مفکر‘شاعر‘فلسفی ہرایک نے عورت سے متعلق اپنی ذہنی سطح اوردانست کے تحت کچھ نہ کچھ ضرور کہا ہے ‘ کسی نے اسے خراج تحسین پیش کیا ہے تو کسی نے اسے ہدف تنقید بھی بنایاہے ۔کوئی کہتا ہے کہ عورت کائنات کا سب سے خوبصورت حصہ ہے ‘ اور کسی نے کہا ہے کہ کائنات کا اصل حسن عورت کے دم سے ہے ‘کسی نے اسے ممتا کا ساگر کہا اورکسی نے اسے محبت کا دریاکہا اور کسی نے اسے سانپ کی طرح زہریلی قراردیا اور کسی نے اسے بدی اورگناہ کا مجسمہ کہا ۔ بہرحال جب سے دنیاوجود میں آئی ہے ‘عورت کی ذات پر لب کشائی ضرور کی گئی ہے ‘ مذہبی صحیفوں میں بھی خواتین کا ذکرموجود ہے ۔ظاہر ہے عورت مرد کی دم ساز ہے ‘ اس کی ذات کو نظرانداز کیسے کیاجاسکتا ہے ۔اگرمرد کائنات کا نصف ہے تو عورت بھی کائنات کا نصف ہے ‘اگرمرد انسان ہے تو عورت بھی انسان ہے ‘اگرمرد مخلوقات میں اشرف ہے تو عورت کو بھی یہی مقام حاصل ہے ‘لیکن اس کی اس پوزیشن اورحیثیت کو ‘ دور جاہلیت میں قبول نہیں کیاگیاتھا ۔ تاریک دور میں عورت کے ساتھ جوسلوک کیاجاتا تھا ‘اس سے سب واقف ہیں ‘عورت پرظلم کی داستانیں ‘ آج بھی انسانی روح کو کانپنے پرمجبورکرتی ہیں۔اسلام سے پہلے عورت کی حالت جانوروں سے بھی بدترتھی‘ یہ اسلام ہی تھا جس نے عورت کے آنسوپونچھے‘ اس کے دل پرتسلی کا ہاتھ رکھا‘اسے عزت بخشی ‘ اسے ماں ‘ بیوی ‘ بہن ‘بیٹی کا منصب عطاکیا‘اسے تمام فطری حقوق ادا کیے ‘اسے تاریکیوں سے روشنی کی جانب لایا ‘ اس کی راہوں سے تمام تر خارچن لیے گئے ‘اور اس کے دامن کو ان گنت پھولوں سے بھردیاگیا ‘وہ سراٹھاکر چلنے کے قابل ہوگئی ‘ علم وہنر کی نعمت سے اس نے اپناآنچل بھرلیا ‘ جب اسے آزادفضاء میں سانس لینے کا موقع ملا تو اس کا‘ اس نے بھرپورفائدہ اٹھایا‘مختلف علوم میں اس نے دسترس حاصل کی ‘ یہاں تک کہ مرد بھی اس کی عقل و فہم سے مستفیض ہونے لگے ‘مسائل کے حل کے لیے اس سے رجوع ہونے لگے ‘ مختلف معاملات میں اس کی رائے جاننے لگے ۔
وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو آزادی اور مساوات سے محروم کررکھا ہے ‘انہیں قرآن وحدیث کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ کیسے اس کی زندگی کی محرومیاں نعمتوں میں بدل گئیں۔
اپنے حاکم ‘امیریاخلیفہ کے سامنے مرد حضرات بھی کچھ کہنے سے خائف ہوں گے ‘چاہے حق بات ہی کیوں نہ ہو اسے بیان کرنے میں اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ امیریاحاکم ناراض نہ ہوجائیں ‘لیکن اسلام کا حسن دیکھئے ‘ امتیاز دیکھئے‘مساوات اورآزادی کا عالم دیکھئے‘‘اظہاررائے کا اختیار دیکھئے کہ ایک عورت بھری محفل میں امیرالمومنین حضرت عمرفاروق ؓ کوٹوکتی ہے ‘ جب وہ مہر کے تعلق سے بیان فرمارہے تھے‘وہ عورت انہیں قرآن کی آیات کا حوالہ دیتی ہے ‘اورحضرت عمر ؓ اس عورت کی بات کو قبول کرلیتے ہیں‘عورت کی مداخلت پر نہ وہ ناراض ہوتے ہیں نہ ہی اسے ‘ یوںمحفل میں کچھ کہنے سے روکتے ہیں ‘جبکہ حضرت عمرفاروق ؓ کے رعب و دبدبہ کا یہ عالم تھا کہ شیطان انہیں دیکھ کراپنا راستہ بدل لیتاتھا۔ اس واقعہ پرغور کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلام میں عورت کا کیا مقام ہے ‘ اسے کس درجہ حقوق حاصل ہیں۔
قرآن حکیم اوراحادیث میں متعدد مقامات پر عورت سے متعلق ہدایات موجود ہیں‘انہیں سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے ‘تاکہ صحیح تصویرسامنے آجائے اورکم علمی اورکم فہمی کے سبب غیرقوم کے ساتھ ‘ مسلمانوں کا ایک طبقہ بھی اسلام پرانگشت نمائی نہ کر سکے۔
اسلام نے عورت کوپردے کا حکم دیاہے اور حقوق نسواں کے علمبردارسب سے زیادہ اس کونشانہ بناتے ہیں ‘مسلم خواتین کی ہمدردی میں آنسو بہاتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو گھرمیںقید کردیا ہے ‘چادروں میں لپیٹ دیا ہے ‘ پردہ ان پر ظلم ہے ‘اگرعورت پرپردہ لازم ہے تو مردکوبھی پردہ کرنا چاہیے ‘وغیرہ۔ایسے کم عقلوں کو ان آیات کوسامنے رکھناچاہیے جن میں پردے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی وضاحت بھی کی گئی ہے کہ عورت کن سے پردہ کرے اورکیوں کرے ‘جہاں یہ کہاگیا ہے کہ عورتیں اپنی نگاہیں نیچی رکھیں‘وہیں یہ بھی کہاگیا ہے کہ مرداپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔
فطرت کا یہ قانون ہے کہ قیمتی چیزوں کی عام چیزوں سے زیادہ حفاظت کی جاتی ہے اور اس کا مظہر ہمیںہرجگہ نظرآئے گا۔آنکھ اوردماغ انتہائی اہم اعضاء ہیں‘ اس لیے انہیں ایک سخت خول میں محفوظ رکھا گیا ہے۔کانچ کی اشیاء بڑی نازک ہوتی ہیں ‘اسی لیے انہیں انتہائی احتیاط کے ساتھ رکھاجاتا ہے ‘انہیں پیک کرنا ہوتو ان کی نازکی کو ملحوظ رکھ کرپیک کیاجاتا ہے ‘ تاکہ وہ ٹوٹنے سے بچ جائیں۔عورت بھی انتہائی نازک ہے ‘اسے بھی خاص توجہ کی ضرورت ہے ۔حجاب اسے قید نہیں کرتا بلکہ ایسی تمام چیزوں سے نجات دیتا ہے جو اس کی عفت اور عظمت کے لیے خطرناک ہوسکتی ہیں۔ عورت کی فطرت میں شرم اورجھجک کاعنصرپایا جاتا ہے‘ مسلم خواتین چادریاحجاب کے ذریعہ یہ ظاہرکرتی ہیں کہ وہ شرم وحیا والیاں ہیں ‘ اور اللہ کے احکام کی جان و دل سے پیروی کرتی ہیں۔وہیںغیرمسلم عورتیں بھی کئی دفعہ اپنے رویے اوررکھ رکھائوسے اس بات کا اعلان کرتی ہیں کہ عورت کا دوسرا روپ حیا ہے ‘ہمیں ایسی خواتین بھی نظر آجاتی ہیں جو مغرب گزیدہ ہوتی ہیں ‘ اور ایسی باحیا عورتیں بھی جو اپنے لباس اورستر کا بڑا خیال رکھتی ہیں ۔
ایک غیرمسلم خاتون بس میں سفرکررہی تھیں کہ ان کے نزدیک ایک اجنبی شخص کسی پس وپیش کے بغیر بیٹھ گیااوروہ غیرت مند خاتون اس شخص کوکسی اور نشست پربیٹھنے کے لیے کہنے لگیں‘اور وہ بے لحاظ آدمی بحث کرنے لگ گیا کہ وہ وہاں سے نہیں ہٹے گا ‘ اس کی اس بحث پرخاتون نے مرعوب ہوکر خاموشی نہیں اختیار کی ‘بلکہ اسے اپنے قریب سے اٹھاکر ہی دم لیا۔ایسی خواتین کثرت سے پائی جاتی ہیں جو اس طرح کا رویہ اختیارکرتی ہیں‘ ان کے اس رویہ کوکیاکہاجائے کہ وہ روشن خیال نہیں ہیں ‘ آزادی کی خواہاں نہیں ہیں؟یا یہ کہ وہ نسوانیت کے جوہرسے خوب آشناہیں اوراس پر کوئی حرف آنے نہیں دیناچاہتیں۔
خواتین کے لیے آزادی اورمساوات کے نعرے لگانے والے ‘ ان کی فطرت ‘ ان کی نفسیات کوکوئی اہمیت نہیں دیتے‘جبکہ اسلام ان کی فطرت اورنفسیات کا حددرجہ احترام اورلحاظ کرتا ہے‘ انہیں ’’آبگینے‘‘ سے تشبیہ دیتا ہے۔مردکوخبردارکرتا ہے کہ کہیں وہ سخت رویہ اختیار کرکے عورت کوتوڑ نہ دے ‘بارہا یہ تلقین کی گئی ہے کہ صنف نازک کے ساتھ حسن سلوک کرو۔عورت کی نگرانی اورپرورش کو اجرو ثواب سے جوڑکر مردوں کو اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ وہ عورتوں کے تئیں مہرومحبت اورلطف وکرم کاخاص رویہ اپنائیں ۔
یہ عنایتیں جواسلام نے عورت پرنچھاور کی ہیں ‘ کیا آزادی ٔ نسواں کی تحریک اورمساوات کے مبلغین کے پاس اس کا کوئی جواب ہے ؟ انہوں نے توعورت کولوٹ لیا ‘اس کی نسوانیت کا استحصال کیا ‘ آزادی کے خوش نما نعرے لگاکر اسے گھر سے بے گھرکردیا ‘ اس کے وقار کو مجروح کیا۔
اگر غیرمردوں سے اختلاط اور اپنی نمائش کا اہتمام آزادی ہے ‘اگرماں‘ بہن‘ بیوی‘ بیٹی کے کرداروں اور ان کی ذمہ داریوں سے خودکوآزاد کرلینا روشن خیالی ہے ‘ اگرگھرکی جنت کوٹھوکرمارکر دردربھٹکنا حریت ِ نسواں ہے توایسی آزادی ‘ایسی حریت ‘ایسی روشن خیالی پرلعنت ہے ۔خواتین کو اورخصوصاً مسلم خواتین کو ایسی آزادی کی قطعاً ضرورت نہیں ہے ‘وہ اپنے خالق ومالک اوراپنے محسن اعظم ؐ کا صدہا شکر ادا کرتی ہیں کہ انہیں اسلام نے جودیا ہے وہ بہت ہی فطری اورحق پرمبنی ہے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2017