(دسمبر ۲۰۱۵ء میں جماعت اسلامی ہند کا اجتماعِ ارکان ، حیدر آباد میں منعقد ہوا۔ اس اجتماع میں درج بالا موضوع پر تقریر کی گئی تھی، جو ذیل میں درج کی جارہی ہے۔(
دنیا کے حالات، ملک کے احوال اور ہندوستان میں امت مسلمہ کی صورت حال نے دعوتِ اسلامی کے سلسلے میں بعض اہم سوالات کی جانب اہل دانش کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ باشعور مسلمان جانتے ہیں کہ جن اہم میدانوں میں عملی سرگرمی مطلوب ہے ، ان میں سے ایک …. دعوت اسلامی کا میدان ہے۔چنانچہ مسلمانوں کی دینی ذمہ داریوں میں ایک اہم بنیادی اور کلیدی ذمہ داری اللہ کی طرف انسانوں کو بلانا ہے۔اس پکار کو دعوتِ دین یا دعوت اسلامی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِمَّن دَعَا إِلَی اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ إِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْن (فصلت: ۳۳)
’’اس شخص سے اچھی بات اور کس کی ہو سکتی ہے،جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور یہ اعلان کرے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں‘‘۔
اس آیت کا عملی نمونہ سیرتِ پاک ہے۔ نبی ﷺ پوری نبوی زندگی میں انسانوں کو اللہ کی طرف بلاتے رہے ۔ آپ کے بعد یہ فریضہ ہر دور میں باشعور مسلمانوں نے انجام دیا۔ چاہے حالات نرم اور سازگاررہے ہوں یا سخت اور ناموافق ؎
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ
اسلامی پیغام کی فکری اساس
تاریخ کا کوئی دور اربابِ عزیمت سے خالی نہیں رہا۔ ہر زمانے میں فریضۂ دعوت، امت کے با شعو ر افراد ادا کرتے آئے ہیں۔ تا ہم با خبر افراد جانتے ہیں کہ دعوت الی اللہ کا کام اصولاً ایک بنیادی کام ہونے کے با وجود، ہر دور میں کچھ نئے سوال (چیلنج) لے کر آتا ہے۔زمانے کی ہر کروٹ کے ساتھ کچھ نئے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ دعوت اسلامی کا کام انجام دینے والے، ان چیلنجزکا شعور حاصل کریں اور ابھرنے والے سوالات کا جواب فراہم کریں۔ تبھی ان کا کام مؤثر اور نتیجہ خیز ہوسکتا ہے۔ اس موضوع پر غور کرتے ہوئے (ہمارے ملک کی حد تک) جماعت اسلامی ہند کی دعوتی مساعی کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ جماعت نے اقامتِ دین کو اپنا نصب العین قرار دیا ہے، اس کے تقاضے متعین کیے ہیں، کام کے میدانوں کی نشاندہی کی ہے۔ ان امور کی تفصیل جماعت کے پالیسی و پروگرام میں بیان کی گئی ہے۔ان کاموں میں پہلا کام ، دین کی دعوت ہے۔یہ فریضہ خاص طور پر غیر مسلموں کے درمیان انجام دینا ہے۔ اسی طرح مسلمان معاشرے کی تعمیر، ہمہ جہتی جدو جہد کی متقاضی ہے۔ سرگرمی کے دیگر اہم دائرے بھی توجہ چاہتے ہیں۔ یعنی ملک و ملت کے مسائل کا حل، خدمت خلق اور کارکنوں کی تربیت و تنظیم۔
عملی مساعی کی اس تفصیل کے سیاق میں ایک بات ذہن میں رہنی چاہیے ، گرچہ وہ عموماً مستحضر نہیں رہتی ۔ جب منصوبے بنانے والے ضروری کاموں کی فہرست بیان کرتے ہیںتو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس طرح منصوبہ بندی میں آسانی ہوتی ہے۔ پھر کوششوں کا جائزہ لینے میں بھی سہولت ہوتی ہے۔ لیکن دائروں کے اس تعین کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ کام ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ان سب کاموں میں ایک ہی روح (اسپرٹ) کام کرتی ہے۔ اگر ایک میدان میں پیش رفت ہو تو دوسرے دائروں میں اس کا فائدہ پہنچتا ہے۔ اس کی بر عکس بات بھی صحیح ہے، اگر ایک میدان کو اہل خیر نظر انداز کر دیں تو پھر دوسرے کام بھی متأثر ہو جاتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مختلف مساعی میں جو اصول اور نظریہ کار فرما ہے، وہ ایک ہی ہے۔ جس طرح دعوت کے میدان میں گفتگو کی بنیاد، فکر اسلامی ہے، اسی طرح سیاست میں بھی سرگرمی کی اساس، اسلامی ہونی چاہیے۔ یہی بات بطور مثال، خدمت خلق اور ملک و ملت کے مسائل کے حل کے سلسلے میں درست ہے۔ اس فکری وحدت کے تقاضے بسا اوقات ، نظر کے سامنے نہیں رہتے۔جائزہ بتاتا ہے کہ اس پہلو سے خاصی غفلت موجود ہے۔ عنوان خواہ دعوت دینِ ہو یا کوئی اور مفید سرگرمی، اسلامی مزاج یہ چاہتا ہے کہ اسلامی فکر ونظر یے کے مطابق کوششوں کو انجام دیاجائے۔ اس سیاق میں نئے سوالات (چیلنجز)کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔
دعوت اور داعی گروہ
حالات نت نئے سوالات داعیان حق کے سامنے لاتے ہیں، یہ سوالات دو طرح کے ہیں۔ سوالات کا ایک حصہ دعوت دین سے متعلق ہے۔ یعنی کن نکات کو بیان کریں؟ کیسے بیان کریں؟ کیا استدلال ہو؟ کن امور پر زور دیں؟ بہ الفاظ دیگر دعوت کے ذیل میں کیا کہا جائے؟ اسلام کی ترجمانی کرنے والوں کی گفتگو کا پیغام (Content)کیا ہو؟ سوالات کی ایک دوسری قسم بھی ہے، جو خود دعوت دینے والوں سے متعلق ہے۔دعوت کا کام اصولاً ساری امت کے کرنے کا کام ہے۔ اگر چہ عملاً اس وقت (ہمارے ملک میں)جماعت اسلامی اور جماعت اسلامی جیسی کوششیں اسے، انجام دے رہی ہیں۔ دعوت کے ساتھ مسلمانوں کی صحیح رہ نمائی کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ اس رہ نمائی کا ایک رخ عملی ہے ۔ یعنی کارکنان، دعوت دین کے کام کو آگے بڑھ کر انجام دیں اور اس طرح عملًا نمونہ پیش کر کے رہنمائی کریں ۔ دعوت دین کا کام جس حد تک منظم انداز میں انجام پا رہا ہے( ہمارے ملک میں ہو یا ملک کے باہر) اس میں اسلامی جماعتوں اور تنظیموں کا بڑا حصہ ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دعوت دین کی مساعی کی قیادت دینی جماعتوں کے ہاتھ میں ہے۔
اس ضمن میں جو سوالات توجہ چاہتے ہیں، وہ دعوت دینے والوں سے متعلق ہیں(چاہے اسلامی تحریکیں ہوںیا پوری امت مسلمہ ہو)دیکھنے کی ضرورت ہے کہ داعیان حق کی صورت حال کیا ہے؟ وہ کن پریشانیوں اور الجھنوں میں گرفتار ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے سوالات کوکار دعوت سے غیر متعلق نہیں کہا جاسکتا۔ بڑی غیر فطری توقع ہوگی کہ داعی کو جو مسائل درپیش ہیں ،ان سے تعرض نہ کیا جائے اور دعوتِ دین کی بحث میں داعی کو نظر انداز کر دیا جائے، یہ دونوں طرح کے چیلنجز اس وقت اہل حق کے سامنے موجود ہیں۔ ایک کا تعلق اسلامی تعلق دعوت کے پیغام ) (Content سے ہے، یعنی کیا کہا جائے اور کیسے کہا جائے؟ اور دوسرے چیلنج کا تعلق، دین کی خدمت کرنے والی جماعتوں اور تنظیموںاور امت مسلمہ کی کیفیت سے ہے۔
دعوت کے نکات
اللہ کی طرف دعوت کی معنویت، دعوت کے بنیادی نکات اور دعوتی طریقۂ کار کی تفصیلات، یہ تمام امور قرآن مجید میں موجود ہیں۔ ان کی تشریح سیرت نبویؐ میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ مختصرا ً بنیادی نکات کی یاد دہانی کی جا سکتی ہے۔ اللہ کی طرف دعوت یہ ہےکہ انسانوں سے کہا جائے کہ وہ اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لائیں اوراس کی ہدایت کی پیروی اختیار کریں۔جب اس دعوت کو سننے والا قبول کر لے تو الٰہی ہدایت کی تفصیلات اُس کے سامنے پیش کی جانی چاہییں۔ اساسی امور کے علاوہ دعوت حق کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی رودادِ دعوت میں اس کو دیکھا جا سکتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام انسانوں کو اللہ کی طرف بلاتے تھے۔ توحید کی دعوت دیتے تھے۔شرک کی مدلل تردید کرتے تھے ، آخرت پر ایما ن لانے کی تلقین کرتے تھے۔ ان سب نکات پر مشتمل دعوت کے علاوہ وہ انسانی معاشرے کا جائزہ بھی لیتے تھے، جو ان کے قریب موجود تھا۔ اس ضمن میں وہ بالخصوص اپنی قوم کا جائزہ لیتے تھے ، سماج میں موجود خرابیوں کی نشان دہی کرتے اور ان کی اصلاح کی کوشش کرتے تھے، خصوصاً نمایاں اخلاقی برائیوں سے باز آنے کی تلقین کرتے تھے۔ انبیاء کی دعوت کا یہ پہلو رودادِ دعوت میں شامل ہے ۔ نبیوں نے اس پر توجہ کی ہے، جس طرح دعوت کے بنیادی نکات پر کی ہے۔( یعنی توحید کا اثبات، شرک کی تردید اور آخرت کی جواب دہی کا استحضار)۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ معروف کا حکم دینے اور منکر سے روکنے کی سعی، اسلامی دعوت کا لازمی جزء ہے۔ اللہ کے نبیوں نے اپنے مخاطبین کو معروف کی تلقین کی ہے اور منکر سے روکا ہے۔’ معروف‘ کے مفہوم میں اخلاقی خوبیا ں شامل ہیں۔ اسی طرح’ منکر‘ کی اصطلاح جن برائیوں کے لیے استعمال ہوتی ہے، ان میں اخلاقی خرابیاں سر فہرست ہیں۔ دعوت اسلامی کے یہ نکات انبیاء علیہم السلام کی سیرت میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اس اسوے کی روشنی میں ہم آسانی سے دیکھ سکتے ہیں کہ نئے چیلنجز اور نئے سوالات سے کس طرح تعرض کیا جائے۔
باطل افکار و نظریات
بیسوی صدی کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے( اور صحیح ہے) کہ اس صدی پر مشتمل دور، نظریات اور فلسفوں کا دور تھا۔ ان افکار اور فلسفوں کا پس منظر مغربی ہے۔ یعنی یہ نظریات یوروپ میں ابھرے اور پھر مغربی دنیامیں جس میںامریکہ شامل ہے، ان افکار نے ارتقاء کے مراحل طے کیے۔اس دوران مغرب کے ہاتھ میں دنیا کی امامت اور لیڈرشپ رہی۔ چنانچہ جو کچھ مغربی دنیا میں انسانیت پر گزرا وہ بالواسطہ طور پر ساری دنیا کے انسانوں پر بھی گزرا— جو سوالات وہاں اٹھے ، وہ باقی دنیا میں بھی بحث کا موضوع بنے— جو باتیں وہاں کی گئیں ان کا اثر ساری دنیا نے قبول کیا۔افکار و نظریات کے چرچے کا یہ دور ختم تو ہو رہا ہے ،مگر ختم ہوا نہیں ہے۔ خاص طور پر ہمارے ملک کی حد تک تو جدید فلسفوں کے اثرات ختم نہیں ہوئے ہیں۔ جو خیالات و نظریات اب مغرب میں غیر مقبول ہیں، تیسری دنیا کے بڑے حصے پر اب بھی ان کا طلسم چھایا ہوا ہے۔ یہ کیفیت ہمارے ملک کی بھی ہے۔
اس دور کی اسلامی تحریکوں کے لٹریچر نے ایک تاریخی کام انجام دیا، یعنی متعین باطل نظریات کو بحث کا موضوع بنایا اور ان کی مدلل تردید کی۔ یہ علمی کام ابھی حالات سے غیر متعلق (Out of Date) نہیں ہوا ہے۔یہ سمجھنا صحیح نہ ہوگا کہ نظریات باطلہ کا انہدام ہو چکا۔تاریخ کی گر دش سے وہ نظریات خود ختم ہو گئے۔ اب ان کی تر دید پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔ یہ خیال درست نہیں، خصوصاً تیسری دنیا کے سیاق میں اس رائے کو حالات کا صحیح مطالعہ نہیں کہاجا سکتا۔ اسی طرح،مسلمانوں اور ہندوستان کے سیاق میں مغربی نظریات کے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دیکھنے کی بہر حال ضرورت ہے کہ رواں صدی میں ان نظریات نے کیا نیا رخ اختیار کیا ہے؟ کیا نئے دلائل فراہم کیے گئے ہیں؟ان کی تائید میں کیا نئی باتیں، اہل مغرب کہنے لگے ہیں؟ داعیان حق کو ان امور کا شعور ہو اور وہ باطل کی مؤثر تردید کر سکیں۔تب دین کی ترجمانی ہو سکے گی۔
کار دعوت سے متعلق ہر کارکن جانتا ہے کہ یہ کام بڑا وسیع ہے۔ اس کام کا بنیادی ذریعہ ہمیشہ ایک ہی رہا ہے۔ ہماری مجلسوں میںاس کی بار بار یاد دہانی بھی ہمیں کرائی جاتی رہی ہے یعنی انسانوں سے انفرادی ربط اور گفتگو۔ ہندوستان کروڑوں کی آبادی کا ملک ہے۔ یہاں ہر سطح کے لوگ آباد ہیں۔ ذہنی صلاحیت، فکری پس منظر اور رجحانات کے اعتبار سے بڑا تنوع پایا جاتا ہے۔یہ ساری آبادی ،جدید نظریات و فلسفوں سے واقفیت یا ان سے متأثر نہیں ہے۔ البتہ تعلیم یافتہ طبقے پر ان نظریات کا اثر پڑا ہے۔ ملک کے کار فرما عناصر ، جن کا تعلق حکومت اور پالیسی سازی سے ہے اور جو ذرائع ابلاغ کی دنیا پر چھائے ہوئے ہیں، وقت کے غالب فکری رجحانات سے متأثر ہیں۔
حق کی دعوت کے مخاطبین کا دائرہ وسیع ہے۔ چنانچہ ہر قسم کے سامعین کے اعتبار سے کوئی متعین تفصیلی رہنمائی نہیں کی جا سکتی کہ داعیان حق کس سے کیا کہیں؟ اس سلسلے میں اصولی رہنمائی قرآن و سنت میں ملتی ہے۔ کارکنان کے لیے وہ رہنمائی کافی ہے۔داعی اس بات کو یاد رکھیں کہ انھیں انسانوں کو اللہ کی طرف بلانا ہے۔ پھر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اُن کا مخاطب کون ہے؟ذہنی اعتبار سے کس سطح کا ہے؟ اسی اعتبار سے اس سے بات کرنی ہوگی۔ انفردای ربط کی اہمیت کا ذکر ہو چکا ہے، وہ پہلو بھی ذہن میں تازہ رہنا چاہیے۔
داعی کو خاص طور پر ان چیلنجز پر غور کرنا ہے ،جن کا تعلق ذہین طبقے سے ہے، جو کسی سماج کا کار فرما طبقہ ہوتا ہے اور جس کی رائے مؤثرثابت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے خیالات کا دنیا پر زیادہ اثر پڑتا ہے۔ چنانچہ پہلی گزارش، چیلنجز کے عنوان کے تحت یہ ہے کہ اسلامی تحریک نے جدید دور کے غلط نظریات کی تردید کا جو کام ماضی میں کیا تھا،اُسے جاری رکھنا چاہیے اور اس میں تاز گی لانی چاہیے۔ اس کی تفصیلی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔ یہ بات کہنا ضروری ہے کہ ہر باطل نظریے میں کچھ حق اور صداقت کا عنصر بھی موجود ہوتا ہے۔ اور اس بنا پر بسا اوقات اس کی تردید میں دشواری پیش آتی ہے۔ اس دشواری کا حل کیا ہے؟ اس سلسلے میں آخر میں آپ کے سامنے کچھ عرض کیا جائے گا۔
اباحیت کا چیلنج
اب ایک دوسرے چیلنج پر غور کرنا چاہیے۔ پچھلی صدی ختم ہوئی اور دنیا پر نظریات و فلسفوں کے اثرات مدھم پڑے تو علمی دنیا میں یہ بات کہی جانے لگی (جو ایک حد تک صحیح ہے) کہ اب نظریات و افکار کا دور ختم ہوا۔ گویا دنیا ایک فکری انتشار کے دور میں داخل ہوگئی۔ فکری انتشار کے ساتھ ثقافتی و تہذیبی انتشار کا تذکرہ بھی شروع ہوا۔ جب انسانوں کو مستحکم فکری بنیاد میسر نہ ہو تو ثقافتی انتشار کا ظہور فطری ہے ۔ چنانچہ اس نعرے کو مقبولیت حاصل ہوئی کہ انسان اور انسانی گروہ اپنے معاملات میںجو کچھ بھی کریں وہ درست ہے۔ تہذیب و ثقافت ، اخلاقی قدروں کے دائرے میں جو کچھ بھی وہ کرنا چاہیں، اس کے لیے وہ آزاد ہیں۔ پرانے معیارات(بلکہ نئے معیارات کو بھی جو دور جدید کے یوروپ نے اختیار کیے تھے) دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ، بلکہ ہر انسان اورہر انسانی گروہ آزاد ہے۔ کھانے پینے میں، تہذیب و تمدن میں ، آدابِ معاشرت میں، خاندانی روابط میں، غرض سارے انسانی معاملات میںلوگ آزاد ہیں۔ جس طرح کا رویہ چاہیں اختیار کریں۔ یہ صورت حال، نظریات کے چیلنج کے مقابلے میں شدید تر ہے۔ جو گمراہی نظریے کی شکل میں سامنے نہ آئی ہو ، بلکہ ثقافت اور تہذیب کی شکل اختیار کیے ہوئے ہو، اس کے مقابلے کے لیے تقریروں اور کتابوں سے کام نہیں چلا یا جا سکتا۔ ظاہر ہے کہ تقریروں، کتابوں اور کتابچوں( فولڈرس) کی بھی ضرورت پیش آئے گی، لیکن جاہلیت سے نپٹنے کے لیے اصل ضرورت زندہ ومتحرک صالح معاشرے کی ہوگی۔
مسلمان سماج
ہندوستان میں اور پوری دنیا میں مسلمانوں کو بڑے شدید حالات کا سامنا ہے۔ یہ بلا شبہ درست ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر بڑی عنایتیں بھی کی ہیں۔ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے یہ احسان کیا ہے کہ مسلمانوں کا سماج ابھی تک ایک زندہ سماج ہے۔ ان کا معاشرہ مستحکم ہے، ان کے آپس کے روابط تازہ اور زندہ ہیں۔ نہ صرف ایک ایک ملک کے اندر بلکہ پوری دنیاکے مسلمانوں کے ما بین روابط قائم ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کے عمومی حالات یقینا تشویشناک ہیں(الا ماشاء اللہ)، ان کی غفلت اور نالائقی کا جو کچھ بھی شکوہ آپ کریں بجا ہے۔ لیکن مسلمان سماج میں یک رنگی موجود ہے۔مسلمان کے دل اسلام سے وابستہ ہیں،ان کے اندر یہ شعور موجود ہے کہ وہ ایک عالمی امت ہیں۔اپنی تہذیبی اور ثقافتی قدریں ان کو یاد ہیں،وہ جانتے ہیں کہ ہمارے لیے نمونہ بنی ﷺ ہیں۔ خلافت راشدہ کا دور ہمارا مثالی دور ہے، تمام تر اختلافات کے باوجود مسلمانوں میں یہ تہذیبی ہم آہنگی پائی جاتی ہے، اس کے عملی اثرات سماج میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ مسلمان خاندان اب بھی بڑی حد تک انتشار سے محفوظ ہیں۔ عملی غفلت کے باوجود،حیا اور عفت کی قدریں اب بھی ان کے یہاں پسندیدہ ہیں۔
گو خود پست ہوں، پر نگاہیں ہیں بالا
