بانگِ حرا
شاعر : مولانا ابوالبیان حماد عمری
صفحات : ۳۰۴ ٭قیمت : ۲۰۰روپے
ملنے کاپتا : مولانا ابوالبیان حماد جامعہ دارالسلام عمرآباد535808
ضلع ویلور، ٹمل ناڈو
حضرت مولانا ابوالبیان حماد عمری﴿پ:۱۹۲۳﴾ ہندوپاک کے اُن علماء میں ہیں، جن سے تین نسلوں نے کسبِ فیض کیا ہے۔ وہ کم و بیش ساڑھے چھے دہائیوں سے ملک کی عظیم اسلامی دانش گاہ جامعہ دارالسلام عمرآباد میں قرآن و حدیث کی تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں، اس کی مختلف علمی ، دعوتی اور ثقافتی کمیٹیوں میں شامل ہیں اور اس کے ابناے قدیم کی انجمن اور اس کے ترجمان ‘راہِ اعتدال’ کے سرپرست ہیں۔ ہندستان کے بے شمار علما کو ان سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے موجودہ امیر محترم مولانا سیّد جلال الدین عمری بھی ان کے شاگردوں میں ہیں۔ اِن سب کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مولانا محترم کو دولتِ سخن وری سے بھی سرفراز کیاہے۔ انھوںنے ۱۹۳۸میں جامعہ دارالسلام کی طالب علمی کے زمانے سے ہی شعرگوئی کاآغاز کیا اور اب تک برابر مشقِ سخن جاری ہے۔ اس ذیل میں انھیں جنوبی ہند کے استاذشاعر علاّمہ شاکر نائطی سے شاگردی کا شرف حاصل ہے، جن کا یہ شعر سینہ بہ سینہ اکثر اہلِ علم تک پہنچ چکا ہے:
اِس گھر میں بہت کم ہے اب آمد و رفت اس کی
دنیا کی طرف ہم نے دیوار اُٹھادی ہے
اُردو وفارسی کی درسیات کے سلسلے میں بھی مولانانے انھی کے سامنے زانوے تلّمذتہہ کیاتھا۔
زیرنظرکتاب ‘بانگِ حرا’ مولانا ابوالبیان حماد کی نظموں کامجموعہ ہے۔ اس سے پہلے ‘نغماتِ حمدونعت’کے نام سے ان کی حمدیہ و نعتیہ شاعری کا مجموعہ شائع ہوچکاہے۔ نظم اور غزل یہ دونوں صنفیں اردو شاعری میں بڑی اہمیت کی حامل رہی ہیں۔ نظم کے معنی دھاگے میں موتیوں کے پرونے کے ہیں، جب کہ غزل محبوب سے باتیں کرنے کو کہتے ہیں۔ لیکن حالی کے بعد غزل کے اس مفہوم میں واضح تبدیلی آئی ہے اور محبوبیت کا دائرہ کافی وسیع ہواہے۔ جناب ماہر القادری، مولاعامر عثمانی، علامہ شہباز امروہوی، جناب نعیم صدیقی،سہیل زیدی، علامہ ابوالمجاہدزاہد،ؒ حفیظ میرٹھی، طاہرتلہری، فاروق بانسپاری اوردوسرے کئی شعرأکے ساتھ ساتھ مولانا ابوالبیان حماد بھی ہمارے اُن اسلام پسند شعراءمیں ہیں، جنھوں نے اِن دونوں صنفوں میں طبع آزمائی کی ہے اور اپنا کمال فن دکھایاہے۔
‘بانگِ حرا’ ابوالبیان حماد کی ایک سو اٹھہتر﴿۱۷۸﴾ چھوٹی بڑی نظموں پر مشتمل ہے۔ اِن میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق وجدانگیز نظمیں بھی ہیں اور علمی ومذہبی تقریبات واحساسات سے متعلق بھی۔ انھوں نے بعض اسلامی و انقلابی شخصیتوںکو بھی موضوعِ سخن بنایاہے اور بعض اہم واقعات اور اداروں کے سلسلے میں بھی نظمیں کہی ہیں۔ لیکن انھوں نے جب اور جس موضوع پربھی لکھاہے، اسلام سے اپنی کامل وابستگی اور دنیا میں اپنے مقصدِ وجود کو اوجھل نہیں ہونے دیاہے۔ ان کا یہ شعر ان کی سمتِ سخن کی واضح نشان دہی کرتا ہے:
میں نقیبِ انقلاب دین ہوں، شاعر نہیں
میرا پیغامِ حقیقت وقت کی آواز ہے
میں مولانا ابوالبیان حماد کو کم و بیش چالیس برس سے پڑھ رہاہوں۔ میں نے اخبارات و رسائل کے ذریعے بھی ان سے استفادہ کیا ہے اور شعری و مذہبی محفلوں اور نجی ملاقاتوں میں انھیں سننے سنانے کے مواقع میسر رہے ہیں۔ ان کی حمدیہ و نعتیہ شاعری بھی نگاہ سے گزرتی رہی ہے اور غزلیہ و نظمیہ شاعری بھی۔ میں نے اُنھیں جب بھی پڑھایا سناہے یا جو کچھ بھی پڑھا یا سناہے یہ بات شدّت کے ساتھ محسوس کی ہے کہ ان کے کلام میں آتش خانوں کی آنچ بھی ہے اور شعری روایت کے صنم کدوں کا نور بھی۔ ان کی شاعری میں قدیم کلاسیکی رچاؤ بھی ہے اور جدید شعری رجحانات کی چمک بھی اور شعری و فنّی قدروں کااحترام بھی۔لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ ہم کسی بھی موڑ پر ان کی شاعری کو اپنے عہد کے نشیب و فرواز اور سرد وگرم حالات سے یکسر عاری نہیں کہہ سکتے۔ گردو پیش میں رونما ہونے والے واقعات، معاصر المیے، زمانے کے اِحساسات بل کہ انسانی زندگی کے وہ تمام مسائل جو اُن تک پہنچے ہیں ان کی شاعری میں کسی نہ کسی پہلو سے موجود ملتے ہیں۔ ان کا یہ رویّہ ان کی غزلوں میں بھی نظرآتاہے اور نظموں میں بھی۔ خصوصیت کے ساتھ ان نظموں میں بھی، جو انھوں نے کسی قومی وملّی قائد یا کسی دوسری عظیم شخصیت سے متعلق لکھی ہیں۔ میں اس سلسلے میں ان کی اس نظم کے چند شعر نمونے کے طورپر پیش کروںگا، جو انھوں نے مفکر اسلام حضرت مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کے موقعے پر تخلیق فرمائی تھی۔ ملاحظہ فرمائیں:
جاں بند، نفس بند، قلم بند خبربند
پابند روش بند، ہر اک راہ گزر بند
تاراج کیا گلشنِ ہستی کو خزاں نے
برگ گلِ تر بند، نموبند، شجر بند
پھر طوق کی جھنکار کہیں دور سے آئی
بے کیف ہے نغمہ ترا، مُطرب اسے کربند
پوشیدہ اسیری میں ہے، معراج محبت
ہے نالۂ شب گیر میں جس طرح اثر بند
آپ دیکھیں گے کہ ان اشعار کاایک ایک لفظ اپنے اندر ایک جہانِ معنی سمیٹے ہوئے ہے۔ یہی کیفیت ‘بانگِ حرا’ کی تمام نظموں میں ملتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ابوالبیان حماد کی شاعری فنّی سطح پر بھی قابل تحسین ہے اور موضوعات کے تنوع اور ہمہ گیری کے لحاظ سے بھی ۔بلاشبہ ‘بانگ حرا’ کی اشاعت سے اُردو شاعری کی صنفِ نظم کے باب میں ایک گراں قدر اضافہ ہواہے۔ امید ہے کہ شعرو ادب کے ہر طبقے میں اس کی پزیرائی ہوگی۔
٭٭٭
ہمارے پیارے مولانا
مصنف : سیّد نظرزیدیؒ
صفحات : ۸۰ ٭قیمت : ۴۰ روپے
ملنے کا پتا : البدر بک سنٹر، محلہ مہاجنی ٹولہ، سراے میر، ضلع اعظم گڑھ، یو-پی
جناب سیّد نظرزیدیؒ بیسویں صدی عیسوی کے معتبر ادیبوںاور شاعروں میں تھے۔ وہ اترپردیش کے مردم خیز قصبے نگینہ ﴿ضلع بجنور﴾ میں پیداہوے۔ وہیں دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ ہوے اور تقسیم ملک کے وقت اپنے عزیزوں کے ساتھ پاکستان چلے گئے۔ وہاں جاکر وہ مختلف شعبوں سے وابستہ رہے۔ عمر کے آخری حصّے میں مشہور علمی و تحقیقی ادارے ادارۂ معارف اسلامی منصورہ، لاہور سے وابستہ ہوئے اور تادمِ آخر اس کی علمی و تحقیقی خدمت انجام دیتے رہے۔ یوں تو انھیں شعرو ادب کی جملہ اصناف پر قدرت تھی اور ہر صنف میں انھوںنے بہت کچھ لکھاہے، لیکن ‘اطفالی ادب’ سے انھیں خصوصی مناسبت تھی۔ انھوںنے بچّوں کے لیے بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ ہندستان میں مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع ہونے والی ان کی کتاب قرآن کی باتیں ﴿اول، دوم﴾ اور دنیا کی کہانی کو خاصی شہرت حاصل ہے۔ زیرِ نظر کتاب ‘ہمارے پیارے مولانا’ بھی اسی سلسلے کی چیز ہے۔
’’ہمارے پیارے مولاناؒ ‘‘ میں جناب سیّد نظرزیدی نے نہایت سادہ، عام فہم اور کم عمر بچوں کی زبان میں بانی تحریک اسلامی مفکر اسلام حضرت مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مختصر حالاتِ زندگی بیان کیے ہیں۔ چند عناوین اس طرح ہیں: مولانا مودودیؒ کا خاندان، پیدایش اور بچپن، کم سن ایڈیٹر، ترجمان القرآن، دارالاسلام پٹھان کوٹ، جماعت اسلامی کاقیام، دین کے لیے قربانیاں، خدا پر بھروسا، محنتوں کاپھل، طالب علموں کے رہ نما، مولانا کی خاص خوبیاں، عظیم بیٹے کی عظیم ماں، مولانا کی کتابیں اور اپنے اللہ کے حضور۔
مصنف نے ‘پہلی بات’ عنوان کے تحت مولانا کا تعارف کراتے ہوئے لکھاہے:
‘حضرت مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس زمانے میں ہماری قوم کے بہت بڑے آدمی تھے، ان کی اِس بڑائی کو ہماری قوم کے لوگ مانتے ہی ہیں، لیکن اس سلسلے میں خاص بات یہ ہے کہ دوسری قوموں کے سمجھ دار لوگ بھی سچّے دل سے حضرت مولانا کی عزّت کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ یورپ اور امریکا کے رہنے والے بہت سے عالموں نے ان کے بارے میں مضمون لکھے اور کتابیں شائع کی ہیں اور ان کی لکھی ہوئی کتابیں شوق سے پڑھتے ہیں۔ ﴿ص:۵﴾
آپ دیکھیں گے کہ کتنی صاف، ستھری اور شایستہ و شگفتہ، زبان میں مولانا کا تعارف کرادیا، اسلوب کچھ ایساکہ بچے اور بڑے سبھی کے لیے موثر اوردل نشیں۔
بلاشبہ یہ کتاب اس قابل ہے کہ اِسے زیادہ سے زیادہ ہاتھوں تک پہنچایاجاے۔ تاکہ نئی نسل کو یہ بات معلوم ہوسکے کہ مولانا مودودیؒ کون تھے اور انھوں نے کیا کیا کارنامے انجام دیے ہیں۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2010