ہم یہ جملہ اکثر سنتے ہیں کہ ’’سائنس بذاتِ خود نہ خیر ہے نہ شر۔ البتہ اس کا استعمال خیر کے لیے بھی ہوسکتا ہے اور شر کے لیے بھی۔‘‘ جو نقطۂ نظر اس مقبول عام جملے میں پیش کیا گیا ہے وہ گرچہ فی الجملہ درست ہے لیکن یہ محض آدھی سچائی بیان کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بیان میں سائنس کے استعمال کو تو زیر غور لایا گیا ہے لیکن خود سائنس کو زیر غور نہیں لایا گیا۔ ذیل کی سطور میں کوشش کی جائے گی کہ بذاتِ خود سائنس کی ماہیت پر غور کیا جائے اور انسانی زندگی سے اس کا تعلق سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
’’سائنس کیا ہے؟‘‘ اس سوال کے مختلف جوابات دئے جاسکتے ہیں لیکن سادہ جواب یہ ہے کہ کائنات کے متعلق علم کا نام سائنس ہے۔ جو وسیع و عریض کائنات ہم کو نظر آتی ہے اس میں ستارے، سورج، چاند، سیارے، پہاڑ، جنگل، میدان، دریا، سمندر، پیڑ پودے، چرند و پرند، کیڑے مکوڑے اور وہ دیگر مخلوقات موجود ہیں جن کا علم ہم کو نہیں ہے۔ خود انسان بھی اس کائنات کا ایک جُز ہے۔ ان تمام متنوع اشیاء اور مخلوقات کے متعلق علم کو سائنس کہا جاتا ہے۔
تصورِ کائنات
اس علم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ضروری ہے کہ علم کو حاصل کرنے والے انسان سے متعلق گفتگو بھی کی جائے۔ وہ کائنات، جس کے متعلق علم حاصل کرنا ہے، سارے انسانوں کے سامنے موجود ہے اور سب کو اس کا یکساں موقع حاصل ہے کہ اس کا مطالعہ کریں۔ لیکن سارے انسانوں کا نقطۂ نظر یکساں نہیں ہے۔ اس عدمِ یکسانیت کی بنا پر مختلف انسانی سماجوں میں کائنات کے مطالعے کے زاویے اور طریقے بسا اوقات مختلف ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح مطالعۂ کائنات اور مشاہدۂ کائنات سے جو نتائج اخذ کیے جاتے ہیں وہ بھی مختلف ہوسکتے ہیں۔ اس بنا پر یہ ضروری نہیں ہے کہ مختلف تہذیبوں اور سماجوں میں سائنس کے عنوان کے تحت جو علم موجود ہو وہ ہر لحاظ سے یکساں ہو۔
کائنات کا مطالعہ کرنے والے عام انسان ہوں یا سائنس داںبہرحال چند بنیادی سوالات پر غور ضروری ہے:
۱- مطالعۂ کائنات کے محرکات کیا ہیں؟
۲- مطالعہ کرنے والے کا تصورِ کائنات اورتصورِ انسان کیا ہے؟
۳- سائنس داں کے نزدیک مستند ذرائع علم کیا ہیں؟
۴- کیا مطالعہ کرنے والے کے نزدیک مشاہدے کے طریقے بھی اخلاقی حدود کے پابند ہیں؟ اگر ہاں، تو وہ حدود کیا ہیں؟
۵- کیا سائنس کے مطالعے میںہر طرح کے نظریات قائم کیے جاسکتے ہیں یا نظریات کے انتخاب کے لیے کچھ معیارات ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے؟
اور آخری سوال یہ کہ
۶- سائنسی تحقیقات سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان کے استعمال کو کن اخلاقی حدود کا پابند ہونا چاہیے؟ عموماً لوگ سائنس اور سماج کے تعلق پر یا سائنس اور اخلاقیات کے تعلق پر گفتگو کرتے ہیں تو صرف آخری سوال کو لائق اعتنا سمجھتے ہیں اور بقیہ تمام سوالات کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ سوچنے کا یہ طریقہ سطحی ہے اور سائنس نیز سماج کے وسیع رشتے کو سمجھنے کے لیے ناکافی ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ درج بالا تمام سوالات کو زیر بحث لایا جائے۔
ملحدانہ تصورِ کائنات اور اسلامی تصور:
موجودہ دور میں پوری دنیا پر ملحدانہ نقطۂ نظر کا غلبہ ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق اس کائنات کا کوئی مالک و حاکم نہیں ہے جو اس کی نگرانی کررہا ہو اور کائنات کی تمام اشیاء ہر آن اس کے حکم کے مطابق کام کررہی ہوں بلکہ اس کائنات پر بعض بے شعور طاقتوں کی فرماں روائی قائم ہے۔ یہ بے شعور طاقتیں بعض قوانین کے مطابق کام کرتی ہیںجن کو قوانینِ فطرت کہا جاتا ہے۔ ان قوانین کی کارفرمائی کے نتیجے میں وہ تمام مظاہرِ فطرت وجود میں آتے ہیں جن کا انسان مشاہدہ کرتے ہیں۔
یہ ایک نقطۂ نظر ہے جو مغربی دنیا سے آیا ہے اور اب پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ اس نقطۂ نظر کو ہم ملحدانہ تصورِ کائنات کہہ سکتے ہیں۔
اس کے بالمقابل اسلامی تصور کائنات ہے جس کا مرکزی نکتہ توحید ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق یہ کائنات، اس کے مظاہر اور اس میں کارفرما قوانین، سب اللہ کے تخلیق کردہ ہیں۔ وہ خالقِ کائنات بھی ہے اور مالک، حاکم اور مدبر و منتظم بھی۔ کائنات ہر آن اس کے اِذن کے بموجب اور اس کے احکام کے ماتحت کام کررہی ہے۔ کائنات کی تمام اشیاء اس کے وجود کی اور اس کی حکمت و قدرت کی نشانیاں ہیں۔ اس طرح اسلامی تصورِ کائنات اور ملحدانہ تصور کائنات ایک دوسرے کی عین ضد ہیں۔
یہاں یہ تاریخی حقیقت واضح رہنی چاہیے کہ اس وقت دنیا میں موجود تمام غیر اسلامی مذاہب دراصل اس ابتدائی دینِ توحید ہی کی بگڑی ہوئی شکل ہیں جو تمام انسانوں کا اصل اور مشترک دین تھا۔ اس لیے اسلامی تصورِ کائنات کو ہم مذہبی تصور کائنات بھی کہہ سکتے ہیں۔ اگر کوئی مذہب پر یقین رکھنے والا انسان، کسی معقول تصور کائنات کو دریافت کرنا چاہے جو اس کے مذہبی جذبات کو مطمئن کرسکے تو ایسا تصورِ کائنات صرف توحید پر مبنی نظریہ ہی ہوسکتا ہے۔ چنانچہ تفصیلات کے اختلاف کے باوجود، سائنس کے مطالعے کی حد تک، تمام مذہبی ذہن رکھنے والوں کے لیے توحیدپر مبنی تصورِ کائنات قابل قبول ہونا چاہیے۔ ان کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ مادی تصورِ کائنات ان کے مذہبی احساسات تصورات اور جذبات سے ٹکراتا ہے چنانچہ وہ ان کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
تقابل
ان دو نقطہ ہائے نظر کے مطابق ان چھ بنیادی سوالات کا جواب دیا جاسکتا ہے جو اوپر بیان کیے گئے ہیں۔پہلا سوال مطالعہ کائنات کے محرکات کے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں ملحدانہ تصورِ کائنات کی ترجمانی ذیل کے نکات کے ذریعے کی جاسکتی ہے:
(الف) مطالعہ کائنات کا ابتدائی محرک انسان کی وہ فطری اور جبلی خصوصیت ہے جسے ،تجسس (Curiosity)کہا جاتا ہے۔
(ب) مطالعہ کائنات کا دوسرا محرک انسانی ضروریات کی تکمیل کے لیے تگ و دو ہے۔ اس کی ترجمانی اس مشہور جملے سے ہوتی ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔
(ج) مطالعہ کائنات کا ایک قوی محرک فطرت پر فتح حاصل کرنے کی خواہش ہے۔ یہ نعرہ مغرب میں بہت مقبول ہے۔
(د) مطالعہ کائنات کا آخری محرک اپنے پسندیدہ تصورِ کائنات کا اثبات ہے۔ جس سائنسداں کا نقطۂ نظر ملحدانہ ہے وہ کوشش کرتا ہے کہ اپنی تحقیقات کے ذریعہ اپنے تصورِ کائنات کو درست ثابت کرے۔ (ڈاروِن کا نظریہ اس طرح کی کوشش کی ایک مثال ہے)۔
اس کے مقابلے میں اسلامی یا مذہبی تصور کائنات کی تشریح اس طرح کی جاسکتی ہے:
(الف) اسلام بھی انسان کے جذبۂ تجسس کو تسلیم کرتا ہے چنانچہ تجسس کا محرک ان دو تصوراتِ کائنات کے درمیان مشترک ہے۔
(ب) اسلام اس محرک کو بھی درست تسلیم کرتا ہے کہ انسان کو اپنی تمام فطری ضروریات کی تکمیل کے لیے (حدود کے اندر) تگ و دو کرنی چاہیے۔ اس تگ و دو کا آغاز کائنات کے مشاہدے سے ہوتا ہے اور اس مشاہدے سے انسان، اشیاء کا استعمال بھی سیکھتا ہے اور نئی ایجادات بھی کرتا ہے۔
(ج) اسلام فطرت پر فتح یابی کے محرک کو درست تسلیم نہیں کرتا۔ اسلام کے نزدیک انسان کائنات کا مالک نہیں ہے۔کائنات کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہے۔ چنانچہ انسان اور کائنات کا صحیح تعلق یہ نہیں ہے کہ انسان کائنات پر فتح حاصل کرنے کی کوشش کرے یا اس کا مالک بننے کی تگ و دو کرے۔ اسلام کے نزدیک انسان اور کائنات کا صحیح تعلق یہ ہے کہ انسان جذبۂ شکر کے ساتھ، کائنات کا استعمال کرے اور اس سے فائدہ اٹھائے۔اس رویے کو اسلامی اصطلاح میں شکر کہا جاتا ہے۔
(د) اسلام کے نزدیک ملحدانہ تصورِ کائنات غلط اور باطل ہے۔ چنانچہ اس کے اثبات کی کوشش بھی غلط اور ناروا ہے۔ اس کے بالمقابل اسلام کے نزدیک سائنس داں کو کائنات کی اشیاء کو اللہ کی نشانیاں سمجھ کر ان پر غور کرنا چاہیے۔ اس طرح غور کرنے کے نتیجے میں سائنس داں درست تصورِ کائنات کی تصدیق کرسکے گا۔ اس رویے کو اسلامی اصطلاح میں ذِکر اور تدبر اور تصدیق بالحسنیٰ کا رویہ کہا گیا ہے۔ یہی رویہ مطلوب ہے۔
کائنات کی ماہیت:
مادی تصور کائنات کے مطابق کائنات بے شعور مادے اور بے شعور فطری طاقتوں پر مشتمل ہے جو بعض قوانینِ فطرت کی پابند ہیں۔ انسان ان قوانین کو مشاہدے کے ذریعہ دریافت کرسکتا ہے۔ اور پھر کائنات پر فتح پاسکتا ہے۔ اس کے بالمقابل اسلامی تصورِ کائنات کے مطابق کائنات اللہ کی تخلیق کردہ ہے جو باشعور ہستی اور علیم و حکیم ہے۔ کائنات کے ایک بڑے حصے کو اس نے انسانوں کے لیے مسخر کیا ہے۔ انسان مشاہدے کے ذریعہ اس تسخیر کی تفصیلی کیفیت کو سمجھ سکتا ہے اور پھر کائنات کا (حدود کے اندر) استعمال کرسکتا ہے۔
اس طرح انسان کے بارے میں ملحدانہ تصور یہ ہے کہ انسان کائنات کا مشاہدہ کرنے اور اس پر فتح پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انسان کی یہ قوتیں کسی کی عطا کردہ نہیں ہیں اور وہ کسی بالاتر ہستی کے آگے جوابدہ نہیں ہے۔
جبکہ اسلامی تصور کے نزدیک انسان اللہ کا بندہ ہے اور زمین پر اس کا خلیفہ اور نائب ہے۔ اس کی تمام صلاحیتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں جو کائنات کا اصل مالک ہے۔ انسان اپنی صلاحیتوں کو اور کائنات کی اشیا کو ان حدود کے اندر ہی استعمال کرسکتا ہے جو اللہ نے مقرر کردی ہیں اور اس سلسلے میں وہ خالقِ کائنات کے سامنے جوابدہ ہے۔
ذرائع علم
ذریعہ علم کے بارے میں ملحدانہ نقطۂ نظر کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
(الف) حصولِ علم کے لیے انسان مشاہدہ کرتا ہے اور ان مشاہدات کو ترتیب دیتا ہے۔ اس طرح حاصل ہونے والا علم قابلِ اعتماد ہے بشرطیکہ مشاہدے کے دوران معروضیت سے کام لیا جائے یعنی مشاہدہ کرنے والا اپنے ذاتی احساسات، جذبات و خیالات سے، آزاد ہوکر مشاہدہ کرے۔
(ب) مشاہدے کے علاوہ کوئی اور مستند ذریعۂ علم نہیں ہے۔
اس کے بالمقابل اسلامی تصور درج ذیل ہے:
(الف) اسلام بھی مشاہدے کو درست ذریعہ علم تسلیم کرتا ہے۔ اس کے نزدیک مشاہدے کے ذریعہ قابلِ اعتماد علم حاصل ہوتا ہے۔ البتہ معروضی مطالعہ صحیح اصطلاح نہیں۔ اس کے بجائے اسلامی اصطلاح دیانت دارانہ مطالعہ کی ہے۔ اسلام اس حقیقت کو فراموش نہیں کرتا کہ انسان اپنے احساسات اور جذبات و خیالات سے آزاد نہیں ہوسکتا البتہ وہ ان احساسات و جذبات کی موجودگی کے باوجود دیانت دارانہ نیز عادلانہ رویہ اختیار کرسکتا ہے اور یہی مطلوب ہے۔
(ب) اسلام کے نزدیک خبر بھی مستند ذریعۂ علم ہے اگر خبر لانے والا سچا ہو۔ چنانچہ وحی مستند ذریعۂ علم ہے اس لیے کہ لانے والے (اللہ کے نبی، اور رسول) سچے انسان ہیں۔ وحی کو مستند ذریعہ علم قرار دینا، اسلامی تصورِ کائنات کی امتیازی خصوصیت ہے۔
مشاہدہ اور اخلاقی حدود:
اصولاً مغربی سائنسداں مشاہدے کے طریقوں کو اخلاقی حدود کا پابند رکھنے کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک اگر سائنسی علم حاصل کرنے کے لیے قدرتی ماحول کو یا جانوروں اورپودوں کو نقصان پہنچانا پڑے تو ایسا کیا جاسکتا ہے۔ صرف انسانوں کو سائنسی تجربات کا تختۂ مشق بنانے سے کسی حد تک گریز کیا جاتا ہے۔
ابھی حال ہی میں خبر آئی ہے کہ دہلی کی میونسپل کارپوریشن کے سامنے یہ تجویز زیرِ غور ہے کہ لاوارث انسانی لاشوں کو میڈیکل کالجوں کے حوالے کردیا جائے تاکہ ان کی چیر پھاڑ کرکے ان کو طب کی تعلیم کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ اس خبر سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رائج الوقت مادی نقطۂ نظر کے مطابق انسان کا جسم کسی احترام کا مستحق نہیں ہے اگر وہ لاوارث ہو۔ یہ ایک مثال ہے اس نقطۂ نظر کی جو مشاہدے کے طریقوں کو اخلاقی حدود کا پابند بنانے کا قائل نہیں ہے۔
اس کے بالمقابل اسلامی تصور کے مطابق (تمام انسانی اعمال کی طرح) سائنسی مشاہدات بھی صرف اخلاقی حدود کے اندر ہی انجام دئے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ سائنسداں کو مشاہدے کے مختلف طریقے اختیار کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ قدرتی ماحول کو نیز نباتات اور جانوروں کو نقصان نہ پہنچے۔ اسی طرح انسانی جسم کا احترام ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہوگا۔ ان قدروں کے علاوہ، دیگر اخلاقی اقدار کو بھی مشاہدے کے مختلف طریقے اختیار کرتے وقت، ملحوظ رکھنا ضروری ہو گا۔
ملحدانہ تصور کے مطابق سائنس کی تعبیر و تشریح کے دوران ہر قسم کے نظریات قائم کیے جاسکتے ہیں جب تک کہ وہ ’’ملحدانہ تصورِ کائنات‘‘ کی نفی نہ کرتے ہوں۔
اسی طرح، اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق- سائنسداں نظریات کے انتخاب میں آزاد ہے جب تک اُس کی تعبیرات اسلامی تصورِ کائنات سے نہ ٹکرائیں نیز کتاب اللہ کے کسی صریح بیان کی نفی نہ کریں۔
سائنس کا استعمال:
مادہ پرست مغربی دنیا کا طرزِ عمل خود غرضانہ ہے۔ چنانچہ ہر ملک سائنس کا وہ استعمال کرتا ہے جو اس کے ملکی مفادات کے لیے مفید ہو خواہ اس سے پوری انسانیت کو یا قدرتی ماحول کو نقصان پہنچتا ہو۔اس روش کے برعکس اسلامی نقطۂ نظر یہ ہے کہ سائنس کے استعمال کو ساری انسانیت کے لیے مفید اور باعثِ خیر ہونا چاہیے نیز سائنس کا ایسا استعمال نہ ہونا چاہیے جو قدرتی ماحول کے توازن کو بگاڑے یا انسانی معاشرے میں اخلاقی خرابیاں پیدا کرے۔
اسلامی تصورِ کائنات نیز ملحدانہ تصورِ کائنات کے مندرجہ بالا تقابل سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام دونوں مراحل میں اخلاقی قدروں کا قائل ہے۔ سائنس کی تدوین کے مرحلے میں بھی اور سائنس کے استعمال اور انطباق کے مرحلے میں بھی۔ اخلاقی قدروں کا ہمہ گیر انطباق اسلام کے آفاقی نقطۂ نظر کا تقاضا ہے۔ اگر اس آفاقی نقطۂ نظر کو اپنا لیا جائے تو وہ عدم توازن دور ہوسکتا ہے جس کا، آج کی دنیا شکار ہے۔ سائنس اور اس کے استعمال (یعنی ٹکنالوجی) کو، اسلامی تصور کائنات کے تابع بنانا اور اخلاقی حدود کا پابند بنانا اس عمل کا ایک اہم حصہ ہے جسے اسلامی انقلاب کہا جاتا ہے۔ مسلمان ممالک کو سب سے پہلے اس جانب پیش قدمی کرنی چاہیے اور سائنس، اس کی تدوین، اس کی تعلیم اور اس کے استعمال کو صالح اقدار کا تابع بنانا چاہیے۔ ان کا یہ طرزِ عمل باقی تمام دنیا کے لیے نمونہ بن سکے گا۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2015