موضوع کی تفہیم کے نتیجے میں دو مفہوم واضح ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ فرد اور گروہ اگر اخلاقی محاسن کے اچھے معیار پر قائم ہوں تو آزادی محفوظ رہتی ہے۔ اور دوسرا مفہوم یہ کہ اگر معاشرے میں آزادی پائی جاتی ہو تو اخلاقی محاسن کو جلِا ملتی ہے اور انھیں پھلنے پھولنے کے مواقع میسّر رہتے ہیں۔ مفہوم کچھ بھی ہو یہ واضح ہے کہ اخلاقی محاسن اور آزادی میں گہرا تعلق پایا جاتا ہےاور یہ ایک دوسرے کے ارتقا میں معاونت کرتے ہیں۔
آزادی ایک قیمتی اور انمول نعمت ہے، جو انسان کو محض اپنے حقوق و فرائض کے مطابق زندگی گزارنے کی صلاحیت نہیں دیتی بلکہ اپنے فہم و ارادے کے مطابق کام کرنے اور اپنے خیالات کو بروئے کارلانے کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح اخلاقی محاسن جیسے صداقت، انصاف، محبت و ہمدردی حیا نہ صرف اہم انفرادی اوصاف ہیں بلکہ انسانی معاشروں کو صحت مند بنیاد بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ محاسن اگر موجود ہوں تو آزادی کے احترام، اُس کے اعتراف اور اس کے ارتقا کی ضمانت دیتے ہیں۔ اُسے صحیح سمت میں جاری رکھتے ہیں اور بے راہ روی سے روکتے ہیں۔ آزادی کے بغیر اخلاقی پرورش مشکل ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ دباؤ اور جبر کی فضا میں اصولوں پر قائم رہنا دشوار ہوتا ہے۔ ایک آزاد معاشرہ ہی وہ معاشرہ ہے جہاں اخلاقی اصولوں کی پاسداری کی جاتی ہے اور افراد اپنی شخصیت کو نکھار سکتے ہیں۔ لہذا اخلاقی محاسن آزادی کے ضامن ہوتے ہیں۔ کیوں کہ وہ انسان کوصحیح اور غلط کا شعور دیتے ہیں، ان افعال کو مثبت سمت میں موڑتے ہیں اور معاشرے میں امن، محبت اور بھائی چارہ فروغ پاتا ہے۔ ان محاسن کے بغیر آزادی ایک بے مقصد خواہش ہے،جو انسان کو خود غرضی اور بداعمالیوں کی طرف راغب کرتی ہے۔
اسلام کا تصور اخلاق
اسلام کا اخلاقی نظام ایک جامع، متوازن اور انسانیت کے لیے مفید اصولوں پر مبنی ہے۔ اسلامی اخلاقیات فرد کی ذاتی زندگی، معاشرتی تعلقات اور عالمی سطح پر امن و انصاف کے فروغ کے لیے رہ نمائی فراہم کرتی ہیں۔ جنگوں، عدم مساوات اور نا انصافیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اسلام کے اخلاقی اصول ایک مضبوط بنیاد فراہم کر تے ہیں۔
اسلام میں عدل کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ قرآن کریم بار بار اس کی تلقین کرتا ہے۔ ’’عدل کرو یہ تقوی کے قریب تر ہے‘‘ (مائدہ 8: 5 )’’اسلام ہر انسان کا بنیادی اکرام اور حقوق کا احترام کرنے کی تعلیم دیتا ہے قرآن میں ہے ’’ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی‘‘(اسراء 16: 70) اسلامی معاشرت میں مساوات اور بھائی چارے کی تعلیمات دی گئی ہیں۔اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا ’’مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔ (بخاری) اسلام امن کی تعلیم دیتا ہے اور جنگ و تشدد سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا۔ ’’اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہو جاؤ‘‘(انفال8: 61) اِسی طرح قرآن میں صداقت اور دیانت داری کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اسلام کا تصور صداقت رہ نمائی کرتاہے کہ سیاسی معاملات میں دیانت داری کو کیسے برقرار رکھا جائے اسلام میں زمین اور اس کے وسائل کی حفاظت کی تلقین کی گئی ہے۔ قرآن نے کہا ’’زمین میں فساد نہ پھیلاؤ ‘‘( بقر ہ ۲: ۱۱) قرآن کریم رحم اور معاشی انصاف کی تعلیم دیتا ہے۔ ان قرانی تعلیمات کی بنیاد پر قائم مکمل نظام اخلاق عالمی سطح پر قائم کیا جا سکتا ہے۔
مغربی تہذیب میں اخلاقی بحران
مغربی ممالک میں بے راہ روی اور فحاشی کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ کچھ یہ مانتے ہیں کہ مغربی معاشرت میں اخلاقی اقدار کم زور ہو چکی ہیں اور بے راہ روی اور فحاشی عام ہوتی جا رہی ہے۔ان کے نزدیک اس کی وجہ مذہبی روایات سے دوری اور مادہ پرستی اور میڈیا کے ذریعے پھیلنے والا غیر اخلاقی مواد ہے۔
دوسری جانب بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مغربی معاشروں میں آزادی اظہار اور فرد کی آزادی کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے جس کے تحت لوگوں کو اپنی زندگی کے بارے میں فیصلے کرنے کا حق ہوتا ہے اور یوں وہ اپنی مرضی سے زندگی گزارتے ہیں جو بعض اوقات اُن کے ثقافتی یا مذہبی اصولوں سے متصادم ہوتی ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس صورت حال کو معاشرتی تبدیلیوں کا حصہ سمجھا جا ئے نہ کہ فحاشی اور بے راہ و روی سمجھا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ موضوع خاصا پیچیدہ ہے۔ مغربی ممالک میں فیملی سسٹم کی بربادی اور آزادانہ جنسی تعلقات کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ لیکن ان سب کھوکھلے نظریات کے با وجود بعض معلومات معاشرتی انتشار اور اخلاقی بحران کی طرف واضح اشارے کرتی ہے۔ مثلاً طلاق کی شرح جو مغربی ممالک میں بہت زیادہ ہے فیملی سسٹم کا کھوکھلاپن واضح کر رہی ہے۔ یہ صورت حال بچوں پر منفی اثرات ڈالتی ہے۔ کیوں کہ وہ والدین کے بغیر یا ان کے درمیان روزانہ کے جھگڑوں کے زیر سایہ پرورش پاتے ہیں۔ اسی طرح شادی کے روایتی تصور میں تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سے مغربی نوجوان باقاعدہ شادی کے بغیر ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور یوں پائے دار قرابت داری کے اصول متاثر ہو رہے ہیں۔ آزاد انہ جنسی تعلقات مغربی افراد میں ذہنی دباؤ، بے چینی اور خود اعتمادی میں کمی کا باعث بنتے ہیں کیوں کہ ایسے افراد اپنے جذبات اور تعلقات کے بارے میں غیر یقینی کی حالت میں ہوتے ہیں۔ ذمہ داریوں کے فقدان کی وجہ سے اپنے لائف پارٹنر کے ساتھ بھیUse and Throw کی نفسیات پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے گوناگوں مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور نفسیاتی مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ چیز مغربی معاشرت کی چولیں کم زور کر رہی ہے۔ سپر پاور کا ٹاور زمین بوسی کی طرف بڑھا جارہا ہے۔ اس کے اثرات غیر اخلاقی رویوں، جنسی امراض اور غیر متوقع حمل کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔ آزادا نہ جنسی تعلقات کے نتیجے میں خاندان منتشر ہوتے ہیں اور یوں بچوں کی پرورش نہ ہو کرنسلیں برباد ہو رہی ہیں۔
عالمی سیاست میں اخلاقیات کا دوہرا معیار
اخلاقیات کا ایک پہلو عالمی سیاست سے متعلق ہے جس میں بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جب کسی بین الاقوامی مسئلہ میں مداخلت کرتی ہیں تو اکثر اخلاقی اصولوں کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے مثلاً انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بعض ممالک کے خلاف سخت اقدامات کیے جاتے ہیں جب کہ انھی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والے اتحادی ممالک کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
اسی طرح جنگیں اورعسکری مداخلتیں عالمی سیاست میں اخلاقی اقدار کی پامالی کا واضح مظہر ہیں۔ عراق، شام، افغانستان اور یمن جیسے ممالک میں جنگوں کے دوران ہزاروں افراد کی ہلاکتیں، بے گھر ہونے والے پناہ گزینوں کی بھیڑاور انسانی حقوق کی خلاف و رزیاں اخلاقی اصولوں کی پا مالی کی شرم ناک مثال ہیں۔ ان جنگوں میں بڑی طاقتوں کی جانب سے فوجی مداخلت یا ہتھیاروں کی فراہمی نے انسانی بحران کو مزید سنگین کر دیا ہے۔
ایسا ہی معاشی مفادات کا معاملہ بھی ہے۔ اپنے معاشی مفادات کی حفاظت کے لیے اخلاقی اصولوں کی پامالی عام ہے۔ بعض ممالک اور کارپوریشن اپنے معاشی مفادات کے لیے کم زور ممالک کے وسائل کا استحصال کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں غربت، معاشی ناانصافی اور ماحولیاتی تباہی جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ مثلاً افریقی ممالک میں قدرتی وسائل کی لوٹ مار اور وہاں کے عوام کے حقوق کی خلاف ورزیاں واضح ہیں۔ ان ممالک کے افراد کی آزادی کو سلب کر کے انھیں ذہنی غلام بنا دیا جاتا ہے۔
نسلی اور مذہبی بنیاد پر بھی اخلاقی اقدار کی پامالی ہوتی ہے مغربی ممالک کی حکومتیں یا بین الاقوامی تنظیمیں اپنے مفادات کی خاطر اقلیتوں یا مذہبی گروہوں کو نظر انداز کرتی ہے یا ان کے خلاف امتیازی سلوک کرتی ہیں۔ روہنگیا، فلسطین اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافی اس کا بات کا ثبوت ہے کہ عالمی سیاست میں اخلاقی اقدار اکثر طاقت اور مفادات کے مقابلے میں کم زور پڑ جاتی ہیں۔
ماحولیات کے ضمن میں بھی عالمی سیاست میں اخلاقی اقدار کی پامالی دیکھنے میں آتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ماحولیا تی آلودگی اور وسائل کے بے دریغ استعمال سے عالمی سطح پر ماحول کو شدید نقصان پہنچا ہے جب کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک کو اس کے نتائج بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے پر عالمی طاقتوں کی غیر سنجیدگی اور اقدامات کی کمی اخلاقی بحران کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اسی طرح پناہ گزینوں کے بحران میں بھی عالمی سیاست کی ناکامی واضح ہے۔ جنگوں، ظلم وستم اور غربت کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو اپنے گھروں سے بے گھر ہونا پڑا ہے۔ لیکن عالمی برادری کی طرف سے انھیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی نے ان کی مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
بعض ممالک نے اپنی سرحدوں کو بند کر کے اور پناہ گزینوں کے خلاف سخت پالیسیاں بنا کر اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس باب میں سنگین ترین پامالیاں اسرائیل کے غزہ پر مسلسل حملوں کے نتیجے میں شدید جانی اور مالی نقصان کی شکل میں دیکھنے میں آئی ہے، جہاں غزہ کے لوگوں پر ظلم اور بربریت پر بڑی طاقتوں کا غیر موثر کردار اور اسرائیل کی کھلم کھلا پشت پنا ہی اور حمایت نیز مال اور ہتھیاروں کی شکل میں اس کی مدد نے اسرائیل کے ذریعے اخلاقی اقدار اور ضابطوں کی پامالی کو کھلی شہ دی ہے۔
عالمی سیاست میں اخلاقی اقدار کی ہار ایک سنگین مسئلہ ہے جو انسانیت کے لیے ایک بڑے خطرے کی شکل اختیار کر چکاہے۔
طاقت، مفادات اور جغرافیائی سطح پر ہونے والی سیاست اوراس کے تحت ہونے والی یہ پامالیاں دنیا کو ایک غیر منصفانہ اور غیر مستحکم جگہ بنارہی ہیں۔ اِس مسئلہ کے حل کے لیے یہ ضروری ہے کہ عالمی برادری اخلاقی اصولوں کو ترجیح دے اور انصاف، انسانی حقوق اور پائے دار ترقی کے اسلامی اخلاقی اصولوں کو عالمی سیاست و معاشرت کا حصہ بنائے۔ آج انسانیت کی بقا کی خاطر ان مستحسن اقدامات کی کام یابی کے لیے ہرذی شعور انسان کو کوشش کرنی چاہیے۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2024