سوال 8 (دوسری نسل کی ایک طالب علم کی جانب سے):
مجھے نہیں لگتا کہ خدا انصاف پرور اور عادل ہے کیوں کہ جنت حاصل کرنے کا یکساں موقع سب کو نہیں ملتا ہے۔ میری ایک کزن ہے جو مسلمان ہے۔ اس کے والدین کا انتقال اس کی کم عمری میں ہوگیا تھا اور اس کی پرورش اس کے چچا نے کی تھی۔ اس کے بچپن میں چچا نے اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہا جب تک کہ وہ اٹھارہ انیس سال کی نہیں ہوگئی اور اس کے بعد اپنے چچا کے گھر سے چلی گئی۔ آج وہ لڑکی جسم فروشی کے پیشے میں پڑ چکی ہے۔ ایک ایسی لڑکی جس نے اس طرح کے خراب ماحول میں پرورش پائی ہو اور اس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہو اس کا موازنہ مجھ جیسی لڑکیوںسے کیسے کیا جاسکتا ہے جو اچھے اور اخلاقی خاندانی ماحول میں پلی بڑھی ہیں؟ مجھے یہ ٹھیک نہیں لگتا ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ اس زندگی میں نیکی میں ہمارا ارتقا آخرت میں ہمارے انجام سے جڑا ہوا ہے (ملاحظہ کیجیے اس سلسلے کی قسط ۱۰)۔ اس سوال میں بہت درست نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ ہم میں سے بعض دوسروں کے مقابلے میں بہتر پس منظر کے حامل ہوتے ہیں۔ بعض ایسے مثالی خاندانوں میں پیدا ہوتے ہیں، جو امن و سکون، محبت و مودت اور مسرت کے گہوارے ہیں۔ بعض کو ان کی کم عمری ہی سے اخلاقی و روحانی تربیت ملتی ہے۔ بعض کو تحمل مزاجی، ذہانت اور خوب صورتی سے نوازا گیا ہے اور وہ اپنے حوالے سے مثبت شبیہ (positive self-image)رکھتے ہیں۔ بعض ایسے بھی ہیں جن کی اس سوال میں مذکورہ نوجوان خاتون کی طرح بہت خراب ماحول میں پرورش و پرداخت ہوتی ہے۔ یہ واقعی مناسب نہیں لگتا کہ ہمارے پس منظر سے مکمل چشم پوشی کرتے ہوئے ہماری نیکیاں ایک ہی ترازو سے تولی جائیں۔
ایک شام کو میں اور میری فیملی سیر کے لیے گھر سے باہر آئے ہوئے تھے۔ میری سب سے چھوٹی بیٹی، جو ہم میں سے باقی لوگوں کے پیچھے پیچھے سائیکل پر تھی، اچانک تیزی سے قریب سے گزری۔ وہ سائیکل کے پیڈل پرر کھڑی ہوگئی۔ اس کے لمبے بھورے بال ہوا میں لہرا رہے تھے۔ وہ خوشی سے چلائی، ’’میں فطین لینگ ہوں اور میں خود کو بہت پسند کرتی ہوں!‘‘ میں اور میری اہلیہ ہنسنے لگے ۔ میں نے رضیہ کی طرف دیکھا اور کہا ’’شاید یہ ہماری تربیت کا اثر ہے۔‘‘
یہ حیرت انگیز امر ہے کہ سیلف امیج اتنی کم عمری میں بننے لگتی ہے۔ میری بیٹیاں ہمیشہ مجھ سے پوچھتی ہیں کہ وہ کتنی پرکشش ہیں۔ ’’کیا میں خوب صورت نہیں ہوں، ابو؟‘‘ وہ مجھ سے پراعتماد لہجے میں کہتی ہیں۔ میری بیوی بھی اکثر اپنے بارے میں یہی کہتی ہے، جب کہ وہ ایک ہی سانس میں یہ اعتراف بھی کرتی ہے کہ اسے اپنا وزن کچھ کم کرنا چاہیے، ’’میرا وزن بڑھ گیا ہے‘‘ وہ کہتی ہے، ’’لیکن میں جانتی ہوں کہ میں خوب صورت ہوں۔‘‘
خدا کے فضل سے میری زندگی میں آنے والی تمام خواتین یقیناً خوب صورت ہیں۔ ان کا حسن ان کے اندرون سے روشن ہے۔ لیکن جب وہ اس طرح کے بیانات دیتی ہیں تو وہ آئینے کے عکس سے آگے کی بات بیان کر رہی ہوتی ہیں۔ یہ وہ شبیہ ہے جو وہ اپنے اپنے ذہنوں اور دلوں کے ذریعے دیکھتی ہیں۔ مجھے بھی بسا اوقات بتایا گیا کہ میں خوبرو ہوں، لیکن مجھے کبھی اس پر یقین نہیں آیا۔ مجھے لگتا ہے کہ محض میرا دل رکھنے کے لیے یا مذاق میں مجھ سے یہ بات کہی جارہی ہے، کیوں کہ عمر بھر مجھے اپنے تئیں حسن نظر نہ آسکا۔ جب میں اپنے اندرون میں جھانکتا ہوں تو مجھے ایک مسخ اور مجروح انسان نظر آتا۔ داغ دار اور بگڑے ہوئے چہرے والا۔ میں جانتا ہوں کہ شاید میرا یہ احساس تا عمر قائم رہے گا لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ شبیہ بتدریج دھندلا رہی ہے۔
جس شہر میں میں پلا بڑھا اسے ہماری ریاست میں ’’کنیکٹیکٹ کی بغل‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بدعنوان اور پرتشدد افراد کی جگہ تھی۔ جب میں نوعمر تھا تو ان دنوں بڑے پیمانے پر نسلی تشدد، فسادات، گروہی لڑائیاں اور جرائم ہوتے تھے۔ ہماری پولیس فورس کو ٹیلی ویژن نیوز پروگرام ’60 منٹس ‘میں ملک کی سب سے بدعنوان پولیس کے طور پر دکھایا جاتا تھا۔ میرے کئی دوست جیل کی ہوا کھاچکے تھے۔ بعض نے بڑے گھناؤنے اور پرتشدد جرائم کا ارتکاب کیا تھا ۔ کچھ چور اور ڈکیت بھی بن گئے اور بہت سے منشیات کے ڈیلر بھی بنے۔ ان دنوں کم و بیش ہر نوجوان کسی نہ کسی شکل میں منشیات کا عادی ہوا کرتا تھا۔
ہماری گھریلو زندگی بیرونی انتشار سے بھی بدتر تھی۔ گھر میں رہنا گویا قید خانے میں رہنے جیسا تھا، گویا کسی کو زندہ دفن کردیا جائے۔ میرے والد ایک پرتشدد شرابی تھے جو اپنی بیوی سے بدسلوکی کیا کرتے تھے۔ میرے بھائی منشیات کی اسی تاریک گلی میں بھٹک گئے۔ میرے سب سے بڑے بھائی کو بیس سال کی عمر میں شراب کی لت لگ چکی تھی۔ میرا دوسرا بڑا بھائی بھی تقریباً اسی عمر میں شرابی بن گیا۔ والدین کا تیسرا بیٹا، جو مجھ سے ایک سال بڑا تھا، اپنے ہائی اسکول ہی سے ہیروئن کا عادی بن گیا۔ سب سے چھوٹے بھائی نے، جس سے میں بہت قریب تھا، تیرہ سال کی عمر میں منشیات کا استعمال شروع کردیا تھا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد میں نے حصول تعلیم کی غرض سے گھر چھوڑ دیا تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ منشیات کی لت متعدی ہوتی ہے، لیکن مجھے اس بات کا یقین ضرور ہے کہ اس سے پیدا ہونے والی مایوسی متعدی ضرور ہے۔
اس کے باوجود، جب میرے دوست اور رفیق اس بات پر تعجب کرتے ہیں کہ میں اپنے بچپن میں کس طرح ’’بچا‘‘ رہا اور بچپن کے تمام تر تاریک ماحول کے باوجود اب ایک عام اور خوش گوار زندگی کس طرح گزار رہا ہوںتو میرا پہلا رد عمل ہمیشہ حیرانی ہوتا ہے ۔ صرف اس لیے کہ مجھے ان سے کچھ زیادہ خراب ماحول کا سامنا کرنا پڑا، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اخلاقیات یا صحت مند امنگوں سے تہی دامن ہوجاؤں۔ شاید وہ شخصیت کے ارتقا پر ماحول کے اثرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ میں پلا بڑھا ان کی اکثریت آج اچھی اور مہذب زندگی گزار رہی ہے۔ شاید میں کوئی نیک اور پرہیز گار شخص نہیں تھا اور نہ ہی مجھے اب اپنی نیکی کا کوئی غرہ ہے، لیکن میرے اندر صحیح و غلط، سچائی اور بھلائی کا شدید احساس تھا، اگرچہ کبھی کبھی میری اس سے پنجہ آزمائی ہوتی تھی، جس سے یہ احساس مدھم پڑ جاتا تھا۔ میں یہ نظریہ نہیں مانتا کہ ہمارا جینیاتی کوڈ اور ہمارا ماحول ہماری شخصیت کے خدوخال کا تعین کرتا ہے۔ میں انسانوں کے اخلاقی و روحانی احساسات کے حامل ہونے پر یقین رکھتا ہوں جو ان کے انتخاب کے مطابق بڑھتا یا کم ہوتا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ماحول یا جینیات ہماری نشوونما پر اثر انداز نہیں ہوتے — یہ کبھی نہ ختم ہونے والی بحث ہے—لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کے لیے ارادہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
