رسائل و مسائل

کیا امام مالکؒ تابعی ہیں؟

سوال:                  جناب مائل خیر آبادی کی ایک کتاب’ ہمارے بزرگ‘ کے نام سے ہے ۔ اس کی جلد دوم میں انہوں نے ائمہ اربعہ کے حالات تحریر کیے ہیں۔ امام مالکؒ کے تذکرے میں انہوں نے لکھا ہے کہ وہ ’’پیار ے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پیارے بیٹے تھے‘‘۔ آگے انہوں نے حضرت انسؓ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ وہ پیارے رسول ؐ کی خدمت میں بچپن ہی میں پہنچ گئے تھے‘‘۔

یہ بات مجھے کھٹک رہی ہے ۔ کیا حضرت مالک بن انس ؓ صحابی کے بیٹے ہیں؟ براہِ کرم وضاحت فرماد یں۔

جواب:   امام مالکؒ کا پورا سلسلۂ نسب یہ ہے:

ابوعبداللہ مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر۔ ان کا تعلق قبیلۂ حمیر کی شاخ اصبح سے تھا۔ ان کی ولادت مدینہ منورہ میں۹۳ھ؍۷۱۱ء میںاموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں ہوئی تھی۔

امام مالک کے والد کا نام انس بن مالک تھا۔ نام میں یکسانیت کی وجہ سے جناب مائل خیرآبادی کو اشتباہ ہوگیا ۔ یہ دوسرےبزرگ ہیں(مشہورصحابی حضرت انس بن مالک ؓ نہیںہیں ۔) امام مالک کے دادا مالک بن ابی عامر بڑے تابعین میں سے تھے۔انہوںنے متعدد صحابۂ کرام، مثلاً حضرت عمر بن الخطاب ، حضرت عثمان بن عفان،حضرت طلحہ بن عبیداللہ ، حضرت ابوہریرہ ، حضرت حسان بن ثابت، حضرت عقیل بن ابی طالب اورام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے روایت کی ہے ۔ امام مالک کے والد انس کا کوئی علمی مقام نہیںہے ۔ ان کی والدہ نے ان کی تعلیم وتربیت میں خصوصی دل چسپی لی ۔ انہوںنے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت نافعؒ، حضرت ابن شہاب زہریؒ اورحضرت ربیعۃ الرأیؒ سے علم حدیث حاصل کیا اورفقہ کے میدان میں شہرت حاصل کی۔

قرض میں روپیہ دے کر ڈالر میں نہیں وصول کیا جا سکتا

سوال :                    ایک صاحب نے اپنے ایک عزیز کو چند لاکھ روپے بطور قرض دیے اور کہا کہ ان روپوں کو ڈالر میں تبدیل کرلیں اور جب واپس کریں تو ڈالر کے حساب سے ہی واپس کریں۔کیا قرض دینے اور واپس لینے کا یہ طریقہ شریعت کے مطابق درست ہے؟ جب کہ قرض واپس کرنے کی مدت پانچ سال سے زیادہ ہے؟

جواب :              قرض دینا دراصل دوسرے شخص کی ضرورت پوری کرنا ہے۔ _ یہ ایک احسان ہے۔  _ جو شخص یہ احسان کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ ضرور اس کا اچھا بدلہ عطا فرمائے گا _۔ قرض دینے والے نے جتنے روپے دیے ہیں ، اتنے ہی روپے واپس لینے کا وہ حق رکھتا ہے ، چاہے جتنے برس کے بعد اسے قرض واپس ملے، _ مثلاً کسی شخص نے دس لاکھ روپے پندرہ برس کے لیے اپنے کسی عزیز یا دوست کو دیے _ ۔اگرچہ پندرہ برس کے بعد روپے کی قدر میں کمی آجائے گی ، لیکن وہ اس کے بہ قدر کچھ زیادہ رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتا _ ،دس لاکھ روپے ہی واپس لے گا _۔اس سے ایک پیسہ بھی زیادہ لیا جائے تو سود ہوجائے گا ، جسے اسلامی شریعت میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ _ یقیناً روپے کی قدر میں کچھ کمی آئی ہوگی، _ اسی کے بہ قدر وہ اپنے بھائی کی مدد کرنے پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر کا مستحق ہوگا _۔

آپ نے جو صورت لکھی ہے وہ تھوڑی ترمیم کے ساتھ قابلِ عمل ہوسکتی ہے۔ _ ایسا نہ کریں کہ قرض تو روپے میں دیں اور قرض لینے والے سے کہیں کہ وہ اسے ڈالر میں تبدیل کرکے قرض ڈالر میں نوٹ کرے اور بعد میں جب واپس کرے تو اتنے ڈالر کے بہ قدر روپیہ دے ، بلکہ آپ خود روپیہ کو ڈالر میں تبدیل کرکے ڈالر قرض میں دیں اور متعین مدّت کے بعد ڈالر ہی میں قرض واپس لیں _۔

ایک بات یہ بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کوئی شخص کسی سے کچھ قرض لے اور اس سے اپنی کوئی ضرورت پوری کرے ، یا اسے تجارت میں لگاکر منافع کمائے تو جب قرض واپس کرے تو اس میں کچھ اضافہ کرکے واپس کرسکتا ہے۔ _ یہ سود نہیں ہے _ ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا یہی اسوہ ہے _۔ آپ ؐ کسی سے قرض لیتے تھے تو اس میں کچھ اضافہ کرکے واپس کرتے تھے۔ _ حرام یہ ہے کہ متعین شرح کے ساتھ اضافہ طے کرلیا جائے اور اس کی ادائیگی کا قرض لینے والا پابند ہو _۔

امامت کے لیے کم از کم عمر

سوال:                  ایک لڑکا ہے، جس کی عمر تقریباً اٹھارہ (۱۸) سال ہے۔ ابھی تک اُ س کی ڈاڑھی نہیں نکلی ہے۔ اس نے کبھی ڈاڑھی مونڈھی بھی نہیں ہے۔ وہ حافظِ قرآن ہے۔ اس کو کبھی کبھی مسجد کے امام صاحب نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھا دیتے ہیں۔ اُس پر کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس کی ڈاڑھی نہیں ہے، وہ امامت نہیں کر سکتا۔گزارش ہے کہ اس مسئلہ میں صحیح رہ نمائی فرمائیں۔ کیا یہ لڑکا امامت کر سکتا ہے یا نہیں؟

جواب:              اسلامی احکام کے مکلّف صرف بالغ لوگ ہیں۔ نماز بالغ مردوں پر فرض ہے، بچوں پر نہیں۔ اس بِنا پر فقہاء کہتے ہیں کہ نابالغ بچہ فرض نماز کی امامت نہیں کر سکتا۔

فقہاء نے بلوغت کی دو علامات بیان کی ہیں: ایک احتلام، دوسری انبات، یعنی زیر ناف بال نکل آنا۔ فقہاء نے عمر کے لحاظ سے بھی بلوغت کی حد مقرر کی ہے۔ شوافع، حنابلہ اور احناف میں سے قاضی ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک پندرہ (۱۵) سال کے لڑکے کو بالغ مانا جائے گا۔ دیگر دلائل کے ساتھ وہ ایک دلیل یہ دیتے ہیں کہ غزوۂ احد میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی عمر چودہ (۱۴) برس تھی تو انھیں مسلم فوج میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد غزوۂ خندق کے موقع پر، جب اُن کی عمر پندرہ (۱۵) برس تھی، تب انھیں جہاد میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی تھی۔ امام ابو حنیفہؒ نے لڑکے کے لیے بلوغت کی عمر اٹھارہ (۱۸) برس قرار دی ہے۔

بہ ہر صورت اٹھارہ (۱۸) برس کے لڑکے کو بالغ سمجھا جائے گا۔ وہ امامت کر سکتا ہے۔ امامت کے لیے لڑکے کے چہرہ پر ڈاڑھی نکل آنا ضروری نہیں ہے۔

كیا  دودھ پلانے سے وضو ٹوٹ جائے گا؟

سوال : كیاعورت وضوكرنے كے بعد اگر بچے كو دوده پلائے تو وضو ٹوٹ جائے گا؟

جواب :               قرآن مجید میں صراحت هے كه رفع حاجت(یعنی پیشاب پاخانه) كرنے كے بعد وضو كرنا ضروری هے:( اَوْ جَاۗءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَاۗىِٕطِ)(النساء:۴۳، المائده:۶)۔اسی طرح احناف اور حنابله كے نزدیك بدن كے كسی حصے سے اگر كوئی ناپاك چیز نكلے تو اس سے بھی وضو ٹوٹ جائے گا، مثلاً منھ بھر كرقے،  خون اور پیپ وغیره۔

ماں كا دودھ پاك هے۔ اس لیے وضو كرنے كے بعد اگر وه بچے كو دودھ پلائے تو اس سے اس كا وضو نهیں ٹوٹے گا۔

مشمولہ: شمارہ جون 2019

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau