے سد باب کی تعلیم دیتا ہے ۔ خصوصاً جنسی بے راہ روی کی قطعی اجازت نہیں دیتا ہے ۔ایڈس کے بارے میں مریض کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی اسلام اجازت نہیں دیتا ۔
حواشی و مراجع
۱۔ قرآن مجید منزل من اللہ عزوجل
۲۔ صحیح بخاری ، محمد بن اسماعیل البخاری ۔۳ ۔ مسند احمد بن حنبل
۴۔ سنن ابی داؤد
۵۔ بحوالہ اسلام کا تصور مساوات ، مولانا سلطان احمد اصلاحی ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی ۔ مولانا کے پیش نظر منوسمرتی کالالہ سوامی دیال صاحب کا اردو ترجمہ ہے ۔ جواصل سنسکرت متن کے ساتھ مطبع نول کشور کانپور سے دوسری بار شائع ہواہے ۔ راقم الحروف نے بھی اس ماخذ سے مراجعت کی ہے ۔
۶۔ ہندوستان میں ذات پات اورمسلمان ، مسعود عالم فلاحی، القاضی پبلشرز ، نئی دہلی ۲۰۰۷ء ، ص ۲۶۵
۷۔ حوالہ سابق ،۸ ۔ روز نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی ، ۸؍جنوری ۲۰۰۲ء
۹۔ روز نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی ، ۲۲؍اگست ۲۰۰۶ء
۱۰۔ روزنامہ قومی آواز ، نئی دہلی ، ۱۳؍مارچ ۱۹۹۵ء، ۲۴؍جولائی ۱۹۹۵ء
۱۱۔ روزنامہ قومی آواز ، نئی دہلی ، ۷؍اگست ۱۹۹۵ء
۱۲۔ روز نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی ،۱۶؍جون ۲۰۰۰ء
۱۳۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی ، ۱۲؍مارچ ۲۰۰۵ء
۱۴۔ دیکھئے انٹرنیٹ پر sucideratainindia
مشمولہ: شمارہ مارچ 2016