’مسلم پرسنل لاء‘ کا تحفظ

اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شر پسندوں کے شیطانی حربے اور سازشیں نئی نہیں ہیں، بلکہ صدیوں پرانی ہیں۔ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوںکو آزادی سے قبل بھی گونا گوں مسائل سے دوچار ہونا پڑا ہے اور آج بھی ہو رہے ہیں۔کبھی ان سے متحدہ قومیت پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو کبھی وحدت ادیان کو قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، کبھی ان کے ملک سے وفا داری کا سرٹیفکٹ مانگا جاتا ہے، کبھی اپنے ملک سے ان کی وفاداری کو مشکوک کرنے کی ناپاک کوشش کی جاتی ہے، کبھی ان سے ہندتوا کے ایجنڈے کی تائید و حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، کبھی یکساں سول کوڈ کو ان پر زبردستی تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

موجودہ وقت میں ہمارے ملک میں اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کو جس منصوبہ بند طریقے سے ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا وہ اس ملک کے اہل علم اور اصحاب فکر و دانش کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہے۔ حکومت وقت پورے ملک کو ’ بھگوا‘ رنگ میں رنگنے کے درپے ہے۔یہ امت مسلمہ کے لیے بہت نازک وقت ہے۔یہاں کے رہنے بسنے والے مسلمانوں کو اس کی نزاکت کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ وقت لوگوں کو آپسی رنجشیں گنانے، اپنے اپنے مسلک اور گروہ کے نظریات کو ہوا دینے کا نہیں ہے، بلکہ پوری امت مسلمہ کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے ، دشمن کے مد مقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانے اور شریعتِ اسلامیہ کے تحفظ کے لیے مر مٹنے کا ہے۔

الحمد للہ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ مسلمانوں کے تمام طبقات، گروہ، جماعتیں،ادارے اور مسالک ، شریعت اسلامیہ کے تحفظ کے لیے متحد ہو چکے ہیں اور تمام لوگوں نے متفقہ طور پر یہ اعلان کر دیا ہے کہ شریعت میں کسی بھی قسم کی مداخلت ناقابل برداشت ہے۔

موجودہ وقت میں ہندوستان میں امت مسلمہ جن نازک مسائل سے دو چار ہے ان میں ’ مسلم پرسنل لا‘ کے تحفظ کا مسئلہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں ایک لمبے عرصے سے مسلم پرسنل لا کو نشانہ بنایا جارہا ہے، حکومتیں اور عدالتیں مسلم پرسنل لا کے بنیادی خطوط کو ملک کی ایکتا و اکھنڈتا کے لیے خطرہ بتاتی رہی ہیں، لیکن  یہاں کے  مسلمانوں کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ مسلم پرسنل لا کی بنیاد قرآن و حدیث پر ہے، اس لیے اس میں تبدیلی کی سرے سے کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔

ہمارے ملک میں رائج قوانین کی دو قسمیں ہیں: ایک سول کوڈ(Civil code) اور دوسرا کریمنل کوڈ( (Criminal code۔ یہ قوانین ملک کے تمام شہریوں کے لیے یکساں ہیں، ان میں کسی بھی نوعیت کی تفریق نہیں ہے۔ اس میں پہلی قسم ’ سول کوڈ‘ کے دائرے میں ہے ، جس میں وہ تمام قوانین شامل ہیں جن کا تعلق معاشرتی، تمدنی، معاملاتی امور سے ہے۔ دوسری قسم جرائم سے متعلق ہے۔ البتہ سول کوڈ کا ایک حصہ وہ ہے ، جسے پرسنل لا بھی کہا جاتا ہے۔ ملک میں بعض اقلیتوں کو، جن میں مسلمان بھی شامل ہیں، ان کے مذہب کے لحاظ سے کچھ خصوصی شعبوں میں الگ مذہبی قوانین پر عمل کرنے کی آزادی دی گئی ہے ۔ اسے ’ مسلم پرسنل لا‘ کا نام دیا گیا ہے۔اسی قانون کے تحت دستور میں مسلمانوں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر نکاح، طلاق، خلع، فسق نکاح، وراثت، وقف وغیرہ سے متعلق مقدمات سر کاری عدالتوں میں دائر کیے جائیں گے اور اگر دونوں فریق مسلمان ہوں گے ، تو سرکار ی عدالتیں اسلامی شریعت کے مطابق فیصلہ کریں گی۔

حکومت اور سیکولر فکر رکھنے والوں کی اس ملک میں یکساں سول کوڈ (Uniform sivil code) نافذ کرنے کی وکالت بہت پرانی ہے ۔ہندوستانی دستور کے مرتب کرتے وقت ہی یکساں سول کوڈ کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ دستور ہند میں  دفعہ ۲۵کے مطابق ہندوستان میں رہنے والے شہریوں کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی ہے ۔ اس کے مطابق : تمام شہریوں کو آزادیٔ ضمیر اور آزادیٔ مذہب ، کسی بھی مذہب کی پیروی کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا مساوی حق حاصل ہے، بشر طے کہ امن عامہ، اخلاق عامہ، صحت عامہ اور اس حصہ کی دیگر توضیحات اس سے متأثر نہ ہوں۔ (بھارت کا آئین، ترقی اردو بورڈ، ص ۴۶) دستور ہند میں ایک طرف تو اقلیتوں کو بہت سے حقوق عطا کیے گئے ہیں، ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے، وہیں دوسری طرف اسی دستور میں ایک اور دفعہ ، دفعہ ۴۴ بھی شامل کر دی گئی ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ : حکومت شہریوں کے لیے ایک ایسا مشترکہ سول کوڈ رائج کرنے کے لیے جدو جہد کرے گی، جس کا نفاذ ہندوستان کے طول و عرض میں ہو۔ (بھارت کا آئینِ ترقی اردو بورڈ، ص ۵۸)

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ایسی ہے جو شریعت اسلامیہ اور مسلم پرسنل لا سے ناواقف ہے۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے، مسلمانوں میں پرسنل لا کی تفہیم و تشریح اور اس تعلق سے ان کے اندر بیداری لانے کے لیے ایک بہت اچھا موقع ہے۔موجودہ حکومت، عدالتوں اور کچھ  سیکولر لوگ مسلم پرسنل لا کو ختم کرنے، مسلمانوں کو دستور ہند میں حاصل حقوق سے محروم کرنے اور یکساں سول کوڈ کے نافذ کرنے کی منصوبہ بند کوشش کر رہے ہیں۔دیکھا جائے تو اس معاملے  میںمسلمان بھی کسی حد تک قصور وار ہیں ۔ جب کبھی ان کے درمیان نزاعات پیش آتے ہیں، تو وہ اپنے مذہبی اداروں ، دار الافتاء، دار القضاء وغیرہ کے ذریعہ انھیں حل کرانے کے بہ جائے سرکاری عدالتوں کا رخ کرتے ہیں ، اس طرح وہ خود عدلیہ کو اپنے  پرسنل لا میں مداخلت کا موقع فراہم کرتے ہیں۔مسلم عوام کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ اختلافات و نزاعات میں کورٹ، کچہری کے چکر لگانے کے بجائے شرعی پنچایتوں اور دار القضاء  کے ذریعہ اپنے مسائل کو حل کرانے کی کوشش کریں۔

اگراب بھی مسلمانوں نے اپنے پرسنل لا کے لیے متحد ہو کر آواز بلند نہ کی اور یکساں سول کوڈ اس ملک میں نافذ ہو گیا تو یاد رکھیے، معاشرے اور سماج میں فحاشی و عریانیت کا وہ ننگا ناچ دیکھنے کو ملے گاجو ہندوستان کی پوری تاریخ میں اب تک کسی آنکھ نے نہ دیکھا ہو گا۔ چونکہ ہندوستان میں جوکچھ شرم وحیاء تہذیب اوررشتے کی پاسداری ہے وہ سب مسلمانوں کی وجہ سے ہے۔ اگر مسلمانوں کی شریعت سے کھلواڑ کیا گیا توملک کی معاشرتی زندگی تباہ وبرباد ہوجائے گی۔ اسلام کا تعمیر کردہ قلعہ ’پردہ‘ کا تصور ختم ہو کر رہ جائے گا، مسلمان خواتین کو بازاروں،سڑکوں، کلبوں ، تفریح گاہوں کی زینت بننے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ رہ جائے گی۔ غرض یہ کہ اسلامی خاندان اور معاشرہ کا تصور منہدم ہو کر رہ جائے گا اور مسلمان خواتین کو غیر مسلموں مردوں سے شادی کرنے سے کوئی طاقت نہیں روک پائے گی اور ہر طرف ظلم و تاریکی کا دور دورہ ہوگا۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2016

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223