غزہ کے خلاف اسرائیل کی کارروائی اور نرویٹو کی جنگ

مسئلہ فلسطین کے تناظر میں صیہونی جھوٹ پر قائم نیریٹو کی یہ جنگ اتنی ہی پرانی ہے جتنی سرزمینِ فلسطین پر صیہونیت کے غاصبانہ قبضہ کی تاریخ۔ نکبہ ۱۹۴۸ کے دوران صیہونیوں نے فسلطینیوں کا بے تحاشا قتلِ عام کیا، انھیں ان کی زمینوں سے بے دخل کر کے ہجرت پر مجبور کیا اور ساتھ ہی یہ جھوٹ بھی پھیلایا کہ فلسطینیوں نے اپنی زمینیں یہود کے ہاتھوں فروخت کی ہیں۔ متعدد علمی تحقیقات نے یہ واضح کیا ہے کہ ایک منصوبہ کے ساتھ یہ جھوٹ پھیلایا گیا کہ فلسطینیوں نے اپنی اراضی یہود کے ہاتھوں فروخت کی تھی، اس کے باوجود آج بھی فلسطینیوں کے خلاف اس جھوٹ کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ صیہونیت کے سہولت کاروں نے سرزمینِ فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کے خلاف ہونے والی جدو جہد، بطورِ خاص مسلح جدو جہد کے بارے میں ہمیشہ یہ جھوٹ پھیلایا کہ یہ دہشت گرد لوگ ہیں حالاں کہ جدید دنیا کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ اپنے وطن اور مقدسات کے تحفظ کے لیے کی جانے والی ہر جدو جہد خواہ وہ سیاسی نوعیت کی ہو یا مسلح جد وجہد ہو ایک جائز اور قابلِ ستائش اقدام ہے اور بین الاقوامی قوانین بھی ایسی ہر جدو جہد کو درست اور قانونی تسلیم کرتے ہیں۔ ۱۹۴۹ء کے جنیوا کنونشن میں منظور شدہ پروٹوکول کی رو سے اپنے وطن کی آزادی کے لیے جد وجہد کرنے والوں کے حقوق کو ہر جگہ تحفظ حاصل ہوگا، انھیں اپنی جدو جہدِ آزادی میں دوسروں سے مدد حاصل کرنے کا بھی حق ہوگا۔ اقوامِ متحدہ کا یہ اعتراف ہے کہ لوگوں کو ان کی آزادی، حقِ خود ارادیت، اور انسانی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ ۱۹۷۴ء کی قرارداد ۳۳۱۴ میں یہ اعلان کیا گیا کہ کسی بھی قسم کے عسکری قبضے کو خواہ وہ وقتی ہی ہو غیر قانونی مانا جائے گا۔ اقوامِ متحدہ کی اس قراردار سے بہت پہلے، قیامِ اسرائیل سے برسوں پہلے برطانوی عہدِ انتداب میں صیہونی مسلح دہشت گرد تنظیموں اِرگن اور لیہی نے برطانوی اہلکاروں پر متعدد حملے کیے اور انھیں اپنے لیے درست ٹھہرایا۔

صیہونی کذب و مکر کے اس جال کو سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ افرادِ امت اور دنیا کے حریت پسندوں کے سامنے فریب کے اس کاروبار کو بے نقاب کیا جا سکے جو صیہونی ریاست کا اہم ستون ہے اور فلسطینی مجاہدین کے کردار و فتوحات کی صحیح تصویر سے دنیا واقف ہو سکے۔ طوفان الاقصیٰ کے تناظر میں نیریٹو کی یہ جنگ اس لیے اور بھی زیادہ اہم ہوگئی ہے کہ ۷ اکتوبر کو صیہونی ریاست کو جس شکست، ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اس نے اسے مجبور کیا کہ جھوٹ کی دکان کو خوب سجایا جائے تاکہ اس رسوائی کے بعد حماس کے مقابلہ میں بھرپور کارروائی کے لیے دنیا بھر میں لوگوں کی ذہن سازی ہو سکے،غزہ میں صہیونیوں کے جنگی جرائم پر دنیا خاموشی اختیار کرے، اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہو اور فلسطینی باشندے دنیا کی ہمدردیوں سے محروم رہیں۔ چناں چہ جنگ کے ابتدائی ایام میں ہی اسرائیل جھوٹا نیریٹو پھیلا کر دنیا، خصوصًا مغربی ممالک کی تائید و ہمدردی حاصل کرنے میں کام یاب ہوتا نظر آیا۔

جھوٹ کی اس صنعت کو جہاں صیہونی ریاست میں فروغ ملا، وہیں مغربی دنیا اور جمہوریت کے دعوے دار ممالک کے میڈیا نے بھی اس کی خوب آبیاری کی۔ انتہا پسندوں کے عروج کے اس دور میں ہمارے ملک کے میڈیا نے بھی صیہونیت کے تئیں اپنی وفاداری نبھانے میں کسی سے پیچھے رہنا قبول نہیں کیا۔ فلسطینی مزاحمتی تحریکات اور قضیہ فلسطین سے ہمدردی رکھنے والوں نے بھی نہ صرف میدانِ جنگ میں صہیونیوں کا مقابلہ کیا بلکہ صیہونی لابی کی توقع کے بر خلاف نیریٹو کی اس جنگ کا بھی بھرپور سامناکیا۔ چناں چہ ابتدائی دنوں میں اسرائیل کو دنیا بھر میں جو بھرپور تائید حاصل ہوئی تھی اس میں کمی واقع ہوئی اور فلسطین کے حق میں رائے عامہ تیار ہونے لگی۔ طوفان الاقصیٰ کے دوران اپنے نیریٹو کی جنگ میں صیہونی حکومت نےکئی ذرائع اور طریقے اختیار کیے۔

صیہونیت نے نیریٹو کی جنگ میں جو پہلا ہتھیار استعمال کیا وہ یہ کہ فلسطینیوں کی شبیہ خراب کی جائے، دنیا کو بتایا جائے کہ فلسطینی باشندے اور مزاحمتی تحریکات سے وابستہ لوگ انسان دشمن اور داعشی ہیں۔ اسرائیلی اہلکاروں، ان کے مددگاروں اور ان کے ہمنوا میڈیا نے اپنی گفتگو، تقاریر اور رپورٹوں میں بڑے زور و شور سے اپنے اس ہدف پر کام کیا۔ بار بار فلسطینیوں کی یہ تصویر بنانے کی کوشش کی کہ یہ انسانیت سے عاری لوگ ہیں، داعش جیسے کردار کے لوگ ہیں۔ حالاں کہ داعش نے تو حماس کے لوگوں کو کافر کہا اور جب داعش نے غزہ میں اپنے اثرات پھیلانے کی کوشش کی تو حماس نےبزور قوت ان کو وہاں سے اکھاڑ پھینکا۔ حماس کو داعش قرار دینے کی اس مہم کے نتیجے میں ابتدائی دنوں میں فسلطین اور فلسطینیوں سے منسوب ہر چیز مثلاً فلسطینی پرچم یا فلسطینی روایتی رومال کو دہشت گردی اور داعش سے جوڑ دیا گیا۔ لیکن غزہ میں جاری اسرائیل کی درندگی، حماس کے اقدامات اور رہا کی گئی اسرائیلی خاتون کے بیانات نے دھیرے دھیرے اس اثر کو پھیکا کردیا۔

فلسطینیوں کی شبیہ خراب کرنے کی اس مہم میں کام یابی ملنے کے بعد نیریٹو کی اس جنگ میں دوسرا کام یہ کیا گیا کہ حماس کی شیطان نما تصویر کو ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے جھوٹے اور مبالغہ آمیز فسانے پھیلائے گئے۔ جھوٹے پروپیگنڈا کی نمایاں ترین مثال چالیس بچوں کے سر کاٹنے سے متعلق جھوٹ ہے جسے اسرائیلی ٹی وی چینل کی رپورٹر نے بڑے جذباتی انداز میں بیان کیا۔ اس دعویٰ کی دلیل کے طور پر کوئی تصویری ثبوت نہیں پیش کیا گیا۔ امریکی ویب سائٹ The Grayzone نے اس جھوٹ کا پردہ فاش کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اسرائیلی ریزرو فوج کے ایک سپاہی ڈیوڈ بن زائن (David Ben Zion) نے یہ جھوٹی خبر پھیلائی کہ فلسطینی مسلح مجاہدین نے ۷ اکتوبر کی کارروائی کے دواران شیر خوار بچوں کے بھی گلے کاٹے تھے۔ اس کے بعد نتنیاہو، بائیڈن اور اسرائیلی و بین الاقوامی میڈیا نے اس جھوٹ کو نہ صرف یہ کہ خوب پھیلایا بلکہ اس کو مزید ہول ناک رنگ دے کر پھیلایا۔ صیہونی وزارتِ خارجہ نے بیان دیا کہ حماس کے لوگوں نے ۴۰ بچوں کے سر تن سے جدا کیے تھے۔ امریکی صدر بائیڈن نے کسی تحقیق کے بغیر ۱۰ اکتوبر کو وائٹ ہاوس میں اپنی ایک تقریر میں بھی حماس کی طرف اس جھوٹ کو منسوب کیا۔

The Grayzoneکہتا ہے کہ مغربی میڈیا ذرائع نے اس دعویٰ کی تحقیق کی بھی ضرورت نہیں محسوس کی اور اسے دھڑلے سے پھیلایا حالاں کہ بن زائن جو کہ اسرائیلی فوج کی یونٹ ۷۱کا ڈپٹی کمانڈر بھی ہے ایک جنونی اور شدت پسند آباد کار ہے، اس نے سالِ رواں میں ہی ایک پوری فلسطینی بستی کو مکمل تباہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کے خلاف فساد بھی بھڑکایاتھا اور اس میں صہیونیوں کی قیادت بھی کی تھی۔ اسرائیلی حکومت کی امداد سے چلنے والے I24 چینل کے نمائندہ کے سامنے دیے گئے اس بیان کو اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے خوب پھیلایا۔ صرف ٹویٹر پر اسے ایک کروڑ سے زائد لوگ دیکھ چکے ہیں۔ دنیا بھر کے صحافیوں اور سیاست دانوں نے اسے حقیقتِ واقعہ سمجھتے ہوئے اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا۔ لیکن ایک دوسرے اسرائیلی رپورٹر اورین زیو نے اس جھوٹ کا پردہ فاش کرتے ہوئے لکھا کہ بچوں کے سر قلم کیے جانے سے متعلق مجھے کافی سوالات موصول ہو رہے ہیں۔ میں متاثرہ علاقوں میں فوجی اہلکاروں کے دورے کے وقت ان کے ساتھ موجود تھا، ہمیں اس دوران اس واقعہ سے متعلق کسی بھی طرح کے شواہد نہیں ملے۔ صیہونی میڈیا ونگ کی طرف سے یہ اور اس جیسے متعدد جھوٹ بہت تیزی کے ساتھ پھیلائے گئے اور ہر دن پھیلائے گئے۔

اپنے نیریٹو کو پھیلانے کے لیے صیہونی ذرائع نے تیسرا کام یہ کیا کہ صیہونی دعووں اور مبالغہ آرائی کی صحت پر سوالات کھڑے کرنے والے کسی بھی صاحبِ شعور شخص کو خوب ہدفِ تنقید بنایا تاکہ ان کے جھوٹ پر پردہ پڑا رہے۔ ان کے دعووں پر سوالات کھڑے کرنے والے شخص کو حماس کا ہمدرد و مددگار (ان کے دعوے کے مطابق داعشی) قرار دیا گیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں میں ایسا خوف پیدا ہو کہ کہ صیہونی دعووں کوجھٹلانے کی وہ جرأت نہ کر سکیں۔

ایک اور کام یہ کیا گیا کہ ہر جھوٹ کو مسلسل بار بار دہرایا گیا۔ یعنی اتنا جھوٹ بولو کہ لوگ دعوے کو درست سمجھنے لگیں۔ بچوں کے سر کاٹے جانے، انھیں نذرِ آتش کرنے یا خواتین کی عصمت دری سے متعلق دعووں کی قلعی کھلنے کے باوجود اسرائیلی اور امریکی عہدیداران ان باتوں کو بار بار دہراتے رہے، اس وقت بھی دہراتے رہے جب کہ لوگوں نےان باتوں کی حقیقت واضح کی۔ یہ اس لیے کیا گیا تا کہ عام لوگ ان دعووں کو یہ سمجھتے ہوئے سچ مان لیں کہ دھواں اٹھ رہا ہے تو لازمًا آگ بھی ہوگی۔

فلسطینی جاں نثار اور قضیۂ فلسطین کے حامل و مددگار افراد بھی نیریٹو کے اس معرکہ میں پوری مہارت کے ساتھ صیہونی پروپیگنڈا کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ فلسطین اور اس کے مددگاروں نے اسرائیل کے ذریعے پھیلائے گئے جھوٹ اور بہتان کی صرف نفی کرنے یا اسرائیلی نیریٹو کی جھاڑیوں سے الجھنے کے بجائے اپنا نیریٹو رکھا۔ فلسطینی، عرب اور انصاف پسند جہد کاروں نےغزہ میں پیہم جاری اسرائیلی دہشت گردی کے انسانی پہلووں کو اجاگر گیا۔ ہزاروں تصاویر اور ویڈیو کے ذریعے صیہونی حیوانیت کے اصل چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ غزہ میں جاری قتلِ عام اور نسل کشی کی پل پل کی صورتِ حال سے دنیا کو آگاہ کیا۔ ایک طرف صیہونی جھوٹ کی صنعت ہے اور دوسری طرف غزہ میں اسرائیلی درندگی سے پیدا شدہ انسانی المیہ کی حقیقی تصویر۔ یہ مقابلہ اصلًا جھوٹ اور سچ کا ہے۔ ایک طرف جھوٹ کی بنیاد پر کھڑی اور جھوٹے الزاموں سے سجی عمارت ہے، تو دوسری طرف حق اور حقدار ہیں۔ قضیۂ  فلسطین کے سپاہیوں نے اسرائیل کے دفاع میں پیش کی گئی تمام کہانیوں کا فوری اور بھر پور جواب دیا۔ نتنیاہو کے دفتر نے ٹویٹر پر جلے ہوئے بچوں کی تصاویر شیئر کی تو فوری جہد کاروں نے بتایا دیا کہ یہ مصنوعی ذہانت Artificial Intelligence کی مدد سے تیار کی گئی تصاویر ہیں۔ صیہونی وزیرِ اعظم کے دفتر نے جب یہ اعلان کیا کہ غزہ کے لیے پانی سپلائی کو بحال کر دیا گیا ہے تو فلسطینی جہد کاروں نے سوشل میڈیا مہم کے ذریعے اس اسرائیلی پروپیگنڈے کو بھی بے نقاب کرتے ہوئے دنیا کو بتایا کہ بجلی اور ایندھن کے بغیر پانی کی فراہمی ممکن ہی نہیں اور غاصب صہیونیوں نے غزہ کے لیے بجلی اور ایندھن دونوں کے راستے بند کر رکھے ہیں۔

صیہونی وجود درندگی اور جھوٹ کے سہارے دنیا کی ہمدردی سمیٹنے کے لیے سرگرم ہے جب کہ فلسطینی کاز سے دل چسپی رکھنے والے حقیقی زمینی صورتِ حال دنیا کے سامنے لا رہے ہیں۔ صیہونی ایک نسل پرست گروہ ہے۔ ایک صیہونی کے نزدیک فلسطینی حقیر مخلوق ہیں، وہ انسانی احترام کے حقدار نہیں جیسا کہ صیہونی وزیرِ دفاع نے فلسطینیوں کے بارے میں کہا تھا کہ یہ انسان نما حیوانات ہیں۔ یہ صرف ایک وزیر کا بیان نہیں بلکہ صیہونی ذہن میں پوشیدہ تصویر کی ایک جھلک ہے۔ صیہونی سیاستدانوں، صحافیوں اور ان کے ہمنواؤں کے ایسے بیانات کو سامنے رکھ کر فلسطینیوں نے اس پہلو کو اجاگر کیا کہ غرور و استکبار کے نشے میں مدہوش صیہونی ٹولہ کس طرح غزہ میں بدترین جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔

۱۷ اکتوبر کوصیہونی فوج نے الاہلی المَعمدانی ہسپتال پر شدید بمباری کی جس میں ۵۰۰ سے زیادہ فلسطینی شہید ہوئے۔ ان میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔ صیہونی درندوں کے نزدیک بین الاقوامی قوانین کی کوئی حیثیت نہیں۔ صیہونی فوج شفا خانوں، پناہ گاہوں اور مدارس پر بھی ۷ اکتوبر کی رسوائی کا داغ دھونے کے لیے بے دریغ حملہ کر رہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسپتالوں اور مریضوں کے خلاف جنگ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ انیسویں صدی کے آخر میں تعمیر کیے گئے اس الاہلی اسپتال کے بیرونی کلینک پر ۱۴ اکتوبر کی شام دو میزائل گرا کر یہ دھمکی دی گئی تھی کہ اگر اسپتال نے اپنی خدمات بند نہ کیں تو اسے مکمل تباہ کر دیا جائے گا۔ ۱۵ اکتوبر کی صبح اسپتال کے ڈائرکٹر کو فون کر کے صیہونی فوج کی طرف سے پھر دھمکی دی گئی کہ کل کے حملہ کے بعد بھی اسپتال کی خدمات بند نہیں کی گئی ہیں اس کا نقصان تمھیں اٹھانا پڑے گا۔ ۱۷ اکتوبر کی شام بمباری کے ذریعے اسپتال کو تباہ کر دیا گیا۔ اس کے فوری بعد اسرائیلی ذرائع نے سوشل میڈیا پر اسے فخریہ انداز میں بیان کیا اور اسے درست ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اسرائیلی فوج کے ڈیجیٹل میڈیا ترجمان حنانیا نفتالی نے ٹویٹر پر لکھا ‘‘اسرائیلی ہوائی فوج نے غزہ کے ایک اسپتال پر بمباری کی جس میں حماس کا مرکز تھا۔ بہت سے دہشت گرد مارے گئے۔ یہ افسوسناک امر ہے کہ حماس اسپتالوں، مساجد اور مدارس سے راکٹ حملے کرتی ہےا ور شہریوں کوبطورِ ڈھال استعمال کرتی ہے۔’’  لیکن پوری دنیا سے اس پر ہونے والے ردِ عمل کو دیکھتے ہوئے مذکورہ ٹویٹ اور اس جیسے دوسرے بیانات کو حذف کر دیا گیا اور اسرائیلی فوج نے ایک نیا دعویٰ پیش کیا کہ فلسطینی میزائل کے گرنے کی وجہ سے اسپتال تباہ ہوا۔ اس دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے اس کی طرف سے ایک ویڈیو بھی شیئر کیا گیا لیکن جب یہ واضح کر دیا گیا کہ یہ جعلی ویڈیو ہے تو اسے حذف کر دیا گیا۔ اس سب کے باوجود کسی دلیل کے بغیر اسرائیل کی طرف سے اس دعویٰ کو بار بار دہرایا گیا۔ اس سے صیہونی فوج کی وحشت اور بوکھلاہٹ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس اسرائیلی فسانہ کو بے نقاب کرنے میں فلسطینی جہد کاروں نے بھر پور کر دار ادا کیا، اسرائیل کی طرف سے جو جھوٹ بھی پھیلایا گیا اس پر انھوں نے نظر رکھی، سارے مواد کو بالترتیب جمع کرتے رہے اور اسرائیلی نیریٹو کا جواب دیتے رہے۔

۱۴ نومبر کو اسرائیلی فوج کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ الرنتیسی اسپتال کے نیچےسرنگ اور حماس کے ہتھیاروں کے ذخائر ملے ہیں۔ فلسطینی اور عرب جہد کاروں اور حماس کی قیادت نے فوری صیہونی فوج کے ترجمان کے جھوٹ کی حقیقت دنیا کے سامنے واضح کی۔ جس راستے کو سرنگ کا راستہ بتایا گیا تھا اس کی تصاویر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے فلسطینی جہد کاروں نے واضح کیا کہ یہ بجلی کے تاروں کے لیے بنایا گیا کنواں ہے، تصویر میں بجلی کا پینل بھی صاف نظر آ رہا ہے۔ ۱۴ نومبر کی شام اور ۱۵ نومبر کی صبح اسرائیلی ٹینکوں نے الشفاء ہسپتال کو چاروں طرف سے گھیر کر اس پر شدید گولہ باری کی۔ چند دنو ں قبل اسرائیلی حکومت کے عربی ٹویٹر اکاونٹ اوردیگر میڈیا ذرائع کی طرف سے ایک خاتون کی طرف سے تیار کردہ جعلی ویڈیو پھیلایا گیا جس میں خاتون نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ الشفاء اسپتال میں نرس کی حیثیت سے کام کرتی ہے اور حماس کے لوگ اسپتال سے ایندھن اور طبی اشیاچھین کر لے گئے ہیں۔ اسپتال کی انتظامیہ اور عملہ نے بتایا کہ مذکورہ خاتون ان کے لیے غیر معروف ہے، وہ اسپتال کے عملے کا حصہ نہیں۔ ساتھ ہی ڈیجیٹل میڈیا ماہرین اور عرب جہد کاروں نے سوشل میڈیاذرائع سے تحقیق کر کے واضح کیا کہ یہ ایک اسرائیلی خاتون ہے جس نے جعلی ویڈیو تیار کیا ہے۔ اس جھوٹ سے پردہ اٹھنے کے بعد اسرائیلی حکومت اور اہلکاروں کے صفحات سے اس ویڈیو کو حذف کیا گیا۔

عراق کو برباد کرنے کے لیے جس طرح جھوٹ کا سہارا لیا گیا تھا اسی طرح ۱۴ نومبر کی شام امریکی وزارتِ دفاع نے غزہ میں اپنے خونی منصوبے کو پورا کرنے کے لیے ایک نیا جھوٹ پیش کیا کہ ہماری خفیہ ایجنسی کے مطابق حماس اور جہادِ اسلامی کی کمانڈ اور کنٹرول مرکز الشفاء اسپتال میں ہے۔ اس کے بعد اسپتال پر قبضہ کر کے وہاں تباہی مچائی گئی۔ اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت تلاش کرنے یا جھوٹ تراشنے میں بھی انھیں کوئی کام یابی نہیں ملی۔

حقیقت یہ ہے کہ صیہونی کذب اور جعلسازی کا یہ دائرہ میدانِ جنگ تک محدود نہیں رہا۔ اسرائیلی میڈیا ذرائع نے مجلہ فوربس کا ایک جعلی ٹائیٹل صفحہ تیار کر کے اسے خوب پھیلایا۔ اس صفحہ پر تباہ شدہ غزہ کی تصویر تھی جس کے سامنے حماس کے بیرونی نظم کے سربراہ جناب خالد مشعل کی ایک مسکراتی تصویر کا اضافہ کیا گیا اور لکھا گیا ارب پتی خالد مشعل جس نے اپنی قوم کو فریب دیا اور دنیا کی امدادی رقم سے اپنی دولت بنائی۔ رائیٹرز کے فیکٹ چیک شعبہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ یہ ایک جعلی صفحہ ہے کیوں کہ فوربس نے وضاحت کی ہے کہ اس کی طر ف سے اس طرح کا کوئی ٹائیٹل صفحہ نہیں تیار کیا گیا ہے۔ خبر رساں ایجنسی نے یہ بھی بتایا کہ اس میں استعمال کی گئی خالد مشعل کی تصویر رائیٹرز کے آرکائیو کا حصہ ہے۔ رائیٹرز کی رپورٹ شائع ہونے کے بعد اسرائیلی صفحات سے فوربس کی طرف منسوب اس جعلی صفحہ کو حذف کیا گیا۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھیں کہ مزاحمتی تحریکات کے جذبہء جاں نثاری اور ان کی فدائیت سے چبھن محسوس کرنے والے متعدد حلقے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ حماس کے چوٹی کے قائدین میدانِ جنگ میں کیوں نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حماس کی پوری قیادت تفویض کر دہ ذمہ داریوں کے دائرہ میں معرکہ سے راست منسلک ہے۔ مزاحمتی تحریکات کا اجتماعی نظام یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کسے میدانِ معرکہ میں اپنا کردار ادا کرنا ہے اور کون لوگ میدان کے لیے مطلوب لازمی کمک کی فراہمی کے دوسرے محاذوں پر رہیں گے۔

مذکورہ تفصیلات یہ واضح کرتی ہیں کہ اسرائیل کو اکثر مغربی حکومتوں کی تائید حاصل ہونے کے باوجود اس کے اس نیریٹو کو چیلنج کیا جا سکتا ہے جس میں وہ فلسطین اور اس سے منسوب ہر چیز کو شیطان نما بنا کر پیش کرتا ہے۔ یہ اس وجہ سے بھی ممکن ہوا کہ لوگوں نے بھاری تعدا د میں سڑکوں پر اتر کر احتجاج کیا۔ اس سے عالمی سطح پر فلسطینی نیریٹو کو قبولیت ملی اور فلسطین کے حق میں رائے عامہ ہم وار کرنے اور اسرائیلی نیریٹو کی کم زوری کو واضح کرنے میں مدد ملی۔ لوگوں کے سامنے اب واضح ہونے لگا ہے کہ فلسطینیوں کی لڑائی حق اور انصاف کی لڑائی ہے۔ صیہونی دہشت گردوں نے سات دہائیوں سے فلسطینیوں کے بارے میں بڑی عیاری سے جو نیریٹو سیٹ کیا تھا اب اس کے تارو پود بکھرنے لگے ہیں۔

طوفان الاقصیٰ نے نہ صرف اسرائیل کی جھوٹ کی صنعت پر کاری وار کیا ہے بلکہ جمہوریت، انسانی حقوق، عدل اور مساوات، استعمار کے خاتمہ، اور تعاونِ باہمی کی دہائی دینے والی مغربی و مشرقی حکومتوں اور حلقوں کے چہرے سے ماسک اتار کر ا ن کا حقیقی سیاہ چہرہ دنیا کو دکھا دیا ہے۔ طوفان الاقصیٰ کے آغاز کے بعد ہی جنگی بیڑوں کی بھاگ دوڑ، صہیونیوں کے ساتھ اظہارِ یگانگت کے لیے مغربی طاقتوں کے سربراہوں اور اہلکاروں کے پیہم دورے، اسرائیل کی غیر مشروط مدد کا اعلان، معاصر عالمی نظام سے ہم آہنگ جمہوری زبان کے استعمال کے بجائے مطلق اعلان کہ ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور بس، باقی تمام چیزیں غیراہم ہیں۔ یعنی ہم نسلی امتیاز کی بنیاد پر قائم نظام کی حفاظت کے لیے کسی بھی اقدام سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ ہم دنیا میں موجود آخری غاصب ریاست، مشرقِ وسطیٰ میں مغربی کالونی کی حمایت کرنے والے اور فسلطینیوں کے قتلِ عام کی مہم کا حصہ ہیں۔ طوفان الاقصیٰ نے مغربی دنیا کو مجبور کیاکہ وہ اپنے دوہرے معیار کے خول سے باہر آکر اپنی اصل صورت آشکار کرے۔ نیریٹو کی جنگ میں مغرب بحث اور Debate کے ذریعے کسی نتیجہ تک پہنچنے کے بجائے، تمہید اور گفتگو سے پہلے ہی ایک طے شدہ نتیجہ دیکھنے کا متمنی ہے۔ مغربی میڈیا کی بھاری اکثریت کا گویا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب بھی کسی فلسطینی یا فلسطین حامی شخص سے گفتگو ہو تو تبادلۂ خیال سے پہلے اسے ۷ اکتوبر کے واقعات کی مذمت پر مجبور کیا جائے۔ مغربی میڈیا اور ان کے حکم رانوں کے نزدیک قضیۂ  فلسطین کا یوکرین سے موازنہ نا قابلِ قبول ہے۔ ان کے نزدیک قاتل و مقتول کی نسل کو سامنے رکھ کر قتل اور حملہ کی دو قسمیں ہیں یعنی اسرائیلی خوں ریزی حقِ دفاع ہے اور فلسطینوں کی کارروائی بربریت۔ کیا دنیا ہمیشہ اس منطق کو تسلیم کر ے گی۔

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان اور فلسطین کے درمیان جغرافیائی فاصلہ کے باوجود ہندوستانی میڈیا کے ایک بڑے طبقہ نے اسرائیل کے جھوٹے نیریٹو کو جنون کی حد تک پھیلانے کی کوشش کی۔Fact Check ویب سائٹ Alt News کے محمد ۶زبیر کہتے ہیں کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد ۹ اکتوبر کو ہندوستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر گم راہ کن خبروں میں ناقابلِ تصور حد تک اضافہ دیکھا گیا۔ تدقیق سے پتہ چلا کہ اس نوعیت کی دو تہائی سے زیادہ جھوٹی خبریںسنگھی انتہا پسندوں کی طرف سے پھیلائی جا رہی تھیں۔ اور یہ بات باعثِ تعجب نہیں ہے کہ قوم پرست ہندوؤں کی طرف سے پھیلائی گئی جعلی خبروں کو اسرائیلی اور امریکی انتہا پسندوں نے بھی استعمال کیا۔

نیریٹو کی یہ جنگ مسلسل جاری ہے۔ فلسطین حامی اور احرارِ عالم کے لیے جھوٹ کی یہ انڈسٹری ایک بڑا چیلنج ہے۔ نیریٹو کی اس جنگ میں ضروری ہے کہ جھوٹ کا نہ صرف تعاقب کیا جائے بلکہ اب تک جس مہارت کے ساتھ فلسطینیوں نے اس کا مقابلہ کیا ہے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2023

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau