مولانا مودودیؒ اور علامہ اقبالؒ کا تصور دین

علامہ اقبال پی ایچ ڈی، ڈی لٹ بار ایٹ لاہی نہیں تھے وہ اسلامی علوم بالخصوص قرآن مجید کے عظیم اسکالر بھی تھے۔ اللہ کی کتاب کو انھوں نے اس کی گہرائیوں اور وسعتوں میں جاکر سمجھا تھا۔ ان کی الہامی، اسلامی، انقلابی شاعری کا ماخذ ومنبع قرآن تھا۔ وہ قرآن کو مسائل حیات کے حل کے طور پر پیش کرتے تھے۔ قرآن سے غیر معمولی شغف اور اس کے عمیق مطالعہ نے انھیں فکر ونظر کی وسعتیں اور بلندیاں عطاکی تھیں۔ اقبال نے دین کے محدود، جامد اور راہبانہ تصور کو غیر قرآنی قرار دے کر رَد کردیا تھا۔ بخلاف اس کے انھوں نے دین کا وسیع وہمہ گیر، انقلابی قرآنی تصور پیش کیا تھا۔ قرآن نے ان کو وہ آفاقی وانقلابی فکر عطا کی تھی، جس نے مغربی تہذیب کی دھجیاں اڑادی تھیں۔ جس فکر اسلامی انقلاب کی آبیاری اقبال نے اپنی اُردو فارسی شاعری سے کی تھی اس دور کے عظیم مفسر قرآن مفکر اسلام اور مجددّ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی عالمانہ ومحققانہ تحریروں سے نہ صرف ذہنی وفکری وعملی انقلاب برپا کیا بلکہ غلبۂ دین کے لیے ایک اسلامی تحریک عملاً قائم کرکے اور چلاکر دکھادی۔ ان دونوں بزرگوں نے احیائے دین اور اسلامی تحریک کے جو بیچ بوئے تھے اور جن پودوں کو اپنے خونِ جگر سے سینچا تھا ان کی فصل اب کرہ ارض پر لہلہارہی ہے ۔ اِن شائ اللہ اکیسویں صدی قرآنی افکار ونظریات کی فوقیت وبرتری کی صدی ہوگی۔

علامہ اقبالؒمولانا مودودیؒ کے معتقدوقدرداں تھے۔ ان اکابرین کے ذاتی روابط اور مخلصانہ تعلقات پر مستند کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اقبال مولانا مودودیؒ کی کتابوں کو ذوق شوق سے پڑھتے تھے۔ مولانا مودودیؒ کے مشہور ماہنامے ’’ترجمان القرآن‘‘ کے مستقل خریدار تھے۔ بیماری کی حالت میں بھی دوسروں سے رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ پڑھواکر سنتے تھے۔ آخر تک دونوں حضرات کے درمیان خط وکتابت رہی جو کتابی شکل میں چھپ چکی ہے۔ مولانا مودودیؒ کو اقبال نے اصرار سے حیدر آباد سے پنجاب بلایاتھا اور پٹھان کوٹ میں ادارہ دارالاسلام قائم کرنے میں تعاون کیا تھا اور سال میں کئی ماہ مولانا کے ساتھ وہاں گزارنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ لیکن اقبال کی عمر نے وفا نہ کی۔ مولانا کو اقبال سے جو محبت اور خصوصی تعلق تھا اس کا اظہار اقبال کے اِنتقال پر مولانا کی درد انگیز تحریر سے ہوتا ہے۔ دونوں ہم فکر وہم خیال عظیم اسلامی مفکر تھے۔ دونوں کا تصور دین اسلام یکساں تھا۔

