اشارات

ایک محترم رفیق نے ’’سرودھرم سمبھاؤ‘‘ کے عنوان پر ایک تحریر ہمارے پاس بھیجی ہے اور فرمائش کی ہے کہ اِس پر اظہارِ خیال کیا جائے۔ تحریر درجِ ذیل ہے:

’’سرودھرم سمبھاؤ ‘‘ کی اصطلاح گزشتہ تقریباً پندرہ بیس برسوں میں خاصی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ اس کا قریب ترین اردومتبادل ’’وحدت ادیان‘‘ ﴿ادیان = سرودھرم، سمبھاؤ= یکساں جذبہ، یکساں تاثر، مساوی اہمیت وغیرہ﴾ ہے۔ گرچہ وحدت لفظ ‘سمبھاؤ’ کا بالکل درست اردو ترجمہ نہیں ہے۔ تاہم لفظ سمبھاؤ کے مفہوم میں وحدت و مساوات کا تاثر مضمر ﴿implied﴾ ہے۔ وحدت و مساوات کے سوا، اس لفظ سے کوئی دوسرا مفہوم لینا محال نظر آتا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام کے امتیازی ﴿distinct﴾ مقام وحیثیت کی قوت و اثرات کو زائل کرنے کے لیے اور حق وباطل میں واضح فرق کے بجائے اشتباہ وابہام کی فضا بنانے کے لیے یہ اصطلاح بنی۔ سب سے پہلے، سیاسی مقاصد کے لیے اکبر کے دور میں،وحدتِ ادیان کا نظریہ دین الٰہی کے قالب میں ڈھلا، پھر ایک طویل تاریخی فاصلے کے بعد جدید بھارت میں، سرودھرم سمبھاؤ کے نئے قالب میں ڈھلا۔ یہ بھی محسوس ہورہا ہے کہ گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں ہندوستان میں دعوتِ اسلامی کا کام بڑھا تو اسے کاؤنٹر کرنے کے لیے باطل نے راست اقدام اور جارحانہ مزاحمت کو counter productiveسمجھتے ہوئے، دعوت کا راستہ روکنے کی خاطر بالواسطہ تدابیر میں سے ایک تدبیر کے طور پر سرودھرم سمبھاؤ کے ’’بے ضرر‘‘ نظریہ کو کافی فروغ دیا۔ گزشتہ پندرہ بیس برسوں کے دوران، سرودھرم سمیلن کے انعقاد اور سرودھرم سمبھاؤ کے موضوع ﴿Theme﴾ پر مختلف مذاہب کے نمائندوں کی ’’خیرسگالی تقاریر‘‘ کو جس پیمانے پر رواج دیا گیا ہے، وہ باطل کی اسٹریٹجی سے متعلق مذکورہ بالا احساس کو تقویت دیتا ہے۔

میدانِ دعوت میں کارکنان کویہ مرحلہ مسلسل پیش آتا رہا ہے کہ جب اسلام کی حقانیت واضح اور ثابت کردی جاتی ہے، اتمام حجت ہوجاتا ہے تب ایک بندھا ٹکا جواب ﴿رسپانس﴾ ملتا ہے کہ ’’ہاں صاحب! بات تو درست ہے۔ سارے دھرم یہی بات کہتے ہیں۔ سچائی تو سارے دھرموں میں ہے، سارے دھرم سچے ہیں۔ سب، ایسی ہی اچھی اچھی تعلیم دیتے ہیں۔ نام الگ الگ ہیں لیکن سچائی تو ایک ہی ہے۔ راستے الگ الگ ہیں، لیکن منزل تو ایک ہی ہے.‘‘ اس رسپانس کو ‘وحدتِ ادیان’ کا نظریہ بھی کہا جاسکتا ہے اور ‘سرودھرم سمبھاؤ’ کا نظریہ بھی۔

ہمارے یہاں سرودھرم سمبھاؤ’ تحریک کے بارے میں کچھ اہلِ علم اور اصحابِ دانش کا تاثر یہ ہے کہ یہ ’’وحدتِ ادیان‘‘ کی تحریک نہیں ہے، بلکہ مذہبی قومیتوں میں ﴿انسانی و اخلاقی اقدار کی بنیادپر﴾ خیرسگالی، حسنِ تعلق، حسنِ معاملت اور پر امن بقائے باہم کی ﴿مثبت اور تعمیری﴾ تحریک ہے۔ لہٰذا اسے ’’وحدتِ ادیان‘‘ کی مانند مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ تاثر ﴿یعنی دونوں اصطلاحوں میں فرق کرنے کا رویہ﴾ غالباً اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ سرودھرم سمبھاؤ سمیلن کا انعقاد کرنے والے ﴿ہندو مذہبی قائدین﴾ مذہبی قوموں میں خیرسگالی اور حسن تعلق کو ہی ایسے جلسوں کے انعقاد کا مقصد و محرک بتاتے ہیں ﴿اور اصل مقصد، یعنی دعوت اسلامی یا مسیحی مشن کے اثرات و اقدام کو کاؤنٹر کرنے کی ذہنیت کو چھپالیتے ہیں﴾

