متاعِ فکر
مصنف : جناب رہبر جون پوری
صفحات : ۱۴۴ ٭ قیمت: -/۱۵۰ روپے
ملنے کاپتا : ادارۂ کاروانِ سخن، ۶۵۱، این ۳، سیکٹربی، گووندپورہ، بھوپال
جناب رہبر جون پوری ہمارے عہد کے ممتاز شعرا میں ہیں۔ وہ ہندستان یا ہندستان کے باہر کے جن مشاعروں میں بھی شریک ہوتے ہیں، وہاں ان کے تعمیری اور فکرو خیال کو بالیدگی عطا کرنے والے اشعار کی گونج دیر تک سنائی دیتی رہتی ہے۔ کسی زمانے میں ان کا یہ شعر بے حد مقبول ہواتھا:
کنکر پتّھر کی تعمیریں، مذہب کا مفہوم نہیں
ذہنوں کی تعمیر بھی کیجے گنبد اور محراب کے ساتھ
اس شعر کی شہرت و مقبولیت اتنی بڑھی کہ شاعر کا نام ہی گم ہوگیا۔ لوگوں نے جلسوں اور نجی محفلوں میں اِسے مختلف بڑے شاعروں کے نام سے منسوب کرکے سنانا شروع کردیا۔ حالاں کہ یہ ان کے دوسرے مجموعۂ سخن ’موجِ سراب‘ میں بھی چھپ چکا ہے۔
متاعِ فکرجناب رہبر کا تازہ ترین مجموعۂ کلام ہے۔لوح پر ان کا یہ شعر درج ہے:
ہم نے تو خود حاصل کی ہیں روشنیاں تاریکی سے
سورج لے کر وہ پھرتے ہیں، خوف جنھیں ظلمات کا ہے
اِس شعر سے ان کی شعری روش اور فکری سمت کاپتا چلتا ہے۔ رہبر جون پوری گوکہ کسی ادبی تحریک یا انجمن سے وابستہ نہیں ہیں، یہ چیز ان کے مزاج سے بھی میل نہیں کھاتی، لیکن ’متاعِ فکر‘ کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ ادب کے اس رُجحان یا رویّے سے ذہنی وفکری انسلاک رکھتے ہیں، جسے سنجیدہ و علمی طبقے میں ادب اسلامی سے تعبیر کیاجاتا ہے۔ ان کی شعری و فکری جڑوں میں فکرِ اقبال کی کارفرمائی ہے۔سچ کہاہے پروفیسر ملک زادہ منظوراحمد نے کہ: ’رہبر جون پوری غزلوں میں بندشِ الفاظ کے نگینے جڑکر مرصع سازی نہیں کرتے، بل کہ ہمارے افکار وخیالات کی تربیت بھی کرتے ہیں اور عموماً یہ تربیت ان مذہبی تلمیحات اور شخصیات کے ذریعے ہوتی ہے، جو اپنے کارناموں کے حوالے سے سارے عالمِ انسانیت کے لیے معتبر ومستند ہوچکے ہیں؛ نمونے کے طورپر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
مری گردوں نوردی مظہر توقیر آدم ہے
مبارک کردیے جبریل کے نقشِ قدم میں نے
قہر یزید فتنۂ کوفہ بنی رہی
یہ بیسویں صدی بھی غضب کی صدی رہی
میں سفیر تابش و نور ہوں، مجھے ظلمتوں سے ہے کیا غرض
وہ جو روشنی کے حریف ہیں، وہ بجھاکے رکھتے ہیں دامِ شب
ہم نہیں ہوتے غُلامانِ سیاست میں شمار
ٹھوکروں میں ہم نے رکھی ہیں یہاں دارائیاں
رہبر جون پوری جیساکہ ’جون پوری‘ کے لاحقے سے ظاہر ہے، سرزمین شیرازِ ہند جون پور سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہیں پلے بڑھے اور پروان چڑھے ہیں اور وہاں کی شعری وادبی فضا سے بھرپور اثر لیاہے۔ لیکن ان کا شعری شعور ہندستان کی علم وادب کی شناخت رکھنے والی سرزمین بھوپال میںبالغ ہوا ہے۔ جہاں ان دنوں علاّمہ محوی صدیقی لکھنوی، شعری بھوپالی، کیف بھوپالی اور شفا گوالیاری جیسے اساتذۂ فن موجود تھے۔ رہبر صاحب نے ان سب سے استفادہ کیاہے، ان کی صحبتوں سے فیض یاب ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کلام سنایا ہے۔ ان کے شعروں میں اِن دونوں شعری وادبی مراکز کے اثرات بہ آسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔
خواب کی دینی حیثیت
مصنف: ڈاکٹر غلام قادر لون
صفحات: ۳۲ ٭ قیمت: -/۳۰ روپے
