گذشتہ مہینے تحقیقی اداروں اور فکر گاہوں سے متعلق کچھ اصولی باتوں پر گفتگو ہوئی تھی۔ ان اداروں کےسلسلے میں پانچ امور کو اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی قدروں کی حیثیت سے پیش کیا گیا تھا اور کچھ ایسے تاریخی نمونوں اور ماڈلوں کی بھی پیش کش ہوئی تھی جن سے پتہ چلتا ہے کہ ان اصولوں کو ہماری تاریخ کے روشن ادوار میں کس طرح برتا گیا اور تحقیقی ادارے اور فکر گاہیں کس طرح کام کرتی رہیں۔ اس ماہ اس موضوع کے عملی پہلو کو زیر بحث لایا جارہا ہے یعنی یہ کہ ہمارے زمانے میں اس طرح کے کاموں اور اداروں کی موجودہ صورتِ حال کیا ہے؟ اس صورتِ حال کے اسباب کیا ہیں؟ ہونا کیا چاہیے؟ اور کیسے اس مطلوب کی طرف بڑھا جاسکتا ہے؟
موجودہ صورتِ حال
تحقیقی اداروں اور فکر گاہوں کاجو تاریخی جائزہ گذشتہ مہینے پیش کیاگیا تھا اس کو سامنے رکھ کر جب موجودہ صورتِ حال کاجائزہ لیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے عملی رویوں اورحقیقی عملی صورتِ حال کا ہمارے اصولوں، قدروں اور ہماری تاریخ سے دور دور تک کوئی علاقہ نہیں ہے۔علمی مزاج اورعلمی رویوں کی شان دار روایات نہ صرف یہ کہ عملاً نظر انداز ہیں بلکہ اب یہ روایات ہمارے معاشروں کے لیے بالکل نامانوس اور اجنبی روایات محسوس ہوتی ہیں۔
دنیامیں اس وقت عالمی معیار کی کم و بیش گیارہ ہزار فکر گاہیں ہیں[1]۔ امریکہ اور چین کے بعد ان کی سب سے بڑی تعداد ہمارے ملک میں (تقریباً چھ سو ) ہے[2]۔ عالمی سطح پر بھی ان اداروں میں مسلمان اداروں کا تناسب بہت کم ہے[3] لیکن ہمارے ملک کےمسلمانوں کی صورتِ حال تو بہت زیادہ تشویش ناک ہے۔گنے چنے اداروں کے سوا کوئی ادارہ فکر گاہ یا تھنک ٹینک ہونے کا دعوی بھی نہیں کرتا۔ مین اسٹریم اداروں میں بھی مسلمان محققین کا تناسب بہت کم ہے اور مسلمانوں کے نقطہ نظر سے اوران کے افکار و مسائل پر ہونے والی تحقیقات بھی ناقابل شمار حد تک کم ہیں۔
اس صورتِ حال کا سبب صرف مسلمانوں کے سیاسی و معاشی حالات نہیں ہے۔ ان حالات میں بھی مسلمان بہت سے ادارے چلارہے ہیں۔ ہزاروں مدارس، ان گنت مساجد، کئی یونیورسٹیاں، پروفیشنل تعلیمی ادارے، بڑی جماعتیں، ان کے مراکز و دفاتر، وسیع عمارتیں، اسٹاف سب کچھ ان کے پاس ہے اور وہ کام یابی سے ان کا نظم و انتظام بھی کررہے ہیں۔ ان اثاثوں اور اداروں کے تناسب میں بھی دیکھا جائے تو ٹھوس علمی و فکری کاوشوں کا حجم بہت کم ہے۔ ہمارے خیال میں اصل وجہ حالات یا وسائل نہیں بلکہ وہی ہے جو اس سلسلہ مضامین میں ہم بار بار زیر بحث لاچکے ہیں، یعنی قدروں کا زوال۔ جن پانچ قدروں کو علمی و فکری کاوشوں کی اہم ترین قدروں کے طور پر گذشتہ ماہ کے مضمون میں ہم نے پیش کیا تھا، اس وقت ان میں سے ہر قدر کی بدترین پامالی سب سےزیادہ مسلمانوں کے درمیان ہے۔درج ذیل سرسری جائزے سے ہماری یہ بات واضح ہوگی۔
علم کی اہمیت اور رائے سازی و فیصلہ سازی کے لیے علم کی ناگزیریت کے احساس کا فقدان، فیصلوں اور آرا میں وجدان پرستی اور بے ساختگی (arbitrariness): رائے قائم کرنے اور فیصلہ کرنے کے لیے علم کی اورمتخصص (specialists)اہلِ علم سے مشاورت کی بھی ضرورت ہے، یہ احساس اب بالکل باقی نہیں رہا۔ ذاتی زندگی میں عطائیوں بلکہ ہر کس و ناکس کے نسخوں اور ٹوٹکوں کے مقابلے میں بڑے سے بڑے ڈاکٹر کی رائے کو نظر انداز کرنے کا مزاج پڑھے لکھے لوگوں میں بھی عام ہے۔یہی مزاج جب اجتماعی کاموں میں کارفرما ہوتا ہے تو ذاتی وجدان اور تجربہ بڑے سے بڑے فیصلے کے لیے کافی سمجھ لیا جاتا ہے۔ تقریر اور عوامی بیانیے کے لیے مشاورت تو دور کی بات ہے تیاری بھی ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ بڑے مناصب کو ‘عقل کل’ کی سند سمجھا جاتا ہے۔ ٹھوس علمی امور پر رائے قائم کرنے کامعاملہ ہو یا حساس مسائل پر فیصلہ سازی کا مرحلہ، فیصلے کے مجاز افراد کے ذہنوں میں بے ساختہ (arbitrarily)آنے والے خیالات ہی فیصلوں کے لیے کافی سمجھے جاتے ہیں۔
روایت پرستی، اکابر پرستی اورتقلید جامد: دوسرا بڑا مسئلہ اکابر پرستی اور تقلید جامد کا مسئلہ ہے۔ بڑے لوگوں سے اختلاف رائے کو ان کی بے حرمتی سمجھا جاتا ہے۔ مشوروں کی مجالس بھی بالعموم بڑوں کی ’ہدایات‘ اور شرکا کی جانب سے ان کی بے زبان تائید پر مشتمل ہوتی ہیں۔ فکر و خیال میں تنوع و ارتقا اور اساسیات سے انحراف کے درمیان فرق کا شعور باقی نہیں ہے۔ کسی مکتب فکر سے وابستگی اور وفاداری کے لیے اس کی چھوٹی سے چھوٹی اور جزوی سے جزوی بات کی مکمل، بے آمیز اور غیرمشروط تقلید لازمی سمجھی جاتی ہے۔دنیا کے مسلمانوں نے اس دیرینہ کم زوری پرکچھ نہ کچھ قابو پالیا ہے لیکن اردو داں مسلمانوں میں ابھی بھی یہ کم زوری پوری شدت کے ساتھ باقی ہے۔