اسلام کا مزاج اور اس کی صحیح پوزیشن یہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں کیفیتیں، باہم مختلف ہیں۔ اسلام، مذہبی سطح پر، ادیانِ باطلہ کے ساتھ خیرسگالی، رواداری اور پرامن بقائے باہم وغیرہ کا حامی ہرگز نہیں ہے، جب کہ انسانی اقدار کی بنیاد پر مذہبی قوموں ﴿مثلاً مسلم، ہندو، عیسائی وغیرہ﴾ کے درمیان، عدل، انصاف، ادائیگیِ حقوق، حسنِ معاملت اور حسنِ تعلق کی سطح پر خیرسگالی، رواداری اور حسنِ خلق و پرامن بقائے باہم کا حامی و موئد ہے۔ پس دونوں کیفیات میں ابہام اور کنفیوژن کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وحدتِ ادیان اور وحدتِ انسانی دو الگ الگ چیزیں ہیں، لیکن وحدتِ ادیان اور سرودھرم سمبھاؤ اصلاً ایک ہی شے ہے، قطعِ نظر اس کے کہ سرودھرم سمبھاؤ کو پیش کرنے والی ﴿ہندو مذہبی﴾ شخصیات اسے کسی بھی اسلوب، کسی بھی آہنگ میں پیش کریں۔ سرودھرم سمبھاؤ کو وحدتِ ادیان نہ ماننا دراصل دعوتِ اسلامی کی antithesisہے۔‘‘

مذہب اور اُس کے علم بردار

اس تحریر پر اظہارِ خیال سے پہلے ایک ضروری تصریح مناسب معلوم ہوتی ہے۔ یہ تصریح کسی مذہب کے تصورات اور اُس مذہب کے نام لیواؤں کے عملی رویے میں فرق سے متعلق ہے۔ عموماً مغربی مصنّفین ان دونوں چیزوں میں فرق نہیں کرتے مثلاً وہ ’’اسلام‘‘ اور ’’مسلمان‘‘ کے الفاظ کو مترادف کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہی طرزِ تحریر وہ دوسر ے مذاہب کے بارے میں بھی اختیار کرتے ہیں، حالانکہ صحیح تجزیے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں امور میں واضح فرق کیا جائے۔ ایک مذہب کے تصورات وہ ہیں جو اس کے مستند منبع ﴿source یا sources﴾ سے ہمیں معلوم ہوں۔ مزید برآں اِن تصورات کی وہی تعبیر و تشریح صحیح سمجھی جانی چاہیے جو اصل متن سے مطابقت رکھتی ہو۔ رہا کسی مذہب کے وابستگان کا عملی رویہ تو وہ مذہب کے اساسی تصورات کے مطابق بھی ہوسکتا ہے اور اُن کے مغائر بھی۔ ان دونوں امور — اساسی تصورات اور عملی رویے — کو گڈ مڈ کرنے سے کسی مذہب کے بارے میں صحیح رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔

اس تصریح کی ضرورت خاص طور پر اسلام کے سلسلے میں ہے۔ اصولاً اسلام نام ہے اُن بیّنات کا جو قرآن و سنت میں مذکور ہیں۔ تمام مسلمان قرآن و سنت کو دین کا اصل منبع تسلیم کرتے ہیں اور ان بنیادوں پر وہ سب متفق ہیں۔ البتہ مسلمانوں کے عملی رویے میں کوتاہی ہوسکتی ہے۔ مسلمانوں کے انفرادی اور اجتماعی کاموں کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھا جاسکتا ہے اور پرکھا جانا چاہیے۔ لیکن مسلمانوں کے ہر کام اور ہر رویے کو لازماً اسلام کا نمائندہ یا ترجمان قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اس تصریح کے بعد ہم اصل مسئلے کی طرف پلٹتے ہیں جو ’’سرودھرم سمبھاؤ‘‘ کے تصور سے متعلق ہے۔

بنیادی نکات

پیشِ نظر تحریر کے بنیادی نکات درجِ ذیل ہیں:

