ماہ رمضان المبارک کی اہم عبادت روزہ ہے۔اس کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پرفرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔(البقرۃ: 183)
تقویٰ کہتے ہیں اللہ تعالی سے محبت اور تعلق کے سبب اس کے بتائے ہوئے کاموں کو انجام دینا اورمنع کی گئی باتوں سے بچنا۔اس کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تقویٰ کا حصول جس طرح نیک کام کی انجام دہی سے ہوتا ہے ، اسی طرح اس کا حصول گناہوں سے بچے بغیر ممکن نہیں۔ روزہ کالغوی مطلب ہی بچنا ہے۔جیسا کہ حضرت مریم ؑ کو ہدایت دیتے ہوئے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَاِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا ۙ فَقُوْلِيْٓ اِنِّىْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْيَوْمَ اِنْسِيًّا ۔
’’پھر اگر کوئی آدمی تجھے نظر آئے تو اس سے کہہ دے کہ میں نے رحمن کے لیے روزے کی نذر مانی ہے ، اس لیے آج میں کسی سے نہ بولوں گی ۔‘‘ (مریم: 26)
اس وقت کی شرعیت میں روزے کے دوران خاموش رہنا بھی ضروری تھا۔
اس آیت کریمہ میں بات کرنے سے رکنےکو صوم(روزہ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔روزہ کی حالت میں ایک مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے ،پینےاور جنسی تعلق بچے۔ ہمیں معلوم ہے کہ عام حالات میں یہ کام جائز ہیں مگر حالت روزہ میں ان سے بچنا ضروری ہے۔یہ حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ بندے کی اندر اللہ کی اطاعتکی مشق ہوجائے۔روزہ ہماری تربیت کرتا ہے کہ ہم گناہوں سے دور رہیں۔
اس لیے جہاں روزے کی حالت میں مذکورہ چیزوں سے بچنا ضروری ہے وہیں دوسری بہت سی ایسی چیزیں بھی ہیں جن سے بچنا ناگزیر ہے۔ ورنہ روزہ صرف رسمی عبادت بن کر رہ جائے گا ۔ ہم اس کی برکت و فضیلت اور اس کے مقصد کو کماحقہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے تنبیہاً ارشاد فرمایا :
من لم يدع قول الزور والعمل به والجهل فليس لله حاجه أن يدع طعامه وشرابه (بخاري)
’’جس نے جھوٹی بات، اس پر عمل اورگناہ کو نہیں چھوڑا تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ ایسا شخص اپنا کھانا، پینا چھوڑ دے۔‘‘
صحیح بخاری کی اس روایت سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندے کو بھوکا پیاسا رکھ کر اسے اذیت میں مبتلا کرنا نہیں چاہتا اور نہ اسے ان کے بھوکا پیاسا رہنےکی ضرورت ہے۔ بلکہ وہ چاہتا ہے کہ بندہ نے حالت روزہ میں جس طرح کھانا پینا چھوڑا اسی طرح وہ برائیوں اور گناہوں سے بھی بچے اور اپنے رب کے حکم کے مطابق ہی زندگی بسر کرے اوراس کے احکام کا تابع بن کر اس کی منع کردہ باتوں سے گریز کرے۔ مذکورہ بالا روایت میں ’قول زور ‘ اس پر عمل اور جہالت سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔
’قول زور‘ کا مطلب جھوٹ بولنا ہے۔ جھوٹ ایک بری عادت ہے، جس کے سبب انسان اللہ کا ناپسندیدہ بندہ ہوجاتا ہے اور وہ دنیا میں بھی بہت سی مصیبتوں میں گرفتار ہوجاتا ہے، جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ انسان اگر جھوٹ سے اجتناب کرے تو وہ دیگر بہت سی برائیوں سے بچ سکتا ہے۔ جھوٹ پر عمل اس سے بھی زیادہ سخت ہے ۔ کیوں کہ جھوٹ بولنے سے انسان ایک غیر واقع بات کا صرف قائل ہوتا ہے جب کہ جھوٹ پر عمل کرنے والا اس بری بات کو نافذ کرنا چاہتا ہے۔ مثلاً کوئی چیز اس کی نہیں اور اس نے اس پر دعوی کردیا اور اسے حاصل کرنے کے لیے بہت سے عملی اقدام کیے۔ گویا اس نے اس جھوٹ پرعمل کیا جو بہت بری بات ہے۔ اس سے معاشرہ تباہ و برباد ہوتا ہے۔
رہی بات جہالت کی تو انسان جب گناہ کرتا ہے تو وہ اللہ تعالی کی شان اور اس کی عظمت و کبریائی کوفراموش کر دیتا ہے اور ان تمام برے کاموں کا مرتکب ہوتا ہے جن سے اللہ نے منع کیا تھا۔
اس تعلق سے حضرت عمرفاروق ؓ کا قول بھی ہمارے سامنے رہے وہ فرماتے ہیں:
’’ليس الصيام من الطعام والشراب وحده، ولكنه من الكذب والباطل واللغو والحلف‘‘
روزہ محض کھنے پینے سے رکنے کا نام نہیں، بلکہ وہ جھوٹ، باطل اور غیر ضروری کاموں اور حلف سے رکنے کا نام ہے۔
ایک روایت میں نبی کریمﷺ نے روزہ کو گناہوں سے بچنے کے لیے ڈھال قرار دیا ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ اس کے ذریعہ گناہوں سے بچا جاسکتا ہے۔آپ ؐنے ارشاد فرمایا:
الصِّيَامُ جُنَّةٌ، فَلاَ يَرْفثْ وَلاَ يَجْهَلْ، وَإِنِ امْرُؤٌ قَاتَلَهُ أَوْ شَاتَمَهُ، فَلْيَقُلْ إِنِّي صَائمٌ – (بخاري)
’’روزہ ڈھال ہے۔لہذا روزے کی حالت میں آدمی نہ کوئی برا کام کرے اور نہ ہی کسی پر زیادتی کرے۔ اگر کوئی شخص اس سے جھگڑنے پر آمادہ ہو یا اسے برا بھلا کہے۔ تو اسے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ یہ بات آپ نے دو بار ارشاد فرمائی۔
حالت جنگ میں جب چاروں طرف سے تلواریں چل رہی ہوں۔ اس وقت انسان اپنے بچاؤ کے لیے ڈھال کا سہارا لیتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح گناہوں کے وار سے بچنے کے لیے مومن کوروزہ کا سہارا لینا چاہیے۔
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک منادی آواز لگا تا ہے۔’’يا باغي الخير أقبل‘‘ (اے خیر کے طالب!پیش قدمی کر ’’يا باغي الشر أقصر‘‘ (اے گناہوں کی چاہت رکھنے والے ! گناہوں سے دور رہ)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ماہ مبارک میں جہاں ہمیں نیکیوں اور خیر کے کام انجام دینے چاہیے وہیں بری باتوں سے رکنا چاہیے۔
مشمولہ: شمارہ جون 2019