اہل ایمان کے سامنے موجودہ دنیا ، تہذیبی و ثقافتی انتشار کا چیلنج سامنے لائی ہے۔ اس کے مقابلے کے لیے داعیان حق کو کچھ کہنا ہوگا، تقریریں بھی کرنا ہوںگی، کتابیں بھی لکھنا ہوں گی، لیکن سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہوگی کہ مسلمانوں کی تہذیب اور مسلم زندہ سماج سے غیر مسلموں کا ربط قائم ہو۔ ظاہر ہے یہ کام مسلمانوں ہی کو کرنا ہوگا۔ آج ایک حجاب موجود ہے ،لوگ اسلام اور مسلمانوں کو نہیں جانتے ، تاریخی اسباب کی بنا پریہ کیفیت ہے کہ غیر مسلم ، مسلمانوں کو نہیں جاننا چاہتے اور بہت سے مسلمانو ں کے اندر بھی یہ نفسیاتی کیفیت پائی جاتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا اور ان کے درمیان یہ حجاب باقی رہے۔ دنیا ہماری طرف متوجہ نہ ہو۔ متوجہ ہوگی تو شاید اس کی جانب سے کچھ جارحانہ اقدامات ہوں گے۔ تاہم دعوتِ حق کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان اپنے معاشرے کو دیکھنے کا موقع، سب کو دیں ۔ اس معاشرے میں بہت سی خوبیاں ہیں، دنیا کو اُن سے واقف ہونا چاہیے۔ جو خرابیاں موجود ہیں مسلمان ان کی اصلاح کریں۔سماج کی اصلاح یوں بھی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔
عصر حاضر کے تہذیبی اور ثقافتی انتشار کاصحیح جواب ایک زندہ معاشرہ ہے، جو صالح قدروں کی عکاسی کرے۔جماعت اسلامی ہند کے پالیسی پروگرام میں اسلامی معاشرے کا تذکرہ موجود ہے۔ اسلامی ثقافت کو زندہ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اسلامی تہذیب کے مظاہر خاص طور پر نوجوانوں کی زندگی میں نظر آئیں، یہ اسلامی دعوت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔
اسلام کے بارے میں سوالات
دنیا کی موجودہ فضا میں، دین اسلام کے بارے میں بعض سوالات سامنے آئے ہیں۔ سوالات غلط فہمی پر مبنی ہو سکتے ہیں، مگر جب سوالات منظرعام پرآ جائیں تو پھر ان کا جواب دیا جانا چاہیے۔اللہ کے فضل سے پوری مسلم دنیا میں اسلامی تحریکیں موجود ہیں،واضح الفاظ میں ان کا مقصد و مدعایہ ہے کہ دنیا کی اور خود اُن کے اپنے ملک کی تعمیر اسلام کے مطابق ہونی چاہیے۔ تعمیر کا مفہوم جامع ہے، جس کے دائرے میں آئین ، دستور، سماج، قانون، نظامِ تعلیم، ذرائع ابلاغ سب شامل ہیں۔ ان سب دائروں میں زندگی کی تعمیر اسلام کے مطابق ہو ،اس پروگرام میں اب تک اسلامی تحریکوں کو زیادہ کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ تاہم دنیا اس پروگرام سے واقف ہے۔ مسلمان بھی جانتے ہیں کہ اسلامی تحریکیں یہ خاکہ لے کر سامنے آئی ہیں ۔ پھر باخبر غیر مسلم اور دنیا کے مفسدعناصر بھی اس تصور سے واقف ہیں۔اس صورت حال نے بعض سوالات پیدا کیے ہیں۔
دور جدید کے مسلمانوں نے جن بزرگوں کے لٹریچر سے استفادہ کیا ہے، ان میں سید قطب شہیدؒ بھی شامل ہیں۔ انھوں نے دعوت اسلامی کی ترتیب کے سلسلے میں اپنی یہ رائے بیان کی ہے کہ پہلے لوگوں کے دل اللہ کی حاکمیت کے آگے جھُکنے چاہییں۔(لوگوں سے مراد غیر مسلم اور مسلمان دونوں ہیں) سید قطب شہید کے تجزیے کے مطابق اللہ کی حاکمیت کے تصور کو مسلمان بھی بھُلا چکے ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ پہلے دلوں میں اللہ کی حاکمیت راسخ اور جذب ہو جائے، اس کے بعد داعیان حق شریعت کی تفصیلات پیش کریں،اس سلسلے میں جس نئی تحقیق اور اجتہاد کی ضرورت ہو، وہ بھی انجام دیں۔ شریعت کی تشریح بہر حال بعد کا مرحلہ ہے۔ اس سے پہلے اللہ حاکمیت کا شعور عام ہونا ضروری ہے۔ اگر قبل از وقت کارکنانِ دعوت، کارِ اجتہاد میں لگ گئے اور اپنی توانائی کا ایک حصہ اس سوال کا جواب دینے میں لگایا کہ ملک کی تعمیر نو اسلام کے مطابق کیسے ہوگی، تو یہ اپنی صلاحیتوں کا صحیح استعمال نہ ہوگا۔
سید قطب شہیدؒ نے جو رائے ظاہر کی تھی اس پر آدھی صدی سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے ۔ دنیا میں اسلامی تحریکوں کی بات اس وقت جتنی اجنبی تھی ، اب اتنی اجنبی نہیں رہی اور عالم اسلام میں تعمیر نو کا آغاز بھی، (شیاطین عالم کی مزاحمت کے باوجود )ہوچکا ہے۔ اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مسلم ملکوں کے دستور، حکومتیں اور سماج، یہ سب اسلام سے یکسر بے نیاز ہیں۔ اس کے برعکس اسلام کے خاصے اثرات انھوں نے قبول کیے ہیں۔اور مزید اثرات مرتب ہونے کے روشن امکانات موجود ہیں۔ چنانچہ اب اس امر کی ضرورت ہے کہ اسلامی نظام کی تفصیلات بھی پیش کی جا ئیں۔ مثلاً واضح کیا جائے کہ سود کی حرمت پر مبنی اسلام کا معاشی نظام کیا ہے؟ آج کی دنیا کے حالات، مسلمان ملکوں کی کیفیت اور تیسری دنیا کے احوال کے سیاق میں، تعمیرِ نو کی تفصیل سوچنے اور بیان کرنے کا وقت آگیا ہے۔ دعوتِ اسلامی کی تعارف کے وسیع ہونے کے ساتھ اسلام کے بارے میں اظہار خیال پر اب دنیا نے سوالات پیش کرنا شروع کردیے ہیں۔ بعض سوالات سے مسلمان تعرض بھی کر رہے ہیں اوران پر گفتگو کر رہے ہیں۔ تاہم گفتگو،بحیثیتِ مجموعی اطمینان بخش نہیں ہے۔
زیر بحث سوالات میں سب سے اہم سوال اسلا م کے تصور جہاد سے متعلق ہے۔ آج جہاد کو بحث اور اعتراض کا موضوع بنا دیا گیا ہے۔ اس کیفیت کا ردِّ عمل مسلمانوں کی طرف سے سامنے آیا ہے، وہ یہ ہے کہ بعض مسلمانوں نے جہاد کے لفظ کا استعمال ہی چھوڑ دیا ہے۔ اگر وہ بہ تکلف یہ اصطلاح استعمال بھی کرتے ہیں تو جہاد کے محض محدودمعانی بیان کرتے ہیں اور یہ طرز گفتگو، دین میں تحریف کے مترادف ہے۔ جن مسلمانوں کا یہ رد عمل ہے ،وہ یقینا غیر معقول ہے۔ دوسرا رد عمل گفتگو کی شکل میں سامنے نہیں آتا بلکہ عملی شکل اختیار کرتا ہے۔ یعنی آج بعض مسلمانوں اور مسلمان گروہوں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ، اُمتِ مسلمہ کی مظلومیت کے ازالے کے لیے نامناسب حرکتیں کر رہے ہیں، جن کی اجازت اسلام نہیں دیتا۔یہ امر تحقیق طلب ہے کہ ان گروہوں کی طرف منسوب کی جا نے والی باتوں میں کتنی صدا قت ہے۔ اگر نامناسب حرکتیں فی الواقع کی جارہی ہیں تو یہ اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی ہے۔ ان حالات میں سنجیدہ و مخلص اہل ایمان کی جانب سے جس درست رد عمل کی ضرورت ہے ، وہ یہ ہے کہ داعیانِ حق، اسلام کی اصطلاحوں کا استعمال کسی تردد کے بغیر کریں۔ مثلاً جہاد کی اصطلاح بلا جھجک استعمال کریں بغیر تکلف کے، چاہے شر پسندوں کو یہ طرزِ کلام کتنا ہی ناگوار گزرے ۔ جہاد کی صحیح تشریح بہر حال اہل ایمان کو پیش کرنی چاہیے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ایک صدی پہلے یہ کام انجام دیا تھا۔ ہمیں اطمینان ہے کہ مولانا نے جو بات اپنی تصنیف ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ میں کہی تھی ، وہ بالکل صحیح ہے اور اسلام کی صحیح ترجمانی ہے۔ اہلِ علم اور محققین اس کا مطالعہ کرکے اپنا اطمینان کر سکتے ہیں۔ تاہم اسلامی اصطلاحات کے تعارف کے لیے محض ایک کتاب کافی نہیں ہے، بلکہ اسلامی موضوعات پر تحقیق اور تفصیلی تصنیفات کی ضرورت ہے۔ اسلام کا تصور جہاد، دور جدید میں اس کے تقاضے ، شرائط، حدود اور آداب کو دنیا کے سامنے آنا چاہیے۔ مسلمانوں کو ان تفصیلات سے واقف کرانا چاہیے اور غیر مسلموں کو بھی۔
دعوت کی ترتیب کا لحاظ اصولاً صحیح ہے جب ہم اسلام کا تعارف کرائیں گے، تو پہلے اسلام کی تفصیلات بیان کرنا مناسب نہیں۔ پہلے اساسی امور یعنی توحید رسالت اور آخرت کا تذکرہ ہونا چاہیے۔لیکن جب فضا میں اسلامی تعلیمات کے بارے میں سوالات اٹھ چکے ہوں اور اور لوگ ان کے جوابات جاننا چاہتے ہوں، تو پھر یہ ضروری ہے کہ ان سوالات پر براہِ راست گفتگو کی جائے۔ ان موضوعات کی نمایاں مثال جہاد کا موضوع ہے۔
مسلمانوں کی کیفیت
دعوت کے نکات اور اسلام کے سلسلے میں پوچھے جانے سوالات کے علاوہ، خود یہ موضوع بھی قابل غور ہے کہ آج کی دنیا میں دعوت دینے والوں کا (یعنی امت مسلمہ کا اور اسلامی تحریکوں کا)کیا حال ہے؟ ان کی کیا کیفیت ہے؟ ان کی کیفیت کے بہت سے پہلو ہو سکتے ہیں۔ان سے تعرض نہ کرتے ہوئے صرف اس پہلو پر ہمیں توجہ کرنی چاہیے کہ جو سوالات دنیا میں اٹھتے ہیں، ان سے مسلمان خود کیااثر لیتے ہیں؟ مثلاً ایک غیر مسلم جہاد کو نہیں جانتا۔ غلط فہمی کی بنا پر وہ سمجھتا ہے کہ جہاد ظلم وستم کا نام ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس کیفیت سے ہم مسلمان بھی متاثر ہوتے ہیں۔مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ کہیں واقعی جہاد ظلم کا نام تو نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بہت سے مسلمان خود بھی نہیں جانتے کہ جہاد کی معنویت کیا ہے؟ تو محض بات اتنی نہیں ہے کہ ہمارا مخاطب کچھ باتیں پوچھ رہا ہے اور داعیانِ حق کو کچھ باتیں اسے بتانی ہیں۔ بلکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ امت مسلمہ کے اندر ایمان، علم اور یقین کی مطلوبہ کیفیت میں کمی آ چکی ہے۔ فضا میں گونجنے والے سوالات نے ان کی فکر و فہم کو متأثر کر دیا ہے۔چنانچہ اسلام پر یقین کی کیفیت کو بحال کرنا، باشعور عناصر کی ذمہ داری ہے۔ اس بنا پر بھی ضروری ہے کہ عصر حاضر کے سوالات سے تعرض کیا جائے، غیر مسلموں سے پہلے خود مسلمانوں کا دین پر اطمینان ضروری ہے ۔انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس دین پر وہ ایمان لائے ہیں اس نے کوئی تعلیم ایسی نہیں دی ہے، جو غیر معقول ہو ، جو انسانیت کے خلاف ہو، جو انصاف کے خلاف ہو اور جو ظلم پر مبنی ہو۔ سب سے پہلے امت مسلمہ کا دینِ حق پر اطمینان اور یقین بحال ہونا چاہیے اور اس کے لیے مسلم عوام و خواص کے درمیان تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے۔
دنیا کے ہر کام کی طرح دعوت اسلامی کا کام بھی تیاری چاہتا ہے۔ دیکھنا چاہیے کہ تیاری کے اعتبار سے دعوت دینے والوں کی کیا کیفیت ہے؟دعوت کو مؤثر بنانے کے لیے علم و تحقیق بھی درکار ہے۔ دنیا میں جو کچھ پوچھا جا رہا ہے، اس کا معقول، محققانہ ، علم و استدلال پر مبنی جامع جواب، اچھی پیش کش کے ساتھ اہل حق فراہم کریں۔ مسلمانوں کو خصوصاً ان کے نو جوانوں کو بھی بتائیں اور غیر مسلم دنیا کو بھی بتائیں ۔
البتہ مؤثر دعوت کے لیے محض علمی تیاری، کافی نہیں ہوتی۔ بلکہ دوسرے پہلوؤں پر توجہ بھی درکار ہے۔ بنیادی شرط یہ ہے کہ داعی کا اللہ سے گہرا تعلق ہو۔ اللہ سے مطلوب تعلق کا اعلیٰ ترین نمونہ انبیاء علیہم السلام کی زندگیاںہیں۔ اس تعلق با للہ کی جھلک، اس کیفیت کا پرتو، امت مسلمہ کے افراد اور اسلامی تحریکوں کے وابستگان میں نظر آئے، تبھی وہ داعی الی اللہ کی پوزیشن میں ہو سکتے ہیں ، تب ان کی زبان میں تاثیر ہو گی۔ وہ تقریر کریں گے تو لوگ متاثر ہوں گے، وہ کوئی بات کہیں گے تو غور سے سنی جائے گی،ان کی بات دلوں میں اترے گی،محض علمی تیاری سے یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی، دعوت کے لیے ربِ کائنات سے زندہ تعلق درکار ہے۔اللہ سے تعلق کے استحکام کی طرف مسلمانوں کو توجہ کرنی چاہیے۔ اللہ سے تعلق کی کیفیت آج بھی دنیا کے ہر معاشرے سے بڑھ کر مسلمان معاشرے میں پائی جاتی ہے، اس کیفیت کو زیادہ زندہ، زیادہ متحرک اور زیادہ توانا بنانے کی ضرورت ہے۔
عملی شہادت حق
مخلص داعی اپنے پورے وجود سے دین کی دعوت دیتا ہے۔ وجود سے مراد صرف ایک شخص کا وجود نہیں ہے،بلکہ پوری امت مسلمہ کا اجتماعی وجود بھی ہے ۔جائزہ لینا چاہیے کہ امت مسلمہ مجموعی طور پر کیا کہتی ہے؟ مسلمان دعوت کے عنوان سے کوئی جلسہ کریں اور اسلام کا تعارف کرائیں تو یہ مسلمانوں کے جلسوں کا اور باتوں کا چھوٹا سا جُز ہوگا۔ لوگ محض اس جلسے سے اثر نہیں لیں گے ، بلکہ یہ بھی دیکھیں گے کہ دیگر مواقع پر،مسلمان کیا باتیں کرتے ہیں؟ جب ملک کے مسائل پر گفتگو کرتے ہیں تو کیا کہتے ہیں؟ کیا فکرپیش کرتے ہیں اور کس نظریہ کا حوالہ دیتے ہیں؟ جب مسلمانوں کے مسائل کا تذکرہ کرتے ہیں ،تب کس بنیاد پر گفتگو کرتے ہیں؟ جب کوئی ڈیلیگیشن (وفد) لے کرحکومت کے لوگوں سے ملنے جاتے ہیں تو کیا اسلام پر گفتگو بھی کرتے ہیں؟یا محض اپنے مسائل بیان کرتے ہیں؟کیا مسلمان اسلامی فکر و نظریہ کا بھی حوالہ دیتے ہیں؟ کیا اُن کی گفتگو سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ اللہ کو ماننے والے لوگ ہیں؟ یہ سب، مسلمانوں کے اجتماعی وجود کے پہلو ہیں۔ جب مسلمان حالات و مسائل پرگفتگو کرتے ہیں تو دنیا اس کو غور سے سنتی ہے۔دعوتی تقریر تو ایک آدھ سن لیتی ہے۔ اصلاً اس کی توجہ مسلمانوں کے مطالبات، ان کے موقف اور مسلمانوں کی تنظیموں کی قراردادوں، انجمنوںاور پارٹیوں کی کارراوئیوںپرہوتی ہے۔ ان کی کارکردگی اور سر گرمیاں، ان کے جلسے ، پورے امت مسلمہ کے مشاغل، یہ زیادہ واضح زبان میں مسلمانوں کے ما فی الضمیرکا اظہار کرتے ہیں۔ محض چند دعوتی تقریریں ان سب کے مقابلے میں زیادہ اثر نہیں ڈال سکتیں، اگر ان دیگر سرگرمیوں کا رنگ دوسرا ہو۔
دعوت اسلامی کا حق ادا کرنا ہے تو امت مسلمہ کے پورے وجود کو اسلام سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ محض جماعت اسلامی کے نام کی ایک تنظیم کا وجود کافی نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کی ہر تنظیم اسلام کی نمائندہ ہو۔ اُن کا ہر جلسہ اسلام کا ترجمان ہو، ہر ادارہ اسلامی قدروں کا آئینہ دار ہو۔ جب امت کا وجود ایسا ہوگا، تب یہ توقع کر سکتے ہیں کہ دنیا میں دعوت دین کا کام ہوگا۔ یہ بہت بڑا چیلنج ہے جو اہلِ حق کے سامنے ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی تقریر ’’شہادت حق‘‘ میں اس جانب توجہ دلائی ہے۔ مسلمانوں کو دنیا میں عملی شہادت دینی ہے ،یہ شہادت امت کے اجتماعی عمل سے دینی ہے۔ عملی شہادت صرف ایک فرد کے عمل کا نام نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے اجتماعی عمل کا نام ہے۔ اگر مسلمان اجتماعی عمل کو درست کر لیں، تو دعوت دین کے کام میں تیزی آسکتی ہے اور حق کی روشنی دنیا میں پھیل سکتی ہے۔
اسلامی اصطلاحیں
داعیانِ حق کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ گفتگو میں دینی اصطلاحیں استعمال کریں۔ اس کا التزام مشکل ہے۔یہ کام علمی تیاری اور محنت چاہتا ہے۔ مسلمانوں کی مستند، دینی اصطلاحوں میں گفتگو اس دشواری کو بھی حل کرتی ہے، جس کا اس سے قبل ذکرکیا گیا تھا۔ دشواری یہ تھی کہ ہر باطل نظریہ کچھ صداقت کا عنصر بھی اپنے اندر رکھتا ہے مثلاً کمیونزم میں کچھ صداقت کے اجزاء موجود ہیں، اگر آپ کمیونزم کی کلی تردید کریں تو یہ مشکل کام ہے۔اسی طرح سیکولرزم میں بعض صداقت کے پہلو بھی موجود ہیں، اس کی کلی تردید مسلمانوںکے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو اس دشواری کا خاصا احساس ہے۔ اسی طرح کا معاملہ کثرتیت (پلورزم) اور دوسرے نظریات کا ہے۔ ہر نظریہ انسان کی بعض حقیقی ضرورتوں کے جواب میں دنیا کے سامنے آتا ہے۔ اس لیے صداقت کا کچھ نہ کچھ جزء اپنے اندر رکھتا ہے۔ اگر مسلمان دینی اصطلاحوں میں بات نہیں کریں گے ، تو اپنے موقف کو نہیں سمجھا سکیں گے۔ کسی رائج مغربی اصطلاح کی تائید کریں یا تردید ، دونوں صورتوں میں مسلمانوںکا موقف واضح نہیں ہوتا اور دعوت اسلامی کا حق ادا نہیں ہوتا۔ مثلاً پلورزم کی کلی تائید اور پلورزم کی یکسر تردید، دونوں اسلامی موقف کی درست ترجمانی نہیں ہیں۔ اس معاملے میںاسلام کا اپنا موقف ہے کہ جو انسان ایک جگہ رہتے ہوں مگر ان کے الگ الگ مذہب ہوں، وہ ایک دوسرے کے ساتھ کیا معاملہ کریں؟ اس سوال کے جواب میںاسلام اپنا متعین نقطۂ نظر رکھتاہے۔ اسے اسلام ہی کی اصطلاحوں میں بیان کرنا چاہیے۔
اِس بنا پر ضروری ہے کہ مسلمان ضروری علمی تیاری کریں اور یہ حوصلہ پیدا کریں کہ کہ دنیا کو اسلام کی اصطلاحوں سے روشناس کرائیں گے۔ داعیانِ حق دینی اصطلاحوں میں گفتگو کرنا سیکھیں اور دلائل فراہم کرکے حق کی دعوت کے ساتھ دنیا کے سامنے آئیں۔اسلامی اصطلاحوں کا یہ امتیاز ہے کہ ان میں صداقت ہی صداقت ہے،باطل کی کوئی آمیزش نہیں ہے، ان اصطلاحات میں کوئی اندرونی تضاد نہیں ہے۔ جب مسلمان اسلامی اصطلاحوں میں گفتگو کرتے ہیں تو مکمل حق انسانوں کے سامنے آتا ہے۔ اس حق کو پیش کرنا چاہیے۔ یہ انسانیت کی حقیقی ضرورت ہے۔ اس طرح مغربی اصطلاحوں کے فریب سے دنیا کو نجات مل سکے گی۔
مومن کی نظر چاہیے، حق بیں کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشنی دانشِ افرنگ
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2016