﴿الف﴾ ’’سرودھرم سمبھاؤ‘‘ کے معنی ’’وحدتِ ادیان‘‘ کے ہیں۔

﴿ب﴾     اس اصطلاح کے پیش کرنے والوں کا مقصد ماضی میں یہ تھا اور آج بھی یہی ہے کہ دعوتِ اسلامی کی قوت اور زور کو توڑا جائے اور حق و باطل   کے امتیاز کو دھندلا کر دیا جائے۔

﴿ج﴾      ’’سرو دھرم سمبھاؤ‘‘  کی اصطلاح کا ایک مفہوم یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس سے مراد خیرسگالی اور پرامن بقائے باہم ہے۔ جو لوگ ’’سرودھرم سمیلن‘‘ کے عنوان کے تحت اجتماعات منعقد کرتے ہیں وہ یہی مفہوم بیان کرتے ہیں۔ لیکن یہ اِس اصطلاح کا اصل مفہوم نہیں ہے۔

﴿د﴾        اس سلسلے میں اسلام کا موقف یہ ہے کہ اسلام مذہبی تصورات کی سطح پر ادیانِ باطلہ کے ساتھ پُر امن بقائے باہم کا قائل نہیں ہے۔

﴿ہ﴾        البتہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ مختلف مذہبی گروہوں کے سلسلے میں عدل و انصاف اور حسنِ معاملت کا رویہ اختیار کیا جائے۔ یہ رویہ ’’وحدتِ بنی آدم‘‘ کے اسلامی تصور کا عکاس ہے۔

اب ہم اِن نکات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کریں گے۔

دھرم اور سمبھاؤ کے معنیٰ

گرچہ لفظ دھرم کے ابتدائی لغوی معنی ’’فرض‘‘ یا ’’لازمی وصف‘‘ کے ہیں لیکن جب ’’سرودھرم سمبھاؤ‘‘ کے الفاظ بولے جاتے ہیں تو وہاں دھرم سے مراد دین یا مذہب ہوتا ہے۔ فادر کامل بلکے کی مرتب کردہ ’’ہندی-انگریزی ڈکشنری‘‘ میں یہ دونوں مفہوم بیان کیے گئے ہیں۔ چنانچہ لفظ ’’دھرم‘‘ کے انگریزی متبادل کے طور پر ڈکشنری کے مرتب نے ذیل کے الفاظ درج کیے ہیں:

“property, quality, attribute” یعنی وصف اور faith, religion

religious persuasion یعنی مذہب ﴿کیتھولک پریس، رانچی، مطبوعہ ۲۰۰۸؁ ﴾

البتہ ڈکشنری کے مصنف نے مرکب الفاظ میں دھرم سے دین یا مذہب ہی مراد لیا ہے۔ مثلاً ’’دھرم گرنتھ’ کے معنیٰ انھوں نے Holy Writیا Scripture درج کیے ہیں۔ اس لیے لغوی اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب دھرم کی اصطلاح ’’سمبھاؤ‘‘ کے لفظ کے ساتھ استعمال ہوگی تو وہاں اُس کا مفہوم دین یا مذہب لینا ہی درست ہوگا۔

چنانچہ لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو زیرِ تبصرہ تحریر کے پہلے نکتے کو درست قرار دیا جانا چاہیے یعنی یہ کہ ’’سرودھرم سمبھاؤ  کی اصطلاح کا مفہوم وحدتِ ادیان ہے۔‘‘

گویا اردو داں حضرات وحدتِ ادیان کے الفاظ سے جو کچھ مراد لیتے ہیں وہی مراد ہندی اصطلاح ’’سرودھرم سمبھاؤ‘‘ کے استعمال کرنے والوں کی ہوتی ہے۔

تصور وحدتِ ادیان کا محرک

زیرِ تبصرہ تحریر میں ’’وحدتِ ادیان‘‘ کا تصور پیش کرنے والوں کا اصل منشا دعوتِ حق کا راستہ روکنا قرار دیا گیا ہے۔ بلاشبہ یہ بات صحیح ہے لیکن اس منفی جذبے کے علاوہ تصورِ وحدتِ ادیان کے پیچھے بعض محرکات اور بھی ہیں۔ اُن میں سے ایک محرّک یہ ہے کہ مذہبی اختلافات کو ضمنی، فروعی اور ناقابلِ لحاظ قرار دے کر اُن جھگڑوں کو ختم کردیا جائے، جو مذہب کے نام پر دنیا میں رائج ہیں۔ دوسرا محرّک اُن لوگوں کے ذہن میں ہے جو خود نفسِ مذہب کو زندگی کے اجتماعی معاملات سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں اور کسی سیکولر فلسفہ زندگی کو غالب و نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کا ادعا یہ ہے کہ مذہب انسان کی پرائیویٹ زندگی سے متعلق ایک معاملہ ہے۔ چنانچہ مذہبی اختلافات کسی سنجیدہ توجہ کے مستحق نہیں ہیں۔ آدمی جس مذہب کو بھی چاہے اختیار کرلے، زندگی کے اہم تر اجتماعی معاملات میں اس سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اُن اجتماعی امور میں سب لوگوں کو بلا امتیازِ مذہب ایک ہی طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے جو سیکولر فلسفۂ حیات پر مبنی ہو۔

