ماضی کے نقوش، مستقبل کے خطوط

سولہویں لوک سبھا کے عام انتخابات، بڑی پارٹیوں کے درمیان کوئی بڑا مسئلہ نہ ہونے کے باوجود انتخابی مہم کے لحاظ سے غیرمعمولی ثابت ہوئے۔ ملک کی معاشی پالیسی کیا ہو، امورداخلہ میں کیا تبدیلی لائی جائے، خارجہ پالیسی میںکون سی بنیادی تبدیلیاںہوسکتی ہیں، ہماری دفاعی پوزیشن کیا ہو، اِن انتخابات میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ مرکز میں کانگریس کی اتحادی حکومت کو دس سال ہوچکے تھے۔ گزشتہ تین سال کے دوران اس کی مختلف وزارتوں میں بڑے بڑے اسکینڈلوں اور کابینہ پر وزیراعظم کی گرفت کمزور ہونے کی وجہ سے وہ بُری حالت میں آگئی تھی۔ کانگریس کی مرکزی قیادت بھی غیرموثر ثابت ہورہی تھی، پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ کمزور سے کمزور تر ہوتاجارہا تھا اور یوں اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے میدان صاف ہوگیاتھا۔ اس نے کانگریس اور اس کی حکومت کے خلاف نہایت جارحانہ مہم چلائی؛ گجرات کے وزیراعلیٰ کو وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کئے جانے سے اس کی انتخابی مہم میں مزید رنگ آگیاتھا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ انتخابات نہ تو بھارتیہ جنتاپارٹی نے لڑے نہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار نے، بلکہ یہ انتخابات ملک کے سرمایہ دار طبقے اور راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے باہم سمجھوتے کانتیجہ تھے جنھوںنے حالات سے فائدہ اٹھایا۔ بی جے پی کے کیڈر اور گجرات کے وزیراعلیٰ کی شبیہ کو صرف استعمال کیاگیا۔

سنگھ کا ایجنڈا

آر ایس ایس اس ملک کے لیے ایک خاص ایجنڈا رکھتی ہے۔ وہ ایک خاص فکرو فلسفے، یہاں کی قدیم روایات اور میتھولوجی کی بنیاد پراس ملک کی تعمیر و تشکیل چاہتی ہے۔ اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے سیکڑوں ادارے، غیرسرکاری تنظیمیں، مطالعاتی مراکز و تحقیقی گروپس اور متعلقہ حلقے بنا رکھے ہیں جو ایک طرف تو تعلیم و صحت اور خدمت خلق کے دوسرے میدانوں میں سرگرم ہیں اور قابل لحاظ خدمات انجام دے رہے ہیں۔وہیں تحقیق و تلاش کے نام پر ملک کے تاریخی حقائق کو بدلنے، نصابی کتب کو ایک مخصوص سمت دینے اور تمام شہریوں کو اپنی پسند کے ثقافتی رنگ میں رنگ دینے کے لیے علمی بنیادیں فراہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مذہبی اقلیتوں کو دباکر رکھنے اور ان کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کرنے کے لیے وشوہندو پریشد اور درگا واہنی جیسی عسکری تنظیمیں سرگرم ہیں۔ سنگھ اپنے کیڈر اور حمایتیوں کوباقاعدہ اور علانیہ عسکری تربیت بھی دیتا ہے۔ لیکن اس کی سب سے نمایاں، فعال اور وسیع تنظیم ہے بھارتیہ جنتاپارٹی جو اس کا سیاسی بازو ہے جس کے ذریعے سنگھ ملک کے سیاسی اقتدار پر قابض ہونا چاہتا تھا اور بالآخر ۲۰۱۴ء میں اُسے یہ کامیابی مل ہی گئی۔ لیکن اِس بار بھی اسے یہ کامیابی محض اپنے بوتے پر نہیں ملی، بلکہ اسے کارپوریٹ سیکٹر سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔

اگر دیکھا جائے تو ۲۸۲ میںس ے بھارتیہ جنتاپارٹی کی اپنی پائدار نشستیں (مثبت ووٹ کے ذریعے) ایک سو کے اندر ہیں۔ باقی دو سو حلقوں میں کامیابی منفی ووٹ کا نتیجہ ہے اور وہاں کی جیت میں کچھ دوسرے عوامل کارفرما رہے ہیں۔ بہت سے حلقوں میں کامیابی عوام کی جانب سے ’’اچھے دنوں‘‘ کی امید اور نوجوانوں کی جانب سے روزگار کے بہترین مواقع کی توقع میں حاصل ہوئی ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر اگرچہ پہلے ہی سے بی جے پی کے ساتھ ہمدردی رکھتاہے اور مالی وسائل بھی فراہم کرتا رہاہے، لیکن اسے سنگھ کے فرقہ وارانہ ایجنڈے سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ اگر پہلے کبھی رہی بھی ہوتو اب دنیا کے بدلے ہوئے معاشی منظرنامے میں نہیں ہے۔ سنگھ کاطریقہ جہاں اپنے جنگجو گروپوں کی سرگرمیوں کے ذریعے نام نہاد اکثریتی فرقے کو اپنا ہمنوا بنانا رہا ہے وہیں بزنس کمیونٹی چاہتی ہے کہ ملک میں امن و امان برقرار رہے کہ معاشی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے—- آر ایس ایس اور بزنس کمیونٹی کے مابین سب سے بڑی قدر مشترک معاشی پالیسی ہے۔ سنگھ جن دو امور کی بنیاد پر اس ملک کی صورت گری کرناچاہتا ہے وہ ہیں: (۱)ذات پات کے قدیم سماجی نظام(ورن ویوستھا) کو برقرار رکھ کر مضبوط سے مضبوط تر بنانا اور (۲)اُسی نظام کے تحت ملک کے تمام اقتصادی وسائل ایک مخصوص طبقے کے ہاتھوں میں دے دینا کہ وہ جس طرح چاہے ان کا استعمال کرے اور دوسروں کو جس قدر اور جس طریقے سے چاہے دے یا بہت سوں کو محروم بھی رکھے۔ ۔۔یہ اصول ملک کے کاروباری طبقے کی خواہشات کے عین مطابق ہے اور زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ملک کے مالی وسائل پر اُسی طبقے کاکنٹرول ہے جس طبقے کا کنٹرول کہ سنگھ چاہتا ہے۔ پھریہ اصول آج کے عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں بھی پوری طرح فٹ ہوتا ہے اور کارپوریٹ سیکٹر اسے زیادہ سے زیادہ مضبوط و مستحکم بنانا چاہتا ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کا سیاسی و سماجی ماحول پُرسکون رہے۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر یہ معاشی ایجنڈا پوری طرح نافذ اور مضبوط ہوتا ہے تو اس سے اخلاقی بگاڑ تباہ کن حد تک بڑھ جائے گا جس کاآغاز ہم جنس پرستی، بغیر شادی بیاہ کے مرد عورت کی رفاقت اور نابالغ بچوں کے آزادانہ جنسی اختلاط کے حق میں عدالتی فیصلوں کے ذریعے پہلے ہی ہوچکا ہے۔ خاندانی نظام مغرب کی طرح کمزور ہوجائے گا، رشتوں ناتوں کا لحاظ باقی نہیں رہے گا۔ ام الخبائث پانی کی طرح بکنے لگے گی۔ غرض کارپوریٹ کے ذریعے لائی گئی معاشی خوش حالی ہندوستانیوں کو بہت مہنگی پڑے گی۔

ایک مسئلہ ملک کو عالمی طاقت بنانے کابھی ہے۔ آر ایس ایس اسے اپنی دیرینہ تمنا کے مطابق جنگوازم کے ذریعے ایک جنگ جو قوم کاہندو راشٹر بنانا چاہتی ہے جب کہ آج کی بزنس کمیونٹی ملک کو مغربی کلچر کے مطابق ایک مضبوط معاشی قوت دیکھنا چاہتی ہے گوکہ کاسٹ سِسٹم اُس میں بھی جاری و ساری رہے گا اور وہ تمام اخلاقی اور سماجی بُرائیاں درآئیں گی جو سرمایہ دارانہ نظام کے تقاضے ہیں۔

اقتدار کے اِن دونوں حصہ داروں میں آگے جاکر کون بالادست ثابت ہوتا ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔

اشتراکی تحریک کی موت

امریکہ کے ساتھ ۶۵ سال کی سرد جنگ میں سوویت یونین کی شکست کے بعد پوری دنیا کی طرح اِس ملک میں بھی اشتراکی تحریک دم توڑچکی ہے اور اب یہاں سرمایہ دارانہ معاشی نظام پوری طرح گامزن ہے۔ پنڈت نہرو کاسوشلسٹ نظریۂ معیشت بھی اپنی معنویت کھوچکا ہے۔ کمیونسٹ پارٹیاں اگرچہ موجود ہیں لیکن ان میں عوام کو متحرک کرنے کی صلاحیت نہیں رہی۔

اب ملک گیر سطح کی کوئی ایسی تحریک پائی نہیں جاتی جواستحصالی قوتوں اور نئے طاقتور جنگوازم کی مزاحمت کرسکے۔

علاقائی پارٹیاں

جہاں تک علاقائی سیاسی پارٹیوں کاتعلق ہے، انھیں قومی نوعیت کے مسائل (National Issues) سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ اپنا سیاسی ایجنڈا علاقائی، لسانی اور ثقافتی بنیادپر اور ذات برادری کے گروہی مفادات کے مطابق طے کرتی ہیں، ان کی کامیابی کا تمام تر دارومدار علاقائی جذبات کو ہوا دینے پر ہے۔ یہ پارٹیاں بین الاقوامی امور تو کیا خود ملک گیر امور کا شعور بھی نہیں رکھتیں۔ اس لیے مرکز میں ہندتو قوتوں کے برسراقتدار آجانے یا سرمایہ داروں کے مضبوط ہوجانے سے انھیں فی الحال کوئی پریشانی نہیں ہے۔ البتہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اگر سنگھ اپنے ہندتو ایجنڈے کا وہ حصہ ، جس کے تحت علاقائی شناختیں خطرے میں پڑسکتی ہوں، نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو لسانی ریاستوں میںبے چینی پھیلے گی اور کشمکش شروع ہوجائے گی جسے سنگھ محض اپنے آزمودہ ہندتو اِشیوز (رام مندر، مشترک سول کوڈ اور دفعہ ۳۷۰)کی آڑ میں دبا نہیں سکے گا۔ ویسے بھی مستقبل میں علاقائی شناختوں پر اصرار زور پکڑے گا،جس کاحالیہ مظہر تلنگانہ کا قیام اور اس کے خلاف سیماندھرا کے احتجاجی مظاہرے ہیں۔ اِسی طرح اگر سرمایہ دارانہ معیشت کے تقاضوں کے تحت درآنے والا مغربی کلچر حد سے گزرکر علاقائی تہذیبی روایات کو متاثر کرتاہے تو علاقوں میں اس کی مزاحمت شروع ہوجائے گی۔

دلت تحریکات

ملک کے پسماندہ اور دلت طبقات خصوصاً سماجی لحاظ سے کمتر سمجھی جانے والی برادریاں اور ان کے کارکنان ہر ریاست میں بے کردار واقع ہوئے ہیں۔ آزادی کے بعد سے آج تک اُن کے اندر ایسی کوئی مخلص تحریک پیدا نہیں ہوئی جو انھیں عزتِ نفس اور حقیقی انسانی مساوات کی بنیاد پر برہمنی سماجی نظام سے بالفعل آزاد کراسکتی۔ دلت لیڈر شپ اور عام دلت طبقات کا مقصد صرف معاشی آسودگی اور کچھ امور (اسکولوں، دفتروں، بازاروں اور دھارمک فنکشنوں)میں دکھاوے کی مساوات حاصل کرنا ہے۔ حقیقی سماجی برابری سے انھیں دلچسپی نہیں، نہ یہ مطلوب ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ برہمنی سماجی نظام (کاسٹ سسٹم) کا حصہ رہتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہے۔ بلکہ بعض طبقات کا تو یہ عقیدہ بن چکاہے، جِس کے خلاف سوچنا وہ پاپ سمجھتے ہیں۔ عملی اعتبار سے وہ ہر حال میں ورن ویوستھا کا حصہ بنے رہنا چاہتے ہیں؛ اس لیے کہ ملکی دستور نے سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن اور دیگر مراعات کی شکل میں انھیں بہت کچھ دے رکھاہے، اور برہمنی نظام سے علاحدہ ہوکر وہ اسے کھونا نہیں چاہتے۔ انکا ظرف، ان کی سوچ بس یہیں تک ہے۔ دلت لیڈر شپ نے برہمنی سماجی نظام کے علمبرداروں کو ہمیشہ بلیک میل کرنے کاکام کیا ہے۔ دھرم چھوڑنے یا دھرم تبدیل کرنے کی دھمکیاں محض برہمن پر دبائو بنانے اور زیادہ سے زیادہ معاشی مراعات حاصل کرنے کے لیے ہوا کرتی تھیں۔ دلت برادریوں کو ریزرویشن اور دیگر مراعات کے عوض برہمنی سوشیل آرڈر کے اندر بنائے رکھنا بہت کامیاب نسخہ پہلے ہی سے تھا۔ اب سرمایہ دارانہ نظام معیشت نے رولنگ کلاس کےلیے یہ کام مزید آسان بنادیا ہے۔ دلت ذاتوں کے لیے اب علاحدہ ’’دلت فیڈریشن آف انڈین چیمبرس آف کامرس اینڈ انڈسٹری‘‘ جیسے کاروباری ادارے قائم کیے جارہے ہیں تاکہ ان کے اندر سماجی لحاظ سے کمتر ہونے کااحساس نہ صرف زندہ رہے بلکہ وہ اس پر فخر بھی کرسکیں۔ لہٰذا موجودہ سیاسی تبدیلی اور اس کے دوررس اثراتِ بد سے دلت برادریوں میں کوئی پریشانی نہیں دیکھی جاتی۔

مجموعی منظرنامہ

حالیہ سیاسی تبدیلی کے بعد ملک کا مجموعی منظرنامہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے کہ مغربی طرزمعیشت کی یلغار اور مغربی طرززندگی کی نقالی میں شہریوں کے بیشتر طبقات ہر طریقے سے پیسہ کمانے کے جنوں میںمبتلا ہوجائیں گے۔ ہر چیز کو اُسی زاویۂ نظر سے دیکھاجائے گا، لکشمی پوجا کا عمل یہاں پہلے سے موجو د تھا،اب اس میںمزید آستھا پیداہوجائے گی۔ غریب طبقات اور دیہی آبادیوں کو بینکوں کی شاخوں کے نیٹ ورک اور ڈائریکٹ سبسڈی جیسی اِسکیموں کے ذریعے آمدنی بڑھانے کی دھن میںلگادیاجائے گا۔ اکثریتی سماج کی دھارمک مان نیتائیںبھی اس نئے رجحان کی تابع ہورہی ہیں۔

ملک کے پورے سیاسی، سماجی اور اقتصادی منظرنامے پر نظرڈالنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مملکتِ ہند اوریہاں کے باشندوں کی اکثریت زندگی کے مادہ پرستانہ راستے پر یکسوئی کے ساتھ گامزن ہوچکی ہے، امریکہ اور مغرب کا سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت و ثقافت یہاں اپنی جڑیں مضبوط کررہا ہے۔ اخلاقی قدریں اسی نظام کی پابندہوچلی ہیں۔ خدا اور مذہب کا تصور رسماً رہ گیا ہے۔ آر ایس ایس ایک مخصوص فلسفے اور کلچر کی بنیاد پر اس ملک کی تعمیر و تشکیل کی بات ضرور کرتی ہے، تاہم مغربی افکارونظریات سے اس کا براہِ راست تصادم نہیں ہے، اسکا فلسفہ مغرب کے لئے کوئی چیلنج بھی نہیں رکھتا، اس لئے کہ وہ عالمی نظریۂ حیات نہیں ہے۔ دونوں میں مفاہمت اور اِدغام کی پوری پوری گنجائش موجودہے۔ ہاں، دین حق اور اس کے ماننے والوں سے اپنی روایتی کدورت کو سنگھ برقرار رکھے گا؛ یہ بھی ہوسکتاہے کہ وہ امریکہ کی ’’وار آن ٹیررزم‘‘مہم کا حصہ بن جائے۔ اس ملک میں اسرائیل کا عمل دخل اور اثر بھی پہلے سے بہت بڑھ جائے گا۔ یہ سارے منفی اور غیرتعمیری کام یہاں ہوںگے۔ پورے ملک میں ایساکوئی حلقہ یا دانشوروں اور اہل علم کا گروپ نظر نہیں آتا نہ کوئی تحریک دکھائی دیتی جو اِن مادہ پرستانہ رجحانات کی مزاحمت کرے اور اس کے مقابلے میں خداپرستی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی بنیاد پر اس ملک کو حقیقی معنی میں مضبوط خوش حال اور ورلڈ پاور بناسکے سوائے تحریک اسلامی کے۔

تحریک اسلامی

اپنی فکر اور نظریۂ حیات کے لحاظ سے اس سرزمین پر صرف تحریک اسلامی ہے جو یہاں کے تمام انسانوں کی دنیوی فلاح اور اخروی نجات کاٹھوس پروگرام رکھتی ہے، لیکن تقسیم ہند کے بعد کے نامساعد حالات کی وجہ سے اسے اپنا یہ پیغام باشندگانِ ملک تک پہنچانے کے مواقع نہیں مل سکے۔ آزادی کے بعد کے فسادات کی مار، ایک حلقے کی طرف سے لگاتار مسلم مخالف پروپیگنڈے اور ملکی زندگی کے مختلف شعبوں میں مسلم کمیونٹی کے ساتھ بھیدبھائو سے پیدا شدہ صورت حال کی وجہ سے اس تحریک کو اپنے محدود وسائل، محدود افرادی قوت اور توانائی و توجہ کابڑا حصہ ملی کاموں پر صرف کرنا پڑا۔ پھر یہ تحریک جس ملت کو فریضۂ اقامتِ دین کی طرف متوجہ اور اس کے لئے تیار کرناچاہتی تھی، اس کی طرف سے تعاون نہیں ملا، الٹا غیرمتعلق مباحث میں الجھانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اِن دگرگوں حالات میں بھی یہ ناتواں تحریک اپنا کام بہرحال کرتی رہی۔

شعبۂ سیاست

جماعت اسلامی ہند نے اس ملک کی اجتماعی زندگی میںصحت مند تبدیلی لانے اور اسے اعلیٰ اخلاقی و انسانی قدروں کی بنیاد پر استوار کرنے کے لئے جو ذرائع ابتدا ہی سے اپنے پیش نظر رکھے ہوئے ہیں، ان میں ایک شعبہ انتخابی سیاست کا بھی ہے۔ دستور ہند کی روشنی میں جس طرح مختلف سیاسی حلقے اپنے فکرو فلسفے اور پالیسیوں کے مطابق ملک کی اجتماعی زندگی جسے عام طور سے سیاسی زندگی (پولٹیکل پبلک لائف) کہاجاتاہے، چلاناچاہتے ہیں، اُسی طرح جماعت بھی ملک کی تعمیر وترقی کاایک پروگرام رکھتی ہے۔ آزادی کے فوراً بعد یہ بحث چھڑگئی تھی کہ ملک کا آئندہ اجتماعی نظامِ زندگی کیاہو۔ ہر چند کہ انڈین نیشنل کانگریس کے سیاسی افکارو نظریات کی بنیاد پردستور ہند کی تدوین ہوچکی تھی اور ۱۹۵۰ء میں دستور نافذ بھی ہوگیاتھا، لیکن اس میں ترمیم و تبدیلی کے دروازے کھلے تھے۔ چنانچہ ابتدا میں اگر کانگریس کو اپنے سیاسی نظریے پر اصرار تھا تو اس کے مقابلے میں ایک مضبوط سوشلسٹ تحریک بھی موجود تھی۔ اگر معاشی مساوات کی بنیاد پر اشتراکی تحریک سرگرم تھی تو سوتنتر پارٹی بھی میدان میں تھی جو اول روز سے امریکی طرز پر سرمایہ دارانہ نظام کی حامی تھی۔اسی دوران کانگریس اور ہندومہاسبھا کے بعض لیڈروں نے بھارتیہ جن سنگھ کی تشکیل کی جو ویدک فکرو فلسفے اورہندوقوم پرستی کی بنیادپر ملک کی اجتماعی زندگی کی استواری چاہتاتھا۔

غرض دستور ہند تمام شہریوں کو اپنی بات، اپنے افکار و نظریات، قانونی اور پُرامن طریقوں سے پیش کرنے کا موقع فراہم کرتاہے، لہٰذا جماعت اسلامی ہند عقیدۂ توحید وآخرت کی بنیادپر اس ملک کے تمام باشندوں کو اپنی اجتماعی زندگی تشکیل دینے کی دعوت لے کر اٹھی تھی اور اس کے مختلف ذرائع (لٹریچر، اخبارات، تقاریر، اجتماعات، عوامی روابط وغیرہ) میں سے ایک ذریعہ پارلیمانی سیاست کابھی تھا۔ جماعت نے ابتدا ہی میںاعلان کردیاتھا کہ اس کے لئے انتخابی سیاست شجرممنوعہ نہیں ہے اور وہ جب مناسب سمجھے گی اِس شعبے کے ذریعے اپناپیغام پہنچانے اورمطلوبہ تبدیلی لانے کی کوشش کرے گی، لیکن جیساکہ کہاگیا، نامساعد ماحول کے سبب جماعت اس میدان میں کوئی پیش رفت نہ کرسکی۔

کام نہ ہونے کی بڑی وجہ

اس شعبے میں پیش رفت نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی رہی کہ ملک کے لادینی دستور کے تحت انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے سوال پر اول روز سے دو رائیں پائی جاتی تھیں۔ اس مسئلہ پر بحث و تمحیص کا سرگرم سلسلہ ۱۹۶۰ء کی دہائی کے اوائل میں شروع ہوگیاتھا۔ ایک حلقے کے نزدیک یہ عقیدے کامسئلہ تھا؛ ایک رائے یہ تھی کہ موجودہ دستور ہند کے تحت الیکشن میں حصہ صرف اسی صورت میں لیاجاسکتا ہے جب یہ اعلان کردیاجائے کہ اگر ہمیں اختیار حاصل ہوگیا تو ہم اس دستور کی تدوین و تشکیل خدا پرستی کی بنیاد پرازسرنو کریں گے۔ جو اہلِ فکر اسے عقیدے کامسئلہ نہیں بھی سمجھتے تھے اُن میں سے بھی بہت سوںکی رائے تھی کہ ہم موجودہ طرزسیاست میں شمولیت کے متحمل نہیں ہوسکتے جب کہ ایک حلقے کی رائے تھی کہ ہمیں موجودہ سیاست کی اصلاح اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے انتخابی سیاست میں شمولیت کا عمل شروع کردینا چاہیے۔ ذرہ برابر بھی شبہ نہیں کہ یہ تینوں حلقے اپنی اپنی جگہ مخلص تھے، پورے اخلاص نیت کے ساتھ سمجھتے تھے کہ ان کا موقف ہی سب کے حق میں بہتر ہے۔

بالآخر اسی بحث وتمحیص کے دوران ۱۹۸۵ء میں ووٹ نہ دینے کی پابندی اٹھاکر الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی مشروط اجازت دے دی گئی۔ اس کے بعد یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیا، اس لئے کہ شرح صدر حاصل نہ تھا۔ نظم کے لئے مشکل صورت حال پیدا ہوگئی۔ تاہم ۱۹۹۰ء میں تبدیلیٔ امارت کے بعد انتخابی سیاست کے موضوع کو ملتوی کرکے نئی میقات کو میقاتِ دعوت قرار دیاگیا، اس میقات کے بعد بھی الیکشن کے سوال پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ لیکن ۲۰۰۳ء میں مرکزی امارت میں تبدیلی کے بعد انتخابی سیاست میں شمولیت کے تذکرے نئے سرے سے شروع ہوگئے۔ اس دوران مرکزی قیادت کے اندر کی وہ شخصیات یکے بعد دیگرے اٹھتی چلی گئیں جو علمی و فکری سطح سے اس میں متردّدتھیں۔ پھر اکتوبر ۲۰۰۸ء میں کثرت رائے سے اپنی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیاگیا۔ لیکن اپریل ۲۰۱۰ء میں اِسے تبدیل کرکے طے کیاگیاکہ براہ راست اپنی پارٹی نہ بنائی جائے بلکہ ایک ایسی پارٹی کے قیام کی تحریک ہوجو اعلیٰ اخلاقی قدروں کی بنیاد پر ملک کی انتخابی سیاست پر اثرانداز ہوسکے۔ اور اسطرح ۱۹۸۵ء میں ووٹ نہ دینے کی پابندی ہٹانے کا جو فیصلہ غیریقینی کیفیت میں کیاگیاتھا، ۲۰۱۱ء میںوہ اپنے منطقی نتیجے تک پہنچا۔ کوئی شک نہیں کہ اِس اثناء میں رفقاکی اکثریت ہر سطح پر انتخابی سیاست کے لئے تیار ہوچکی تھی لیکن وجہ اس کی یہ رہی کہ علمی و فکری رہنما شخصیات کی جدائی کے ساتھ ہی فکری انحطاط کے اسباب پیداہوچکے تھے۔

انتخابی سیاست ایک نازک ،حساس ،افہام و تفہیم اور خصوصی مباحث کا طالب مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۸۵ء میںجب محض ووٹ کی پابندی ہٹانے کے ابتدائی قدم نے بے چینی پیدا کردی تھی توپورے ملک میں فیصلے کی تفہیم کا اہتمام کیاگیاتھا۔ لیکن ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۱ء کے فیصلوں کی تفہیم کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی جب کہ ان فیصلوں کی نوعیت بنیادی اور اصولی تھی۔ اس پورے مسئلہ میں قیادت کی منصبی ذمہ داری بھی تھی کہ قیادت اپنے رفقاء و متوسلین کے اندر نصب العین، اس کے مقاصد اور اس کی اصولی حیثیت کا شعور پیدا کرتی اور اس کے بعد یہ بنیادی مسئلہ ان کے سامنے رکھتی، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔

جہاں تک ارکان اور متوسلین کا تعلق ہے، یہ واقعہ ہے کہ جماعت کے کاموں میں وہ پوری طرح (شاید سب سے زیادہ) مخلص ہیں، جماعت کی اصل قوت بھی وہی ہیں۔قیادت پر مکمل اعتماد اور سمع وطاعت کاجذبہ رکھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ مرکز نے فیصلہ کیاہے تو درست ہوگا،اس لئے ہمیں اس کی پابندی کرنی چاہیے۔ اُن کی اس سوچ کے پیچھے یہ خواہش کارفرماہے کہ ہماری جماعت پھلے پھولے، ملک میں ایک مضبوط قوت کے طورپر ابھرے، ہمارے نمائندے قانون ساز ایوانوں میں جائیں، سرکاری ، سیاسی اور سماجی حلقوں میں ہمارا وزن ہو، ملت میں ہمارا نفوذ ہو۔ رفقاء و متوسلین کا یہ اعتماد اس لئے ہے کہ انتخابی سیاست کے مسئلے میں بالعموم ان کی اپنی کوئی رائے نہیں ہے۔

اختلاف ِ رائے رکھنے والے احباب کو اگر کبھی تبادلۂ خیال اور بحث و تمحیص کاموقع ملا تو کمزور دلیلوں کے علاوہ یہ عجیب و غریب خیال بھی سامنے آیا کہ ’’چونکہ اس پیچیدہ مسئلے پر عرصۂ دراز سے بحث ومباحثہ ہورہاہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا لہٰذا لوگ اب اس سے بیزار ہوچکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اب کوئی عملی تجربہ کرلیاجائے…۔‘‘ یا یہ کہ ’’ہم اس راہ پر بہت آگے جاچکے ہیں، اب واپسی مشکل ہے…۔‘‘غرض جو لوگ دوسری رائے رکھتے ہیں، انھیں اپنانقطۂ نظر تفصیل کے ساتھ پیش کرنے کا موقع نہ مِل سکا،اس طرح ملک کے سیاسی عمل پر اثرانداز نہ ہوسکنے کادوسرا بڑا سبب یہ تھا کہ فیصلے پر سب کو شرح صدر نہ تھا۔

اب تک کے تجربات

گزشتہ نو سال کے عرصے میں نچلی سطح پر کچھ تجربات کئے گئے جو زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہے۔ اب لوک سبھا کے حالیہ انتخابات پراثرانداز ہونے کی ناکام کوششوں سے بات پوری طرح صاف ہوگئی کہ فی الحال یہ ہمارا میدان نہیں ہے، ہم اس وادی میںکچھ نہیں کرسکتے نہ اپنی شناخت برقرار رکھ کر نہ خود کو اس میں گم کرکے ۔ اِن انتخابات پر دو طریقوں سے اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی تھی۔ پارٹی کے ذریعے اور خود اپنے طورپر بعض امیدواروں کی تائید کرکے۔ تقریباً ۳۵؍امیدواروں میں سے کسی کا جیتنا تو دور کی بات کوئی دوسری تیسری پوزیشن پر بھی نہیں آسکا۔ کم و بیش اتنے ہی حلقوں میں یوپی، بہار میں اُن امیدواروں کی حمایت کی گئی جن کے بارے میں خیال تھا کہ وہ فسطائی پارٹی کے امیدواروں کو شکست دے سکتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ کامیاب بھی ہوئے، لیکن نہیں کہاجاسکتاتھا کہ ان کی کامیابی میں ہماری اپیل کا کتنا حصہ تھا۔ البتّہ یہ ضرور ہواکہ اِس موقف نے فسطائیت پسند پارٹی کو بالواسطہ فائدہ پہنچایا۔ یہی کام کچھ مسلم رہنمائوںنے زیادہ بڑے پیمانے پر کیا۔ فرقہ واریت یا فسطائیت کے خلاف مسلمان جتنی شدت کے ساتھ آواز اٹھاتے ہیں، فرقہ پرست اور فسطائی قوتوں کو اتناہی زیادہ فائدہ پہنچتا ہے۔ فسطائیت یقیناً اس ملک کا بہت بڑا اور خطرناک مسئلہ ہے، لیکن اس کےخلاف مسلم رہنمائوں اور حقوق انسانی کے کچھ گروپوں اور بعض افراد کے سوا کسی بھی طبقے میں تشویش نہیں پائی جاتی اور یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے۔ ملک کی ذمہ دار جماعت ہونے کی حیثیت سے جماعت اسلامی ہند کو فسطائی خطرے کے خلاف آواز ضرور اٹھانی چاہیے لیکن صرف دانشوروں اور ذمہ دار شہریوں سے روابط و مذاکرات کے ذریعے۔ سیاسی سطح پر یہ کوشش نقصان دہ ثابت ہوگی۔

بعض توجہ طلب حقائق

(۱) انتخابی سیاست کے سوال پر طویل المدت مباحث کے بعد بھی شرح صدر کے ساتھ کسی نتیجے پر نہیں پہنچاجاسکا،

(۲) اس عمل میں بالواسطہ اور بلاواسطہ حصہ لینے کے اب تک کے تجربات لاحاصل اور ناکام رہے،

(۳) اخلاقی قدروں کی پامالی کے اندیشے پیدا ہوئے،

(۴) قیمتی مالی وسائل،توجہ اور وقت کا بڑا حصہ، توانائی کا بڑا حصہ صرف ہوا اورساکھ متاثر ہوئی۔

(۵) عملی سیاست کے سلسلہ میں جواندیشے ظاہر کیے گئے تھے وہ درست ثابت ہوئے۔

اِن حقائق کی تفصیل وتشریح تکلیف دہ ہے ۔اب تک کے تجربات و مشاہدات مشورہ دیتے ہیں کہ انتخابی سیاست میں شمولیت کا عمل اس وقت تک کے لیے ملتوی کردینا چاہیے جب تک کہ باشندگانِ ملک کی قابل لحاظ تعداد دینِ حق اور اس کی اخلاقی قدروں کی قبولیت کے لیے تیار نہیں ہوجاتی، خواہ اس میں کتنا ہی وقت درکار ہو۔ دینی تحریکات کی زندگی میں ۶۶ سال کی مدت کوئی زیادہ نہیں ہوتی، اور پھر ہم صرف کوشش اورمساعی کے مکلف ہیں، نتائج کے نہیں کہ وہ اللہ کے اختیار میں ہیں۔ اس دوران تحریک اپنے بنیادی کام کی طرف لوٹ جائے اور خادمانِ تحریک ہر قسم کی ذاتی خواہشات اور نام ونمود کی طلب سے بالاتر ہوکر صرف مرضیٔ مولا کی تکمیل اور اجرِ آخرت کو سامنے رکھ کر پوری یکسوئی کے ساتھ وہ ماحول تیار کرنے میں لگ جائیں جس میںکہ لوگ تحریککےخادموں کے پاس ازخود چل کر آئیں اور کہیں کہ ’’آپ گائووں کی پنچایتوں، بلدیاتی اداروں اور قانون ساز ایوانوں کے الیکشن میں اپنی شرائط پر حصہ لیں، حلف جس طرح چاہیں لیں، مشرکانہ ترانوں میں شریک ہوں یا نہ ہوں، متوفی لیڈروں کی تصویروں پر پھول مالائیں چڑھائیں خواہ نہ چڑھائیں، انھیں شردھانجلیاں پیش کریں یا نہ کریں، سمادھیوں پر حاضری دیں یا نہ دیں، خواتین کے ساتھ بیٹھیں یا علیحدہ بیٹھیں۔۔۔۔۔غرض آپ اپنے طریقےسے کام کریں، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔‘‘

یہ خیال بظاہر بہت مشکل اور غیرعملی معلوم ہوتاہے، انتخابی سیاست کے جوشیلے حامیوں کے زہرخند کا سبب بھی بن سکتا ہےلیکن ناممکن نہیں ہے، پھر اس کے علاوہ اب کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔

دوسری آزمائش، دوسرا موقع

تحریکِ اسلامی کے خادموںکو پہلی آزمائش کا سامنا تقسیم اور آزادیٔ ہند کے فوراً بعد کرنا پڑاتھا، جب انتہائی نامساعد حالات میں انھوںنے اپنا کام شروع کیاتھا حالانکہ وہ اِس پوزیشن میں نہیں تھے۔ لیکن کام شروع اس لیے کرنا پڑاکہ یہ ان کے فرض منصبی کا تقاضا تھا، کوئی اور جماعت یا حلقہ موجود نہیں تھا جو یہ کام کرسکتا۔ اور اب ۶۶ سال بعد یہ دوسرا موقع ہے جب ملک میں بظاہر بہت بڑی سیاسی تبدیلی واقع ہوچکی ہے۔ جو لوگ برسراقتدار آئے ہیں،ویسے تو وہ پورے ملک کی ترقی اور تمام شہریوں کی بھلائی کی بات کررہے ہیں لیکن عملاً وہ کچھ مخصوص طبقات کے خیرخواہ ہیں، تمام انسانوں کی خیرخواہی ان کے طے شدہ اصولوں کے خلاف ہے۔ ان کے ناپسندیدہ انسانوں میں مذہبی اقلیتیں ہی نہیں، خود اکثریتی فرقے کی بہت بڑی آبادی بھی ہے جسے سماجی لحاظ سے عقیدے کی بنیاد پر کمتر سمجھاجاتاہے۔اور پھر ترقی وخوش حالی کے سلسلہ میں اِن لوگوں کے تصورات مادی ہیں، اِسی زندگی تک محدود ہیں۔ ایسا کوئی گروہ موجود نہیں ہے جو اِس دنیا میں تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کے علاوہ ان کی اخروی فلاح و نجات کی بات کرتاہو۔ ایسے کسی فلسفے اور نظریۂ حیات کا پتہ دور دور تک نہیں۔ کائنات میں صرف دینِ اسلام ہے جو اپنے معقول عقیدۂ توحید کی بنیاد پر تمام انسانوں کو باہم جوڑتاہے، ان کے ساتھ ہر حال میں انصاف کرتا ہے، دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف کامعاملہ کرتا ہے۔ اس لئے تحریک اسلامی کے خادموں کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ برسراقتدار طبقے سمیت تمام باشندگانِ ملک کو بندگی رب کی طرف بلائیں۔ ایک لحاظ سے دیکھاجائے تو ایسی صورت گزشتہ ۶۶ سال میں کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ دعوت کےمواقع پہلے سے کہیں زیادہ اب ہیں۔ پھر یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ آج جو لوگ برسراقتدارآئے ہیں وہ ناستک یا خدابیزار نہیں ہیں، دھرم اور اخلاقی اقدار کے کسی نہ کسی درجے میں قائل ہیں، انسانی، اخلاقی اور سماجی لحاظ سے اُن میں اور دین حق کے ماننے والوں میں کئی اقدار و روایات مشترک ہیں، لہٰذا نام نہاد سیکولرسٹوں، سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کی بہ نسبت ان سے بات کرنا آسان ہے۔ ہماری نئی حکمت عملی کے تحت ہماری دعوت کا مخاطبِ خصوصی یہی طبقہ ہونا چاہیے۔ اسی پر خصوصی توجہ دی جائے۔ ہمارا مقصد ہاتھوں کو بدلنا نہیں دلوں اور دماغوں میں تبدیلیاں لانا ہے۔ اعلیٰ سطح سے آنے والی تبدیلی دیرپا ہوتی ہے۔ نئے حالات میں فکرو عمل کی یہ بالکل نئی راہ ہمارے لئے کھل گئی ہے۔ اسلام جیسا عظیم الشان نظریۂ حیات رکھنے والوں کے اندر کسی بھی درجے کا احساسِ کمتری نہیں ہوناچاہیے، خوف اور مایوسی کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، صرف حوصلے درکار ہیں جو اللہ کی طرف سے ہمیں یقیناً ملیں گے۔ اصل دعوت کی طرف لوٹنا ہے۔ ماضی کے نقوش کو سامنے رکھ کر مستقبل کے خطوط متعین کرنے ہیں۔

فکرو عمل کے تین شعبے

فکرو عمل کی جو نئی راہیں کھلی ہیں اُن میں ہم تین شعبوں پر خصوصی توجہ دیں:

(۱) دعوت

(۲) اسلامی معاشرہ

(۳) خدمتِ خلق

بنیادی طورپر تویہ ایک ہی شعبہ، ایک ہی عنوان ہے۔ کارِ دعوت کے لیے اسلامی معاشرے کا قیام ضروری ہے تاکہ مدعو معاشروں کے سامنے ایک عملی نمونہ رہے۔ ہندوستان جیسے معاشرے میں دونوں کام ایک ساتھ ہوسکتے ہیں اور ہونے چاہئیں۔ ویسے اسلامی معاشرہ بجائے خود مطلوب ہے۔ اور اسلامی معاشرے کے قیام کا آغاز فردِ مسلم کے صحیح معنی میں باعمل مسلمان بن جانے سے ہوتا ہے۔ لہٰذا نئی منصوبہ بندی میں اسلامی معاشرے کے قیام پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہوگی۔ اِسی طرح خدمتِ خلق کے کام کی رفتار، بڑے بڑے شہروں سے لے کر قصبات اور دیہات تک پہلے سے تیزہونی چاہیے۔ خدمت خلق کے تعلق سے دوباتیں کہی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ دین اسلام کو یہ کام بھی بجائے خود مطلوب ہے۔ یہ بلالحاظِ مذہب وملت بے لوث طریقے سے کیاجانا چاہیے، اس کے پیچھے کوئی اور غرض نہ ہو، دوسری یہ کہ اگر اس میں (ضمناً) دعوت اور ترغیب دین کی نیت یا غرض ہو تو بھی کوئی قباحت نہیں اس لئے کہ عوام الناس کو دین حق کی طرف راغب کرنا بھی ان کی خیرخواہی ہے، یہ دعوت انسانوں کے اپنے بھلے یعنی فلاح و نجات کے لیے دی جاتی ہے، اس کے پیچھے کوئی ذاتی یا دنیوی غرض نہیں ہوتی۔ بہرحال خدمتِ خلق کا کام دونوں صورتوں میں ضروری ہے، اس سے صالح اور صحت مند ماحول بنانے میں مدد ملتی ہے۔

دیگر شعبے

کارِ دعوت، اسلامی معاشرے اور خدمت خلق کے علاوہ اُن شعبوں میں بھی کام حسب دستور جاری رہے جنھیں جماعت نے اول روز سے اپنی ترجیحات میں شامل رکھا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں بحمدللہ، جماعت نے بیش بہا خدمت انجام دی ہے۔ اب نئے حالات اور نئے تقاضوں کے تحت اس میں تبدیلی اور تیزی لائی جاسکتی ہے۔ اِسی طرح روزگار کا مسئلہ ہے، جس میں دوسری جماعتوں اور اداروں کے ساتھ مل کر کام کیاجاسکتا ہے۔ خواتین کے اندر شعور اور بیداری نیز انھیں فعال ومتحرک بنانے کاکام بہت ضروری ہے لیکن یہ کام مغرب کے فیمنزم یا گردو پیش کی سرگرمیوں سے مرعوب یا متاثر ہوکر نہیں بلکہ اپنی اجتماعی زندگی کی ضروریات کے مطابق اپنے دینی واخلاقی دائرے میں ہو۔

ملی اجتماعی کاموں میں شرکت بھی حسب سابق جاری رہے، مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم مجلس مشاورت جیسے اداروں کے ساتھ تعاون پہلے سے زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔ لیکن کوشش کی جائے کہ نئے حالات میں یہ ادارے بھی اپنا طرزبدلیں اور گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر پوری ملت کے مجموعی مفاد کو سامنے رکھ کر آگے بڑھیں۔

خلاصۂ کلام یہ کہ ملک میں سیاسی حالات کی تبدیلی بظاہر شر ہے، لیکن اس میں خیر کے بہت سے پہلو ہیں۔ ہمارے لئے سب سے اہم پہلو یہی ہے کہ اس سے ہمیں فکرو عمل کی نئی راہیں ملی ہیں، اب ہم نئے سرے سے، نئی توانائی ،نئے جذبے اور نئی حکمت عملی کے ساتھ اپنے منتخب راستے پر گامزن ہوسکتے ہیں۔ اللہ ہمارا ناصر و مددگار ہو۔

مشمولہ: شمارہ اگست 2014

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223