مولانا مودودیؒ کا خطبۂ مدراس

مرزا سبحان بیگ

/اگست ۱۹۴۷ کو ہندستان برطانوی اقتدار سے آزاد ہوا۔ یہ حقیقت ہر باخبر ہندستانی پر عیاں تھی کہ ملک کی تقسیم یقینی ہے۔ چنانچہ ۲۲/مارچ ۱۹۴۷ کو لارڈ مائونٹ بیٹن بحیثیت وائس رائے ہندستان آیا، مئی کے وسط تک تقسیم کاخاکہ مکمل کیا اور حکومت برطانیہ سے منظوری لے کر ۳/جون کو اعلان کردیاکہ ملک کی تقسیم اور براعظم ہند میں دوآزاد مملکتوں کی تشکیل  ۱۵/اگست ۱۹۴۷ تک کردی جائے گی اور پھر حسب اعلان اس نے ایسا کردیا۔

چنانچہ بانی جماعت اسلامی مولانا مودودیؒ نے جماعت کے اجتماع مدراس میں ۲۶/اپریل ۱۹۴۷ کو وابستگان جماعت کوخطاب فرمایا۔ تقسیم ہند کے حالات اور آزاد ہندمیں آئندہ رونما ہونے والے امکانی حالات کاتجزیہ پیش کرتے ہوئے بتایاکہ مسلمانوں اور ہندوستان دونوںکی نجات اب بھی اور آئندہ بھی کس راہ کو اختیار کرنے میں ہے۔ یہ بھی بتایا کہ وابستگان تحریک کو آئندہ کم از کم ۵ برسوں تک کن امور پر اپنی توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ یہ خطاب ‘خطبۂ مدراس’ کے نام سے مشہور ہے۔ اس خطبے کے مشمولات پر پوری جماعت میں کبھی کسی کو کوئی اعتراض نہیں رہا۔ البتہ حالیہ دنوں میں پہلی بار تحریک اسلامی کے معروف دانشور ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی صاحب کی طرف سے بعض اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کے یہ اعتراضات ’مولانا مودودیؒ کے خطبۂ مدراس پر ایک تازہ نظر‘ کے عنوان سے طلبہ تنظیم کے ترجمان ماہ نامہ ’رفیق منزل‘ ماہِ دسمبر ۲۰۰۹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اعتراضات کا خلاصہ یہ ہے کہ خطبہ مدراس اندیشوں، مفروضوں اور مایوسی بھرے اندازوں پر مبنی ہے ۔چوں کہ چار نکاتی لائحہ عمل بھی انھی کے پس منظر میں تجویز کردہ نظرآتا ہے، اس لیے وہ ناقص ہے اور نظرثانی کامحتاج ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ آزادی اور تقسیم کے بعد ہندستان میں بچے کھچے ارکان جماعت کو خطبۂ مدراس سے نہ صرف حوصلہ ملا، بل کہ کام کی ایک راہ بھی ملی۔ چنانچہ انھوں نے نہایت سخت حالات کے باوجود ۱۹۴۸ میںمولانا ابواللیث ندویؒ کی امارت میں جماعت کی تشکیل نو کی اور مذکورہ لائحہ عمل کے ساتھ کام کا آغاز نوکیا۔ وہ لائحہ عمل جماعت اسلامی ہند کے لیے مشعل راہ ثابت ہوا۔ ایک عرصے تک جماعت اسی لائحہ عمل کے مطابق ممکنہ حد تک کام کرتی رہی۔ البتہ جس انداز میں اور جس رفتار کے ساتھ کام ہوناچاہیے تھا نہ ہوسکا، جس کے متعدد وجوہ ہیں۔ بہ ہرحال سوائے معدودے چند کے جماعت کے اہل فکر و نظر حضرات کے نزدیک لائحہ عمل میں تجویز کردہ چاروں بنیادی کاموں کی اہمیت اور افادیت آج بھی برقرار ہے۔ محترم امیرجماعت مولانا سید جلال الدین عمری فرماتے ہیں: ’ان کے بارے میں یہ نہیں کہاجاسکتاہے کہ یہ وقتی تھیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہوگئیں۔‘ ﴿سہ روزہ ’دعوت‘ ۴/اپریل ۲۰۰۹﴾ مولانا محمد سراج الحسن سابق امیر جماعت فرماتے ہیں: ’اب آپ خود بتائیں کہ آج ان میں سے کون سا پروگرام غیراہم ہوگیا یا اس کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔ چنانچہ آج بھی ان چاروں نکات پر کام ہورہاہے۔‘ ﴿سہ روزہ ’دعوت‘ ۷/نومبر ۱۹۹۱ء﴾ مولانا صدرالدین اصلاحیؒ فرماتے ہیں: ’یہ ہمارے لیے اور ہماری تحریک اسلامی کے لیے آج بھی Relevantہے، اس کے Irrelevant ہوجانے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔‘ ﴿ایضاً﴾

مسلمانان ہند کو آئندہ پیش آمدہ حالات

مولانانے اس سلسلے میں جو کچھ فرمایا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہندو اکثریت کے علاقے کے مسلمان عنقریب یہ محسوس کرلیں گے کہ جس مسلم قوم پرستی پر انھوں نے اپنے اجتماعی رویے کی بنیاد رکھی تھی وہ انھیں بیابان مرگ میں لاکر چھوڑگئی ہے۔ جن جمہوری اصولوں پر ایک مدت سے ہندستان کا سیاسی ارتقا ہورہاتھا اور جنھیں خود مسلمانوں نے بھی قومی حیثیت سے تسلیم کرکے اپنے مطالبات کی فہرست مرتب کی تھی، انھیں دیکھ کر بیک نظر معلوم کیاجاسکتاتھا کہ ان اصولوں پر بنے ہوئے نظام حکومت میں جو کچھ ملتاہے اکثریت کو ملتاہے، اقلیت کو اگر ملتابھی ہے تو خیرات کے طورپر دست نگر ہونے کی حیثیت سے نہ کہ حق کے طورپر یا حریف و مدّمقابل اور شریک کی حیثیت سے۔ قومیت اور جمہوریت کے نظریات پر بننے والا قومی اسٹیٹ اپنے اندر کسی دوسری ایسی قوم کے وجود کو گوارا نہیں کرتا جو حکمراں قومیت سے الگ اپنی مستقل قومیت کی مدعی ہو اور پھر اس قومیت کے دعوے کے ساتھ اپنے مخصوص قومی مطالبات بھی رکھتی ہو۔ جب جمہوری اصول پر اہل ملک کی آزاد حکومت بن جائے گی تو ہندستان اکثریت کی قومی اسٹیٹ بن کر رہے گا اور قومی اسٹیٹ ایسی کسی قومیت کو تسلیم کرکے اس کے مطالبے کبھی پورے نہیں کیا کرتی۔ وہ پہلے تو یہ کوشش کرتی ہے کہ اسے تحلیل کرکے اپنے اندر ہضم کرلے، پھر اگر وہ اتنی سخت نکلتی ہے کہ ہضم نہ ہوسکے تو اسے دبادینا چاہتی ہے اور بالآخر اگر وہ دبائو کے نیچے بھی چیخے ہی چلی جائے تو پھر قومی اسٹیٹ اسے باقاعدہ فناکرنے کی کوشش شروع کردیتاہے۔ یہی کچھ ہندستان میں مسلم اقلیت کو پیش والا ہے۔ اس کے سامنے بھی عملاً یہی تین راستے پیش کیے جائیں گے:

۱-       اپنی جداگانہ قومیت کے دعوت اور اس کی بنا پر مستقل قومی حقوق کے مطالبے سے دست بردار ہوکراسٹیٹ کی قومیت میںجذب ہوجائے، یا

۲-       اگر وہ اس کے لیے تیار نہ ہوتو ہرقسم کے حقوق سے محروم کرکے شودروں اور اچھوتوں کی سی حالت میں رکھی جائے، یا

۳-       اس پر استیصال کاپیہم عمل جاری کردیاجائے یہاں تک کہ قومی اسٹیٹ کے حدود میں اس کا نام و نشان باقی نہ رہے۔

ڈاکٹرنجات اللہ صدیقی کاپہلا اعتراض

‘مولانا نے تقسیم کے بعدکے حالات کے بارے میں بہت مایوس بھرے انداز پیش کیے۔ ہندستان کادستور بنا تو اس میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی، ساتھ ہی اقلیتوں کے حقوق بیان کیے گئے۔ ایک آزاد عدالتی نظام نے سماج کے کسی گروہ کو ہر قسم کے حقوق سے محروم کرنے کے راستے تنگ کردیے، جن شودروں اور اچھوتوںکی حالت کو مولانا نے عبرت کے لیے سامنے رکھا۔ انھوں نے جمہوری نظام میں ووٹ کی اہمیت پہچان کر بعض ریاستوں میں کانگریس کو ہراکر اپنی حکومت بنائی۔ رہاکسی گروہ کے ’استیصال پیہم کاعمل جاری کرنا تو عالمی سطح پر فضا بدلنے اور معلوماتی انقلاب نے اس کامقابلہ کرنا ممکن بنادیا۔ ہندستانی مسلمان زندہ اور موجود ہیں۔ اپنے سیاسی وزن کی نسبت سے مختلف ریاستوں میں مذہبی عصبیتوں اور امتیازی سلوک کا، کہیں کم کہیں زیادہ مقابلہ کرنے میں کامیاب ہیں۔’

اب ذرا اصل حالات پرنظرڈالیے۔ ہر وہ شخص جو آزادی ہند کے حالات پر نظر رکھتا اور بصیرت کی آنکھیں بھی رکھتاتھا، آئندہ پیش آمدہ حالات کی وہی پیشین گوئی کرتا جو مولاناؒ نے کی تھی اور جو تقریباً صدفی صد صحیح ثابت ہوئیں بھی۔ موصوف درج ذیل حقائق سے چشم پوشی کررہے ہیں:

﴿الف﴾ ہندوستان کے دستور کی مذکورہ ’خصوصیات‘ کانگریس آزادی کے بہت پہلے سے بیان کررہی تھی اور مولاناؒ نے تفصیل اور دلیل کے ساتھ، متعدد ملکوں کی مثالیں دے کر آگاہ کردیاتھا کہ ان ’’ضمانتوں‘ کی حقیقت ایک سیکولر جمہوریت کی اساس پر وجود میں آنے والی متحد قومیت والی ریاست میں کیا ہوتی ہے اور اقلیتوں کے ساتھ فی الواقع کیاہوتاہے ۔ بالآخر مسلم اقلیت کے ساتھ بھی کیاہوگا۔ ﴿دیکھیں’مسلمان اور سیاسی کشمکش دوم، سوم‘ ﴾

﴿ب﴾کسی بھی نیشنل سیکولر ڈیموکریٹک اسٹیٹ میں نہ عدلیہ آزاد ہوتی ہے نہ میڈیا۔ وہ ملک کے دستور اور اس کی اسپرٹ اور حکومت کی داخلہ پالیسی کو ملحوظ رکھنے کے پابند ہوتے ہیں، بالخصوص مذہبی اقلیتوں کو ’کنٹرول‘ میں رکھنے، ان کے جذب وانجذاب اور استیصال کا پیہم مگر خاموش اور تدریجی عمل کے سلسلے میں اور ہندستانی عدالتیں اور میڈیا اوّل روز سے یہ ’فرائض‘ پورے اخلاص کے ساتھ ادا کرتے آرہے ہیں، بل کہ اس سلسلے میں دیگر کئی ممالک پر سبقت حاصل کیے ہوئے ہیں، خاص طورپر ۱۱/۹ واقعے کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صہیونیوں اور امریکا کی طرف سے چھیڑی گئی ناپاک جنگ کی پرزور حمایت میں۔

﴿ج﴾ نہ صرف مسلمان بل کہ غیرمسلموں میں سے بھی بعض انصاف پسند روحیں اس امر واقعے سے بہ خوبی واقف ہیں اور مانتے ہیں کہ آزادی کے بعد ۰۶ سال کے دوران میں ملک کی حکمراں پارٹیوں خصوصاً کانگریس نے مسلمانوں کی حالت شودروں اور دلتوں سے بھی بدتر کردی، جس کی تصدیق سچر کمیٹی کی رپورٹ نے بھی کردی ہے۔

﴿د﴾ یہاں کے شودر اور دلت طبقات حتیٰ کہ بودھ، پارسی، جین اور سکھ قوموںاگرچہ ان کے اپنے مذاہب اور رسم و رواج رہے ہیں، ہندوئوں آریائوں ﴿برہمن اور برہمنیت زدہ طبقے﴾ نے ’زبردستی ہی سہی‘ ہندو قرار دیاہے۔ دستور ہند بھی انھیں ہندو ہی قرار دیتا ہے۔ دیکھیں دفعہ 25(B)۔ چنانچہ ان طبقات کو دستور ہند میں عطا کردہ حقوق اور مراعات حکومت کی طرف سے ورنہ عدلیہ کی طرف سے حاصل ہوجاتے ہیں۔ نیز ان کی بعض نامناسب سرگرمیوں تک کے خلاف نہ حکومت اور پولیس و انتظامیہ نہ عدلیہ نہ میڈیا نہ کسی سیاسی پارٹی کی طرف سے وہ رویہ اختیار کیاجاتا ہے جو مسلمانوں کے جائز اور پُرامن احتجاج اور چیخ پکار کے خلاف اختیار کیاجاتاہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان طبقات کو ’سبق‘ سکھانے کا عمل بھی جاری رہتاہے کہ وہ مقرر کردہ ’حدود‘ سے تجاوز کرنے اور ’اونچے طبقوں‘ کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں اور نہ یہ خیال ان کے دلوں میں جگہ پائے کہ اسلام اور مسلمانوں کی طرف رخ کرنے سے اقتدار میں انھیں کوئی حصہ ملے گا، برعکس اس کے انھیں یا ان کے کسی فرد کو اقتدار میں کہیں کچھ حصہ صرف اسی صورت میں ملے گا۔ جب وہ اسلام اور مسلمانوں سے دو ررہیں گے اور ’اونچے طبقوں‘ کی بیساکھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوںگے۔ اس بے ساکھی کا عطا کرنا او چھیننا ’کلیتاً‘ اور خالصتاً ان کی اپنی حکمت و مصلحت یعنی ‘چانکیہ ازم’ کے تحت ہوتاہے۔

﴿ھ﴾ہندستان میں تو کبھی ایسا نہیں ہواکہ ‘شودروںو دلتوں’ کی حکومت کسی ریاست میں محض ان کے اپنے ووٹوں کے بل بوتے پربنی۔ صرف اترپردیش میں مایاوتی کی قیادت میں بی بی-ایس-پی کی دوبار حکومت بنی۔ پہلی بار بی -جے- پی کی بیساکھی پر، جو اپنی میعاد پوری کرنے سے پہلے ہی گرادی گئی تھی۔ پھر اب کے دوسری بار، وہ بھی ’اونچی ذات والوں‘ کی خوش نودی حاصل کرکے اُنھی کو خوش رکھنے کی پوری کوشش کررہی ہے۔ اقلیتوں اور دلتوں کے مسائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے بل کہ ان کے پریشانیوں اور مشکلات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے ۔ اسی لیے اس پارٹی کو بہوجن سماج پارٹی کی بجائے برہمن سماج پارٹی کہاجانے لگا۔ واضح ہو کہ بی- ایس-پی خالصتاً شودروں و دلتوں کی پارٹی ہے بھی نہیں۔ اس میں مسلمان بھی شامل ہیں حتیٰ کہ ’اونچی ذات والے‘ بھی۔

﴿و﴾ یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ ہندستان میں مسلمانوں کاکوئی سیاسی وزن ہے۔ ان کی سیاسی بے وزنی کی شکایت بجاطورپر ہر خاص وعام کی زبان پر ہے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ نیشنل سیکولر ڈیموکریٹک اسٹیٹ میں کسی اقلیت کاالیکشن سیاست میں کوئی رول ہوتا ہی نہیں اور نہ اسے اس پوزیشن میں آنے دیاجاتاہے، خصوصاً اس اقلیت کو جس سے اکثریت گروہ کو ’خطرہ‘ محسوس ہوتاہے۔ اس پر تو جذب وانجذاب اور استیصال کاعمل مختلف طریقوں سے جاری رہتاہے۔ اس پر آزاد ہند کی ۰۶ سالہ تاریخ اور دیگر ممالک کی ﴿جہاں یہ نظام نافذ ہورہاہے﴾ تاریخ گواہ ہے۔ پھر یہ کہ ہندستان میںمسلمانوں کی آبادی جس طرح بکھری ہوئی ہے اورآبادی کاجو تناسب ہے، اس کے سبب بھی ان کے ووٹ بے وزن اور بے اثر ہوکر رہ جاتے ہیں۔

﴿ذ﴾ عالمی سطح پر جو فضا بدلی اور جو معلوماتی انقلاب برپاہواہے، یہ تو حال کی بات ہے ﴿۰۲،۵۲ برسوں کے دوران میں﴾ جب کہ ہندستانی مسلمان اور دیگر ممالک کی مسلم اقلیتیں ۰۶ سال سے بھی زیادہ عرصے سے مزاحمت کرکے زندہ اورموجود ہیں، کوئی بھی قوم محض عالمی سطح پر فضا بدل جانے اور معلوماتی انقلاب آجانے سے مقابلہ کرنا نہیں سیکھتی ۔ بل کہ زندہ اور موجود رہنے کے لیے اسے زبردست مزاحمت کرنی پڑتی ہے اور مزاحمت وہی قوم کرتی ہے جس کے اپنے کچھ اصول و نظریات اور مذہبی اقدار ہوتے ہیں،نیز جس کے اندر قومی غیرت اور خودداری کا احساس موجود رہتاہے۔ ان اوصاف سے خالی کوئی قوم نہ مزاحمت کرسکتی ہے نہ اس کے بغیر من حیث القوم زندہ رہ سکتی ہے، خواہ عالمی سطح پر لاکھ فضا بدل جائے اور معلوماتی انقلابات رونما ہوجائیں۔ یہاں کی دیگر اقلیتوں اور دلت قومو ں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ برعکس ان کے، خواہ ہندستان کے مسلمان ہوں یا فلسطین کے یا عراق و افغانستان کے یا بوسنیا ہرزے گوینا کے مسلمان، بحیثیت قوم زندہ اور موجود ہیں۔ محض اپنی پیہم مزاحمت کی بناپر اور یہ مزاحمت ان کے اندر پیدا ہوئی مذکورہ بالا اوصاف کے سبب۔ اس میں عالمی سطح پر فضا بدل جانے اور معلوماتی انقلاب کو ذرّہ برابر بھی دخل نہیں ہے، بل کہ وہ تو ان کے مخالف ہی رہے ہیں۔ اِس لیے بجا طورپر یہ بات عام ہے کہ یہ مسلمان ﴿خصوصاً ہندستان کے﴾ ہی ہیں جوجذب وانجذاب اور استیصال پیہم کے حملے کے باوجود بحیثیت ایک مسلم قوم کے زندہ ہیں، ان کی جگہ کوئی دوسری قوم ہوتی تو فنا ہوجاتی۔

﴿ح﴾ مولاناؒ نے اسی خطبۂ مدراس میں یہ پیشین گوئی بھی کردی تھی: ’لیکن مجھے امید نہیں کہ مسلمان من حیث القوم اس طرح سپرڈال دینے پر راضی ہوجائیں گے۔ قومی حیثیت سے ان کی کوشش یہی ہوگی کہ وہ اس جذب و انجذاب کی مزاحمت کریںگے۔‘

ہندستان کی غیرمسلم اکثریت کے مستقبل کاجائزہ

مولاناؒ نے اس ضمن میں جو کچھ فرمایا، اس کاخلاصہ یہ ہے کہ ’غیرمسلم اکثریت مسلمانوں کے مقابلے میں ایک مضبوط‘ متحد اور منظم بلاک بنی ہوئی ہے۔ لیکن یہ مضبوط بلاک اور بظاہر ٹھوس بھی محسوس ہوتاہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ ہندستان کے ان کروڑوں غیرمسلموں کو جس چیز نے متحد اور منظم کیا ہے وہ محض ایک قوم پرستی کاجذبہ ہے، جو ایک طرف اجنبی اقتدار کے خلاف اور دوسری طرف مسلم قوم پرستی کے مقابلے میں بھڑکایاگیاتھا۔ یہ جن دو پائوں پر کھڑی ہوئی تھی ، ان میں سے ایک ’انگریزی اقتدار سے نجات کاجذبہ‘ عنقریب گراچاہتاہے۔ اس کے بعد دوسرا پائوں باقی رہ جاتاہے یعنی مسلم قوم پرستی کے مقابلے کاجذبہ۔ پاکستان بن جانے کے بعد اس کاقائم رہنا بھی مشکل ہے، بشرطے کہ ہندستان کی مسلم اقلیت اپنے مسئلے کو حل کرنے کی کوئی ایسی راہ نکال لے، جس سے نہ تو ہندستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی و نزاع کے اسباب پیدا ہوں اورنہ ہندستان کے اندر مسلم قوم پرستی کے دعوئوں اور مطالبوں کو دبانے کے لیے ہندو قوم پرستی کے مشتعل ہونے کاکوئی موقع باقی رہے۔ یہ حکمت اگر خدا نے مسلمانوں کو عطا کردی تو آپ دیکھیں گے کہ نیشنلسٹ لیڈر اور قومی و مذہبی عصبیتوں کے مبلغین مصنوعی خطرے اور جعلی ہوّے پیش کرکرکے موجودہ قوم پرستی کو زندہ اور مشتعل رکھنے کی خواہ کتنی ہی کوشش کریں وہ بہ ہرحال مرکے رہے گی۔ اس لیے کہ اس بلاک کے اندر خود اس کے اپنے عناصر ترکیبی کے درمیان جو تمدنی ومعاشی بے انصافیاں، جو طبقاتی منافرتیں وغیرہ وغیرہ موجود ہیں، وہ بیرونی خطرات کے ہٹتے ہی اپنے آپ کو بزور محسوس کرائیںگی اور ملک کے آئندہ انتظام، اختیارات کی تقسیم، حقوق کے تعین اور سماجی نظام کی تشکیل کے مسائل لامحالہ ان کو آپس میں پھاڑدیں گے۔‘

’اب جو سیاسی نظام بنایاجارہاہے، اس کی تصنیف میں کاغذپر توبلاشبہ جمہوریت، اجتماعی انصاف، مساوات اورمواقع کی یکسانی کے بڑے نفیس تصورات بہت دل کش زبان میں رقم کیے جارہے ہیں، لیکن ظاہر ہے ان الفاظ کی اصل قیمت ان کے تلفظ میں نہیں، عملاً جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ اس سیاسی نظام کی تشکیل، تعمیر اور تنفیذ کے سارے کام پر وہی طبقے حاوی ہیں جو سماجی اور معاشی نظام کی اوپر والی سیڑھیوں پر تشریف فرما ہیں۔ نہیں بل کہ پیداہوئے ہیں۔ ہندستان کے مستقبل کی باگیں اس وقت جن لوگوں کے ہاتھوں میں آرہی ہے، وہ ہندو کلچر کی سابق روایات کے ساتھ مغربی یورپ اور امریکہ کے طریق، زندگی کا جوڑلگاتے نظرآتے ہیں۔ اس طرح وہ ایک نمایشی جمہوریت، ایک ظاہری مساوات اور ایک نظرفریب عدل قائم کرنے میں تو ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔ مگر اس کی تہہ میں بدستور وہی بے انصافیاں، وہی ناہمواریاں اور وہی تفریقیں برقرار رہیںگی جو اس وقت پائی جاتی ہیں، کیوں کہ تفریق وامتیازات ہندو کلچر کی رگ رگ میں پیوست ہے، جس کے ہوتے کسی حقیقی جمہوریت کا قیام غیرممکن ہے اور اس کے ساتھ مغربی نظریات کا جوڑ لگنے سے اس کے سوا کچھ حاصل ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی کہ اونچے طبقوں کی برتری و سرمایہ داری کو الکشنوںاور ووٹوں کے ذریعے سے سند جواز مل جائے۔ چنانچہ یہ لوگ بہت جلد ہی ہندستان کی عام آبادی کو مایوس کردیں گے۔‘‘

اس کے بعد ہندستان میں اشتراکی انقلاب کے امکانات پر بات کی گئی اور ایسا ہونے کی صورت میں ہندستان کو ہونے والے زبردست نقصان پر متنبہ کیاگیا۔ اس جائزے اور تجزیے پر ڈاکٹر موصوف نے دواعتراضات وارد کیے ہیں۔ ﴿نمبر۲،۳﴾

پہلااعتراض:‘‘مولانا کا یہ فرمانا کہ ہندستان کے ان کروڑوں غیرمسلموں کو جس چیز نے متحد اور منظم کیاہے وہ محض قوم پرستی کاجذبہ ہے، جو ایک طرف اجنبی اقتدار کے خلاف اور دوسری طرف مسلم قوم پرستی کے مقابلے میں بھڑکایاگیاتھا، یہ دونوں باتیں محل نظر ہیں۔ ہندوسماج ہزاروں سال پرانا ہے اور باوجود ذاتوں اور رجواڑوں میں بٹے رہنے کے انسانی تاریخ میں اپنا امتیازی تشخص برقرار رکھ سکاہے۔ اسے انگریزی اقتدار اور نام نہاد قوم پرستی جیسی وقتی باتوں پر منحصر قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ چنانچہ ان دونوں عوامل کی غیرموجودگی کے باوجود ہندو سماج اپنی ممتاز شناخت کے ساتھ موجود ہے۔’’

یہ اعتراض بھی مبنی پر مفروضہ ہے۔ تاریخ اور ‘ہندوسماج’ سے متعلق حقائق کچھ اور ہیں۔ کم از کم ۱۸۵۷ سے پہلے ہندومسلم کشمکش کاوجود نہیں ملتا۔ ۱۸۵۷ کی پہلی جنگ آزادی ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر لڑی تھی۔ تحریک خلافت میں دونوں شامل تھے۔ ۱۸۵۷ کے بعد سے انگریزوں نے ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان کشمکش کے بیج بونا شروع کیے اور ۱۹۲۰ سے اس کشمکش نے زور پکڑنا شروع کیا، جب ہندستان کاوائسرائے ایک یہودی لارڈ ریڈنگ مقرر ہوا۔ اس کی وائسرائی میں انگریزوں نے ہندو ﴿آریائی﴾ لیڈروں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا شروع کیا۔ آریائی تنظیموں کی حوصلہ افزائی اور مدد کی جانے لگی۔

یہ بھی واقعہ ہے کہ ہندستان میں دراوڑوں اور قبائلیوں کااپنا مذہب تھا۔ آج بھی شمالی ہند میں بیشتر ’ہندو‘ رام کو اپنا معبود مانتے ہیں اور راون کو بُرائی کی علامت، جب کہ جنوبی ہند میں مختلف طبقات راون کو اپنا معبود مانتے ہیں۔ ہندتو وادیوں نے ’برہمن‘ لفظ کی بجائے ’ہندو‘ لفظ کے استعمال کو فروغ دیا۔ اس پروپیگنڈے کے ساتھ کہ ’ہندو‘ لفظ کے تحت برہمن، چھتری، ویشیہ اور شودر وغیرہ سب آتے ہیں۔ ﴿اگرچہ آج بھی بودھ، جین، سکھ وغیرہ ہندو کہلانا پسند نہیں کرتے۔ لیکن ہندتو یہ مسلسل کوشش کرتارہتاہے کہ وہ اس سے باز آجائیں۔ دستور ہند کی دفعہ 25(B)کا حوالہ اوپر دیاجاچکاہے﴾ یہ لفظ ہندو ایک خاص قوم یا زیادہ سے زیادہ ’اونچی ذاتوں‘ کا ترجمان ہے۔مختصریہ کے ڈاکٹر موصوف اس ملک میں جس ’ہندو سماج‘ کے ہزاروں سال سے اپنی امتیازی شناخت کے ساتھ زندہ اور موجود رہنے کی بات کررہے ہیں وہ ۳/۴ فیصد سے زیادہ آج بھی نہیں ہے اور جو خالصتاً مادہ پرست اور نسل پرست گروہ ہے اور اس مادہ پرستی اور نسل پرستی کو زندہ رکھنے کے لیے اسے ہر وقت دیگر انسانی گروہوں کے استحصال و استیصال کی تگ و دو میں رہناپڑتا ہے۔ لہٰذا اس ’سماج‘ کے نزدیک کوئی ایسی چیز ہے ہی نہیں ﴿سوائے ہر قسم کا مکرو دجل اور چانکیہ ازم کے﴾ جس کے بل بوتے پر وہ زندہ رہ اور ترقی کرسکے۔ خالص مادہ پرستی و نسل پرستی اور چانکیہ ازم ایسی چیز نہیں ہے جسے کسی گروہ انسانی کی امتیازی شناخت قرار دیاجائے اور نہ کوئی گروہ اسے اپنی امتیازی شناخت کے طورپر علی الاعلان پیش کرنے کی جسارت کرسکتاہے، نہ اس قسم کی شناخت کو انسانی سماج تسلیم کرتاہے۔

ماقبل اور مابعد آزادی ہندتو یہاں کی غیرمسلم اقوام کو مسلمانوں کے مقابلے میں کشمکش پر آمادہ کرنے میں کیوں کر کامیاب ہوا؟ اس کے کئی اسباب اور عوامل ہیں:

﴿الف﴾ ہندو ازم ﴿برہمنیت﴾ بودھ مذہب کے عروج کے زمانے میں اور مسلم دور حکومت میں صدیوں مغلوب رہا۔ ۷۵۸۱ کے بعد انگریزو ں نے خصوصاً یہودی وائسرائے لارڈ ریڈنگ ﴿۱۹۲۰﴾ نے اسے زندگی بخشی، محض مسلمانوں اور اسلام سے تعصب کی بناپر اور اس ڈر کی بناپر کہ کہیں پھر ملک کا اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں نہ چلاجائے، ۱۹۲۰کے عشرے میں برہنمیت مخالف تحریکوں ﴿دلت اور پسماندہ طبقات کی طرف سے﴾ نے زور پکڑنا شروع کیا۔ خاص طورپر مہاراشٹر اور جنوبی ہند میں۔ ملک کے مختلف علاقوں میں قبول اسلام کی لہر اُٹھی۔ مسلمانوں میں سیاسی بیداری رونما اور تیز ہوگئی۔ انھوں نے کامل آزادی حاصل کرنے کااعلان کیا۔ نتیجتاً ایک طرف آریا سماجی لیڈر اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت میں کھل کر سامنے آگئے۔ آر-ایس-ایس وجود میں آئی، ہندومہاسبھا نے مزید زور پکڑا تو دوسری طرف کانگریس میںمسلم دشمنی کو فروغ ملا۔ ہندومہاسبھا ئی اس میں داخل ہونے لگے اور ا س کے افراد ضلعی سطح سے لے کر مرکزی سطح تک کانگریس کی لیڈر شپ تک پہنچ گئے۔ بالآخر آخری یہودی وائسرائے لارڈمائونٹ بیٹن نے ہندتو وادیوں کے منشا کے عین مطابق ملک کی تقسیم کردی۔

﴿ب﴾ انگریزوں نے ’ہندو‘ رہ نمائوں اور ان کی تحریکوں کی بھرپور حمایت کی، انھیں تعلیمی ومعاشی اور سیاسی طورپر طاقت ور ہونے کے مواقع فراہم کیے۔ اس کے برعکس مسلمانوں اوراسلام کو کمزور کرنے کی ہرممکن کوشش کی۔ انھوں نے منووادی نظام کو قائم ہی نہیں، بل کہ اسے مضبوط بھی کیا، جس کے سبب دلت طبقات ظلم و استحصال سے دوچار ہوتے رہے۔ لیکن مسلمانوں اور ان کے قائدین اور علما نے اس ظلم واستحصال کے خلاف کبھی آواز نہیں اٹھائی نہ ان طبقات سے میل جول رکھنے اور انھیںاپنے یا اسلام سے قریب کرنے میں کوئی دل چسپی دکھائی۔ ادھر ملک انگریزی اقتدار سے دیرسویر آزاد ہونے والاتھا جیساکہ آثار بتارہے تھے ﴿عالمگیر جنگوں کے نتیجے میں برطانیہ پر، اسے کمزور کرنے کی غرض سے، دوسری بڑی طاقتوں کی طرف سے تمام نوآبادیات، جس میں ہندستان بھی شامل تھا، آزاد کرنے کادبائو بڑھتاجارہاتھا﴾ آزادی کی صورت میں اصول جمہوریت کے تحت اقتدار غیرمسلموں کو ہی ملناتھا، جن کو ہندواصلاحی تحریکیں ہی نہیں کانگریس بھی ایک مضبوط اور متحد ’ہندو‘ قوم بنائے رکھنے کی اس انداز میں کوشش کررہی تھیں کہ ان کے اندر حکومت و اقتدار پانے اور ’ہندو‘ قوم پرستی کاجذبہ ساتھ ساتھ پروان چرھے اور وہ مسلمانوں کو اپنا حریف اور مدّمقابل سمجھتے ہوئے ان سے تعصب کرنے لگیں۔ اس طرح ہندتو یہاں کے کروڑوںغیرمسلموں کو مسلمانوں کے خلاف متحد کرنے میں کامیاب ہوا۔ محض اپنے غلبے اور اقتدار کی خاطر، ورنہ اسے دوسری قوموں اور طبقات کو متحدکرنے اور رکھنے میں کیادلچسپی؟ اُنھیں تو اس نے ہمیشہ پھاڑ کر رکھنے اور باہم لڑانے کاکام کیا تاکہ برہمنی نظام قائم اور غالب رہے۔

﴿ج﴾ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندتو ﴿برہمنیت﴾ ان تمام کاوشوں اور سرگرمیوں کاہمیشہ مخالف رہاہے جن سے کسی بھی شکل میں برہمنیت اور اس کے نظام پر اثر پڑتا ہے۔ آزادی کے بعد آج تک جب جب دلت طبقہ اور دیگر اقوام میں برہمن مخالف تحریک اٹھی اور ان کے اندر شعور اور بیداری آئی اور سیاسی و معاشی میدان میں اوپر اٹھنے کے لیے کشمکش برپاہوئی، ہندتو نے اس کارُخ مسلمانوں کی طرف پھیردیا۔ آزادی کے بعد ان طبقات میں سیاسی بیداری اور اکثریت ہونے کے احساس نے انھیں برسراقتدار ’ہندو‘ طبقے کے خلاف کھڑا ہونے پر ابھارا ہے اور تبدیلی مذہب ﴿خصوصاً اسلام کی طرف﴾ رجحان بڑھا ہے، جس کے سبب ہندتوکی بوکھلاہٹ اور اضطراب میںاضافہ ہوتا رہا۔ اسے بھی وہ مسلمانوں ہی کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ نیز اتنی کثیر آبادی اور اپنے دینی وملّی تشخص کے ساتھ مسلمانوں کی موجودگی کو اور بین الاقوامی سطح پر ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلم دنیا سے ان کا ہم رشتہ ہونے کو بھی وہ اپنے وجود کے لیے اور سیاسی راہ میں بڑا خطرہ اور چیلنج سمجھتے ہیں۔

﴿د﴾ آزادی کے بعد کے ابتدائی برسوں میں کانگریس میں برہمنوں اور اعلیٰ ذات والوں کے غلبے کے سبب ہندتو کی سرگرمیاں مسلمانوں کو دبانے اور احساس جرم میں مبتلا رکھنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرنے کی حد تک رہیں۔ لیکن بعد میں جب مسلمانوں نے بھی مزاحمت شروع کی اور دلت طبقات میں سیاسی بیداری اور اقتدار کے لیے کشمکش شروع ہوئی تو ہندتو کایہ اندیشہ صحیح ثابت ہواکہ ہندتو کے عزائم میں مسلمان اور ان کا دین اسلام سخت رکاوٹ ہے۔ پس ماندہ طبقات میں پیدا شدہ بیداری پر نہ صر ف قابو پانا انھیں ناممکن نظرآرہاہے، بل کہ ان طبقات کو ملی مراعات کو ختم کرنے کامنصوبہ بھی ناکام ہوگیا۔چنانچہ آزادی کے چند برسوں بعد ہی پورے ملک میں زبان و علاقے کی بنیاد پر، مزدوروں اور کسانوں کے استحصال کے خلاف، سماجی و معاشی ناانصافیوں کے خلاف ناگا، کمیونسٹ ونکسلی اور دلت تحریکیں اور سکھوں کے استحصال کے خلاف سکھ تحریکیں و سرگرمیاں شروع ہوگئیں اور آج تک جاری ہیں۔ ان میں سے بعض نہایت ’پُرتشدد‘ رہی ہیں۔ لیکن ان کے خلاف کوئی جارحانہ قدم ہندتو اٹھانہیں پارہا ہے۔البتہ مسلمانوں سے کشمکش کاجو آغاز کیاگیاتھا ، اسے آزادی کے بعد بھی آج تک جاری رکھاگیا۔

مولانانے کہاتھاکہ ’اشتراکی گروہ اس صورت حال سے ﴿جو اوپر ’ہندستان کے مستقبل کاجائزہ‘ میں بیان کی گئی﴾ فائدہ اٹھانے کی تیاری کررہاہے۔ جوںہی کے موجودہ قوم پرستی اپنے مدّعا کو پہنچنے کے بعد مضمحل ہوئی، وہ اس طبقاتی خلل اور اسی تصادم اغراض کے شگافوں میں سے اپنا راستہ نکالنے کی کوشش کرے گا۔ اگر خدا نخواستہ اشتراکی انقلاب کامیاب ہوگیا تو یہاں بھی وہ سب کچھ ہوگا جو روس میں ہوا…‘‘

مذکورہ صورت حال اور اس سے اشتراکی گروہ کا فائدہ اٹھانا ایک امرواقعہ ہے اور یہ بھی واقعہ ہے کہ آزادی کے بعد مصنوعی ہندوقوم پرستی مضمحل ہوئی یا ہوتی رہی اگرچہ پوری طرح نہیں، جس کے اسباب و عوامل اوپر اعتراض نمبر-۲ کے جواب میں بیان کیے جاچکے اور یہ بھی واقعہ ہے کہ مذکورہ شگافوں میں سے اس گروہ نے اپناراستہ نکالنے کی کوشش کی اور کچھ نہ کچھ کامیابی بھی حاصل کی۔ ورنہ آزادی کی تحریک میں جس کاکوئی رول نہ رہا، اس نے یہاں کی معتدبہ آبادی ﴿مسلمانوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ، شعراء وأدبا کی معتدبہ تعداد حتیٰ کہ بعض علما کوبھی﴾ اپنا ہم نوا بنالیا اور اس کے ممبران نہ صرف پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچتے رہے بل کہ دو ریاستوں ﴿کیرالا اور مغربی بنگال﴾میں برسوں سے اقتدار کامزہ بھی چکھتے آرہے ہیں۔ بہ ہرحال اس گروہ کو پوری کامیابی نہ ملنے کے درج ذیل اسباب ہیں:

﴿الف﴾ سب سے بڑا سبب مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی کے رفقا کی طرف سے اشتراکیت کے خلاف علمی وعملی ہرمحاذ پر پُرزور تحریک۔

﴿ب﴾  ۷۴۹۱ کے بعد امریکا اور روس کے درمیان سرد جنگ کے نتیجے میں دنیا کے ممالک کا دوبلاکوں میں بٹ جانا۔ پاکستان امریکا تو ہندستان روس کاحلیف بنارہا۔ چنانچہ روس نے، جو یہاں کے اشتراکیوں کا کعبہ تھا، یہاں فوری انقلاب کے سلسلے میں ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ امریکا بھی کمیونسٹ انقلاب کو روکنے کی ہرممکن کوشش کرتارہا۔

﴿ج﴾   کمیونسٹ پارٹی میں تقسیم درتقسیم کاعمل، ان میں برہمنوں کی گھس پیٹھ اور ان کا کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادت تک حاصل کرلینا۔

﴿د﴾    پہلے حکومت اور اقتدار کا حصول یا اس میں نفوذ، پھر انقلاب کی پالیسی اور اس کے لیے الکشن کا شارٹ کٹ راستہ اختیارکرنا، نیز الکشن اور حکومت سازی میں دیگر سیاسی پارٹیوں خاص طورپر کانگریس جیسی ملک کی پہلی اور سب سے بڑی اور گھاگ پارٹی سے تال میل، ان سب نے ان کے اندر انقلاب کی روح کو مردہ کردیا۔

﴿ھ﴾   ۱۹۴۷ کے بعد روس اور امریکا کے درمیان سرد جنگ شروع ہوجانے اور دنیا کے ممالک دو بلاکو ںمیں بٹ جانے کے بعد کسی بھی ملک میں اشتراکی انقلاب برپا ہونے میں ناکام رہا۔ ۱۹۷۹ میں روس کے افغانستان پر ناجائز قبضہ کرنے اور پھر افغان مجاہدین کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کے بعد نہ صرف یو-ایس-ایس-آر کا بکھرجانا بل کہ پوری دنیا سے کمیونزم کاتقریباً جنازہ ہی نکل جانا۔

کمیونسٹ تحریک کا اس انجام سے دوچارہونے کے امکان سے بھی مولاناؒ نے آگاہ کردیاتھا۔ ایک اجتماع ﴿اپریل ۵۴۹۱﴾ میں رپورٹوں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ ہندستان میں اور اس طرز کے غلام ذہنیت رکھنے والے ملکوں میں اس تحریک کی ترقی کا انحصار تمام تر روس کی طاقت پر ہے، جس وقت روس جرمنی سے پٹ رہاتھا، آپ نے دیکھاہوگاکہ اس وقت ہندستان میں اشتراکیت بھی دم توڑرہی تھی۔ جب روس ازسرنو سنبھل کر اٹھا اور جرمنی کے مقابلے میں کامیابی حاصل کرتاچلاگیاتو یہاں بھی اشتراکیت کے جسم میں روح دوڑنے لگی۔ اس لیے یہ نتیجہ نکالنا صحیح ہے کہ اشتراکیت کاگرنا اور اٹھنا روس کے دامن کے ساتھ بندھا ہواہے۔ لیکن روس کا حال یہ ہے کہ اب وہ ایک بین الاقوامی اشتراکی تحریک کی پوزیشن سے ہٹتے ہٹتے ٹھیک اس مقام پر آرہاہے جہاں نازی جرمن کھڑاتھا، یعنی اس کی اشتراکیت اب قوم پرستانہ اشتراکیت ہے اور وہ بہت تیزی کے ساتھ قیصریت کے میدان میں امریکا اور انگلستان کا حریف بن رہاہے۔ یہ چیز ممکن ہے روس کی قیصریت کو اتنی جلد نہ لے بیٹھے لیکن ایک بین الاقوامی تحریک کی حیثیت سے اشتراکیت کو یقینا لے بیٹھے گی۔‘‘﴿روداد سوم﴾

مسلمانوں اور ہندستان کے لیے راہِ نجات

آزاد ہند کے مسلمانوں کے لیے اور ہندستان کے لیے بھی راہِ نجات کیاہے؟ مولاناؒ آگاہ کرتے ہیں کہ مسلمان قوم پرستی اور اس کے طور طریقوں اور اس کے دعوئوں اور مطالبوں سے توبہ کرکے اسلام کی رہ نمائی قبول کرلیں۔ وہ اپنی تمام تر کوششوں کو صرف اسلام کی اصولی دعوت پر مرکوز کریں اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں اس کی شہادت دیں، جس سے دنیا یقین کرسکے کہ فی الواقع یہ وہ قوم ہے جو اپنی ذات کے لیے نہیں بل کہ محض دنیا کی اصلاح کے لیے جینے والی ہے اور درحقیقت جن اصولوں کو یہ پیش کررہی ہے وہ وہ انسانی زندگی کو انفرادی اور اجتماعی طورپر نہایت اعلیٰ وارفع اور اصلح بنادینے والی ہیں۔ یہی راہ مسلمانوں کے لیے پہلے بھی راہِ نجات تھی اور اب بھی ان کے لیے وہی راہ نجات ہے۔ جس طرح پچھلے دس سال میں انھوںنے اپنی قومی طاقت کو قوم پرستانہ سیاست کی راہ پر لگایاہے اسی طرح کہیں اس راہ پر لگایاہوتاتو آج ہندستان کی سیاست کا نقشہ بالکل بدلاہوا ہوتا اور دو چھوٹے چھوٹے پاکستانوں کی جگہ سارے ہندستان کے پاکستان بن جانے کے امکانات ان کی آنکھوں کے سامنے ہوتے۔

اس انجام سے ﴿جس کا ذکر’ہندستان کی اکثریت کے مستقبل کاجائزہ‘ میں کیاگیا﴾ اگرکوئی چیز ہندستان کو بچاسکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ کوئی گروہ ایک ایسے نظام فکر وعمل کو لے کر اٹھے جس میںاعلیٰ درجے کی اور حقیقی روحانی اور اخلاقی قدریں بھی ہوں، سچائی اور بے لاگ اجتماعی انصاف بھی ہو، اصل جمہوریت محض سیاسی ہی نہیں بل کہ تمدنی ومعاشرتی جمہوریت بھی ہو۔ ایسے ایک نظام کو اگر ملک کے لوگوں کے سامنے پیش کیاجاسکے اور جن میں دیانت اور انتظام دنیا کی صلاحیت دونوں جمع ہوں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہندستان کے باشندے اس نظام کے مقابلے میں اشتراکی انقلاب کے راستے کو ترجیح دیں۔ اگر اس قسم کاتیسرا راستہ ﴿ اسلام﴾ ہندستان کے مسلمان باشندگان ملک کے سامنے پیش کرسکیں جیساکہ پیش کرنے کاحق ہے، تو یقینا یہاں اسلام کے لیے کامیابی کے نسبتاً زیادہ امکانات ہیں۔

ڈاکٹر موصوف یہاں دواعتراضات وارد کرتے ہیں: ﴿نمبر۴،۵﴾

﴿۱﴾ ’توقعات کی بہتات اور امکانات کا مبالغہ آمیزاندازہ‘ کی غلطی۔

﴿۲﴾یہ بھی ایک مفروضہ ہے کہ مزعومہ قدیم تہذیبی گروہوں سے وابستہ، کسی حد تک دوسرے نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے ، ہندوعوام کسی دعوت کو صرف اس کی نظریاتی برتری اور اس کے پیش کرنے والوں کے اعلیٰ کردار کی بناپر قبول کرلیں گے۔

دعو ت اور عمل، اس انداز میں اور ان شرائط اور تفصیلات کے ساتھ جو مولاناؒ نے بیان کیے اور خاص طورپر ہندستان کے غیرمسلم عوام میں جن کی اپنی کوئی مستقل سوسائٹی اور اپناکوئی تمدنی نظام نہیں ہے اور جن کی اکثریت دلت اور پسماندہ ہے،کے لازمی اور فطری نتیجے کے طورپر حاصل ہونے والی کامیابی کی جس توقع اور امکان کااظہار مولاناؒ نے کیا،اس کی خبر اہلِ ایمان کو قرآن دیتاہے۔ تمام مصلحین امت دیتے آئے ہیں۔ چنانچہ محترم موصوف کے اعتراضات کی حقیقت سوائے اعتراض برائے اعتراض کے کچھ نہیں ہے۔

لائحہ عمل

’مسلمانوں کی رائے عامّہ اور ان کے قومی رویّے کا رُخ‘ بدلنے کے سلسلے میں مولانا فرماتے ہیں:

’اُس قومی کشمکش کاخاتمہ ہو جو ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اب تک برپارہی ہے۔ یہ بات پہلے بھی غلط تھی کہ مسلمان اسلام کے لیے کام کرنے کے بجائے اپنی قومی اغراض اور مطالبوں کے لیے لڑتے رہیں۔ مگر اب تو اس لڑائی کو جاری رکھنا محض غلطی نہیں بل کہ مہلک غلطی اور احمقانہ خود کشی ہے۔ اسمبلیوں میں نمایندگی کے تناسب کاسوال، یہ انتخابات کی دوڑ دھوپ، یہ ملازمتوں کے لیے کشمکش اور یہ دوسرے قومی حقوق اور مطالبوں کے لیے چیخ پُکار آیندہ دور میں لاحاصل ہوگی اور نقصان دہ بھی۔ لاحاصل اس لیے کہ اب جن لوگوں کے ہاتھ میں ہندستان کی حکومت آرہی ہے وہ مخلوط انتخابات اور ملازمتوں میں صرف ’قابلیت‘ کے لحاظ کااصول مقرر کرکے مسلمانوں کی جداگانہ سیاسی ہستی کو ختم کردینے کافیصلہ کرچکے ہیں۔ نقصان دہ اس لیے کہ ان ’حقوق‘ کے استقرارکی جتنی کوشش بھی مسلمان کریں گے وہ ہندوئوں کے قومی تعصب کو اور زیادہ مشتعل کرے گی۔لہٰذا اب ہمیں وسیع پیمانے پر مسلمانوں میں ایسی رائے عام تیارکرنی چاہیے کہ وہ بحیثیت ایک قوم کے حکومت اور اس کے نظام سے بے رخی اختیارکرلیں اور ہندو قوم پرستی کو اپنے طرزعمل سے یہ اطمینان دلادیں کہ میدان میں کوئی دوسری سیاسی قومیت اس کے ساتھ کشمکش کرنے کے لیے موجود نہیں ہے۔ یہی ایک طریقہ ہے، اس غیرمعمولی تعصب کو ختم کردینے کا جو اس وقت غیرمسلم اکثریت کے اندر اسلام کے خلاف پیداہوگیاہے، اور اسی طریقے سے غیرمسلموں کے اس اندیشے کو بھی دور کیاجاسکتاہے کہ اگر اسلام کو مزید اشاعت کاموقع دیاگیاتو کہیں پھرکسی علاقے کے مسلمان ایک اور پاکستان مانگنے کے لیے کھڑے نہ ہوجائیں۔‘

ڈاکٹرصدیقی کے اعتراضات: ﴿نمبر۶،۷﴾

۱- ہندستان کے ہندوؤں کو ہند میں مسلمانوں کی فاتحانہ آمد اور حکمرانی کے تعلق سے جو بیر Grouseہے اس کامولانا کے خطبے میں کوئی ذکر نہیں ہے، نہ ہی اسے وہ کوئی ایسا عامل سمجھتے ہیں جس کو آیندہ لائحہ عمل بنانے میں سامنے رکھاجائے۔ اس عامل کو نظرانداز کرنے کااثر ان کے لائحہ عمل بنانے میں سامنے رکھاجائے۔ اس عامل کو نظرانداز کرنے کا اثر ان کا لائحہ پر پڑا۔ انھوں نے مذکورہ بالا تلخ یادوں کو اہمیت نہیں دی، ورنہ لائحہ عمل میںکوئی اور کام تجویز کرتے۔

۲- مولاناؒ کا یہ فرماناکہ ’ان حقوق کے استقرار کی جتنی کوشش بھی مسلمان کریں گے، وہ ہندوؤں کے قومی تعصب کو اور زیادہ مشتعل کرے گی‘ محل نظر ہے، کیوں کہ ہندستان کے دستور میں، جو مولانا کے خطبۂ مدراس کے بعد پانچ سال پورے ہونے سے پہلے ہی بن کر نافذ ہوگیاتھا، استقرار حقوق کے کچھ طریقے وضع کردیے گئے تھے۔ مگر اس کوشش کے نتیجے میں ’قومی تعصب‘ کے مشتعل ہونے کا کیا سوال؟ وہ تو جب کی بات تھی ، جب اقتدار انگریز کے ہاتھ میں تھا۔ وہ دینے والے تھے اور ہندستانی لینے والے تھے۔ ایسے میں اس مغالطہ کی گنجایش تھی کہ ایک کاحصہ بڑھاتو دوسرے کاحصہ گھٹے گا اور اس پر اشتعال ممکن تھا۔ علاوہ ازیں ’اسلام کے خلاف تعصب‘ صرف حقوق طلبی اور نظام حکومت میں اپنا حصہ مانگنے کی وجہ سے پیداہوا یہ بھی ایک غلط مفروضہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کے گہرے تاریخی اسباب ہیں، جن کی بے لاگ تحقیق درکار ہے۔ ان طویل المیعاد عوامل کو جن کی جڑیں تاریخ، نسل، مقامی رسم ورواج اور عدم واقفیت وغیرہ میں پیوستہ ہیں، نظرانداز کرتے ہوئے ایک پیچیدہ صورت حال کے سارے مطالعے پر مبنی علاج تجویز کردیاگیا۔

ان اعتراضات کا جواب مولاناؒ کے مذکورہ بالا اقتباس کے آخری جملے میں موجود ہے، نیز اعتراض نمبر-۱،۲ کے جوابات میں بھی واضح طورپر مل جائے گا۔ حقوق طلبی اور نظام حکومت میں اپناحصہ مانگنے کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف تعصب پیداہونے کے نتیجے میں اسلام کے خلاف بھی تعصب پیداہوا۔ یہ امرواقعہ ہے۔ ایسا ہونا فطری بات ہے۔ اُنھیں یہ اندیشہ تھا اور اب بھی ہے کہ اگر مسلمان مطلوبہ حقوق اور اقتدار میں اپناحصہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یقینا طاقتور ہوتے چلے جائیں گے، ساتھ ہی ان کے دین اسلام کو بھی استحکام و فروغ حاصل ہوگا، جس کے نتیجے میں ممکن ہے بتدریج پورا اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں چلاجائے اور برہمنیت کو پھر مغلوب ہوکر رہناپڑے۔ جیساکہ اوپر بیان کیاگیا، انگریزوں، یہودیوںاور ہندتووادیوں کے گٹھ جوڑ نے مسلمانوں اوراسلام کے خلاف محض تعصب اور اپنے مفاد کی خاطر یہاں کے غیرمسلم عوام میں مصنوعی ہوّے کھڑے کرکے اور مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں کی تاریخ کو مسخ کرکے ماضی کی خوش گوار یادوں کو تلخ بناکر ’ہندوقوم پرستی‘ کاجذبہ پیداکیا اور آزادی کے بعد بھی ہندتو وادیوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا۔ مسلمانوں کی فاتحانہ آمد اور حکمرانی کے تعلق سے بیر Grouseصرف ہندتووادیوں کو رہاہے، جسے وہ دیگر غیرمسلم اقوام پر مسلط کرکے برہمنی نظام کو قائم اور غالب رکھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ حالاں کہ مسلمانوں کی فاتحانہ آمد اور حکمرانی یہاں کے کروڑوں غیرمسلموں کے لیے رحمت ثابت ہوئی، حتیٰ کہ برہمنوں اور برہمنیت زدہ دیگر طبقا ت پر بھی قطعاً کوئی زیادتی نہیں ہوئی، اگرچہ برہمنی نظام مغلوب رہا۔ اس حقیقت کا اعتراف یہاں کے بیشتر سنجیدہ اور صاف ذہن کے غیرمسلم مؤرخین اور دانشوروں نے بھی کیاہے۔ مثلاً پنڈت سندرلال، بی-این- پانڈے، ایم-این رائے، سنگھ سین سنگھ، تاراچند، رومیلا تھاپر، ستیش چندر وغیرہ۔

