علامہ اقبال نے امیر کارواں کے لئے خوئے دلنوازی کو ضروری قرار دیا ہے
کو ئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سے
کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دلنوازی
علامہ اقبال کا دوسرا شعر جس میں انہوں نے امیر کے لئے خلیق اور ملنسار اور متواضع ہونے کو ضروری قرار دیا ہے یہ ہے
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق
علامہ اقبال نے جو کہا وہ شعری زبان میں کہا لیکن شعری زبان میں ہوتے ہوئے یہ شریعت کی ترجمانی ہے اس کا اظہار اس آیت میں موجود ہے جو نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہے فبما رحمۃ من اللہ لنت لہم ولو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک ( آل عمران ۱۵۹ ) یعنی اے نبی اللہ کی رحمت سے آپ ان کے لئے مہربان ہیں آپ اگر سخت مزاج اور درشت خوہوتے تو وہ سب آپ سے دور ہوجاتے اور ہٹ جاتے ‘‘۔
ہندوستان میں بہت سی جماعتیں تنظیمیں اور ادارے ہیں تجربہ یہ ہے که بهت سی جماعتوں میں انتشار پیدا ہوجاتا ہے اور ان كے کئی ٹکڑے ہوجاتے ہیں ایک مدرسہ سے کچھ لوگ الگ هو كر دوسرا مدرسہ قائم کرلیتے ہیں ۔اكثر اس کی وجہ اخلاق ومعاملات کی خرابی ہوتی ہے اگر ادارہ کے ذمہ دار اعلی کا رویہ درست ہوتا ہے اور جمہوری ہوتا ہے اور وہ موروثی نظام قائم نہیں کرتا ہے تو ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوتی ۔یہ نیتوں کی خرابی ہوتی ہے جسکا پھل انتشار کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اوپر کی صف میں جب اخلاص ختم ہوتا ہے اور دیانت داری رخصت ہوتی ہے تو اللہ کی طرف سے حفاظت کا شامیانہ اٹھا لیا جاتا ہے خدا ایسے اداروں کی جن میں اخلاص کا عنصر مفقود ہوجاتا ہے حفاظت نہیں کرتا سفینہ کو موج حوادث کا شکار بنا دیتا ہے سفینہ گرداب میں پھنس جاتا ہے ،پھر لوگ اس اصل سبب کو نہیں سمجھتے کہ ادارہ کے اکابر و اعیان سے اخلاص رخصت ہوگیا ہے بس ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے لگتے ہیں ۔اس لئے اخلاص کی حفاظت بہت ضروری ہے ، خاص طور پر اداروں اور تنظیموں کے ذمہ داروں کو اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے ۔
جماعت اسلامی كا شورائی نظام
ابھی جماعت اسلامی کے امیر کا انتخاب ہوا ہے، نئے امیر جواں سال معروف دانشور صاحب قلم شخصیت هیں۔ ’’اقامت دین کی شاہراہ ‘‘ اور ’’ بدلتی ہوئی دنیا اور اسلامی فکر ‘‘ جیسی کتابوں کے مصنف جناب سعادت اللہ حسینی امیر منتخب ہوئے ہیں ، جماعت اسلامی ایک بڑی جماعت ہے اب تک مولاناسید جلال الدین عمری جو بڑے عالم دین ہیں اس جماعت کے امیر تھے ،موجوده انتخاب امیر کے موقعہ پر سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے نازیبا باتیں بھی کہیں۔ لیكن کچھ لوگوں نے جماعت اسلامی کی اچھی خصوصیات کا تذکرہ کیا۔ ان خصوصیات میں اس خصوصیت کا ذکربھی کیا کہ ہر چند سال کے بعد امیر کا نیا انتخاب ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی میں دیوبند کی راسخ العقیدگی بھی ہے اورعلی گڑھ کی عصری بصیرت بھی ۔ ہندوستان کی جماعت اسلامی کے پہلے امیر ایک ندوی عالم مولانا ابو اللیث ندوی تھے ۔
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے ’’ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ‘‘ نامی كتاب كے مندرجات سے اختلاف كیا اور رد میں كتاب لكھی۔اس كے باوجو ان کی تصنیفات جماعت اسلامی کے حلقوں میں پڑھی جاتی ہیں ۔
جماعت اسلامی ایک دینی جماعت ہے اور اس کا ایک امیر ہوتا ہے ۔ اسلام نے حاکم اور امیر کی صفات متعین کردی ہیں۔ اسلام اجتماعی زندگی کا دین ہے ،یہ بھکشووں ، جوگیوں،راہبوں اور سنیاسیوں کا دین نہیں ، یہ صحراء ، جنگل ، بیابان اور پہاڑوں میںانفرادی زندگی گذارنے کی تلقین نہیں کرتا یہ آبادی کے اندر منظم زندگی گذارنے کی تلقین کرتا ہے ، اس دین میں اجتماعی زندگی کے احکام قدم قدم پر ملیں گے عبادات میںبھی اجتماعی زندگی کی شان پائی جاتی ہے ، امامت صغری( نماز باجماعت) سے لے کر امامت کبری( حکومت وخلافت ) تک ڈسپلن کے ساتھ زندگی گذارنے کے آداب اس دین میں نظر آتے ہیں ۔ امام یعنی امیر کے بغیر زندگی گذارنا ممنوع ہے ۔ سیاسی طاقت ہو جب بھی امیر ضروری ہے سیاسی طاقت نہ ہو جب بھی امیر کے بغیر چارہ کار نہیں ۔ دو چار آدمی بھی کہیں مل کر جائیں تو سفر میں ان کا ایک امیر ہونا چاہئے ۔ قرآن ، سنت نبوی اور خلفائے راشدین کے تعامل سے ان اوصاف کا تعین ہوتا ہے جن سے ایک امیر کو متصف ہونا چاہئے ۔
امیر كا انتخاب
اسلام کے سیاسی نظام کی ایک اہم بحث یہ ہے کہ امیر منتخب ہونے کے بعد تازندگی امیر رہے یا ایک مقرر عرصہ کے بعد نئے سرے سےامیر کا انتخاب ہو ۔ بہت سے لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ امیر جب منتخب کرلیا جاتا ہے تو و ہ تا زندگی امیر رہتا ہے ۔ اس فکر کے لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر وغیرہ جب امیر منتخب کرلئے گئے تھے تو وہ تا حیات امیر رہے تھے ۔جو لوگ اس فکرسے اتفاق نهیں كرتےان کا کہنا یہ ہے کہ اب اس زمانہ میں نہ کوئی ابوبکر جیسا ہے اور نہ عمر جیسا خلیفہ راشد جن کی تربیت فیضان نبوت کا نتیجہ تھی اس لئے اب تاحیات امیر رہنے میں قباحتیںہوسکتی ہیں دوسرے یہ کہ تا زندگی امیر رہنا کوئی منصوص حکم نہیں ہے اس سے اس کے صرف جائز اور مباح هونے پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔
اسلام نے اس سلسہ میں کوئی واضح حکم نہیں دیا ہے بلکہ اس بارے میں خاموشی اختیار کی ہے ۔ بهر حال شریعت میں مدت امارت وخلافت کو محدود کرنے سے کہیں روکا نہیں گیا ہے ۔ اس لیے عرف اور حالات زمانہ کی رعایت سے ارباب حل وعقد اگر قانون وضع کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،شرعی طور پر امارت ایک بار امانت ہے اور اس بار امانت کو سپرد کرنے والے ہی اصل امین ہیں ۔ یہ ان کی صواب دید پر ہے کہ کسی شخص کو زندگی بھر کے لئے امیربنائیں یا محدود مدت کے لیے ۔
کسی شخص کو ایک محدود مدت کے لئے امارت سپرد کی جاسکتی ہے ۔ اس کی دلیل ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اپنی کتاب’’ فقہ الدولۃ‘‘ میں پیش کی ہے کہ حضرت عمر کے بعد تاسیس خلافت کے لئے ایک مجلس کی تشکیل کی گئی تھی ۔مجلس کے نمائندے حضرت عبد الرحمن بن عوف نے پہلے حضرت علی سے گفتگو کی اور شرط یہ پیش کی کہ امور خلافت میں قرآن وحدیث اور پیش رو دونوں خلفاء کی اتباع کی جائے گی حضرت علی نے پیشرو خلفاء کے اتباع کی شرط قبول نہیں کی۔حضرت عثمان کے سامنے جب انہوں نے یہ شرطیں پیش کیں تو انہوں نے ساری شرطیں قبول کرلیں ۔ چنانچہ بارامارت وخلافت ان کے سر پر رکھ دیا گیا۔اس واقعہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے کہ امارت وحکومت مشروط بھی ہوسکتی ہے ۔امارت دراصل امیر اور مامورین کے درمیان ایک معاہدہ ہے اور معاہدہ میں طرفین کے درمیان کوئی مناسب شرط بھی طے ہوسکتی ہے۔اس لئے ارباب حل وعقد کوئی دستور بنائیں اور اس میں امیر کی مدت امارت پانچ سال یا کوئی اور مدت طے کریں تو اس کی پابندی قرینِ مصلحت ہوگی ۔
امیر كی ذمہ داری
امیر کی اولین ذمہ داری اللہ تعالی کے احکام اور قوانین کو نافذ کرنا ہے ، جن میں سب سے اہم اقامت صلوۃ ہے ۔ اسلامی ریاست کی یہی سب سے اہم داخلہ پالیسی ہے ،اس كے علاوه امیرکا کام اسلام کو دنیا میںپھیلانا ہے ، اسلام کے تعارف اور تبلیغ کے لئے دعوت کے نظام کو مستحکم کرنا ہے ، یہ اسلامی ریاست وامارت کی اہم ذمہ داری ہے ۔امیر كو اگر اپنی ذمہ داریوں کا خیال نہیں تو وہ اسلامی ریاست وامارت کے مقصدکونظرانداز کرنے والا اور اپنی ذمہ داری کو فراموش کرنے والاہے۔الله كے فضل سے جماعت اسلامی میں دعوت کا شعبہ قائم ہے اور جماعت کے نئے منتخب امیرجناب سعادت اللہ حسینی نے بھی اپنے بیان میںاس کام کی اہمیت پر زور دیا ہے ۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی تمام منصوبہ بندیوں میں کلیدی حیثیت دعوت کو حاصل ہونی چاہئے کہ ان کے اور برادران وطن کے درمیان خلیج کم سے کم ہو ۔اگر ترسیلِ حق اور مکالمہ کا ماحول قائم نہیں ہواتو پرسنل لا سمیت تمام دیگر معاملات میں ناکامی کا اندیشه هے ۔ ناواقفیت كی بنا پرہم سایہ برادران وطن کے ایک گروہ کواسلام اور مسلمانوں سے پرخاش ہے ، ان كی مخالفت كے سبب مسلمانوں کے مسائل حل نہیں ہوسکیں گے ۔یہ حقیقی مفکر اسلام کا کام ہے کہ مسائل کے اصل سبب کا سراغ لگائے اور اسلام اور مسلمانوں سے برادران وطن کی اجنبیت کو دور کرنے کی کوشش کرے۔دهلی كے معروف ادارے انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز نےاس معاملے میں بیداری کا ثبوت دیا ہے اس ادارہ نے مختلف مذاہب کے لوگوںکی کانفرنس بلائی اوران كے درمیان تباد لہ خیال اور ڈائلاگ کا موقعہ فراہم کیا ،انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے بودھ گیا مگدھ یونیورسیٹی میں ایسی ایک کانفرنس ہوچکی ہے اور بنارس ہندو یونیورسیٹی میں ایسی ہی ایک اور کانفرنس ہونے والی ہے اس ادارہ نے ’’دعوت اسلام‘‘ کے نام سے کتاب شائع کی ہے اور مذاہب کے مطالعہ پر بھی کتابیں شائع کی ہیں جیسے ’’ مطالعہ مذاہب ‘‘ اور’’ ہندو مذہب مطالعہ اور جائزہ‘‘ ۔
مسلمانوں اور برادران وطن کے درمیان خلیج کو پاٹنے کے لئے پیام انسانیت کی تحر یک بھی بہت مفید ہوسکتی ہے جسے مولانا ابو الحسن علی ندوی نے شروع کیا تھا۔ اگر غلط فہمیوں کے ازالہ کی کی تحریکیں نہیں برپاکی گئیں تو اس ملک میں وہ وقت بھی آسکتا ہے جب دستور بدل دیا جائے اور مسلمانوں کے لئےبهت سے اسلامی قوانین پر عمل نا ممکن ہوجائے ۔ہمیں امید ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی دیگر تنظیموں کو بھی دعوتی سرگرمی کی توفیق ملے گی ۔
امیر كی صفات
امیر ہونے کے لیےضروری صفت یہ ہے کہ اسے امیر کے منصب کا حریص نہیں ہونا چاہئے ۔ اگر کوئی شخص اس منصب کا حریص ہو ا تو وہ امیر کے منصب کا اہل نہیں ہے ، بخاری اور مسلم کی حدیث ہے رسول اللہ۰ﷺ نے فرمایا بخدا ہم کسی ایسے شخص کو حکومت کے منصب پر مقرر نہیں کرتے جس نے اس کی درخواست کی ہو یا جو اس کا حریص ہو۔دوسری حدیث ابوداؤدکی ہے یعنی ہمارے نزدیک تم میں سے بڑا خائن وہ ہے جو خود اس کا طالب ہو ۔
آپ ﷺ نے حضرت ابو ذر کو منصب طلب کرنے پر یہ نصیحت کی تھی اے ابو ذر تم کمزور ہو اور یہ منصب امانت ہے اور قیامت کے روز وہ رسوائی اور ندامت کا موجب ہوگا ، ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ’’جو شخص امیرکے منصب پرفائز ہوا اس کو سب سے بھاری حساب دینا ہوگا اور وہ سب سے زیادہ عذاب کے خطرہ میں مبتلا ہوگا ‘‘۔ان حدیثوں کو سامنے رکھئے تو محسوس ہوگا کہ مبارکباد کا مستحق وہ نہیںہے جو امیر ہوگیا ہے بلکہ وہ شخص ہے جو امیر نہیں ہوا ہے ۔ مولانا مودودی نے اپنی کتابوں میں امارت کا یہی اصول بیان کیا ہے ۔ راقم سطور کے نزدیک بعض خاص استثنائی حالات میں امارت طلب بھی کی جاسکتی ہے ، کبھی قوم اور ملک کے حالات بہت دگرگوں اور پر آشوب ہوں اور ایک شخص مخلصانہ طور پر یہ محسوس کرے کہ اس کے پاس ایسی صلاحیتیں ہیں جن سے وہ بگاڑ کو درست کرسکتا ہے تو وہ اپنے آپ کو عہدہ کے لئے پیش کرسکتا ہے ، سورہ یوسف میں ہے کہ مصر میں جب قحط اور خشک سالی پھیل گئی تھی او اقتصادی نظام درہم برہم ہوگیا تھا اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے جنہیں اللہ نے انتظام کی غیر معمولی صلاحیت عطا کی تھی یہ مطالبہ کیا تھا سرزمین کا مالیاتی نظام میرے حوالہ کردو۔
شُوریٰ كی حیثیت
مسئلہ امارت میں ایک بحث یہ بھی ہے کہ امیر شوری کا پابند ہے یا نہیں ۔اس پر سب کا اتفاق ہے کہ امیر کے لئے ضروری ہے کہ خود اسکا انتخاب اہل الراے سے مشاورت کے بغیر نہ ہوا ہو اور وہ خود تمام اجتماعی معاملات میں اہل الراے سے مشاورت کا اهتمام كرے اور اجتماعی کام کو مشورے کے بغیر انجام نہ دے۔ (وَأَمْرُہُمْ شُورَی بَیْنَہُمْ) ۔ ( الشوری ۳۸) اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مجلس مشاورت کی اکثریت کی بات کو پوری اہمیت دیتا ہو کیونکہ ایک شخص کے ہاتھ میں اختیارات کا ارتکاز نفس پرستی اور مفاد پرستی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہےكه امیر کو شوری سے مشورہ ضرور کرنا چاہئے لیکن وہ شوری کاپابند نہیں ہے۔یه رائے صحیح نهیں معلوم هوتی۔ امیر کو اکثریت کی رائے پر عمل کرنا چاہئے ترمذی کی روایت ہے شیطان شخص واحد کے ساتھ ہوتا ہے اور دو شخص ہوں تو زیادہ دور ہوجاتا ہے ۔ حضرت علی کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے امیر کے لئے یہ حکم دیا کہ ’’ میری امت کے اہل تقویٰ کو جمع کرو اور متعلقہ امر کے بارے میں مشورہ کرو اور کسی ایک رائے کو فیصلہ کی بنیاد نہ بناو ‘‘ ۔
عدل
امیر کی بہت اہم صفت عدل وانصاف کا قیام ہے (وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ )النساء ۵۸ یعنی جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ۔(امرت لاعدل بینکم) یعنی مجھے حکم دیاگیا ہے کہ میںتمہارے درمیان عدل کروں۔ آیت میں حکم اور حکومت کے الفاظ کے ساتھ عدل کا لفظ آیا ہے معلوم ہوا کہ حکومت اور امارت کے ساتھ عدل وانصاف کی صفت لازم وملزوم ہے ۔ عدل وانصاف امیر کی اہم صفت ہے، یعنی لازما امیر کو اس صفت سے متصف ہو نا چاہئے ۔