صحت مند تنقید کی روایت کا زوال: علم و تحقیق کی افزائش کے لیے تنقید کا صحت مند ماحول اور بحث و مجادلے کی شائستہ علمی روایت ناگزیر ہوتی ہے۔ گذشتہ مضمون میں امام ابوحنیفہؒ کی مثال کے ذریعے ہم واضح کرچکے ہیں کہ عروج کے ادوار میں مسلمان علما نے اس کلچر کو کتنی اہمیت دی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں میں اس حوالے سے کئی کم زوریاں عام ہیں۔ اکثرجگہ تنقید کا مطلب گستاخی، بغاوت، بے وفائی اور مخالفت ہے۔ مکاتب فکر مستقل ٹیموں کی ایسی شکل اختیار کرلیتے ہیں کہ تنقیدی عمل صرف ٹیموں کے درمیان مقابلے کا عمل بن کر رہ جاتا ہے۔ ‘اپنی ٹیم’ پر تنقید کو اور ‘مخالف ٹیم’ کی کسی بات کی تائید یا ستائش کو اخلاقی عیب سمجھا جاتا ہے۔ پھر سنجیدہ علمی تنقید اور حسد و رقابت کے جذبات سے مغلوب کردار کشی اور شخصی حملوں کے درمیان فرق معدوم ہے جس کےنتیجے میں بھی تنقید ایک معیوب اور اخلاقی لحاظ سے مکروہ عمل بن جاتی ہے۔ تنقید کرنے والے اور اس کے علم بردار بھی صرف اپنی تائیدو تحسین کے طلب گار ہوتے ہیں، جوابی تنقید کو برداشت نہیں کرپاتے،جس کے نتیجے میں ڈائیلاگ کا وہ پروسیس ہی بہت کم زور ہوگیا ہے جو سنجیدہ علم و تحقیق کےلیے ناگزیز ہے۔
علم کی تقسیم اور مہارتوں اور تخصصات کی قدر ناشناسی: سو سال سے زیادہ عرصے کو محیط کوششوں اور دعووں کے باوجود،علم کی دینی و دنیوی خانوں میں تقسیم کا مسئلہ آج بھی ہندوستانی مسلمانوں کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔مدارس عربیہ سے دسیوں رسالے اور مجلے نکلتے ہیں۔ بعض مجلے ‘تحقیق’ کے دعوے دار بھی ہیں لیکن ان میں قدیم کتابوں کے حوالوں اور پرانے مضامین کی تکرار کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ علم و دانش کے معاصر سوتوں، سماجیاتی علوم اور تحقیق کے جدید مناہج سے استفادہ نہ صرف یہ کہ عنقا ہے بلکہ ان کو نامانوس اور اس سے آگے بڑھ کر معیوب بھی سمجھنے کا تصور ابھی بھی تحت الشعور میں راسخ ہے۔ اسی طرح یونیورسٹیوں سے وابستہ جدید اہلِ علم حضرات روایت سے پوری طرح کٹے ہوئے ہیں۔ کلاسیکی اسلامی علوم میں علم و فکرکا جووسیع ذخیرہ موجود ہے، اس سے مناسب استفادے کے بغیر کوئی اسلامی تحقیق مکمل ہوہی نہیں سکتی۔ اسلامی اساسیات کی روشنی سے محروم رہنے کی وجہ سے جدید محققین کی علمی کاوشیں بھی اسلام اورمسلمانوں کی ٹھوس خدمت سے قاصر ہیں۔
یہ تقسیم اس قدر شدید ہے کہ دینی مدارس سے فارغ ہوکر باقاعدہ عالم، فاضل اور مفتی بن کر لوگ جدید یونیورسٹیوں کی طرف جاتے ہیں تو وہاں بھی روایتی علوم کے مخصوص اور جامد دائرے میں بند رہتے ہیں یا پھر ان کومکمل ترک کرکے فکری اساسیات سے بتدریج کنارہ کش ہونے لگتے ہیں اور ان کےعلمی کاموں میں اور جدید دانش وروں کے کاموں میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔یونیورسٹیوں کے سند یافتہ ماہرین،دینی علوم کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ویسے ہی جامد مقلدین بن جاتے ہیں جیسے اور علما ہیں۔ بعض استثائی صورتوں کے سوا ہندوستانی مسلمانوں کے علمی وفکری کاموں کی بالعموم یہی صورتِ حال ہے۔
اجتماعی کاموں کے مزاج اور سلیقے کا فقدان: مل جل کر اورصلاحیتوں و توانائیوں کے اشتراک و امتزاج سے بڑے مقاصد حاصل کرنے کا مزاج مفقود ہے۔تجارت میں پسماندگی کا ایک سبب بھی یہی ہے[4] اور علمی و تحقیقی اداروں کے فقدان کی ایک اہم وجہ بھی یہی ہے۔ہمارے یہاں بعض غیر معمولی علمی، تحقیقی اور تخلیقی صلاحیت رکھنے والے افراد ضرور پیداہوئے جنھوں نے ذاتی طور پر بڑے کارنامے انجام دیے لیکن اجتماعی طور پر مل جل کر کام کرنے کے کام یاب تجربات تقریباً نایاب ہیں۔چند گنے چنے علمی ادارے ہیں بھی تو وہاں بھی اصلاً افرادہی علاحدہ علاحدہ اپنی اپنی علمی کاوشیں کرتے ہیں۔ ادارے کا کردار ان کو تنخواہ دینے اور ان کے انفرادی کاموں میں کچھ رہ نمائی کردینے سے زیادہ نہیں ہے۔ اجتماعی تحقیق کی حرکیات سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔گذشتہ مضمون میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ مسلمانوں کی تاریخ کے بعض بڑے علمی کارنامے(جن کا تعلق روایتی ‘دینی’ علوم سے بھی ہے اور ان علوم و فنون سے بھی جنھیں دنیوی علوم کہا جاتا ہے) منظم اجتماعی کوششوں اور مختلف علوم اور مہارتوں کے درمیان فعال تعامل کے نتیجے میں انجام پائے ہیں۔ معاصر علمی دنیا میں اب یہ رجحان بہت عام ہوگیا ہے[5] لیکن بدقسمتی سےمرور زمانہ کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان ناپید ہوگیا ہے۔اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ اردو میں شایدہی کوئی قابل ذکرعلمی کام ایسا ہوا ہے جسے دو یا دو سے زیادہ محققین نےمل کرانجام دیا ہوا اور کتاب پر متعدد لوگوں کے نام بطور مصنف شائع ہوتےہوں۔جب کہ علمی دنیا میں یہ ایک معروف رجحان ہے۔
سہل پسندی، سطحیت اور جذباتیت: زوال نے اجتماعی مزاج میں جو سطحیت اور سہل پسندی پیدا کی ہے، اس کے نتیجے میں ٹھوس، محنت طلب اور صبر آزما علمی و تحقیقی کاموں کی طرف توجہ نہیں ہوپاتی۔علمی و تحقیقی کاموں کو فضول اور بے کار سمجھنے کی سطحیت بھی اچھی خاصی عام ہے۔ امت کا عام جذباتی مزاج قائدوں اور دانش وروں سے بھی بس جذباتی رد عمل کی توقع رکھتا ہے۔شعلہ بارتقریریں اورجذباتی بیانات آج بھی لوگوں کے دلوں کو جیتنے کا آسان راستہ ہے۔ عوام اپنے ذمے داروں سے علم و تحقیق کی اساس پر سائنٹفک فیصلوں اور رہ نمائی کی توقع نہیں رکھتے بلکہ جذبات کی فوری تسکین کردینے والے ڈرامائی اقدامات کی امید رکھتے ہیں۔ ایسی فضا میں سنجیدہ علمی کام اور فیصلہ سازی کے ٹھوس سائنٹفک طریقوں کا فروغ بہت دشوار ہے۔