فلسفہ وحدتِ ادیان کے پیچھے ایک اور محرّک یہ خیال ہے کہ انسان اگر ’’نیک نیتی‘‘ کے ساتھ زندگی گزارنے کا راستہ تلاش کرے تو وہ جس نتیجے پر بھی پہنچ جائے وہ درست ہے۔ اس خیال کے حاملین کو Relativistsیا ’’اضافیت‘‘ کے قائل کہا جاسکتا ہے گویا اُن کے نزدیک ’’مطلق حق‘‘ کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے، بلکہ حق یا سچائی کے مختلف روپ یا درجات ہیں۔ آدمی جس درجے تک بھی پہنچ جائے وہ اُس کے لیے کافی ہے۔

اِس کے برعکس خیال اُن لوگوں کا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ’’مطلق حق‘‘ غالباً موجود تو ہے لیکن انسان کے بس میں نہیں ہے کہ حق کو تلاش کرسکے۔ اس خیال کے حاملین کے نزدیک مذہبی اختلافات کا وجود ہی خود اس بات کی دلیل ہے کہ انسان حق کی تلاش میں ناکام رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا اس لیے حق کی تلاش کے خیال کو ہی چھوڑ دینا چاہیے اور آدمی اپنے مذہبی جذبات کی تسکین کے لیے جس راستے کو بھی چن لے وہ ٹھیک ہے۔

وحدتِ ادیان کے فلسفے کا ایک اور محرّک اُن لوگو ںکا خیال ہے جو ہندوستان کے روایتی مشرکانہ تصورِ کائنات، تصورِ آواگون اور ذات پات کی تقسیم کو قبول کرتے ہیں اور اُن تصورات پر مبنی سماجی ڈھانچے کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ جب ’’وحدتِ ادیان‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اُن کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ مذہبی مراسم اور پرستش کے طریقوں کے تنوّع میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ اُن سب میں مذہبی طبقے کی رائج اجارہ داری کو اور ذات پات کے نظام کو تسلیم کیا گیا ہو۔ جب تک اس سماجی ڈھانچے اور اُس کے اساسی تصورات کو چیلنج نہ کیاجائے، وہ مذہبی طور طریقوں اور رسوم و رواج میں ہر جدّت اور ہر تنوّع کو درست اور ناقابلِ اعتراض سمجھتے ہیں۔

فلسفۂ وحدتِ ادیان کے مندرجہ بالا محرّکات باہم مختلف ضرور ہیں مگر اُن سب میں یہ بات مشترک ہے کہ اُن کے قائلین مذاہب کے موجودہ اختلاف کی حقیقی وجہ تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ چونکہ فلسفۂ وحدتِ ادیان ہمارے ملک میں بہت مقبول ہے، اس لیے اِن محرّکات کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی اصل کمزوری سامنے آسکے۔

کیا مذاہب کے اختلافات فروعی ہیں؟

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مذاہب کے درمیان اختلافات محض فروعی نوعیت رکھتے ہیں اُن کو دنیا کے مشہور مذاہب کے اساسی تصورات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔ یہ اُن کی خواہش ضرور ہوسکتی ہے کہ مذاہب کے درمیان اختلافات مٹ جائیں لیکن اُن کو حقائق کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔

مثلاً خدا کے تصور کو لیجیے۔ کسی مذہب کو سمجھنے کے سلسلے میں یہ سوال بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ اس مذہب میں خدا کا تصور کیا ہے؟ آبادی کے اعتبار سے ہمارے ملک کا سب سے بڑا مذہب وہ ہے جسے ہندو مذہب کہا جاتا ہے۔ اس کا ابتدائی دور ویدک دور ہے۔ اُس دور کے بعد مذہب کی وہ شکل سامنے آئی جو ہندوستان کے طول و عرض میں آج پائی جاتی ہے۔ یہ رائج مذہب مشرکانہ مذہب ہے۔ اِس بارے میں جناب عماد الحسن آزاد فاروقی صاحب لکھتے ہیں:

’’ویدک دور کے برخلاف. مہا بھارت اور رامائن میں نئے دیوی دیوتاؤں میں سے ہر ایک اپنے ماننے والوں کی تمام تر توجہ کا حق دار ہوتا ہے۔ کسی دیوتا کے بھکت. کی عقیدت کا اصل مرکز اُس کا اِشٹ ﴿چنیدہ﴾ دیوتا ہوتا ہے۔ اور وہ دوسرے دیوتاؤں کو اُس کا ماتحت یا اُسی کے مختلف مظاہر ﴿روپ﴾ مانتا ہے۔‘‘  ﴿’’دنیا کے بڑے مذہب‘‘ از جناب عماد الحسن آزاد فاروقی، باب اول﴾

مندرجہ بالا بیان کردہ تصورِ الوہیت واضح طور پر ایک مشرکانہ تصور ہے۔

مذکورہ بالا برہمنی مَت کے پہلو بہ پہلو ایک دوسری مذہبی روایت بھی ہندوستان میں پائی جاتی ہے۔ بدھ مت اور جین مت اسی روایت سے متعلق ہیں۔ اِن مذاہب کے اندر خدا کے تصور سے یک گونہ بے اعتنائی برتی گئی ہے۔ اِس روایت کو ’’شرمن روایت‘‘ کہا جاتا ہے۔ جناب آزاد فاروقی صاحب اپنی مذکورہ بالا کتاب میں لکھتے ہیں:

’’برہمنی مَت کے متوازی اور اُس سے مختلف — مذہبی اور فکری روایت — کو شرمن روایت کے نام سے یاد کیا گیا ہے. ایک اہم فرق جو شرمن روایت سے متعلق مکاتیبِ فکر اور مذاہب نیز برہمنی مَت ﴿کے مابین﴾ واضح نظر آتا ہے، وہ شرمن روایت کا خدا کے تصور سے بے نیاز ہونا ہے۔ جب کہ برہمنی روایت، کسی نہ کسی صورت میں، خواہ وہ دیوی دیوتاؤں کی پرستش کا مشرکانہ تصور ہی ہو، الوہیت کی قائل رہی ہے۔ شرمن روایت کے مختلف مکاتبِ فکر میں الوہیت یا خدا کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘ ﴿ایضاً، باب سوم﴾

اس کے بعد سامی مذاہب آتے ہیں، جو اصولاً توحید کے قائل ہیں۔ جناب آزاد فاروقی لکھتے ہیں:

’’یہودیت کے ساتھ ہم مذہبی اعتبار سے ایک نئی دنیا میں قدم رکھتے ہیں، جس کو ہم . سامی خاندان کی دنیا سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اس خاندان میں . یہودیت، عیسائیت اور اسلام جیسے تین بڑے مذاہب شامل ہیں. یہ اسی مشترک مذہبی ورثہ کا احساس ہے جو ہمیں حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد ﷺکے ﴿تصورِ﴾ خدا میں کسی تفریق کا تصور بھی نہیں ہونے دیتا۔

حضرت ابراہیم کو .عنایتِ الٰہی کے طفیل ایک ایسی معرفت حاصل ہوئی جوبنی نوعِ انسان کی مذہبی زندگی کے لیے کسی انقلاب سے کم نہ تھی. حضرت ابراہیم کی رسائی ایک ایسی ہستی کی معرفت تک ہوگئی جو بلاشرکتِ غیرے تمام کائنات اور انسان کی خالق، مالک اور حکمراں ہے۔ ایک ایسے معبود کا ادراک و احساس جو مادّی فطرت کا ایک حصہ نہیں ہے، بلکہ اُس پر حاکم ہے، جو قبائلی اور مقامی دیوتاؤں کی طرح محدود جماعتوں کا مقصود نہ ہوکر تمام انسانوں کا خالق اور پالن ہار ہے اور جو اپنی حکمرانی اور ربوبیت میں یکتا اور یگانہ ہے، ایسا مذہبی تجربہ تھا جس نے حضرت ابراہیم اور اُن کی نسلی و رحانی اولاد کو . ممتاز کردیا۔ حضرت ابراہیم کے معبود خدا کی ﴿مذکورہ بالا﴾ تین خصوصیات میں پہلی ’‘تنزیہی‘‘ دوسری ’’آفاقیت‘‘ اور تیسری ’’توحید‘‘ کی ترجمان ہے۔‘‘ ﴿ایضاً، باب ششم﴾

اِن اقتباسات سے ذیل کے امور واضح ہوتے ہیں:

﴿الف﴾ دنیا کے معروف مذاہب الوہیت کے بارے میں متفق الخیال نہیں ہیں۔

﴿ب﴾    ہندوستان میں رائج برہمنی مت متعدد معبودوں کا قائل اور شرک کا علمبردار ہے۔

﴿ج﴾      شرمن روایت ﴿جس میں بدھ مَت اور جین مَت شامل ہیں﴾ تصورِ الوہیت سے بحث نہیں کرتی گویا یہ مذاہب خدا کے سلسلے میں خاموش ہیں۔

﴿د﴾        سامی مذاہب ﴿یہودیت، عیسائیت اور اسلام﴾ اصولاً توحید کے قائل ہیں ﴿گرچہ تثلیث کے عقیدے کی شکل میں عیسائیت میں شرک کی آمیزش ہوگئی ہے﴾۔

یہ مذہب سے متعلق صرف ایک سوال یعنی ’’تصورِ الوہیت‘‘ کے بارے میں گفتگو تھی۔ کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اِس معاملے میں مذاہبِ عالم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے یا یہ اختلاف محض ضمنی اور فروعی نوعیت کا ہے؟ یہی معاملہ مذہب سے متعلق دوسرے بنیادی سوالات کا ہے، مثلاً حیات بعد الممات، تصورِ نجات، طریقِ عبادت، کائنات میں انسان کی حیثیت وغیرہ۔ اِن تمام معاملات کے سلسلے میں مذاہبِ عالم کے تصورات باہم مختلف ہیں اور اِن اختلافات کو ناقابلِ لحاظ نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ مذہبی اختلاف کی موجودگی کو ایک ثابت شدہ واقعہ تسلیم کیا جائے۔

مذہب پرائیویٹ معاملہ نہیں ہے

جو لوگ مذہب کو پرائیویٹ ﴿نجی﴾ معاملہ قرار دیتے ہیں اور اِس بنا پر وحدتِ ادیان کے قائل ہیں وہ یا تو جان بوجھ کر غلط بات کہتے ہیں یا مذاہبِ عالم کی تعلیمات سے بے خبر ہیں۔ اس سلسلے میں مشہور اسلامی مفکر جناب محمد نجات اللہ صدیقی صاحب نے بہت اچھا تجزیہ پیش کیا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں:

’’مذہب کو پرائیویٹ معاملہ قرار دینے والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ اُن کو ایسا کرنے کا حق کس نے دیا؟ کیا دنیا کے بڑے مذاہب خود اپنی یہ حیثیت متعین کرتے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کسی کو اِس کا بات کیا حق پہنچا ہے کہ اللہ کی بھیجی ہوئی ہمہ گیر ہدایات کی حدود متعین کرتا چلے۔ آج جو مذاہب تحریف و ترمیم سے جس قدر محفوظ ہیں اسی قدر وہ اس بات کا پکار پکار کر اعلان کرتے ہیں کہ خدا کی اطاعت انسان کی پوری زندگی میں ہونی چاہیے۔ وہ ایسے قوانین و ضوابط پیش کرتے ہیں جنھیں کسی بھی طرح زندگی کے ’’پرائیویٹ‘‘ معاملات تک محدود نہیں قرار دیا جاسکتا۔ دنیا کے اکثر مذاہب سود کو حرام قرار دیتے ہیں۔ کیا کوئی شخص یہ دعویٰ کرنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ سود کا تعلق انسانی زندگی کے صرف انفرادی پہلو سے ہے۔.

اسی طرح کیا مرد اور عورت کے آزادانہ اختلاط کو ممنوع قرار دے کر اور نکاح کے طریقے نیز خاندان کے ادارے کو محترم قرار دے کر مذہب، انسان کی معاشرتی زندگی کی باگ ڈور کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے لیتا۔ کوئی ہٹ دھرمی پر اتر آئے تو دوسری بات ہے۔ ورنہ یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ مذاہبِ عالم اپنی تعلیمات کے لحاظ سے انسان کی پوری زندگی، اجتماعی اور انفرادی، کو اپنی رہنمائی کا میدان قرار دیتے ہیں اور کسی طرح کی حد بندی کے قائل نہیں۔‘‘ ﴿اسلامی نشاۃِ ثانیہ کی راہ از جناب محمد نجات اللہ صدیقی، مطبوعہ دہلی،۱۹۷۴؁ ﴾