امیر کی صفت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی جان ومال اور آبرو کی حفاظت سے ذرا غافل نہ ہوحجۃ الوداع کے خطبہ میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا تمہاری جانیں اور تمہارا مال اور تمہاری آبرو ویسی ہی محترم ہیں جیسے آج حج کا یہ دن محترم ہے ۔دنیا میں کہیںبھی مسلمان مظلوم اور ستم رسیدہ نہ ہوں ان کی سرزمین پر کسی دوسرے کا قبضہ نہ ہوکوئی ان پر حملہ آور نہ ہو یہ سب دیکھنا مسلمان حاکم اور امیر کی ذمہ داری ہے۔ اس کے حدود امارت میں کسی مسلمان کے ساتھ کوئی نا انصافی نہ ہو اس کا خیال کرنا امیر کی ذمہ داری ہے، مسلم کی حدیث ہے کہ کوئی حاکم اور امیر جو مسلمانوں کی حکومت کاکوئی منصب سنبھالے پھر اس کی ذمہ داریاں ادا کرنے کیلئے جان نہ لڑائے اور خلوص کے ساتھ کام نہ کرے وہ مسلمانوں کے ساتھ جنت میں قطعا دا خل نہ ہوگا۔امیر کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے فرائض وفاداری اور مستعدی کے ساتھ انجام دیتا ہو ۔
امیر کو یہ جاننا چاہئے کہ امارت اس کے دستار کی کلغی نہیں ہے یہ کوئی لائق فخر تمغہ نہیں ہے ۔ یہ کانٹوں کی سیج ہے ، یہ ذمہ داری کا بوجھ ہے۔
امیر کی ایک اہم صفت یہ ہے کہ وہ اپنے اردگرد خوشامدی اور چاپلوس لوگوں کی بھیڑ نہ لگائے۔کنزالعمال کی حدیث ہے جس نے کسی حاکم اور امیر کو راضی کرنے کے لئے وہ بات کی جو اس کے رب کو ناراض کردے تو وہ اللہ کے دین سے نکل گیا ۔
تنقید
امیر اور حاکم کی بہت اہم صفت یہ ہے کہ وہ تنقید کو نہ صرف یہ کہ برداشت کرے بلکہ اس کا خیر مقدم کرے ۔جو امیرآتش مزاج ہو تنقید کو سن کر برافروختہ ہوجائےجز بز ہوجائے، اس کے ماتھے پر بل آجائے، اس کی نگاہ خشمگیں ، اس کا چہرہ غضب آلود، اس کی جبین پر شکن ہوجائے یعنی وہ طیش میں آجائے۔ وہ ہرگز امارت کا اہل نہیں ہے ۔حضرت عمر نے اپنی مجلس مشاوت میں یہ فرمایا تھا کہ آپ میں سے جس کا جی چاہے مجھ سے اختلاف کرے اور جس کا جی چاہے اتفاق کرے۔ میں نہیں کہتا کہ آپ میری رائے کا ساتھ دیں ۔ حضرت ابوبکرنے عام بیعت کے بعد لوگوں کے سامنے کہا تھا کہ ’’اگر میں ٹھیك کام کروں تو میری مدد کیجئے اور اگر غلط کام کروں تو مجھے سیدھا کردیجئے ۔‘‘خلافت راشدہ کے زمانہ میں تنقید اور اظہار رائے کی پوری آزادی تھی اور خلفاء ہر وقت اپنی قوم کی دسترس میں ہوتے تھے۔ حضرت عمرنے ایک بار اپنی مجلس میں پوچھا اگر میں بعض معاملات میں غلط یا ڈھیلا رویہ اختیار کروں تو تم کیا کروگے ایک صحابی نے جواب دیا ہم آپ کو تیر کی طرح سیدھا کردیں گے یہ سن کر حضرت عمر نے کہا ’’تب تم لوگ کام کے آدمی ہو‘‘
عمدہ سیرت وکردار امیر کی اہم صفت ہے ،وه ایسا شخص ہو جو متقی اور پرہیزگار ہو (ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم ) اللہ کے نزدیک تم میں سب سے برگزیدہ وہ شخص ہے جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔ تقوی اختیار کرنے کاایک مطلب حسن اخلاق اختیار کرنا بھی ہے جو اچھی تربیت سے حاصل ہوتا ہے ۔امیر کو صاحب کردار اور متقی ہونا چاہیے ۔
امیرکے اندر انتظامی صلاحیت بھی ہونی چاہئے اس وقت ہندوستان میں کئی تنظیمیں ہیں، ہر امیر کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے حدیث میں ہے تم میں سے ہر شخص محافظ ونگراں ہے یعنی تم میں سے ہر شخص اپنے زیر دست جماعت کا ذمہ دار ہے ۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2019