علمی و تحقیقی اداروں کے فروغ کے لیے ان کم زوریوں پر قابو پانا ضروری ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ علمی و تحقیقی کام کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ زیادہ تر انھی کم زوریوں سے آلودہ ہے (اگلی سطروں میں اس سلسلے کے کچھ اشارے موجود ہیں) اسی لیے وہ نتیجہ خیز اورموثر نہیں ہورہا ہے۔
اس لیے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ علم و تحقیق کو باقاعدہ ویسے ہی ایک تحریک بنادیا جائے جس طرح تعلیم کو تحریک بنایا گیا ہے اور اس کے لیے بھی آئندہ چند برسوں میں چھوٹے بڑے اداروں کا ویسا ہی جال بچھایاجائے جیسے تعلیم کے میدان میں اس کی کوششیں ہورہی ہیں۔
بڑے منظم ادارے
یہ بات خوش آئند ہے کہ حالیہ دنوں میں علمی اداروں اور فکر گاہوں کی طرف بھی بعض حلقوں کی جانب سے توجہ ہورہی ہے۔جماعت اسلامی ہنداور اس کے وابستگان کی جانب سے مختلف میدانوں (دینی علوم،سماجی علوم، فقہ و فتوی، سیاسی پالیسی، قانونی مسائل، جماعت کی فیصلہ سازی وغیرہ) میں مرکزی سطح پربھی علمی و تحقیقی اداروں کی ابتدا ہوئی ہے اور بعض حلقے بھی اس طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ بعض اور مسلم جماعتوں کی جانب سے بھی قابل قدر کوششوں کا آغاز ہوا ہے۔ اس رجحان کو آگے بڑھانے اور مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ اصحاب ثروت اور عطیہ دہندگان کے اندر یہ شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ علمی کام بہت اہم کام ہے اور اس پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا امت کے لیے فرض کی حیثیت رکھتاہے۔ جذبہ خیر اور جذبہ انفاق کا چند گنے چنے روایتی امور تک محدود ہوجانا ہندوستانی مسلمانوں کا ایک سنگین مسئلہ اور ان کے متعدد مسائل کی جڑ ہے۔ علمی ادارے بھی اس مسئلے کا شکار ہیں۔علمی کاموں کے لیے جائیدادیں وقف کرنے کا رجحان ہماری تاریخ کے روشن ادوارہی میں نہیں بلکہ انگریزوں کے زمانے تک بھی عام رہا ہے۔ اس رجحان کو دوبار زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
بڑی مسلم جماعتیں اورتنظیمیں، بڑے مدارس، پروفیشنل اور دیگر کالج سب کے درمیان یہ تحریک چلانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے کاموں کی انجام دہی کے لیے علمی و تحقیقی مراکز بھی قائم کریں۔کام کے آزمودہ اور روایتی طریقوں کے ساتھ، نئے اور مفید تر طریقوں کے لیے بے چینی اور تلاش و جستجو ہر سطح کے قائدوں اورکارکنوں کے مزاج کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔
مسلمان ایک نظریاتی گروہ ہیں اور اپنے فکر ونظریے کی مدلل پیش کش ان کا اہم ترین کام ہی نہیں ہے بلکہ ان کے عروج و زوال کا بڑا انحصار اسی کام کے ہونے اور نہ ہونے پرہے۔مسلمانوں کی برسوں کی غفلت نے علم وفکرکا ایک ایسا ماحولیاتی نظام (ecosystem)تشکیل دے دیا ہے جس میں اسلامی بیانیوں کو فروغ دینا انتہائی دشوار بن گیا ہے۔کچھ افرادکام بھی کررہے ہیں تو اس کی وجہ سے علمی دنیا ان کی طرف متوجہ نہیں ہوپاتی۔ اس مسئلے کاحل بھی یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ سے زیادہ معیاری ادارے قائم ہوں۔[6] حالیہ دنوں میں عالمی سطح پر انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ[7] جیسے اداروں نے اور ہمار ے ملک میں انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز[8] اور سینٹر فار اسٹڈی اینڈ ریسرچ[9] نے اپنے مختصر وسائل کے ساتھ جو کام یابیاں حاصل کی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر زیادہ لوگ، زیادہ وسائل کے ساتھ ان کاموں کی طرف متوجہ ہوں تو بڑے نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
کام کے طریقوں میں اس تبدیلی کی ضرورت ہے کہ ہر اہم فیصلے اور اقدام سے پہلے ٹھوس ریسرچ کی طرف وہ متوجہ ہوں اور مناسب علمی وفکری کمک (input)کے بغیر کوئی اہم قدم نہ اٹھائیں۔بڑی مساجد کے زیر انتظام بھی ایسے علمی اداروں کے قیام کی تحریک شروع کی جاسکتی ہے۔ قومی سطح کے بڑے اداروں کے ساتھ ساتھ، ہر بڑے شہر میں ایک دو ادارے ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو اپنے شہر کے مسائل پر توجہ مرکوز کریں اور شہر کے وسائل اور شہر کے اہلِ علم کے تعاون سے علمی کارنامے انجام دے سکیں۔
اس طرح کے اداروں کی کام یابی کے لیے جہاں ادارہ سازی اور نظم و انتظام کی صلاحیتوں اور وسائل کی ضرورت ہے وہیں سب سے بڑی ضرورت افراد کار کی ہے۔ علم و تحقیق سنجیدگی، خود سپردگی، صبر اور ایثار و قربانی چاہتے ہیں۔ ذہین نوجوانوں کی ایک معتد بہ تعداد جب تک ایسے کاموں کے لیے خود کو زندگی بھر کے لیے یکسو نہیں کرتی، اُس وقت تک ایسے ادارے کام یاب نہیں ہوسکتے۔ متوسط ذہنی صلاحیتوں کے حامل ایسے لوگ جو بازار میں ڈیمانڈ نہ ہونے کی وجہ سے محض روزگار کے لیے ایسے اداروں کی طرف رجوع کریں وہ کوئی بڑی خدمت انجام نہیں دے سکتے۔ ذہین وباصلاحیت لوگوں کو بھی علم و تحقیق کے میدان میں ویسی فوری پذیرائی نہیں ملتی جیسی دوسرے میدانوں میں مل جاتی ہے۔ اس مسئلے کوحل کرنے کے لیے دونوں طرف سے کوششوں کی ضرورت ہے۔ تنظیموں اور اداروں کو اس کام کی اہمیت محسوس کرنا چاہیے اور اپنے ذہین افراد کو معقول معاوضے دے کر اس کام کے لیے فارغ کرنا چاہیے اور دوسری طرف ذہین نوجوانوں کو بازار کی ایسی عام نوکریوں کے لالچ میں نہیں پھنسنا چاہیے جن سے ان کی صلاحیتیں بے فیض رہ جاتی ہیں اور سماج کو بڑا فائدہ پہنچانے کے جو امکانات اللہ تعالیٰ نے ان کی ذات کے اندر پیدا کیے تھے وہ ضائع ہوجاتے ہیں۔
موجود اداروں کا ارتقا
علم و تحقیق کے نام پر تھوڑی بہت کوششیں جو اس وقت مسلمانوں کے درمیان ہورہی ہیں،ان میں درج ذیل پہلووں پر توجہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
۱۔ تحقیق اور نالج پروڈکشن کے صحیح تصور کو عام کیا جائے اورمعیارات (standards)کی تعیین کے ساتھ ان کی پیروی کو یقینی بنایا جائے۔عام طور پر نام تو ریسرچ اور تحقیق کا لیا جاتا ہے لیکن کام بہت غیر معیاری ہوتا ہے۔ مختلف کتابوں سے معلومات جمع کرکے مضمون لکھ دینا تحقیق نہیں ہے۔ جو باتیں دنیا میں کثرت سے لکھی جاچکی ہیں انھی کو اپنی زبان میں دہرادینے کا کوئی علمی فائدہ نہیں ہے۔ علمی سرقے (plagiarism)کی مختلف شکلیں اور درجات، ناقص،ازکاررفتہ، غیر مستند یا جانب دارانہ طریقوں سے چُنے ہوئے ڈاٹا (selective data)کی بنیاد پرنتائج نکالنا، زور بیان،انشا پردازی اور لفظیات کے زور پر دعووں کو ثابت کرنے کی کوشش کرنا، نامکمل حوالہ جات (جن کی تنقیح قاری کے لیے دشوار یا بہت زیادہ وقت طلب ہو) وغیرہ جیسی کم زوریاں علم و تحقیق کی دنیا میں سخت معیوب ہیں۔تحقیق کا گہرا تعلق اختراع و ایجاد سے ہے۔ نئی باتوں، نئے خیالات، اور نئے آئیڈیاز سے ہے۔ ایسا کوئی خیال اگر مقالے میں نہ ہو تو اسے ‘تحقیق ’یا ‘نالج پروڈکشن’نہیں کہا جاسکتا۔ ٹھوس مفروضہ یا دعویٰ(hypothesis)، اس کی آزادانہ جانچ کے لیے واضح میتھڈولوجی، اس موضوع پر دنیا بھرمیں ہوچکے کام کا سنجیدہ جائزہ، ضروری معلومات اور ڈاٹا کی دستیابی، دوسرے محققین کے ساتھ تال میل (peer engagement)، اشاعت، اس پرسنجیدہ مباحث اور تنقید جیسے ناگزیر مرحلوں کے بغیر تحقیق و دریافت کا سائیکل مکمل نہیں ہوسکتا۔ یہ سب بنیادی باتیں جو ریسرچ میتھڈولوجی کی ہر کلاس میں پڑھائی جاتی ہیں[10]، ان کا شعور زیادہ سے زیادہ ہمارے اداروں میں عام ہو، اس کی کوشش ہونی چاہیے۔ اداروں کے منتظمین کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ان معیارات کی سختی سے پابندی کرائیں اور ان کے بغیر کسی کام کو علمی کام کے بطور کسی صورت قبول نہ کریں۔
۲۔ جن پانچ قدروں کو ہم نے گذشتہ مضمون میں تحقیقی اداروں کی اساسی قدروں کے طور پر پیش کیا تھا اور جن چھ باتوں کو اوپر کی سطروں میں علمی مزاج و ماحول کی کمی کی علامتوں کے طور پر پیش کیا گیا ہے، ان پر خاص توجہ ہونی چاہیے۔ یعنی اسلامی فکر و عقیدے کو اصل رہ نما اصول بنانا اور اس کی روشنی میں نئے علوم کی تشکیل کی کوشش، نافع علوم پر توجہ یعنی یہ دیکھنا کہ سماج کی حقیقی ضرورتیں کیا ہیں اور ہماری تحقیق سے سماج کے کون سے حقیقی مسئلے کے حل کی راہ ہم وار ہورہی ہے، نیز یہ بات کہ مختلف علوم و فنون کے ماہرین سے استفادہ ہوتا رہے۔ مدارس کے طلبہ جس طرح اپنے اساتذہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی طرح مختلف سماجی علوم خاص طور پر زیر تحقیق شعبہ علم کے پروفیسروں اور ماہرین سے بار بار رجوع کریں۔ یونیورسٹیوں کے محققین فقہ، اصول دین، تفسیر وغیرہ علوم نیز مختلف سماجی علوم کی قدیم اسلامی روایات سے بھی روشنی حاصل کرنے کے لیے فکر مند ہوں، اس کاعمومی ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔کھلے بحث ومباحثے اور ہر طرح کی اکابر پرستی اور مکتب پرستی سے اوپر اٹھ کر آزادانہ غور و فکر اور نقد و احتساب کا وہ ماحول پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جس کے بغیر کسی ٹھوس علمی کام کی توقع ہی عبث ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اجتماعی علم اور اجتماعی تحقیق کی وہ روایت زندہ کرنے کی ضرورت ہے جو امام ابو حنیفہؒ اور بیت الحکمت کے طریقوں کے حوالے سے گذشتہ مضمون میں تفصیل سے بیان کی جاچکی ہے۔ ایک فقیہ اور ایک قانون داں مل کر تحقیق کریں اور کتاب لکھیں۔ ماحولیاتی سائنس داں، جہد کار، قانون داں، اسلامی تاریخ کا ماہرمورخ اور قرآن و سنت کاعلم رکھنے والا عالم دین،یہ سب لوگ مل کر کسی ماحولیاتی مسئلے کو نئی تحقیق و دریافت کا موضوع بنائیں۔ ان سب رجحانات کو ہمارے ان اداروں میں فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
اداروں کے قیام سے زیادہ ہمارے نزدیک یہ ضروری ہے کہ وہ سابقہ مضمون میں بتائی گئی پانچ قدروں کی سختی سے پابندی کریں اور سطور بالا میں جو کم زوریاں بیان کی گئی ہیں ان سے پاک رہیں۔ قدروں کی سختی سے پابندی کے بغیر ایسے ادارے ہمارے لیے اثاثہ (asset) کم اوربوجھ (liability)زیادہ بنے رہیں گے۔ صدیوں سے لکھے اور پڑھے جارہے مواد کو نئے اداروں کے ذریعے نئے ناموں سے دہرانا اور مکرر مواد پر مشتمل کتابوں پرکتابیں شائع کرنا، صرف توانائی اور وسائل کا ضیاع ہی نہیں ہے بلکہ علمی زوال کی صورتِ حال کو اور پختہ و مستحکم کرنے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔
۳۔ اس سے قبل ہم یہ عرض کرچکے ہیں کہ ترقی کے لیے ملکی سماج کے زیادہ ترقی یافتہ حصے سے فعال تال میل ضروری ہے۔[11]علم وتحقیق کے میدان میں اس طرح کا فعال، اصولی اور بامقصد تال میل بہت زیادہ ضروری ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ بڑے علمی اداروں میں مسلم نوجوانوں کو کام کے مواقع فراہم کرنے کی کوشش کی جائے۔ ایسے علمی اداروں سے ہمارے اداروں کا باقاعدہ اشتراک ہو۔ ان کے ساتھ مل کرمشترک منصوبے مکمل کیے جائیں۔ امت کی اجتماعی صلاحیت بڑھانے (capacity building)کے یہی معروف طریقے ہیں۔ ان طریقوں کے زیادہ سے زیادہ رواج سے ہی ہمارے ادارے بھی مطلوبہ معیار کی سمت ترقی کرسکیں گے۔
تحقیقی اداروں اور فکر گاہوں کی سادہ اور مقامی شکلیں
علمی اداروں اور فکرگاہوں کی جب بھی بات آتی ہے عام طور پر بھاری بھر کم بجٹ، بڑا انفرااسٹرکچر، وسیع فل ٹائم اسٹاف وغیرہ کے ساتھ مکمل و منظم ادارے ہی کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ ایسے اداروں کی بھی یقیناً ضرورت ہے لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ اس وقت اصلاً اُس علمی ماحول کی افزائش ضروری ہے جس کے بغیر ادارے بن بھی جائیں تو وہ کارگر نہیں ہوسکتے۔ اس کے لیے نچلی سطحوں سے (bottom-up approach)کام کی ضرورت ہے۔
اس وقت دنیا میں نالج نیٹ ورک، پالیسی سپورٹ نیٹ ورک اور مائکرو تھنک ٹینک وغیرہ عنوانات سے مقامی سطحوں پر والنٹیروں کے ذریعے انجام دی جانے والی، علمی و تحقیقی سرگرمیوں کا اچھا خاصا رواج ہوچکا ہے۔ شراکتی تحقیق [12](participatory research)اور شہریوں کی سائنس [13](citizen science)علمی تحقیقات کے اب معروف طریقے بن چکے ہیں۔ شراکتی تحقیق میں چند تجربہ کار اور تربیت یافتہ محققین قیادت کرتے ہیں اوران کی نگرانی میں طلبہ اور عام لوگوں میں سے رضاکاروں کی ایک بڑی ٹیم تحقیق کے ہر مرحلے میں خدمات فراہم کرتی ہے۔ زیادہ تر یہ طریقہ عملی تحقیقات (action research) میں استعمال کیا جاتا ہے (participatory action research – PAR) لیکن اب نظریاتی علوم میں بھی اس طریقے (participatory pure research – PPR)کو استعمال کیا جانے لگا ہے۔
ذیل میں کچھ مثالیں پیش کی جارہی ہیں جن سے اس طرح کے اداروں کے کام کا انداز معلوم ہوگا۔
سی ای ریسرچ نیٹ ورک [14]CERN: یہ نیٹ ورک،گبسن گراہم (J.K. Gibson-Graham) جولی گراہم اورکیتھرائن گبسن دو معروف ماہرین معاشیات ہیں جنھوں نے مل کر کمیونٹی اکنامکس کے ماڈل تشکیل دیے ہیں اور تمام تحریریں مشترکہ طور پر اس مشترک قلمی نام سے شائع کراتے ہیں)کے معاشی تصورات کی اساس پر زمینی سطح کی تحقیقات اور متبادل معاشی پالیسیوں اور معاشی ماڈلوں کی تشکیل اور تجویز کے کام کرتے ہیں۔ یہ کوئی منظم ادارہ نہیں ہے بلکہ طلبہ، ریسرچ اسکالروں، مصنفین، آرٹسٹوں اور جہد کاروں کا ایک نیٹ ورک ہے۔ مرکزی سطح سے ان کی ضروری تربیت ورہ نمائی کا کام کیا جاتا ہے اور بڑی تعداد میں افراد، رضاکارانہ طور پر اس سے وابستہ ہوکر علمی و تحقیقی کام کرتے ہیں۔ ان علمی کاموں سے این جی او اور سماجی سیکٹر میں کام کرنے والے رضاکار اداروں کو طرح طرح کے آئیڈیا اور معاشی ترقی کے منصوبے فراہم کیے جاتے ہیں۔ حکومتوں، خاص طور پر مقامی بلدیات کو انوکھی اور مفید تجاویز فراہم کی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اپنی انوکھی تحقیقات اورچونکانے والی تجاویز کے ذریعے اس نیٹ ورک نے کئی لاکھ نئی نوکریاں تخلیق کی ہیں اور شہری علاقوں میں امیری غریبی کے فرق کو کم کرنے اور دولت کی منصفانہ تقسیم کی طرف پیش رفت کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔
پیپلز آرکائیو آف ریورل انڈیا[15]PARI: یہ تھنک ٹینک زرعی معاشیات کے معروف ماہر، پی سائی ناتھ (P.Sainath b.1957) کا قائم کردہ ہے۔ زرعی معیشت کے فروغ اور اس کے مسائل کو سمجھنے اور سامنے لانے کے لیے پی سائی ناتھ نے دیہاتوں میں طلبہ، کسانوں، گھریلو خواتین وغیرہ کا ایک فعال نیٹ ورک قائم کیا ہے۔ اس کے اکثر ارکان تعلیم یافتہ محققین نہیں بلکہ دیہاتوں کے عام لوگ ہیں جنھیں ضروری ٹریننگ دے کر کام دیا جاتا ہے اور یہ لوگ دیہی معیشت کے عملی مسائل، ان مسائل کو حل کرنے کے لیے مطلوب اقدامات، کام یاب تجربات، دیہی و زرعی مسائل سے متعلق اعداد و شمار وغیرہ جمع کرتے ہیں۔ دیہات کے رضاکار، دی گئی رہ نمائی کے مطابق، سادہ انداز سے تصویروں، ویڈیو، لوگوں کی بیان کردہ کہانیوں پر مبنی آڈیو یا سادہ تحریروں کی صورت میں چیزیں جمع کرتے ہیں اور ماہر محققین کی ایک رضاکار ٹیم اس کچے ڈاٹا کو ٹھوس رپورٹوں اور معیاری مقالوں میں منتقل کرتی ہے۔ اس نیٹ ورک کے ذریعے دیہی معیشت پر بارہ ہزار سے زیادہ بیش قیمت اوررجحان ساز رپورٹیں شائع ہوچکی ہیں اور حکومتوں کی دسیوں پالیسیوں پر اس کام نے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان کوششوں کا سب سے زیادہ فائدہ گرام پنچایتوں اور مقامی حکومت کے دیگر خود اختیار اداروں کو ہوا ہے۔ ان پنچایتوں کو اس ٹیم نے اپنی منفرد تجاویز سے کسانوں اور دیہی مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے غیر معمولی طور پر موثر اقدامات سجھائے بھی ہیں اور ان کو روبہ عمل لانے میں قدم قدم پر رہ نمائی بھی فراہم کی ہے[16]۔
ہسٹری پن [17] (HistoryPin):یہ تاریخ سے متعلق تحقیقات کا ایک اہم مرکز ہے۔ صدر دفتر لندن میں ہے۔اس کے انوکھے طریقِ کار نے اس بات کو ممکن بنادیا ہے کہ لاکھوں رضاکار تاریخ سے متعلق تحقیقات میں حصہ لیں۔ سو ملکوں سے تعلق رکھنے والے ڈھائی لاکھ سے زیادہ رضاکار اس کی تحقیقات میں حصہ لے چکے ہیں۔ ان کے علاوہ بڑی تعداد میں مقامی لائبریریاں، کلب، کیفے اور کمیونٹیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ سب لوگ اپنے اپنے علاقے میں بزرگوں سے سنے ہوئے مقامی تاریخی واقعات، تاریخی عمارتیں اوران کے احوال، پرانے لوگوں کی دستاویزات اور ڈائریاں، فیملی فوٹو، ویڈیو،شادیوں اور تقریبات کی یادگاریں، گھروں میں موجود نوادرات اور تاریخی ریکارڈ وغیرہ ایک خاص فارمیٹ میں پوسٹ کرتے ہیں اور گوگل میپ میں مخصوص جغرافیائی لوکیشن کے ساتھ اسے ٹیگ کرتے ہیں۔ محققین اس ڈاٹا کی تنقیح کرتے ہیں اور پھر ان کواستعمال کرکے نتائج نکالتے ہیں اور مقالے شائع کراتے ہیں[18]۔
بلڈ فلسطین [19] (BuildPalestine): فلسطین کے اپنے مخصوص مسائل ہیں۔ برسہا برس کی مسلسل جنگ اور بمباری،صحت عامہ اور ماحولیات کے شدید مسائل، بیرونی امداد اور امداد کے ساتھ ساتھ چل کرآنے والا بیرونی ایجنڈا، ان سب مسائل پر فکر مند چند حوصلہ مند نوجوانوں نے چند سال پہلے (2016)اس تھنک ٹینک کا آغاز کیا۔اس کا مقصد بیرونی امداد اور بیرونی مداخلت سے آزاد ہوکر فلسطین کے حقیقی باشندوں کے ذریعے ان کے مسائل کے ایسے حل ڈھونڈنا ہے جنھیں وہ آزادانہ طور پر اپنے وسائل کے بل بوتے پر روبہ عمل لاسکیں۔ مغربی کنارے اور غزہ میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں تعلیم یافتہ نوجوان اس سے وابستہ ہیں۔ کچھ لوگ فیلو کی حیثیت سے مستقل بھی برسرکار ہیں۔ مختصر عرصے میں اس نے پانچ سو سے زیادہ سماجی قائدین (social entrepreneurs) تیار کیے اور ان کے ذریعے پانی کی ذخیرہ اندوزی اور آب رسانی، ماحولیاتی تحفظ، صحت عامہ، پاکی صفائی وغیرہ سے متعلق پچاس سے زیادہ ایسےمنصوبے شروع کیے جنھیں تجزیہ نگار بڑے اختراعی (innovative)اور موثر(impactful) منصوبے قرار دیتے ہیں۔ پچیس سے زیادہ این جی او اور رام اللہ سمیت متعدد بلدیات کو اس نے بڑے کام یاب منصوبوں کی تجاویز فراہم کیں اور ان کی مدد سے کئی شہروں کے احوال میں ٹھوس مثبت تبدیلی کا ذریعہ بنی۔
نابنی الجیریا [20] (NABNI): نابنی اس ادارے کے فرانسیسی نام (Notre algérie bâtie sur de nouvelles idées) كا مخفف ہے جس کا مطلب ہوتا ہے ’ نئے آئیڈیا کے ذریعے تعمیر پذیر ہمارا الجیریا‘۔یہ بھی شمولیاتی تحقیق (participatory research)کے اصول پر کام کرنے والا ادارہ ہے۔ تقریباً ایک ہزار رضاکاروں کو ٹریننگ دے کر اورانہیں کام پر لگاکر اس نے نوجوانوں میں بے روزگاری کی صورتِ حال پرایک تفصیلی سروے کرایا تھا۔اس سروے کے نتائج اور پیش کی گئی تجاویز نے قومی روزگار پالیسی (National Employment Policy 2015)کی تشکیل کرائی۔ شمولیاتی پالیسیوں سے متعلق اس کی تجاویز نے الجیریا کی مرکزی حکومت کے رخ اور پالیسی پر گہرے اثرات ڈالے۔ دس سے زیادہ بلدیات اور دسیوں این جی او کے کاموں کواس تھنک ٹینک نے متاثر کیا۔ مالیاتی اصلاحات (fiscal reforms) سے جوڑ کر غریبوں کو دی جانے والی رعایاتsubsidies کا جو نظام اس نے تشکیل دیا،کہا جاتا ہے کہ اس نے الجیریا سے غربت کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
آئی آر ڈی پی [21] (Islamophobia Research and Documentation Project): آئی آر ڈی پی امریکہ میں، برکلے یونیورسٹی کے تحت کام کرنے والا مرکز ہے جسےچند سال قبل ایک فلسطینی امریکی پروفیسر ڈاکٹر حاتم بازیان(بانی زیتونہ کالج) نے قائم کیا تھا۔ یونیورسٹی کے پروفیسر، طلبہ، اسلامی طلبہ تنظیمیں، مختلف اسلامی تنظیمیں، مسجدوں کے ائمہ اور رضاکاروں کی مدد سے اسلاموفوبیا پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ اسکولوں میں، میڈیا میں، سڑکوں اور بازاروں میں نیز کام کی جگہوں پر ہونے والے اسلام مخالف اور مسلم مخالف ہر واقعے کو باریکی سے ریکارڈکیا جاتا ہے۔ ان واقعات کا سائنسی طریقوں سے تجزیہ کیا جاتا ہے اور ان کے سلسلے میں ٹھوس تجاویز مرتب کی جاتی ہیں۔ اس ادارے کا جرنل (Islamophobia Studies Journal) ساری دنیامیں اس موضوع پر معتبر ترین حوالہ مانا جاتا ہے۔ ادارے کی تجاویز کے مطابق ہی کیلی فورنیا کے اسکولوں میں اسلاموفوبیا کے سد باب کی ٹھوس پالیسی نافذ ہوئی۔ لاس اینجلس اور بوسٹن جیسے شہروں میں اس کی وجہ سے اسلامی تنظیموں، اسلامک سینٹروں اور جہد کاروں کو واضح حکمت عملی اور ٹھوس مواد میسر آیا۔ پانچ سو سے زیادہ جہد کار اور پچا س سے زیادہ تنظیموں اور اداروں نے اس کی تحقیقات اور علمی کاموں سے فائدہ اٹھایا ہے۔
یقین انسٹی ٹیوٹ:[22] امریکی ریاست ٹیکساس میں قائم مشہور علمی ادارہ ہے۔ ادارے کا اصل مقصد ٹھوس علمی و تحقیقی طریقوں سے اسلام کی پیش کش ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر اسلام کی موثر پیش کش، اسلاموفوبیا کے رد اور اسلامی اصولوں کے مطابق جدید مسائل پر تحقیق میں یہ ادارہ اہم کردار ادا کررہا ہے۔عمر سلیمان (فلسطینی امریکی۔ پیدائش 1983)اس کے صدر ہیں اور مشہور محقق و مصنف جوناتھن براؤن اس کے مشیر ہیں۔ اگرچہ یہ ایک بڑے بجٹ کے ساتھ کام کرنے والا مستقل ادارہ ہے لیکن اپنے والنٹیر پروگرام کے ذریعے اس نے بڑے پیمانے پر عام نوجوانوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیا ہے[23] جس کی وجہ سے اس کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا ہے۔ اس کے اس ماڈل سے ہمارے ادارے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
ہم نے بطور مثال چند نمونوں کا تذکرہ کیا ہے۔ان اداروں کے افکار اور نظریات اس وقت زیر بحث نہیں ہیں بلکہ محض طریق کار کو سمجھانے کے لیے یہ مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ ان مثالوں سے متنوع موضوعات اور مقاصد کے لیے کام کرنے والے علمی و تحقیقی اداروں اور فکر گاہوں کی بڑی آسان شکلیں سامنے آتی ہیں۔ یہ مثالیں عالمی سطح کی بھی ہیں اور ہمارے ملک کی بھی ہیں۔مسلمانوں سے متعلق اور ان کے ذریعے ہورہے کاموں کا بھی ہم نے خاص طور پر انتخاب کیا ہے۔ ان سب اداروں نے بڑے گہرے اثرات بھی اپنے اپنے میدانوں میں مرتب کیے ہیں۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ مختلف شہروں میں نوجوان اس طرح کی سرگرمیوں کے لیے آگے بڑھیں۔ اس وقت ہندوستان میں تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی کمی نہیں ہے۔ ان کے پاس وقت کی بھی کمی نہیں ہے۔ ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا پر بے فیض سرگرمیوں میں مصروف بھی نظر آتی ہے۔ اگر نوجوانوں کی ایک چھوٹی سی تعداد بھی ہر شہر میں اس محاذ پر سرگرم ہوجائے تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔کیا کچھ ہوسکتا ہے؟ ذیل کی تجاویز سے ان امکانات کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔
علمی و تحقیقی ذوق رکھنے والے نوجوان (کالجوں کے اساتذہ، علمائے دین، صحافی، سرکاری عہدیداران و غیرہ) خالص مقامی سطح پر یعنی شہر،مقام، یا بستی و کالونی کی سطح پر علمی کاموں اور فیصلہ سازی میں تعاون کے لیے ہلکا پھلکا نیٹ ورک قائم کرسکتے ہیں۔ اس نیٹ ورک کے ذریعے مقامی سطح کے امور و مسائل پر علمی و تحقیقی کاموں، ڈاٹا، معلومات وغیرہ کو جمع کرنے اور ان کو استعمال کرنے کے چھوٹے چھوٹے منصوبے تشکیل دیے جاسکتے ہیں۔ نیچے بطور مثال کچھ موضوعات درج کیے جارہے ہیں۔
- الف۔ مقامی سطح پر اسکولوں میں ڈراپ آوٹ کی وجوہات اور اس کے سد باب کے طریقے
- ب۔ شہر میں صنعت و تجارت کے نئے مواقع اور ان کو استعمال کرنے کی تدابیر
- ج۔ شہر میں موجودوقف جائیدادیں، ان کے استعمال یا غلط استعمال کی صورتِ حال، اصلاح کی تدابیر
- د۔ شہر کے مسلمانوں میں شرعی قوانین سے عملی وابستگی کی صورتِ حال اور اصلاحی عمل کی مطلوب ترجیحات
- ھ۔ شہر میں برادران وطن میں پائی جانے والی اسلام سے متعلق عام غلط فہمیاں اور ان کو دور کرنے کی تدابیر
- و۔ نوجوانوں کے اہم اخلاقی مسائل، اسباب اور اصلاح کی تدابیر
- ز۔ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ناانصافیوں، مظالم، نفرتی جرائم وغیرہ کا ریکارڈ
- ح۔ شہر کےمختلف محلوں اور گلیوں میں مختلف دینی واجبات(نماز، زکوة، والدین کے حقوق وغیرہ) پر عمل آوری کی صورتِ حال
- ط۔ طلاق کے واقعات، طریق کا ر اور اسباب (طلاق سے متعلق پروپگنڈے کا ازالہ اور حقیقی صورتِ حال کو سمجھنے کی کوشش)
- ی۔ (پولیس ریکارڈز کی مدد سے) مختلف جرائم اور ان میں ملوث مختلف مذہبی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا تناسب
یہ موضوعات بطور مثال پیش کیے گئے ہیں۔شہر کے حالات کے لحاظ سے ایسے دسیوں ضروری موضوعات سوچے جاسکتے ہیں۔مسلمانوں کی تعمیر و ترقی اور ان کے مسائل کے حل کے علاوہ، رائے عامہ کی درست رخ پر ہم واری اور پبلک ڈسکورس اور نریٹیو کو مناسب رخ دینا بھی اس طرح کی تحقیقات کا اہم ہدف ہوسکتا ہے۔
موضوع کو سامنے رکھتے ہوئے، شہرمیں موجودمختلف مضامین کے سینیر پروفیسر صاحبان، اعلیٰ سرکاری افسران، صحافی، علمائے کرام وغیرہ سے مدد لی جاسکتی ہے۔ انھیں سرپرست یا نگراں کے طور پر شامل کیا جاسکتا ہے اور ان کی نگرانی میں نوجوانوں کی چھوٹی بڑی ٹیموں کو ضروری ٹریننگ دے کر کام پر لگایا جاسکتا ہے۔
ان موضوعات پر انٹرنیٹ پر ریسرچ، ضروری حوالہ جاتی کتابوں کا سنجیدہ مطالعہ، آرٹی آئی وغیرہ سے معلومات اور ڈاٹا کا حصول، علما سے دینی و شرعی رہ نمائی کا حصول،زمینی سطح پر سروے، واقعات کے اندراج وغیرہ کے ذریعے ڈاٹا کا حصول اور پھر تجزیہ و تحلیل کے ذریعے چھوٹے مونوگرافوں کی اشاعت، یہ سب ان گروپوں کے کام ہوسکتے ہیں۔ فنڈ دستیاب ہو تو مونوگراف شائع کیے جاسکتے ہیں ورنہ ویب سائٹ، بلاگ بلکہ سوشل میڈیا رپورٹوں کے ذریعے بھی علمی تحقیقات کی اشاعت اب خاصی عام ہوچکی ہے۔ ڈجیٹل جرنل کی اشاعت بھی ہوسکتی ہے۔
موقع بہ موقع زیر تحقیق موضوعات پر کانفرنسوں اور سیمینارکا اہتمام بھی کیا جاسکتا ہے۔ ان کانفرنسوں میں ملک گیر سطح کے نام ور مفکروں اور دانش وروں کو بھی مدعو کیا جاسکتا ہے۔اس سے مقامی سطح پرکام کررہے اسکالروں کی تربیت بھی ہوگی اور ان کے کاموں کو ملک گیر سطح پر متعارف کرانے میں بھی مدد ملے گی۔
مختلف شہروں میں کام کرنے والے ایسے گروپ باہم مربوط ہوکر ہلکا پھلکا نیٹ ورک بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔ اسکالروں کی تربیت و رہ نمائی کے لیے خصوصی آن لائن اور آف لائن پروگراموں کا اہتمام کیا جائے۔ ملی تنظیمیں اور بڑے ادارے غیر معمولی کام کرنے والے گروپوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس مقصد کے لیے افراداور گروہوں کو سالانہ ایوارڈ دیے جائیں۔
اپنے علمی کاموں کے ذریعےیہ گروپ، مقامی تنظیموں و جماعتوں، مقامی قائدین، علما و خطباء، ہاوزنگ سوسائیٹیوں، تعلیمی اداروں، مسجدوں، اور صحافیوں وغیرہ سب کی مدد کریں اور ملی کام کرنے والے تمام افراداور گروہوں کو علمی کمک فراہم کریں۔ بتدریج ایسی صورتِ حال پیدا کی جاسکتی ہے کہ مقامی آبادی میں ہر فیصلہ کن موقعے پر اور ہر اہم فیصلے و اقدام سے قبل اس نیٹ ورک سے مشاورت اور اس سے علمی استفادہ ضروری سمجھا جانے لگے۔ یہی اجتماعی مزاج کی وہ تبدیلی ہوگی جس کی اس وقت ضرورت ہے۔
اوپرجو عملی مثالیں پیش کی گئی ہیں ان میں ان سب کاموں کے عملی نمونے موجود ہیں۔ مقامی سطح پراس طرح کے کاموں سے کئی فائدے ہوں گے۔ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ تحقیق کا کام بڑے پیمانے پر ہونے لگے گا اور وسیع افرادی قوت میسر آئے گی۔ بتدریج ان میں سے بڑے محققین اور غیر معمولی علمی کام کرنے والے دانش وران بھی میسر آنے لگیں گے۔ مقامی سطح پر اس طرح کام ہونے لگے اور مقامی فیصلوں کو بھی علمی کمک میسر آنے لگے تو علمی مزاج کی پوری ملت میں افزائش ہونے لگے گی اور اسلام کے علم دوست مزاج کی شہادت کا فریضہ بھی انجام پاسکے گا۔
حواشی اور حوالہ جات
[1] McGann, James G.,”2020 Global Go To Think Tank Index Report” (2021);The Lauder Institute, University of Pennsylvania;page 43
[2] Ibid page 44
[3] محولہ بالا رپورٹ میں مختلف ملکوں میں تھنک ٹینکوں کے اعداد و شمار ملاحظہ فرمالیں۔ فکر گاہوں کی بڑی تعداد کے اعتبار سے دنیا کے پچیس ممالک میں واحد مسلمان ملک جو شامل ہے وہ ایران ہے جہاں فکر گاہوں کی تعداد ۸۷ ہے۔ (ص ۴۵)
[4] سید سعادت اللہ حسینی؛ ہندوستانی مسلمانوں کی تمکین و ترقی بحیثیت خیر امت؛ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی؛ 2024؛ ص177
[5] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:
Wheelan, Susan A. (Ed.) The Handbook of Group Research and Practice. India: SAGE Publications, 2005.
[6] کن موضوعات پرکام کی ضرورت ہے؟ اس سلسلے میں ملاحظہ ہو ہماری تحریریں
سید سعادت اللہ حسینی؛ بدلتی ہوئی دنیا اوراسلامی فکر؛ ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز، نئی دہلی؛ 2018؛ ص 119-143
[7] https://iiit.org/en/home/
[8] https://www.iosworld.org/Announcements/About_Organizer.html
[9] https://csrindia.in/about-us/
[10] درج ذیل بنیادی کتابوں میں یہ تفصیلات ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
مروج مغربی معیارات کے لیے:
Kothari, C. R.. Research Methodology: Methods and Techniques. India: New Age International (P) Limited, 2004.
اسلامی معیارات کے لیے:
Mohammed Muqim; Research Methodology in Islamic Perspective; Genuine Publications & Media Pvt. Ltd(1994)New Delhi
[11] سید سعادت اللہ حسینی، ہندوستانی مسلمانوں کی تکمین و ترقی بحیثیت خیر امت؛ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی؛ 2024؛ ص209
[12] اس طریقے کی تفصیل کےلیے ملاحظہ ہو:
Chevalier JM, Buckles DJ (2013). Participatory Action Research: Theory and Methods for Engaged Inquiry. Abingdon, Oxon: Routledge.
[13] Anne Land-zandstra; The Science of Citizen Science. Germany: Springer International Publishing, 2021.
[14] https://www.communityeconomies.org/about/ce-research-network-cern
[15] https://ruralindiaonline.org/
[16] مزید تفصیل کے لیے کیمبریج یونیورسٹی پریس کی اس اسٹڈی کو ملاحظہ فرمائیں
Apoorv Khare and Ram Manohar Vikas; Organizing Resistance and Imagining Alternatives in India; Cambridge University Press (2022), pp. 213 – 240
[17] https://www.historypin.org/en/
[18] مزید تفصیل کے لیے انسائیکلوپیڈیا آف لوکل ہسٹری کے اس مقالے کو ملاحظہ فرمائیں
Amy H. Wilson (Ed) Encyclopedia of Local History. United States: Rowman & Littlefield Publishers, 2017. pages 321-324
[19] https://buildpalestine.com/
[21] https://crg.berkeley.edu/research/research-initiatives/islamophobia-research-and-documentation-project
مشمولہ: شمارہ جون 2025