ناشر: القلم پبلی کیشنز، ٹرک یارڈ، بارہ ملّا، کشمیر ۱۰۱۳۹۱
خواب ہر انسان دیکھتا ہے۔ بعض حلقوں میں اِسے بڑی اہمیت حاصل ہے۔ وہ اسی کی بنیادپر بڑے بڑے فیصلے کرڈالتے ہیں۔ اِس رویّے کو سنجیدہ طبقے میں کبھی پسند نہیںکیاگیا۔لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اس کی اپنی ایک حیثیت ہے۔ البتہ کون خواب کیسا ہے، اس کا فیصلہ خواب دیکھنے والے کے حالات کے مطابق ہوگا۔ہر دور میں خواب کی تعبیریں بتانے والے بھی رہے ہیں۔ اِن میں بعض ایسے معبرین بھی ملتے ہیں، جنھوں نے اپنی ذہانت اور بصیرت سے خواب دیکھنے والوں کی مناسب اور قابلِ اطمینان رہ نمائی کی ہے۔
ڈاکٹر غلام قادر لون علمی حلقوں کے لیے محتاجِ تعارف نہیں ہیں۔ انھوں نے اپنی متعدد علمی وتحقیقی کتابوں سے علمی دنیا کے ایک بڑے طبقے کو متاثر کیاہے۔ اچھوتے موضوعات کا مطالعہ اور اس سلسلے کی تحقیق وجستجو ان کا خاص مزاج ہے۔ ان کی یہ کتاب بھی اسی نوعیت کی ہے۔ اِس میں انھوں نے دریا کوکوزے میں سمونے کی کوشش کرکے قاری کی مناسب رہ نمائی کی ہے۔ زیرِ نظر کتاب خواب کی دینی حیثیت گرچہ کتاب کی بہ جاے ایک کتابچہ ہے، لیکن اپنی اہمیت وافادیت کے اعتبار سے یہ ایک وقیع ومفید چیز ہے۔ مصنف نے ’پیش گفتار‘میں خواب کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے:
’خواب انسان کی عقلی گتھیاں سلجھانے اور علمی اشکالات دور کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ فکرو ادب کے کئی شہ پارے خواب ہی سے وجود میں آئے ہیں۔ ساینس کے متعددمسائل کے حل کی طرف خواب ہی میں رہ نمائی کی گئی۔ تاریخ کے کئی فن پارے خواب ہی کی تعبیر ہیں۔
ان کا یہ بیان کتاب کے موضوع اور اس کے مشتملات کا بھرپور تعارف کراتا ہے۔ ’خواب کی دینی حیثیت‘ دراصل ڈاکٹر غلام قادرلون کا وہ مقالہ ہے، جو مشہور علمی و تحقیقی سہ ماہی مجلّے تحقیقات اسلامی علی گڑھ میں اب سے تقریباً پندرہ برس پہلے شائع ہواتھا۔ شائقین کی خواہش واصرار پر اب انھوںنے اسے کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ امید ہے کہ اس سے خواب کی اہمیت وحیثیت کے تعین میں بھی مدد ملے گی اور خواب کے سلسلے میں جو بے راہ رویاں اور گم راہیاں راہ پاگئی ہیں ان کابھی سدّباب ہوسکے گا۔
﴿تابش مہدی﴾
اسلام کا عام فہم تعارف
مصنف: شیخ علی طنطاوی، ٭ مترجم: مولانا عبدالحلیم فلاحی
صفحات: ۲۴۰ ٭ قیمت: -/۹۰ روپے
ناشر: الفلاح پبلی کیشن،E-20 ، ابوالفضل انکلیو، نئی دہلی-25
’اسلام کا عام فہم تعارف‘عالم اسلام کی معروف دینی، علمی اور ادبی شخصیت شیخ علی طنطاوی ؒ ﴿۱۹۰۹-۱۹۹۹ ﴾ کی مشہور عربی کتاب تعریف عام بدین الاسلام کاترجمہ ہے۔ عربی زبان میں یہ کتاب ۱۹۷۰ء میں شائع ہوئی تھی۔ اپنے مخصوص علمی و ادبی اسلوب کی وجہ سے اسے عالم عرب میں خوب مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کے کئی ایڈیشن منظرعام پر آئے۔ ترجمے کے ذریعے اب یہ اردو خواں حلقے میں بھی پہنچ رہی ہے۔
شیخ علی طنطاوی کا خاندان اگرچہ شام سے تعلق رکھتا تھا، لیکن ان کی ولادت مصر میں ہوئی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے تدریس کاپیشہ اختیار کیا اور شام، عراق اور آخر میں سعودی عرب کے مختلف اسکولوں، کالجوں اور تعلیمی اداروں میں خدمات انجام دیں۔ انھوں نے دمشق یونی ورسٹی کے شعبۂ قانون سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اس کی بنیاد پر کچھ عرصے جج،فرسٹ کلاس مجسٹریٹ اور اپیل کورٹ کے ایڈوائزر بھی رہے۔ وہ ابتداے عمر سے صحافت کے میدان میں بھی سرگرم تھے۔ ان کی حق گوئی اور بے باکی مشہور تھی۔ انھوں نے الحاد، بے دینی اور مغرب پرستی کے خلاف مورچہ سنبھالا اور اسلامی اقدار و تعلیمات کی بھرپور اور مدلّل ترجمانی کی۔ عالم عرب کے رسائل وجرائد میں ان کے سیکڑوں مقالات شائع ہوئے ہیں۔ انھوں نے تقریباً تین درجن کتابیں تصنیف کی تھیں۔ ان میں ابوبکر الصدیق، اخبار عمر، رجال من التاریخ اور قصص من التاریخ قابل ذکر ہیں۔ ذکریات کے نام سے ان کی آپ بیتی کئی جلدوں میں شائع ہوچکی ہے۔ ان کی دینی خدات کے اعتراف میں انھیں عالم اسلام کے باوقار اعزاز شاہ فیصل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
شیخ طنطاوی نے اسلام کے تعارف کے لیے تین حصوں پر مشتمل ایک کتاب کا خاکہ تیار کیاتھا۔ زیر نظر کتاب اس کاپہلا حصہ ہے۔ اس میں اسلام کے عقائد وایمانیات سے بحث ہے۔ خاکے کے مطابق دوسرا حصہ اسلام پر اور تیسرا حصہ احسان پر ہوتا، لیکن پیرانہ سالی کے باعث دونوں حصّے نہ آسکے۔
اس کتاب میں اسلامی عقائد و ایمانیات پر تفصیل سے اظہار خیال کیاگیا ہے۔ ابواب کی تفصیل یہ ہے: عقائد کے اصول وقواعد، اللہ پر ایمان، مظاہر ایمان، آخرت پر ایمان، تقدیر پر ایمان، غیب پر ایمان، رسولوں پر ایمان، آسمانی کتابوں پرایمان۔ ان کی بحث کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے متعلقہ موضوع پر مدلّل گفتگو کرتے ہیں۔ پھر اس کا خلاصہ بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد اس پر وارد ہونے والے ممکنہ شبہات کا ذکرکر کے ان کاازالہ کرتے ہیں۔ اپنی باتوں کی تفہیم کے لیے انھوںنے کثرت سے روزمرّہ کی مثالیں پیش کی ہیں۔ اندازبیان اتنا سادہ، عام فہم اور مؤثر ہے کہ بات دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ عقائد کے دقیق اور فلسفیانہ موضوعات بھی انھوںنے بہت سہل و سلیس انداز میں پیش کیے ہیں۔ کتاب کا اُردو ترجمہ مولانا عبدالحلیم فلاحی نے کیاہے۔وہ ترجمے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس سے قبل وہ الاخوان المسلمون کے سابق مرشد عام شیخ مصطفی مشہور کی کتاب کا ترجمہ ’دعوتِ اسلامی -حقیقت اور انحرافات‘ کے نام سے اور عالم اسلام کے مشہور مصنف، فقیہ اور دانش ور شیخ یوسف القرضاوی کی کتابوں کا ترجمہ غلبۂ اسلام کی بشارتیں، وقت کی اہمیت اور اسلام کی دعوت کیوں؟ کے نام سے کرچکے ہیں۔ زیرنظر کتاب کا ترجمہ بھی انھوں نے بہت سلیس اور رواں کیاہے۔ کہیں بھی ترجمے پن کا احساس نہیں ہوتا۔ البتہ کتاب کا نام اس کے مشتملات کے لحاظ سے موزوں نہیں معلوم ہوتا۔ مصنف تو معذور تھے، کہ ان کے پیش نظر کتاب کے تین حصّی تھے۔ اب جب کہ دو حصے نہیں آسکے صرف عقائد وایمانیات والا حصہ ہی آسکاہے، مناسب تھاکہ اس کا نام بھی بدل دیاجاتا۔کتاب میں جابہ جا احادیث بیان کی گئی ہیں۔ اگر محترم مترجم اِس کی تخریج کردیتے تو افادیت میں اضافہ ہوجاتا۔
یہ کتاب جدید ذہن بالخصوص نو مسلموں اور غیرمسلموں کے لیے بہت مفید ہے۔ مدھرسندیش سنگم نے اس کا ترجمہ شائع کرکے اہم خدمت انجام دی ہے۔﴿محمدرضی الاسلام ندوی﴾
احمد عبد الرزاق لطیفیؒ- حیات و خدمات
مرتب: سید شکیل احمد انور، مسعود جاوید ہاشمی
صفحات: ۱۱۲ ٭ قیمت: -/۷۰ روپے
ملنے کا پتا: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، ہدیٰ بک ڈسٹری بیوٹرس، حیدرآباد
جناب محمد عبدالرزاق لطیفی مرحوم ﴿۱۹۲۸-۱۹۷۵ ﴾ کا شمار ان ہستیوں میں ہوتاہے، جنھوں نے تحریک اسلامی ہند کو اپنے خونِ جگر سے سینچا ہے۔ وہ جناب نقی علی صاحب ﴿مصنف سید مودودی کا عہد﴾ کے شاگردوں میں تھے۔ نوجوانی میں تحریک سے متعارف ہوئے اور بہت جلد اس سے باضابطہ وابستگی اختیار کرلی۔ اس کی پاداش میں انھیں سرکاری ملازمت سے برطرف کردیاگیا، لیکن ان کی جبین پر شکن نہیں آئی اور وہ مسلسل تحریک کی خدمت کرتے رہے۔ انھیں مختلف ذمّے داریاں تفویض کی گئیں۔ وہ مجلس نمایندگان اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔ حلقہ آندھرا پردیش کے امیر بنائے گئے، حیدرآباد میں منعقد ہونے والے جماعت کے دوسرے کل ہند اجتماع کی نظامت انھی کو سونپی گئی تھی۔ ۱۹۷۰ء میں مدھیہ پردیش ، مہاراشٹر اور گجرات کے بعض شہروں میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکے تو اس موقع پر جماعت کا ریلیف ورک انھی کی نگرانی میں ہواتھا۔ ۱۹۷۴ء میں جماعت کے کل ہند اجتماع دہلی کا بھی ان کو ناظم بنایاگیا تھا۔ مگر اسی دوران میں وہ شدید مرض میںمبتلا ہوگئے، بالآخر چند ماہ کے بعد اڑتالیس سال کی عمر میں راہی ملک بقا ہوئے۔
لطیفی صاحب ملّی سرگرمیوں میں بھی فعّال تھے۔ ۱۹۶۴ء میں مسلم مجلس مشاورت کی تاسیس میں پیش پیش رہے تھے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے آندھرا پردیش کے مختلف شہروں میں منعقد ہونے والے اجتماعات میں اپنی خطابت کے جوہر دکھائے۔ تحریکی حلقے میں بھی ان کی شہرت ایک بے باک، پرجوش اور ولولہ انگیز خطیب کی حیثیت سے تھی۔ مدرسہ لطیفیہ، مسلم میٹرینٹی ہاسپٹل، جامعہ دارالہدیٰ اور احمدآباد کی ملت نگر کالونی ان کی دینی، سماجی اور رفاہی خدمات کی نشانیاں ہیں۔ ان کی زندگی کی ایک خاص اور قابل تقلید بات یہ ہے کہ اپنے گھر اور خاندان پر ان کا گہرا اثر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے تمام افراد تحریک اسلامی سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ ان کے آٹھ بھائی اور ایک بہن رکن ہوئے۔ان کے دو بھائی امیر حلقہ کے منصب پر فائز رہے اور ان کے تمام بھتیجے بھی جماعت سے باضابطہ وابستہ ہیں۔
زیرنظر کتاب مرحوم کے احباب، تحریکی رفقاء ، شاگردوںاور زیرتربیت افراد کے تحریر کردہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان میں ان کی حیات اور دینی، ملّی، سماجی اور رفاہی خدمات کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان کے ذریعے ان کی ہر دم رواں پیہم دواں شخصیت کی حسین تصویر سامنے آجاتی ہے۔
ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اسی طرح تحریک اسلامی ہند کی دیگر نمایاں شخصیات کے بھی تذکرے مرتب کیے جائیں، تاکہ نئی نسل کو ولولۂ تازہ ملے اور اس کے اندر دین اور تحریک کے لیے خود کو وقف کردینے کاجذبہ پیداہو۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2012