حال ہی میں ہندوستان میں ایک نہایت افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ 9 اگست 2024 کو کلکتہ کے ایک اسپتال میں 31 سالہ پوسٹ گریجویٹ انڈر ٹریننگ خاتون ڈاکٹر کے ساتھ ظلم و بربریت کی انتہا کر دی گئی۔ آبروریزی کے بعد اسے بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ اس واقعے کی تفصیلات بہت زیادہ تکلیف دہ ہیں۔ کلکتہ کی اس بیٹی کے جسم پر شدید زخموں کے نشانات پائے گئے۔ اس حادثے کے بعد پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور ڈاکٹر برادری نے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے ہڑتال کی۔ پولیس، اسپتال انتظامیہ اور حکومت کی سرد مہری اور غیر ذمے دارانہ رویے نے اس سانحے کی شدت کو بڑھا دیا۔ اس سانحے نے حساس دلوں کو صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔ لیکن ہمیں یہاں یہ باور کرنا چاہیے کہ یہ کوئی تنہا واقعہ نہیں ہے۔
قومی جرائم کے ریکارڈ کے مطابق، 2022 میں ہندوستان میں عورتوں کے خلاف 4,45,256 جرائم درج کیے گئے، جن میں 31,516 عصمت دری کے کیس شامل ہیں۔ ان جرائم میں اتر پردیش سرفہرست ہے۔ اگرچہ فرنٹ لائن کے ایک آرٹیکل کے مطابق، کلکتہ پچھلے تین برسوں سے عورتوں کے لیے سب سے محفوظ شہر قرار دیا گیا تھا، لیکن اس حالیہ واقعے نے اس مقام کو داغدار کر دیا ہے۔
ہندوستان میں 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق ہر دن 94 عصمت دری کے واقعات درج ہوتے ہیں، جن میں سے 88کیس درست ثابت ہوتے ہیں، جب کہ چھ کیس جھوٹے الزام کے ہوتے ہیں۔ اس سال 3,38,000 جرائم درج کیے گئے جن میں 10 فیصد عصمت دری کے واقعات شامل ہیں۔ ان نمبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان میں عورت کتنی غیر محفوظ اور مظلوم ہے۔ عورتوں کے لیے غیر محفوظ ممالک میں ہندوستان کا نواں نمبر ہے۔ ان روزانہ ہونے والے 94 عصمت دری کے واقعات میں 25 فیصد متاثرین بچے ہوتے ہیں اور 94 فیصد جرائم قریبی لوگ انجام دیتے ہیں۔
یہ صورت حال صرف اعداد و شمار تک محدود نہیں۔ ابھی 6 دن قبل، مہاراشٹر کے بدلہ پور ٹاؤن میں دو معصوم چار پانچ سال کی بچیوں کے ساتھ جنسی استحصال ہوا۔ بچوں پر ہونے والے مظالم کے 12 فیصد واقعات کی ہی شکایت درج کرائی جاتی ہے۔ ہندوستانی سوسائٹی کے سماجی ڈھانچہ والدین یا قریبی رشتہ داروں کو ایف آئی آر درج کرانے سے روکتا ہے۔
عورتوں پر مظالم کے واقعات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ 2022 کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 2021 کے مقابلے میں جنسی جرائم میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اس صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ معاشرے کی خاموشی بھی ایک جرم ہے۔ جب روزانہ عصمت دری کے 94 واقعات ہوتے ہوں اور معاشرہ خاموش رہے، تو یہ درندوں کو مزید حوصلہ دیتا ہے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ جب ڈاکٹر خاتون پر ظلم ہوتا ہے تو ڈاکٹر برادری احتجاج کرتی ہے، جب دلت بیٹی پر ظلم ہوتا ہے تو دلت کمیونٹی آواز اٹھاتی ہے اور جب کسی مسلم خاتون کا معاملہ سامنے آتا ہے تو مسلمان ہلکی سی آواز میں احتجاج کرتے ہیں۔ انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کو بھی ہم نے مذہب، طبقہ اور پیشوں میں تقسیم کر لیا ہے۔
یہ ضروری ہے کہ معاشرے میں جب بھی اور کسی بھی خاتون کی عصمت پر ڈاکے ڈالے جائیں تو ہر طبقے سے آواز اٹھنی چاہیے۔ ورنہ درندے جان جائیں گے کہ مظلوم کے حق میں ایک طبقے کی آواز دو چار دن اٹھے گی، پھر پورے معاشرے پر سناٹا چھا جائے گا۔ اس مسئلے کے حل کے طور پر ہمیں اجتماعی طور پر اس کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا اور یہ عزم کرنا ہوگا کہ کسی بھی مظلوم کے ساتھ ناانصافی برداشت نہیں کی جائے گی۔
زنا کے جرائم اور سخت سزاؤں کی ضرورت
کلکتہ کے افسوسناک واقعے کے بعد، جس میں ایک خاتون ڈاکٹر کے ساتھ ظلم و بربریت کی انتہا کی گئی، سپریم کورٹ نے نیشنل ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔ اس ٹاسک فورس کی ذمہ داری ہے کہ طب کے پیشے سے جڑے افراد کے تحفظ کے لیے تفصیلی اقدامات تجویز کرے۔ ان تجاویز میں یہ بھی شامل ہو کہ اسپتالوں میں سیکیورٹی کو بہتر کیسے بنایا جائے، مرد اور خواتین ڈاکٹروں کے ریسٹ روم الگ الگ ہوں، ٹیکنالوجی کے استعمال سے تحفظ کے موثر انتظامات کیے جائیں، اسپتال کے ہر حصے میں ہر کسی کو رسائی نہ ہو، رات کے وقت ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کی جائیں، ہر تین مہینے میں حفاظتی اقدامات کا جائزہ لیا جائے اور اسپتال میں پولیس کی موجودگی بھی یقینی بنائی جائے۔
نربھیا کیس کے بعد، عدالتوں نے اس سلسلے میں سنجیدگی دکھائی ہے اور فوجداری قوانین میں ترمیمات کی گئی ہیں۔ بہت سے کیسوں میں مجرموں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے اور عوام کی جانب سے بھی سزائے موت کے مطالبے میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ ہمارے حکمراں اور ذمہ داران بھی ان سخت سزاؤں کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں، جس سے اس موقف کو تقویت پہنچتی ہے کہ زنا کے جرم کی سزا سخت ہونی چاہیے۔
اسلام سنگین جرائم، بشمول عصمت دری، کے لیے سخت سزائیں تجویز کرتا ہے۔ یہ سزائیں بظاہر سخت نظر آتی ہیں، لیکن یہ معاشرے کی حفاظت، انصاف کی برقراری اور جرم کی روک تھام کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ سزا کے حوالے سے مفسرین کے درمیان گو کہ تفصیلات میں اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن وہ اس بات پر متفق ہیں کی ان سزاؤں کا مقصد مجرم کے دل میں خوف بٹھانا ہے، نہ کہ معاشرے میں خوف پیدا کرنا۔ اس طرح معاشرے کا ہر طبقہ اطمینان اور سکون کے ساتھ زندگی بسر کر سکتا ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے یہ سزائیں معاشرتی امن و امان اور انصاف کے لیے ناگزیر ہیں اور ان کا نفاذ ایک مضبوط اور محفوظ معاشرے کی ضمانت لیتا ہے۔
قانون کی دھجیاں بکھیر نے والے قانون ساز
ملک میں قانون کی حکم رانی، شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ اور مذہبی آزادی سب کا حق ہونا چاہیے۔ یہ ذمہ داری مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ پر عائد ہوتی ہے۔ عدلیہ نے اپنے فیصلے دے دیے ہیں، مگر ان فیصلوں کے نفاذ کی جو ذمہ داری انتظامیہ پر ہے، اس کی حالت انتہائی خراب ہے۔ اور قانون سازوں کی صورت حال اس سے بری ہے۔
حالیہ انڈین ایکسپریس میں شائع ایک مضمون کے مطابق، ہندوستانی پارلیمان کے 543 سیٹوں میں سے 233 ممبران، یعنی 43 فیصد، وہ ہیں جنھوں نے اپنے انتخابی فارم میں یہ ظاہر کیا ہے کہ ان کے خلاف سنگین جرائم کے مقدمات درج ہیں۔ 2019 کے مقابلے میں یہ تعداد 9 فیصد زیادہ ہے، جب کہ 2004 کے مقابلے میں 20 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس میقات کے ممبران میں سے 170 ایسے ہیں جن کے خلاف آبرو ریزی، قتل، قاتلانہ حملہ اور اغوا کے مقدمات ہیں۔
یہ صورت حال نہ صرف ہمارے جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے بلکہ قانون کی بالادستی کے لیے بھی ایک سنگین چیلنج ہے۔ جب قانون ساز خود قانون کی دھجیاں بکھیر کر پارلیمان میں پہنچیں گے، تو پھر ملک میں انصاف اور امن و امان کیسے قائم ہو سکتا ہے؟ یہ سوال اٹھانا ضروری ہے کہ ایسے حالات میں عوام کو ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ کس طرح ملے گا؟
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے نظام میں اصلاحات لائیں اور ان عناصر کو پارلیمان سے دور رکھیں جو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں، تاکہ ملک میں حقیقی معنوں میں قانون کی حکم رانی قائم ہو سکے۔
اقتدار کا نشہ اور انسانی سماج کی نفسیات
ہمارے سماج میں ایسے افراد کی ایک تعداد موجود ہے جو عورتوں کی عصمتوں سے کھیلتے ہیں، انسانی لاشوں پر چڑھ کر اقتدار حاصل کرتے ہیں اور عصمت دری کرنے والوں کو پھولوں کے ہار پہناتے ہیں۔ ایسے افراد خود اصلاح کے محتاج ہیں، کیوں کہ ان کی روش سے معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو رہا ہے۔
انسانی سماج کی ایک نفسیاتی حقیقت یہ ہے کہ جب انسان کو تھوڑا سا بھی اقتدار ملتا ہے، چاہے وہ خاکی وردی ہو یا انتظامیہ کی سطح پر معمولی اتھارٹی، تو اسے اس کا نشہ چڑھ جاتا ہے۔ جن لوگوں کو یہ نشہ اندھا کر دیتا ہے، وہ عورتوں کی عصمتوں کو روندتے ہیں، گھروں کو تباہ کرتے ہیں، قیدیوں کو قتل کرتے ہیں، لاشوں کی بے حرمتی کرتے ہیں اور قانون کی رکھوالی کرنے کے بجائے خود قانون شکن بن جاتے ہیں۔ یہ ایک سنگین المیہ ہے، جس کے پیچھے گہری نفسیات کارفرما ہے۔
اقتدار کا یہ نشہ انسان کو بے قابو کر دیتا ہے اور اس نشے کو قابو میں کرنے کی واحد صورت عقیدۂ آخرت اور عقیدۂ توحید ہے۔ ان دو عقائد کے ذریعے ہی انسان اپنے اعمال کے نتائج سے باخبر ہوتا ہے اور اپنے اختیار کو ذمہ داری کے ساتھ استعمال کرنے کے قابل بنتا ہے۔ معاشرے میں حقیقی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ ان افراد کو جو اقتدار کے نشے میں چور ہیں، صحیح عقیدہ کی بنیاد پر تربیت دی جائے، تاکہ وہ اپنی طاقت کو درست سمت میں استعمال کر سکیں اور معاشرے میں انصاف اور امن قائم ہو سکے۔
اسلامی عدل کی ایک روشن مثال
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دورِ خلافت میں ایک خاتون کا خط ان کے دفتر میں پہنچا، جس میں شکایت کی گئی کہ کچھ چور اس کی دیوار پھلانگ کر اس کے گھر داخل ہوتے ہیں اور اس کی مرغی کے انڈے چرا لے جاتے ہیں۔ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے، حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے فوری طور پر اپنے عملے کو بھیجا تاکہ اس عورت کے جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔
جب عملہ وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ خاتون فرقون قبیلے کی ایک آزاد کردہ لونڈی تھی اور اس کے گھر کی مٹی کی دیوار بہت چھوٹی تھی، جس کی وجہ سے چور آسانی سے اندر داخل ہو کر انڈے چرا لیتے تھے۔
یہ واقعہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے عدل اور عوام کی حفاظت کے عزم کی بہترین مثال ہے۔ یہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اسلامی حکم ران عوام کی شکایات کو کس قدر اہمیت دیتے تھے اور ان کے تحفظ کے لیے کس طرح فوری قدم اٹھاتے تھے، چاہے وہ شکایت کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایک حقیقی اسلامی حکمراں کے نزدیک ہر شہری کی جان، مال اور عزت کی حفاظت بنیادی ذمہ داری ہے اور اس کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی یا تاخیر ناقابل قبول ہے۔
ان حکم رانوں کی انصاف بے زاری بھی دیکھ
حکم راں کا فرض ہے کہ وہ اپنے ہر شہری کے گھر، جان اور عزت کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دور میں جب ایک خاتون کی شکایت آئی کہ چور اس کی دیوار پھلانگ کر اس کے گھر داخل ہوتے ہیں، تو حکومتی کارندوں نے فوراً اس کی پرانی دیوار گرا کر ایک مضبوط اور اونچی دیوار بنا دی تاکہ اس کے گھر کی حفاظت ہو سکے۔
مگر ہمارے ملک کے موجودہ حکم رانوں کا رویہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں صورت حال یہ ہے کہ اگر کسی اسکول میں دو بچوں کے درمیان جھگڑا ہو جائے اور اس کے نتیجے میں ایک بچے کی ناگہانی موت واقع ہو جائے، تو سزا کے طور پر دوسرے بچے کے والدین کا گھر بلڈوز کر دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی جرات مند اور حق پسند آدمی پولیس اسٹیشن میں اپنی آواز اٹھائے، تو اس کا خوب صورت بنگلہ زمین بوس کر دیا جاتا ہے۔
یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے ملک میں صرف عورتوں کی عصمت کے تحفظ کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ہر کم زور طبقے پر ہر قسم کے ظلم کو روا رکھا جا رہا ہے۔ مختلف وردی والے، انتظامیہ کے عہدوں پر فائز افراد اور اقتدار کی چھوٹی سے بڑی گدیوں پر بیٹھے لوگ کم زوروں پر ظلم کرنے کے لیے کھلی چھوٹ حاصل کیے ہوئے ہیں۔ اس ظلم و ستم کی فضا میں انصاف کی امید ماند پڑ چکی ہے اور معاشرے کے کم زور افراد کے حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔
ملک کی اصلاح، عوام کی ذمہ داری
موجودہ صورت حال میں اصلاح کی ذمہ داری عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ انھیں نہ صرف اپنی اصلاح کرنی ہے بلکہ ان افراد کی بھی اصلاح کرنی ہے جن کا فرض تھا کہ وہ معاشرے کی بھلائی کے لیے کام کریں۔ ہمیں اپنے حکم رانوں، انتظامیہ اور عدلیہ سے پانچ بنیادی چیزوں کا مطالبہ کرنا ہے:
جان کی حفاظت
دین کی حفاظت
عزت و آبرو کا تحفظ / نسل کا تحفظ
عقل کی حفاظت
مال کی حفاظت
امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ اسلام میں شریعت یا قانون کا مقصد یہ ہے کہ خلقِ خدا کی ان پانچ چیزوں کو تحفظ دیا جائے۔ یعنی دین، جان، عقل، نسل اور مال کی حفاظت کا انتظام کیا جائے۔ ہر وہ عمل جو ان پانچ چیزوں کی حفاظت کرتا ہے، وہ مصلحت کے دائرے میں آتا ہے اور ہر وہ چیز جو ان کے لیے خطرہ بنے، اسے فساد شمار کیا جائے گا اور اسے دور کرنا مصلحت قرار پائے گا۔
اس تناظر میں، ہمیں اپنے حکم رانوں سے ان بنیادی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کرنا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ملک میں عدل و انصاف کا نظام مضبوط ہو، تاکہ ہر شہری محفوظ اور مطمئن زندگی گزار سکے۔ اس اصلاحی عمل میں عوام کا کردار بہت اہم ہے انھیں اپنی آواز بلند کرنی ہوگی تاکہ ملک میں حقیقی تبدیلی آ سکے۔
جان کا تحفظ: شریعت کا حکم اور انصاف کا تقاضا
جان کا تحفظ ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور اس کی حفاظت ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ چاہے ماب لنچنگ کے واقعات ہوں، جیل کے قیدیوں کو زہر دے کر قتل کیا جائے، انکاؤنٹر کے نام پر لوگوں کی جان لی جائے یا فسادات میں بے گناہوں کا خون بہایا جائے، ان تمام جرائم کے خلاف سخت قوانین کا نفاذ ضروری ہے۔ جہاں ایسے قوانین موجود ہیں، وہاں ان کے نفاذ کا مطالبہ پر زور طریقے سے ہونا چاہیے تاکہ شہریوں کی جان محفوظ رہ سکے۔
قرآن مجید اس بارے میں واضح ہدایت دیتا ہے:
یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَیكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلَى[سورہ بقرہ: 178]
(تم پر قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے، قتل کے معاملے میں۔)
وَلَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیاةٌ یا أُولِی الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ[سورہ بقرہ: 179]
(اور تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے، اے عقل والو!)
یہ آیت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ انصاف پر مبنی قصاص کا نظام نہ صرف مجرموں کو سزا دینے کے لیے ہے بلکہ اس سے معاشرے میں زندگی اور امن کی ضمانت ملتی ہے۔ اس لیے، ہم اپنے حکم رانوں اور عدلیہ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ شہریوں کی جان کے تحفظ کے لیے سخت قوانین بنائیں اور ان کا مؤثر نفاذ یقینی بنائیں۔
مال کا تحفظ: ریاست کی ذمہ داری
ریاست کی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے مال کو تحفظ فراہم کرے۔ مال کی حفاظت کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہر شہری کے مال کو محفوظ بنایا جائے اور یہ یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی کسی کے مال کو ناجائز طریقوں سے ہڑپ نہ سکے۔ جوا، سٹے بازی اور فریب جیسے حربے، جن میں بڑے بڑے سرمایہ دار شیئر مارکیٹ کے ذریعے اپنی کمپنیوں کی قیمتیں مصنوعی طور پر بڑھا کر لوگوں سے شیئر لیتے ہیں، مال کے تحفظ کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
مال کے تحفظ کا ایک وسیع تر مفہوم یہ بھی ہے کہ ملک کے تمام قدرتی وسائل و ذخائر، جو دراصل پوری آبادی کی ملکیت ہیں، انھیں چند ہاتھوں میں بیچا نہ جائے۔ ایسا کرنا مال کی حفاظت نہیں بلکہ اس کی بربادی کو یقینی بنانا ہے۔ اس طرح کی پالیسیوں سے عوام کا حق مارا جاتا ہے اور ان کے وسائل پر ناجائز قبضہ کیا جاتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَینَكُم بِالْبَاطِلِ [البقرہ: 188]
(اور اپنے مال آپس میں باطل طریقوں سے نہ کھاؤ۔)
یہ آیت تاکید کرتی ہے کہ مال کا تحفظ اور اس کی انصاف پر مبنی تقسیم اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے قوانین بنائے اور ان کا نفاذ کرے جو عوام کے مال کی حفاظت کو یقینی بنائیں اور معاشی ناانصافیوں کا سدباب کریں۔
عزت و آبرو اور نسل کا تحفظ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو اصناف، مرد اور عورت، کی صورت میں پیدا کیا اور ان کے درمیان فطری محبت و رغبت رکھی۔ لیکن اس تعلق کو ذمہ داری کے ساتھ مربوط کر دیا گیا ہے۔ جنسی خواہشات کی تکمیل کا واحد جائز راستہ شادی کو قرار دیا گیا ہے۔ یہ تعلیم صرف اسلام تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے تمام مذاہب اور سلیم الفطرت انسان اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔
شادی کے ادارے کو نظر انداز کرنے اور جنسی تعلقات کو اس کے علاوہ کسی اور راستے سے پورا کرنے کی کوشش سماج کے لیے نہایت نقصان دہ ہے۔ جب نسلیں وجود میں آتی ہیں، تو ان کا حق ہوتا ہے کہ انھیں باپ کی شفقت اور ماں کا پیار ملے اور دونوں کی تربیت سے وہ پروان چڑھیں۔ زنا ایک ایسا عمل ہے جو ذمہ داری سے فرار کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ اگر خدانخواستہ زنا کے نتیجے میں کوئی انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کا نفسیاتی، سماجی اور معاشی بوجھ عورت پر آتا ہے، اور یہ عمل نسلوں کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔
اسلام نے زنا کو سختی سے حرام قرار دیا ہے۔ بعض اوقات زنا دونوں کی رضامندی سے ہوتا ہے، لیکن جب زنا بالجبر ہو تو عورت اس جرم کی ذمہ دار نہیں ہوتی، جب کہ مرد کے لیے سخت ترین سزا مقرر کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں زنا کے لیے جو سزا تجویز کی گئی ہے، اس پر علما کے درمیان کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔
مولانا امین احسن اصلاحی رحمة اللہ علیہ کی رائے کے مطابق، اگر عدالتی ثبوتوں سے زنا ثابت ہو جائے تو زانی مرد اور عورت دونوں کو سو کوڑے مارے جائیں گے۔ اور اگر کوئی شخص زنا کا عادی مجرم ہو اور سماج کے لیے نقصان دہ بن جائے تو اس کے لیے قتل (رجم)کی سزا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ سزا کا عمل بھرے مجمع میں ہو تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ انسانی نسلوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا کیا انجام ہوگا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
الزَّانِیةُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ [سورہ النور: 2]
(نا کرنے والی عورت اور مرد، دونوں کو سو سو کوڑے مارو۔)
یہ حکم اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ سماج میں عزت و آبرو اور نسل کا تحفظ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں تاکہ معاشرہ ان برائیوں سے محفوظ رہ سکے۔
آج کے دور میں خاص طور پر خواتین کو یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ زنا بالجبر کے مجرموں کو سخت ترین سزا دی جائے اور اس سزا کو میڈیا کے ذریعے نشر کیا جائے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مجرموں کے دلوں میں خوف پیدا ہو اور انھیں یہ یقین ہو جائے کہ حکومت کے قانون سے بچ نکلنا ممکن نہیں ہے۔ اس طرح وہ جرائم کرنے کے ارادے سے باز آئیں گے۔
عقل کا تحفظ انسان کے شرف کا تحفظ ہے
انسان کی سب سے بڑی عزت اور شرف اس کی عقل ہے۔ اگر انسان عقل کے بجائے جذبات سے کام لیتا ہے، حالات کو جذبات کی بنیاد پر دیکھتا، سوچتا اور ردعمل ظاہر کرتا ہے، تو وہ اپنی عظمت کھو دیتا ہے۔ شراب اور منشیات کی وجہ سے انسانی عقل ماؤف ہو جاتی ہے اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نشہ بندی کرائے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر جگہ شراب کے لائسنس جاری کیے جاتے ہیں، ڈرگ پیڈلر آزاد گھومتے ہیں اور نئی نسل میں منشیات کے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ زنا کے پیچھے جو پیٹرن پایا جاتا ہے، اس میں سے ایک بڑی تعداد ایسے مجرموں کی ہے جو نشے کی حالت میں ہوتے ہیں۔ عورتوں کی عصمت کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ شراب اور منشیات پر سختی سے پابندی لگائی جائے اور یہ مطالبہ خواتین کی جانب سے پرزور طریقے سے اٹھایا جانا چاہیے۔
اس سلسلے میں خواتین کو عوامی سطح پر شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ علمی اور قانونی سطح پر بھی کام کرنا چاہیے۔ انھیں نشہ بندی کے قوانین کے نفاذ کے لیے حکومت اور انتظامیہ کو مختلف تجاویز دینی چاہیے۔ قرآن نشے کو شیطانی عمل قرار دیتا ہے:
إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ورہ المائدہ: 90]
(بیشک شراب، جوا، بت اور پانسے یہ سب شیطانی عمل ہیں، ان سے بچو تاکہ تم کام یاب ہو جاؤ۔)
دین کا تحفظ انسان کی بنیادی آزادی کا تحفظ ہے
ہر شہری کو دین کے معاملے میں مکمل آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ کسی پر بھی اس کے مذہب کے حوالے سے زبردستی نہیں کی جانی چاہیے۔ ہر فرد کو اپنے عقیدے پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ اگر کسی ملک میں مذہبی عبادت گاہوں کو مسمار کیا جاتا ہے، مذہبی امور کی ادائیگی میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں، یا لوگوں کو مذہب کا مطالعہ کرنے اور اسے سمجھنے سے روکا جاتا ہے، تو یہ ایک فساد کی علامت ہے اور اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔
قرآن مجید کا نقطہ نظر اس بارے میں بالکل واضح ہے:
لَا إِكْرَاهَ فِی الدِّینِ۔ [سورہ البقرہ: 256]
(دین میں کوئی زبردستی نہیں۔)
مردوں سے ایک بات
اب میں دوبارہ عورتوں کی عصمت کے تحفظ کی طرف آتا ہوں۔ اس سلسلے میں مرد و خواتین، چاہے وہ ہندو، مسلم، سکھ، یا عیسائی ہوں، سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر اس وقت میں مسلم مردوں سے، خطبہ جمعہ کے حوالے سے، ایک اہم بات کہنا چاہوں گا۔ موجودہ دور نے عورت کے حوالے سے کئی فتنے پیدا کیے ہیں اور ہوس پرست مرد انھیں ایک آبجیکٹ یعنی محض جسمانی خواہشات کی تسکین کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم عورتوں کا احترام کریں، انھیں عزت دیں اور جب ان سے شادی کریں تو حسن معاشرت کا مظاہرہ کریں۔ اسلام کا پیغام یہ ہے کہ عورتوں کے ساتھ بہترین سلوک کریں اور سماج کے سامنے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کریں۔
خواتین سے دو باتیں
ہمارے ملک میں روزانہ عورتوں کے ساتھ جنسی استحصال، تشدد اور عصمت دری کے واقعات پیش آتے ہیں۔ ہر واقعے کا فوری نوٹس لیا جانا ضروری ہے، مظلوم کے ساتھ ہمدردی کا اظہار ہونا چاہیے اور ظالم کو سخت سزا دی جانی چاہیے۔ مقامی سطح پر ہونے والے واقعات کو مقامی طور پر ہی اٹھانا چاہیے، جب کہ ملکی سطح پر بڑے واقعات پر مسلم خواتین کو پرامن احتجاج اور مظاہرے کرنے چاہئیں۔ بڑی ریلیوں کے بجائے، 10-15 خواتین سادہ پلے کارڈ یا موم بتیوں کے ساتھ خاموش احتجاج کر سکتی ہیں، جو کہ موثر اور نمائندہ عمل ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ عورتوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کی عصمت و عفت کی حفاظت حکومت اور سماج کی ذمہ داری ہے، لیکن انھیں خود بھی اپنی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ مغرب کا گم راہ کن نعرہ “میرا جسم میری مرضی” ایک دھوکہ ہے۔ جو ویسی رائے رکھتے ہیں وہ اپنی رائے رکھیں۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ہماری مرضی خدا کی مرضی کے تابع ہے۔ میرا جسم ہے اور اس کا استعمال خدا کی مرضی کے مطابق ہو۔ مال میرا کمایا ہوا ہے لیکن وہ خدا کی مرضی کے مطابق خرچ ہو۔ بیوی میری ہے لیکن اس کے ساتھ حسن معاشرت خدا کی مرضی کے مطابق ہو۔ بچہ پیٹ میں آنے کے بعد عورت کی مرضی نہیں کہ اس کا اسقاط کرا دے بلکہ خدا کی مرضی ہے کہ اسے نہ پیٹ میں قتل کیا جائے نہ باہر آنے کے بعد۔ بچے میرے ہیں لیکن ان کی تربیت خدا کی مرضی کے مطابق ہو۔ جسم میرا ہے لیکن لباس خدا کی مرضی کے مطابق ہو۔ یہ ہے اسلامی نقطہ نظر۔
فرد اور سماج کی ذمہ داری
آپ سب جانتے ہیں کہ سماج کو چوروں سے پاک رکھنے کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے۔ مگر اس حقیقت کے باوجود، ہر شخص اپنے گھر کے دروازے بند رکھتا ہے تاکہ چور اندر نہ آ سکیں۔ اگر کوئی خاتون یہ کہے کہ “میرا گھر اور میری مرضی” اور پھر وہ باہر کے گیٹ کو کھلا چھوڑے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود چور کو گھر کے دروازے تک آنے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔ دروازہ کھلا ہونے کی صورت میں چور گھر میں داخل ہو سکتا ہے اور اگر دروازہ بند ہو تو چور ڈاکہ زنی کی کوشش کر سکتا ہے۔
ہر عقل مند فرد اپنی جان، مال اور عزت کی حفاظت کے لیے وہ تمام ممکنہ اقدامات کرتا ہے جو اس کے بس میں ہیں اور اس کے بعد وہ سماج اور حکومت سے بھی اپنی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، جب ہم سڑک پر گاڑی چلاتے ہیں تو حادثہ کبھی ہماری غلطی سے ہوتا ہے اور کبھی سامنے والے کی غلطی سے۔ ایک اچھے ڈرائیور کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ سامنے والے کی غلطیوں کے امکانات کو پہلے ہی بھانپ لیتا ہے، ان کا اندازہ لگاتا ہے اور ان کی جانب سے ہونے والی ممکنہ غلطیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی گاڑی اس طرح چلاتا ہے کہ اپنی گاڑی اور اپنی زندگی کو محفوظ رکھ سکے۔
آپ کو اپنی حفاظت کے لیے مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں، چاہے وہ آپ کے ذاتی گھر کی ہو یا آپ کے جسم کی۔ ہر فرد کو اپنی حفاظت کے تمام ممکنہ اقدامات کرنا چاہئیں اور اس کے ساتھ ہی سماج اور حکومت سے بھی اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ اس طرح، آپ نہ صرف اپنے حقوق اور عصمت کی حفاظت کر سکیں گے بلکہ ایک محفوظ اور باوقار سماج کی تشکیل میں بھی اپنا کردار ادا کریں گے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2024