زندگی میں ہبہ کرنا
سوال : میری عمر چھیاسٹھ (۶۶) برس ہے۔ اہلیہ اور دو لڑکیاں ہیں۔ کوئی لڑکا نہیں ہے۔ کیا میں اپنی ملکیت کی تمام چیزیں اپنی زندگی میں اپنی اہلیہ اور بیٹیوں کو ہبہ کرسکتا ہوں؟ اگر یہ جائز ہے تو میں ان کے درمیان کس حساب سے تقسیم کروں؟
جواب: اسلامی شریعت میں کوئی چیز کسی کی ملکیت سے دوسرے کی ملکیت میں منتقل ہونے کی تین صورتیں ہیں۔ اوّل: وراثت۔ کسی شخص کی بیوی اور بیٹیاں ہوں اور اس کا انتقال ہوجائے تو بیوی کو آٹھواں حصہ(12.5%) اور بیٹیوں کو دو تہائی(66.7%) ملے گا۔ باقی مال دیگر رشتے داروں میں تقسیم ہوگا۔ دوم: وصیت۔ اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ ورثہ کے حق میں نہیں کی جا سکتی اور دوسروں کے لیے صرف ایک تہائی (33.3%) تک کی جا سکتی ہے۔ سوم: ہبہ۔ آدمی اپنے مال کا مالک ہے۔ وہ اپنی زندگی میں، جس کو چاہے، جتنا چاہے، دے سکتا ہے۔
آپ اگر چاہیں تو اپنی ضرورت کے لیے جتنا چاہیں بچالیں اور جتنا چاہیں بیوی کو دے دیں، باقی بیٹیوں کے درمیان برابر تقسیم کردیں۔
کیا شوہر کا سوتیلا باپ محرم ہے؟
سوال : زید کے بچپن میں اس کے باپ کا انتقال ہوگیا تھا۔ ماں نے دوسرا نکاح کرلیا تھا۔ زید اپنی ماں کے ساتھ اپنے سوتیلے باپ کے گھر رہتا تھا۔ اب وہ بڑا ہوگیا ہے اور اس کا نکاح ہونے والا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا زید کی بیوی کے لیے زید کا سوتیلا باپ محرم ہوگا یا نہیں؟ براہ کرم وضاحت فرمائیں۔
جواب: قرآن مجید میں محرم رشتے داروں کی تفصیل سورۂ نساء کی آیت: ۲۳ میں بیان کردی گئی ہے۔ ان میں نسبی رشتے دار بھی ہیں، مثلاً ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ، بھتیجی، بھانجی، رضاعی رشتے دار بھی اور سسرالی رشتے دار بھی، مثلاً ساس، بیوی کی بیٹی دوسرے شوہر سے، بہو، سالی وغیرہ۔
قرآن میں سسر کو عورت کے لیے محرم بتایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ أَصْلاَبِکُمْ ( النساء: ۲۳)
“اور( تم پر حرام ہیں) تمھارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمھاری صلب سے ہوں۔”
چوں کہ شوہر کے سوتیلے باپ سے عورت کا براہ راست کوئی رشتہ نہیں ہوتا، اس لیے وہ عورت کے لیے محرم نہیں ہے۔
سود کے ذریعے مقروض کی مدد
سوال : ایک صاحب نے ایک ضرورت مند کو ایک مدت کے لیے قرض دیا۔ کئی سال گزرنے کے باوجود وہ قرض واپس نہیں دے پا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے کاروبار میں بھاری نقصان ہوگیا ہے۔ ادھر قرض دینے والے کی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔ اسے رقم کی شدید ضرورت ہے۔ اس حالت میں ایک صاحب کے پاس سود کی کچھ رقم ہے، کیا وہ اسے مقروض کو دے سکتے ہیں، تاکہ وہ اپنا قرض ادا کر سکے؟
یہ بھی واضح فرمائیں کہ اگر قرض دینے والے کے علم میں آجائے کہ میرے قرض کی واپسی سود کی رقم سے کی جارہی ہے، کیا پھر بھی اس کے لیے وہ رقم لینا جائز ہے؟
جواب: کسی ضرورت مند کی مدد کرنے اور اس کی ضرورت پوری کرنے کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
وَاللّٰہُ فِی عَونِ العَبْدِ مَا کَانَ العَبْدُ فِی عَونِ أخِیهِ (مسلم: ۲۶۹۹)
“اللہ اپنے بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے، جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔”
مدد کسی بھی طرح کی ہو سکتی ہے: جسمانی، صلاح ومشورہ کے ذریعے اور مالی۔ مالی مدد کی بھی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ اوّل یہ کہ زکوٰة و صدقات کے ذریعے کسی کو مال کا مالک بنا دیا جائے کہ وہ جیسے چاہے اسے خرچ کرے۔ دوم یہ کہ مال کی ملکیت اپنے پاس رکھی جائے اور دوسرے کو اسے صرف بہ طور قرض دیا جائے کہ وہ اس سے اپنی ضرورت پوری کرلے اور جب اس کے پاس کشادگی آجائے تو مال واپس کردے۔
کسی ضرورت مند کو قرض دینے اور اگر وہ لیے ہوئے قرض کو وقت پر واپس نہ کرسکے تو اسے مہلت دینے کی احادیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کَلُّ قَرْضٍ صَدَقَةٌ (بیہقی فی شعب الایمان: ۳۵۶۳)
“قرض پر صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔”
حضرت بریدہ اسلمیؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے:
مَنْ أنْظَرَ مُعْسِراً کَانَ لَهُ بِکُلِّ یَوْمٍ صَدَقَةٌ (ابن ماجہ: ۲۴۱۸)
“جس نے کسی قرض دار کو مہلت دی، اسے اس کے بدلے روزانہ صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔”
سود کو اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے، اس لیے اگر کسی کے پاس سود کی کچھ رقم ہو تو اسے اپنے ذاتی کام میں استعمال کرنا اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ البتہ فقہا نے کہا ہے کہ اس کو اکاؤنٹ میں چھوڑنا مناسب نہیں ہے، بلکہ اسے نکال کر کسی غریب کو دے دینا چاہیے۔ وہ اپنے جس کام میں چاہے، استعمال کرلے۔ حرمت کی دو صورتیں ہوتی ہیں: ایک یہ کہ حرمت فی نفسہ کسی چیز میں ہو، جیسے شراب، کہ اس کا استعمال کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہے۔ دوسرے حرمت کسی چیز میں فی نفسہ نہ ہو، بلکہ اسے غلط طریقے سے حاصل کرنے کی وجہ سے ہو، جیسے سود کی رقم، کہ اس کا استعمال اس شخص کے لیے تو ناجائز ہوگا جس کے مال پر وہ حاصل ہوئی ہے، البتہ اگر وہ اسے کسی غریب اور ضرورت مند کو دے دے تو وہ اسے اپنے کام میں لا سکتا ہے۔ اسی طرح سودی رقم قرض کے بوجھ تلے دبے کسی شخص کو دی جا سکتی ہے کہ وہ اس کے ذریعے قرض سے نجات پالے۔
کسی مقروض کے ہاتھ میں پہنچنے کے بعد سودی رقم میں حرمت باقی نہیں رہتی۔ اس لیے اس کے واسطے سے یہ رقم قرض دینے والے تک واپس پہنچے تو اس کے لیے اس کا استعمال جائز ہوگا۔ یہ گویا قرض میں دی گئی اسی کی رقم ہے جو اسے واپس ملی ہے۔ اگر اس کے علم میں یہ بات آجائے کہ یہ اصلاً سودی رقم ہے، جو اس تنگ دست اور مقروض شخص کو کہیں سے ملی ہے تو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اللہ کے رسول ﷺ کے لیے صدقہ جائز نہیں تھا۔ ایک باندی، جن کا نام حضرت بریرةؓ تھا، انھیں کہیں سے صدقہ کا گوشت ملا۔ وہ اسے لائیں اور ام المومنین حضرت عائشہؓ کے گھر آکر اسے پکانے لگیں۔ اللہ کے رسول ﷺ گھر میں داخل ہوئے اور فرمایا: “مجھے بھی کھلاؤ۔” حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: “یہ صدقہ کا گوشت ہے۔” آپؐ نے فرمایا:
ھُوَ لَھَا صَدَقَةٌ وَلَنَا ھَدِیَّةٌ (بخاری: ۱۴۹۳، مسلم ۱۵۰۴)
“وہ اس کے لیے صدقہ ہے، لیکن ہمارے لیے ہدیہ ہے۔”
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی غریب کو زکوٰة دی جائے اوروہ اس میں سے کچھ مال کسی اہل ِ ثروت اور صاحب ِ نصاب پر خرچ کردے، یا اس کی دعوت کردے تو اس مال سے فائدہ اٹھانا اُس صاحب ِنصاب شخص کے لیے جائز ہوگا۔ یہی حکم اس سودی رقم کا ہے جو کسی غریب کو دی جائے کہ وہ حسبِ منشا اسے اپنے تصرف میں لا سکتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2023