ہندوستان میں عصری کہلانے والے تعلیمی اداروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ ان اداروں میں مسلمانوں کی نئی نسل بھی تعلیم حاصل کررہی ہے۔ مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی آبادی کا چودہ فی صد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن اندازہ یہ ہے کہ طلباء و طالبات میں مسلمانوں کی تعداد، آبادی میں مسلمانوں کے تناسب کی محض ایک چوتھائی ہے۔ بہت سے ادارے ایسے ہیں جہاں مسلمان اِکا دُکاّ ہی نظر آتے ہیں۔ تعداد کی اس کمی کے باوجود مسلمان طلباء و طالبات پر اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور اِن ذمہ داریوں کا احساس انھیں ہونا چاہیے۔ جو طلباء و طالبات باشعور ہیں اور اپنے دینی و ملّی فرائض سے واقف ہیں اُن کو جاننا چاہیے کہ موجودہ نظامِ تعلیم انسان کی شخصیت پر مضر اثرات بھی ڈالتا ہے۔ اِن مضر پہلوؤں سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے کچھ امور کا اہتمام ضروری ہے:
(الف) اجتماعیت سے وابستگی
(ب) طلباء کے مسائل کے حل کی سعی
(ج) دین پر ثابت قدمی اورابلاغِ حق
(د) کردار کی تعمیر اور اخلاقی قدروں کی ترویج
(ہ) تعلیمی اداروں میں زیرِ بحث سوالات سے تعرض
(و) اسلامی تصور علم و تحقیق کی تفہیم
ذیل کی سطور میں جو کچھ عرض کیا جائے گا اس کا تعلق ان اداروں سے ہے جہاں مسلمان طلباء وطالبات قلیل تعداد میں ہیں۔ مسلم تعلیمی ادارے یہاں زیرِ بحث نہیں ہیں۔
اجتماعیت سے وابستگی
علامہ اقبالؔ نے نوجوانوں کو متوجہ کیاتھا کہ
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی رہے تری بے داغ
صورتحال یہ ہے کہ آج پوری دنیا کے سماج میں سنگین برائیاں پھیل چکی ہیں۔ بددیانتی، غیر ذمہ داری، بے حیائی، سطحیت، فضول خرچی اور کمزوروں کا استحصال جیسی خصوصیات ہر سمت انسانوں کے کردار میں نظر آتی ہیں۔تشویشناک امر یہ ہے کہ اِن میں سے بہت سی خرابیوں کو برائی نہیں سمجھا جاتا بلکہ جدید دنیا کی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ اس ماحول سے سماج کا ہر گوشہ متاثر ہوا ہے۔ چنانچہ تعلیمی اداروں کی فضا میں بھی یہ سب عیوب موجود ہیں۔ مسلمان طلباء کے لیے لازم ہے کہ وہ نہ صرف اِن برائیوں سے خود بچیں بلکہ دوسروں کو بھی بچانے کی فکر کریں۔ یہ کام آسان نہیں اس لیے کہ حالات کا دھارا جس طرف بہہ رہا ہوتا ہے، اُس کی مخالف سمت میں حرکت کرنا بڑا دشوار کام ہے۔ اس مشکل کام کو انجام دینے کے لیے ایمان اور پختگی کردار کے بعد جس امر کی ضرورت ہے وہ اجتماعیت سے وابستگی ہے۔
حضرت ابودرداءؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: کسی جنگل یا بستی میں تین مسلمان رہتے ہوں اور پھر وہ (اجتماعی طور پر) نماز کا اہتمام نہ کریں تو لازماً اُن پر شیطان مسلط ہوکر رہے گا۔ (سنو!) جماعت سے وابستہ رہو اِس لیے کہ جو بھیڑ ریوڑ سے الگ ہوجاتی ہے، بھیڑیا اُسے کھا جاتا ہے۔(مشکوٰۃ)
اس حدیثِ نبویؐ میں اُن طلباء وطالبات کے لیے بڑی رہنمائی ہے جو کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کررہے ہوں اور وہاں غیر مسلم طلباء و اساتذہ کے درمیان گھرے ہوئے ہوں۔ اسکول ہو یا کالج اور یونیورسٹی یا ہاسٹل، وہاں موجود تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے سے واقف ہونا چاہیے۔ اس واقفیت کے بہم پہنچانے میں نسبتاً سینئر مسلم طلباء اور مسلمان اساتذہ کو پیش قدمی کرنی چاہیے۔ کیمپس اور ہاسٹل میں طلباء کو نماز باجماعت کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔ باہم تعارف کی ایک آسان صورت یہ ہے کہ تعلیمی سال کی ابتدا میں نئے اور پرانے طلباء کی ایک مجلسِ ملاقات (Get Together)منعقد ہو، وہاں نئے طلباء کا استقبال کیا جائے اور ضروری معلومات ان کو بہم پہنچائی جائیں۔ ہاسٹل میں رہنے والے طلباء کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی کو اپنا سربراہ (امیر) بنالیں تاکہ ایک دوسرے سے ربط رکھنے اور تعارف حاصل کرنے میں آسانی ہو۔ اس طرح نئے طلباء کے لیے اجتماعیت سے وابستگی آسان ہوجائے گی۔
اللہ کے فضل سے ہمارے ملک میں طلباء و طالبات کی اسلامی تنظیمیں موجود ہیں جو دینی شعور کی بیداری، کردار کی تعمیر اور دعوتِ اسلامی کے فروغ کے لیے کام کررہی ہیں۔ غیر اسلامی ماحول کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنے اور اپنی دینی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے مناسب تدبیر یہ ہے کہ مسلمان طلباء کسی اسلامی تنظیم سے وابستہ ہوجائیں اور اُس کے اجتماعی نظم کی مدد سے دینی سرگرمیاں انجام دیں۔ ماحول کا انسان پر اثر ایک حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ خصوصاً نوجوان، اپنے ہم عمر افراد کے طور طریقوں سے غیر معمولی اثر قبول کرتے ہیں۔ آج کل ہم جولیوں سے متاثر ہونے کے اس مظہر کو ’’ہم نشینی کا دباؤ‘‘ (Peer Pressure)کہا جاتا ہے۔ اس ہمہ گیر دباؤ کو ذرائعِ ابلاغ تقویت پہنچاتے ہیں جو فیشن کے نام پر (اور پُرکشش انداز میں) بے اعتدالی، بے حیائی اور اباحیت کی ترغیب دیتے ہیں۔ ماحول کے ان مضر اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے قوتِ ارادی(Will Power)کے علاوہ ایک متبادل صالح ماحول کی بھی ضرورت ہوتی ہے (خواہ اس متبادل ماحول سے وابستہ افراد تعداد میں کم ہوں)۔ ایک اسلامی تنظیم ایسا صالح ماحول فراہم کردیتی ہے جو کامیابی کے ساتھ غالب ماحول کے برے اثرات کا سامنا کرسکتا ہے۔
اجتماعیت سے وابستگی کا یہ تقاضا بھی ہے کہ مسلمان طلباء، اپنے ادارے یا ہاسٹل کے قریب میں رہنے بسنے والی مسلمان آبادی سے واقف ہوں اور اُس بستی کے ذمہ دار افراد سے تعارف حاصل کریں۔ خود مسلمان آبادی کے باشعور افراد کو آگے بڑھ کر قریبی تعلیمی اداروں سے وابستہ مسلمان طلباء سے ربط قائم کرنا چاہیے، تاہم اگر اُن کی توجہ اِ س طرف نہ جاسکی ہو تو خود طلباء پیش قدمی کرکے ملاقات کرسکتے ہیں اور مسلمان بستی سے اُن کا تعلق قائم ہوسکتا ہے۔ جمعہ اور عیدین کے مواقع پر طلباء کو مسلمان بستی میں جانا چاہیے اور ملاقاتیں کرنی چاہئیں۔ جس طرح مجلسِ ملاقات(Get Together)کا انعقاد مسلمان طلباء کے لیے ہاسٹل کی سطح پر مناسب ہے اسی طرح مسلمان آبادی میں بھی ایسی مجلس، ہر تعلیمی سال کے آغاز میں منعقد کی جانی چاہیے تاکہ نئے آنے والے طلباء بھی مقامی مسلمانوں سے واقف ہوسکیں۔ مسلم ثقافت کے تسلسل اور بقا میں اردو زبان نے اہم رول ادا کیا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے دینی لٹریچر کا بڑا حصہ اردو میں ہے، چنانچہ جو طلباء، اردو نہ جانتے ہوں اُن کو اردو سکھانے کا نظم، اسلامی تنظیم یا مسلمان آبادی کو کرنا چاہیے۔ اس کام کو تعطیلات کے دوران بھی کیا جاسکتا ہے۔ پھر طلباء کو ترغیب دی جائے کہ اسلامی کتب کا مطالعہ کریں۔
طلباء کے مسائل کا حل
ہمارے ملک کے بیش تر خطوں میں غریبی عام ہے۔ اس محرومی میں مسلمان بھی شریک ہیں بلکہ اُن کے اندر غربت زیادہ ہے۔ بہت سے مسلمان نوجوانوں کے تعلیم نہ حاصل کرپانے کی ایک اہم وجہ وسائل سے اُن کی محرومی بھی ہے۔ تاہم جو طلباء اپنے والدین کی محنت اور ایثار کی بنا پر، تعلیمی اداروں تک رسائی حاصل کرپاتے ہیں اُن کی ایک خاصی تعداد مالی دشواریوں میں گھری ہوتی ہے۔ والدین اتنی رقم فراہم نہیں کرپاتے جو تعلیمی و رہائشی اخراجات کے لیے کافی ہوسکے، چنانچہ باشعور طلباء، اسلامی تنظیموں اور اصحابِ خیر کی ذمہ داری ہے کہ ایسے مستحق طلباء کی مدد کریں۔ مدد کی ایک شکل یہ ہے کہ وظیفہ (Scholarship)کی فراہمی کا نظم کیا جائے یا جو ادارے (سرکاری یا نجی) طلباء کو تعلیمی وظائف دیتے ہوں اُن کے سلسلے میں ضروری معلومات، بروقت بہم پہنچائی جائیں۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ان طلباء کا حوصلہ بحال رکھنے کے لیے اُن کی ہمت افزائی کی جائے، اُن کو مشورے دیے جائیں اور مشکلات کے باوجود لگن سے کام لینے کی اُن کو تلقین کی جائے۔ جو طلباء اچھی تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کریں، اُن کی محنت کا اعتراف اور اُن کو انعامات دینے کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔
جو طالب علم اپنے قصبے یا شہر سے دور کسی اور مقام پر تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں، اُن کی ایک اہم ضرورت رہائش ہے۔ جن کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہاسٹل کی سہولت، ضرورت کے مطابق، موجود ہے وہاں اس مسئلے کا حل نسبتاً آسان ہے۔ وہاں ضرورت صرف اتنی ہے کہ ہاسٹل میں جگہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دینے کے سلسلے میں بروقت رہنمائی، نئے طلباء کو فراہم کردی جائے۔ سینئر مسلمان طلباء کو یہ کام انجام دینا چاہیے تاکہ محض ناواقفیت کی وجہ سے کوئی نیا طالب علم، ہاسٹل میں جگہ پانے سے محروم نہ رہے۔ تاہم کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ایک قابلِ لحاظ تعداد ایسی بھی ہے جہاں ہاسٹل کا نظم نہیں ہے یا ضرورت سے کم ہے۔ ایسے اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو ( جو اس شہر کے رہنے والے نہ ہوں) رہائش کے لیے جگہ تلاش کرنی ہوتی ہے جو ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ اجنبی شہر میں اس مرحلے کو طے کرنے میں طلباء کی اسلامی تنظیم کو طلباء کی رہنمائی اور مدد کا کام انجام دینا چاہیے۔ اپنی غفلت کی بنا پر مسلمانوں کے اصحابِ خیر نے ایسے نجی (پرائیویٹ) ہاسٹلوں کے قیام پر بہت کم توجہ کی ہے جہاں کم خرچ پر، شہر کے باہر سے آنے والے مسلمان طلباء قیام کرسکیں۔ اجتماعی خدمتِ خلق کے امور میں اس طرز کی رہائش گاہوں کی فراہمی کو ضرور شامل کیا جانا چاہیے۔
تمام دشواریوں اور مشکلات کے باوجود طالب علم کی اصل توجہ، حصولِ تعلیم پر ہونی چاہیے تاکہ تعلیمی ادارے میں موجود سہولیات سے وہ فائدہ اٹھا سکے اور اپنے اساتذہ سے کچھ سیکھ سکے۔ تعلیمی اداروں سے یہ توقع بے جا نہ ہوگی کہ وہ طلباء کو اعلیٰ معیاری تعلیم دینے کے لیے تمام ضروری لوازمات (Infra Structure)فراہم کریں تاہم یہ ایک ناخوشگوار حقیقت ہے کہ ملک کے بہت سے (نجی اور سرکاری) اداروں کا تعلیمی معیار اطمینان بخش نہیں ہے۔ کہیں اچھے اساتذہ موجود نہیں یا وہ احساسِ ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض کو انجام نہیں دیتے۔ کہیں کلاس روم، لائبریری اور تجربہ گاہ جیسی ضروری سہولتیں، معیار کے مطابق نہیں یا ضرورت سے کم ہیں۔ کہیں انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں کے سلسلے میں غافل یا غیر مستعد واقع ہوئی ہے اور نتیجتاً تعلیمی سیشن دیر سے شروع ہوتے ہیں، داخلوں میں بے ترتیبی اور تاخیر نظر آتی ہے اور امتحانات کی باقاعدگی متاثر ہوتی ہے۔ تعلیمی اداروں کی مندرجہ بالا کوتاہیوں کا سب سے زیادہ نقصان طلباء کو انگیز کرنا ہوتا ہے جو معیاری تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں یا اُن کے قیمتی اوقات ضائع ہوتے ہیں۔ طلباء کے اِن مسائل کے حل کے لیے دو طرح کی کوششوں کی ضرورت ہے۔ ایک جانب انتظامیہ کو متوجہ کرنا چاہیے اور طلباء کے مسائل سے اربابِ حل و عقد کو واقف کرانا چاہیے۔ یہ کام طلباء کی تنظیم خود کرسکتی ہے یا کالج اور یونیورسٹی کی یونین کے ذریعے کراسکتی ہے۔ دوسری کوشش جو درکار ہے وہ یہ ہے کہ تعلیمی ضرورتوں کی تکمیل میں طلباء کی مدد کی جائے۔ اس سلسلے میں لائبریری اور بک بینک کا نظم کیا جاسکتا ہے یا اہلِ خیر افراد کو اس جانب توجہ دلائی جاسکتی ہے۔ اسی طرح کوچنگ کلاسوں کا اہتمام، کمزور طلباء کے لیے خصوصی تدریس (Remedial Teaching)اور ضروری نوٹس کی فراہمی جیسے کام بھی کیے جاسکتے ہیں۔ طلباء یونین کے لیے یہ سب امور آسان ہیں اور اسلامی طلباء تنظیم اس ضمن میں اپنا تعاون پیش کرسکتی ہے۔ اگر یونین ایک مستقل شعبہ قائم کرکے طلباء کی تعلیمی امور میں مدد کرے تو انتظامیہ کی کوتاہی کے باوجود، طلباء ایک حد تک معیاری تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔
شامتِ اعمال سے ہمارے ملک کی فضا ایسی ہے کہ بہت سے اداروں میں طلباء کو ظلم اور بے انصافی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ جو طالب علم کسی ایسے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہیں جو اربابِ اقتدار کو ناگوار گزرے تو اُن کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کہیں اُن کو تعلیمی اداروں سے نکال دیا جاتا ہے اور کہیں ہاسٹل میں قیام کی سہولت سے محروم کردیا جاتا ہے۔ ایسے مظلوم طلباء اس کے مستحق ہیں کہ مسلمان ان کی مدد کریں اور اُن کو زیادتیوں سے بچانے کی کوشش کریں اس کوشش کے ضمن میں انتظامیہ سے گفتگو اور ذرائع ابلاغ سے رابطہ کے علاوہ، زیادتیوں کے شکار طلباء کی قانونی مدد بھی کی جانی چاہیے۔ ان معاملات میں بھی یونین کا رول اہم ہے۔ یونین کو متحرک کرنے اور اسے مبنی برانصاف موقف کی تائید پر آمادہ کرنے کا کام مسلمان طلباء کرسکتے ہیں۔
ہندوستانی سماج میں مسلمانوں کو اور بعض اور طبقات کو امتیازی سلوک اور تعصب سے واسطہ پیش آتا ہے۔ زندگی کے دوسرے دائروں کی طرح تعلیمی ادارے بھی اس متعصبانہ ذہنیت سے متاثر ہوئے ہیں چنانچہ مسلمان اساتذہ اور طلباء اور اسی طرح بعض محروم طبقات کے اساتذہ اور طلباء امتیازی برتاؤ کا نشانہ بنتے ہیں۔ اس نوع کی زیادتی کے شکار افراد بھی مدد کے مستحق ہیں۔ زیادتیوں کا سلسلہ، بسا اوقات، تعلیمی ادارے میں داخلے کے مرحلے کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے۔ چنانچہ باوجود اہلیت کے اور داخلے کی شرائط کی تکمیل کے، بعض طلباء، بلا وجہ داخلے سے محروم رکھے جاتے ہیں اور حصولِ تعلیم کا موقع اُن سے چھین لیا جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ضابطے کی حد تک محرومین کے لیے داخلے کی نشستیں محفوظ (Reserve)ہوتی ہیں لیکن عملاً ان نشستوں پر اُن کو (مختلف بہانوں کے ذریعے) داخلہ نہیں دیاجاتا۔ اس طرح کی تمام زیادتیوں کا نوٹس لینا ضروری ہے اور ان کے مقابلے کے لیے یونین، عدالت اور خیرپسند عناصر کو متحرک کرنا چاہیے۔
دین پر ثابت قدمی
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: ’’کون سا کام افضل ہے؟‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’وقت پر نماز ادا کرنا۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’پھر کون سا عمل؟‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’تمہاری زبان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔‘‘ (طبرانی)
اس ہدایت کی روشنی میں مسلمان طلباء کے لیے جو کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کررہے ہوں، ضروری ہے کہ وقت پر نماز ادا کرنے کا اہتمام کریں اور نماز باجماعت کے نظم کی بھی کوشش کریں۔ اس سلسلے میں چند امور کی طرف باشعور افراد کو توجہ کرنی ہوگی:
(۱) جو طلباء نماز کا طریقہ اور وضو کے مسائل نہ جانتے ہوں اُن کو یہ باتیں سکھائی جائیں۔ اس کے لیے کتابوں سے مدد لی جاسکتی ہے۔
(۲) ہر مسلمان طالب علم کو حکمت کے ساتھ نماز کے فرض ہونے کی یاددہانی کرائی جائے۔ ایسی کتابیں بھی دی جائیں جن میں نماز کے فائدے بتائے گئے ہوں۔
(۳) طلباء کو جمعہ کی نماز میں شامل ہونے کی خاص ترغیب دی جائے۔ بستی کی مسجد میں جمعہ کی ادائیگی کے لیے سواری کا نظم کیا جائے تاکہ طلباء بآسانی جاسکیں۔
(۴) اپنے دائرئہ تعارف میں غیر مسلم طلباء کو بھی نماز کی حکمتوں اور مقاصد سے واقف کرایا جائے تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ مسلمان نماز کیوں ادا کرتے ہیں۔ اس واقفیت کے لیے آسان کتابیں اور کتابچے پڑھنے کے لیے دیے جائیں۔
یہ سمجھ لینا چاہیے کہ غیر مسلم ماحول کے مضر اثرات سے بچنے کا کارگر ذریعہ وقت پر نماز کی ادائیگی ہے۔ نماز کا اہتمام، دین پر ثابت قدمی کی علامت بھی ہے۔نماز کی طرح ماہِ رمضان میں روزہ رکھنے کا اہتمام ضروری ہے۔ باشعور طلباء اور اُن کی تنظیم کو رمضان کی آمد سے چند دن پہلے استقبالِ رمضان کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے عام جلسہ کیا جاسکتا ہے جس میں رمضان کی فضیلت، روزے کی فرضیت، اس کے فوائد اور ضروری مسائل کا تذکرہ کیا جائے۔ اس موقع پر نقشہ سحر و افطار بھی سامعین کو دیا جاسکتا ہے۔ استقبالِ رمضان کے اس پروگرام میں غیر مسلم طلباء کو بھی مدعو کرنا چاہیے تاکہ وہ جان سکیں کہ مسلمان روزہ کس لیے رکھتے ہیں؟ ہاسٹل میں رہنے والے طلباء کے لیے سحر و افطار کا نظم ضروری ہے۔ اس سلسلے میں اُن کی ضروری رہنمائی کرنی چاہیے اور ہاسٹل کی انتظامیہ سے مدد لینی چاہیے۔ رمضان کے اختتام پر قریبی مسلم بستی میں عید کی نماز کی ادائیگی کا اہتمام ہونا چاہیے۔ پوری کوشش کرنی چاہیے کہ تمام مسلمان طلباء نمازِ عید میں شریک ہوں۔ اگر عید کے بعد، بستی میں عید ملن کا پروگرام رکھا جائے تو اس میں بھی طلباء کو شامل ہونا چاہیے۔ عید کی معنویت پر جو اظہارِ خیال کیا جائے اس کو سننے کے لیے غیر مسلم سامعین کو بھی موقع دیا جائے۔
مسلمان طلباء کی وضو، نماز اور روزے کے مقاصد، برکات اور مسائل سے واقفیت کے علاوہ اُن کی عام دینی معلومات میں اضافے کے لیے کوشش کی جانی چاہیے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ سال کے آغاز میں نئے طلباء کے استقبال کے موقع پر ہر طالب علم کو قرآنِ مجید مع ترجمہ، تحفۃًدیا جائے۔ اس کے ساتھ سیرت پر ایک مختصر کتاب اور اسلام کے تعارف پر مشتمل کتاب بھی دی جائے۔ طلباء میں یہ احساس عام کرنا چاہیے کہ تعلیمی زندگی میں اُن کو اتنا وقت یقینا مل سکتا ہے کہ وہ درسی کتابوں کے پڑھنے کے علاوہ، اسلام کا مطالعہ بھی کرسکیں۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے انھیں اپنی اسلامی معلومات میں وسعت لانی چاہیے۔ اردو، ہندی، انگریزی اور دیگر زبانوں میں اسلامی مضامین پر مشتمل بہت سے رسائل و جرائد شائع ہوتے ہیں۔ کوشش کرنی چاہیے کہ تعلیمی ادارے کی لائبریری یا ہاسٹل کی لائبریری میں ایسے جرائد بھی آسکیں۔ مسلمان طلباء کو بھی اِن رسائل کو خریدنے اور پڑھنے کی ترغیب دی جانی چاہیے۔
مسلمان طلباء اسی وقت دین پر ثابت قدم رہ سکتے ہیں، جب اُن کو دین کی حقانیت اور آفاقیت کا شعور حاصل ہو یعنی وہ اس حقیقت سے واقف ہوں کہ اسلام، اللہ کا نازل کردہ دین ہے (کسی انسان کے اپنے خیالات کا مجموعہ نہیں ہے۔) اس دین کی تعلیمات، حق پر مبنی ہیں اور انسانوں کو راہِ راست دکھانے والی ہیں۔ پھر یہ کہ یہ دین سارے انسانوں کے لیے ہے۔ ان حقائق سے آگاہی کا فطری نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمان طلباء اپنے غیر مسلم ساتھیوں کو اسلام سے متعارف کرانے لگیں گے۔ اس طرح فضا، اسلام کے حق میں سازگار ہوگی اور مسلمان طلباء کے لیے دین پر عمل آسان ہوجائے گا۔ نجی بات چیت اور غیر رسمی مجالس کے علاوہ دین کے تعارف کے لیے کتابوں، کتابچوں اور ویڈیوز سے کام لیا جاسکتا ہے۔ ایسے پروگرام بھی منعقد کیے جاسکتے ہیں جن میں اسلام کا تعارف کرایا جائے اور اس کی ہدایات کوبیان کیا جائے۔ اس طرح کے پروگراموں میں مسلمان طلباء کے علاوہ غیر مسلم طلباء کو بھی مدعو کرنا چاہیے اور اُن کو اپنے سوالات پیش کرنے کا موقع بھی دینا چاہیے۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ ادارے کی حدود کے اندر ایسے پروگرام کے انعقاد کی اجازت نہ ملے۔ ایسی صورت میں پروگرام، بستی کے کسی مناسب مقام پر منعقد کیا جاسکتا ہے اور مسلمان وغیر مسلم طلباء کو وہاں بلایا جاسکتا ہے۔