کچھ لوگ وحدتِ ادیان کے اس لیے قائل ہیں کہ اُن کے خیال میں حق موجود ہی نہیں ہے یا اگر موجود ہے تو اُس کو پانا انسان کے بس کی بات نہیں۔ اس طرح سوچنے والے لوگ خالقِ کائنات سے یہ بدگمانی رکھتے ہیں کہ اُس نے انسانوں کی اور مادّی ضرورتوں کے پورا کرنے کا تو انتظام کیا ہے لیکن اس کی ہدایت کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ لیکن امرِ واقعہ یہ ہے کہ پورا نظامِ کائنات خالق کی صفاتِ رحمت و ربوبیت کی شہادت دے رہا ہے اور اپنی انہی صفات کی بنا پر خالقِ کائنات نے تاریخ کے ہر دور میں انبیائ و رسل کے ذریعے راہِ حق انسانوں تک پہنچانے کا انتہائی حکیمانہ و اطمینان بخش انتظام کیا ہے۔ اس لیے راہِ حق کی تلاش کے سلسلے میں کسی مایوسی کا شکار ہوکر جو لوگ وحدتِ ادیان کی طرف مائل ہوئے ہیں، اُن کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ راہِ حق موجود بھی ہے اور واضح بھی۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انسان انبیائ و رسل کی پیش کردہ دعوت پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے اور اس دعوت کو قبول کرنے اور اس کے مطالبات پورے کرنے کے لیے جو قربانی درکار ہو اسے پیش کرنے کے لیے بلاتردّد آمادہ ہوجائے۔ جو شخص اخلاص کے ساتھ انبیائ و رسل کی تعلیمات پر غور کرے گا، اُسے اُن کی حقانیت میں کوئی شبہ نہیں رہے گا اور پھر اسے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی کہ وہ بلاوجہ تمام مختلف راستوں کو بیک وقت درست قرار دے اور اس تضادفکری کو رواداری سمجھے۔

بقائے باہم کا معاملہ

بنیادی سوال یہ ہے کہ اسلام کے ماننے والوں کی دلی تمنّا کیا ہے؟ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں حق اور باطل دونوں پہلو بہ پہلو موجود رہیں اور اُن کے درمیان ’’بقائے باہم‘‘ کی کیفیت پائی جائے یا اُن کی دلی تمنا یہ ہے کہ انسانی سماج سے باطل مٹ جائے اور حق غالب و ظاہر ہو۔ اس سلسلے میں قرآن مجید کا فیصلہ واضح ہے:

ھوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْہُدیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٰ وَکَفیٰ بِاللّٰہِ شَہِیْداًo  ﴿الفتح:۲۸﴾    ’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے تمام دینوں پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔‘‘

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِؤُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٰ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَo ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْہُدیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٰ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَo ﴿الصف: ۸-۹﴾

’’یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منھ کی پھونکوں سے بجھادیں لیکن اللہ اپنے نور کو مکمل کرکے رہے گا، چاہے کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے سارے دینوں پر غالب کردے چاہے یہ بات مشرکوں کو کتنی ہی ناگوار ہو۔‘‘

أَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَائً فَسَالَتْ أَوْدِیَۃٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْْلُ زَبَداً رَّابِیْاً وَمِمَّا یُوْقِدُوْنَ عَلَیْْہٰ فِیْ النَّارِ ابْتِغَائ حِلْیَۃٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُہُ کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَائ وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِیْ الأَرْضِ کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الأَمْثَالَo  ﴿الرعد:۱۷﴾

’’اللہ نے آسمان سے پانی اتارا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا۔ پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔ اور ایسے ہی جھاگ اُن دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں کے ذریعہ اپنی بات سمجھاتا ہے۔‘‘

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَائَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْْنَہُمَا لَاعِبِیْنَo لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَہْواً لَّاتَّخَذْنَاہُ مِن لَّدُنَّا اِنْ کُنَّا فَاعِلِیْنَo بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہُ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ وَلَکُمُ الْوَیْْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَo    ﴿الانبیائ:۱۶-۱۸﴾

’’ہم نے اِس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ اُن میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کرلیتے۔ مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں۔ جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے۔ اور تمہارے لیے تباہی ہے اُن باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو۔‘‘

ان آیات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ دعوتِ اسلامی کا مقصود یہ ہے کہ دنیا میں حق غالب ہو اور باطل معدوم یا مغلوب ہوجائے۔ اسلام حق اور باطل کے درمیان بقائے باہم کو اپنا مقصود قرار نہیں دیتا۔ البتہ قرآن مجید کے دوسرے مقامات سے یہ بات واضح ہے کہ جہاں تک افراد کا معاملہ ہے اُن کو قبولِ حق کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ وہ چاہیں تو حق کو قبول کریں اور چاہیں تو اس کا انکار کردیں۔

لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ۔

’’دین کے معاملے میںکوئی زبردستی نہیں ہے۔‘‘

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَاْئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاْئَ فَلْیَکْفُرْ اِنَّاْ أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِیْنَ نَاراً أَحَاطَ بِہِمْ سُرَادِقُہَا وَانْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوا بِمَآئٍ کَالْمُہْلِ یَشْوِیْ الْوُجُوْہَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَآئَ تْ مُرْتَفَقاo ﴿الکہف:۲۹﴾

’’صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے۔ اَب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے ﴿لیکن یہ نہ سمجھو کہ معاملہ یہیں ختم ہوجائے گا بلکہ﴾ ہم نے انکار کرنے والے ظالموں کے لیے ایک آگ تیار کررکھی ہے، جس کی لپٹیں انہیں گھیرے میں لے چکی ہیں۔ وہاں اگر وہ پانی مانگیں گے تو ایسے پانی سے اُن کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا اور اُن کا منھ بھون ڈالے گا۔ بدترین پینے کی چیز اور بہت بری آرام گاہ ۔‘‘

اس لیے اسلام کا موقف یہ نہیں ہوسکتا کہ حق و باطل کے درمیان بقائے باہم مطلوب ہے۔ البتہ اسلام کا موقف یہ ہے کہ حق کو قبول کرنے یا نہ کرنے کی جو آزادی اللہ نے انسانوں کودی ہے، اُس آزادی کو سلب نہیں کیا جاسکتا۔

غیر مسلم افراد کے ساتھ حسنِ معاملت

اسلام باطل کو دنیا سے مٹا کر حق کو غالب کرنا چاہتا ہے۔ البتہ جہاں تک عام غیر مسلم افراد کا معاملہ ہے، اگر وہ حق کی مخالفت نہ کررہے ہوں تو اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اُن کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔

مولانا اشرف علی تھانویؒ لکھتے ہیں:

’’کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے ہوتے ہیں۔ موالات یعنی دوستی۔ مدارات یعنی ظاہری خوش خلقی اور مواسات یعنی احسان اور نفع رسانی۔

﴿۱﴾ موالات﴿یعنی قلبی دوستی﴾ تو کسی حال میں جائز نہیں۔

﴿۲﴾ مدارات تین حالتوں میں درست ہے۔ ایک دفعِ ضرر ﴿یعنی نقصان سے بچنے﴾ کے واسطے، دوسرے اُس کافر کی مصلحتِ دینی یعنی ہدایت کی توقع کے واسطے، تیسرے اکرامِ ضیف ﴿یعنی مہمان کے احترام﴾ کے لیے۔

﴿۳﴾ مواسات یعنی احسان و نفع رسانی تو یہ اہلِ حرب کے ساتھ ﴿یعنی لڑنے مرنے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والے کافروں کے ساتھ﴾ ناجائز ہے اور غیر اہلِ حرب ﴿یعنی جو ایسے نہ ہوں﴾ اُن کے ساتھ جائز ہے۔

﴿البتہ﴾ حربیوں ﴿یعنی لڑنے والے کفار کے ساتھ﴾ کسی خاص موقع پر احسان کرنے میں اسلام کی مصلحت ہو، یا اُس کے اسلام کی توقع ہو تویہ صورت اُس سے مستثنیٰ ہے۔ ﴿یعنی ایسے وقت حربیوں کے ساتھ احسان کرنا بھی درست ہے﴾۔

اسی طرح کسی حربی کی اضطراری حالت ہو مثلاً بھوک، پیاس یا گرجانے سے ہلاکت کے قریب ہو تو یہ صورت بھی مستثنیٰ ہے۔ ﴿یعنی عام حالات میں ایسے حربی کافر کی جان بچائی جائے گی۔ البتہ خاص حالات یعنی لڑنے کی حالت میں نہیں﴾۔

﴿بہ حوالہ ’’افاداتِ اشرفیہ‘‘ نیز ‘‘اشرف السوانح‘‘﴾

چنانچہ زیرِ تبصرہ تحریر کی یہ رائے درست ہے کہ عام غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آیا جائے البتہ جو دینِ حق کی راہ میں مزاحم ہوں وہ اس حسنِ سلوک کے مستحق نہیں ہیں، گرچہ اُن کے انسانی حقوق کا ہر حال میں احترام کیا جائے گا۔

مشمولہ: شمارہ جولائی 2010

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau