اسلام نام ہے زندگی گذارنے کے اس طریقہ کاجو آخری رسول محمد ﷺسے پہلے بھی انبیاء کرام کا تھا،اور بعد میں آنے والی تمام انسانیت کا رہے گا،اسی طریقہ کی تبلیغ و اشاعت کے لئے دنیا میں نبیوں کا طویل سلسلہ قائم کیا گیا:
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۰ۭ كَبُرَ عَلَي الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَيْہِ۰ۭ اَللہُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يُّنِيْبُ۱۳ (شوری:۱۳)
’’اللہ تعالی نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کیا جس کا حکم نوح کو دیا گیا،اور جس کا حکم آپﷺ کو بھی دیا گیا،اور جس کا حکم موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ دین کو قائم کرو اور اس میں اختلاف برپا مت کرو۔‘‘
ایسا دین جو ہمیشہ سے سب کا ہے اور جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے،اسی کا نام اسلام ہے،
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ (آل عمران:۱۹)
’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔‘‘
ایسے عمومی دین میں زور زبر دستی کی گنجائش نہیں، ہر پسند اور کامیاب طریقہ کے انتخاب میںلوگوں کو اختیار دیا جاتا ہے تاکہ اندازہ ہو کہ کون صحیح راستہ اختیار کرتا ہے اور کون غلط:
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۰ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۰ۙ اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِيْنَ نَارًا۰ۙ (الکہف:۲۹)
’’اے نبی آپ کہہ دیجئے یہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے،اب جس کا جی چا ہے مان لے جس کا جی چاہے انکار کر دے،ہم نے ظالموں کے لئے آگ تیار کر رکھی ہے۔‘‘
تعصب اور اسلام
اسلام اپنے افکارونظریات کو بزور طاقت مسلط کرنے اور اپنے مذہب و تہذیب میں دوسروں کوضم کرنے کی کوشش کرنے سے منع کرتا ہے،ارشاد خداوندی ہے :
لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۰ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا (البقرہ:۲۵۶)
’’دین کے معاملہ میںکوئی زبردستی نہیں ہے،سرکشی کے معاملہ میں ہدایت واضح ہو چکی ہے،،جو معبودان باطل کا منکر اور اللہ پر ایمان رکھتا ہواس نے مضبوط سہارا تھام لیا۔ جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔‘‘
دیگر مذہبی شعائر کو برا بھلا کہنے سے بھی منع کیا گیا ہے:
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ فَيَسُبُّوا اللہَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ (انعام:۱۰۸)
اللہ کے علاوہ جن معبود کو یہ لوگ پکارتے ہیںانہیں گالیاں مت دو،کہیں ایسا نہ ہو کہ جہالت کی بنیاد پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔
اسلام میں عبادت گاہوں کے احترام کی تاکید آئی ہے:
وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْہَا اسْمُ اللہِ كَثِيْرًا۰ۭ وَلَيَنْصُرَنَّ اللہُ مَنْ يَّنْصُرُہٗ۰ۭ(الحج:۴۰)
’’اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے،تو خانقاہیں اور گرجا،معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیاجاتا ہے ،سب مسمار کر ڈالی جائیں،اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گاجو اسکی مدد کریں گے۔‘‘
اللہ کے رسولﷺ نے غیر مسلموں کے مختلف امور کے متعلق جو معاہدہ تحریر فرمایا ہے اس کے چند اجزاء اس طرح ہیں:
ان یھودبنی عوف امۃمع المومنین وان بینھم النصح وانصیحۃوالبر دون الاثم ۔۔۔۔۔وان بطانۃ یھودکانفسھم وان النصر للمظلوم۔(سیرت ابن ہشام،ج:۱،ص۲۷۸)
’’یہود بھی مسلمانوں کی طرح ہیں،مسلمانوں اوریہودیوں کے تعلقات خیر اندیشی،نفع رسانی اور نیکی کے ہونگے،اور یہود کے حلیف بھی یہود کی طرح معاہدے میں شامل مانے جائینگے،مظلوم کی ہر حال میں مدد کی جائے گی۔‘‘
لنجران جواراللہ وذمۃ محمد النبی علیٰ انفسھم و ملتھم وارضھم واموالھم وغائبھم وشاھدھم وعشیرتھم وتبعھم۔(فتوح البلدان للبلاذری)
’’اہل نجران کو خداکی حفاظت اورمحمد رسول کی ذمہ داری حاصل ہو گی،یہ ذمہ داری انکی جان،مذہب، ملک، اموال ،حاضرین ،غائبین اور ان کے پیروں سب کو حاصل ہوگی۔‘‘
یہودیوں کی فتنہ انگیزیوں کے با وجود اللہ کے رسول نے مذہبی رواداری کو باقی رکھنے کے لئے ان کے بہت سارے مذہبی حقوق کو قانونی معاہدے میں شامل ماناہے،مثلا: یہود کوپوری مذہبی آزادی حاصل ہو گی،یہود اور مسلمان آپس میں دوستانہ تعلق رکھیں گے،ضرورت پہ دونوں ایک دوسرے کی مدد کرینگے،وغیرہ وغیرہ۔(سیرت ابن ہشام،ج:۱ص:۷۹۔۲۷۸)
خلیفہ اول حضرت ابو بکر نے کفار کے مذہبی معاملات کے تعلق سے جو معاہدہ لکھا اس کے الفاظ اس طرح ہیں:
لا یھدم لھم بیعۃ ولا کنیسۃ ولا قصر من قصورھم اللتی کانوا یتحصنون اذانزل بھم عدو لھم ولا یمنعون من ضرب النواقیس ولا من اخراج الصلبان فی عیدھم ۔ (کتاب الخراج لابی یوسف،ص:۱۷۲)
’’انکی خانقاہیں اور گرجے منہدم نہیں کئے جائینگے،اور نہ کوئی ایسی عمارت گرائی جائیگی جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے حملہ میں قلعہ بند ہو تے ہیں،ناقوس اور گھنٹیاں بجانے کی ممانعت نہیں ہوگی،اور نہ تہواروں کے موقعوں پر صلیب نکالنے سے روکے جائینگے۔‘‘
حضرت عمرؓ نے غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت کے لئے جو معاہدہ تحریر فرمایا اس کے بعض اجزا اس طرح ہیں:
’’یہ امان ہے جو اللہ کے غلام امیر المومنین عمرؓنے اہل ایلیا کو دی،یہ امان جان و مال،گرجا،صلیب،تندرست و بیمار اورانکے تمام اہل مذہب کے لئے ہے،نہ ان کے گرجا میں سکونت اختیار کی جائیگی،نہ وہ ڈھائے جائینگے،نہ ان کے احاطے کو نقصان پہنچایا جائے گا، نہ انکے صلیبوں اور انکے مال میں کمی کی جائے گی،مذہب کے بارے میں ان پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا،نہ ان میںسے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔‘‘
(الفاروق،ج:۲،ص:۱۳۷)
حضرت عثمانؓ نے ان تمام معاہدوں کو اسی طرح باقی رکھا جس طرح عہد رسالت، حضرت ابو بکرؓاور حضرت عمرؓ کے عہد میں تھے۔ایک مرتبہ غیر مسلموں کی شکایت پر آپؓ نے اپنے گورنرولید بن عتبہؓ کوایک تادیبی خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا:
’’عراق میں مقیم نجران کے باشندوں کے سردار نے آکر میرے پاس شکایت کی ہے اور مجھے وہ شرط دکھائی ہے جو عمرؓ نے ان کے ساتھ طے کی تھی،میں نے انکے جزیہ میں سے تیس جوڑوں کی تخفیف کر دی ہے،انہیں میں نے اللہ جل شانہ کی راہ میں بخش دیا ہے،اور وہ ساری زمین دیدی جو عمرؓ نے انہیں یمنی زمین کے عوض صدقہ کی تھی،اب تم ان کے ساتھ بھلائی کرو،کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں ذمہ حاصل ہے،عمرؓ نے ان کے لئے جو صحیفہ تیار کیا تھا اسے غور سے دیکھ لو،اور اس میں جو کچھ درج ہے وہ پورا کرو۔‘‘ ( کتاب الخراج، اردو ترجمہ::۲۷۶)
کچھ غیر مسلموں نے حضرت علیؓ سے ان کے گورنر عمرو بن مسلمہ کی سخت مزاجی کی شکایت کی تو حضرت علیؓ نے گورنر کو لکھا :
’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے علاقہ کے غیر مسلموں کو تمہاری سخت مزاجی کی شکایت ہے،اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے،نرمی اور سختی دونوں سے کام لو،لیکن سختی ظلم کی حد تک نہ پہنچ جائے۔۔۔ان کے خون سے اپنا دامن محفوظ رکھو۔‘‘
اسلام تمام انسانوں کے مذہبی معاملات کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ انکی صحیح رہنمائی اور خدائی نظام کی دعوت دینے کا حکم بھی دیتا ہے تا کہ انسان کو دنیا میں امن و سکون حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی پر سکون زندگی نصیب ہو:
يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ (المائدہ:۶۷)
’’اے پیغمبر!جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے اوپر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو۔ ‘‘
وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (بقرۃ:۸۳) ’’لوگوں سے اچھی بات کہو۔‘‘
دشمنوں کے ساتھ عفو ودر گذر کا معاملہ
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَہٗ عَدَاوَۃٌ كَاَنَّہٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ(حمٓ السجدہ:۳۴)
’’تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیاہے۔‘‘
آخری رسول ﷺ کی لائی ہوئی ان تعلیمات کا مطالعہ کیجئے جو صحیح ترین سندوں کے ساتھ ہم تک پہونچی ہیں،اندازہ ہو گا کہ دشمنوں کے ساتھ عفوو درگذر ،ہمدردی و غمخواری،اور حسن سلوک کی جو مثالیں پیش کی ہیں دنیا کی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتیں،نمونہ کے لئے چند واقعات اختصار کے ساتھ پیش کئے جا رہے ہیں،اہل مکہ نے اللہ کے آخری رسول ﷺکے ساتھ جو ظلم اور زیادتیاں کی ہیںوہ کسی سے پوشیدہ نہیں ،متعدد مرتبہ آپﷺ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا،ایک مرتبہ تمام قبائل کے افراد آپﷺ کو قتل کرنے کے لئے گھر میں گھس آئے،بالآخر آپ کو اپنے محبوب شہراور خانہ کعبہ کو الوداع کہنا پڑا،لیکن ۹سال بعد جب اسی شہر مکہ پر آپ کا قبضہ ہو گیا،اور سامنے وہی ظالم و جابر اب بھی موجود تھے جنہوں نے اسی شہر میں آپﷺ کو پورے خاندان سمیت شعب ابی طالب کی گھاٹیوں میںمحصور کر کے مکمل بائیکاٹ کیا،آپ کی مخالفت میں پوری توانائی صرف کر دی تھی،جب آپﷺ اسی شہر مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے،لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ محمد پرانے مظالم کا بدلہ لیں گے،لیکن ہادئی برحق نے ان کے توقع کے خلاف یہ اعلان کردیا:
لا تثریب علیکم الیوم یغفر اللہ لکم ۔اذھبوا فانتم الطلقاء
’’آج تم پر کوئی الزام نہیں،اللہ تمہاری غلطی کو معاف کرے گا،جائو تم سب آزادہو۔‘‘ (ابن ہشام،ج:۲ص:۲۷۳)
وحشی ؓ جورسول اللہ کے عزیز ترین چچا کا قاتل،ھندہ زوجہ ابو سفیان جس نے حضرت حمزہ کا سینہ چاک کر کے دل و جگر چبایا تھا، سب کو معاف کردیا۔(بخاری کتاب المغازی،باب قتل حمزہ،بخاری کتاب الفضائل،ذکر ھند)
حضرت عکرمہ جو اسلام کا شدید ترین دشمن ابو جہل کے بیٹے ہیں،اسلام لانے سے قبل رسول اللہ ﷺ سے دشمنی رکھنے میں ابو جہل سے کم نہ تھے،لیکن جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اللہ کے رسولﷺ نے گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا ۔(موطا امام مالک ،کتاب النکاح،باب نکاح المشرک اذا اسلمت زوجتہ قبلہ) اور دوسری روایت میں وارد ہے کہ ان کے لئے آپ کی زبان مبارک پہ یہ کلمات جاری تھے:
مرحبا بالراکب المہاجر۔(مشکوٰۃ کتاب الادب،باب المصافحۃ والمعانقہ،بحوالہ ترمذی)
’’اے ہجرت کرنے والے سوار خوش آمدید۔‘‘
عمروبن وہب جس کو صفوان بن امیہ نے رسول اللہ کے قتل پرمامور کیا تھا،فتح مکہ کے روز ڈر کے مارے جدہ بھاگ گئے ،صفوان بن امیہ ہی کے کہنے پر،ان کو واپس بلا کر معافئی عام میں شامل کیاگیا۔( سیرت ابن ہشام،ج:۲ص:۲۷۶)
ہباربن الاسود جس نے اللہ کے رسول کی صاحبزادی حضرت زینبؓ کو جب وہ حاملہ تھیںجان بوجھ کر دشمنی کی وجہ سے اونٹ سے گرا یا،جس سے ان کو سخت اذیت پہنچی اور حمل ضائع ہو گیا، فتحہ مکہ کے روز جب ھبار قبضہ میں آئے تو ان کو بھی معاف کر دیا گیا۔( اصابہ،ذکر ھبار بن الاسود،ج:۶ص:۲۷۹)
ابو سفیانؓ جو دشمنان اسلام کے سردار تھے،فتح مکہ کے روز ان کو صرف معاف ہی نہیں کیا گیا بلکہ یہ اعلان کردیاگیا کہ جو کوئی ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اس کا قصور بھی معاف ہو جائے گا۔ (بخاری ومسلم،فتح مکۃ)
اسلام اور انسانی برادری
آخری رسولﷺکا ارشاد ہے :
لاتباغضواولاتحاسدواولاتدابرواوکونواعباد اللہ اخوانا۔ (بخاری،کتاب الادب،باب الھجرۃ) وفی روایۃ: ولا تناجشوا۔
(بخاری،کتاب الادب،باب ماینھیٰ عن التحاسد)
’’ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو،سب مل کر خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ،اور ایک روایت میں ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو۔‘‘
من لا یرحم ولایرحم (بخاری،کتاب الادب ،باب رحمۃالناس والبھائم)
’’جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘
تم زمین والوں پہ رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کریگا۔(حاکم مستدرک ،کتاب البر والصلۃ)اسلام کی دی ہوئی رافت ورحمت کی تعلیم میں انسان تو دورجانوروںاور کیڑوں مکوڑوں کو بھی شامل کیا گیا ہے، اللہ کے رسول کا ارشاد ہے:
’’جو انسان کوئی درخت لگائے گا اس میں سے جو انسان یا پرندہ بھی کھائے گااس کا ثواب اس لگانے والے کو ملے گا۔‘‘ (بخاری،کتاب الادب ،باب رحمۃالناس والبھائم )
ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺنے ایک ایسے شخص کا جس نے ایک جانور کے ساتھ حسن سلوک کیا تھاتذکرہ کرتے ہوئے بیان کیا کہ اس کے اس کام پر بھی ثواب ملا،صحابہ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ کیاجانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنے میں بھی ثواب ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہر اس ہستی کے ساتھ نیک سلوک کرنے میں ثواب ہے جس میں زندگی کی تری(تر جگر)ہے۔(بخاری،کتاب الادب ،باب رحمۃالناس والبھائم)
ایک غیر مسلم بوڑھے شخص کو حضرت عمرؓ نے بھیک مانگتے ہوئے دیکھا ،آپؓ نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھ کر پوچھا تم بھیک کیوں مانگتے ہو؟اس نے جواب دیا ٹیکس ادا کرنے کے لئے اور اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے،حضرت عمرؓ اس کو اپنے گھر لے گئے ،کچھ دیا اور خزانہ کے انچارج کے پاس یہ لکھ کر بھیجا کہ اس کی اور اس جیسے لوگوں کی دیکھ بھال کیا کرو،خدا کی قسم یہ انصاف نہیں ہے کہ اس کی جوانی کی کمائی ہم لوگ کھائیں اور بوڑھے ہونے پر اس کی مدد چھوڑ دیں،قرآن میں فقرا ومساکین کے لئے صدقہ کی اجازت ہے،فقراء تو وہی ہیں جو مسلمان ہیں،اور یہ لوگ غیر مسلم کے مساکین ہیں،ان سے جزیہ نہ لیا جائے،اور مسلمانوں کے بیت المال سے ایسے لوگوں کے لئے وظیفہ جاری کر دیا جائے۔(کتاب الخراج،)
مشمولہ: شمارہ فروری 2014