اس مضمون کے پہلے حصے (زندگی نو اکتوبر ۲۰۲۲) میں جنسیت اور انحرافی جنسی رویوں کے تحت سائنسی بیانیے کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا تھا، اسی سلسلے کو اب مزید آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
(۴) جنسیت (sexuality)اور جنسی رخ (sexual orientation)رحم مادر میں عصبی درون افروزی (neuroendocrine) نظام سے متاثر ہوتے ہیں۔
سائنسی حلقوں میں یہ بات اب تقریباً تسلیم شدہ ہے کہ جنسیت اور جنسی رخ وغیرہ بہرحال کئی عوامل کے ذریعے کنٹرول ہوتے ہیں۔ یہ محض “فطری اور اکتسابی”کی دوئی میں قید نہیں ہیں۔ ‘فطری’کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جنسی رخ اور جنسیت وغیرہ فطری ہیں، فرد کا اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے، ماحول اور خاندان وغیرہ اس پر اثر انداز نہیں ہوتے، بلکہ کچھ بھی ہوجائے جنسی رخ اور جنسیت بدلتے نہیں ہیں۔ (اس بیانیے کا استعمال کرکے ساری دنیا میں +LGBTQ افراد اور تنظیموں نے اپنے ‘حقوق’کی جنگیں لڑی ہیں اور بہت سی جنگیں جیتی بھی ہیں!)
دوسری جانب “اکتساب”کے نظریے کا کیمپ ہے جو یہ کہتا ہے کہ جنسی رخ، جنسیت (مرد، ہم جنسیت اور عورت ہم جنسیت اور ہر قسم کا جنسی رویہ جو مرد و عورت والی جنسیت کے پرے ہو) وہ فرد کے ماحول، اس کی تربیت، اس کی دماغ کی کنڈیشننگ (conditioning)، اس کے خاندان اور اس کی صحبت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس میں فطرت کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ یہ سراسر فرد اور اس کے ماحول پر منحصر ہوتا ہے کہ اس کا جنسی رخ اور اس کی جنسیت کیا ہوگی۔ یہ کیمپ دراصل عیسائی نظریہ تخلیق کے ماننے والوں یا آرتھوڈوکس عیسائی حضرات کا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں بیانیے جزوی طور پر غلط ہیں۔ اب تک کی تحقیقات اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ جنسیت اور جنسی رخ میں ” فطرت اور اکتساب”دونوں کا رول ہے۔ حالاں کہ بعض متشدد محققین مانتے ہیں کہ یہ کامل فطری ہیں یعنی فرد کا اس میں کوئی رول نہیں ہے اور یہی باور کرایا جاتا ہے لیکن سنجیدگی سے اگر ان تمام تحقیقات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ معاملہ دو اور دو چار کی طرح صاف نہیں ہے بلکہ بہت زیادہ پیچیدگی لیے ہوئے ہے۔ اس لیے سائنس میں جنسیت سے جڑے سوالات کو ‘گہرے سوال'(deep question)کی اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن عوام میں اس طرح کے گہرے سوال کی اصطلاح کو عام نہیں کیا جاتا۔ نہ ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ جنسیت جیسے پیچیدہ تصور اور اس کے عملی مظاہر پر ہو رہی تحقیقات کی کمیاں کیا ہیں! اور ان کی محدودیت کتنی ہے! بلکہ دونوں جانب کے کیمپ اپنے اپنے بیانیے کو مضبوط کرنے والی تحقیق کو لے اڑتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی نئی تحقیق اس ضمن میں آتی ہے جو ان مظاہر پر مختلف نتائج کو پیش کرتی ہے، تو یا تو “فطری ہے”بیانیہ پر یقین رکھنے والے +LGBTQ والے افراد اسے لے اڑتے ہیں یا اگر وہ مخالف ہوئی تو اکتسابی لابی اور اکتسابی نظریے پر یقین رکھنے والے آرتھوڈوکس عیسائی اسے لے اڑتے ہیں۔ چوں کہ +LGBTQ کے فطری ہونے والے بیانیے کے حاملین اس وقت تحقیق اور قوت کے اداروں پر قابض ہیں اس لیے اب حالت یہ ہے کہ عوام کی بڑی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ جنسیت اور جنسی انحرافات بشمول جنسی رخ وغیرہ بلا شرکت غیرے (exclusively) فطری اور طبعی ہیں۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔
جدید تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ رحم مادر میں مختلف ہارمونوں کے مختلف ادوار اور ان کا ارتکاز، پیدا ہونے والے بچوں کے جنسی رخ اور جنسیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔(۵) اس طرح سے رحم مادر میں بچہ کے عصبی شبکے (neuronal network) کی نشو و نما کے دوران بہت سے محرکات (stimuli) پیدا ہونے والے بچے کے جنسی رخ، جنسی رجحان اور جنسیت کو طے کرتے ہیں۔ (٦)
اسی طرح رحم مادر میں جنین کی دماغی نشو و نما کے حوالے سے بہت ساری تحقیقات ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ کس طرح سے رحم مادر کا ماحول بچوں کی جنسی شناحت وغیرہ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جانوروں پر ہوئے تجربات بہت سارے اہم ثبوت فراہم کرتے ہیں لیکن پیچیدہ رویوں یاخاصوں کے معاملے میں (complex trait) جانوروں کے ماڈل کی افادیت کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ مثلا تنظیمی قیاس (organizational hypothesis) بندروں میں بڑی حد تک صحیح ہے لیکن انسانوں پر اس کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا۔
تنظیمی قیاس (organizational hypothesis) یہ کہتا ہے کہ اسٹیرائڈ ہارمون رحم مادر میں جنین کے عصبی نظام کو مکمل طور پر منضبط کر دیتے ہیں یا اس کی تنظیم کر دیتے ہیں جو بلوغت کے زمانے میں مرد اور عورت کے تمام رویوں میں جھلکتے ہیں۔ غرض اس نکتے کے تحت تحقیقات کا ایک وسیع کینوس ہے جس کا احاطہ یہاں ممکن نہیں۔ لیکن اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
جنسیت اور جنسی رخ مکمل طور پر فطری یا مکمل طور پر اکتسابی نہیں ہیں۔
یہ خصوصیات رحم مادر میں بہت سے مراحل سے متاثر ہوتی ہیں۔
انسانوں اور جانوروں میں جنسیت کے مظاہر اور ان کے در پردہ جنسیت کے ضمن میں فزیو کیمیائی و عصبی تعاملات مختلف ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔ یعنی جنسیت کے مظاہر کے ضمن میں جانوروں پر ہو رہے تجربات اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج کو مکمل طور پر انسانوں کی جنسیت پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔
جنسیت کے ضمن میں فیصلہ کن خاصے (deciding trait) کی اطمینان بخش توجیہ اب بھی نہیں ہوپائی ہے۔
(۵) جنسیت اور جنسی انحرافات میں جنسی جبریت (genetic determinism) کا کچھ نہ کچھ حصہ ہو سکتا ہے!
سالماتی حیاتیات (molecular biology) کی غیر معمولی ترقی نے انسانی خاصوں (human traits) کے بہت سے ایسے گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے جو اس سے پہلے اندھیرے میں تھے۔ سالماتی حیاتیات کے ذریعے خاصوں (traits) کے جینیاتی مصدر (genetic origin) پر حیران کن پیش رفت ہوئی ہے۔ بطور خاص طبعی خاصے جیسے آنکھوں کے رنگ کے لیے ذمہ دار جین یا بالوں اور جلد کے رنگ اور ہاتھ اور پیروں کی بعض خصوصی بناوٹوں کے جین مکمل صحت کے ساتھ معلوم کر لیے گئے ہیں۔ جانوروں میں بطور خاص پھل مکھی اور چوہوں میں تو عقل کو چکرا دینے والی تبدیلیاں کر لی گئی ہیں۔ بعض مکھیوں میں جینی تبدیلی کرکے “سر پر پیر “پیدا کرنے کا کام یاب تجربہ کیا جا چکا ہے۔
اسی طرح (CRISPR-Cas9) نامی جین میں تبدیلی کرنے والی ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے چوہے کی جلد کا رنگ تبدیل کرنے کا بھی کام یاب تجربہ کیا جاچکا ہے۔ اسی طرح دیگر جانوروں میں جین میں تبدیلی کرکے بہت سی طبعی خصوصیات کو داخل کیا جا چکا ہے، لیکن یہ تمام خاصے ایک یا دو جین کے ذریعے کنٹرول کیے جاتے ہیں۔ اصل مسئلہ پیچیدہ خاصوں کا ہے۔ ان میں مذہبیت، جنسیت، شخصیت اور رویوں کی خصوصیات وغیرہ شامل ہیں۔یہ تمام خاصے کن جینوں سے کنٹرول ہوتے ہیں حتمی طور پر یہ بات اب تک نہیں معلوم ہوسکی ہے اور تمام تر غیر معمولی تحقیقات کے باوجود کون سے جین یا جین کے گچھے (gene cluster) پیچیدہ خاصوں کے لیے ذمہ دار ہیں، اس بات کو معلوم کرنے کے سلسلے میں ابھی تک کوئی خاطر خواہ، واضح اور مضبوط کام یابی نہیں ملی ہے۔ گوکہ +LGBTQ کے سائنسی بیانیے میں سالماتی حیاتیات اور جنسیت کی جینیات (genetic of sexuality)کے میدان غیر معمولی اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں اور ان میں ابتدائی کچھ کام یابیاں درج کرائی بھی گئی ہیں لیکن یہ سب اضافی ہیں یا نامکمل ہیں یا تحقیق کے اعلی معیار پر ثابت نہیں کی جا سکتی ہیں۔ مثلا یہ کہ +LGBTQاور دیگر جنسی انحرافات کے لیے ایک یا دو مخصوص جین یا جینی شبکے ذمہ دار ہیں۔’گے جین'(gay gene)کی کہانی کس نے نہیں سنی ہوگی۔ +LGBTQ کے حاملین نے یہ نعرہ دیا کہ جنسیت اور بطور خاص مرد ہم جنس پرستی کے لیے ایک جین ذمہ دار ہے۔ ان میدانوں میں بھی اس بیانیے اور اس کے ایجنڈے کے تحت کام کرنے والے افراد اور ادارے سائنسی بد دیانتی کے مجرم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تمام ہم جنس پرست مجبور ہیں کیوں کہ ان کے اندر ہم جنس پرستی کا یہ جین پایا جاتا ہے، اس لیے یہ فطری ہے اور اس میں ماحول کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ جین کی موجودگی ان سب افراد کو ہم جنس پرستی کے لیے مجبور کرتی ہے۔
تقریباً بتیس برسوں کے بعد ۳ سال قبل یہ انکشاف ہوا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ جنسیت اتنی سادہ نہیں ہے کہ محض ایک جین کی غیر موجودگی یا موجودگی سے فیصل ہو جائے۔ جو ناتھن لیمبرٹ نے سائنس کے موقر ترین جرنلوں میں سے ایک نیچر (Nature) میں لکھا ” no gay gene”۔ (۷) اس تحقیق نے تقریباً مستند ترین ماڈل کا استعمال کیا اور ثابت کیا کہ ہم جنسیت کے بارے میں جو کچھ جنسیاتی تحقیق بتاتی ہے وہ یہ ہے کہ گوکہ جنسیت اور اس سے جڑے جنسی انحرافی رویوں کے لیے جینی جبریت کا کچھ نہ کچھ حصہ ذمہ دار ہوتا ہے، لیکن قطعیت کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ محض جینی جبریت کی وجہ سے انسان کا جنسی رخ، جنسی رجحان، جنسی شناخت اور جنسی رویہ وغیرہ طے ہوتا ہے۔ بلکہ یہ کئی ماحولیاتی اور جینیاتی عوامل کے ذریعے طے ہوتے ہیں۔ کوئی ایک جین یا کئی جین بھی خالص جنسیت اور اس سے جڑے رویوں کے لیے اکیلے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اس لیے جینی جبریت ایک جھوٹ ہے یا ایک ادھورا سچ ہے۔
جینی جبریت کی کہانی (Genome Wide Association Studies – GWAS)کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہے۔ GWAS ایک سالماتی حیاتیاتی ڈاٹا پر مبنی تکنیک ہے اور بایو انفارمیٹکس کے ٹولز کا استعمال کر کے عمل میں لائی جاتی ہے۔ ابتدا میں اس کا ظہور بیماری کے جین معلوم کرنے کے لیے، یا فصلوں کی پیداوار بڑھانے والے جین پر تحقیق میں یا جانداروں کے ظاہری خاصوں کے لیے ذمہ دار جین کی دریافت کرنے کے سلسلے میں ہوا۔ بعد میں اس کی توسیع پیچیدہ خاصوں تک کر دی گئی۔ GWAS نے فائدہ مند جین کی دریافت میں غیر معمولی کردار ادا کیا اور اس کی افادیت اور قوت دریافت (discovery power) کا اعتراف نہ کرنا علمی خیانت ہے۔ لیکن جیسے ہی اس تکنیک کو پیچیدہ خاصوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس میں غیر معمولی مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ (یہ سائنس کا مزاج ہے کہ وہ مسائل کو حل کرنے کے لیے، جانبداری(Bias) کو دور کرنے کے سسٹم بناتی ہے۔ لیکن اس کی اپنی حدود ہیں)۔ GWAS کا استعمال کرکے ۲۰۱۹ میں سائنس نامی موقر جریدہ میں اینڈریا گننا(GANNA) و دیگر نے ایک مقالہ شائع کیا ہے۔ (۸) اس مقالے نے جنسیت اور اس کے لیےGWAS کا استعمال کرنے کی کوشش پر نئی بحثوں کوچھیڑ دیا ہے۔ اس مقالے کی اہم ترین دریافتیں آسان الفاظ میں نیچے بیان کی جاتی ہیں:
مرد ہم جنسیت کے لیے کوئی ایک یا کئی جین ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ کئی جین کے گچھے (cluster) ذمہ دار ہوتے ہیں۔
(ہمارے نزدیک)سب سے اہم دریافت اور اعتراف یہ ہے کہ اس بات کا جائزہ لینا چاہئےکہ تہذیبی و سماجی عوامل یا ثقافتی تشکیل (cultural construct) کیسے جنسی ترجیحات کو متعین کرتے ہیں۔ اور پھربالآخر کس طرح فرد کے جین کو اور اس کے جنسی اظہار (expression) کو منضبط کرتے ہیں۔
سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ جین کے وہ گچھے جو شاید “مرد ہم جنس پرستی”کے لیے اہم کردار نبھاتے ہیں وہی گچھے سگریٹ کی لت، منشیات و گانجے کی لت اور رسک لینے اور تجربہ کرنے کے خاصوں کے لیے بھی ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔ تو پھر کسی خاص جنسی رویے کے لیے ان کو ذمہ دار ٹھہرانا کہاں تک درست ہو سکتا ہے؟! کیوں کہ حتمی طور پر جینی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ سارے جین کے گچھے ایک سےزیادہ خاصوں کے لیے ذمہ دار ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جینی جبریت کا یہ تصور کہ جن افراد میں یہ جینی گچھے ہوں گے وہ لازمًا کچھ خاص جنسی انحرافی رکھیں گے، صحیح نہیں ہے۔ بلکہ بہت سے دوسرے عوامل اس کے لیے ذمے دار ہوسکتے ہیں اور ان میں سے بعض فرد کے تابع بھی ہوسکتے ہیں۔
کنسے اسکیل جو جنسی رخ اور جنسیت کے خطی (linear) سلسلے (continuum) کے تصورات کو پیش کرتی ہے، وہ مکمل طور پر قابل اعتبار نہیں ہے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر بعض جنسی تحقیقات میں اس اسکیل کا استعمال بالکل مختلف قسم کے نتیجوں تک پہنچاسکتا ہے۔
اوپر دیے گئے مقدمے سے قارئین اس غیر معمولی تبدیلی کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے کہ جنسیت پر تحقیق کی ابتدا جن بنیادوں پر ہوئی تھی اور جو بنیادیں +LGBTQ کے پورے ڈسکورس میں سب سے اہم مانی جاتی تھیں وہ ایک ایک کرکے سائنسی بیانیے کے منظر نامے سے ہٹتی جا رہی ہیں یا ان کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہیں یا ان کی بنیاد پر دی جانے والی دلیلوں میں کھوکھلا پن بڑھنے لگا ہے۔ وہ بنیادیں کیا تھیں۔ ملاحظہ ہوں:
انسانی جنسیت ایک تسلسل (continuum)کا نام ہے جس کے دونوں سروں پر دو انتہائی جنسی رویے پائے جاتے ہیں اور درمیان میں ہر قسم کی جنسیت کی گنجائش ہے۔
مرد ہم جنسیت (homosexuality)ایک جین یا صرف جین کے ذریعے کنٹرول ہوتی ہے، اس میں جینی جبریت ہے اور فرد اس کے آگے بے بس ہے۔
ماحول اور دیگر عوامل کا جنسی رخ اور جنسی شناخت اور جنسی رجحان پر کوئی اثر نہیں ہوتا، وغیرہ۔
لیکن اوپر دیے گئے مقدمہ سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایسا نہیں ہے۔ تو پھر کیا ہے!
حقیقت یہ ہے کہ جنسیت ایک غیر معمولی پیچیدہ خاصہ ہے اور مروجہ سائنسی طریقہ کار میں تمام تر ارتقا اور تمام تر ٹکنالوجیکل ترقی کے باوجود پیچیدہ خاصوں پر فیصلہ کن بات کہنا مشکل ہے کہ آیا وہ مکمل طور پر فطری ہیں یا مکمل طور پر اکتسابی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ متبادل فریم ورک تلاش کیے جائیں۔ پیچیدہ خاصوں کی افادی قدروں (utilitarian values) پر گفتگو کی جائے اور انسانیت کے بڑے فائدوں کے لیے ان پر مثبت تحقیق کو آگے بڑھایا جائے۔
(۶) حیوانوں اور انسانوں میں جنسیت اور جنسی نظام ایک ہے۔ اور جنسیت کے اعتبار سے ڈارونی نقطہ نظر کے مطابق صرف “پیچیدگی”کا فرق ہے۔
سرسری نظر سے دیکھنے میں +LGBTQ ڈسکورس کے سائنسی بیانیے میں یہ نکتہ درست محسوس ہوسکتا ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ ایک بڑا گم راہ کن مفروضہ ہے۔ نیچری طرز تحقیق (naturalistic methodology) اور طرز نظر کی نمائندگی کرنے والے اس نکتے میں کئی طرح کی خامیاں ہیں۔
حیوان اور انسان میں جنسیت کے اعتبار سے محض پیچیدگی کا فرق نہیں کیوں کہ حیوان اعلیٰ سطحی ادراکی صلاحیت کا استعمال کرکے جنسی ساتھی (sex partner) نہیں چنتے، جب کہ انسان چنتے ہیں۔
انسان حیوانوں کی طرح غیر منضبط افزائش نہیں کرتے بلکہ ان میں بعض افزائش نسل کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔ یہ محض نظم (order) کا فرق نہیں ہے بلکہ شعور اور ادراک کے حوالے سے ہے!
انسان ‘محبت’اور ‘وفاداری’ کے پیچیدہ خاصے اپنے اندر رکھتے ہیں جن کی بعض صورتوں کے سادہ مظاہر حیوانی دنیا میں نہیں پائے جاتے۔ ان خاصوں کے تحت جنسی عمل سے پہلے اور بعد انسان بہت سے وہ کام کرتے ہیں جو جانور نہیں کرتے۔ا۔ مثلا ایک ہی جنسی ساتھی پر اکتفا، جنسی ساتھی کی دیکھ بھال (افزائش نسل کی صلاحیت سے محرومی کے بعد بھی!) اور پیار و محبت کے اظہار کے بہت سے طریقے۔
لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جنسیت اور +LGBTQ کے بیانیے میں اس نکتے کے ضمن میں اوپر بیان کی گئی خامیوں کے باوجود حیوانی دنیا سے ہم جنسیت کے ثبوت پیش کیے جاتے ہیں کہ فلاں اور فلاں انواع میں بھی ہم جنسیت ہے اور یہ ارتقائی سفر کے دوران حاصل شدہ خاصہ ہے، وغیرہ۔
سب سے دل چسپ بات جو جنسیت کی نیچری توجیہ میں دیکھنے کو ملے گی وہ یہ ہے کہ ڈارونسٹک فریم یہ کہتا ہے کہ ہر وہ خاصہ جو بقا کے لیے زیادہ ذرائع و وسائل کا طالب ہو وہ دھیرے دھیرے غائب ہو جاتا ہے۔ اب سب سے پہلے تو جنسی تولید ہی ایک ایسا خاصہ ہے جو غیر جنسی تولید کے مقابلے میں بہت زیادہ ذرائع و وسائل کا طالب ہے، اس کا باقی رہنا بجائے خود اک معمہ ہے۔ اب اس میں منحرف جنسی رویوں کو بھی شامل کرلیں تو بڑی عجیب صورت حال پیدا ہوگی کیوں کہ جنسی تولید ہی کا باقی رہنا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے چہ جائیکہ +LGBTQ کے رویے جو کہ کسی بھی جاندار کو بقا کی ضمانت نہیں دیتے اور ان سے کسی بھی قسم کی تولیدی افزائش ممکن نہیں تو پھر یہ خاصے کیسے ارتقا پا گئے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ +LGBTQ ڈسکورس کے سائنسی بیانیے میں سائنس کم اور سائنٹزم زیادہ ہے۔
(۷) جنسی رخ (sexual orientation) کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا یہ پیدائشی ہوتا ہے اور کوئی تھراپی یا کوئی دوا اسے تبدیل نہیں کرسکتی۔
+LGBTQکے سائنسی بیانیہ کا سب سے بڑا ہتھیار یہ تصور (notion)ہے کہ ایک بار کوئی فرد کسی مخصوص جنسی رخ کے ساتھ پیدا ہو گیا تو اب یہ ممکن نہیں کہ اس کا جنسی رخ تبدیل ہو سکے۔ یہاں تھوڑی وضاحت ضروری ہے۔ جنسی رخ (sexual orientation) اور جنسی شناخت (sexual identity) دو مختلف مگر منسلک اصطلاحات ہیں۔ جنسی رخ کا مطلب ایک مستقل بالذات کشش جو کوئی فرد دوسرے فرد (مرد، عورت یا کوئی نہیں) کے تئیں رکھتا ہے۔ اور جنسی شناخت کا مطلب ہوتا ہے کسی فرد کا اپنے متعلق (مرد، عورت یا کوئی اور جنس) ہونے کا تصور۔ اب تک یہ مانا جا رہا ہے کہ جنسی شناخت تو تبدیل ہو سکتی ہے لیکن جنسی رخ نہیں، لیکن اب “اس بنیاد” میں بھی دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں۔ Lisa Ray نامی محقق نے جنسی سیالیت (genetic fluidity) کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے وہ بتاتا ہے:
جنسیت اور اس کے تمام تر انحرافات کے ڈاٹا میں غیر معمولی تغیر پایا جاتا ہے۔
مرد ہم جنس پرست، زندگی کے بعض ادوار میں اپنے آپ کو غیر مرد ہم جنس پرست محسوس کرنے لگتے ہیں۔
عورتوں میں جنسی سیالیت (genetic fluidity) مردوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوتی ہے۔
حالاں کہ اس تحقیق کی اپنی خامیاں ہیں جن کا تذکرہ کیا جا چکا ہے، لیکن جنسی سیالیت کا تصور کیا بالآخر جنسی انحرافات کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوگا؟ یا ایسی تحقیقات جنسی دوئی کے بیانیے کے لیے مزید مواد فراہم کریں گی؟ یا دونوں بیانیوں پر غیر ضروری اصرار اور کھینچاتانی سے پرے ایک ایسے علمی مقدمے کی بنیاد استوار ہوگی، جہاں جنسیت کو انسانی نسل کی بقا کے لیے فطری مگر بنیادی اور اہم ترین آلے کے طور پر مانا جانے لگے گا اور اس سے اسی سطح کا معاملہ کیا جائے گا۔
ہم +LGBTQ اور سائنسی بیانیہ کے اس تنقیدی تجزیہ کا اختتام جنسیت، جنسی رویہ اور جنسی شناخت کے دائروں میں کام کرنے والے ایک بہت بڑے محقق کے مشاہدے سے کرنا چاہیں گے۔ ایس مارک بریڈیو لکھتے ہیں (۱۰) ترجمہ “ہم میں سے اکثر حیرت میں پڑ جاتے ہیں جب ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے رویہ کا کتنا حصہ حیاتیاتی عوامل (جیسے جینیات اور رحم مادر میں ہارمون کے ارتکاز اور اس طرح کے عوامل) پر منحصر ہے۔ اکثر یہ فطرت کی نسبتی شراکت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے یعنی ‘فطرت اور اکتساب’ یا ‘جینیات بمقابلہ ماحولیاتی اثرات’ لیکن اس طرح کے بیانیوں کا سرسری تجزیہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جیسے جیسے آپ اس (موضوع) کی گہرائیوں میں جاتے ہیں، اس طرح کی تفریق مشکل سے مشکل تر ہوتی جاتی ہے۔”
حوالہ جات
- Ventriglio A, Kalra G, Bhugra D. Human rights and sexuality: sexual fluidity. Lancet Psychiatry. 2018 Feb;5(2):109-110. doi: 10.1016/S2215-0366(18)30016-6. PMID: 29413130.
- Lisa M. Diamond : Sexual Fluidity in Male and Females. Curr Sex Health Rep (2016).DOI 10.1007/s11930-016-0092-z
- Cohen-Bendahan, C.C., van de Beek, C., and Berenbaum, S.A. (2005). Prenatal sex hormone effects on child and adult sex-typed behavior: methods and findings. Neurosci Biobehav Rev 29, 353–384.
- Rahman Q. The neurodevelopment of human sexual orientation. Neurosci Biobehav Rev. 2005;29(7):1057-66. doi: 10.1016/j.neubiorev.2005.03.002. Epub 2005 Apr 25. PMID: 16143171.
- Lambert J. No ‘gay gene’: Massive study homes in on genetic basis of human sexuality. Nature. 2019 Sep;573(7772):14-15. doi: 10.1038/d41586-019-02585-6. PMID: 31481774.
- Andrea Ganna ,Karin JHV : Large-scale GWAS reveals insights into the genetic architecture of same-sex sexual behavior. SCIENCE 30 Aug 2019 Vol 365, Issue 6456 DOI: 10.1126/science.aat7693
- Lisa M. Diamond : Sexual Fluidity in Male and Females. Curr Sex Health Rep (2016). DOI 10.1007/s11930-016-0092-z
- Breedlove SM. Prenatal Influences on Human Sexual Orientation: Expectations versus Data. Arch Sex Behav. 2017 Aug;46(6):1583-1592. doi: 10.1007/s10508-016-0904-2. Epub 2017 Feb 7. PMID: 28176027; PMCID: PMC5786378.
مشمولہ: شمارہ نومبر 2022