کورونا وائرس سے متعلق نئے فقہی مسائل

محمد رضی الاسلام ندوی

یورپی کونسل برائے افتاء و تحقیق کے تیسویں ہنگامی اجلاس

  (یکم تا ۴؍ شعبان ۱۴۴۱ھ، ۲۵؍ تا ۲۸؍ مارچ ۲۰۲۰ء) کے فتاویٰ

تلخیص و ترجمہ : محمد رضی الاسلام ندوی

کورونا وائرس کی وبا پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے ۔یہ شدیدمتعدی مرض ملنے جلنے ،ہاتھ لگانے اور چھونے سے پھیلتا ہے ۔لاکھوں افراد اس سے متاثر ہیں اور ہزاروں اس میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوچکے ہیں۔اس وبا کے نتیجے میں لوگ بہت سے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کے ذہنوں میں بہت سے سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ علماء نے انفرادی طور پر ان مسائل کو حل کرنے اور ان سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے اور بدلتے ہوئے حالات میں شرعی رہ نمائی کی ہے ۔ بعض مسائل ایسے ہیںجو اجتماعی اجتہاد کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں یورپی کونسل برائے افتاء و تحقیق کا تیسواں ہنگامی اجلاس Zoom ایپ کی مدد سے یکم تا ۴؍ شعبان ۱۴۴۱ھ/ ۲۵ تا ۲۸؍ مارچ ۲۰۲۰ ء میں’کورونا وائرس (COVID-19) سے متعلق نئے فقہی مسائل‘ کے موضوع پر منعقد ہوا۔اس کے پہلے سیشن میں فرانس ، برطانیہ اور جرمنی کے چار مسلم ماہرڈاکٹروں نے بھی شرکت کی۔انھوں نے کورونا سے متعلق طبی حقائق اور معلومات پیش کیں اور اس مرض سے محفوظ رہنے کے لیے مطلوب احتیاطی تدابیر اور اس میں مبتلا ہوجانے اور وفات پاجانے کی صورت میں کیے جانے والے اقدامات کو تفصیل سے بیان کیا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ فقیہ کے لیے اس وائرس کے بارے میں کن باتوں کا جاننا ضروری ہے؟ تاکہ اس کا فتویٰ صورتِ حال پرصحیح طریقے سے منطبق ہو۔ اس کے بعد کونسل کے رکن علماء نے ان ڈاکٹروں سے کچھ سوالات کیے، جن کے انھوں نے تفصیل سے جوابات دیے۔ آخر میں ارکانِ کونسل نے متعدد نشستوں میں طویل بحث و مذاکرہ کے بعدفتاویٰ منظور کیے گئے۔ ان کی تلخیص ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔(رضی الاسلام )

تمہید: طاعون اور وبا کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر

اسلامی نقطۂ نظر ان الٰہی سنتوں پر مبنی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے عالمِ طبیعی اور عالمِ بشری میں ودیعت کیے ہیں۔ اس کا ارشاد ہے: فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَبْدِیلاً وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَحْوِیلاً(فاطر: ۴۳) ’’تم اللہ کے طریقے میں ہر گز کوئی تبدیلی نہ پاؤگے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے۔‘‘اس کے بر خلاف دیگر فلسفے صرف مادی اسباب و نتائج کو جانتے ہیں، جن کا اندازہ ریاضیاتی طور پراور لیباریٹری کے ذریعے لگایا جاتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے بعض اسباب مادّی اور بلا واسطہ ہوتے ہیں اور بعض معنوی، جن کا تعلق غیب سے ہوتا ہے۔ مظاہر کی منطقی تشریح کا تعلق ان متعین مقاصد سے ہوتا ہے جن کے لیے پورا نظامِ کائنات سرگرم عمل ہے۔ یہ عالمِ بالا کے ان قوانین کے تابع ہوتا ہے جن کی تشکیل اس کے لیے کی گئی ہے تاکہ نظامِ کائنات چلتا رہے۔ یہ مقاصد اور بالائی قوانین ہی الٰہی سنتیں ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ نے نظامِ کائنات تسلسل اور نظم کے ساتھ چلانے کے لیے وضع کیا ہے۔

ان الٰہی سنتوں میں سے کچھ آزمائش اور تکلیف سے متعلق ہیں، تاکہ ان کے ذریعہ انسانوں کی سرکشی اور زمین میں فساد کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ظَہَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَہُم بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ (الروم : ۴۱)

’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے ،لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے، تاکہ اللہ مزہ چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آجائیں‘‘۔

کچھ الٰہی سنتوں کا تعلق خوش حالی اور آسمان و زمین کی برکتوں کے حصول سے ہے۔ اس لیے زمین کی اصلاح کے بارے میں ہدایت ِ ربّانی پر عمل کیا جاتا ہے، تقویٰ کی روش اختیار کی جاتی ہے اور غلطیوں اور لغزشوں پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرَی آمَنُواْ وَاتَّقَواْ لَفَتَحْنَا عَلَیْْہِم بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَاء ِ وَالأَرْضِ (الاعراف: ۹۶)

’’ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔‘‘

کورونا (COVID-19) کی وبا کا تعلق آزمائش کی سنت ِالٰہی سے ہے۔ اس کے اسباب یہ ہیں کہ ماحول اور طبیعیاتی سرچشموں کے ساتھ تعامل میں فساد پیدا ہوگیا ہے، مختلف سطحوں پر ظلم جاری و ساری ہے، ایمان، اخلاق اور اقدار کا استخفاف کیا جا رہا ہے، یہاں تک کہ کائنات کا عام توازن بگڑ گیا ہے، جیسا کہ ہم گزشتہ چند دہائیوں اور برسوں میں دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی سنتیں کسی کی جانب داری نہیں کرتیں۔ آخر میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو نجات دیتا ہے جو دوسروں کو برائی سے روکنے کی ذمے داری پوری کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُکِّرُواْ بِہِ أَنجَیْْنَا الَّذِیْنَ یَنْہَوْنَ عَنِ السُّوئِ وَأَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ بِعَذَابٍ بَئِیْسٍ بِمَا کَانُواْ یَفْسُقُون(الاعراف ۱۶۵)

’’ آخر کار جب وہ ان ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انھیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو، جوظالم تھے، ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا۔‘‘

سنن ِالٰہی کے مطابق حالات کا صحیح شعور حاصل کرنے کے بعد ہماری ذمے داری ہے کہ ہم حالات کو تمام اعتبارات سے بدلنے اور بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ جہاں تک وائرس کا تعلق ہے تو وقت گزرنے کے ساتھ ان شاء اللہ اس کا خاتمہ ہوجائے گا، جیسا کہ تاریخ میں متعدد مرتبہ طاعون کی بیماری کا خاتمہ ہواہے ۔اور عبرتیں اور نصیحتیں رہ جائیں گی، ان لوگوں کے لیے جو ان سے فائدہ اٹھانا چاہیںگے۔

 

کیا وائرس اور وبا عقوبتِ الٰہی ہے؟

سوال: کیا وائرس اور وبا لوگوں کے لیے اللہ کی طرف سے سزا ہے؟

جواب: آزمائشیں اور آفات، جن سے لوگ دوچار ہوتے ہیں، زندگی کی سنتوں میں سے ہیں۔ ان سے لوگ بچ نہیں سکتے۔ فرق ِ مراتب کے باوجود وہ انفرادی طور پر بھی ان کا شکار ہوں گے اور اجتماعی طور پر بھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوکُم بِالشَّرِّ وَالْخَیْْرِ فِتْنَۃً وَإِلَیْْنَا تُرْجَعُونَ(الانبیاء: ۳۵)

’’ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم اچھے اور برے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں۔ آخر کار تمھیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔‘‘

اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہ تقدیر کاہے کہ جو کچھ ہوتا ہے ، اللہ کے اذن سے ہوتا ہے، خواہ ہمیں اس کی حکمت معلوم ہو یا نہ معلوم ہو۔ لیکن تقدیر پر یہ راسخ ایمان مسلمان کو غور و فکر کرنے اور عبرت و نصیحت حاصل کرنے سے نہیں روکتا۔ قدرتی آفات کا شکار نیک و بد سب لوگ ہوتے ہیں۔ اس سے تمام انسانوں کو یہ یاد دہانی ہوتی ہے کہ وہ مادّی اور سائنسی میدانوں میں چاہے جتنی ترقی کرلیں، لیکن روحانی اور اخلاقی پہلوؤں کو انہیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اپنے خالق سے رابطہ مضبوط کرنا چاہیے اور بنیادی قدروں، مثلاً عدل ِ اجتماعی، پُر امن بقائے باہم، انسانی حرمت اور نیکی و بھلائی کے کاموں میں باہمی تعاون کو مضبوطی سے تھامے رہنا چاہیے۔

اس معنیٰ میں آزمائش انتقامِ الٰہی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ آزمائش کے متعدد مقاصد ہوتے ہیں:

٭ لوگ جب اللہ تعالیٰ کی بعض نعمتوں سے محروم ہوتے ہیں تب انھیں ان کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ صحت کی قدر صحیح معنیٰ میں وہی شخص کر ے گا جو کسی مرض میں مبتلا ہوگیا ہو۔ امن کی نعمت کو وہی شخص پہچان سکتا ہے جو کچھ عرصہ خوف میں جیے۔ انسان اکثر ان بہت سی ظاہری و باطنی نعمتوں سے غافل ہوجاتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے اسے نوازا ہے۔ اسے جب اللہ کی نعمتوں کا احساس ہوتا ہے تو اس کی شکر گزاری بڑھ جاتی ہے اور جو کچھ اسے حاصل ہے اس پر قانع ہوجاتا ہے۔

٭ اس کے ذریعے بندے کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ ہمیشہ اللہ کی پناہ میں جائے اور اسی سے تحفظ اور مدد طلب کرے۔ انسان جب مصیبتوں اور تکالیف میں مبتلا ہوتا ہے تو اسے تلاش کرتا ہے جو اس کی مدد کرے اور نجات دے۔ جب اسے احساس ہوگا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں صرف اللہ ہی اس کامددگار اور کارساز ہے تو اسے اطمینان و سکون حاصل ہوگا۔

٭ مصیبتیں اور آزمائشیں اس لیے بھی آتی ہیں کہ بندوں کو معاصی اور گناہوں میں پڑنے سے بچائیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ وہ انھیں متنبّہ اور ہوشیار کرتا ہے، تاکہ وہ غلط کاموں سے بچیں، جن کا ضرر خود ان کی ذات کو اور سماج کو پہنچتا ہے۔ یہ تنبیہ مومن اور غیر مومن سب کے لیے ہوتی ہے۔

یہاں اس جانب بھی توجہ دلانا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جو آزمائش لوگوں کو معاصی سے بچانے کے لیے آتی ہے وہ ہر اس عمل کے ذریعہ ہوتی ہے جس میں انسان صحیح راہ سے ہٹ جاتا ہے، خواہ اس کے اپنے رب سے تعلق کا معاملہ ہو، یا دوسرے انسانوں سے ، یا کائنات سے۔ یہ بات کسی پر مخفی نہ ہوگی کہ ان تمام میدانوں میں انسان غلط راہوں پر جا پڑے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا عام ہونے کے بعد دنیا کے دانش وروں کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں کہ انسانوں نے زندگی کے تمام پہلوؤں میں جو غلط طرزِ عمل اختیار کر رکھا ہے اس پر نظر ثانی کریں۔ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ انسانیت کی معاصر تاریخ میں کورونا کے بعد کی زندگی کورونا سے قبل کی زندگی سے مختلف ہوگی۔ اقدار اور اخلاق میں پیدا ہونے والا انحراف، انسانوں کے درمیان عدل اور دولت کی مساویانہ تقسیم کی خلاف ورزی، ماحول سے عدم ِ مطابقت، فضائی آلودگی، جنگوں کی آگ بھڑکانا، یہ سب وہ گناہ ہیں جن سے انسانیت کو توبہ کرنی چاہیے۔ ان سے ہوشیار کرنے کے لیے آزمائش ہوتی ہے، تاکہ ظلم اور سرکشی جاری رکھنے کے انجام سے باخبر کر دیا جائے۔

 

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو کیسے روکا جائے؟

سوال: کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو کیسے روکیں؟اسلام اس سلسلے میں کیا ہدایات دیتا ہے؟

جواب: کورونا وائرس پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ اس پر قابو پانے کے لیے تمام ممالک جی جان سے لگے ہوئے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام مادّی اور معنوی صلاحیتیں وقف کر دینی ہوں گی۔ کورونا وائرس کے خطرہ کا مقابلہ کرنے اور اس سے حفاظت کے لیے اسلام درج ذیل ہدایات دیتا ہے:

٭ اسلام انسان کو ایمانی طاقت فراہم کرتا ہے، جس کے ذریعہ وہ پوری شجاعت اور پامردی کے ساتھ سختیوں کو برداشت کرتا ہے۔ امراض کا مقابلہ کرنے کے لیے انسان کو ضرورت ہوتی ہے کہ اس کی بدنی اور نفسیاتی مناعت قوی ہو۔ یہی بات اطباء اور ماہرین بھی کہتے ہیں۔ مریض جس قدر سکون و اطمینان کی حالت میں ہوگا اتنا ہی وہ مرض کا مقابلہ کرنے پر قادر ہوگا۔ ساتھ ہی احتیاط اور علاج کے اسباب اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ اسباب ِ مناعت میں سے یہ بھی ہے کہ زندگی میں نظامِ صحت: غذا، حرکت اور احتیاط وغیرہ پر توجہ دی جائے۔ اسلام نے ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے کی دعوت دی ہے اور اس پر ابھارا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ چیزیں کھانے اور ناپاک چیزوں سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ (الاعراف: ۱۵۷)

٭ اسلام نے صفائی ستھرائی کا تاکیدی حکم دیا ہے۔ فقہ اسلامی کا پہلا باب طہارت پر ہوتا ہے، جو عبادت کے لیے شرط ہے۔ اس کے لیے غسل کے احکام بیان کیے گئے ہیں۔ نماز کے لیے وضو لازم کیا گیا ہے کہ جسم کے ظاہری اعضا دھوئے جائیں۔ کھانا کھانے سے قبل اور اس کے بعد دونوں ہاتھ دھونے پر ابھارا گیا ہے۔مسواک کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ احادیث میں خصال ِ فطرت کو اختیار کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ کھانے کو خراب اور آلودہ ہونے سے بچانے کی تاکید کی گئی ہے۔ حفظانِ صحت سے متعلق ان ہدایات کا مقصد یہ ہے کہ نظافت انسان کی زندگی میں اس کے معمولات میں شامل ہو جائے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

أوکوا الأسقیۃ ، و خمّروا الطعام والشراب (بخاری: ۵۶۲۴، مسلم: ۲۰۱۱)

’’مشکیزوں کو باندھ کر رکھو اور کھانے اور پانی کو ڈھکے رہو۔‘‘

اس میں شک نہیں کہ حفظانِ صحت سے متعلق یہ ہدایات امراض سے تحفظ فراہم کرنے کے سلسلے میں بہت مؤثر ہیں۔ طبی ادارے بھی انہی چیزوں کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ ایک مومن جب ان ہدایات پر عمل کرے گا تو وہ بہ یک وقت حفظان ِ صحت کے اصولوں پر عمل کرنے والا ہوگا اور خالص عبادتی عمل بھی انجام دے رہا ہوگا۔

٭ کوئی وبا پھیلی ہوئی ہو تو اسلام نے ان صحتی تدابیر کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے جو تعدیہ (Infection)کو پھیلنے سے روکنے والی ہوں۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

اذا سمعتم بالطاعون بأرض فلا تدخلوھا، واذا وقع بأرض وأنتم فیھا فلا تخرجوا منھا (بخاری: ۵۷۲۸، مسلم: ۲۲۱)

’’جب تم سنو کہ کہیں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر اس وقت وہاں موجود ہو تو وہاں سے باہر نہ نکلو۔‘‘

وبا کی صورت میں یہ ہدایت ِ نبویؐ مومن کو یہ ذمہ داری سکھاتی ہے کہ وہ خود بھی ضرر سے بچنے کی کوشش کرے اور دوسروں کو بھی ضرر نہ پہنچائے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد نبویؐ کو احکام ِشریعت میں ایک قاعدہ ٔکلیہ کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے:

لاضرر و لا ضرار (موطا امام مالک) ’’نہ خود نقصان اٹھاؤ، نہ دوسرے کو نقصان پہنچاؤ۔‘‘

٭ کورونا کی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اہلِ ایمان حفظانِ صحت کی ان ہدایات کی پابندی کریں جو سرکاری محکموں کی جانب سے جاری کی جاتی ہیں، تاکہ وہ خود بھی محفوظ رہیں اور دوسروں کی بھی حفاظت ہو۔ اجتماعی ذمے داری کا یہ مفہوم اس حدیث ِ نبویؐ سے مستنبط ہوتا ہے جس میں ایک دو منزلہ کشتی کی مثال دی گئی ہے، جس کی نچلی منزل میں رہنے والوں نے ارادہ کیا کہ وہ نیچے سوراخ کرکے پانی حاصل کرلیا کریں۔ اگر انھیں سوراخ کرنے دیا گیا تو سب ہلاک ہوجائیں گے اور اگر ان کا ہاتھ پکڑ لیا گیا تو سب محفوظ رہیں گے۔ (بخاری: ۲۴۹۳)

اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر شخص کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ وہ جو کچھ کر سکتا ہے اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملہ کو چاہیے کہ مریضوں کا علاج کریں۔ محققین کو چاہیے کہ اس کی دوائیں اور ویکسین تیار کریں۔ اصحابِ ثروت کو چاہیے کہ سائنسی تحقیقات، علاج معالجہ اور لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنا مال پیش کریں۔ معذوروں اور بوڑھوں کی مدد کرنے کے لیے ہر شخص آگے آئے۔ ہر انسان کے ذہن میں یہ بات مستحضر رہنی چاہیے کہ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دوڑ بھاگ کرنا تقرّبِ الٰہی کے عظیم کاموں سے ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے اللہ کے رسول ﷺ سے سوال کیا: لوگوں میں کون سا شخص اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہو۔‘‘‘ (ابن ابی الدنیا، طبرانی)

 

کورونا وائرس کے سبب مسجدوں میں نماز موقوف کر دینے کی مشروعیت

سوال: کیا شریعت میں کوئی ایسی نص ہے جو عبادات کی ادائیگی پر جسمانی صحت کو مقدم قرار دیتی ہو؟ کیا قرآن کریم اور سنت ِنبوی میں کوئی ایسی دلیل ہے جو ان حالات میں مسجدوں میں نماز کو موقوف کردینے کو جائز ٹھہراتی ہو؟

جواب: اسلامی تعلیمات انسانی زندگی کی حفاظت کرنے اور اسے ہر طرح کی اذیت سے بچانے کی تلقین کرتی ہیں۔ اس کا شمار ان اعلیٰ اقدار میں ہوتا ہے جنھیں اسلام نے استحکام بخشا ہے۔ انسانی زندگی کی حفاظت کو اسلام نے اتنی اہمیت دی ہے کہ جبر و کراہ کی صورت میں مسلمان کو کلمۂ کفر زبان پر لانے کی اجازت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

إِلاَّ مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِیْمَانِ (النحل: ۱۰۶)

’’سوائے اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔‘‘

اسلام نے مریض اور مسافر کو رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہے، تاکہ وہ شدید مشقت اور ضرر سے بچا رہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَمَن کَانَ مِنکُم مَّرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ (البقرۃ: ۱۸۴)

’’ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے۔‘‘

ان چیزوں کی اجازت اس کے باوجود دی گئی ہے کہ ان میں عزیمت اور افضل عمل کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ اس بنا پر بہ درجہ اولیٰ یہ بات کہی گئی ہے کہ کورونا وائرس کے تعدیہ سے لوگوں کو بچانے کے مقصد سے مساجد میں نمازیں موقوف کردی جائیں اور گھروں میں ادا کی جائیں۔

شریعت کے کچھ متفق علیہ قواعد ہیں: مثلاً لاضرر ولا ضِرار (ضرر کو دور کیا جائے گا۔) الضرورات تُبیح المحظورات (ناگزیر صورتِ حال میں ناجائز چیزیں جائز ہوجاتی ہیں۔) المشقّۃ تجلب التیسیر (مشقت کی صورت میں آسانی کا حکم دیا جاتا ہے۔) موجودہ حالات میں مساجد میں شعائر کی انجام دہی کو موقوف کردینے کے جواز پر مذکورہ بالا قواعد کے ساتھ درج ذیل احادیث سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے:

۱۔ حضرت ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: لا یُورِدَنَّ مُمرِض علی مُصحّ (بخاری: ۵۷۷۱، مسلم: ۲۲۲۰) ’’مریض صحت مند کے پاس ہر گز نہ جائے‘‘۔

اطباء نے یہ بات قطعیت کے ساتھ کہی ہے کہ کورونا وائرس کے حامل شخص پر مرضی علامات بسا اوقات طویل مدت تک ظاہر نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے وہ ہراس شخص تک، جس سے ملاقات کرے گا، وائرس منتقل کر سکتا ہے۔ مساجد میں لوگوں کے آنے جانے، صفوں میں مل کر کھڑے ہونے اور ایک ہی جگہ مختلف لوگوں کے سجدہ کرنے سے یہ امکان بڑھ جاتا ہے ۔

۲۔ حضر ت عبدالرحمن بن عوفؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:

’’جب تم سنو کہ کہیں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں نہ جاؤ اور پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سے فرار اختیار کرتے ہوئے وہاں سے نہ نکلو۔‘‘ (بخاری: ۵۷۲۹، مسلم: ۲۲۹۱)

اگر یہ چیز ممالک، علاقوں اور شہروں میں آنے جانے کے سلسلے میں ملحوظ رکھنے کی ہے تو کم بھیڑ بھاڑ کے مقامات، مثلاً مسجدوں میں بہ درجۂ اولیٰ اس کا لحاظ کیا جائے گا۔ تمام لوگوں کو بچانے کے مقصد سے مسجدوں کو بالکلیہ بھی بند کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر اس صورت میں جب جمعہ اور جماعت کے سلسلے میں دیگر شرعی منصوص بدل موجود ہوں۔

۳۔ مسجدوں میں حاضری سے رخصت کو اس رخصت پر قیاس کیا جاسکتا ہے جو اللہ کے رسول ﷺ نے بارش کی صورت میں دی تھی۔ حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ بارش کے دن حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے مؤذّن سے فرمایا:’’جب تم أشھد أنّ محمّداً رَّسولُ اللّٰہِ کہہ چکو تو حی علی الصلوٰۃ نہ کہنا، بلکہ اس کے بجائے یہ کہنا: صلّوا فی بیوتکم (اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو)۔ مؤذّن نے ایسا ہی کیا۔ یہ سن کر لوگوں کو عجیب لگا۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا: ’’تمھیں اس پر تعجب ہوتا ہے۔ اسے اُس شخص نے کیا تھا جو مجھ سے بہتر ہے (یعنی اللہ کے رسول ﷺ)۔ (بخاری: ۹۰۱، مسلم: ۶۹۹)

اس میں شک نہیں کہ وائرس کا خطرہ اور اس سے پہنچنے والی مشقت بارش میں نماز کے لیے مسجد جانے کی مشقت سے بڑھ کر ہے۔

۴۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’جو شخص اذان سنے اور بغیر کسی عذر کے نماز کے لیے مسجد نہ جائے اس کی(گھر پر پڑھی جانے والی) نماز مقبول نہ ہوگی۔‘‘ لوگوں نے سوال کیا: عذر سے کیا مراد ہے؟ فرمایا:خوف یا مرض۔ (ابو داؤد: ۵۵۱، ابن ماجہ: ۷۹۳)

اس حدیث سے فقہاء نے اس پر استدلال کیا ہے کہ اپنے یا گھر والوں کے بارے میں کسی خوف کا شمار ایسے اعذار میں ہوتا ہے جن کی بنا پر جمعہ یاجماعت ترک کرنے کی اجازت ہے۔ مسجد میں جانے سے وائرس کا خود شکار ہوجانے اور اپنے گھروالوں میں اسے منتقل کر دینے کا اندیشہ ہے، اس لیے جمعہ یا جماعت میں شریک نہ ہونے والا اس معاملے میں معذور ہے۔

 

مائک کے ذریعہ مسجد کے امام کی اقتدا میں گھروں میں نمازِ جمعہ

سوال: کیا دور سے نماز جمعہ ادا کرنا جائز ہے؟ اس کی صورت یہ ہو کہ امام مسجد کے منبر سے خطبہ دے، اس کے ساتھ ایک دو افراد ہوں۔ بقیہ لوگ اپنے گھروں میں رہتے ہوئے خطبہ سنیں ،پھر اس کی اقتدا میں نماز جمعہ پڑھیں اور اس کے بعد نمازِ ظہر نہ ادا کریں۔

جواب: گھروں میں نماز ِجمعہ ریڈیو یا ٹیلی ویژن یا مائک یا کسی دیگر مواصلاتی ذریعہ سے جائز نہیں ہے۔ ایسا کرنے سے نمازِ جمعہ ادا نہیں ہوگی اور جو اس طریقہ سے ادا کرے گا اس سے نمازِ ظہر ساقط نہیں ہوگی۔ موجودہ دور کے فتویٰ صادر کرنے والے اداروں اور انجمنوں کا یہی فیصلہ ہے۔ اس موقع پر اور دہائیوں قبل تمام معاصرفقہاء نے یہی فتویٰ دیا ہے۔ اس لیے کہ نمازِ جمعہ توفیقی اور تعبّدی عبادت ہے۔ اس کی ادائیگی ایک مخصوص شرعی طریقے سے ہوتی ہے، جس کے بغیر وہ درست نہ ہوگی۔ اس طریقے پر اور انہی شرائط و ارکان کے ساتھ اس کی فرضیت کے وقت سے وفات ِ نبویؐ تک اس کی ادائیگی کی گئی ہے اور اسی طریقے پر بغیر کسی تبدیلی کے عہد ِ نبویؐ سے لے کر اب تک تواتر کے ساتھ ادا کی جاتی رہی ہے۔ گھروں میں اس کی ادائیگی نبوی طریقے کے بر عکس ہے اور اس کے لیے نئی صورت اختیار کرنا نبوی ہدایت کی خلاف ورزی ہے، جس کی بنا پر نماز باطل ہوجائے گی۔

کسی مواصلاتی ذریعہ سے گھروں میں خطبۂ جمعہ سننا اور نماز ادا کرنا متعدد وجوہ سے درست نہیں ہے:

۱۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا نُودِیْ لِلصَّلَاۃِ مِن یَوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا إِلَی ذِکْرِ اللَّہِ (الجمعۃ: ۹)

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو۔‘‘

اس آیت میں جمعہ کے لیے دوڑ کر جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بنا پر علماء نے جمعہ کے لیے مسجد جانے کو واجب قرار دیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص جمعہ کے دن خوب اچھی طرح غسل کرے، جمعہ کی نماز کے لیے جلد گھر سے نکلے، سواری سے جانے کے بجائے پیدل جائے، مسجد میں امام سے قریب بیٹھے، خوب غور سے خطبہ سنے اور کوئی لغو کام نہ کرے تو گھر سے مسجد تک ہر قدم پر اسے ایک سال کے قیام و صیام کا اجر ملے گا۔‘‘ (ترمذی: ۴۹۶، دارمی: ۱۵۸۸، احمد: ۶۹۵۴)

گھر میں جمعہ کی نماز پڑھنے سے قرآن و سنت کی ان ہدایات پر عمل ممکن نہ ہوسکے گا۔

۲۔ جمعہ کی فرضیت مخصوص طریقہ پر اور متعین مقاصد کے لیے ہے۔ اگر چہ اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جمعہ کے دن نمازِ جمعہ فرض ہے یا نمازِ ظہر، لیکن ان کے درمیان اس میں اختلاف ہے کہ کون سی نماز اصل ہے اور کون سی اس کا بدل؟ راجح قول یہ ہے کہ ظہر اصل اور جمعہ بدل ہے، اس لیے کہ ظہر کی فرضیت اسراء کے موقع ہوگئی تھی اور جمعہ بعد میں فرض ہوا۔ اس لیے اگر کسی عذر کی بنا پر جمعہ قائم نہ کیا جا سکے تو اصل یعنی ظہر کی جانب لوٹا جائے گا۔ بہت سے مسلم شہروں اور علاقوں میں مسلمان جمعہ کی مسجدوں اور پنج وقتہ نمازوں کی مسجدوں میں فرق کرتے ہیں۔چنانچہ وہ جمعہ کی نماز صرف بڑی مسجدوں میں ادا کرتے ہیں، چھوٹی مسجدوں میں ادا نہیں کرتے۔ اگر ریڈیو ، مائک یا کسی اور مواصلاتی ذریعہ سے گھروں میں جمعہ کی نماز کو درست قرار دیا جائے تو یہ فائدہ حاصل نہ ہوگا۔

۳۔ مسجد کے مائک کی آواز پرگھروں میں جمعہ کی نماز پڑھنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نمازِ جمعہ کے شعار کی اہمیت ختم ہوجائے گی اور انجام ِکار بعد میں بھی جمعہ اور پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام نہیں کیا جائے گا۔ اگر اس صورت میں جمعہ کی نماز درست ہے تو پھر پنچ وقتہ نمازیں بھی بدرجہ اولیٰ درست قرار پائیں گی۔ اس طرح مسجدیں تعمیر کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ ہر شہر میں صرف ایک چھوٹی سی مسجد بنا لی جائے گی، جس میں امام کے علاوہ دو تین لوگوں کی گنجائش ہو، بقیہ لوگ مسجد کے مائک پر اپنے گھروں اور کام کی جگہوں میں رہتے ہوئے نماز پڑھ لیں گے۔ اس سے زیادہ تعجب خیز صورت یہ ہوگی کہ اگر مسجد حرام اور ان کے یہاں نماز کا وقت ایک ہو تو وہ اپنے گھروں میں رہتے ہوئے ٹیلی ویژن میں دیکھ کرامامِ حرم کے پیچھے نماز ادا کرنے لگیں گے۔

۴۔ نماز میں اقتدا کی صحت کے لیے فقہاء نے یہ شرط لگائی ہے کہ امام اور مقتدی ایک ہی جگہ ہوں اور مقتدی کو امام کی حرکات و سکنات کا اس طرح علم ہوتا ر ہے کہ شبہ کی کوئی گنجائش نہ ہو اور مقتدی امام کے حال سے ناواقف نہ رہے۔ اگر وہ ناواقف ہوگا تو اس کی نماز درست نہ ہوگی۔ اسی طرح فقہاء نے یہ شرط بھی عائد کی ہے کہ امام اور مقتدی کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ ہو، مثلاً کوئی دیوار حائل نہ ہو، یا ایسی نہر نہ ہو جس میں کشتیاں چلتی ہوں ،یا کوئی ایسی رکاوٹ نہ ہو جو مقتدی کو امام تک پہنچنے سے (اگر وہ اس تک جانا چاہے) روکنے والی ہو۔گھروں میں رہتے ہوئے مائک یا کسی مواصلاتی ذریعہ سے مسجد کے امام کی اقتدا کرنے سے یہ شرائط پوری نہ ہوں گی۔ اس لیے جمہور فقہاء کے نزدیک ایسی نماز درست نہ ہوگی۔ ان کا استدلال اس حدیث نبویؐ سے ہے:

انّما جُعل الامام لیؤتمّ بہ (بخاری: ۳۷، مسلم: ۴۱۱)

’’امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔‘‘

 

جس شہر میں کورونا کا کوئی مریض نہ ہو وہاں مسجد میں نماز ادا کرنے کا حکم

سوال: میرے شہر میں اب تک کورونا کے ایک بھی مریض کا پتہ نہیں چلا ہے اور مسجد کو بند کیے جانے کا کوئی سرکاری حکم نہیں آیا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ایسے اشخاص ہوسکتے ہیں جو کورونا کے حامل (Carrier) ہوں، لیکن ہمیں معلوم نہ ہو، اس لیے کہ ان پر ابھی اس مرض کی علامتیں ظاہر نہیں ہوئی ہیں۔ تو کیا اس حالت میں مسجد میں نماز نہ پڑھی جائے؟

جواب: اس معاملے میں اصل یہ ہے کہ شہر کی انتظامیہ کے احکام اور صحتی محکموں کی ہدایات کی پابندی کی جائے۔ اگر شہر میں معمول کی زندگی جاری و ساری ہو ،کورونا کا کوئی کیس سامنے نہ آیا ہو اور سماجی فاصلہ (Social Distance)کی ہدایت جاری نہ ہوئی ہو تو مسجد میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ شہر کے صحتی محکموں کی ہدایات پر نظر رکھی جائے۔ جب کہیں جمع ہونے سے روک دیا جائے تو گھروں میں رہا جائے اور وہیں گھر والوں کے ساتھ پنچ وقتہ نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جائیں اور جمعہ کی نماز کے بجائے ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جائے۔ لوگوں کی جانوں کی حفاظت کے مقصد سے مسجدوں میں نمازیں موقوف کر دی جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیْدِیْکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ(البقرۃ: ۱۹۵) ’’اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘

 

وبائی علاقوں کا یا وہاں سے نکل کر دوسرے مقامات کا سفر کرنا

سوال:جن علاقوں میں وبا پھیلی ہوئی ہو وہاں کا سفر کرنے یا وہاں سے نکل کر دوسرے مقامات پر جانے کا کیا حکم ہے؟

جواب: کورونا وائرس ، جسےCOVID-19 کا بھی نام دیا گیا ہے، ایسا مہلک وائرس ہے جو لوگوں کے اختلاط سے پھیلتا ہے۔ کسی شخص کو یہ مرض لاحق ہو اور دوسرا اس سے ہاتھ ملائے یا اس کی کوئی چیز چھو لے تو اسے بھی یہ لاحق ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ اس کی موت بھی ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیْدِیْکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ(البقرۃ: ۱۹۵)  ’’اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘

وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ إِنَّ اللّہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْماً( النساء:۲۹) ’’ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین مانو کہ اللہ تمھارے اوپر مہربان ہے۔‘‘

حدیث میں حکم دیا گیا ہے کہ جس جگہ طاعون پھیلا ہوا ہو وہاں کوئی شخص نہ جائے اور وہاں موجود ہو تو وہاں سے نہ نکلنے۔( بخاری:۵۷۳۰، مسلم: ۲۲۱۹)

ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ جن مقامات پر کوئی وبا پھیلی ہوئی ہو وہاں جانا یا وہاں سے نکلنا جائز نہیں ہے۔ اس کا سبب جان کی حفاظت ہے، جس کا شمار مقاصدِ شریعت میں ہوتا ہے۔ مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے شہر کے حکم رانوں اور صحتی محکموں کی ہدایات کی پابندی کرے اور بلا ضرورت اپنے گھر سے باہر نہ نکلے۔ اگر کسی شدید ضرورت سے نکلنا پڑے تو تمام احتیاطی ضوابط پر عمل کرے اور تحفّظ و سلامتی کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھے۔ صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وباؤں کے زمانے میں گھروں میں ٹِک کر رہنا واجب ہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ سے طاعون کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:’’ یہ ایک عذاب تھا، جسے اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا تھا ،بھیجتا تھا۔ اسے اس نے اہل ِ ایمان کے حق میں رحمت بنا دیا ہے۔ جو شخص طاعون کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد صبر کرکے اپنے گھر میں بیٹھا رہے، اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھے اور اس کا یہ اعتقاد ہو کہ اللہ نے جو کچھ لکھ رکھا ہے وہ ہو کر رہے گا، اس کی اگر اس مرض میں موت ہوگئی تو اسے شہید کے برابر اجر ملے گا ۔‘‘( احمد:۲۶۱۳۹)

 

وباؤں کے زمانے میں مصافحہ اور معانقہ کرنا

سوال: وباؤں کے زمانے میں اگر مصافحہ اور معانقہ کرنے سے تعدیہ(Infection)کا اندیشہ ہو تو ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب:ایک مسلمان کا اپنے بھائی سے ملاقات کے وقت اس سے مصافحہ کرنا مسنون ہے۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے:

انّ المسلم اذا صافح أخاہ تحاتت خطایاھما کما یتحاتّ ورق الشجر( البزار)

’’ ایک مسلمان جب اپنے بھائی سے مصافحہ کرتا ہے تو دونوں کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جیسے درخت سے پتّے۔‘‘

اگر مصافحہ اور معانقہ تعدیہ کا سبب بن رہا ہو ، جیسا کہ ڈاکٹروں اور ماہرین نے صراحت کی ہے تو اس صورت میں مصافحہ اور معانقہ کرنا حرام ہوگا۔ شرعی قاعدہ ہے: لا ضرر و لا ضرار( نہ خود نقصان اٹھاؤ اور نہ دوسرے کو نقصان پہنچاؤ۔) ما لا یتمّ الواجب الا بہ فھو واجب( جس کام کے بغیر کسی واجب پر عمل ممکن نہ ہو ، وہ بھی واجب ہو جاتا ہے۔)

حدیث میں ہے کہ قبیلۂ ثقیف کا ایک وفد نبی ﷺ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ اس میں ایک شخص کو جذام تھا۔آپؐ نے اس سے بیعت نہیں کی اور فرمایا:’’ تم واپس جاؤ۔ یہ سمجھو کہ میں نے تم سے بیعت کرلی۔‘‘( نسائی:۴۱۸۲)

اس میں شک نہیں کہ وائرس کا تعدیہ جذام کے تعدیہ سے بڑھ کر ہوتا ہے۔

 

تعدیہ (Infection) کے سبب کسی شخص کی موت کی ذمے داری

سوال: اگر یہ ثابت ہوجائے کہ مجھے کورونا کا مرض تھا اور میرے ذریعے وہ کسی دوسرے شخص کو منتقل ہوا ہے تو کیا اس کا شمار قتل یا قتل ِخطا میں ہوگا ؟ شرعی طور سے مجھ پر کیا ذمے داری ہوگی؟

جواب: انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسی تما م تدابیر اختیار کرے جن کا اختیار کرنا اس کی اپنی جان اور دوسرے انسانوں کی جانوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ اسے کورونا کا مرض ہے تو ضروری ہے کہ وہ دوسروں سے دور رہے، ورنہ گناہ گار اور بارگاہِ الٰہی میں جواب دہ ہوگا۔ اس لیے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے:’’ جب تم سنو کہ کسی جگہ طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر اس جگہ موجود ہو تو وہاں سے نہ نکلو۔‘‘(بخاری:۳۴۷۳، مسلم:۲۲۱۸) یہ حکم ہے اور مطلق حکم وجوب کا فائدہ دیتا ہے۔ بعض فقہائے احناف نے فتویٰ دیا ہے کہ اگر کوئی شخص طاعون میں مبتلا ہو، اس کی اسے خود بھی خبر ہو، پھر بھی وہ سفر کرے، جس سے یہ مرض دوسرے شخص کو لاحق ہوجائے اور وہ مر جائے تو اسے قتل بالسبب قرار دیا جائے گا اور اس پر دیت لازم ہوگی۔ لیکن اگر وہ تمام لازمی طبّی احتیاطی تدابیر اختیار کرے ، اس کے باوجود اس کا تعدیہ دوسرے شخص کو ہوجائے اور اس میں اس کی موت ہوجائے تو وہ قصور وار نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَا أَخْطَأْتُم بِہِ وَلَکِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُکُمْ ( الاحزاب:۵)

’’نادانستہ جو بات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے، لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم دل سے ارادہ کرو،‘‘

 

کورونا کے تناظر میں جنازہ کے احکام

سوال: کسی شخص کا کورونا کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد انتقال ہوجائے تو اسے غسل دینے، کفن پہنانے ، نماز جنازہ پڑھنے اور دفن کرنے کے سلسلے میں کیا احکام ہیں؟

جواب: زمان و مکان اور حالات بدلنے سے فتویٰ میں بھی تبدیلی آجاتی ہے۔ فقہ اسلامی میں متعدد ایسے قواعد بیان کیے گئے ہیں جن میں استثنائی صورتوں اور ناگزیر حالات کی رعایت کی گئی ہے۔ نعشوں کو دفن کرنے کے سلسلے میں ممالک کے قوانین اور متعلقہ محکموں کی ہدایات کی پابندی ضروری ہے۔ ان کی روشنی میں کورونا کے مرض میں ہلاک ہونے والے شخص کے جنازہ کے احکام درج ذیل نکات میں بیان کیے جائیں گے:

۱۔ جہاں تک کورونا کے مرض میں وفات پانے والے شخص کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں طویل بحثوں اوروبائی علاقوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں سے معلومات حاصل کرنے کے بعد کونسل اس رائے تک پہنچی ہے کہ میت کو اسی بیگ اور تابوت میں ، جس میں اسے اسپتال سے نکالا گیا ہے، بغیر غسل یا تیمم کے ( چاہے قانونی طور پر اس کی اجازت ہو) دفن کرنا بہتر ہے۔

٭ مسلمان میت کے غسل کا کیا حکم ہے؟ اس سلسلے میں فقہا کا اختلاف ہے۔ جمہور اسے واجب قرار دیتے ہیں۔ مالکیہ اور احناف کے ایک قول کے مطابق یہ سنّت ہے۔ یہ اختلاف معتبر ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ غسل قول سے نہیں ، بلکہ عمل سے منقول ہے اور عمل کا کوئی ایسا صیغہ نہیں ہوتا جس سے وجوب کا پتہ چلتا ہو۔ راجح یہ ہے کہ میت کو غسل دینا واجب ہے ، لیکن یہ حکم عام حالات کے لیے ہے۔ استثنائی حالات میں ، مثلاً وباؤں کے موقع پر میت کو غسل دینے یا تیمّم کرانے کو ترک کرنا جائز ہے۔

٭ صحتی حلقوں میں آج کل یہ معروف بات ہے کہ میت کو غسل دینے یا تیمّم کرانے والے تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کریں ، اس کے باوجود تعدیہ کا خطرہ باقی رہتا ہے، خاص طور پر اس صورت میں غسل دینے والے کو احتیاطی تدابیر کے سلسلے میں ٹریننگ اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے، جس کا اب موقع نہیں ہے۔ جب طبی عملہ ٹریننگ اور انتہائی احتیاط کے باوجود تعدیہ کا شکار ہو رہا ہے تو غسل دینے والے ، جنہیں اس کی مہارت نہیں ہوتی ہے اور جو میت کے براہ راست رابطہ میں رہتے ہیں ، وہ کیوں کر محفوظ رہ سکتے ہیں؟

٭ فقہی قواعد اور شرعی نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ زندہ صحت مند شخص کی زندگی کی حفاظت کو میت کے حق میں سنّت یا واجب پر عمل کے مقابلے میں ترجیح دی جائے گی۔ احکام کے سلسلے میں غسل دینے والوں کے تعدیہ کا شکار ہوجانے اور ان سے دوسرے لوگوں کو تعدیہ ہوجانے کے ظن ّغالب کا اعتبار کیا جائے گا۔

کونسل اس جانب بھی متوجہ کرنا چاہتی ہے کہ اس وبا میں وفات پا جانے والے شخص کو اگر بغیر غسل دیے اور کفن پہنائے دفن کر دیا جائے گا تو اس کے اجر میں کچھ کمی نہیں آئے گی اور اس کے اہل خانہ اور مسلمان اس کے غسل و تکفین سے بری الذمہ ہوں گے۔ نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص بارگاہِ الٰہی میں شہید کے درجے میں ہوگا۔( بخاری:۵۷۳۴)

۲۔ جمہور کے نزدیک نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے۔ اگر بعض لوگ اسے انجام دے لیں تو تمام لوگوں سے اس کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ کفایت کرے گا کہ قانون جتنے لوگوں کو اجازت دے اتنے لوگ نماز جنازہ پڑھ لیں، خواہ ان کی تعداد صرف تین ہو۔

البتہ جو مسلمان چاہیں وہ غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھ سکتے ہیں، چاہے تنہا پڑھیں۔ بعض شوافع اور حنابلہ غائبانہ نماز جنازہ کے جواز کے قائل ہیں۔

۳۔ جہاں تک دفن کا معاملہ ہے ، اس سلسلے میں اصل یہ ہے کہ مسلمان کو وہیں دفن کیا جائے گا جہاں اس کا انتقال ہو ۔ صحابۂ کرام کو وہیں دفن کیا گیا جہاں ان کا نتقال ہوا۔ اسی طرح اصل یہ ہے کہ مسلمان کی تدفین مسلمانوں کے لیے مخصوص قبرستان میں ہو۔اگر اس میں کوئی دشواری ہو تو جہاں ممکن ہو وہاں اس کی تدفین کردینی چاہیے، چاہے غیر مسلموں کے قبرستان میں اسے دفن کرنا پڑے۔ آخرت میں انسان کا عمل اس کے کام آئے گا، اس کی تدفین کہاں ہوئی ہے ؟اس سے اس کو کچھ فائدہ نہیں پہنچے گا۔ حضرت سلمان فارسی ؓ کا قول ہے: ’’کوئی زمین کسی کو مقدّس نہیں بناتی، بلکہ اس کا عمل اس کو مقدّس بناتا ہے۔‘‘(موطا امام مالک:۲۲۳۲)

 

وبا میں مرنے والے کی نعش کو جلانا

سوال: جن لوگوں کا انتقال کورونا کے مرض میں ہوگیا ہو ، کیاان کی نعشوں کو جلایا جا سکتا ہے، اگر متعلقہ محکمے اس کا حکم دیں؟

جواب: مردوں کو قبروں میں دفن کرنا انسان کی عظمت و حرمت کے مطابق ہے۔ کتاب اللہ میں اس کا تذکرہ ہے:

أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ کِفَاتاً ،أَحْیَاء وَأَمْوَاتاً ( المرسلات:۲۵۔۲۶)

’’ کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا، زندوں کے لیے بھی اور مُردوں کے لیے بھی ۔‘‘

نبی ﷺ کے زمانے سے لے کر آج تک مسلمانوں کے تمام علاقوں اور ان کے سماجوں میں اسی پر عمل ہورہا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو اپنے مُردوں کے حق میں اسی سنّتِ محمّدی کو اختیار کرنے پر اصرار کرنا چاہیے۔

مسلمانوں کی دینی تنظیموں کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ مسلمانوں کے نزدیک مُردوں کو دفن کرنے کے عمل کو کتنی اہمیت حاصل ہے؟ اور ان کی نعشوں کو جلانے کی صورت میں ان میں کتنا اضطراب پیدا ہوگا؟ اس کی وضاحت کریں اور متعلقہ محکموں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ نعشوں کو جلائے جانے کا فیصلہ نہ کریں۔

 

دفن کی وصیت پر عمل کرنے سے معذوری

سوال : میری والدہ کا کورونا کے مرض میں انتقال ہوگیا۔ انھوں نے وصیت کی تھی کہ انہیں ان کے وطن ِ اصلی میں دفن کیا جائے۔ آمد و رفت کے ذرائع پر پابندی کی وجہ سے ان کی نعش کو ان کے وطن ِ اصلی لے جانا ممکن نہیں ہے۔ پھر کیا جہاں ان کا نتقال ہوا، وہیں انہیں دفن کرنے سے ہم گناہ گار ہوں گے؟

جواب: اصل یہ ہے کہ انسان کا جہاں انتقال ہو وہیں اسے دفن کیا جائے۔ سنّت یہ ہے کہ حتّیٰ الامکان تدفین میں جلدی کی جائے۔ یہ حکم عام حالات میں ہے۔ پھر استثنائی حالات میں ، جب کہ نعش کو کہیں دوسری جگہ لے جانا اور وصیت کو پوری کرنا ممکن نہ ہو ، بہ درجۂ اولیٰ یہی حکم ہوگا۔ اس لیے وبائی حالات میں جس شخص کا جہاں انتقال ہو وہیں اسے دفن کردینا چاہیے۔ بعض صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جس شخص کا انتقال اپنے وطن سے دور کسی اور جگہ ہو، اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنا خاص فضل فرمائے گا۔ایک شخص ، جو مدینہ کا رہنے والا تھا، وہیں اس کا انتقال ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی، پھر فرمایا:’’ کاش اس کا انتقال وطن سے باہر کہیں اور ہوتا۔‘‘ لوگوں نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیوں؟ آپؐ نے فرمایا:’’ کسی شخص کا انتقال وطن سے باہر کہیں اور ہوتو جنّت میں اسے اتنی جگہ دی جائے گی جتنا فاصلہ اس کے وطن اور اس کے مقام ِ وفات کے درمیان ہوگا۔‘‘( نسائی:۱۸۳۲، ابن ماجہ:۱۶۱۴)

مشمولہ: شمارہ مئی 2020

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau