قرآن مجید پر غور وفکر کی دعوت

ہندوستانی مسلم معاشرہ میں آج بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو کہتا ہے کہ قرآن پر غوروفکر کرنا محض علماء کرام کا کام ہے ۔عام مسلمان قرآن کو کیسے سمجھ سکتا اوراُس پر غوروفکر کر سکتا ہے ؟۔چنانچہ ہندوستان کی مسجدوں اور گھروں سے تلاوت کی آواز تو آتی ہے لیکن قرآن فہمی اور درس قرآن کا اہتمام نہیں ہوتا ۔ قرآن جو شاہِ کلید کی حیثیت رکھتا ہے اسے محض چند فضائل تک محدودکر دیا گیا ہے ۔کسی کی وفات پر ،نئے مکان یانئے دکان کے افتتاح پر قرآن خوانی کی محفل منعقد کی جاتی ہے ۔ مسجدوں میں درس قرآن کے بجائے بزرگوں کی حکایات کو اہتمام کے ساتھ پڑھ کر سنا یا جاتا ہے ۔قرآن کے ساتھ یہ کس طرح کا برتائو کیا جا رہا ہے یہ غوروفکر کا مقام ہے ۔قرآن خوانی کی محفل میں قرآن کے ایک لفظ پر بھی غورو فکر کرنے کی توفیق نہیں ہوتی ۔

محرّک:

قرآن مجید پر غوروفکر کرنے کے سلسلے میں ایک رکاوٹ موجودہے،وہ یہ ہے کہ لوگوں کو اس حدیث کی وعید کے دائرے میں داخل ہو جانے کا اندیشہ ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا :’’ومن قال فی القرآن برائیہ فلیتبوا مقعدہ من النار ‘‘’’جس شخص نے قرآن مجید کے سلسلے میں اپنی رائے سے کچھ کہا تو وہ شخص اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے ‘‘۔اِس حدیث کا صحیح مفہوم لوگوں کو سمجھنا چاہئے ۔یہ صرف شیطانی وسوسہ اندازی ہے جو لوگوں کو ہدایت کے سر چشمے سے دور رکھتی ہے ۔ شیطان ہر وقت انسانوں کو بہکانے اور ورغلانے میں لگا ہے ۔اُس نے اعلان کیا تھا کہ میں تیرے بندوں کو سیدھے راستے سے بھٹکانے کا کام کروں گا تاکہ لوگ بھلائی سے محروم اور نیکیوں سے دور ہو جائیں ۔ قرآن مجید لوگوں کے کسی خاص گروہ کو خطاب نہیں کرتا بلکہ یہ مردو عورت ،خواندہ و نا خواندہ ،عربی اور عجمی سب کیلئے ہے ۔یہ عام و خاص سب کو خطاب کرتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ :تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِہٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا(الفرقان :۱)’’بہت بابرکت ہے وہ اللہ تعالی جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ تمام لوگوں کے لیے آگاہ کرنے والا بن جائے‘‘۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں متوجہ کرتا ہے کہ افلا یتدبرون ،وہ غوروفکر کیوں نہیں کرتے؟۔اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ۝۰ۭ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللہِ لَوَجَدُوْا فِيْہِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا(النساء: ۸۲) ’کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے ؟اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی ا ور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے‘۔

اس سلسلے میں ابن ہبیرہ کہتے ہیں ۔’’بندگان خدا کو قرآن مجید پر غوروفکر کرنے سے دور کر دینا شیطان کی ایک چال ہے ، وہ جانتا ہے کہ غوروفکر ہی میں ہدایت موجودہے ۔لیکن شیطان کہتا ہے کہ یہ ایک خطرناک بات ہے ۔یہاں تک کہ انسان کہنے لگتا ہے کہ میں احتیاط کی وجہ سے قرآن مجید کے سلسلے میں رائے نہیں دیتا ہوں ۔ابن قیم ؒ نے اِس سلسلے میںسخت تنبیہ فرمائی ہے ۔

سورہ زمر میں کہا گیا ہے :’’اللہ نزل احسن (الزمر :۲۳)’’اللہ تعالی نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے ،جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی ہے اس میں بار بار دہرائی ہوئی باتیں ہیں ،جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ،جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں پھر ان کے جسم اور دل اللہ تعالی کے ذکر کی طرف نرم ہو جاتے ہیں ‘‘۔

ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ مجلس میں اللہ کے پیغام کو پڑھ کر سنا رہے تھے: فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗ (الزلزال :۷۔۸)پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا ‘‘۔ ایک بدو اس محفل میں تھا اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا ایک ذرہ بھر بھی ؟آپ ؐ نے فرمایا ہاں،تب اس دیہاتی نے کہا ،ہائے افسوس ،یہی کہتا ہوا وہ اٹھ کھڑا ہوا تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! لقد دخل قلب الالعرابی الایمان ،اس دیہاتی کے دل میں ایمان داخل ہو چکا ہے ‘‘۔

تفسیر بالرائے :

جہاں تک قرآن کی آیتوں کی اپنی رائے سے تفسیر کا تعلق ہے اس سلسلے میں علامہ یوسف القرضاوی فرماتے ہیں ،’’پہلی بات یہ ہے کہ رائے سے مرادوہ مفہوم ہے جو انسان اپنی خواہش نفس کے مطابق محمول کرتا ہے یعنی قرآن میں اللہ تعالی کہہ کچھ اور رہا ہے اور انسان اس آیت کو اپنی مطلب کے مطابق ڈھال رہا ہے ۔ واقعی یہ بات جائزنہیں ہے۔حدیث کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ آدمی قرآن کی تفسیر من مانے انداز میں کرنے لگے حالانکہ ،وہ مفسر ہونے کے لازمی شرائط پورے نہیں کرتا۔یہ بات بھی واضح ہے کہ تدبر کرنے والا قرآن مجید پر غوروفکر کرنے والے مفسر سے مختلف ہوتا ہے مفسر ہر لفظ پر ٹھہر تا ہے تاکہ اس کے معنی کی تشریح کرے اور اس میں موجود اعجاز کے پہلوؤں کی نشاندہی کرے ۔اور بسا اوقات وہ اس سے شرعی احکام کا استنباط کرتا ہے ۔

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ ماہر با صلاحیت علماء کا کام ہے ۔اگر ان تمام باتوں کا خیال رکھا جائے تو قرآن مجید سے براہ راست استفادہ کرنے میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ شرعی احکام استنباط علماء اور مفسرین ہی کا ایک خاص کام ہے ۔ر ہا قرآن مجید سے عبرت حاصل کرنا،یا دہانی اور نصیحت اخذ کرنا تو یہ سب کا کام ہے۔

اللہ تعالی نے ہر انسان کو عقل و فہم کی صلاحیت عطا کی ہے۔اس لیے قرآن مجید کے ترجمہ کو سُن کر یا پڑھ کر سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔حضرت عمر ؓ کے ایمان لانے کا واقعہ ہمارے سامنے ہے انکی بہن اور بہنوئی قرآن کی تلاوت کر رہے تھے حضرت عمرؓ قرآن کی آیت سُن کر اتنا متاثر ہوئے کہ ایمان لے آئے پھر اللہ تعالی نے ان کوتوفیق دی کہ وہ علی الاعلان ایمان لانے کیلئے اللہ کے رسول اللہ ﷺ کے پاس چلے گئے اور کہا کہ یا رسول اللہ میں ایمان لایا اللہ پر اور اس کے رسول محمد ﷺ پر یہ غیر معمولی واقعہ تھا ۔اسی طرح اللہ کی طرف دعوت کا اسلوب یہ رہا ہے کہ قرآن مجید کی آیت کو پیغام کی شکل میں پیش کیاگیا۔ بادشاہ نجاشی کی مثال موجود ہے ۔

قرآن فہمی:

قرآن کی عظمت کا حوالہ دیکر قرآن فہمی کے عمل سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی جا سکتی ہے۔ بلکہ قرآن فہمی کیلئے عام تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ صحیح ہے کہ احکام و مسائل کے استنباط کے لیے علماء سے رجوع کیا جائے گا ۔ہر جگہ علماء و فقہاء کرام موجود ہیں اورلوگ اُن کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔یہ عمل رائج تھا اور رائج رہے گا ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قرآن کو کوئی عام مسلمان نہیں سمجھ سکتا یا ترجمہ پڑھ کر وہ اللہ کے ارشادات کو نہیں سمجھ سکے گا ۔جب ایک کافر بادشاہ قرآن کی آیت کو سُن کر حلقہ بگوش اسلام ہو سکتا ہے تو کیا صاحب ایمان مسلمان کے دل پر خدا کا خوف طاری نہیں ہو سکتا ہے ۔

مشمولہ: شمارہ فروری 2014

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223