کسی فرد کے کسی قیادت سے رضاکارانہ وابستہ ہونے میں یا اس کے کسی نظام ریاست کے محکوم ہونے میں بعض پہلوؤں سے مماثلت ہے۔ البتہ بعض دوسرے پہلوؤں کے اعتبار سے یہ دونوں حالتیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ کسی قیادت سے رضاکارانہ وابستگی اور کسی نظامِ ریاست کی محکومیت میں مماثلت اس اعتبار سے ہے کہ دونوں کیفیتوں میں فرد پابند ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ جس کو اپنا قائد تسلیم کرتا ہے اُس کی اطاعت کرتا ہے اور خود کو اطاعت کا پابند سمجھتا ہے۔ اسی طرح وہ جس ریاست کا محکوم ہوتا ہے اُس کے قوانین کی پابندی کرتا ہے۔ مماثلت اس اعتبار سے بھی ہے کہ ایک قائد سے وابستہ افراد آپس میں بھی یگانگت محسوس کرتے ہیں اور اُن کی ایک اجتماعیت وجود میں آتی ہے۔ اِسی طرح ایک نظامِ ریاست کے محکومین ایک دوسرے سے تعلق رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں اور چاروناچار ایک اجتماعی ڈھانچے کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ مماثلت کے ان پہلوؤں کو دیکھ کر ایک ظاہر بیں شخص یہ رائے قائم کرسکتا ہے کہ قیادت اور حکمرانی کی حقیقت ایک ہی ہے اور دونوں ایک ہی کیفیت کی دو تعبیریں ہیں لیکن تھوڑے سے غوروفکر سے اس رائے کی غلطی واضح ہوجاتی ہے۔ مشابہت کے بعض پہلوؤں کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ قیادت اور حکمرانی کے درمیان واضح فرق اور امتیاز موجود ہے جس کا ادراک کیا جانا چاہیے۔
ریاست اور قیادت کے درمیان فرق
مذکورہ بالا فرق و امتیاز کاایک پہلو فرد کے اختیار سے متعلق ہے۔ کسی قیادت سے وابستہ ہونا اور رضاکارانہ اُس کی اطاعت کرنا کسی فرد کا اختیاری فعل ہے۔ وہ اس معاملے میں آزاد ہے کہ کس کو اپنا قائد بنائے اور اُس کی بات مانے۔ بہرحال رضاکارانہ وابستگی اس پر مسلط نہیں کی جاسکتی۔ اس کے برعکس عام طور پر کسی ریاست کا شہری ہونا کسی فرد کی آزاد مرضی پر منحصر نہیں ہوتا۔ وہ جس خطے میں پیدا ہوتا ہے وہاں پر قائم نظام ریاست کا خودبخود محکوم ہوتا ہے اور اُس کے قوانین کا پابند ہونے کے لئے مجبور ہوتا ہے۔ چنانچہ نظامِ ریاست کی محکو میت اختیاری نہیں بلکہ غیر اختیاری فعل ہے۔ اِسی طرح فرق وامتیاز کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ریاست صرف فرد کے ظاہر پر اپنا قانون نافذ کرسکتی ہے، افراد کے ذہن وفکر پر اُس کا براہ راست کنٹرول نہیں ہوتا۔ گرچہ ریاستیں اپنے اختیارات سے کام لے کر افراد کے اندازِ فکر کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن اس کوشش میں وہ ہمیشہ اور کلیتاً کامیاب نہیں ہوتیں۔ اس کے برعکس جس قیادت کی ایک فرد رضاکارانہ اطاعت کرتا ہے وہ اطاعت محض ظاہری نہیں ہوتی بلکہ قلبی اور ذہنی آمادگی کے ساتھ ہوتی ہے۔ چنانچہ قیادت چاہے تو افراد کے ظاہر کے ساتھ اُن کے ذہن وفکر اور سیرت وکردار کو بھی بدل سکتی ہے۔
اِس فرق کاایک تیسرا پہلو بھی ہے۔ ایک ریاست کے محکومین ایک ظاہری اجتماعی ڈھانچہ تو ضرور بناتے ہیں لیکن اس ڈھانچے کے اجزاء کا احساسات اور نفسیات کی دنیا میں باہم ہم آہنگ ہونا ضروری نہیں ہے۔ دنیا کا تجربہ بتاتا ہے کہ بسااوقات صدیوں تک ایک ہی نظام حکومت کے تحت رہنے والے مختلف تہذیبی گروہ اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہیں اور ایک دوسرے میں مدغم ہوکر نفسیاتی وتہذیبی اعتبار سے ایک گروہ نہیں بن جاتے۔ بسا اوقات اُن کو ایک گروہ بنانے کے لیے تعلیم و ابلاغ اور جبر وتخویف کے ذرائع بھی اختیار کیے جاتے ہیں لیکن وہ کامیابی کے ساتھ ان کا مقابلہ کرلیتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک قیادت سے رضاکارانہ وابستگی اختیار کرنے والے افراد کے لیے ممکن ہوتا ہے کہ وہ ذہن وفکر اور نفسیات و تہذیب کے اعتبار سے ایک ہم آہنگ گروہ بن جائیں۔ رنگ ونسل، زبان وعلاقہ ، ذوق ومزاج اور پیشہ و ذریعۂ معاش کے اختلاف کے باوجود ایک قیادت سے مخلصانہ وابستگی مختلف افراد کو ایک اجتماعیت کے تحت منظم کردیتی ہے اور اُن کی صلاحیتیں مرکوز و مجتمع ہوکر اُس مقصد کی خدمت کے لیے استعمال ہونے لگتی ہیں جو اُن کی قیادت کے پیشِ نظر ہوتا ہے۔
اسلام کا منشا
جہاں تک اسلام کا تعلق ہے وہ انسانی معاشرے کی اصلاح دونوں پہلوؤں سے کرنا چاہتا ہے۔ اُسے یہ بھی مطلوب ہے کہ معاشرے کو صالح قیادت فراہم ہو اور وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ریاست کے ادارے کی اصلاح ہو۔ البتہ ایک فطری اور عملی دین ہونے کی حیثیت سے وہ افراد کے سامنے اپنے مطالبات فطری انداز میں پیش کرتا ہے۔ ابتدا اُن مطالبات سے ہوتی ہے جن کا پورا کرنا فرد کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ تقاضے سامنے آتے ہیں جن کی تکمیل کے لیے اجتماعی طاقت اور سعی درکار ہوتی ہے۔ پھر جس اعتبار سے ایک مرحلے کے تقاضے تکمیل کو پہنچتے جاتے ہیں اُسی اعتبار سے افراد کا دینی شعور اُن کے سامنے اگلے مرحلے کے تقاضے پیش کردیتا ہے۔یہ فطری ترتیب و تدریج دین کے مزاج کا منفرد وصف ہے اور اس مزاج کی معرفت راہِ حق کے راہیوں کے لیے ضروری ہے۔ سیرتِ طیبہ کا مطالعہ وہ عملی نمونہ ہمارے سامنے لاتا ہے جہاں ایک طرف اسلام کے مکمل منشاء کو کسی مرحلے میں فراموش نہیں کیا گیا اوردوسری طرف اہلِ ایمان کے سامنے حالات کے ہر موڑ پر وہ تقاضے واضح طور پر رکھ دیے گئے جو اُس مرحلے سے متعلق تھے۔
مذکورہ بالا فطری ترتیب وتدریج کے مطابق فرد سے اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ صالح قیادت سے رضاکارانہ وابستگی اختیار کرے۔ جب افراد صالح قیادت سے وابستگی اختیار کرتے ہیں تو اجتماعیت وجود میں آتی ہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا مطالبے کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ فرد صالح اجتماعیت سے وابستہ ہوجائے ۔ اس صالح اجتماعیت کو قرآن مجید نے اُمت مسلمہ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مطیع وفرماں بردار اِس اُمت کے لیے ’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کیے گئے ہیں۔ بہرحال ایمان کے تقاضے پورے کرنے کی واحد عملی صورت، فرد کی اُمتِ مسلمہ سے وا بستگی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ وابستگی رضاکارانہ ہے۔ اِس لیے کہ ایمان لانااُسی وقت بامعنی اور معتبر ہے جب دل کی پوری آمادگی کے ساتھ یہ اقدام کیاگیا ہو۔
ایمان اور اُمت مسلمہ میں شمولیت کے سلسلے میں فرد کے اختیار کی حیثیت کلیدی ہے۔ جس طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ بالجبرکسی دل میں ایمان داخل کردیا جائے اِسی طرح یہ بھی کسی جابر کے بس کی بات نہیں ہے کہ کسی سعید روح کو ایمان لانے سے روک دے۔ کوئی ظالم وجابر اقتدار افراد کے ہاتھ پاؤں تو باندھ سکتا ہے لیکن قلب وذہن اور اِنسانی ضمیر کو پا بہ زنجیر نہیں کرسکتا۔ کوئی شخص ایمان لانا چاہے اور اُمتِ مسلمہ میں شامل ہونا چاہے تو کوئی انسانی طاقت اُسے اِس اقدام سے باز نہیں رکھ سکتی۔
جس طرح اسلامی اجتماعیت کے لیے قرآن مجید نے ’’اُمت مسلمہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے اِسی طرح اسلامی ریاست کے قیام کو کتابِ الٰہی نے ’’فتح‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اِس فتح کی ہم معنی اصطلاحیں ’’استخلاف فی الارض‘‘ اور ’’تمکن فی الارض‘‘ کی ہیں۔
اِسلامی ریاست کا قیام
اِسلامی ریاست کے سلسلے میں قرآن مجید چند اہم حقائق ہمارے سامنے لاتا ہے:
﴿الف﴾ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو ایک نفع بخش تجارت کی طرف بلایا ہے جو انہیں دردناک عذاب سے نجات دینے والی ہے۔ تجارت یہ ہے کہ وہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ پر ایمان لائیں اور اللہ کے راستے میں جہاد کریں۔ اس کے صلے میں اللہ کی مغفرت اوراُس کی جنت اُن کو حاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ وہ منزل بھی اُن کو ملے گی جس کو وہ عزیز رکھتے ہیں یعنی فتح، جو کچھ دور نہ ہوگی۔ فتح کے معنی حق کے غلبے کے ہیں جس کی عملی صورت اسلامی ریاست کا قیام ہے۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آ مَنُوا ہَلْ أَدُلُّکُمْ عَلَی تِجَارَۃٍ تُنجِیْکُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِیْمٍ۔تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَتُجَاہِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ
اِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ۔ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ وَمَسَاکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۔وَأُخْرَی تُحِبُّونَہَا نَصْرٌ مِّنَ اللَّہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْن۔﴿سورہ صف، آیات: ۱۰تا ۱۳﴾
’’اے لوگو!جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچا دے؟ ایمان لاؤ اللہ اور اُس کے رسولﷺ پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اوراپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمھارے گناہ معاف کردے گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبیﷺ ! اہلِ ایمان کو اس کی بشارت دے دو‘‘۔
﴿ب﴾ جہاں تک مغفرت اور جنت کا سوال ہے وہ ایمان اور جہاد کے راستے پر گامزن تمام مخلص بندگان خدا کی سعی کا صلہ ہے جس کا وعدہ اُن سب سے کیاگیا ہے۔ رہا فتح یا اِس دنیا میں حق کے غلبے کا معاملہ تو اُس کے سلسلے میں یہ ممکن ہے کہ اہلِ ایمان کی ایک نسل کی زندگی میں یہ مرحلہ نہ آئے بلکہ چند نسلیں گزر جانے کے بعد وہ فتح حاصل ہو جو اہلِ ایمان کو محبوب ہے۔ مشیت الٰہی میں فتح کے مرحلے کے آنے کے لیے جو وقت مقرر ہے اُسی وقت یہ مظہر نمودار ہوگا۔ اس کی مثال عیسیٰ علیہ السلام کے مخلص پیروؤں کا اپنے مخالفین پر غلبہ ہے۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا کُونوا أَنصَارَ اللَّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیِِّیْنَ مَنْ أَنصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّّٰہِ فَآَمَنَت طَّائِفَۃٌ مِّنْ بَنِیْ اسْرَائِیْلَ وَکَفَرَت طَّائِفَۃٌ فَأَیَّدْنَا الَّذِیْنَ آمَنُوا عَلَی عَدُوِّہِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاہِرِیْن۔﴿سورۂ صف:۱۴﴾
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کے مددگار بنو جس طرح عیسیٰؑ ابن مریم نے حواریوں کو خطاب کرکے کہا تھا : ’’کون ہے اللہ کی طرف ﴿بلانے میں﴾ میرا مددگار؟ اور حواریوں نے جواب دیا تھا، ’’ہم ہیں اللہ کے مددگار‘‘۔ اُس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے انکار کیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی اُن کے دشمنوں کے مقابلے میں تائید کی اور وہی غالب ہوکر رہے‘‘۔
یہ غلبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موجودگی میں نہیں ہوگیا تھا بلکہ بعد میں ہوا۔ جناب شبیر احمد عثمانی آیتِ بالا کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بنی اسرائیل میں دو فرقے ہوگئے۔ ایک ایمان پر قائم ہوا۔ دوسرے نے انکار کیا۔ پھر حضرت مسیح کے بعد آپس میں دست وگریباں رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس بحث و مناظرہ اور خانہ جنگیوں میں مومنین کو منکرین پر غالب کیا۔ حضرت مسیح ؑ کے نام لیوا، یہود پر غالب رہے‘‘۔
﴿ج﴾ مخلصانہ ایمان اور اللہ کے راستے میں جہاد کے نتیجے میں اللہ کی طرف سے فتح قریب کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس بشارت کی دوسری تعبیر یہ ہے کہ ایمان اور عملِ صالح کے نتیجے میں اللہ کی طرف سے استخلاف فی الارض کی خوش خبری دی گئی ہے۔
وَعَدَ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِیْ الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْناً یَعْبُدُونَنِیْ لَا یُشْرِکُونَ بِیْ شَیْْئاً وَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُون۔ وَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ۔ ﴿سورہ نور،آیات:۵۵۔۵۶﴾
’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ اُن کو زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کردے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے اور اُن کی ﴿موجودہ﴾ حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور جو اُس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور رسولﷺ کی اطاعت کرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیاجائے گا‘‘۔
سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ ایمان اور عملِ صالح کا مطلوب درجہ اور ایمان وعمل پر مداومت کی مدت کیا ہے جس کے گزر جانے کے بعد استخلاف فی الارض کا الٰہی وعدہ پورا ہوگا۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ مطلوبہ معیار اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ اہلِ ایمان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی استطاعت کی حد تک ایمان وعمل کی مقرر شرط پوری کریں اُس کے بعد اللہ کے وعدوں پر اعتماد کریں۔ جناب شبیر احمد عثمانی اِس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ خطاب فرمایا حضرت محمدﷺ کے وقت کے لوگوں کو یعنی جو اُن میں اعلیٰ درجے کے نیک اور رسولﷺ کے کامل متبع ہیں رسول کے بعد اُن کو زمین کی حکومت دے گا اور جو دین اسلام خدا کو پسند ہے اُن کے ہاتھوں سے دنیا میں اُس کو قائم کرے گا۔ لفظ استخلاف میں اشارہ ہے کہ وہ لوگ محض دنیوی بادشاہوں کی طرح نہ ہوں گے بلکہ پیغمبر کے جانشین ہوکر آسمانی بادشاہت کا اعلان کریں گے اور دینِ حق کی بنیاد یں جما دیں گے اور خشکی وتری میں اُس کا سکہ بٹھلا دیں گے۔ اُس وقت مسلمانوں کو کفار کا خوف مرعوب نہ کرے گا۔ وہ کامل امن واطمینان کے ساتھ اپنے پروردگار کی عبادت میں مشغول رہیں گے اور دنیا میں امن وامان کا دوردورہ ہوگا۔ اُن مقبول ومعزز بندوں کی ممتاز شان یہ ہوگی کہ وہ خالص خدائے واحد کی بندگی کریں گے جس میں ذرہ برابر شرک کی آمیزش نہیں ہوگی۔ الحمدللہ کہ یہ وعدہ الٰہی چاروں خلفائ رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں پورا ہوا۔ دنیا نے اس عظیم الشان پیشین گوئی کے ایک ایک حرف کا مصداق اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ خلفائے اربعہ کے بعد بھی کچھ بادشاہانِ اسلام وقتاً فوقتاً اس نمونے کے آتے رہے اور جب اللہ چاہے گا آئندہ بھی آئیں گے‘‘۔
جناب سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اِس ایت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’اللہ نے مسلمانوں کو خلافت عطا فرمانے کا جو وعدہ کیا ہے اُس کے مخاطب محض مردم شماری کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو صادق الایمان ہوں، اخلاق اور عمل کے اعتبار سے صالح ہوں، اللہ کے پسندیدہ دین کا اتباع کرنے والے ہوں اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہوکر خالص اللہ کی بندگی و غلامی کے پابند ہوں۔ اِن صفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کے مدعی لوگ نہ اِس وعدے کے اہل ہیں اور نہ یہ ان سے کیا ہی گیاہے۔ لہٰذا وہ اس میں حصے دار ہونے کی توقع نہ رکھیں‘‘۔﴿تفہیم القرآن، سورۂ نور، حاشیہ: ۸۳﴾
﴿د﴾ جو فتح اہلِ ایمان کو نصیب ہوگی اُس کا اصل ثمرہ یہ ہوگا کہ دین حق کے قبول کرنے میں جو رکاوٹیں ﴿باطل کے غلبے کی وجہ سے﴾ حائل ہیں وہ ہٹ جائیں گی اور لوگوں کا اللہ کے دین میں داخلہ آسان ہوجائے گا۔
اِذَا جَائ نَصْرُ اللَّہِ وَالْفَتْحُ۔وَرَأَیْْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فِیْ دِیْنِ اللَّہِ أَفْوَاجاً ۔فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِنَّہُ کَانَ تَوَّاباً ۔﴿سورۂ نصر﴾
’’جب اللہ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہوجائے اور تم دیکھ لو کہ لوگ فوج درفوج اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو اور اُس سے مغفرت کی دعا مانگو ۔ بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے‘‘۔
﴿ہ﴾ حق کی فتح کی ایک اورتعبیر تمکن فی الارض ہے:
اَلَّذِیْنَ اِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلَّّٰہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُور۔﴿الحج:۴۱﴾
’’یہ اہلِ ایمان وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تووہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے ، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
صالح قیادت سے وابستگی
قرآن مجید کی روشنی میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان سے اپنی نصرت کا وعدہ کیا ہے ۔ اگر اللہ کے بندے ایمان وعملِ صالح کی شرط پوری کردیں تو اللہ تعالیٰ حق کو غالب فرمائے گا۔ اس وعدے کے پورا ہونے کا وقت مشیت الٰہی میں مقرر ہے جس کا علم اللہ ہی کے پاس ہے ۔ اس معاملے میں بندوں کا رول یہ ہے کہ جو کچھ اُن کے اختیار میں ہے اُس کام کو وہ ا نجام دیں۔ اس کام کی جامع تعبیر ایمان اور عملِ صالح ہے اور اس کی ابتدا صالح قیادت کے ساتھ وابستگی سے ہوتی ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کی مثال سے مندرجہ بالا حقیقت کو سمجھاجاسکتا ہے۔ حضر ت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کی بندگی کی دعوت دینے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ میری اطاعت کرو۔ یہ بندگانِ خدا کو صالح قیادت کے ساتھ وابستگی اختیار کرنے کی دعوت تھی۔
انَّا أَرْسَلْنَا نُوحاً اِلَی قَوْمِہِ أَنْ أَنذِرْ قَوْمَکَ مِن قَبْلِ أَن یَأْتِیَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ۔قَالَ یَا قَوْمِ اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ۔ أَنِ اعْبُدُوا اللَّٰہَ وَاتَّقُوہُ وَأَطِیْعُون۔ ﴿سورہ نوح، آیات: ۱تا۳﴾
’’ہم نے نوح ؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا ﴿اِس ہدایت کے ساتھ﴾ کہ اپنی قوم کے لوگوں کو خبردار کردے قبل اس کے کہ اُن پر ایک دردناک عذاب آئے۔ اُس نے کہا : ’’اے میری قوم کے لوگو! میں تمھارے لیے ایک صاف صاف خبردار کردینے والا ہوں۔ ﴿تم کو آگاہ کرتا ہوں﴾ کہ اللہ کی بندگی کرو اور اُس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو‘‘۔
نوح علیہ السلام کی اِ س دعوت کا تذکرہ سورہ شعرائ میں اِن الفاظ میں ہے:
اذْ قَالَ لَہُمْ أَخُوہُمْ نُوحٌ أَلَا تَتَّقُونَ۔ انِّیْ لَکُمْ رَسُولٌ أَمِیْنٌ۔ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُونِ۔ ﴿سورۃ الشعراء، آیات: ۱۰۶تا۱۰۸﴾
’’یاد کرو جب کہ اُن کے بھائی نوح نے اُن سے کہا تھا: ’’کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ میں تمھارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو‘‘۔
اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کے ساتھ وقت کے رسول کی اطاعت کی دعوت دوسرے انبیاءؑ نے بھی دی۔ چنانچہ سورہ شعرائ میں ہود ؑ، صالح ،لوط ؑ اور شعیبؑ کی دعوت کا تذکرہ بھی کیاگیا ہے۔ الفاظ وہی ہیں جو نوح علیہ السلام کی دعوت کے ہیں۔﴿آیات ۱۲۶، ۱۴۴، ۱۶۳ اور۱۷۹﴾
صالح علیہ السلام نے مثبت دعوت دینے کے ساتھ سلبی پہلو کا بھی تذکرہ کیا اور اپنی قوم سے کہا کہ زمین میںفساد پھیلانے والوں کی اطاعت نہ کرو۔ واقعہ بھی یہی ہے کہ صالح قیادت سے وابستگی اور فاسد قیادت سے قطعِ تعلق دونوں لازم و ملزوم ہیں۔
فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُونِ ۔وَلَا تُطِیْعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَ ۔ ﴿الشعراء،آیات۱۵۰، ۱۵۱﴾
﴿صالحؑ نے اپنی قوم سے کہا﴾ ’’اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ۔ اُن بے لگام لوگوں کی اطاعت نہ کرو جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور کوئی اصلاح نہیں کرتے‘‘۔
حضرت عیسیٰؑ کی دعوت بھی یہی تھی:
انَّ اللّٰہَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوہُ ہَ ذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۔فَلَمَّا أَحَسَّ عِیْسَی مِنْہُمُ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِیْ الَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللّٰہِ آمَنَّا بِاللّٰہِ وَاشْہَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُون۔﴿آل عمران، آیات:۵۰،۵۱﴾
﴿عیسیٰؑ نے کہا﴾ میں اُس ﴿تعلیم وہدایت﴾ کی تصدیق کرنے والا بن کر آیا ہوں جو تورات میں سے اس وقت میرے زمانے میں موجود ہے۔ اور اس لیے آیا ہوں کہ تمھارے لیے بعض ان چیزوں کو حلال کردوں جو تم پر حرام کردی گئی ہیں۔ ﴿دیکھو﴾ میں تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں، لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اللہ میرا رب بھی ہے اور تمھارا رب بھی۔ لہٰذا تم اُسی کی بندگی اختیار کرو۔ یہ سیدھا راستہ ہے‘‘۔
جناب سید ابوالاعلیٰ مودودی آیاتِ بالا کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
تمام انبیاء علیہم السلام کی طرح حضرت عیسیٰ ؑ کی دعوت کے بھی بنیادی نکات یہی تین تھے:
ایک یہ کہ اقتدارِ اعلیٰ جس کے مقابلے میں بندگی کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور جس کی اطاعت پر اخلاق و تمدن کا پورا نظام قائم ہوتا ہے، صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مختص تسلیم کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اُس مقتدرِ اعلیٰ کے نمائندے کی حیثیت سے نبی کے حکم کی اطاعت کی جائے۔ تیسرے یہ کہ انسانی زندگی کو حلت وحرمت اور جواز وعدمِ جواز کی پابندیوں میں جکڑنے والا قانون وضابطہ صرف اللہ کا ہو، دوسروں کے عائدکردہ قوانین منسوخ کردیے جائیں‘‘۔ ﴿تفہیم القرآن، سورۂ آل عمران، حاشیہ: ۴۸﴾
انبیاءؑ کی مذکورہ بالا دعوت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے بندے اپنی آزاد مرضی سے صالح قیادت کے ساتھ وابستگی اختیار کریں اورفاسد قیادت سے اپنی وابستگی ختم کردیں ۔ جس طرح ایمان لانا ہر فرد کا اختیاری فعل ہے اسی طرح صالح قیادت سے اطاعت کے رشتے کی استواری بھی فرد کے اپنے اختیار میں ہے۔ اس اختیار کے صحیح استعمال پر اجتماعی زندگی کی اصلاح موقوف ہے۔
اُمتِ مسلمہ میں شمولیت
یہ بات ہمارے سامنے آچکی ہے کہ صالح قیادت سے وابستگی اور صالح اجتماعیت میں شمولیت ایک ہی کیفیت کی دوتعبیریں ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ دینِ حق پر ایمان محض ایک ایسی تبدیلی کا نام نہیں ہے جو انسان کے اندرون میں واقع ہوتی ہو اور خارج میں اُس کا کوئی اثر نہ پڑتا ہو۔ اس کے برعکس ایمان جو تقاضے فرد کے سامنے پیش کرتا ہے وہ اُس کے قلب وذہن سے بھی متعلق ہوتے ہیں اور خارج کی دنیا سے بھی۔ اِن تقاضوں میں کلیدی حیثیت اُمت مسلمہ میں شمولیت کو حاصل ہے:
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّن دَعَا الَی اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ انَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۔ ﴿حمٰ سجدہ،آیت:۳۳﴾
﴿اور اس شخص سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں﴾
اس آیت سے چند اہم امور سامنے آتے ہیں:
﴿الف﴾ ایک ایک شخص کا تنہا ایمان لے آنا اور اللہ کی بندگی کرنا کافی نہیں ہے بلکہ ہر ایمان لانے والے کو گروہِ مسلمین میں شامل ہونا چاہیے۔
﴿ب﴾ مسلمانوں کے گروہ میں شمولیت کایہ لازمی تقاضا ہے کہ مسلمانوں کے اصحابِ امر کی اطاعت کی جائے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّٰہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ فَان تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْئ ٍ فَرُدُّوہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُولِ ان کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذَلِکَ خَیْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیْلاً۔﴿نساء ،آیت:۵۹﴾
﴿اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور سولﷺ کی طرف پھیر دو ۔ اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے‘‘۔
﴿ج﴾ گروہِ مسلمین میں یہ شمولیت محض رسمی نہ ہونی چاہیے بلکہ عملِ صالح کے ذریعے اس امر کا ثبوت فراہم ہوناچاہیے کہ اُس فرد کا ایمان کا دعویٰ سچا ہے۔
﴿د﴾ مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہونے کے باوجود عام انسانیت سے خیرخواہی کا تعلق ختم نہیں ہوجاتا۔ اس تعلق کا تقاضا یہ ہے کہ فردِ مسلم انسانوں کو اللہ کی طرف بلائے۔
﴿ھ﴾ جو فرد عام انسانوں کو اللہ کی طرف بلارہا ہو ، اُس کے سلسلے میں یہ بات واضح ہوکر سب کے سامنے آجاتی ہے کہ گروہِ مسلمین میں اُس کی شمولیت اس کے پختہ عزم و ارادے کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ کسی کو اب یہ توقع باقی نہیں رہتی کہ وہ پھر کفر کی طرف پلٹ جائے گا۔
﴿و﴾ گرچہ استثنائی حالات میں اس کی اجازت ہے کہ ایک شخص اپنا ایمان چھپائے رکھے لیکن عام حالات میں ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ایک فردِ مسلم صاف اعلان کرے کہ وہ اُمت مسلمہ میں شامل ہوچکا ہے۔
﴿ز﴾ اندرون کی دنیا میں ایمان اِس بات کا نام ہے کہ ایک شخص نے جھوٹے معبودوں سے اپنا تعلق توڑ لیا اور مالکِ حقیقی کو اپنا تنہا معبود تسلیم کرلیا۔ اِسی طرح انسانی معاشرے کے سیاق میں ایمان اس تبدیلی کا نام ہے کہ ایک شخص اب جاہلی سماج کا جز نہیں رہا اور جاہلی قیادت سے اُس کا تعلق ختم ہوگیا۔ اس قطعِ تعلق کے بعد وہ ایک ایسی اُمت کا جز بن گیا جو اللہ پر ایمان رکھتی ہے اور تنہا اُسی کی بندگی کرتی ہے۔ فرد کے اندرون کی تبدیلی اور اُس کے سماجی رویے کی تبدیلی کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح بیک وقت معبودِ حقیقی اور معبودانِ باطلہ دونوں کی بندگی نہیں کی جاسکتی۔ اِسی طرح اُمت مسلمہ اور جاہلی سماج دونوں سے بیک وقت وابستگی ممکن نہیں ہے۔
انقلابِ قیادت
انقلابِ قیادت کا ایک مفہوم یہ ہے کہ سماج میںصالح عناصر کی قیادت تسلیم کی جانے لگے اور لوگ فاسد عناصر کے پیچھے نہ چلیں ۔ یہ تبدیلی کسی معاشرے میں دعوتِ حق برپا ہونے کے نتیجے میں ہوتی ہے ، مگر یہ تبدیلی فوراً واقع نہیں ہوجاتی بلکہ معاشرے میں ایک عرصے تک حق وباطل کے درمیان کش مکش جاری رہتی ہے اور کش مکش کے اس مرحلے سے گزرنے کے بعد ہی یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اللہ کے اِذن سے قیادت کایہ انقلاب ظہور میں آئے گا۔
لیکن انقلاب قیادت کا ایک مفہوم اور بھی ہے ۔ اس مفہوم کاتعلق معاشرے کی صورتحال سے نہیں ہے بلکہ فرد کے رویے سے ہے۔ انقلاب قیادت کایہ مفہوم اسلام کے مزاج سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ اسلامی دعوت کا مزاج یہ ہے کہ اسلام ایک ایک فرد کے ضمیر کو بیدار کرتا ہے اس کی فطرت کو جگاتا ہے اس کے سامنے حق کے شواہد پیش کرتا ہے اس کے قلب وذہن پر چھائے ہوئے زنگ کو دور کرتا ہے، اور اُس کی عقل پر ناواقفیت اور اتباعِ خواہشات کے جو پردے پڑے ہوئے ہیں اُن کو چاک کر تا ہے۔ اس کے بعد وہ ہرفرد کے سامنے دوباتیں پیش کرتا ہے:
﴿۱لف﴾ ایک یہ کہ اللہ پر ایمان لاؤ تنہا اُسی کی عبادت کرو اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ ﴿ب﴾ دوسرے یہ کہ تمھارے معاشرے میں جو فاسد قیادت موجود ہے اُس سے اپنا تعلق توڑ لو اور صالح قیادت سے رضاکارانہ تعلق قائم کرکے اُس سے وابستہ ہوجائوقطع نظر اِس کے کہ فاسد قیادت کتنی مضبوط ہے اور صالح قیادت بظاہر کتنی کمزور ہے۔
اگر فرد کے رویے میں یہ تبدیلی واقع ہوجائے کہ وہ صالح قیادت سے وابستگی اختیار کرلے اور فاسد قیادت سے تعلق توڑ لے تو اُس فرد کی حد تک یہ عمل ’’انقلاب قیادت‘‘ کہلائے گا۔ اِسلام کو یہی انقلاب قیادت مطلوب ہے۔ جو افراد اپنے رویے میں یہ تبدیلی لے آئیں اُن پرمشتمل اجتماعیت، اسلام کی نظر میں صالح اجتماعیت ہے خواہ اُس کے وابستگان کی تعداد تھوڑی ہو یا زیادہ۔ فرد کے رویے میں اس تبدیلی کے بعد وسیع تر انسانی معاشرے میں فرد کا رول متعین ہوجاتا ہے۔ وہ انسانوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہے لیکن اُن کے معاشرے میں موجود فاسد قیادت سے رضاکارانہ وابستگی اختیار نہیں کرتا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ صالح اجتماعیت کہاں ہے جس سے اِنسان تعلق استوار کرے۔ اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ صالح اجتماعیت، اُمت مسلمہ کی شکل میں موجود ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ اُمت کبھی گمراہ نہ ہوگی اِس لیے کہ اُسے برپا ہی اِس لیے کیاگیا ہے کہ انسانیت کی اصلاح کرے، معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ اُمت کے اجتماعی نظام کو زندہ، فعال اور متحرک بنایا جائے۔ یہ کام اُن باشعور افراد کو کرنا ہے جو پختہ ایمان رکھتے ہیں، جن کو دین میں بصیرت حاصل ہے اور جو حالات کا درست تجزیہ کرسکتے ہیں۔
سامری کا فتنہ
اُمت کے باشعور افراد کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ سامری صفت عناصر سے اُمت کو بچائیں۔ جب موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں بنی اسرائیل مصر سے نکل آئے اور فرعون کی غلامی سے آزاد ہوگئے تو اُن کو درپیش خارجی چیلنج ختم ہوچکا تھا۔ اس مرحلے میں کوئی جابر طاقت بنی اسرائیل پر مسلط نہ تھی جو اُن کو دین پر عمل سے بجبر روکتی۔ لیکن داخلی چیلنج ابھی باقی تھا۔ اس چیلنج کا ایک پہلو ایمانی کیفیت کا اضمحلال تھا۔ طویل عرصے کی غلامی نے بنی اسرائیل کے ذہن ومزاج میں خرابیاں پیدا کردی تھیں جن کی اصلاح صبر آزما جدوجہد کی طالب تھی۔ داخلی چیلنج کا زیادہ سنگین پہلو بنی اسرائیل کے اندر ایسے عناصر کی موجودگی تھی جو خود ایمان سے خالی تھے اور اس کے لیے بھی کوشاں تھے کہ بنی اسرائیل کو شرک کی طرف واپس لے جائیں۔ سامری کی شخصیت کو اِن ائمہ ضلالت کا نمائندہ کہا جاسکتا ہے۔
بنی اسرائیل کو گمراہ کرنے کے لیے سامری نے اپنی چالاکی سے کام لے کر ایک کرشمہ تیار کیا اور عوام کی تربیت کی خامی اور ضعفِ ایمانی کا سہارا لے کر اُن کو شرک میں مبتلا کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں اُسے بڑی کامیابی ہوئی ۔ اس لیے کہ موسیٰ علیہ السلام اُس وقت وہاں موجود نہ تھے۔ جب آپ واپس تشریف لائے تو آپ نے اس فتنے کی سرکوبی کی۔ شرک کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے اصلاحی اقدامات بھی کیے اور قانونی بھی۔
یہ تاریخی واقعہ یہ سبق دیتا ہے کہ اُمتِ مسلمہ کے اندر قیادت کے دعویدار عناصر دونوں قسم کے ہوسکتے ہیں۔ کلیم صفت بھی اور سامری صفت بھی۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اُمت کے افراد سامری صفت فاسد عناصر کو پہچانیں اور اُن سے قطع تعلق کریں۔ دوسری طرف اُن کو ایسے مخلص اور باشعور عناصر کی شناخت حاصل کرنی چاہیے جو قیادت کی صلاحیت رکھتے ہوں اور پھر اِس صالح قیادت کے ساتھ وابستگی اختیار کرنی چاہیے۔
اگر اُمت، صالح اور فاسد قیادت میں امتیاز کرنے لگے اور صالح قیادت کے تحت منظم ہوتی چلی جائے تو اس کے اجتماعی نظام کو بتدریج وہ قوت حاصل ہوتی چلی جائے گی جو دین کی اِقامت کے لیے درکار ہے۔ پھر بالآخر اللہ کے اِذن سے وہ مرحلہ بھی آجائے گا جب زندگی کے ہر گوشے میں اللہ کے دین کی حکمرانی قائم ہوگی۔ انقلابِ قیادت انسانوں کا اختیاری فعل ہے۔ اُن کو چاہیے کہ صالح قیادت سے وابستگی اختیار کرلیں۔ جب وہ یہ کام کرلیں گے اور استقامت کا ثبوت دیں گے تو اللہ کی مدد آئے گی اور نظامِ حکمرانی میں وہ انقلاب آجائے گا جس کی تمنا اہلِ ایمان کے دلوں میں ہے۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2012