ایم-این-رائے ’اسلام کاتاریخی کردار‘ میں لکھتے ہیں:

’محمدبن قاسم نے جاٹوں اور دوسری کاشتکارذاتوں کے بھرپور تعاون کی بدولت سندھ کو فتح کیاتھا، جو برہمنوں کے قوانین سے تنگ آچکے تھے۔ سندھ فتح کرنے کے بعد اس نے برہمنوں کو اعتماد میں لے کر ملک میںامن قائم کیا۔ اس نے انھیں مندروں کی مرمت کی اجازت دی اور انھیں اس بات کی آزادی دی کہ وہ اپنے مذہب پر حسب سابق عمل کرتے رہیں۔‘

’سیاسی طورپر ظلم کادور شروع ہوگیااور روحانی طورپر مزاج کی کیفیت پیداہوگئی۔ پورا سماج تنزل کی طرف مُڑگیا۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف کچلے اور دبے ہوئے لوگ بل کہ اونچے طبقے کے لوگ بھی مسلمان فاتحین کی خدمت کرنے کو تیارہوگئے اور نچلاطبقہ تو اس لیے فوراً تیار ہوگیاکہ اس کی بدولت انھیں سماجی برابری مل رہی تھی۔‘

’برہمنوں کے کٹرپنتھ کی بدولت کروڑوں مظلوموں کی زندگیوں کے لیے یہ زوال پزیر عقیدہ بھی ﴿مصنف قرن اول کے مسلمانوں کے عقیدے کے مقابلے میں اس وقت کے مسلمانوں کے عقیدے کو زوال پزیر قرار دیتے ہیں﴾ امید او آزادی کا پرچم بن گیا۔ ایرانی اور مغل فاتحین کے اندروہ روایتی رواداری اور آزدپسندی ملتی ہے جو ابتدائی مسلمانوں کی خصوصیت تھی۔ صرف یہ حقیقت کہ دوردراز کے مٹھی بھر حملہ آور اتنے بڑے ملک کے اتنے لمبے عرصے تک حکمراں بن رہے اور ان کے عقیدے کو لاکھوں لوگوں نے اپناکر اپنا مذہب تبدیل کرلیا، یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ہندستانی سماج کی بنیادی ضرورتوں کو وہ پوراکررہیتھے۔ ہندستان میں مسلم قوت صرف چند حملہ آوروں کی شجاعت کی بدولت مضبوط نہیں ہوئی بل کہ اسلامی قوانین کی ترقی یافتہ اہمیت اور تشہیر کی بدولت ہوئی۔ یہ ہیول (Havel)جیسامسلم دشمن مؤرخ بھی مانتاہے۔ مسلمانوں کے سیاسی نظام کا ہندو سماجی زندگی پر اس طرح اثر پڑاکہ نچلی اور کمزور ذاتوں کے لیے بہتر زندگی اور مستقبل کی ضمانت انھیں اپنا مذہب چھوڑکر نیا مذہب اپنانے کے لیے مجبور کرتی رہی۔ اس کی بدولت شودر نہ صرف آزاد ہوئے بل کہ بعض معاملات میں وہ برہمنوں کے آقا بھی ہوگئے۔‘

’برہمنوں کی کٹرمذہبیت نے بودھ انقلاب کاخاتمہ کردیاتھا اور گیارہویں اور بارہویں صدی کے ہندستان میں ایسے لاکھوں ملحدانہ خیالات رکھنے والوں کی تعداد رہی ہوگی، جنھوں نے بڑھ کر اسلام اور اس کی تعلیمات کاخیرمقدم کیا۔ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ ہندستان میں مسلمانوں کی فتح کے وقت ایسے لاکھوں لوگ یہاں موجود تھے جن کے نزدیک ہندوقوانین کے تئیں وفادار رہنے کاکوئی جواز نہیں تھا اور برہمنوں کی کٹر مذہبیت اور روایت کی پاسداری ان کے نزدیک بالکل بے معنی تھی، ایسے سبھی لوگ اپنی اس ہندو وراثت کو اسلام کے مساوات کے قوانین کے سامنے چھوڑنے کو تیار تھے جو انھیں ہر طرح کی حفاظت بھی دے رہاتھا تاکہ وہ ہندو رجعت پسندوں کے ظلم سے نجات حاصل کرسکیں۔ اسلام نے زندگی کاوہ نظام دیا جو کروڑوں لوگوں کی خوشی کاباعث بنا۔‘

یہ ہیں وہ حقائق جن سے مولاناؒ بخوبی واقف تھے۔ ان کی خداداد بصیرت و سب کچھ دیکھ رہی تھی جو آزادی کے بعد واقعے کی صورت میںسامنے آیا۔ سورج کی روشنی کی طرح ان روشن حقائق سے چشم پوشی کرکے ہندتو وادیوں کی پیداکردہ مصنوعی ’ماضی کی تلخ یادوں‘ میں ڈاکٹر موصوف گم ہوکر واضح صورت حال اور زمینی حقیقت کو پیچیدہ بناکر پیش کرنے کی خواہ مخواہ کوشش کررہے ہیں۔ ایک داعی اور اسلامی تحریک کاقائد خداداد بصیرت اور بصارت سے کام لے کر واقعی صورت حال کافطری انداز میں مطالعہ کرکے آئندہ صورت حال کا بآسانی اندازہ کرلیتاہے، نتیجتاً صحیح اور قابل فہم وقابل عمل علاج یا حل تجویز کرتاہے، جیساکہ مولاناؒ نے پیش کیاتھا۔

دوسرا نکتہ: ’مسلمانوں کے اہل دماغ طبقے میں نفوذکرنا اور اسے ذہنی وعملی انتشار سے بچاکر اسلامی تعلیمات کی راہ پر لگانا‘

اس نکتے کے تحت مولاناؒ نے دیگر باتوں کے علاوہ ایک بات یہ فرمائی کہ ’جن لوگوں کو خدا نے زیادہ بلند درجے کی دماغی صلاحیتیں دی ہیں وہ قرآن کی مشعل ہاتھ میں لے کر علم کے ہر گوشے اور مسائل حیات کے ہرپہلو کاجائزہ لیں اور تحقیق وکاوش کے ساتھ اسلامی نظام زندگی کی پوری تصویر دنیا کے سامنے پیش کردیں جسے دیکھ کر آپ بآسانی یہ معلوم کرسکیں کہ اگر دنیا کا انتظام اس نظام کے مطابق ہوتواس کی تفصیلی صورت کیاہوگی۔ ان سب کے علاوہ اسی اہل دماغ طبقے میں سے جو لیڈر شپ کی صلاحیتیں رکھتے ہیں، اسلامی دعوت کو ایک عمومی تحریک بنانے کے لیے ان لوگوں کو اس کی رہ نمائی کا منصب سنبھالنے کے لیے تیار کیاجائے۔‘

ڈاکٹرموصوف کااعتراض: ﴿نمبر-۸﴾

’متعدد شعبہ ہائے حیات، خاص طورپر معاشی زندگی میں ’اسلامی زندگی‘ کی تفصیلات بیشتر منصوصات پر نہیں اجتہادات پر مبنی ہوگی اور اجتہادات وقت اور مقام کے ساتھ بدلیں گے اور انسانوں کے درمیان اختلاف بھی ہوگا۔ اس کی طرف مولانا کے خطبۂ مدراس اوردیگر تحریروں میں اشارہ تک نہیں ملتا۔ چنانچہ عام تحریکی کارکن جن علما اور مفکرین سے حسن ظن رکھتے ہیں، ان کی پیش کردہ تفصیلات کو اسلام کی طرف منسوب کرکے کام چلانے پر مجبور ہیں، ساتھ ہی ان میں اختلافی رایوں کااحترام یا ان کے سلسلے میں رواداری نہیں پیداہوتی۔ نتیجتاً متعلقہ اہل علم اور عام دانشوروں میں اسلامی دعوت کی ساکھ مجروح ہوتی ہے۔‘

واقعہ یہ ہے کہ اسلام کی طرف کوئی تفصیلی صورت منسوب کرنا ہمیشہ مسائل بدوش رہے گا، یہ بھی ایک غلط مفروضہ ہے۔ اس لیے کہ تفصیلات کاتعلق جزئیات و فروع سے ہے اور اجتہاد انھی میں ہوگا۔ نیز یہ قطعاً ضروری نہیں ہے کہ اسلامی نظام زندگی کے کسی شعبے سے متعلق پیش کردہ تمام ہی تفصیلات وقت اور مقام کی تبدیلی کے ساتھ بدلتے چلے جائیںگے۔ ممکن ہے چند کے ساتھ ایسا ہو۔ چونکہ جو بھی تفصیل پیش کی جائے گی وہ لازماً ﴿مولاناؒ کے الفاظ میں﴾ ’اسلام کی روح اور اس کے اصول عامہ سے مطابقت رکھتی ہوگی، جس کا مزاج اسلام کے مجموعی مزاج سے مختلف نہ ہوگا، جو اسلامی زندگی کے نظام میں ٹھیک ٹھیک نصب ہوسکے ۔‘ اس لیے وہ اسلامی ہی قرار پائے گی اور اسے اسلام کی طرف منسوب کیاجائے گا، اگر پیش کرنے والا اسلامی زندگی کی تفصیل پیش کررہاہو نہ کہ کسی اور نظامِ حیات کی۔ یقینا اختلافات بھی ہوں گے، لیکن محض اختلافات کے ڈر سے تفصیلات پیش کرنے سے گریز نہیں کیاجائے گا نہ ہی اس سلسلے میں عام کارکنان تحریک یا عام مسلمانوں کی طرف سے عدم احترام وعدم رواداری کی پروا کی جائے گی۔ البتہ پیش کرنے والا اس غرّے میں مبتلا نہ ہو کہ وہ جو کچھ پیش کررہاہے، حرف آخر یا وحیِ الٰہی ہے، لہٰذا اس پر کسی کو گرفت یا تنقید نہیں کرنا چاہیے۔ اگراس کی بات میں وزن ہوگا تو وہ دیر سویر تحریک کے اور مسلمانوں کے اہل علم یا کم از کم ان کی ایک معتدبہ تعداد سے اپنا سکہ منوالے گی اور عام کارکنان اور مسلمان بھی اسے قبول کرلیں گے۔ کسی بھی تحریک کے عام کارکنان یا عوام الناس انھی کی بات کو قبول اور اختیار کرتے ہیں، جن پر انھیں اعتماد ہے یاجن سے انھیں حسن ظن ہے، یہ ایک فطری امر ہے۔ چنانچہ یہ چیز متعلقہ اہل علم اور دانشوروں ﴿اگر وہ واقعی مخلص اور خداترس ہیں﴾ میں اسلامی دعوت کی ساکھ مجروح ہونے کی موجب بنتی ہے، قطعی ناقابل فہم ہے۔

اس سلسلے میں مولاناؒ کی متعدد تحریروں میں کہیں مجمل اور کہیں مفصل رہ نمائی ملتی ہے، تحریک کے عام کارکنان کے لیے بھی اور تحقیق واجتہاد کرنے والوں کے لیے بھی مثلاً:

٭   ’…جولوگ علم رکھتے ہوں وہ اپنی تحقیق پر، اور جو علم نہ رکھتے ہوں وہ جس کے علم پر اعتماد رکھتے ہوں، اس کی تحقیق پر عمل کریں، نیز ان معاملات میں مجھ سے اختلافِ رائے رکھنے اور اپنی رائے کااظہار کرنے میں سب آزاد ہیں۔‘ ﴿روداد اول﴾

٭’…لیکن ہمارے پاس ایسی سیرت اور اعلیٰ قابلیت رکھنے والا ایک منظم گروہ مہیا نہیں ہوسکا جو دنیا کے سامنے ان عملی تفصیلات کو پیش کرسکے، جن کی مانگ… لوگوں میں فوراً پیدا ہوجاتی ہے جب لوگ ہم سے اجتماعی زندگی کا وہ تفصیلی نقشہ مانگنے لگتے ہیں جو ہمارے نظام فکر کی بنیاد بننا چاہیے تو ہم اسے پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں، محض اس لیے کہ ان تفصیلات کو مرتب کرنا ایک شخصی واحد کے بس کا کام نہیں ہے ، بل کہ اس کے لیے صاحب فکر محققین کاایک گروہ درکار ہے۔‘ ﴿ایضاً﴾

٭’…جوشخص خود احکامِ الٰہی اور سنن نبوی میں نظربالغ نہ رکھتاہو اور خود اصول سے فروع کااستنباط کرنے کا اہل نہ ہو اس کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ علما اور ائمہ مجتہدین میں سے جس پر بھی اس کااعتماد ہو اس کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرے۔‘ ﴿رسائل و مسائل اوّل﴾

٭’صاف بات یہ ہے کہ اگر کسی فروعی مسئلے میں میرے دلائل سے آپ کا اطمینان ہوجائے تو بہتر ہے اور اطمینان نہ ہو تب بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ اپ اس معاملے میں میری رائے کوغلط سمجھ کر ردّ کردیں اور جو کچھ خود صحیح سمجھتے ہوں اس پر عمل کریں۔ اس قسم کے جزوی مسائل میں ہم مختلف رائیں رکھتے ہوئے بھی ایک ہی دین کے پیرو رہ سکتے ہیں اور اس دین کی اقامت کے لیے مل کر کام کرسکتے ہیں۔‘ ﴿ایضاً﴾

٭’پس خوب سمجھ لیجیے کہ اصل چیز ان مباحث سے پرہیز نہیں ہے، بل کہ یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو کچھ لکھے یا کہے معقولیت کوبرقرار رکھتے ہوئے حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے، شان تحقیق کے ساتھ لکھے اور دوسرے لوگ وج اس کے سننے اور پڑھنے اور والے ہیں، ان کے اندر قوت تحمل ، کچھ وسعت قلب، کچھ رواداری اور کچھ اصول و فروغ کی تمیز موجود ہو۔‘ ﴿ایضاً﴾

٭’پھرآپ کا یہ ارشاد کہ جزئیات و فروع پر سرے سے میری کتابوں میں بحث نہ ہونی چاہیے، بجائے خود صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ کوئی شخص بھی مجد کلیات تک اپنی بحثوں کو محدود رکھنے پر قادر نہیں ہوسکتا۔ کبھی کلیات و اصول کی توضیح میں اسے جزئیات سے بحث کرنی ہوگی، کبھی لوگوں کے شکوک وشبہات اور استفسارات کے جواب میں اس کی ضرورت پیش آئے گی اور کبھی تحقیقی مسائل کے سلسلے میں ہمت سے جزئیات کو زیر بحث لانا پڑے گا اور جب یہ چیزیں بحث میں آئیںگی تو لامحالہ بہت سے امور ایسے ہوںگے، جو کسی نہ کسی گروہ کے مسلک سے مختلف ہوں گے۔‘‘ ﴿ایضاً﴾

٭       ’’سنتوں کا بہت بڑا حصہ امت میں متفق علیہ ہے۔ اسلامی نظام حیات کا بنیادی ڈھانچہ جن سنتوں سے بنتاہے وہ تو قریب قریب سب ہی متفق علیہ ہیں۔ ان کے علاوہ اصول و کلیات، شریعت جن سنتوں پر مبنی ہیں، ان میںبھی زیادہ تر اتفاق ہے۔ اختلاف ان سنتوں میں ہے جن سے جزئی احکام نکلتے ہیں اور وہ بھی سب مختلف فیہ نہیں ہیں۔ اس طرح یہ بات بھی سنتوں کے بڑے حصے کو متفق علیہ قرار دینے میں مانع نہیں ہے کہ چند چھوٹے چھوٹے خبطی اور زیادہ تر بے علم گروہوں نے کبھی کہیں اٹھ کر متفق علیہ چیزوں کو بھی اختلافی بنانے کی کوشش کی ہے۔‘ ﴿سنت کی آئینی حیثیت﴾

٭       علمائے سلف وائمہ مجتہدین کے استنباطی و اجتہادی احکام کو عوام نے اس لیے قبول کیاکہ اُنھیں ان پر اعتماد تھاکہ وہ عالم بھی ہیں اور متقی و محتاط بھی۔ وہ قرآن وسنت کو ٹھیک ٹھیک سمجھتے اور جانتے ہیں، صحیح اسلامی دہن رکھتے ہیں، غیراسلامی افکار و نظریات سے متاثر نہیں ہیں۔ مسلمان ان پرپورا اطمینان رکھتے تھے کہ یہ تحقیق واجتہاد کے بعد شریعت کاجو حکم بھی بیان کریں گے ان میںشرعی غلطی تو ہوسکتی ہے مگر بے ڈھب اور بے لگام اجتہاد یا اسلام میں غیراسلام کی آمیزش کاان سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘ ﴿ایضاً﴾

٭       ’مجتہد خواہ تعبیر احکام کررہاہو یا قیاس واستنباط، بہ ہرحال اسے اپنے استدلال کی بنیاد قرآن وسنت پر رکھنی چاہیے۔ بل کہ مباحات کے دائرے میں آزادانہ قانون سازی کرتے ہوئے بھی اسے اس بات کی دلیل لانی چاہیے کہ قرآن و سنت نے واقعی فلاں معاملے میں کوئی حکم یا قاعدہ مقررنہیں کیاہے اور نہ قیاس ہی کے لیے کوئی بنیاد فراہم کی ہے۔ پھر قرآن و سنت سے جو استدلال کیاجائے وہ لازماً ان طریقوں پر ہونا چاہیے جو اہل علم میں مسلّم ہیں۔‘ ﴿ایضاً﴾

خطبہ مدراس پر مذکورہ بالا اعتراضات کے علاوہ بھی محترم موصوف نے مولاناؒ پر چند ایک اعتراضات وارد کیے ہیں اورملکی و عالمی سطح پر رونما تبدیلیوں کے ضمن میںتحریک اسلامی کو متعدد ’مشورے‘ بھی دیے ہیں۔ ان سب کاجائزہ لینا بھی پیش نظر ہے۔   اِن شاء اللہ آیندہ۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2010

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau