انسان کی اجتماعی زندگی کی بنیادی قدر ہمدردی اور باہمی تعاون ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ متاع دنیا کے حصول میں اس کے اندر دوسروں سے زیادہ حاصل کرنے کا جذبہ بہت توانا ہے۔ اس طرح باہمی تعاون کی انسانی قدر اور معاشی مسابقت کے توانا جذبے کے درمیان کشمکش جاری رہتی ہے۔ معاشی سرگرمیوں میں امداد باہمی یا Cooperative کا بنیادی تصور قرآن و حدیث کی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہے۔ قرآن و حدیث میں باہمی تعاون، انصاف، ایمانداری اور بھلائی کے کاموں میں شرکت کی بھرپور ترغیب دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں واضح ہدایت دی گئی: وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ [سورہ مائدہ:2] (اورنیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو، اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ہرگز تعاون نہ کرو، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے)۔ یہ آیت کوآپریٹو نظام کی اصل روح کو واضح کرتی ہے، جہاں افراد نیکی، بھلائی، اور دوسروں کی مدد میں باہمی طور پر شریک ہوتے ہیں۔ قرآن نے مال و زر کے نظام تقسیم کے سلسلے میں ایک بنیادی ہدایت فرمائی کہ: كَی لَا یكُونَ دُولَةًۢ بَینَ ٱلْأَغْنِیآءِ مِنكُمْ[سورہ حشر:7](تاکہ مال تمہارے مالداروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے)۔ یہ آیت دولت کی منصفانہ تقسیم اور معاشی عدل پر زور دیتی ہے، جو کوآپریٹو اداروں کے مقاصد میں شامل ہوتا ہے، یعنی معاشی مواقع کو سب کے لیے مساوی بنانا۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باہمی تعاون و ہمدردی کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: اللّٰهُ فِی عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِی عَوْنِ أَخِیهِ (اللہ بندے کی مدد میں ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔ مسند احمد، ح:21916)۔ یہ حدیث تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی فضیلت بیان کرتی ہے، جو کہ کوآپریٹو سسٹم کی اصل بنیاد ہے۔
اسلامی تاریخ میں مالی تعاون اور غربت کے خاتمے کے لیے ابتدائی دور سے ہی بیت المال، زکوة، صدقہ، قرض حسنہ جیسی ادارہ جاتی اور انفرادی کوششوں کا سلسلہ جاری رہاہے۔ خلافت راشدہ کے دور میں بیت المال نہ صرف ریاستی خزانہ تھا بلکہ کاروباری مقاصد کے لیے بھی قرض فراہم کرتا تھا۔ امام ابو عبید القاسم بن سلام نے کتاب الاموال میں حضرت عمر بن خطابؓ کے دور خلافت میں بیت المال سے قرض دینے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے تجارتی یا ضروری امور کے لیے بشرط واپسی قرضوں کی فراہمی کا بھی ذکر کیا ہے۔ مسلم تہذیب میں کوآپریٹو نظام کا تصور اگرچہ آج کے دور کے اداروں کی صورت میں موجود نہیں تھا، تاہم اس کی جڑیں اسلامی معاشرت اور معیشت میں بہت گہرائی سے پیوست تھیں۔ اسلام نے باہمی تعاون، معاشرتی فلاح، اقتصادی انصاف اور امانت پر مبنی لین دین کو بنیادی اصولوں کے طور پر پیش کیا۔ ان اصولوں پر مبنی بہت سے ادارے اور نظام مسلم تاریخ میں رائج رہے جو موجودہ دور کے کوآپریٹو اداروں کے ہم معنی تھے۔
اسلام کے ابتدائی دور میں بازاروں کا نظام (سوق) ایک منظم اور منصفانہ طریقے سے چلایا جاتا تھا۔ ان بازاروں میں ہر فرد کو کاروبار کی آزادی حاصل تھی، اجارہ داری (monopoly)ممنوع تھی، اور قیمتیں قدرتی طلب و رسد کی بنیاد پر طے ہوتی تھیں۔ ایک سرکاری نگراں، جسے ’’محتسب‘‘ کہا جاتا تھا، اس بات کو یقینی بناتا کہ تجارت ایمانداری سے ہو، دھوکہ نہ دیا جائے اور صارفین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ اس نظام میں انصاف، برابری، اور باہمی فائدے کی وہی روح کارفرما تھی جو آج کے کوآپریٹو اداروں کا خاصہ ہے۔ اسلام سے پہلے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں ’’حلف الفضول‘‘ نامی ایک معاہدے میں شرکت کی، جو مظلوموں کو انصاف دلانے اور تجارت میں ایمانداری کو فروغ دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ بعد ازاں، آپ نے اس معاہدے کی تعریف فرماتے ہوئے کہا کہ اگر اسلام کے بعد بھی ایسا معاہدہ ہوتا تو وہ اس میں شریک ہوتے۔ یہ بات اجتماعی تعاون اور باہمی فلاح کے تصور کو اجاگر کرتی ہے۔
امداد باہمی کے تصور پر مبنی بلاسودی قرضوں کی فراہمی
اسلامی تہذیب میں کوآپریٹو طرز پر مبنی معاشی و معاشرتی ادارے موجود تھے، جن کی بنیاد باہمی تعاون، اعتماد، مساوات اور فلاحِ عامہ پر تھی۔ اگرچہ آج کے کوآپریٹو اداروں کی اصطلاح اور ساخت مختلف ہو سکتی ہے، مگر ان کا بنیادی فلسفہ اسلامی اصولوں سے مکمل مطابقت رکھتا ہے۔ اسلامی مالیاتی نظام میں سود سے مکمل اجتناب اور اس کے مقابلے میں مضاربہ اور مشارکہ جیسے طریقوں کی تائید سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی انسانوں کو ایک طرف معاشی سرگرمیوں میں استحصالی طور طریقوں سے دور دیکھنا چاہتا ہے اور اسی کے ساتھ خطرات مول لے کر معاشی جدوجہد میں سرگرم عمل رہنے کو پسند کرتا ہے۔ مضاربہ اور مشارکہ کو برگ و بار لانے کے لیے ضروری ہے کہ باہمی اعتماد، انصاف، اور شفافیت پر مبنی نظام استوار کیا جائے ، جو کوآپریٹو ماڈل سے ہم آہنگ ہے۔
کیتھولک چرچ نے بھی سود پر پیسہ دینے کے عمل کو ممنوع قرار دیا تھا۔ لیکن اکثر یہ اصول متروک ہو جاتے تھے، جس کی وجہ سے چرچ کی اعلیٰ قیادت تبلیغی مہمات کی اجازت دیتی تھی۔ ان مہمات میں فقیر راہبوں کو قصبہ بہ قصبہ بھیجا جاتا تھا تاکہ وہ سود خوروں کو خبردار کریں کہ اگر انھوں نے توبہ نہ کی اور اپنے متاثرین سے وصول کیا گیا سارا سود واپس نہ کیا، تو وہ یقینی طور پر جہنم میں جائیں گے (DEBT THE FIRST 5,000 YEARS by DAVID GRAEBE, p.10, 2011)۔ دیگر مذاہب کی روایات میں مختلف نقطہ نظر پائے جاتے ہیں۔ قرونِ وسطیٰ کے ہندو قانونی ضابطوں میں نہ صرف سود پر مبنی قرضوں کی اجازت دی گئی تھی (بنیادی شرط یہ تھی کہ سود اصل رقم سے زیادہ نہ ہو)، بلکہ اکثر یہ زور دیا جاتا تھا کہ جو مقروض اپنا قرض ادا نہ کرے، وہ اگلے جنم میں اپنے قرض خواہ کے گھر غلام بن کر پیدا ہوگا — یا بعد کے ضابطوں میں، اس کا گھوڑا یا بیل بن کر۔ قرض دینے والوں کے لیے یہی نرم رویہ اور قرض نہ چکانے والوں کے خلاف کرمی انجام کی تنبیہات بدھ مت کی کئی شاخوں میں بھی نظر آتی ہیں [محولہ بالا ص:11]۔
مسلم سماج میں سود سے پاک ادارہ جاتی کوششیں
مسلمانوں کے معاشرے میں وقف کا نظام بھی موجود تھا، جس کے ذریعے افراد یا خاندان اپنی املاک یا وسائل عوامی فلاح کے لیے وقف کرتے تھے۔ یہ وقف املاک تعلیمی اداروں، مساجد، اسپتالوں، پانی کی فراہمی، اور غریبوں کی امداد جیسے منصوبوں کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ ان کا انتظام اکثر مقامی کمیونٹی کے ذریعے کیا جاتا تھا، جو کوآپریٹو طرزِ حکمرانی کا غماز ہے۔ اسلامی تہذیب کے سنہری دور میں خصوصاً عباسی اور عثمانی ادوار میں پیشہ ورانہ انجمنیں (Guilds)، جنھیں ’’صنفی نظام‘‘ یا ’’فتوہ‘‘ کہا جاتا تھا، قائم ہوئیں۔ ان انجمنوں میں کاریگر اور ہنرمند افراد شامل ہوتے تھے، جو باہمی تربیت، اخلاقی اصلاح، معیار کی نگرانی، اور ایک دوسرے کی مالی مدد کرتے تھے۔ یہ انجمنیں مکمل طور پر باہمی تعاون، اجتماعی مفاد اور اخلاقی تجارت پر مبنی تھیں، جو کوآپریٹو نظام کے عملی مظاہر تھے۔
جدید دور میں بلاسودی بنیاد پر قرضوں کی فراہمی کے لیے 1963 میں مصر میں مت غمر سیونگز بینک (Mit Ghamr Savings Bank) کے نام سے ادارہ جاتی کوشش شروع ہوئی۔ اس بینک نے شراکت داری اور منافع و نقصان میں حصہ داری کے اصولوں کو روبعمل لانے کی ایک ابتدائی کوشش کی۔ اس بینک کے ذریعے عوام کو بچت کے لیے متحرک کرنے، مالیاتی خواندگی عام کرنے اور امداد باہمی کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی جس میں امداد باہمی اور شراکت کی اسلامی اقدار کارفرما نظر آتی ہیں۔ اسلامی ترقیاتی بینک (IDB) اور دیگر ادارے آج اسلامی مائیکرو فنانس کے فروغ کے لیے شریعت کے مطابق کوآپریٹو ماڈل پر کام کر رہے ہیں، جس میں گروہی ضمانت (social collateral) اور شفافیت کو اہمیت دی جاتی ہے۔ 1970 کی دہائی میں بنگلہ دیش میں محمد یونس نے گرامین بینک کی بنیاد رکھی، جس نے گروہی ضمانت اور بغیر ضمانت کے چھوٹے قرضوں کا تصور متعارف کرایا۔ تاہم یہ قرضے سود کی اچھی خاصی شرح لیے ہوئے ہوتے ہیں۔گرامین بینک جو فلیٹ ریٹ نظام استعمال کرتا ہے، اس میں سود اصل قرض کی رقم پر پورے دورانیے کے لیے لگایا جاتا ہے، نہ کہ گھٹتے ہوئے بیلنس پر۔ اس وجہ سے حقیقی شرحِ سود (effective rate) ظاہری شرح سے زیادہ ہوتی ہے۔ ظاہری شرحِ سود 20% ہے، لیکن اصل میں موثر سالانہ شرح (EIR) قرض کی رقم اور ادائیگی کی ساخت کے لحاظ سے 30% سے 36% تک ہو جاتی ہے۔
امداد باہمی (Cooperative)کا باضابطہ ادارہ جاتی آغاز
برطانیہ میں رونما ہونے والے صنعتی انقلاب کےبعد کی مخصوص صورتحال میں سب سے پہلا کوآپریٹو ادارہ ‘‘Rochdale Society of Equitable Pioneers” وجود میں آیا۔ یہ ادارہ 1844 میں انگلینڈ کے شہر روچڈیل میں قائم کیا گیا۔ ادارے کی بنیاد 28 بُنکروں اور دیگر محنت کش افراد نے رکھی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ مزدوری پیشہ افراد کو سستی، خالص اور معیاری اشیائے خوردونوش فراہم کی جا سکیں، کیونکہ اس وقت مارکیٹ میں مہنگائی اور ملاوٹ عام تھی۔
روچڈیل سوسائٹی کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس نے کوآپریٹو تحریک کو ایک باقاعدہ شکل دی۔ اس ادارے نے ایسے اصول متعارف کروائے جو بعد میں ’’روچڈیل اصول‘‘ کے نام سے معروف ہیں۔ یہ اصول آج بھی دنیا بھر میں کوآپریٹو اداروں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ان اصولوں میں جمہوری کنٹرول، اراکین کی مساوی شراکت، اور تعلیم و تربیت جیسے عناصر شامل تھے۔ یہ سوسائٹی صارفین کی کوآپریٹو دکان کے طور پر کام کرتی تھی، جہاں ہر رکن کا برابر کا حصہ ہوتا اور منافع کی تقسیم بھی انصاف کے اصولوں کے تحت کی جاتی تھی۔ روچڈیل کا ماڈل اتنا کامیاب اور مؤثر ثابت ہوا کہ اس نے یورپ بھر میں مختلف شعبوں جیسے زراعت، مالیات، رہائش، اور تجارت میں کوآپریٹو اداروں کے قیام کی بنیاد رکھی۔ یہ ادارہ جدید کوآپریٹو تحریک کی بنیاد سمجھا جاتا ہے اور اس کا اثر آج بھی دنیا بھر میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔
19ویں صدی میں جرمنی کے رائیفائیزن (Raiffeisen) اور شلزے (Schulze-Delitzsch) کے زرعی کوآپریٹو ماڈلوں نے کوآپریٹو تحریک کو مزید وسعت دی، جس کے ذریعے کسانوں کو چھوٹے قرضوں کی فراہمی کا باضابطہ نظام وجود میں آیا۔آج کوآپریٹو ادارے دنیا بھر میں زرعی، مالیاتی، رہائشی، صنعتی اور صارفین کے شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں مائیکرو فنانس ادارے غربت کے خاتمے(poverty alleviation)، مالی شمولیت (financial inclusion) اور معاشی ترقی (economic development)کے لیے سرگرم کار ہیں۔ ان اداروں میں اسلامی اور غیر اسلامی دونوں طرح کے ماڈل شامل ہیں۔ ہندوستان میں کوآپریٹو تحریک 20ویں صدی کے آغاز میں شروع ہوئی۔ 1904 میں کوآپریٹو کریڈٹ سوسائٹیز ایکٹ منظور ہوا، جس کے بعد تیزی سے کوآپریٹو ادارے قائم ہونے لگے۔ آزادی سے پہلے اور بعد میں کوآپریٹو اداروں نے کسانوں، چھوٹے کاروباریوں اور دیہی آبادی کو معاشی سہارا فراہم کیا۔
گرچہ مسلم اور دیگر روایتی معاشروں میں تعاون کے بنیادی اصول اور اقدار موجود تھے، لیکن باقاعدہ طور پر امداد باہمی کا ادارہ جاتی نظام معرض وجود میں نہ آ سکا۔ آخر کیوں اس کی ابتدا انگلینڈ میں صنعتی انقلاب کے بعد ہو پائی؟ یہ ایک قابل غور موضوع ہے کہ آخر کیا وجوہات تھیں جن کی بناء پر امداد باہمی کی ادارہ سازی تاریخی تاخیر کا شکار رہی؟ اس موضوع پر جن لوگوں نے تفصیلی غور وخوض کیا ہے ان کے نتائج بحث کا ایک سرسری تذکرہ مفید مطلب ہوگا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صنعتی انقلاب سے قبل کے معاشرے اپنی معیشت اور ضروریات کے لیے غیر رسمی تعاون پر انحصار کرتے تھے، جیسے قبائلی روایات، باہمی امداد اور اجتماعی کام۔ اس دور میں معیشت سادہ اور خود کفیل تھی، اس لیے رسمی کوآپریٹو اداروں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ روایتی معاشروں میں معاشی دباؤ کم تھا اور زیادہ تر ضروریات خاندان یا قبیلے کے اندر ہی پوری ہو جاتی تھیں۔ اس کے برعکس، یورپ میں صنعتی انقلاب نے تیز رفتار شہری آبادی، بڑے پیمانے پر پیداوار اور روایتی ہنر کی زوال پذیری کو جنم دیا۔ اس ماحول میں مزدوروں کو استحصال، بے روزگاری اور خراب حالات زندگی کا سامنا کرنا پڑا، جس کے حل کے لیے غیر رسمی تعاون ناکافی ثابت ہوا۔ اسی پس منظر میں باقاعدہ کوآپریٹو اداروں کی ضرورت محسوس ہوئی، جنہوں نے معاشی مفادات کے تحفظ اور سماجی بہبود کے فروغ کے لیے جدید اصول اور قانونی ڈھانچے اپنائے۔ یہ قانونی اور تنظیمی جدتیں پہلے کے معاشروں میں موجود نہیں تھیں۔ علاوہ ازیں، یورپ میں حکومتوں اور سماجی رہنماؤں کی سرپرستی نے بھی کوآپریٹو تحریک کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ گرچہ مسلم اور دیگر روایتی معاشروں میں تعاون کا جذبہ موجود تھا، لیکن صنعتی انقلاب کے بعد پیدا ہونے والے نئے معاشی اور سماجی چیلنج ہی وہ عوامل تھے جنہوں نے یورپ میں باقاعدہ کوآپریٹو اداروں کے قیام کی راہ ہموار کی۔
ہندوستان میں بلاسودی قرضوں کے ادارہ جاتی تجربات
ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تحریک اسلامی کے ذریعہ 1950ء کی دہائی میں اجتماعی سرگرمیوں میں بلاسودی قرضوں کی فراہمی کو شامل کرتے ہوئے بہت سے مقامات پر چھوٹے چھوٹے ادارے وجود میں لائے گئے۔ ایمرجنسی کے بعد 1980ء کے قریبی زمانے میں مرکز جماعت اسلامی ہند، چتلی قبر، دہلی میں ملک کے مختلف علاقوں میں کام کرنے والی بلاسودی اداروں کے منتخب ذمہ داروں اور اس کام سے دل چسپی رکھنے والی برادران وطن کی اہم شخصیات کو جمع کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں بلاسودی اداروں کی اہمیت اور اسے باضابطہ ادارہ جاتی شکل میں چلانے کے لیے تحریک پیدا کی گئی۔ اس طرح ہندوستان کے مختلف علاقوں میں سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے تحت بلاسودی سوسائٹیوں کو رجسٹرڈ کروانے کا سلسلہ تیز ہوا۔ ایک زمانے میں 500 سے زیادہ بلاسودی سوسائٹیاں راست جماعت کی نگرانی میں ملک کے مختلف مقامات پر کام کر رہی تھیں۔ دیگر تنظیموں اور افراد نے بھی اس رخ پر اپنے اپنے حلقوں میں بلاسودی اداروں کی شروعات کی۔ جماعت کے تحت چلنے والے بلاسودی اداروں کا بنیادی ماڈل یہ تھا کہ قرض لینے والے سے عام طور پر ضمانت کے طور پر زیور لیا جاتا تھا جس کی قدر کا تعین باضابطہ کسی سنار سے کروا کر سیل بند کرکے یا تو مقامی دفتر میں یا کسی بینک لاکر میں محفوظ رکھا جاتا تھا۔ قرض کی گردش کو برقرار رکھنے کے لیے عام طور پر کچھ مخیر احباب اپنی رقم کا ایک حصہ بطور امانت بلاسودی ادارے میں جمع کرواتے تھے اور بعض احباب بطور اعانت کچھ رقم دیا کرتے تھے۔ اس سارے عمل میں ہونے والے اخراجات کو چندے یا زکوة کی رقم سے پورا کیا جاتا تھا۔ یہ ایک سادہ نظام تھا جو عام طور پر بغیر کرایہ یا مشاہرہ جماعت کی کسی عمارت میں قائم ہوتا تھا۔ بے شمار لوگوں نے اس بلاسودی نظام سے فائدہ اٹھایا۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد جب 1992ء میں دیگر تنظیموں کے ساتھ جماعت پر دوبارہ پابندی عائد کی گئی تو بہت سے مقامات پر راتوں رات لوگوں کے زیورات کی واپسی کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی خواہ قرض کی رقم واپس ملے یا نہ ملے۔ اسی طرح یہ نظام جماعت کے تحت کافی دنوں تک چلتا رہا۔ سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 فلاحی و خیراتی سوسائٹی کے رجسٹریشن کی اجازت تو دیتا ہے، لیکن یہ انھیں مالی سرگرمیوں جیسے قرض دینے یا ڈپازٹ لینے کے لیے قانونی ڈھانچہ یا اختیار فراہم نہیں کرتا۔ چنانچہ جب مزید دیگر قوانین کی بنا پر بلاسودی اداروں کو اس طرح کی فلاحی یا خیراتی سوسائٹی کے ذریعے چلانا ممکن نہ رہا تو تحریک اسلامی نے ہندوستان کے پس منظر میں نئی کوششوں کا آغاز کیا۔
سہولت مائکرو فنانس سوسائٹی اور بلاسودی کوآپریٹو تحریک
پروفیسر صدیق حسن صاحب [مرحوم] نے وژن 2016 کے تحت ہندوستان میں بلاسودی مائکرو فنانس کے فروغ کے لیے اس فیلڈ میں کام کرنے والے احباب کو متحرک کیا۔ انھوں نے اس محاذ پر سرگرم افراد سے ملاقات و گفتگو کے بعد ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی صاحب [مرحوم] کی نگرانی میں ایک دو رکنی ٹاسک فورس تشکیل دی۔ اس کمیٹی نے ہندوستان میں بلاسودی کوآپریٹو کو فروغ دینے کے لیے ایک بلیو پرنٹ تیار کیا۔ ٹاسک فورس کی میٹنگ میں مجوزہ سوسائٹی کے لیے ناموں پر غور کیا جا رہا تھا کہ کون سا نام مشن کے اعتبار سے موزوں ہوگا۔ شام میں محترم ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی صاحب تشریف لائے اور انھوں نے ’’سہولت‘‘ نام تجویز کیا جسے کمیٹی نے فورا قبول کر لیا۔ چنانچہ مشن کو آگے بڑھانے کے لیے سہولت مائیکروفنانس کے نام سے سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ، 1860 کے تحت اس سوسائٹی کا رجسٹریشن دہلی میں کر وایا گیا۔ سہولت ایک غیر منافع بخش سماجی خدمت کے رجسٹرڈ ادارے کی حیثیت سے 2010سے کام کر رہا ہے۔ سہولت رپورٹ 2024 کے مطابق سہولت سے منسلک 57 رجسٹرڈ بلاسودی کوآپریٹو اداروں کی 111 شاخیں ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں خدمات فراہم کر رہی ہیں۔ ان اداروں سے وابستہ ممبران کی تعداد 331561 ہے۔ ان اداروں کے ذریعے ایک سال میں کل 625کروڑ روپے بلاسودی قرض کی بنیاد پر فراہم کیے گئے۔ یہ بلا سودی کوآپریٹو ادارے ریاستی اور مرکزی حکومت کے مختلف کوآپریٹو قوانین کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔
سہولت کی کوشش ہے کہ درج ذیل بنیادی فریم ورک کے مطابق بلاسودی کوآپریٹو اداروں کو استوار کیا جائے:
- کوآپریٹو کے اصولوں سے ہم آہنگی
- شرعی اصولوں سے ہم آہنگی
- مالی احتیاط کے تقاضوں سے ہم آہنگی
- پیشہ ورانہ نظم و انصرام کی پیروی
- سماجی خدمت کے تقاضوں کی تکمیل
- کوآپریٹو مالیاتی اداروں کے بنیادی اصول
کوآپریٹو صرف منافع کے بجائے اقدار کی بنیاد پر چلنے والے کاروبار ہوتے ہیں۔ یہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اصولوں کو اپناتے ہیں اور باہمی تعاون کے ذریعے ایک بہتر دنیا کی تعمیر کے لیے مشترکہ طور پر کام کرتے ہیں۔ کوآپریٹو کی اساس انصاف، مساوات اور سماجی عدل پر قائم ہے۔ کوآپریٹو لوگوں کو اپنے معاشی مستقبل پر کنٹرول حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ ان کی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والے معاشی اور سماجی فوائد وہیں کے مقامی سماج میں رہتے ہیں جہاں قائم ہوتے ہیں۔ جو منافع حاصل ہوتا ہے، اسے یا تو دوبارہ ادارے میں لگایا جاتا ہے یا پھر ممبران میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ کوآپریٹو تحریک کوئی معمولی یا محدود دائرے کی چیز نہیں ہے۔ دنیا کی کم از کم 12 فیصد آبادی مختلف ممالک میں موجودتقریبا 30 لاکھ کوآپریٹو میں کسی نہ کسی صورت میں شریک ہے۔
امداد باہمی کے تحت قائم مالیاتی ادارے، جیسے کہ کریڈٹ یونین (Credit Unions)اور کوآپریٹو بینک، کچھ بنیادی اصولوں پر کام کرتے ہیں۔ یہ اصول انھیں دیگر مالیاتی اداروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ ان اصولوں کو تحقیق و تجربات کی روشنی میں بین الاقوامی کوآپریٹو اتحاد (International Cooperative Alliance – ICA)نے وضع کیا ہے جو دنیا بھر میں تسلیم شدہ ہیں۔ امداد باہمی پر مبنی مالیاتی اداروں کی تعریف متعین کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: کوآپریٹو (انجمن امداد باہمی( ایک خود مختار انجمن ہوتی ہے جو افراد کی رضاکارانہ شمولیت سے تشکیل پاتی ہے، تاکہ وہ اپنے مشترکہ معاشی، سماجی، اور ثقافتی تقاضوں اور امنگوں کو مشترکہ ملکیت اور جمہوری نظم پر مبنی ایک ادارے کے ذریعے پورا کر سکیں۔ درج ذیل سات اصولوں کے ساتھ ساتھ کوآپریٹو خود مددگاری (self-help)، خود ذمہ داری(self-responsibility)،جمہوریت(democracy)، عدل(equity)، برابری(equality) ، اور یکجہتی (solidarity)کی اقدار پر بھی کاربند ہوتے ہیں۔ یہ اقدار اور اصول مل کر کوآپریٹو تحریک کی بنیادی شناخت کو تشکیل دیتے ہیں۔
رضاکارانہ اور کھلی رکنیت: کوآپریٹو (تعاون پر مبنی ادارے) ہر اس فرد کے لیے کھلے ہوتے ہیں جو ان کی خدمات سے فائدہ اٹھا سکتا ہو اور رکنیت کی ذمہ داریوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو، بغیر کسی امتیاز کے۔
جمہوری کنٹرول: کوآپریٹو ادارے جمہوری اصولوں پر چلتے ہیں۔ ہر رکن کو برابر ووٹ کا حق حاصل ہوتا ہے، چاہے اس نے کتنا بھی سرمایہ لگایا ہو۔
رکن کی معاشی شرکت: اراکین کوآپریٹو کے سرمائے میں حصہ ڈالتے ہیں اور انھیں اپنے سرمائے پر منافع حاصل کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، لیکن یہ منافع محدود ہوتا ہے۔
خود مختاری اور آزادی: کوآپریٹو خود مختار، خود مددگار تنظیمیں ہوتی ہیں، جنھیں ان کے اراکین ہی کنٹرول کرتے ہیں۔
تعلیم، تربیت اور معلومات: کوآپریٹو اپنے اراکین، ملازمین اور وسیع تر کمیونٹی کو کوآپریٹو اصولوں، طریقوں اور تکنیکوں کے بارے میں تعلیم اور تربیت فراہم کرتے ہیں۔
کوآپریٹو کے درمیان تعاون: کوآپریٹو مقامی، قومی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں تاکہ کوآپریٹو تحریک کو مضبوط بنایا جا سکے۔
کمیونٹی کی فلاح و بہبود: کوآپریٹو پائیدار ترقی کے لیے پرعزم ہوتے ہیں اور اپنی کمیونٹی کی بھلائی کے لیے کام کرتے ہیں۔
مالیاتی اداروں میں احتیاط (Prudence) کے بنیادی اصول
مالیاتی اداروں میں احتیاط (Prudence)کا اصول کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے بغیر مالیاتی درستگی، شفافیت اور اعتماد کو یقینی بنانا ممکن نہیں ہے۔ اس اصول کے تحت ادارے کو ہمیشہ محتاط رہ کر فیصلے کرنے اور مالیاتی ریکارڈنگ میں حقیقت پسندی اختیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مالیاتی محتاط پسندی کے درج ذیل کلیدی اصولوں کو برتے بغیر مالیاتی ادارے کی ساکھ، پائیداری اور تحفظ ہمیشہ خطرے سے دوچار رہتی ہے۔ اس لیے ان اصولوں کو سختی کے ساتھ برتنا کسی بھی مالیاتی ادارے کی صحت مندی کے لیے ضروری ہے۔ احتیاط کے بنیادی اصول درج ذیل ہیں:
منافع اور آمدنی کی محتاط شناخت : ادارے کو صرف وہی منافع یا آمدنی ریکارڈ کرنی چاہیے جو یقینی ہو۔ غیر یقینی (uncertain)یا ممکنہ منافع (expected profit)کو اس وقت تک ریکارڈ نہیں کیا جانا چاہیے جب تک کہ اس کا حصول یقینی نہ ہو۔
اخراجات اور نقصانات کی فوری شناخت : کسی نقصان یا خرچ کا امکان ہو تو اسے فوراً مالیاتی بیانات (financial statement) میں ظاہر کرنا چاہیے، خواہ رقم یا وقت مکمل طور پر واضح نہ ہو۔ اس سے مالی بیانات میں حقیقت پسندی پیدا ہوتی ہے۔
اثاثہ جات (Assets)کی محتاط تشخیص : اثاثہ جات کو صرف اسی وقت ریکارڈ کیا جائے جب ان سے مستقبل میں فائدہ حاصل ہونے کا امکان اور ان کی قیمت کا درست تعین ممکن ہو۔ اگر اثاثہ کی قیمت میں کمی کا خدشہ ہو تو اسے فوراً کم کر دینا چاہیے۔
قرضہ جات (Liabilities)کی مکمل اور بروقت شناخت : تمام ممکنہ ذمہ داریوں کو مالیاتی بیانات میں شامل کرنا چاہیے، چاہے وہ غیر یقینی یا مشروط ہوں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مالیاتی پوزیشن کو خوشنما بنا کر پیش کرنے سے بچا جا سکے۔
خطرات (Risk)کا مکمل جائزہ اور حفاظتی اقدامات : مالیاتی ادارے کو ہر فیصلے میں خطرات کا مکمل جائزہ لینا چاہیے، قرضے دینے میں احتیاط برتنی چاہیے، اور ممکنہ نقصانات کے لیے مناسب ذخائر (Reserves) تیار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مالیاتی بیانات کی سچائی اور شفافیت (Authenticity & Transparency): احتیاط کا اصول مالیاتی بیانات کو زیادہ قابلِ اعتماد اور شفاف بنانے پر زور دیتا ہے، تاکہ تمام متعلقہ افراد کا بھروسا قائم رہے اور درست فیصلے کیے جا سکیں۔
یہ اصول مالیاتی اداروں کو غیر ضروری خطرات سے بچاتے ہیں۔ ان اصولوں کی پابندی مالیاتی رپورٹنگ میں شفافیت لاتی ہے۔ اور اس طرح تمام ممبران اور اسٹیک ہولڈروں کا اعتماد برقرار رہتا ہے۔ اگر ان اصولوں کے سلسلے میں مداہنت یا تساہلی برتی جائے تو مالیاتی ادارے بتدریج اپنی ساکھ کھوتے چلے جاتے اور گوناگوں کمزوریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے کہ پانی سر سے اونچا ہو جائے اور مالیاتی ادارے کی کشتی ہی غرقاب ہو جائے۔ اس سے پہلے کہ ایسی صورتحال پیدا ہو احتیاط پسندی کے ان بنیادی اصولوں کو مضبوطی کے ساتھ نافذ کرنے کی کوشش کرنی ضروری ہے۔
سہولت مائیکروفنانس نے بلاسودی کوآپریٹو اداروں میں قرضوں کے معیار اور کریڈٹ رسک کی سطح کو جانچنے کے لیے PAR30 کا طریقہ کار بھی متعارف کرایا تاکہ ان اداروں کو متوقع خطرات سے بچانے کی بروقت تدابیر اختیار کی جا سکیں۔ اس کا آسان فارمولا یہ ہے کہ وہ قرضے جن کی ادائیگی 30 دن یا زیادہ تاخیر کا شکار ہے اسے کل قرضوں کی رقم سے تقسیم کر دیا جائے۔ اگر PAR30 کی شرح زیادہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ قرضوں کی واپسی میں تاخیر زیادہ ہے اور مالیاتی ادارے کو نقصان کا خطرہ درپیش ہے۔ یہ تناسب مائیکروفنانس اداروں اور بینکوں کے مالی بیانات میں غیر کارآمد قرضوں (Non-performing loans) کی نگرانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے ادارے قرضوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں اور ممکنہ نقصانات کے لیے مالیاتی انتظام کرتے ہیں۔
خود کفالت (Self-sustainability)کے بنیادی اصول
چھوٹے قرضوں (micro credit)کے لیے قائم امداد باہمی اداروں کو خود کفیل (self-sustainable) بنانا ضروری ہے۔ مالیاتی ادارے کا خود کفیل ہونا اس کو مالیاتی اور کارکردگی کے اعتبار سے خود مختاری دیتا ہے۔ خود کفالت کا مطلب ہے کہ ادارہ بغیر کسی بیرونی امداد ی، زکوة و صدقات، یا اعانت کے اپنے تمام اخراجات کو پورا کرنے والا بن جائے۔ امداد باہمی کے اصولوں پر مبنی مائکرو فائنانس ادارے کے مالک اور فیصلہ ساز اس کے ممبران ہوتے ہیں اور اس کے فائدے یا نقصان کے ذمہ دار بھی تمام ممبران ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے فیصلے نہ کریں جس سے امداد باہمی کے اداروں کا اپنے پیروں پر کھڑا ہونا مشکل ہوتا چلا جائے یہاں تک کہ وہ اس مقام پر پہنچ جائیں کہ بیرونی امداد و اعانت بند ہوتے ہی پوری عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو جائے۔ امداد باہمی کے اداروں کو خود کفیل بنانے کے لیے درج ذیل بنیادی اصولوں کی پابندی ضروری ہے۔ یہ اصول اس محاذ پر طویل تجربات اور تحقیق کے نتیجے میں اخذ کیے گئے ہیں۔
آمدنی اور اخراجات میں توازن: ادارے کی آمدنی (مثلاً مارک اپ، فیس وغیرہ) اس کے آپریٹنگ اور مالیاتی اخراجات کو مکمل طور پر پورا کرے۔
قرض وصولی کی شرح بہتر رکھنا: قرض داروں سے بروقت اور مکمل ادائیگی کو یقینی بنانا تاکہ قرض کی واپسی کی شرح بلند رہے اور ڈیفالٹ کم ہو۔
قرضہ جات کی مؤثر تقسیم اور نگرانی: قرضہ جات کی تقسیم، سائز، مدت اور شرائط کو مقامی حالات کے مطابق ترتیب دینا، اور موثر نگرانی سے قرض کی واپسی کو یقینی بنانا۔
اخراجات میں کفایت شعاری: انتظامی اور آپریٹنگ اخراجات کو کم سے کم رکھنا اور وسائل کا مؤثر استعمال کرنا۔
پورٹ فولیو میں تنوع: مختلف کاروباری شعبوں اور صارفین میں قرضہ جات تقسیم کرنا تاکہ کسی ایک شعبے میں نقصان سے ادارے کی مجموعی مالی صحت متاثر نہ ہو۔
ادارے کا پختہ نظم و انصرام: شفافیت، جوابدہی اور بہتر نظم و انصرام کے اصولوں پر عمل کرنا، جس میں بورڈ کی نگرانی اور اسٹیک ہولڈروں کی شمولیت شامل ہو۔
سماجی اور مالی مقاصد میں توازن: ادارہ منافع کونہیں بلکہ غریب طبقے کی مالی شمولیت (financial inclusion) اور فلاح وبہبود کو بنیادی اہمیت دے۔
ممبران اور عملے کی تربیت: کسی بھی کوآپریٹو کو بہتر بنائے رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ممبران باشعور اور اپنے حقوق اور ذمہ داریوں سے واقف ہوں۔ اسی طرح کوآپریٹو اداروں کی کارکردگی کو موثر اور کفایتی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا عملہ زیادہ سے زیادہ مالیاتی مہارت کا حامل ہوتا چلا جائے۔ مالیاتی مہارت حصولیابی کے عمل کو تیز کرتی ہے۔ اس لیے کسی بھی کوآپریٹو ادارے میں آگاہی، تعلیم اور تربیت کے عمل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے لیے ضابطے میں آمدنی کے ایک حصے کو استعمال کرنے کی شق بھی شامل ہے۔ ممبران کو با شعور بنانے اور عملے کو کاروباری اور مالیاتی مہارتوں کی تربیت دینے سے کاروباری کامیابی اور قرض کی واپسی میں بہتری آئے گی۔
مندرجہ بالا آٹھ اصولوں کی پابندی کے بعد ہی اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ مائیکرو کریڈٹ کوآپریٹو کے ادارے طویل مدتی خود کفالت، مالی استحکام اور سماجی فائدے کے حصول میں مددگار ثابت ہوں گے۔
بنیادی شرعی اصولوں سے ہم آہنگی
مائیکرو کریڈٹ کوآپریٹو اداروں کی مالی سرگرمیوں کو شریعت کے مطابق استوار کرنے کی کوششوں سے ملک میں ایک نئے اور عدل پر مبنی قابل تقلید نمونے اور کامیاب تجربے کی قبولیت کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ مالیاتی اداروں کے سلسلے میں شریعت کے کچھ بنیادی اصول ہیں جو قرآن و سنت اور ان سے اخذ کردہ فقہی آراء پر مبنی ہیں۔ ان متفقہ شرعی اصولوں کی پابندی (Shariah compliance) کے نفاذ میں درج ذیل بنیادی اصولوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے:
سود (ربا) کی مکمل ممانعت: ہر قسم کے سود (انٹرسٹ) کی لین دین سختی سے ممنوع ہے۔ مالیاتی معاہدے شرعی مالیاتی اصولوں سے ہم آہنگ ہونےچاہیے۔
منصفانہ منافع و نقصان میں شراکت: مالیاتی لین دین میں تمام فریق منافع اور نقصان (profit/loss)میں شریک ہوں۔ کسی ایک فریق کو یک طرفہ فائدہ یا نقصان نہ اٹھانا پڑے۔
غیر یقینی (غرر) اور جوا (مَیسِر) سے اجتناب: غیر واضح، غیر یقینی اور قیاس پر مبنی معاہدات، اور جوا یا سٹے بازی والی سرگرمیاں ممنوع ہیں۔ ہر معاہدہ شفاف اور واضح ہونا چاہیے۔
حلال کاروبار اور اثاثہ جات: صرف جائز (حلال) کاروبار اور اثاثہ جات کے لیے سرمایہ فراہم کیا جا سکتا ہے۔ شراب، جوا، حرام خوراک یا غیر اخلاقی صنعتوں میں ممنوع ہے۔
مالیاتی لین دین کا حقیقی اثاثہ یا معاشی سرگرمی سے تعلق: ہر لین دین کسی حقیقی اثاثے یا پیداواری سرگرمی سے منسلک ہونی چاہیے۔ صرف پیسے کے بدلے اضافی پیسے کا معاہدہ ممنوع ہے۔
شفافیت اور عدل: تمام معاہدات میں شفافیت اور انصاف کو یقینی بنایا جائے۔ تمام شرائط واضح ہوں اور فریقین کو مکمل معلومات فراہم کی جائیں۔
سماجی ذمہ داری اور غربت میں کمی: اسلامی مائیکرو کریڈٹ کا اہم مقصد غربت کا خاتمہ اور کمیونٹی کی فلاح ہے۔ اس لیے سرمایہ کی فراہمی اور قرضوں کا استعمال معاشرتی بہتری اور اخلاقی مقاصد کے لیے ہونا چاہیے۔
شریعہ آڈٹ: بلاسودی کو آپریٹو ادارے کو شرعی اصولوں سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ضابطہ بند مالیاتی آڈٹ کے علاوہ وقفے وقفے سے ان اداروں کی شریعہ آڈٹ بھی کی جاتی رہے۔ اس کے لیے دستیاب معروف ماہر شریعہ آڈٹ کے ادارے کی خدمات حاصل کرنا ضروری ہے کیوں کہ چھوٹے بڑے کوآپریٹو اداروں کے بس میں نہیں ہے کہ وہ اپنی مالیاتی سرگرمیوں کا شرعی آڈٹ از خود کر سکیں۔ اس کام کے لیے ضروری ہے کہ آڈیٹر کو مالیات سے متعلق بنیادی اصولوں سے گہری واقفیت ہو اور اسی کے ساتھ وہ مائکرو فائنانس، کوآپریٹیو، مالیاتی احتیاط، رائج الوقت مالیاتی قوانین، خودکفالت ، وغیرہ کے گوناگوں تقاضوں کو بھی شرعی فریم ورک میں برتنے کا ہنر جانتا ہو۔ ان پہلوؤں کو ملحوظ رکھے بغیر مالیاتی معاہدات (agreement paper) اور مصنوعات (Product) کی آڈٹ اور نگرانی ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے شریعہ ماہرین پر مشتمل بورڈ یا ادارے کی رہنمائی لازم ہے۔
کوآپریٹو میں شریعت کے مطابق سروس چارج کے بنیادی اصول
چھوٹی فائنانسنگ کی فراہمی کے لیے قائم کی گئی کوآپریٹو میں عام طور پر تین طرح کی فائنانسنگ ہوتی ہیں: اول مرابحہ کے اصول پر مبنی فائنانسنگ، دوم مشارکہ-اجارہ پر مبنی فائنانسنگ، اور سوم سروس چارج پر مبنی قرضے۔ مرابحہ کے عمل میں شرعی اصولوں کی پابندی میں کوتاہی یا سستی کے باوجود فی نفسہ ان اصولوں پر اتفاق پایا جاتا ہے۔ اسی طرح دوسرے مالیاتی مصنوعہ (Product)کے سلسلے میں عملی دشواریوں کے باوجود شرعی اصول واضح ہیں۔ لیکن تیسری طرح کے قرضوں کے سلسلے میں چند عملی مشکلات پائی جاتی ہیں جن پر قابو پانے کے سلسلے میں شرعی اصولوں کے اطلاق کے سلسلے میں مختلف رائیں سامنے آتی رہی ہیں۔ اس تیسرے قرض کی نوعیت یہ ہے کہ ممبران اپنی ناگزیر بنیادی حاجت [علاج، تعلیم، غذا، وغیرہ] کو پورا کرنے کے لیے قرض لیتے ہیں۔ ان قرضوں کی فراہمی اور وصولی پر اخراجات آتے ہیں۔ کوآپریٹو ادارے اپنے وجود کو خودکفالتی (self-sustainable) بنائے رکھنے کے لیے اپنے اخراجات کی تکمیل فائنانسنگ کی مختلف النوع مصنوعات سے حاصل ہونے والی آمدنی اور سروس چارج سے کرتے ہیں۔ سروس چارج پر مبنی قرضوں کے سلسلے میں دو بنیادی اصول ہیں جن پر اتفاق پایا جاتا ہے: اول یہ ہے کہ یہ اصل خرچ سے زائد نہیں لیا جا سکتا؛ دوم اسے ذرہ برابر بھی کوآپریٹو ادارے کا منافع نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ دونوں اصول شریعت سے ہم آہنگ ہیں۔ لیکن اس طرح کے قرضوں میں حقیقی خرچ کی مد میں کن اخراجات کو شامل کیا جانا چاہیے اور کن کو نہیں، اس میں مختلف رائیں پائی جاتی ہیں۔ تاہم شریعت کے مطابق (Shariah compliant)سروس چارج کے درج ذیل بنیادی اصولوں کی پابندی ضروری ہے:
سود (ربا) سے مکمل اجتناب: سروس چارج یا کوئی بھی فیس مقرر کرتے وقت اس بات کی مکمل پابندی ضروری ہے کہ اس میں سود شامل نہ ہو۔ فیس صرف اصل سروس یا انتظامی اخراجات کی بنیاد پر ہو، نہ کہ قرض کی رقم یا مدت کے حساب سے سودی شرح پر۔
انتظامی یا خدماتی اخراجات کی بنیاد: سروس چارج صرف ان اخراجات کے عوض لیا جائے جو ادارہ قرض دینے، نگرانی یا وصولی میں واقعی برداشت کرتا ہے۔ اسے منافع یا اضافی آمدنی کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا۔
شفافیت اور وضاحت: سروس چارج کی شرح، طریقہ کار اور مقصد مکمل طور پر شفاف ہوں اور قرض لینے والے کو پہلے سے آگاہ کیا جائے۔ کوئی پوشیدہ یا غیر واضح چارج نہ ہوں۔
غیر یقینی (غرر) اور جوا (مَیسِر) سے اجتناب: سروس چارج میں کوئی غیر یقینی یا مشکوک عنصر نہ ہو۔ ہر چیز واضح اور فریقین کے علم میں ہو۔
مناسب اور محدود شرح: سروس چارج کی شرح مناسب، منصفانہ اور اصل لاگت کے مطابق ہو، تاکہ غریب صارفین پر غیر ضروری مالی بوجھ نہ پڑے۔
ان اصولوں کو ان کی روح کے ساتھ روبعمل لا کر اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ مائیکرو فنانس اداروں کے ذریعے سروس چارج کی بنیاد پر فراہم کئے جانے والے قرضے شریعت کے مطابق اور سماجی انصاف کے تقاضوں پر مبنی ہیں۔
بھارت میں مائیکرو فنانس کوآپریٹو کریڈٹ اداروں کے لیے ضوابط کی تعمیل
رجسٹریشن: مائیکرو فنانس کوآپریٹو کریڈٹ ادارے کو لازمی طور پر ریاستی کوآپریٹو سوسائٹی ایکٹ یا ملٹی اسٹیٹ کوآپریٹو سوسائٹی ایکٹ، 2002 کے تحت رجسٹرڈ ہونا چاہیے۔
ریگولیٹری دائرہ اختیار: اگر ادارہ شہری کوآپریٹو بینک یا ضلع کوآپریٹو بینک کی شکل میں کام کرتا ہے تو یہ ریزرو بینک آف انڈیا (RBI) کے ضوابط کے تحت آتا ہے۔ اگر صرف کوآپریٹو سوسائٹی ہے تو اس پر ریاستی رجسٹرار آف کوآپریٹیوز کی نگرانی ہوتی ہے۔
مائیکرو فنانس کے رہنما اصول: قرض بغیر ضمانت کے اور مقررہ آمدنی کی حد کے اندر دیا جاتا ہے۔ قرض کی واپسی کی مدت اور شرح سود RBI یا متعلقہ اتھارٹی کے رہنما اصولوں کے مطابق ہونی چاہیے۔ قرض دہندگان کو اقساط (ہفتہ وار/ماہانہ) منتخب کرنے کی آزادی دی جاتی ہے۔
استطاعت قرض واپسی: قرض لینے والے کی کل آمدنی کا زیادہ سے زیادہ 50% قرض کی قسطوں کی ادائیگی میں جا سکتا ہے۔
فیئر پریکٹس کوڈ: ادارے کو فیئر پریکٹس کوڈ (FPC) بورڈ کی منظوری سے مرتب کر کے دفاتر اور ویب سائٹ پر نمایاں طور پر آویزاں کرنا ہوگا، اور قرض کارڈ پر بھی درج کرنا ہوگا۔
شکایات کے ازالے کا نظام: ادارے پر لازم ہے کہ وہ شکایات کے ازالے کے لیے باقاعدہ نظام قائم کرے۔
آڈٹ اور سالانہ رپورٹ: سالانہ آڈٹ اور مالیاتی رپورٹنگ لازمی ہے، جو متعلقہ رجسٹرار یا RBI کو جمع کرائی جاتی ہے۔
دیگر تقاضے: قرض کی شرائط اور فیس واضح طور پر بیان کرنا۔ غیر منافع بخش کمپنیوں کے لیے، اگر اثاثہ جات کی مالیت 100کروڑ یا اس سے زیادہ ہو تو RBI کی رجسٹریشن لازمی ہے۔ یہ تقاضے ادارے کی نوعیت (بینک، سوسائٹی یا NBFC) اور کام کے دائرہ کار کے مطابق بدل سکتے ہیں۔
بلاسودی کوآپریٹو کریڈٹ سوسائٹی سے وابستہ افراد کو یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جذبہ خواہ کتنا ہی صادق (pious)ہو، اگر کسی نظام کی تشکیل، تدبیر اور تعمیل میں کوتاہی پائی جاتی ہو، اس نظام کو ڈوبنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جن لوگوں نے مالیاتی اداروں کی کامیابی اور ناکامی کا سائنٹفک جائزہ لیا ہے انھوں نے کوآپریٹو کریڈٹ سوسائٹیوں کی ناکامی پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ تحقیقی مطالعات کے مطابق مالیاتی اداروں کی ناکامی کی بنیادی وجوہات میں کمزور ضابطہ کاری اور نگرانی شامل ہے۔ مؤثر قوانین، نگرانی اور قابل اعتماد رپورٹنگ کے فقدان کی وجہ سے اکثر کوآپریٹو اداروں میں بدانتظامی اور مالی بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، مضبوط قانونی اور ریگولیٹری فریم ورک کی عدم موجودگی ان اداروں کی ترقی اور کارکردگی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ مالی نظم و نسق کی کمی، محدود رسائی اور مالی خود کفالت کا فقدان بھی ان اداروں کو پسماندہ رکھتا ہے۔ عوام میں شعور اور سماجی بھروے کی کمی کی وجہ سے نئے ممبران کو راغب کرنا اور مارکیٹ کو وسعت دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ وسائل کی کمی، چھوٹے پیمانے پر کام اور جغرافیائی حدود کی وجہ سے بھی ان اداروں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ غیر فعال قرضوں (Non-performing Assets – NPA)اور واجب الادا رقم (Outstanding Loans)کی شرح زیادہ ہونے سے بھی ان اداروں کی مالی صحت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات اسلامی مالیاتی مصنوعات (Islamic Financial Products)کی پیچیدگی اور عملے و صارفین کی ان کے بارے میں کم فہمی کی وجہ سے ان کا مؤثر نفاذ مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کے اندر شریعت سے مطابقت رکھنے والے مالیاتی قرضوں کی طلب میں کمی آنے لگتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال میں کمی اور ڈیجیٹائزیشن کے اخراجات بھی خدمات کی بہتری اور وسیع تر رسائی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے ضابطہ جاتی اصلاحات (regulatory reforms)، بہتر انتظام، شعور میں اضافہ اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ بلاسودی کوآپریٹو کریڈٹ ادارے پائیداری اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔ ان سب چیزوں کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ بلاسودی کوآپریٹو اداروں کو ایسے نگراں ادارے کی سرپرستی میں کام کرنا چاہیے جو Self-Regulatory Institution کی حیثیت سے ان کا جائزہ لے سکے اور انھیں اصلاح احوال (course correction) کے لیے مناسب مشورے دے سکے۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے جس کا عملی سطح پر درست جواب دینے میں اگر کامیابی ملتی ہے تو ہندوستان میں بلاسودی کوآپریٹو کریڈٹ ادارے ایک نئے ماڈل کے طور پر قبولیت عام حاصل کرسکتے ہیں۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2025