فرائض میں سب سے بڑا فریضہ نماز ہے۔اس لیے گھر کا ہر نمازی یہ طے کرے کہ اسے ’’دعوتِ نماز ‘‘کا فریضہ انجام دینا ہے۔
نماز قائم کرنے والوں کی اہم ذمے داری ہے کہ وہ بے نمازیوں کو نماز کا حکم دیں، خواہ ان کے والدین ہوں،یا بھائی اور بہنیں ہوں، بیٹے اور بیٹیاں ہوں،یا بہوئیں اور بیویاں ہوں۔
سورہ طٰہٰ کی اس آیت میں صاف صاف حکم دیاگیاہے کہ گھر والوں کو نماز کا حکم دو۔ فرمایا:
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَیهَا (سورةطٰہٰ: ۱۳۲)
’’اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور اس پر جمے رہو۔‘‘
یہ آیت اس بات پر ابھارتی ہے کہ ہم اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں۔ مگرافسوس! آج نماز کے معاملے میں مسلمانوں کا عام حال یہ ہے کہ گھر والے نمازیں چھوڑدیں، انھیں ا س کی پروا نہیں۔
ہمیں اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ ہم اپنے گھر والوں کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں، اٹھتے بیٹھتے ہیں، سوتے جاگتے ہیں، ہنستے بولتے ہیں، کیا ہم انھیں نماز کا حکم دیتے ہیں؟جب کہ ہم انھیں لکھنے پڑھنے کا، ایجوکیشن میں آگے بڑھنے کا،بازار سے سامان لانے کا،کھیت کی دیکھ بھال کرنے کا،تجارت کرنے کا حکم دیتے ہیں۔
ہاں، ہم انھیں روز نہ جانے کن کن باتوں کااور کن کن کاموں کا حکم دیتے ہیں۔اگر گھر کا کوئی فرد آپ کی بات نہ مانے توآپ غصہ ہوتے ہیں۔ناراض ہوتے ہیں۔بگڑتے ہیں۔جھڑکتے ہیں۔ڈانٹتے ہیں۔پھٹکارتےہیں۔سختی کرتے ہیں۔
لیکن۔۔۔ کیانماز نہ پڑھنے پر بھی آپ کا وہی رویہ ہوتا ہے جو دوسرے کام نہ کرنے پر ہوتا ہے؟سوچیے۔سوچنےکامقام ہے۔
کیا قرآن میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں ہم نے یہ نہیں پڑھا کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیا کرتے تھے؟
وَكَانَ یأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِیا (سورةمریم: ۵۵)
’’اور وہ اپنے گھر والوں کونماز (قائم کرنے اور زکاة ادا کرنے)کا حکم دیتے تھے۔ اور وہ اپنے رب کے بہت پسندیدہ تھے۔‘‘
سورہ نساءکی یہ آیت توآپ نےبارہاتقریروں میں سنی ہوگی: اَلرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ (سورة النساء: ۳۴)
اہلِ لغت نے کہا ہے کہ ’قَامَ الرَّجُلُ الْمَرْاَۃَ وَ قَامَ عَلَیْہَا‘کے معنی ہوتے ہیں: مرد نے عورت کی کفالت کی، اس کی ضروریات کو پورا کیا اور ان کا ذمہ دار ہوا، اس کے لیے رسد لایا۔ قوَّام کے معنی ہیں : سامانِ رزق مہیا کرنے والا کیوں کہ رزق سے معاشرتی زندگی کا توازن قائم رہتا ہے۔ ’قَامَ عَلَیھَا ‘وہ اس کی ضروریاتِ زندگی کا ذمہ دار ہوا،وہ اس کے رزق پہنچانے کا کفیل بنا۔
یہ سب کچھ آپ کرتے ہیں تو کیاآپ پر یہ فرض نہیں ہے کہ گھر کی خواتین پر اس سے کہیں زیادہ اس پہلو پر توجہ دیں کہ وہ نمازوں کا اہتمام کریں؟کیا یہ آپ کی ذمے داری نہیں ہے؟کیا آپ کی صرف اتنی ہی ذمے داری ہے کہ ان کے کھانے اور کپڑے کا بند وبسط کریں اور ان کی عبادت کے تعلق سے کچھ نہ کریں؟
اپنے گھر کی عورتوں کو نماز کی طرف متوجہ کریں
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ حکمت اور دل سوزی کے ساتھ انھیں نماز کی اہمیت بتائیں۔ کیا ہی خوب ہو اگر آپ کی نصیحت کے نتیجے میں آپ کے گھر والے نماز کے شوقین اور پابند ہوجائیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ اپنی نماز کے ساتھ اپنے گھر والوں کی نمازکو بھی اپنی فکر مندی کا موضوع بنائیں۔ اس کا اظہار روزانہ ہو۔ جب آپ نماز کے لیے گھر سے باہر نکلیں تو ان سے یہ کہہ کر نکلیں کہ آپ سب لوگ نماز ادا کرلیں۔وقت ہوگیاہے۔اب نماز کے بعد جھاڑو لگے گی۔ برتن دھلاجائےگا۔ کھاناپکےگا۔ پھر جب نماز ادا کرکے گھر میں داخل ہوں تو نرمی سے پوچھیں کہ ابھی تک کن کن لوگوں نے نماز نہیں ادا کی ہے۔ یعنی آپ نماز کے سلسلے میں اپنی فکرمندی کا مسلسل اظہارکریں۔یہ آپ کے روزانہ کا معمول ہو۔
اس ’’دعوتِ نماز‘‘ کا بہترین نتیجہ یہ نکلے گا کہ گھر کی نمازی عورتیں، ’’نمازی‘‘ بنی رہیں گی اور نمازوں کو چھوڑنے والی اور نمازوں سے سستی برتنے والی عورتیں ’’نماز کی پابند‘‘ بنتی جائیں گی۔
اپنے بچوں کو نمازی بنانے کی فکر کریں
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں قرآن بتاتا ہے کہ وہ اہتمامِ نماز کے لیے بے حد فکر مند رہتے تھے، خود اپنے لیے اور اپنی نسل کے لیے۔ ان کی اس فکر مندی کا ذکر اس دعا میں کیا گیا ہے:
رَبِّ اجْعَلْنِى مُقِیمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّیتِى رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ (سورةابراہیم: ۴۰)
’’اے میرے رب! مجھ کو اور میری اولاد کو نماز کا خاص اہتمام کرنے والا بنادیجیے۔اے ہمارے رب!اور میری یہ دعا قبول کرلیجیے۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسی فکر مندی پیدا ہوجائے اس کی فکر ہمیں ہونی چاہیے اور اس کے لیے رب العالمین سے دعا بھی کرتے رہنا چاہیے اور کوشش بھی۔
کیا آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی جس میں بتایا گیا کہ لقمان حکیم اپنے بیٹے کونماز کا حکم دیا کرتے تھے؟
یا بُنَىَّ أَقِمِ الصّلَاةَ (سورةلقمان: ۱۷)
’’میرے پیارے بیٹے! نماز قائم کر۔‘‘
اپنے بچوں کوچھوٹی عمر میں نماز کا عادی بنائیں تاکہ وہ نماز کے عادی ہوجائیں اوربڑے ہوکر نماز ضائع نہ کریں۔
اپنے بچوں کو نماز فرض ہونے سے پہلے نماز کی تعلیم دیں تاکہ نماز فرض ہونے کے بعد وہ نماز کے پابند بن جائیں۔
اپنےبچوں کونمازکی اہمیت بتائیں تاکہ وہ نماز کو اپنی زندگی کا اہم ترین کام سمجھنے والے ہو جائیں اور وہ ہر کام پر نماز کو فوقیت دینے والے بن جائیں۔
اپنےبچوں کےدلوں میں نمازکی عظمت بٹھائیں تاکہ وہ شوق اور مسرت کے جذبات کے ساتھ نماز ادا کرنے والے بن جائیں۔
والدین کو حکم دیا گیا کہ جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اس کی نماز کی نگرانی کریں تاکہ بالغ ہونےسےپہلےنماز کا پابند ہوجائے اور بالغ ہونے کے بعد اس کی ایک نماز بھی نہ چھوٹے؛ کیوں کہ ایک وقت کی نماز جان بوجھ کر چھوڑنےسےاس بات کاپورااندیشہ ہےکہ وہ بقیہ نمازیں بھی چھوڑسکتاہے۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
حَافِظُوا عَلىٰ أَبْنَائِكُمْ فِی الصَّلَاةِ وَعَوِّدُوْهُمُ الْخَیرَ فَإِنَّ الْخَیرَ عَادَةٌ (روَاه الطَّبَرانِیّ)
’’اپنے بچوں کی نماز کی نگرانی کرو اور انھیں خیر کا عادی بناؤ، کیوں کہ خیر اچھی عادت ہے۔‘‘
’’ہشام بن عروہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب ان کے بچے شعور کی عمر کو پہنچ جاتے تو انھیں نماز کا حکم دیتے اور جب اُن کے اندر روزہ رکھنے کی استطاعت ہوجاتی تو انھیں روزہ رکھنے کی تاکید کرتے۔‘‘
رَوَى هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ: أَنَّهُ كَانَ یأْمُرُ بَنِیهِ بِالصَّلَاةِ إذَا عَقَلُوهَا وَبِالصَّوْمِ إذَا أَطَاقُوهُ
(أحكام القرآن،ج۳ص: ۴۳۰)
بچوں کو نماز کا عادی بنانے کے لیے مختلف تدبیروں اور طریقوں کو اپنانا چاہیے۔
ایک طریقہ یہ ہےکہ گھرسےمسجدجاتےوقت بچوں کوساتھ لےلیں۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ نفل نمازیں گھر میں ادا کی جائیں۔ اس سے بچوں میں نماز کا شوق پیدا ہوگا۔
تیسرا طریقہ یہ ہے کہ گھر میں نماز کے لیے ایک ایسی جگہ خاص کر لیں جہاں دادی، نانی، امّی، آپا سب نماز ادا کریں اور ساتھ میں بچے بھی۔ اس طرح بچپن ہی سے بچے نماز کا طریقہ سیکھ لیں گے اور ان کے دلوں میں نماز کی محبت پیدا ہوگی اور نماز سے اللہ کی محبت پیدا ہوگی۔
ہمارے بچے مسجدوں سے دورکیوں؟
بچوں کی مسجد وں سے دوری کی کئی وجوہات ہیں۔جیسے یہ کہ:
ہم بچوں کو اپنے ساتھ مسجد نہیں لے جاتے۔ نماز کا وقت ہوگیا، ہم اٹھے اور خاموشی سے مسجد چلے گئے۔شاید مسجد جانے کے لیے کہتے بھی نہیں۔ نماز کے وقت بھی بچے کھیل رہے ہیں۔ہمیں کوئی فکر نہیں۔
جو بچے مسجد جاتے ہیں اور کوئی شرارت کر بیٹھتے ہیں توبعض حضرات ان پر غصہ کرتے ہیں۔انھیں ڈانٹتے پھٹکارتے ہیں۔مارتے پیٹتے ہیں۔
کچھ لوگ بچوں کو اگلی صف میں بیٹھا دیکھ کر انھیں سختی سے پکڑ کر پیچھے کر دیتے ہیں۔کہتے ہیں: پیچھے بیٹھو ورنہ کل سے مت آنا۔
اسی طرح بچوں کو باتیں کرتے دیکھ کر تھپڑ لگا دیتے ہیں۔’’بد تمیز چپ چاپ بیٹھو ورنہ مسجد سے باہر ہوجاؤ۔‘‘
بعض امام صاحبان بچوں کوسر عام ذلیل کرتے ہیں۔شیطان، خبیث،ماں باپ نے کچھ سکھایا نہیں ہے کیا؟اسی طرح مسجد میں رہتے ہیں؟
ان سب سخت رویوں، گرم لہجوں، سخت غصے والے مزاجوں اور بچوں کی بے عزتی کرنے، ڈانٹنے پھٹکارنے اور مارنے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟انھیں گھورنے، مارنے کے لیے دوڑنے اور گھسیٹنے کا انجام کیا ہوتا ہے؟ہماری مسجدیں بچوں سے خالی رہتی ہیں، حالاں کہ انھی بچوں کو تو کل جوان ہو کر پختہ نمازی بننا تھا۔ لیکن افسوس ان غنچوں پر جو بِن کھلے مُرجھا گئے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ بچوں کو بڑوں کی طرح مسجد کے آداب کا علم نہیں ہوتا ہے،اس لیے وہ مسجد میں بھی گھر کی طرح دوڑتے بھاگتے ہیں، شرارتیں کرتےہیں، کبھی اس صف میں جاتے ہیں کبھی دوسری صف میں، کبھی وضو خانے پر آکر دوسروں کی طرح منھ ہاتھ دھوتےہیں۔ ضرورت سے زیادہ ٹونٹی کھول بیٹھتے ہیں۔ کافی دیر تک ہاتھ پاؤں دھوتےرہتے ہیں۔ اس پر انھیں پیار سے سمجھانے کی کوشش ہونی چاہیے۔ کیوں کہ وہ ناسمجھ ہیں جیسے ہم اور آپ بچپن میں ناسمجھ تھے۔انھیں مسجد کے آداب بتانے اور سکھانے چاہئیں؛کیوں کہ انھوں نے سیکھا نہیں ہے۔ اس کے بہ جائے اگر ہم انھیں جھڑکیں گے،ڈانٹیں گے،پھٹکاریں گے،سخت سست کہیں گے،ماریں گے،پیٹیں گے، انھیں مسجد سے کھینچ کر، گھسیٹ کرباہر کردیں گے تو ان کی ’’دل شکنی ‘‘ہوگی۔اس طرح ہمارے بچوں کے اندر سےمسجد آنے کا شوق ختم ہوجائے گا۔ہمیں بچوں کو مسجدوں سے قریب کرنا ہے نہ کہ دور۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں۔اپنے سخت لہجے کو نرم کریں۔ برداشت کی قوت پیدا کریں۔بچوں کو مسجد کے آداب سکھائیں۔بچوں سے پیار سے بات کریں۔ غصے کے بہ جائے مسکرائیں اور اُنھیں دیکھ کر اپنے بچپن کو یاد کریں کہ ہم سب بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔اس طرح ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لاکر بچوں کو مسجد سے قریب کرسکتے ہیں۔انھیں مسجد سے جوڑ سکتے ہیں۔ انھیں مستقبل کا نمازی بناسکتے ہیں۔ان کے دلوں میں نماز اور اللہ کی محبت بٹھا سکتے ہیں۔تو آئیے اور مسجدوں اور دلوں کے دروازے بچوں کے لیے کھول دیجیے۔
مشمولہ: شمارہ جون 2024