بایں ہمہ، یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ زندگی مساوی مواقع کا میدان فراہم نہیں کرتی۔ ہم میں سے کچھ ایسے حالات میں پیدا ہوتے ہیں جو نیکی کے حصول کے لیے زیادہ سازگار ہوتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قرآن اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نیک اعمال کی خوبی متغیر ہوتی ہے جب کہ غلط اعمال کا نقصان بڑی حد تک یکساں ہوتا ہے۔
اللہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اُسے دو چند کرتا ہے اور پھر اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے۔(النساء: 40)
جو اللہ کے حضور نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے دس گنا اجر ہے، اور جو بدی لے کر آئے گا اس کو اتنا ہی بدلہ دیا جائے گا جتنا اس نے قصور کیا ہے، اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا۔ (الانعام: 160)
جو کوئی بھلائی کمائے گا ہم اس کے لیے اس بھلائی میں خوبی کا اضافہ کر دیں گے۔ بے شک اللہ بڑا در گزر کرنے والا اور قدر دان ہے۔ (الشوریٰ: 23)
اگرچہ برے عمل کا بدلہ اس کے مساوی ہے جب کہ نیک عمل کے اجر میں کافی فرق ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کسی عمل کی بھلائی اور اس کے مثبت اثرات ان مزاحمتوں کے ساتھ بڑھتے ہیں جن کا اسے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چناں چہ نبی ﷺ کی دعوت پر ان کے مشن کے آغاز میں لبیک کہنا—جب کہ اس وقت مسلمان بہت کم تھے اور مخالفت سب سے زیادہ شدید تھی— فتح کے وقت اس مشن کا حصہ بننے سے زیادہ قابل قدر ہے۔
تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی اُن لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنھوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے اُن کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے با خبر ہے (الحدید: 10)
کسی ایسے شخص کی سخاوت یا نیکی ایک معمولی عمل ہوسکتی ہے جسے اللہ نے فراوانی سے وسائل یا آسانیاں بخشی ہوں، جب کہ کسی ایسے شخص کا ویسا ہی عمل عظیم اخلاقی و روحانی کارنامہ ہوسکتا ہے جسے انجام دینے میں اس نے شدید مصائب اور آزمائشوں کا سامنا کیا ہو۔ اسی چیز پر قرآن زور دیتا ہے کہ ہمیں جو کچھ زندگی میں دیا گیا ہے—علم، شخصیت، دولت، ماحول اور سماجی رتبہ—اسی کے مطابق ہماری آزمائش کی جاتی ہے اور کسی پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔
وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ بلند درجے دیے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمھار ی آزمائش کرے۔ بے شک تمھارا ربّ سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے اور رحم فرمانے والا بھی ہے۔ (الانعام: 165)
اللہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے۔ (البقرۃ: 286)
ہم کسی شخص کو اس کی مقدرت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے، جو (ہر ایک کا حال) ٹھیک ٹھیک بتا دینے والی ہے، اور لوگوں پر ظلم بہر حال نہیں کیا جائے گا۔(المومنون: 62)
ایسے ماحول میں کسی مصیبت زدہ کی مدد کرنا جو محفوظ و مامون ہو ایک نیک کام ہے لیکن یہی عمل اگر کسی ایسے مقام پر کیا جائے جہاں ذاتی بقا داؤں پر لگی ہو اور کسی انسان کی ابتلاء و آزمائش قابل اعتنا نہ گردانی جائے، تو وہاں یہ عمل اور بھی قابل تحسین بن جاتا ہے۔ اگر کوئی غریب شخص سو روپیہ خیرات کرتا ہے تو وہ کسی مال دار شخص کے سو روپے خیرات کرنے سے کہیں زیادہ وقیع عمل ہے۔ عمل کی اضافیت کا یہ تصور ان احادیث سے اور کھل کر سامنے آتا ہے جو اللہ کی لامحدود صفت رحیمی کے بارے میں ہیں۔ ایک عورت جو کسی ضرورت مند کو لبن (دہی یا مٹھا) دیتی تھی اور کسی کی غیبت نہیں کرتی تھی اس کے بارے میں نبی کریم نے فرمایا کہ وہ جنت کی مستحق ہے، اگرچہ وہ نماز روزے میں کوتاہی برتتی تھی (مشکوۃ: 4992)۔ ایک ڈاکو جو سو قتل کا مرتکب تھا، اسے ایک اللہ والے نے توبہ کی نصیحت کی اور نیک لوگوں کی بستی میں جانے کا مشورہ دیا۔ ابھی وہ آدھے راستے ہی میں تھا کہ قضا نے آلیا۔ لیکن اللہ نے اس کی سچی توبہ کو قبول کرکے جنت میں داخل کردیا (بخاری: 174)۔ اسی طرح جسے زیادہ نعمتوں سے نوازا جاتا ہے اس سے زیادہ اعمال صالحہ کی توقع ہوتی ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ اگر نبی اکرم پیغام الہی کو لوگوں تک پہنچانے میں کوتاہی برتتے تو ان پر دوہرا عذاب ہوتا، یہی بات امہات المومنین کے سلسلے میں فرمائی گئی (33: 30)۔
لہذا آخرت میں اجر کا انحصار محض اس پر نہیں ہے کہ زندگی کے خاتمے تک ہم نیکی کے کس درجے پر پہنچتے ہیں بلکہ اس بات پر بھی ہے کہ ہم نے وہاں تک پہنچنے میں کتنی تگ و دو کی ہے۔ زندگی میں یہی اخلاقی و روحانی فاصلہ جو ہم اس زندگی میں طے کرتے ہیں یعنی ہم نے خدا کی عطا کردہ نعمتوں کے تناظر میں جو پیش رفت کی ہے۔ یہی پیش رفت آخرت میں ہماری حالت کی عکاسی کرے گی۔ لہٰذا، ہر چند کہ میں مذہبی بنیادوں پر کسی کے طرز عمل کو ناپسندیدہ کہ سکتا ہوں، لیکن خدا کے ساتھ اس کا تعلق کیسا ہے یہ نہیں بتا سکتا۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی فرد ظاہری طور پر کسی دوسرے سے زیادہ صالح اور باعمل ہو لیکن خدا کی نظر میں دوسرے کے اچھے عمل زیادہ وزن رکھتے ہوں، کیوں کہ خدا کی رحمت اور مغفرت تمام مخلوق کے لیے عام ہے۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ نیکی کی اضافیت کا تصور اگرچہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے لیکن یہ ان دونوں میں، بالخصوص قرآن میں، کوئی بڑا موضوع نہیں ہے۔ اگر اس پر بہت زیادہ زور دیا جاتا تو شاید مسلمانوں کی بڑی تعداد اسی پر تکیہ کرلیتی اور خود کو ان حالات کے عذر کی بنا پر برائیوں میں لت پت کرلیتی جو ان کے نزدیک ان کے بس میں نہیں ہیں۔ قرآن کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ایسے لکیر سے ہٹے ہوئے معاملات کی تفصیل میں نہیں جاتا، بلکہ اس کے بجائے وہ ان کاموں کی ترغیب دیتا ہے جو مفید ہیں اور ان سے بچنے کی تلقین کرتا ہے جو ضرر رساں ہیں۔
مشمولہ: شمارہ جون 2022