مسلمان طلباء پر یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اسلام، غیر مسلموں سے مشابہت اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ چنانچہ مسلمان طلباء کو پوری مضبوطی کے ساتھ اسلامی تہذیب پر قائم رہنا چاہیے۔ وہ ایک دوسرے سے ملیں تو السلام علیکم کہیں اور بآوازِ بلند کہیں۔ غیر مسلموں سے ملاقات کے وقت آداب اور تسلیمات جیسے الفاظ استعمال کیے جاسکتے ہیں لیکن نمستے اور نمسکار جیسے الفاظ سے بچنا چاہیے جو مشرکانہ کلچر کی علامت ہیں۔ اسی طرح ہاتھ جوڑنے یا جھکنے سے گریز کرنا چاہیے۔ مشرکانہ رسوم میں کسی بھی نوع کی شرکت درست نہیں۔ ایسی رسوم سے کلی اجتناب ضروری ہے۔ اس طرح مسلمان طلباء کو ایسا لباس اختیار نہیں کرنا چاہیے جو غیر اسلامی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہو یا غیر ساتر ہو۔ ایسی مذہبی تقریبات میں مسلمان شرکت نہیں کرسکتا جن کی بنیاد شرک پر ہو۔ اسی طرح ایسی کوئی چیز کھانا مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے جو کسی بت یا آستانے پر چڑھائی گئی ہو۔ ان امور میں مسلمان استقامت کا مظاہرہ کریں تو غیر مسلم ماحول میں بھی وہ اپنے ایمان کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
قرآن مجید کا ارشاد ہے:
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّن دَعَا إِلَی اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ إِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَo ( حٰم سجدہ، آیت:۳۳)
’’اور اس شخص کی بات سے اچھی اور کس کی بات ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘
اخلاقی قدروں کی ترویج
اسلام نے انسانوں کو جو اخلاقی تعلیمات دی ہیں وہ وہی ہیں جن سے انسان فطری طور پر واقف ہے۔ اس لیے مطلوب صفات کو اسلام کی اصطلاح میں ’’معروف‘‘ کہا گیا ہے جس کے معنی ایسے مطلوب وصف کے ہیں جو جانا پہچانا ہو، جس سے انسان واقف ہوں اور جانتے ہوں کہ بھلا طریقہ یہی ہے۔ مثلاً سچائی، دیانت، ایفائے عہد، رحم، انصاف، احترامِ انسانیت، عفت و پاکیزگی اور ایذا رسانی سے گریز۔ ان مطلوب اوصاف کے برعکس کسی بری صفت کو اسلام کی اصطلاح میں منکر کیا جاتا ہے۔ منکر کے معنی ہیں وہ وصف جس سے انسانی فطرت نامانوس ہو، ایسا طریقہ جس کو فطرتِ انسانی برا سمجھتی ہو اور ایسا طرزِ عمل جس کو انسانوں نے ناپسندیدہ سمجھا ہو مثلاً جھوٹ، فریب، بددیانتی، غیر ذمہ داری، عہد شکنی، ظلم و زیادتی، سنگ دلی، بے انصافی، انسانوں کی تذلیل، کمزوروں کا استحصال، بے حیائی، بدکاری، ایذا رسانی اور تکبر۔
مسلمان طلباء امتِ مسلمہ کا جز ہیں اور اس اُمت کا مقصدِ وجود اللہ تعالیٰ نے اِس طرح بیان کیا ہے:
کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ۔ (آلِ عمران، آیت:۱۱۰)
’’تم (اہلِ ایمان) بہترین گروہ ہو، جسے انسانوں (کی ہدایت و اصلاح اور رہنمائی) کے لیے برپا کیا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
اس آیت کی روشنی میں مسلمان طلباء بھی اس فریضے پر مامور ہیں کہ وہ نیکی کی تلقین کریں اور برائی سے روکیں۔ اپنے دائرے میں (یعنی تعلیمی اداروں اور ہاسٹلوں میں) اُن کو یہ کام انجام دینا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ جو افراد نیکی کی تلقین کریں گے اور برائی سے لوگوں کو روکیں گے، اُن کے سلسلے میں اِس امر کا زیادہ امکان ہے کہ وہ خود برائی سے محفوظ رہیں گے اور نیکیوں کی طرف پیش قدمی کرسکیں گے۔ اس طرح اسلام، اہلِ ایمان کو فعال (Pro Active)رویے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ اپنے ماحول کی خرابی کے آگے سپر نہیں ڈالتے بلکہ برائی کا مقابلہ کرتے ہیں۔
علامہ اقبال نوجوانوں کو یاد دلاتے ہیں کہ
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ، ضرب ہے کاری
ایسا نوجوان جو اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کرتا ہے، حیا و پاک بازی جس کا وصف ہے اور جو اپنی صلاحیتوں کے ارتقاء کی فکر کرتا ہے اور ان صلاحیتوں کو اِس لیے استعمال کرتا ہے کہ دنیا سے فساد مٹ سکے، وہی حقیقتاً کسی سماج کا سرمایہ ہے۔ مسلمان طلباء کو اجنبی ماحول کی موجودگی کے باوجود، اپنے اندر اس اعلیٰ کردار کی نشوونما کی فکر کرنی چاہیے۔
مطلوب انسانی اوصاف کا تذکرہ سطورِ بالا میں کیا گیاہے۔ آج کی دنیا اِن میں سے بیش تر اوصاف کو فراموش کرچکی ہے۔ اُس کو آج صرف ایک قدر یاد ہے یعنی یہ کہ ’’انسانوں کی آزادی کا احترام کیا جائے اور اُن پر جبر نہ کیا جائے۔‘‘ لیکن اس اصول کی بھی عملاً پاسداری مفقود ہے۔ جب اپنے کاروباری یا سیاسی مفادات کاحصول پیشِ نظر ہوتا ہے تو عموماً یہ اصول بھلا دیا جاتا ہے اور انسانوں پر ہر طرح کے جبروظلم کورَوا رکھا جاتا ہے۔ اس تاریک ماحول میں امتِ مسلمہ ایک روشن مینار کا رول انجام دے سکتی ہے بشرطیکہ وہ اپنے منصب کا حقیقی ادراک کرسکے۔اُمت کے رول کی انجام دہی میں مسلمان طلباء کو بھی حصہ لینا چاہیے۔
تعلیمی ادارے سماجی اور ملکی و بین الاقوامی فضا سے متاثر ہوتے ہیں اور اس ماحول کے عمومی مزاج کے عکاس ہوتے ہیں۔ آج دنیا میں بے حیائی، خود غرضی، صارفیت اور اباحیت عام ہے چنانچہ تعلیمی کیمپسوں کی فضا میں بھی یہ برائیاں پائی جاتی ہیں۔ افراد کی باہم گفتگو،چلت پھرت کے انداز، تقریبات کے ڈھنگ اور ثقافتی پروگراموں کی سرگرمیاں سب اس ماحول کی عکاس ہیں، جو انسان کو انسانی مرتبے سے گرا دیتا ہے۔ اس صورتحال میں مسلمان طلباء کو اسلامی اور صالح کردار کا نمونہ پیش کرنا ہے۔ اس مشکل مرحلے کو طے کرنے میں باشعور طلباء اور اسلامی تنظیموں کو اُن کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ اسلامی لٹریچر میں مذکورہ بالا اخلاقی عیوب کی مضرتوں کو بیان کرنے والی تحریریں اور کتابیںموجود ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس لٹریچر کو مسلمان اور غیر مسلم طلباء میں عام کیا جائے۔ کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان طلباء، خیر پسند دیگر افراد کی مدد سے ایسے ثقافتی پروگرام ترتیب نہ دے سکیں جو اخلاقی برائیوں سے پاک ہوں۔ بے حیائی اور بداخلاقی کے مقابلے کے لیے صالح کلچر کا عملی نمونہ سامنے آئے تو وہ نوجوانوں کو متاثر کرسکتا ہے۔ اگر اخلاق سوز فضا کو چیلنج کرنے والے عناصر بھی میدان میں آجائیں تو پھر اس کا امکان ہے کہ پاکیزہ فضاکے متلاشیوں کو امید کی ایک کرن نظر آنے لگے۔
قرآنِ مجید نے انسانی اعمال کے سیاق میں خیروشر کے سرچشموں کی نشاندہی کی ہے۔ اس پر مسلم طلباء کو توجہ کرنی چاہیے۔ ارشاد ہے:
إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِیْتَاء ذِیْ الْقُرْبَی وَیَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَo (سورہ نحل، آیت:۹۰)
’’اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو۔‘‘
اس ارشاد کے مطابق نمایاں خرابیاں جن سے انسان کو بچنا چاہیے فحشاء، منکر اور بغی ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس پیغامِ ربانی سے آج کے نوجوانوں کو آگاہ کیا جائے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں پیدائش کی بنیاد پر انسانوں کو اونچا اور نیچا سمجھنے کا تصور پایا جاتا ہے اور ملک میں ایسا سماجی نظام بھی موجود ہے جس کی تشکیل اس انسانیت کش تصور کی اساس پر ہوئی ہے۔ اس تصور اور نظام نے انسانوں کے درمیان نامعقول تفریق پیدا کی ہے جس کے اثرات سماجی روایات اور افراد کے رویوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی فضا اس غیر معقول سماجی روایت سے محفوظ نہیں ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اس کے اثراتِ بد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مسلمان طلباء کی ذمہ داری ہے کہ تصور وحدتِ آدم کو پیش کریں اور خود اپنی عملی زندگی میں انسانوں کے احترام کا وہ نمونہ پیش کریں جس کی اسلام تلقین کرتا ہے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے:
یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o (الحجرات، آیت:۱۳)
’’اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہوا:
