اکثر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ خاندانی انتشار ، بحران اور نااتفاقی کی وجوہ کیا ہوتی ہیں؟
ایک چھوٹے سے خاندان کی مثال لیجئے ،جس میں حسب ذیل افراد ہوں :(۱) والدین (۲) بیٹے (۳) بیٹیاں (۴)بہوئیں۔
تربیت
والدین اپنے بچوں کی بچپن سے سن بلوغ تک، ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ خاندان کا جائزہ لینا ہو تو معلوم کرنا ہوگا کہ خاندان کے سربراہ کی کمائی حلال ہے یا حرام؟ اگر سربراہ (والد) کا ذریعہ آمدنی حرام ہو تو بچوں پر اس کا بہت برا اثر پڑے گا۔حرا م روزی کا نقصان دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی ۔حرام مال روزِ قیامت آدمی کے لیے تباہی کا باعث ہوگا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ ایسا بدن جنت میں نہیں جائے گا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی ہو۔‘‘ (مسلم)۔لہٰذا والدین کو چاہیے کہ اپنی آمدنی کو پاک وحلال رکھیں۔ اولاد لڑکا ہو یا لڑکی ان کا مزاج دینی بنایا جائے۔
جب اولاد کی عمریںپانچ تا دس سال پہنچ رہی ہوں، اُسی وقت سے ان کی دینی و اخلاقی تربیت کا خاص خیال رکھا جانا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دے سکتا ہے اس میں سب سے بہتر عطیہ اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔‘‘ (ترمذی)۔والدین اُن کو دینی کاموں میں شریک رکھیں ، دینی اجتماعات میں ساتھ لے جائیں۔ مساجد کے زیر انتظام چلنے والے جزوقتی مکاتب میں بھیجنے کا نظم کریں۔ جب وہ ذرا بڑے ہوجائیں تو کسی طلبہ تنظیم (اسلامی) سے ان کا تعلق جوڑیں۔ غرض یہ کہ عصری تعلیم کے ساتھ ان کی دینی تعلیم کا معقول نظم کیا جائے، تاکہ وہ دینی تعلیم میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ اسلامی تہذیب ، عادات و اطوار ، رہن سہن اور لباس وغیرہ کا خصوصی خیال رکھا جائے۔
خیال ہوتاہے کہ بچہ اگر دینی تعلیم میں وقت دے گا تو عصری تعلیم میں کم زورہوجائے گا۔ یہ غلط سوچ ہے۔ بچے کی دنیا بنانے میں ،پیسہ، وقت اور صرف کیا جاتا جاتا ہے، لیکن انھیںدین کی طرف متوجہ نہیں کیا جاتا۔ اگر بچہ غلط راستہ پر چل پڑے تو اس کی ذمہ داری والدین پر ہے۔ عصری تعلیم پر پوری توجہ ہو جاتی ہے، لیکن آخرت کے لیے آپ نے کچھ سامان کیا؟ والدین کو چوکنا رہنا چاہیے۔ مکان کی بنیاد میں اگر اینٹ ٹیڑھی لگے تو اس کا خمیازہ مکان کو تعمیر ہونے کے بعد بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ بچوں کی تربیت کا ہے ۔ تربیت ہی سے خاندان کو استحکام ملتا ہے۔
شادی
بچے کے بڑے ہونے کے بعد شادی بیاہ کا موقع آتا ہے۔ اگر لڑکیاں ہوں تو شادی کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے۔ خاندان جس مکان میں رہائش پذیر ہے اگر وہ تنگ ہواور بچے شادی کے لائق ہوگئے ہوں تو والدین کی پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں۔ اگر بچے کمانے کے لائق ہوں اور ان کی معقول آمدنی بھی ہو تو گھر کی توسیع اور دیگر ضروریات کے لیے انھیںاپنے والدین کا ساتھ دینا چاہیے، اللہ سے دعا کرتے رہیں اور کچھ انتظار کریں۔ شادیاں تو رک نہیں سکتیں شریعت کی ہدایت کے مطابق انھیں جلدی انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لڑکے کی شادی کے بعدبہو آگئی ، تو کچھ دن مشترکہ خاندان(Joint Family )کی طرح گزر سکتے ہیں ۔ لیکن اکثر خاندانوں میں عدم توازن شروع ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے الگ رہائش کی کوشش ضروری ہے۔
عدل
تمام اولاد کو مساوی پیار و محبت دیا جائے، چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں۔ بچوں کو آپس میں یہ محسوس نہ ہو کہ امی یا ابو فلاں سے زیادہ محبت کرتے ہیں اور فلاں سے کم۔بلکہ ہر بچہ ایسا محسوس کرے کہ امی ابا مجھ سے ہی زیادہ پیار کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وَاعْدِلُوْا بَیْنَ اَوْلاَدِکُمْ (بخاری)۔ ’’ اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو۔‘‘
فطرت اور صفات کے لحاظ سے ہر بچہ مختلف ہوتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کے ساتھ ان کی فطرت اور عادت کے مطابق پیش آئیں۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی بچہ تعلیم میں آگے بڑھتا ہے، کوئی پیچھے رہ جاتا ہے۔ کوئی کاروبار میں ترقی کرتا ہے اور کوئی نہیں کرپاتا ۔یہ والدین کے لیے آزمائش ہوتی ہے۔ اس موقع پر بڑے صبر سے کام لینا چاہیے۔ یہ خواہش کہ تمام بچے فعال بن جائیں، ٹھیک ہے، لیکن پوری نہ ہوتو کم زور بچوں کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے، بلکہ اُنھیں تسلّی دی جائے جو بچے کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہوں وہ اپنے بھائیوں کی مدد کریں۔
تعاون
والدین اپنے بچوں میں ٹیم اسپرٹ (جذبہ تعاون ) پیدا کریں۔یہ شعور بیدار کرتے رہنا چاہیے۔ گھر میں بہویں آجائیں تو والدین کو پہلی فرصت میں ان کی رہائش کا علیٰحدہ نظم کرنا چاہیے ، چاہے مکان کرایہ پر لینا پڑے۔ اس کا فائدہ یہ گا کہ بھائیوں میں نا اتفاقیاں نہیں ہوں گی۔ ایسے موقع پروالدین کو بڑی حکمت سے کام کرنا ہوگا۔ شادی کے بعد انھیں اپنی زندگی گزارنے کی آزادی دینی چاہیے۔ اس معاملے میں تاخیر کرنے سے نااتفاقی، کی نوبت آنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ والدین کو خوش اسلوبی کے ساتھ یہ کام انجام دینا چاہیے۔لڑکوں اور بہوؤں کو یہ محسوس نہ ہونے دیں کہ امی ابا کسی ناراضی کی وجہ سے انھیں اپنے سے علاحدہ کررہے ہیں۔ اگر انھیںیہ احساس ہو توخاندان یہیں سے بکھرنا شروع ہوجاتا ہے۔
حُسنِ ظن
کبھی کبھی خاندان مشترکہ طور سے چل رہا ہوتا ہے لیکن بہوؤں کے دلوں میں کچھ وسوسے پیدا ہونے لگتے ہیں۔ہر بہو اپنا علیٰحدہ گھر بسانے کا خواب دیکھتی ہے ۔ یہ کوئی بری بات نہیں لیکن ضروری نہیں کہ فوری کام یابی ملے، اس لالچ میں وہ اپنے شوہر کے دل میں والدین کے سلسلہ میں نفرت پیدا کرانے کی ترکیبیں سوچتی رہتی ہے بسا اوقات یہیں سے غیبت کی ابتدا ہونے لگتی ہے۔ قرآن کریم میں غیبت کے سلسلے میں سخت وعید آئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’ وَلاَ یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضاً اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتاً فَکَرِہْتُمُوْہُ وَاتَّقُواللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ۔- اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا۔ تم خود اس سے گھن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔‘‘ (سورہ الحجرات: ۱۲)۔ والدین کے لیے یہ مناسب نہیں کہ بہو کی غلطیاں بیٹے کے کان میں ڈالنے کے مواقع تلاش کریں ۔ لہٰذا بات آگے بڑھنے سے پہلے ہی ان کا علیٰحدہ نظم کردینا مناسب ہوگا۔یہ کوئی معیوب بات نہ ہوگی ۔
اگر اچھے حالات میں الگ نہیں ہوئے تو لڑائی جھگڑا یا ناراضی کے بعد علیٰحدہ ہونا ، یہ کسی بھی طرح سے مناسب نہیں ہوگا۔ جھگڑے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ابلیس کے دربار میں تمام شیطان نے دِن بھر کی کارندے کارکردگی کی رپورٹ پیش کررہے تھے، شیطان نے سب کی کارکردگی سنی۔ آخر میں ایک کارندے نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج اس نے ایک خاندان (میاں بیوی) میں جھگڑا کرادیا ۔ ابلیس نے اس کو شاباشی دی اور کہا: ’’ میرا یہ چیلا سب سے اچھا کام کرکے آیا ہے۔‘‘ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ ماحول بگڑنے سے پہلے ہی مسئلے پر کنٹرول کرلیا جائے ۔ ایسا کرنے سے کام یابی کی طرف پیش رفت ہوگی۔
والدین کسی مسئلے میں الجھے ہوں اور مسئلہ کا فوری حل نکالنا چاہتے ہوںمگردوسروں کے علم میں لانے میں شرم محسوس کرتے ہوں تو اپنے خاندان کے بڑوں سے مدد لیں۔ اس میں کوئی عار محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ جو والدین ایسے حل تلاش نہیں کرتے اُن کو حالات کی ستم ظریفی جھیلنی پڑتی ہے اور حالات میں شدت آنے کے بعد ہوش میں آنا، نادانی ہے۔
مالی تعاون
بیٹے اگر شادی کے بعد الگ رہائش اختیار کرلیں تو والدین کو انھیںپابند کرنا چاہیے کہ وہ اپنے والدین اور دیگر چھوٹے بھائی بہنوں کے لیے اپنی آمدنی کا 10 یا 5 فی صد ضرور ادا کریں۔ یہ کوئی بے جا مطالبہ نہیں ہے ، بلکہ والدین کا حق ہے۔ اس معاملے میں تکلّف سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اگر والدین خود کفیل ہوں تب بھی بیٹے کو متعینہ رقم اداکرنے کا پابند بنائیں۔
والدین کو اپنے پوتوںو پوتیوںکو یکساں نظر سے دیکھنا چاہیے۔ سب سے پیار و محبت یکساں ہو۔ اس سے بہوؤں کو شکایت کا موقع نہیں ملتا۔ اس کا خصوصی خیال رکھنا چاہیے۔
اگر لڑکے علیٰحدہ رہنے لگیں تو والدین کو چاہیے کہ ان کے یہاں آتے جاتے رہیں،ان کی خبر گیری کرتے رہیں۔ یہ تاثر پیدا نہ ہونے دیں کہ ہمیں نکال باہر کیا اور اب اپنے چھوٹے بچوں میں مشغول ہیں۔
نابالغ بچوں کی پرورش والدین اپنے پاس ہی رکھ کر کریںتو بہتر ہوگا۔
جائیداد
جائیداد کا مسئلہ حساس ہوتا ہے۔ مال و دولت کی لالچ میں کیا سے کیا نہیں ہوتا ۔ باپ کے کاروبارمیں اگر لڑکے شریک کار رہے ہیں تو والد کے بڑھاپے کی صورت میںاُن کے درمیان کاروبار تقسیم کرنا بہتر ہوگا، تاکہ ہر لڑکا اپنی صلاحیت کے مطابق علیحدہٰ دوکان وغیرہ چلاسکے۔ زبردستی بڑے لڑکے کے ساتھ چھوٹوں کو شامل رکھنا ، مناسب نہیں۔ اگر وہ نہیں چاہتے کہ الگ کاروبار ہو تو ایسی صورت میں ہرایک کا حصہ متعین کرکے تحریری معاہدہ و شرائط طے کرلی جائیں۔ یہاں بھی عدل کو ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے، تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
اگر بھائیوں میں کوئی معاشی طور پر پریشان ہے، تو دیگر بھائیوں کا فرض ہے کہ وہ اس کا مالی تعاون کریں ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ’’جو شخص کسی بھائی کے کام میں لگا ہو اللہ تعالیٰ اُس کے کام میں لگ جاتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی کوئی بے چینی دور کرے ، اللہ تعالیٰ اس کے صلے میں اس سے قیامت کی بے چینیوں میں سے کوئی بے چینی دور کردے گا۔‘‘ (ابو داؤد)
عزِتِ نفس
جب گھر میں ایک یا ایک سے زائد بہوئیں رہتی ہیں تو والدین اور نندوں سے کبھی کبھی کچھ زیادتی ہوہی جاتی ہے۔ مثلاً اگر خاندان میں کوئی تقریب ہونے والی ہے تو خریداری کے لیے بازار جانا ہوتا ہے، ایسے وقت میں اگر والدین صرف اپنی بیٹی یا بیٹوں کو ہی لے کر جائیں اور بہوؤ ں کو نظر انداز کردیں تو اس صورت میں بہوؤں کو تکلیف ہوتی ہے۔ وہ سوچتی ہیں کہ میری اس گھر میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔اس لیے ایسے موقعوں پر بہوؤں کو بھی ساتھ لے جانا چاہیے۔
خاندان میں اگر بہویں ہوں تو ان کو میکے جانے کی اجازت کے معاملہ میں بخل سے کام لیا جاتا ہے۔ گاہے بہ گاہے ملنے کی اجازت یا موقع نکالنا ساس اورسسر کا کام ہے۔ اسی طرح سمدھی اور سمدھن کو بھی ایک دوسرے کے یہاں آتے جاتے رہنا چاہیے، تحفے تحائف کا تبادلہ ہوتے رہنا چاہیے، اس سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔
بیوہ بیٹی
کسی خاندان میں اگر بیٹی بیوہ ہوجائے یا طلاق شدہ ہوکر اپنے ماں باپ کے پاس آجائے تو کئی طرح کے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایسی بیٹی کو لوگ بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ لاچاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ ایسے حالات میں بہو اور بیٹوں کو چاہیے کہ اُسے تکلیف نہ پہنچائیں، اس کے لیے مناسب رشتہ تلاش کریں۔
ایثار وتحمل
کسی خاندان کے استحکام اورخوش گوار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ خاندان کے افراد میں صبر و تحمل اور ایثار و قربانی کا جذبہ ہو۔ صبر کامیابی کی کنجی ہے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے مدد بھی مانگنی چاہیے ۔ اگر معاملہ حل طلب ہو تو مناسب یہ ہے کہ اُسے خاندان کے بزرگ لوگوں کے علم میں لائیں۔ امید ہے کہ حالات سدھر جائیںگے۔ معاملات کو حل کرنے کے یہ طریقے ہیں :(۱) صبر کا راستہ اختیار کیا جائے ۔ (۲) معاملہ خاندان کے کسی بزرگ کے سامنے پیش کیا جائے۔ ان طریقوں کو چھوڑ کر عام طور پر بہو، ساس، نند اور سمدھن وغیرہ ایک دوسرے سے شکایت کرتے ہیں،باہر کے غیر متعلق لوگوں کے درمیان جھگڑوں اور نا اتفاقیوں کا ذکر کرتے ہیں اور اس کام میں عورتیں آگے رہتی ہیں۔ جہاں کہیں چار عورتیں جمع ہوتی ہیں، آپس میں گھریلو جھگڑوں کا تذکرہ شروع کر دیتی ہیں۔ باہر کی خواتین ہمدرد بن کر بے تُکے مشورے دینے لگتی ہیں۔وہ معاملہ سلجھانے کے بجائے اور الجھانے کے مشورے دیتی ہیں ۔مذکورہ حالات ہمارے معاشرے کو دیمک کی چاٹ رہے ہیں۔ لہٰذا ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اپنے گھر کی بات گھر اور خاندان تک ہی رکھیںاورجو بھی معاملات ہوں آپس میں حل کرنے کی کوشش کریں۔اگر معاملہ زیادہ نازک ہوجائے تو مسئلہ کو شرعی پنچایت میں رکھیں۔ کورٹ کچہری جانے سے لازماً احتراز کریں۔
مندرجہ بالا نکات پر کوئی خاندان عمل پیرا ہوجائے تو وہ خاندان مبارک باد کا مستحق ہوگا۔ حالات کو خوش گوار بنانے کے لیے مہینہ ،دو مہینہ میں خاندان کے لوگ تاریخی مقامات کی سیر وتفریح کے لیے وقت نکالیں۔ تعلیمی معلومات حاصل کرنے کے لیے لائبریریاں اور میوزم وغیرہ کا معائنہ کریں۔ قریب میں دو تین خاندان آباد ہوں تو دو ، تین مہینہ میں اجتماعی طعام کا نظم کرلیا جائے۔ کسی گھر کے پاس گزر ہو تو وہاں سناٹا محسوس نہ ہو، بلکہ ایک دوسرے کی باتیں اور مصروفیت دیکھ کر محسوس ہو کہ خاندان متحرک ہے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2017