رسائل ومسائل

نماز میں قے

سوال:                  کیا نماز میں قے آنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے؟

جواب:              نماز میں قے آنے کی صورت میں حکم جاننے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ وضو پر اس کا کوئی اثر پڑتا ہےیا نہیں؟

اس سلسلے میں ایک رویت حضرت ابوالدرداءؓ سے مروی ہے ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوقے ہوگئی تو اس کے بعد آپؐ نے وضو کیا ۔ اس کے راوی معدان بن ابی طلحہؒ بیان کرتے ہیں کہ بعد میں میری ملاقات دمشق کی مسجد میں ایک دوسرے صحابی حضرت ثوبانؓ سے ہوئی تو میں نے ان کے سامنے اس کا تذکرہ کیا ۔ انہوںنے جواب دیا :’’ ابوالدرداءؓ صحیح کہتے ہیں ۔ اس موقع پر میں نے ہی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کووضوکرایا تھا ۔‘‘ (ترمذی : ۸۷،ابوداؤد : ۲۳۸۱)

یہ روایت اس معنیٰ میں صریح نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے دوبارہ وضو کرنے کی وجہ  یہ تھی کہ قے کی وجہ سے آپ کا وضو ٹوٹ گیاتھا ۔ اسی بنا پر فقہاء کے درمیان اس سے حکم مستنبط کرنے میں اختلاف ہوگیا ہے ۔ مالکیہ اور شوافع کےنزدیک قے سے وضو نہیں ٹوٹتا، جب کہ احناف اورحنابلہ کہتے ہیں کہ اگر منہ بھر کرقے ہوتو وضوٹوٹ جائے گا۔

نماز کی ادائیگی کے لیے وضو شرط ہے ۔ اس بنا پر جن فقہاء کے نزدیک قے سے وضو ٹوٹ  جائے گا ان کے نزدیک نماز بھی فاسد ہوجائے گی۔

عورت کا ، بالوں کا جوڑا باندھ کرنماز پڑھنا

سوال:                  کیا عورت اپنے بالوں کا جوڑا بنا کر نماز پڑھ سکتی ہے ؟ واضح رہے کہ بالوں کا جوڑا بنانے کا مقصد فیشن نہیں ہے ، بلکہ گرمی کے موقع پر ایسا کیا جاتا ہے۔

جواب:              ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ وہ عورتیں جن کے بدن پر لباس ہونے کےباوجود عریانی ظاہر ہو ، جو دوسروں کو اپنی طرف مائل کرنےوالی اور دوسروں کی طرف مائل ہونے والی ہوں اورجن کے سر بُختی اونٹوں کے کوہانوں کی طرح ہوں وہ جنت میں نہیں جائیںگی ، بلکہ جنت کی خوش بو بھی نہیں پائیں گی ‘‘۔ (مسلم :۲۱۲۸، موطا امام مالک: ۲۶۵۲)

بُختی اونٹوں سے تشبیہ ان عورتوں کودی گئی ہے جومصنوعی زیب وزینت اورفیشن کے طور پر اپنے  دوپٹےیا کسی دوسرے کپڑے کے ذریعے یا اپنے بالوں کا جوڑا بنا کر سر کو اونچا کرلیتی ہیں۔ حدیث میں اس عمل کوناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔

بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بالوں کا جوڑا بنا کر نماز پڑھنے کوبھی ناپسند فرمایا ہے ۔ حضرت ابورافعؓ نے حضرت حسن بن علیؓ کواس حالت میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ ان کے بال پشت میں ان کی گردن پر بندھے ہوئے تھے تو انہوںنے ایسا کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا:’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد دفرماتے ہوئے سنا ہے : ذٰلِکَ کِفْلُ الشَّیْطَانِ (ترمذی: ۳۸۴) ’’یہ شیطان کی نشست گاہ ہے‘‘۔

ایک حدیث حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُمِرْتُ اَنْ اَسْجُدَ عَلَی سَبْعَۃٍوَلَا اَکُفَّ شَعْرًا وَلاَ ثَوْباً (بخاری : ۸۱۶، مسلم: ۴۹۰)

’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں(پیشانی ، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اوردونوں پیر) پر سجدہ کروں اورنہ بال باندھوں نہ کپڑا‘‘۔

ان احادیث کی بنا پر فقہا ء نے مردوں اور عورتوں  دونوں کو بالوں کا جوڑا بنا کر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے (ملاحظہ کیجئے فتاویٰ عالم گیری ، ۱/۱۰۶) اسے مکروہ کہا گیا ہے، اگرچہ نماز ہوجائے گی۔

پلاسٹک سرجری کی شرعی حیثیت

سوال:                  میں ایک سرجن ہوں۔ میرے پاس پیدائشی نقص کےبہت سے کیس آتے ہیں۔ مجھے آپریشن کرکے وہ نقص دو رکرتا ہوتا ہے ۔کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی کے دائرے میں تونہیں آتا۔

یہ بھی  بتائیے کہ کیا میں غیر مسلموں کے کسی اسپتال میں بہ حیثیت سرجن ملازمت اختیار کرسکتا ہوں؟

جواب:              قرآن مجید میں ہے کہ جب شیطان بارِ گاہِ اِلٰہی سے راندۂ درگاہ قرار پایا تو اس نے بڑی ڈھٹائی سے اللہ تعالیٰ سے کہا تھا:

وَّلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُمَنِّيَنَّھُمْ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ(النساء :۱۱۹)

’’ میں انہیں (یعنی انسانوں کو) ضرور بہکاؤں گا، میں انہیں خوب آرزؤوں میں الجھادوںگا اور میں انہیں حکم دوںگا، جس پر عمل کرتے ہوئے وہ جانوروں کے کان پھاڑیں گے اورمیں انہیں حکم دوںگا ، چنانچہ وہ (میرے حکم سے) خدائی ساخت میں ردِ وبدل کریں گے‘‘۔

اس آیت میں خدائی ساخت میں تبدیلی کی ایک مثال جانوروں کے کان پھاڑنے سے دی گئی ہے ۔ اس طرح کی اوربھی تبدیلیاں ہوسکتی ہیں۔ ممنوع وہ تبدیلی ہے جس سے اصل خلقت کی منفعت متاثر ہو۔ جانوروں میں خصی کرنے کی اجازت فقہاء نے اسی لیےدی ہے کہ ایسا کرنے سے ان کی منفعت میں اضـافہ ہوتا ہے، وہ جلدفربہ ہوتے ہیں اوران کے گوشت میں بھی خوبی پیدا ہوجاتی ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپؐ نے خصی کیے ہوئے مینڈھوں کی قربانی کی ہے۔ انسانوں میں خلقت میں تبدیلی کی مثالیں اُس حدیث میںبیان کی گئی ہیں جوحضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے:

لَعَنَ اللہُ الْواشِمَاتِ وَالْمُوتَشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَجِّلاَتِ للِحُسْنِ الْمُغَیِّرَاتِ خَلْقَ اللہُ                 (بخاری : ۴۸۸۶، مسلم: ۲۱۲۵)

’’اللہ کی لعنت ہو ان عورتوں پر جو جسموں پر گودتی ہیں اورجوگدواتی ہیں ، جواپنے بال اکھیڑتی ہیں اور جو  بناوٹی خوب صورتی پیدا کرنے کے لیے دانتوں کورگڑ کر پتلا کرتی ہیں۔ یہ عورتیں اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی کرنے والی ہیں‘‘۔

آیتِ مذکورہ میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی سے کیا مراد ہے؟ اس کی بڑی اچھی تشریح مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کی ہے ۔ لکھتے ہیں:

’’ خدائی ساخت میں ردّ وبدل کرنے کا مطلب اشیاء کی پیدائشی بناوٹ میں ردّ وبدل کرنا نہیں ہے ۔ اگراس کا یہ مطلب لیا جائے تب تو پوری انسانی تہذیب ہی شیطان کے اغوا کا نتیجہ قرار پائے گی۔ اس لیے کہ تہذیب تو نام ہی ان تصّرفات کا ہے جوانسان خدا کی بنائی ہوئی چیزوں میں کرتا ہے ۔ دراصل اِس جگہ جس ردّ وبدل کوشیطانی فعل قرار دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کسی چیز سے وہ کام لے جس کے لیے خدا نے اسے پیدا نہیں کیا ہے اورکسی چیز سے  وہ کام نہ لے جس کے لیے خدا نے اسے پیدا نہیں کیا ہے  ۔ بہ الفاظ دیگروہ تمام افعال جوانسان اپنی اوراشیاء کی فطرت کے خلاف کرتا ہے اوروہ تمام صورتیں جو وہ منشائے فطرت سے گریز کے لیے اختیار کرتا ہے، اس آیت کی روٗ سے شیطان کی گم راہ کن تحریکات کا نتیجہ ہیں ۔ مثلاً عمل قوم لوط ، ضبط ولادت، رہبانیت ، برہم چرج، مردوں اور عورتوں کو بانجھ بنانا، مردوں کوخواجہ سرا بنانا ، عورتوں کوان خدمات سے منحرف کرنا جو فطرت  نے ان کے سپرد کی ہیں اور انہیں تمدّن کے ان شعبوں میں گھسیٹ لانا جن کے لیے مرد پیدا کیا گیا ہے ۔ یہ اور اس طرح کے دوسرے بے شمار افعال جو شیطان کے شاگرد دنیا میں کررہے ہیں ، در اصل یہ معنیٰ رکھتے ہیں کہ یہ لوگ خالقِ کائنات کے ٹھہراتے ہوئے قوانین کوغلط سمجھتے ہیں اور ان میں اصلاح فرمانا چاہتے ہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن ، سورۂ النساء ، حاشیہ نمبر ۱۴۸)

بسا اوقات انسان میں پیدائشی طورپر کوئی عیب ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے اس کی بدہیئتی نمایاں ہوتی ہے ، مثال کے طور پر ہونٹ یا تالو کٹا ہو، ہاتھ یا پیر میں زائد انگلی ہو ، منہ میں زائد دانت ہو یا کوئی دانت لمبا ہو ، یااسی طرح کا کوئی اورعیب۔ اس کا بھی امکان ہے کہ عیب پیدائشی نہ ہو، بلکہ کسی حادثہ کے نتیجے میں پیدا ہوگیا ہو ، مثلاً ایکسیڈنٹ میںناک ٹوٹ گئی ، یا کان کٹ گیا ، یا آگ لگنے سے جلد جھلس گئی۔ ان تمام صورتوں کو فقہا ء نے مرض شمار کیا ہے اوراس کا علاج معالجہ کرنے کی نہ صرف اجازت، بلکہ حکم دیا ہے ۔

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ آپریشن کے ذریعے کوئی پیدائشی نقصان دور کرنا اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی کے دائرے میں نہیں آتا جس سے قرآن وحدیث میں روکا گیا ہے۔ غیر مسلموں کے زیر انتظام کسی اسپتال میں ملازمت کرنا مسلمان سرجن کے لیے جائز ہے ۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ علاج معالجہ کی سہولت فراہم کرنا نیکی کا کام ہے ۔ اس معاملے میں بلا تفریق مذہب تمام انسانوں کا تعاون اورخدمت مطلوب ہے۔ البتہ ظاہر ہے کہ مسلمان   جہاں بھی ہو، شرعی حدود کی پابندی کرے گا۔

ایک حدیث کی تحقیق

سوال:                  ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ ایک لڑکی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: ’’ اے اللہ کے رسول! میرےباپ نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے طے کردیا ہے ، جب کہ مجھے یہ رشتہ منظور نہیں ہے ۔‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اگرتم کویہ رشتہ منظور نہیں تو تمہارا نکاح نہیںہوسکتا۔ ‘‘ تب وہ لڑکی فوراً بول پڑی :’’ اے اللہ کے رسول !مجھے یہ رشتہ منظور ہے ۔ میں تو صرف یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ اسلام میں عورتوں کے کیا حقوق دیے گئے ہیں؟‘‘

یہ حدیث کس کتاب میں مروی ہے ؟ اور سند کے اعتبار سے اس کی کیا حیثیت ہے؟ براہِ کرم وضاحت فرمادیں۔

جواب:              یہ حدیث مختلف کتبِ حدیث میں مروی ہے، مثلاً سنن نسائی (کتاب النکاح ، باب البکر یزوجھا أبوھا وھی کارھۃ،۳۲۶۹)میں ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے اورسنن ابن ماجہ (کتاب النکاح، باب من زوّج ابنتہ وھی کارھۃ ، ۱۸۷۴)میں حضرت بریدہؓ نے اس کی روایت کی ہے ۔ البتہ دونوں حدیثوں کی سندوں پر محدثین نے کلام کیا ہے اور انہیں ’ضعیف شاذ‘ قرار دیا ہے ۔ یہ حدیث مسند احمد (۲۵۰۴۳) میںبھی حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے۔

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ واقعہ ثابت نہیں ہے ۔ یہ روایت بعض دیگر سندوں سے بھی مروی ہے ، جو صحیح ہیں، مثلاً حضرت ابن عباسؓ سے مروی سندکو محدثین نے صحیح قرار دیا ہے ۔ ملاحظہ کیجئے سنن ابی داؤد : ۲۰۹۶،۲۰۹۷، سنن ابن ماجۃ: ۱۸۷۵، مسند احمد: ۲۴۶۹، ۲۶۷۸۶، ۲۶۷۸۸۔

اس خاتون کا نام حضرت خنساء بنت خذام ؓ تھا ۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلے اوس سےتھا ۔ ان کاتذکرہ ابن عبدالبر کی الاستیعاب (۴/۱۸۲۶) ابن حجر کی الاصابۃ (۷/۶۱۱) اورتہذیب التہذیب (۴/۶ ۷ ۱  ) ابن حبان کی الثقات (۳/۱۱۶) اوردیگر کتبِ تراجم میں موجود ہے ۔ محدثین میں امام بخاری، ابودؤد، نسائی، ابن ماجہ اوردارمی وغیرہ نے اس حدیث کوروایت کرکے اس سے یہ استنباط کیاہے کہ لڑکی خواہ باکرہ  (غیر شادی شدہ) ہویا ثیّبہ (شوہر دیدہ) اس کاباپ یا ولی اس کی مرضی کے بغیر کہیں اس کا نکاح نہیں کرسکتا۔   اس کی تفصیل کے لیے کتبِ فقہ سے رجوع کرنا چاہیے۔

مشمولہ: شمارہ نومبر 2018

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223