مولانا مودودیؒ نے چھوٹی بڑی سو سے زائد بلند پایہ تحقیقی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی شہرہ آفاق تفسیر تفہیم القرآن چھ جلدوں پر مشتمل ہے، جس کو عرب، عجم کے مفسرین قرآن مجیداور علماے کرام نے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ مولانا کی گرانقدر تصانیف ملک وبیرون ملک کی درجنوں زبانوں میں منتقل ہوچکی ہیں۔ مولانا کی تحریریں علم وفکر ہی کی نہیں ادب وانشا کی بھی معراج تسلیم کی جاتی ہیں اور اسلام پر اتھاریٹی مانی جاتی ہیں۔ مولانا مودودیؒ کی ایسی ہی ایک بلند پایہ کتاب ہے ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘۔ وہ اصطلاحیں یہ ہیں: الٰہ ، رب، دین اور عبادت۔ قرآن کی تعلیمات اور اس کی روح کو صحیح طور سے سمجھنے کے لیے اِن اصطلاحوں کا صحیح اور مکمل مفہوم سمجھنا ضروری ہے۔ بصورت دیگر قرآن کا مفہوم غیر واضح اور محدود ہوگا، جس سے عقیدہ اور عمل دونوں متاثر ہوں گے۔ مولانا نے ان اصطلاحوں کی پہلے عالمانہ ومحققانہ لغوی تحقیق کی ہے اور پھر قرآن کی آیات کو نقل کرکے ان کا صحیح جامع اور مکمل مفہوم واضح کیا ہے۔ یہاں ہم اپنے موضوع کے لحاظ سے اصطلاحِ ’’دین‘‘ کو لیتے ہیں۔ لفظ دین کی لغوی تحقیق پیش کرنے کے بعد مولانا بہت سی قرآنی آیات اور احادیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’قرآنی زبان میں لفظ دین ایک پورے نظام کی نمائندگی کرتا ہے جس کی ترکیب چار اجزائ سے ہوتی ہے ﴿۱﴾ حاکمیت واقتدارِ اعلیٰ ﴿۲﴾حاکمیت کے مقابلے میں تسلیم واطاعت ﴿۳﴾ وہ نظامِ فکر وعمل جو اس حاکمیت کے زیر اثر ہے ﴿۴﴾ مکافات جو اقتدارِ اعلیٰ کی طرف سے اس نظام کی وفاداری واطاعت یا سرکشی وبغاوت کے صلے میں دی جائے۔ قرآن کبھی لفظ دین کا اطلاق معنی اوّل ودوم پہ کرتا ہے، کبھی معنی سوم پر کبھی معنی چہارم پر اور کہیں ’’الدین‘‘ بول کر یہ پورا نظام اپنے چاروں اجزا سمیت مراد لیتا ہے۔‘‘ اس کی وضاحت کے لیے مولانا نے قرآن کی ۳۲ سورتوں سے ۴۴ آیات بطور حوالہ نقل کرکے اشتشہاد کیا ہے۔ یہ تحقیقی اور بصیرت افروز تحریر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ مولانا مزید رقم طراز ہیں: ’’ان سب آیات میں دین سے مراد قانون، ضابطہ، شریعت، طریقہ اور وہ نظامِ فکر وعمل ہے جس کی پابندی میں انسان زندگی بسر کرتا ہے۔ اگر وہ اقتدار جس کی سند پر کسی ضابطہ ونظام کی پابندی کی جاتی ہے خدا کا اقتدار ہے تو آدمی دینِ خدا میں ہے۔ اگر وہ کسی بادشاہ کااقتدار ہے تو آدمی دینِ بادشاہ میں ہے۔ اگر وہ پنڈتوں اور پروہتوں کا اقتدار ہے تو آدمی اُنھی کے دین میں ہے۔ غرض جس کی سند کو آخری سند اور جس کے فیصلے کو منتہائے کلام مان کر آدمی کسی طریقے پر چلتا ہے تو اُسی کے دین کا وہ پیرو ہے۔‘‘ مولانا آگے تحریر فرماتے ہیں ’’قرآن لفظ دین کو ایک جامع اصطلاح کی حیثیت سے استعمال کرتا ہے اور اس سے مراد ایک ایسا نظامِ زندگی لیتا ہے، جس میں انسان کسی کا اقتدار اعلیٰ تسلیم کرکے اس کی اطاعت وفرمانبرداری قبول کرے، اُس کے حدود وضوابط اور قوانین کے تحت زندگی بسر کرے۔ اس کی فرمانبرداری پر عزت ، ترقی اور انعام کا امیدوار ہو اوراس کی نافرمانی پر ذلت وخواری اور سزا سے ڈرے۔ غالباً دنیا کی کسی زبان میں کوئی ایسی جامع اصطلاح نہیں ہے، جو اس پورے مفہوم پر حاوی ہو۔ موجودہ زمانے کا لفظ ’’اسٹیٹ‘‘ کسی حدتک اس کے قریب پہنچ گیا ہے۔ لیکن ابھی اسکو دین کے پورے معنوی حدود پر حاوی ہونے کے لیے مزید وسعت درکار ہے۔ مولانا مودودی کی مندرجہ بالا تحریروں کی روشنی میں دین سے مراد ہے پورا نظامِ حیات- علمی ، اخلاقی اعتقادی، عملی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی پہلوؤں مثلاً عقائد و افکار، معیشت ومعاشرت، تہذیب وتمدن،شعروادب، اخلاق وتعلیم، سیاست وحکومت جنگ وصلح سب حاوی ہے اور ان کے لیے جامع ہدایات دیتا ہے۔

قرآن مجید کی رو سے تصور دین کی وضاحت اوپر گزر چکی ہے۔ اب ہم اسوۂ رسولﷺ  کی روشنی میں دین کے تصور ومفہوم کو سمجھنا چاہیں گے۔ اقبال ایک بڑے عالم دین اور ملّی رہنما کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں۔

بہ مصطفےٰ بہ رساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است

یعنی حضرت محمدﷺ کی پیروی کرو کہ یہی مکمل دین ہے۔ حضورﷺ  کی پیروی واطاعت سے ہٹ کر اغیار کی پیروی کفر وشرک ہے۔ رسول اکرم کا اُسوۂ حسنہ قرآن کی عملی تعبیر وتشریح ہے۔ قرآن میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تمھارے لیے رسولﷺ  کی حیات طیبہ میں مکمل نمونہ ہے۔ قرآن کے ساتھ ہمیں حضورﷺ  کی پاکیزہ اور مثالی زندگی کابغور مطالعہ کرناچاہیے اور اس کو حرزِ جان بنانا چاہیے۔ اس کے بغیر نہ دین کا صحیح مفہوم سمجھ میں آئے گا نہ دعوتِ دین کا صحیح طریقۂ کار ۔

حضورﷺ  جب آخری نبی بنائے گئے اس وقت ساری دنیا کفر وشرک کی تاریکیوں میں بھٹک رہی تھی۔ مکہ میں کفار ومشرکین اور یہودونصاریٰ تھے۔ حضورﷺ  نے دعوت کی ابتدا اپنے قریبی لوگوں سے کی۔ آپﷺ  نے پہلے اُم المؤمنین حضرت خدیجہؓ   اور قریبی رفیق ابوبکرؓ  صدیق کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی۔ ابتدا اپنے قریبی لوگوں سے کی۔ آپﷺ  نے اپنے خاندان اور قبیلے والوں کو کھانے پر مدعو کیا اور دعوتِ دین اسلام پیش کی۔ صرف نوعمر حضرت علیؓ  نے اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد مکمل ۳۱سال تک آپ مکے کے کفار ومشرکین اور اہل کتاب کے سامنے دین کی مکمل دعوت پیش کرتے رہے۔ ہر خاندان اور قبیلے کے لوگ ایمان لاتے رہے۔ جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ ایمان لانے والے بھی سمجھتے تھے اور مخالفت کرنے والے بھی کہ یہ اُدخلو فی السلم کافۃ ﴿اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو پورے طور سے اسلام کے تحت دینا ہے۔﴾ سردارانِ قریش اچھی طرح سمجھتے تھے کہ یہ چند عقائد وعبادات کی محدود دعوت نہیںہے۔ جسے اجتماعی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی زندگی سے کوئی سروکار نہ ہو۔ بلکہ یہ مکمل غلبۂ دین کی دعوت ہے جو انفرادی واجتماعی زندگی کو محیط ہے۔

حضورصلی اللہ علیہ وسلم شدید ترین مخالفتوں کے باوجود اقامتِ دین اور شہادت حق کا فریضہ انجام دیتے رہے اور ایمان لانے والوں کی تربیت وتنظیم کرتے رہے۔ ۳۱/سال میں صرف ایک بار اللہ کے حکم سے آپ طائف تشریف لے گئے ۔ صحابہ کرام کی جماعت آپ کے ساتھ نہیں گئی تھی۔ صرف فرد واحد حضرت زیدؓ ، آپ کے ساتھ گئے تھے۔ سیرت کی تمام کتابوں میں حضورﷺ  کے اس دعوتی سفر کی تفصیل درج ہے۔

سردارانِ قریش نے جب مکہ میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا تو اللہ کے حکم سے آپﷺ  صحابہ کرامؓ  کے ساتھ مدینہ ہجرت فرما گئے۔ وہاں بھی مخالفین اسلام نے آپﷺ  کو چین سے رہنے نہ دیا۔ بار بار حملہ آور ہوئے۔ اندر کے منافقین اور مدینے کے یہودیوں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ بدر، اُحد، خندق وغیرہ کی جنگیں ہوئیں، جن میں حضورﷺ  نے بہ نفس نفیس حصہ لیا اور جہاد کو افضل العبادت قرار دیا۔ جنگِ بدر رمضان میں ہوئی۔ حضورﷺ  نے صحابہؓ  کو روزہ رکھنے سے منع کردیا۔ جنگ خندق کے موقع پر خندق کھودنے میںنمازِ عصر قضا ہوگئی۔ ان مواقع پر صحابہؓ  کے پوچھنے پر آپﷺ  نے فرمایا کہ روزے اور نماز سے بڑی عبادت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ حضورﷺ  نے ہم بے عمل مسلمانوں کی طرح محض دُعاؤں پر تکیہ نہیں کیا۔ جنگ بدر میں ہتھیاروں اور سازوسامان سے لیس ایک ہزار دشمنانِ اسلام کے مقابلے پر ۳۱۳ صحابہؓ  کو حضورﷺ  نے صف آرا کیا اس کے بعد آسمان کی طرف سراٹھا کر اللہ سے مدد ونصرت کی دعا فرمائی۔ غیبی مدد آئی اور مسلمان اپنے سے تین گنی زیادہ تعداد پر فتح یاب ہوئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ دُعا سے پہلے تدبیر وتیاری ضروری ہے۔

حضورصلی اللہ علیہ وسلم نماز با جماعت کا سختی سے اہتمام کرتے تھے۔ گھر پر نوافل اور تہجد بھی پڑھتے تھے۔ اہل وعیال کے حقوق ادا کرتے تھے، مسلمانوں کی اصلاح وتربیت کرتے تھے اور غیرمسلموں میں دعوت وتبلیغ کا فریضہ بھی ادا فرماتے تھے۔شدید ترین آزمائشوں میں ثابت قدم رہتے تھے۔ باطل اور طاغوت سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ نبردآزمارہے۔ آپﷺ  نے نمونے کا اسلامی معاشرہ قائم کیا اور اس کے لیے ہدایات دیں۔ آپ نے ایسا منصفانہ معاشی نظام قائم کیا جو معاشی استحصال اور سود کی لعنت سے پاک تھا۔ اسلامی قانون کی تدوین کی اور اسلامی ماہرین قانون اور جج کی حیثیت سے عادلانہ فیصلے کیے۔ آپﷺ  نے ذمّیوں کے حقوق، عورتوں کے حقوق، انسانوں کے حقوق کا ایک چارٹر پیش کیا جو انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ نے جنگ وصلح کے بہترین قوانین بنائے اور عظیم اسلامی سپہ سالار کی حیثیت سے جہاد فی سبیل اللہ میں عملاً حصّہ لیا۔زخم کھائے اور دندانِ مبارک شہید کروائے۔ آپ نے اسلامی سیاست کے اصول ضوابط بنائے، سیاسی گتھیاں سلجھائیں اور مدینے میں ایک نمونے کی اسلامی اسٹیٹ قایئم کی جو قیامت تک مسلمانوں کے لیے نمونہ اور ماڈل ہوگی۔ اس طرح حضورﷺ  ایک مثالی معاشرہ سازایک مثالی ماہر معاشیات، ایک مثالی منصف وماہر قانون، ایک مثالی سپہ سالار، اور ایک مثالی سیاسی رہنما تھے۔ اس لیے عقائد وعبادات میں، معاشرت ومعیشت میں، قانون وعدالت میں، جنگ وصلح میں سیاست و حکومت میں غرض ان سب حیثیتوں میں حضورﷺ  نہ صرف ملت اسلامیہ کے لیے بلکہ بنی نوع انسان کے لیے نمونہ اور ماڈل ہیں۔

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج قرآن مجید کو بالائے طاق رکھ دیاگیا ہے۔ قرآن کے وسیع وہمہ گیر انقلابی پیغام کو فراموش کردیاگیا ہے۔ دین کے متحرک انقلابی تصور کو رد کردیاگیاہے۔ اس کے بالمقابل دین کا جامد، محدود، مفلوج اور راہبانہ تصور پیش کیاجارہاہے۔ جب کہ رسول اللہﷺ  کا ارشاد ہے: لارھبانیۃ فی الاسلام یعنی اسلام میں رہبانیت اور سنیاس نہیں ہے۔ حقیقی قرآنی دینداری کے مقابلے میں روایتی رسمی ، جزوی اور محدود دینداری کو فروغ دیاجارہا ہے۔ دین کو چند بے روح عقائد وعبادات کا مجموعہ بنادیاگیا ہے۔

مشمولہ: شمارہ مارچ 2013

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau