حقیقت قلب کے تعلق سے کسی بھی تحقیق سے پہلے، حقیقت قرآن، اسلوب قرآن اور قرآن کے طرز سخن پر غوروفکر اورتدبر کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ قرآن مجید کے تعلق سے اس حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ یہ ایک کتاب ہدایت ہے، انسانی زندگی کا منشور ہے، دستور ہے اورخود اللہ جل شانہ نے اس کتاب کا تعارف اس طرح فرمایا ہے:
’’ذٰلِکَ الْکِتَابُ لاَرَیْبَ فِیْہ‘‘
’’یہ وہ ﴿بے مثال﴾ کتاب ﴿ہدایت﴾ ہے جس میں کسی بھی طرح کے شک یا شبہ کی کوئی گنجایش نہیں‘‘۔
اس میں پایا جانے والا ہر ہر مضمون ، ہرہر لفظ، ہرہر حرف کسی بھی قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ یہ عربی زبان میں نازل کی گئی ایسی کتاب ہے جو اپنے نزول کا مقصد کما حقہ پورا کرتے ہوئے بھی اس زمانے کے عربی ادب پر پورا پورا عبور رکھنے والوں، عربی زبان میںفصاحت وبلاغت کی بلندیوں کوچھونے والوں کے لیے ایک کھلا چیلنج بنی ہوئی تھی:
وَان کُنتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَۃٍ مِّن مِّثْلِہٰ وَادْعُواْ شُہَدَآئ کُم مِّن دُونِ اللّٰہِ انْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ۔ فَان لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِیْ وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ ۔ ﴿البقرہ: ۲۳۔۲۴﴾
’’اوراگر تم کو اس کتاب کی نسبت جو ہم نے اپنے خاص بندے پرنازل کی ہے کسی قسم کا شک ہوتو اس جیسی ایک سورت ہی بنالاؤ اور اللہ کے سوا اپنے سارے حمایتیوں کو اپنی مدد کے لیے بلالو اگر تم سچے ہو۔ پھر اگر تم یہ کام نہ کرسکو اور تم کبھی بھی یہ نہ کرسکوگے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جو کہ کافروں کے لیے تیار رکھی گئی ہے‘‘۔
اس آیت مبارکہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کسی بھی ادب کی زبان میں، کسی بھی ادبی شاہکار میں اتنی طاقت، اتنی صلاحیت اور اتنا اثر ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتا جتنا کہ قرآن مجید کے معجزانہ اسلوب میں پایاجاتاہے۔
اس کتاب کا ایک اورحیرت انگیز پہلو سورۃ الاسراء کی آیت نمبر ﴿۸۲﴾ میں اس طرح اجاگر کیاگیا ہے:
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ہُوَ شِفَائ وَرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلاَ یَزِیْدُ الظَّالِمِیْنَ الاَّ خَسَارا۔
’’اور ہم قرآن حکیم میں ایسی چیزیں نازل کرتے ہیں کہ وہ ایمان والوں کے حق میں تو شفا اوررحمت ہیں اور ظالمین کے لیے نقصان میں اضافے کا باعث‘‘
کسی بھی ادب کی زبان حتیٰ کہ عرب کے ادب کی زبان میں بھی ایسی کرشمہ سازی بالکل بھی ممکن نہیں کہ بہ یک وقت وہ مومنین کے حق میں شفاء اوررحمت بھی ہو اور ظالمین کے لیے مزید خسارے کا باعث بھی ہو۔ یہ وہ لاجواب کتاب ہے جس میں ہر پہلو، ہر انداز، ہر رخ سے انسان کی ہدایت کے لیے اور مومنین کے روحانی ،جسمانی، معاشی، معاشرتی اورد وسرے مفادات کے لیے جن جن وسائل کی ضرورت پڑسکتی تھی سب کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ اس میں حسب ضرورت ادب کی بلندیوں سے بھی کام لیاگیا ہے، عبرت اور ایمان و یقین کو پختہ کرنے کے لیے گزری ہوئی قوموں اورانبیاء ورسل کے واقعات کے مختلف پہلو اس انداز سے دہرائے گئے ہیں کہ دل کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں۔ نہایت ہی مؤثر انداز میں اور انتہائی مناسب مواقع پر جنت کی ایسی تصویر کشی کی گئی ہے کہ ایک مومن کا دل ﴿دماغ نہیں﴾ اس کو پانے کے لیے مچل مچل جائے۔ جہنم کی تصویر کشی بھی مناسب موقعوں پر اس طرح کی گئی ہے کہ ایک مومن کا دل اس سے بچنے کی ہر ممکن تدبیر اختیار کرنے لگ جائے اور کبھی کبھی کسی غیر مسلم کا دل بھی پگھل جائے۔ وعظ ونصیحت کا ایسا انداز کہ جو دلوں پر اپنی چھاپ چھوڑ جائے۔ اسی لاثانی کتاب میں اللہ عزوجل نے اپنی وحدانیت، الوہیت، ربوبیت اور بلاشرکتِ غیرے شہنشاہیت کو اجاگر کرنے اور منوانے کے لیے اپنی قدرت کے بے شمار جلوے سائنس ہی کی شکل میں دکھائے ہیں اور زبان سائنس ہی کی استعمال فرمائی ہے۔ بلکہ وحی کی ابتدائ ہی سائنس کی زبان میں کی گئی ہے:
اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔خَلَقَ الْانسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔﴿العلق:۱ ،۲﴾
’’پڑھیے اپنے رب کے نام سے جس نے تخلیق فرمائی۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے یا بوٹی سے پیدا کیا‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے سارے سائنٹفک امور کو اپنی نشانیاں فرمایا ہے اوران نشانیوں پر غوروفکر کرنے، تدبر کرنے والوں کو اولوالالباب یعنی عقل مند قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے باری باری آنے میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔اُن کے لیے جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اورآسمانوں اور زمین کی تخلیق کے تعلق سے غوروفکر کرتے رہتے ہیں۔ ﴿پھر وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں﴾ اے ہمارے پروردگار! یہ سب کچھ آپ نے فضول یا بے مقصد نہیں بنایا ہے۔ آپ کی ذات پاک ہے ۔اس بات سے کہ کوئی کام عبث یا بلاکسی مقصد کے انجام دے‘‘۔ ﴿سورہ آل عمران:۹۰ ۱، ۱۹۱﴾
خلیفہ مامون الرشید کے دور خلافت میں بغداد میں قائم کیاگیا دارالحکمہ (House of Wisdom) ان آیات مبارکہ کا عملی نمونہ تھا۔ اس دور کے مسلمانوں نے ان آیات کو ادب کی زبان میں نہیں بلکہ سائنس کی زبان میں سمجھا تھا اور اسی لیے دارالحکمہ میں زمین کی گردش کے تعلق سے مختلف تحقیقات ہوتی رہیں، زمین کا محور معلوم کیا گیا جو کہ ایک جانب مائل پایا گیا اور اسی وجہ سے موسم بدلتے رہتے ہیں۔ زمین کا محیط معلوم کیاگیا، زمین کے ہر ہر خطے میں طول بلد اور عرض بلد کا تعین کیاگیا اور طول بلد اور عرض بلد کی مدد سے دنیا کے مختلف خطوں میں سورج کے طلوع وغروب ہونے کے اوقات اورنمازوں کے اوقات کا تعین کیاگیا۔ نمازوں کے لیے قبلہ رخ معلوم کرنے کے طریقے ایجاد کیے گئے۔ بہ ہرحال دارالحکمہ میں قابل ترین مسلم ہستیاں رات دن اپنے رب کی کاینات کے اسرار کے بارے میں سوچتے رہتے تھے، غوروفکر کرتے رہتے تھے اوراللہ تعالیٰ کی عظیم الشان سلطنت کے جلوے دیکھتے رہتے تھے اور پتا نہیں کتنی کتنی بار ان کے دلوں سے یہ آواز نکل پڑی ہوگی :
’’رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً سُبْحٰنَکَ‘‘۔
قرآن مجید میں پائی جانے والی بے شمار سائنٹفک آیات میں سے چند کا ترجمہ یہ بتانے کے لیے پیش خدمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح سائنس کی زبان میں کلام فرمایا ہے:
﴿۱﴾ اور ان کے لیے ایک نشانی مردہ زمین ہے۔ ہم نے اس کو ﴿بارش کے ذریعے﴾ زندہ کیا اور اس سے ہم نے غلے نکالے۔ پس وہ ان میں سے کھاتے ہیں اور ہم نے اس میںکھجوروں اور انگوروں کے باغ لگائے اوراس میں چشمے جاری کیے تاکہ لوگ باغ کے پھلوں میں سے کھائیں اور ﴿انھیں یہ احساس ہو کہ غلے یا پھلوں کو﴾ ان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا تو کیا وہ ﴿اللہ تعالیٰ کا﴾ شکر نہیں بجا لاتے؟ وہ ذات پاک ہے جس نے زمین سے پیدا ہونے والی ساری چیزوں کے جوڑے بنائے اور خود ان میں بھی ﴿جوڑے پیدا کیے﴾ اور ان چیزوں کے بھی ﴿جوڑے بنا دیے﴾جن کو یہ جانتے تک نہیں ۔﴿سورہ یٰسین: ۳۳تا ۳۶﴾ ﴿علم نباتات (Botany)
﴿۲﴾ اور ان کے لیے ایک نشانی رات ہے کہ ہم ﴿اس رات پر سے﴾ دن کو اتار لیتے ہیں یا چھپا دیتے ہیں تو یکایک لوگ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں اور سورج اپنے مستقر کی جانب رواں دواں ہے۔ وہ زبردست اور علم والی ہستی کا اندازہ یا پلاننگ ہے۔ اورچاند کے لیے منزلیں مقرر کیں یہاں تک کہ وہ کھجور کی پرانی ٹہنی جیسا رہ جاتا ہے ۔ سورج کی مجال نہیں کہ چاند کو جاپکڑے اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے اور وہ سب اپنے اپنے فلک میں تیر رہے ہیں۔
﴿یٰسین:۳۷ تا۴۰﴾ علم فلکیات ۔(Astronomy)
﴿۳﴾ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ بادلوں کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف ابر بنا دیتا ہے ۔ پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے خول میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیںاور وہ آسمان سے ان پہاڑوں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں اولے برساتا ہے پھر جسے چاہتا ہے ان سے نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہے ﴿ان کے نقصان سے﴾ بچا لیتا ہے۔ ﴿النور:۴۳،۴۴۔ علم موسمیات (Meteorology)
﴿۴﴾ اور ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا اور پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا۔ پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ بہترین تخلیق کرنے والا۔ ﴿المؤمنون: ۱۲ تا۱۴﴾ (Embryology)
﴿۵﴾ کیا ہم نے زمین کوفرش نہیں بنا دیا؟ اور پہاڑ وں کو میخیں؟
﴿النبا۔۶،۷﴾ ﴿علم الارضیات﴾
﴿۶﴾اور ہم نے ﴿آسمان میں﴾ ایک روشن چراغ ﴿سورج﴾ بنایا اور ﴿اس کے ذریعے سے﴾ ہم ہی نے پانی سے لدے بادلوں سے کثرت سے پانی برسایا تاکہ ہم اس پانی کے ذریعے سے غلہ اور سبزی اور گنجان باغ اگائیں۔ ﴿النبا۱۳تا۱۶﴾ ﴿علم موسمیات و نباتات﴾
﴿۷﴾ کیا تمھاری تخلیق ﴿اللہ کے لیے﴾ زیادہ مشکل یا سخت ہے یا آسمان کی؟ ﴿اللہ نے﴾ اس کو بنایا اس کی سقف کوبلند کیا اور اس کو ہر لحاظ سے درست فرمایا اور اس کی رات کو تاریک بنایا اوردن کی روشنی کو ظاہرفرمایا۔ اوراس کے بعد زمین کو بچھایا یا ہموار کیا، اس میں سے اس کا پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو ﴿زمین پر﴾ قائم کردیا، تمھارے فائدے کے لیے اور تمھارے مویشیوں کے فائدے کے لیے۔ ﴿النّازِعات:۲۷۔۳۳﴾ متفرق علوم سائنس﴾
﴿۸﴾ کُلُّ نَفْسِ ذَائِقَۃُ الْمَوْت۔ میڈیکل سائنس
﴿۹﴾ اللہ قبض کرلیتا ہے ان کی جانوں کو جن کی موت آچکی ہوتی ہے اورجن کی موت نہیں آتی ﴿ان کی جانوں کو﴾ نیند کی حالت میں۔ پھر ان جانوں کو تو روک لیتا ہے جن کی موت کا فرمان جاری ہوچکااورباقی جانوں کو ایک معینہ مدت کے لیے لوٹا دیتا ہے۔ اس میں غوروفکر کرنے والوں کے لیے ﴿اللہ کی﴾ نشانیاں ہیں۔ ﴿الزمر:۴۲﴾
﴿۱۰﴾ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی اور آسمان سے پانی برسایا پھر ﴿اس پانی﴾ سے پھل پیدا فرمائے تمھارے رزق کے لیے۔تمھارے نفع کے لیے ان کشتیوں ﴿جہازوں﴾ کو مسخر کردیا جو اس کے حکم سے دریا ﴿سمندر﴾ میں چلتے ہیں اور تمھارے لیے نہروں کو مسخر کردیااور تمھارے لیے سورج اور چاند کو مسخر کردیا جو ہمیشہ گردش میں رہتے ہیں اور تمھارے لیے دن اور رات کو مسخر کردیا ﴿ابراہیم ۳۲ ، ۳۳﴾ مختلف علوم سائنس﴾
﴿۱۱﴾ سورج اور چاند ﴿کی گردش﴾ کومحسوب کردیا گیا۔ ﴿الرحمن:۵﴾ علم فلکیات
﴿۱۲﴾ دو دریا ﴿یا دو سمندر بہ ظاہر﴾ باہم ملے ہوئے ہوتے ہیں ﴿لیکن حقیقت میں﴾ ان کے درمیان ایک حجاب ہوتا ہے کہ وہ دونوں آپس میں مل نہیں پاتے ۔ ﴿الرحمن: ۱۹ ، ۲۰﴾ (Oceonology)
﴿۱۳﴾ بے شک جنھوں نے ہماری آیات کی تکفیر کی ہم ان کو عن قریب ایک سخت آگ میں جھونک دیں گے۔ جب ان کی کھالیں ایک دفعہ جل چکیں گی تو ہم فوراً ان کی جگہ دوسری کھالیں پیدا کردیں گے تاکہ وہ عذاب کا مزہ چکھتے ہی رہیں۔ ﴿النساء:۵۶﴾ ﴿میڈیکل سائنس﴾۔
جلد کے ایک ماہر نے اپنی ریسرچ کے بعد پتا چلایا کہ جلد جل جاتی ہے تو اس کے نیچے جو حصہ ظاہر ہوتا ہے وہ بے حس ہوتا ہے ۔ جب اس کو بتایاگیا کہ جس بات کو اس نے برسوں کی ریسرچ کے بعد معلوم کیا ہے اس کا ذکر قرآن مجید میں پہلے ہی سے موجود ہے تو اس نے اُسی وقت اسلام کوگلے لگا لیا۔
﴿۱۴﴾ عن قریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے اندر بھی حتیٰ کہ یہ بات واضح ہوجائے کہ ﴿قرآن﴾ حق ہے۔
حم السجدہ :۵۳﴾ ﴿علم فلکیات + میڈیکل سائنس﴾
﴿۱۵﴾ یا پھر جیسے بڑے گہرے سمندر میں اندرونی اندھیرے جن کو ایک بڑی موج نے ڈھانک لیا ہو۔ اس موج کے اوپر ایک اور موج اور اس کے اوپر بادل۔ اندھیروں پر اندھیرے— ﴿النور:۴۰﴾(Oceonology)
حقیقت قرآن کے تعلق سے اس مختصر سی تحقیق کے بعد تفہیم القرآن کی یہ عبارت کہ ’’ خیال رہے کہ قرآن حکیم سائنس کی زبان میں نہیں بلکہ ادب کی زبان میں کلام کرتا ہے‘‘۔ ﴿الحج:حاشیہ: ۹۱﴾
ذہن میں ایک سوالیہ نشان بنادیتا ہے ۔ سائنس پر مبنی اتنی ساری آیات کے باوجود مشہور علماء ے کرام حقیقت قلب کو ادب کی دنیا ہی میں تلاش کرتے رہے جیسے :
﴿۱﴾ یہاں قلوب سے مراد عقول ہیں۔ اہل عرب قلب کا اطلاق جسم انسانی میں پائے جانے والے صنوبری شکل کے عضو پر بھی کرتے تھے اور ادراک و عقل پربھی کرتے تھے۔ ﴿شیخ طاہر بن عاشور تیونسی﴾
﴿۲﴾ اس بات کی طرف اشارہ کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ’’قلب‘‘ کا استعمال اگرچہ قرآن کریم میں ایک سو تیس مقامات پرہوا ہے لیکن کسی جگہ بھی وہ طبی تشریحی (Medical Anatomy) معنی میں نہیں آیاہے بلکہ اس سے مراد ادراک و معرفت کا ایک ایسا انتہائی پیچیدہ نظام لیاگیا ہے ۔ ﴿ڈاکٹر محمد الشرقاوی﴾
﴿۳﴾ دل کا لفظ ادب کی زبان میں کبھی اس معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے جس میں یہ لفظ علم تشریح اور علم وظائف الاعضاء (Physiology) میں استعمال ہوتا ہے۔ ﴿مولانا مودودی﴾
کیا کسی کو بھی اس بات پر تعجب نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ۱۳۲ مرتبہ قلب، قلبین یا قلوب کے الفاظ استعمال فرمائے لیکن کہیں بھی ان کا اطلاق جسم انسانی میں پائے جانے والے صنوبری شکل کے عضو پر یا طبی تشریحی (Medical Anatomy) معنی میں نہیں کیا؟ اور دل سے مراد ﴿ہمیشہ﴾ وہ ذہن (Mind) ہی لیا جوحواس کے ذریعے سے حاصل شدہ معلومات کو مرتب کرکے ان سے نتائج نکالتا ہے اور عمل کی مختلف امکانی راہوں میں سے کوئی راہ منتخب کرتا اور اس پرچلنے کا فیصلہ کرتا ہے‘‘۔ ﴿مولانا مودودی۔ تفہیم القرآن۔ السجدہ،حاشیہ۱۷﴾اس تعجب کو دور کرنے کے لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے بعض جملوں کا جن میں لفظ ’’قلب‘‘ استعمال ہوا ہے ایک دفعہ اور تجزیہ کرلیا جائے۔
﴿۴﴾ قلوب پرمہر:
خَتَمَ اللّہُ عَلَی قُلُوبِہمْ ۔﴿البقرہ:۷﴾
’’اللہ نے ان کے قلوب پر مہرلگا دی ہے‘‘۔
َکذَٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلَیَ قُلُوبِ الْکَافِرِیْن۔﴿الاعراف:۱۰۱﴾
’’اسی طرح اللہ تعالیٰ کافروں کے قلوب پر مہر لگادیتا ہے‘‘
وَطُبِعَ عَلَی قُلُوبِہِمْ فَہُمْ لاَ یَفْقَہُون۔﴿التوبہ:۸۷﴾
’’ان کے دلوں پر مہر لگ چکی اس لیے وہ سمجھ نہیں پاتے‘‘۔
وَطَبَعَ اللّہُ عَلَی قُلُوبِہِمْ فَہُمْ لاَ یَعْلَمُون۔﴿التوبہ:۹۳﴾
’’اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر کردی اس لیے انھیں معلوم نہیں ہوپاتا‘‘۔
مذکوربالا آیات مبارکہ کفار، مشرکین اور منافقین سے متعلق ہیں۔ یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ دماغ کا خلل یا عطل فوری طورپر ظاہر ہوجاتا ہے ۔ اس خلل یا عطل کی مختلف قسمیں ہوسکتی ہیں جیسے ﴿۱﴾ نیند کی حالت میں دماغ کا ایک مخصوص حصہ معطل یا غیر کارکرد ہوجاتاہے جس کے نتیجے میں ہاتھ پیرآنکھیں آرام کرنے لگتے ہیں۔ ﴿۲﴾ بے ہوشی کی حالت میں، چاہے کوئی خود بے ہوش ہوجائے یا کوئی اور جیسے ڈاکٹر وغیرہ کسی کو بے ہوش کریں، دماغ کے ایک مخصوص حصے کو معطل کردیا جاتا ہے ﴿۳﴾ تیسری حالت میں دماغ کے مخصوص حصے اس طرح متاثر ہوجاتے ہیں کہ لوگ دماغی عدم توازن کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہونے لگتی ہے اور جب سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوجاتی ہے تو ان کو مجنوں یا پاگل قرار دے دیا جاتا ہے۔ فالج اور دوسری دماغی بیماریاں ﴿۵﴾ نشہ ﴿۶﴾ دواؤں کا ری ایکشن ۔ اگر اوپر مذکور آیات میں قلوب سے مراد دماغ لیے جائیں تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے مہر لگ جانے کی صورت میں ان کے دماغ کا کوئی نہ کوئی حصہ معطل ہوجانا چاہیے تھا جبکہ وہ سب مکمل نارمل حالت میں نظر آتے تھے بلکہ ذہنی طور پر بیحد تیز وطرار ۔ آج کے دور میں بھی انتہائی اعلیٰ ذہنی سطح (IQ) کے مالک لوگ جیسے سائنس داں، مختلف آلات، مشینری وغیرہ کے موجد ، اعلیٰ درجے کے ڈاکٹر، سرجن، نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے ماہرین، اونچے درجے کے انجینئرز وغیرہ میں بعض تو مٹی کی بنی ہوئی مورتیوں کے آگے ہاتھ جوڑتے ہیں، بعض خدا، مسیح، مریم کے مثلثی گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں اور بعض تو خدا کومانتے ہی نہیں ۔ ان کی ذہنی کیفیت پر کسی طرح بھی انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی اور فزیالوجی (Physiology) کے ماہرین بتائیں گے کہ دماغ میں ایسا کوئی حصہ نہیں ہے جو کہ دین کے لیے مخصوص ہو اور مہر کے لگنے سے وہ حصہ متاثر ہوجاتا ہو اور صرف دین اسلام کی باتیں قبول نہ کرتا ہو جب کہ وہ اپنے اپنائے ہوئے دین کو ہی بہتر سمجھتا ہو۔ اسی لیے ان آیات مبارکہ میں قلوب سے دماغ یا عقول ہرگز مراد نہیں لیے جاسکتے۔
اس بات کی تائید ابراہیم علیہ السلام کے اس واقعے سے بھی ہوتی ہے جب کہ انھوں نے اپنی قوم کے ساتھ میلے میں جانے سے معذرت کرلی اور ان کے جاتے ہی سارے بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے سوائے بڑے بت کے۔ جب قوم کو پتا چلا تو انھوں نے ابراہیم علیہ السلام سے سوال کیا کہ ’’کیاتم نے ہمارے بتوں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے ؟ ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ ’’نہیں بلکہ یہ تمھارے بڑے بت کی حرکت ہے اور تم اسی سے کیوں نہیں پوچھ لیتے اگر وہ بات کرسکتا ہو؟ اس پر ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے اپنے ذہنوں کو ٹٹولا تو پتا چلا کہ وہ خود غلطی پر تھے اور مارے شرمندگی کے ان کے سر جھک گئے لیکن ان کے دلوں سے آواز نکلی کہ ’’اس کو آگ میں جلا ڈالو اور بدلہ لے کر اپنے معبودوں کی مدد کرو‘‘۔ ﴿الانبیاء ۔ خلاصہ آیت نمبر ۵۷ تا ۶۸﴾
کفار و مشرکین کے تعلق سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اوراگر آپ﴿ﷺ﴾ ان سے دریافت کریں کہ وہ کون ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے اس کے بعد کہ زمین مردہ یا خشک پڑی تھی اس کو زندہ یا تروتازہ کردیا تو وہ ضرور یہی کہیں گے کہ اللہ نے۔ آپ﴿ﷺ﴾ فرمائیے الحمد للہ بلکہ ان میں اکثر عقل نہیں رکھتے‘‘۔ ﴿العنکبوت:۶۳﴾
اسی طرح : ’’اور اگر آپ﴿ﷺ﴾ ان سے دریافت کریں کہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق کس نے کی تو وہ یہی جواب دیں گے کہ اللہ نے۔ آپﷺ فرمائیے الحمد للہ بلکہ ان میں سے اکثر علم نہیں رکھتے‘‘۔﴿سورہ لقمان:۲۵﴾
اِن آیات مبارکہ سے صاف پتا چلتا ہے کہ کفارومشرکین اللہ تعالیٰ کی ہر قدرت کو مانتے اور تسلیم کرتے تھے۔ بارش برسانے کی قدرت ہو کہ نباتات وغیرہ کے پیدا کرنے اور اُگانے کی قدرت یا آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی قدرت سب کو وہ اللہ تعالیٰ کی جانب ہی منسوب کرتے تھے۔ یہ ان کی عقل کے سلیم ہونے اور ان کے علم ومعرفت کی نشانی تھی۔ لیکن جب لاالٰہ الا اللہ کی بات آتی تو ان کی عقل سلیم بھی جواب دے دیتی اور ان کے علم و معرفت کی شمع بھی بجھ جاتی اور یہ اس لیے ہوتا کہ ان کے قلوب یا دلوں پر ﴿عقلوں پر نہیں﴾ مہر لگ چکی تھی۔
ابوسفیان کی بیوی ہندہ اسلام دشمنی میں آگے آگے رہا کرتی تھی۔ فتح مکہ کے موقع پر جب اس کے دل پر لگی مہر ٹوٹی اور اس نے اسلام کوگلے لگا لیا تو اپنے گھر میں رکھے بتوں کو توڑتی جاتی تھی اور کہتی جاتی تھی کہ ہم تمھارے تعلق سے بڑی ہی غفلت میں تھے اور یہ غفلت دماغ کی نہیں بلکہ دل کی غفلت تھی۔
﴿ب﴾ پتھر دل ہوجانا
﴿۱﴾ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُکُم مِّن بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَۃً وَانَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الأَنْہَارُ وَانَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآئ وَانَّ مِنْہَا لَمَا یَہْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہ۔﴿البقرہ:۷۴﴾
﴿پھر اس کے بعد بھی تمھارے دل سخت ہوگئے۔ پس وہ پتھر جیسے ہوگئے بلکہ پتھر سے بھی زیادہ سخت۔ اور ان میں بعض پتھر تو ایسے ہوتے ہیں کہ ان سے نہریں پھوٹ پڑتی ہیں اوربعض ان میں سے شق ہوجاتے ہیں تو ان میں سے پانی نکل آتا ہے اوران میں سے بعض اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔﴾
فَبِمَا نَقْضِہِم مِّیْثَاقَہُمْ لَعنَّاہُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَہُمْ قَاسِیَۃً ۔ ﴿المائدہ:۱۳﴾
’’تو صرف ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ہم نے ان کے قلوب کو سخت کردیا‘‘۔
اوپر مذکور دونوں آیتوں میں اگرقلوب سے مراد دماغ لیے جائیں تو دماغوں کے پتھر کی طرح سخت ہوجانے پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم ہوجائے۔ پھر تو انسان یا تو خطرناک قسم کا پاگل ہوجائے یا پھر کوما میںچلاجائے جب کہ جن کے تعلق سے یہ بات کہی گئی ہے وہ ذہنی اعتبار سے نہایت ہی چالاک اور چاق وچوبند تھے۔ اسی لیے یہاں قلوب سے مراد قلوب ہی ہوسکتے ہیں، دماغ ہرگز نہیں۔
﴿ج﴾ دلوں میں مرض
﴿۱﴾فِیْ قُلُوبِہِم مَّرَضٌ فَزَادَہُمُ اللّہُ مَرَضاً ۔﴿البقرہ:۱۰﴾
﴿ان کے دلوں میں مرض ہے پس اللہ تعالیٰ نے اس مرض کو اوربڑھا دیا۔
﴿۲﴾ وَأَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوبِہِم مَّرَضٌ فَزَادَتْہُمْ رِجْساً اِلَی رِجْسِہِمْ وَمَاتُواْ وَہُمْ کَافِرُون۔﴿التوبہ:۱۲۵﴾
’’اور جن کے دلوں میں﴿نفاق﴾ کا مرض ہے اس ﴿سور﴾ نے ان کی ﴿پہلی﴾ گندگی کے ساتھ اور بھی گندگی بڑھا دی اور وہ حالت کفرہی میں مرگئے‘‘۔
یہ دونوں آیتیں منافقین کے تعلق سے ہیں جن کے ذہن، جن کی عقلیں انتہائی تندرست حالت میں تھیں۔ کیا پھر بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کی عقلیں کسی مرض کا شکار تھیں؟ نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا بلکہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ منافقین کے قلوب مرض میں مبتلا تھے تو پھر قلوب ہی مرض میں مبتلا تھے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور بھی بہت سارے مقامات پر قلوب کے مرض میں مبتلا ہونے کی بات فرمائی ہے۔ ان ساری آیات کا تجزیہ کیا جائے تو صاف پتا چلتا ہے کہ جن لوگوں کے بارے میں یہ بات فرمائی گئی وہ ذہنی اعتبار سے ، عقلی اعتبار سے نہایت ہی صحت مند تھے ۔ ان کی عقلوں میں کسی طرح کا بھی عطل یا فتور نہیں پایاجاتا تھا۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2013