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنَاہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاًo (بنی اسرائیل، آیت ۷۰)
’’بے شک ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انھیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور اُن کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔‘‘
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (التین: آیت ۴) ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔‘‘
وحدتِ آدم اور تکریمِ انسانیت کے اس پیغام کو ملکی سماج اور تعلیمی اداروں میں عام کرنا مسلمان طلباء کی اہم ذمہ داری ہے۔
زیرِ بحث سوالات اور تصورِ علم:
ہمارے ملک کی تعلیم گاہوں میں بعض موضوعات پر بحث چھڑی ہوئی ہے مثلاً نیشنلزم، سماجی انصاف، سماج میں عورت کی حیثیت، انسانی حقوق، اظہارِ خیال کی آزادی اور انسانی مساوات۔ ان سب موضوعات کے سلسلے میں دورِ حاضر کی بے اعتدالی اور دورِ قدیم کی بے انصافیوں کے باقیات نے انسانوں کے لیے بڑے مسائل پیدا کیے ہیں، ان کا سکون و اطمینان چھین لیا ہے اور نتیجۃً سماج میں عدل اور خیر کی قدروں کی پامالی ہورہی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ہندوستان کی نئی نسل ان سوالات کے سلسلے میں متفکر ہے اور انسانوں کی مشکلات کا حل تلاش کرنا چاہتی ہے۔ تاہم ہدایتِ الٰہی سے ناواقفیت کی بنا پر مسائل کی جڑ تک آج کے انسانوں کا ذہن نہیں پہنچ سکا ہے۔ وہ بے اعتدالیوں کے شاکی تو ہیں لیکن راہِ حق سے آشنا نہیں ہیں اس لیے موجودہ مشکلات کے جو حل وہ تجویز کرتے ہیں وہ ناقص ہیں اور فی الواقع انسانوں کے مسائل حل نہیں کرتے۔ اس صورتحال میں وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ اسلام کی رہنمائی، نوجوانوں اور طلباء کے سامنے لائی جائے۔ چنانچہ مسلمان طلباء کو پہلے خود علمی تیاری کرکے اسلام کے نقطہ نظر کو سمجھنا چاہیے اور پھر تمام مناسب ذرائع استعمال کرکے اسلامی تصورات کو اپنے ساتھی طلباء کے سامنے لانا چاہیے۔ باشعورمسلم طلباء اس کام کی طرف متوجہ ہوجائیں تو وہ محسوس کریں گے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد پیغام حق کو سننے اور اس پر غور کرنے کے لیے آمادہ ہے۔
بڑے شوق سے پھر سنے گا زمانہ
نہ ہم گر تھکیں، داستاں کہتے کہتے
آج دنیا میں علم اور تعلیم کا بڑا چرچا ہے۔ علم اور فروغِ علم کے اس عام تذکرے کے باوجود انسان عموماً علم کے مقصدسے نا آشنا اور درست علمی رویے سے بے گانہ ہیں، اس لیے آج کے سرمایہ علم میں قیمتی دریافتوں کے ساتھ ساتھ بے بنیاد اور باطل تصورات بھی موجود ہیں اور موجودہ ذہن ان کے درمیان امتیازسے قاصر ہے۔ انسانی زندگی کے دوسرے پہلوؤں کی طرح اسلام نے تصورِ علم اور حصولِ علم کے سلسلے میں بھی انسان کی رہنمائی کی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان طلباء اس موضوع پر موجود اسلامی لٹریچر سے واقف ہوں اور پھر اسلام کے تصورِ علم و تحقیق سے تمام طلباء کو واقف کرائیں۔
یاد رکھنا چاہیے کہ ماحول کی تاریکی، ناامیدی اور بے عملی کے لیے جواز فراہم نہیں کرتی بلکہ روشنی پھیلانے کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتی ہے۔ مسلمان طلباء کو اپنے بلند منصب اور فرضِ منصبی کا احساس ہوجائے تو وہ نہ صرف ماحول کے مضراثرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتے ہیں بلکہ آج کی نوجوان نسل کو وہ راہ بھی دکھا سکتے ہیں جو اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جاتی ہے۔
دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں ترے نورِ سحر سے
خورشید کرے کسبِ ضیاء تیرے شرر سے
ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے
دریا متلاطم ہوں تری موجِ گہر سے
شرمندہ ہو فطرت ترے اعجازِ ہنر سے
کیوں جہل کے افکار و تخیل کی گدائی
کیوں نورِ ہدیٰ تک نہیں، اب تیری رسائی
مشمولہ: شمارہ اپریل 2017