جیل خانے کے صدر دروازے پر صبح ہی سے سیاہ جھنڈا لہرادیاگیاہے۔ اس لیے کہ آج عدالت کے فیصلے کے مطابق چھ مجرموں کو پھانسی کی سزا دی جانی ہے۔ باہر سردہواچل رہی ہے۔ آٹھ بجے کورٹ آف اپیل کی پیشانی پر بھی سیاہ جھنڈا لہرادیاگیا۔ یہاں ان مجرموں کو دو رات قبل ہی منتقل کیاجاچکاتھا اور انھیں پھانسی کی سزا پانے والوں کامخصوص لباس پہنادیاگیاتھا۔ ہر ایک نے سرخ ٹوپی، سیاہ قمیض اور سرخ پاجامہ پہن رکھا ہے اور پیر ننگے ہیں۔ جیل کے مرکزی احاطے میں دو دیوہیکل جلّاد کھڑے ہیں۔ ان کی مونچھیں بڑی بڑی ہیں۔ انھوں نے سیاہ لباس پہن رکھا ہے اور ایک چھوٹے سے نیم وا دروازے کے پاس کھڑے انتظارکررہے ہیں۔ یہ پھانسی گھر کا دروازہ ہے۔ آٹھ بج کر پانچ منٹ پرسب سے پہلے ایک دبلے پتلے شخص کو زنجیر میں جکڑا ہوا لایاگیا۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے حکمرانِ وقت پر گولی چلائی تھی اور اسے قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کی سادگی اور بھولاپن اس الزام کے جھوٹے ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ پیشے سے یہ پلمبر ہے۔ یہ شخص زیرِ لب دعائیں پڑھتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کے چہرے پر بشاشت رقصاں ہے۔ سرکاری مولوی نے اسے کلمۂ شہادت پڑھنے کی ہدایت کی، مگر اس نے کہنا شروع کردیا: ’’میں اللہ کاشکر ادا کرتاہوں، جس نے مجھے شہادت نصیب فرمائی۔ شہادت ہماری سب سے قیمتی آرزو ہے۔‘‘ اتنے میں ایک چیخ سنادی۔ لکڑی کاتختہ اس شخص کے پیروں کے نیچے سے نکل چکاتھا۔ تین منٹ تک اس کی نبض چلتی رہی، پھر خاموش ہوگئی، لیکن اس کے جسم کو آدھے گھنٹے تک لٹکارہنے دیاگیا، تاکہ اس کی موت میں کوئی شبہ باقی نہ رہے۔
اس کے بعد دوسرے مجرم کو لایاگیا۔یہ اپنے دونوں بھاری بھرکم جلّادوں کے درمیان چھوٹے سے نظرآرہے تھے۔ چہرے پر نیلگوں نشان اور سوجن جسمانی اذیتوں کی چغلی کھارہے تھے۔ تختۂ دار کے قریب پہنچ کر اس شخص نے دورکعت نماز پڑھنے کی خواہش کااظہار کیا،مگر جلّادوں نے جواب دیا: ’’دل میں پڑھ لو۔‘‘ اس نے بلند آواز سے یہ دعا کی: ’’اے اللہ! میری مغفرت فرما اور ان لوگوں کی بھی جنھوں نے میرے ساتھ بُرا سلوک کیا۔‘‘ اس کا جسم بھی پھندے کے ساتھ جھول گیا۔
تیسرا مجرم آگے بڑھاتو اس کے ہونٹوں پر ہلکی ہلکی حقارت آمیزمسکراہٹ پھیل رہی تھی۔ جلّادوں کے وسط میں چلنے کے بجائے وہ کنارے ہوکرچلا۔ حاضرین کو بڑی جرأت آموز نگاہوں سے دیکھااور بلند آواز سے کہا: ’’اللہ کا شکر ہے کہ مجھے شہادت نصیب ہورہی ہے۔‘‘ ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا: ’’یہ بات خوب ہے کہ ہمارے دشمن ہی ہمارے جج بن گئے۔ قیامت کے روز ایک عادل حاکم کے سامنے ظالم اورمظلوم دونوں حاضر ہوں گے اور وہ حاکم عین حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔‘‘ چوتھے شخص کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہ تھا۔ پانچویں نمبر پر جس کی باری آئی وہ ایک وجیہ اور تمکنت شخصیت کا مالک تھا۔ سماج میں اس کی شہرت ایک مبلّغ اورپُرجوش خطیب کی تھی۔ وہ ایک بڑی دینی جامعہ کا فارغ التحصیل تھا۔ تختۂ دار کی طرف بڑھتے ہوئے اس کے لبوں پر حلاوت آمیز تبسّم اٹکھیلیاں کررہاتھا اور اس کی زبان پریہ الفاظ جاری تھے: ’’اللہ اکبر۔ آج اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی سعادت نصیب ہورہی ہے۔‘‘ جیل کے قانون کی رو سے لازم تھا کہ ’’پھانسیوں کے درمیان کم از کم آدھے گھنٹے کا وقفہ ہو، تاکہ پہلے سزا یافتہ شخص کاجثّہ اتنی دیر تک ضرور لٹکارہے کہ اس کی موت میں کوئی شبہ نہ رہے۔
سب سے آخر میں جس مجرم کو لایاگیا، اسے موت کے فیصلے کی خبر دی گئی تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’شکریہ!‘‘۔ چلتے ہوئے اس کی گردن بلندتھی اور تحمل قدم قدم سے عیاں تھا۔ اس کی آنکھوں میںمسکراہٹ تھی اور وہ بلند آواز سے قرآن کریم کی تلاوت کررہاتھا۔ تختۂ دار کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے وہ اپنے دونوں جلّادوں سے آگے نکل گیا۔ آخر میں اس نے عربی کے یہ اشعارپڑھے:
لَسَتُ اُبَالِی حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِماً
عَلَی اَیِّ جَنْبٍ کَانَ فِی اللّٰہِ مَصْرعَیِ
وَ ذٰلِکَ فِی ذاتِ الالٰہِ وَ اِنْ یَّشَأ
یُبَارِک عَلیٰ اَوْ صَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ
’میں بہ حیثیت مسلمان قتل کیاجاؤں تو مجھے کچھ پروا نہیں کہ میں اللہ کی راہ میں کس کروٹ ڈھیر ہوں گا۔ یہ سب اللہ کے لیے ہے۔ اگر وہ چاہے گا تو میرے ٹکڑے ٹکڑے میں برکت دے گا۔‘‘
پھر اپنا سر اچھی طرح اوپر اٹھاکر کہا: ’’میں اللہ کاشکر ادا کرتاہوں کہ اس نے مجھے شہادت سے نوازا۔ میرا خون نظامِ وقت کے لیے دھماکہ خیز ہوگا اور اس کے لیے لعنت ثابت ہوگا۔‘‘
یہ منظرنامہ ہے قاہرہ کی جیل اور اس کے پھانسی گھر کا۔ تاریخ ہے ۹/نومبر ۱۹۵۴ء۔ پھانسی پانے والے مصر کی مشہور تحریک الاخوان المسلمون کے ممتاز قائدین ہیں۔ آخری ملزم جسے تختۂ دار پر چڑھایاگیا وہ ہیں اخوان کے نائب مرشد عام جسٹس عبدالقادر عودہ۔ اور پورے واقعے کی رپورٹنگ کی ہے فرانس کے سب سے بڑے روزنامہ ’فرانس سوار‘ کے نمائندے نے۔
بیسویںصدی عیسوی کے اوائل میں دنیا کے مختلف حصوں میں جن تحریکوں نے اسلامی بیداری کا کارنامہ انجام دیا ہے، ان میں ایک اہم اور مشہور نام مصر کی تحریک الاخوان المسلمون کا ہے۔ مصر پر انگریز ۱۸۸۲ء سے ۱۹۲۲ء تک قابض رہے۔ اس عرصے میں دوسرے مسلم ممالک کی طرح، جو برطانیہ کے زیرقبضہ تھے، مصر میں بھی اسلامی اقدار کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی، اسلامی عقائد و نظریات پر سخت تنقیدیں کی گئیں، عائلی زندگی سے متعلق اسلامی تعلیمات پر اعتراضات کیے گئے اور یہ خیال عام کیاگیاکہ اسلام موجودہ دور کا ساتھ دینے کی اہلیت نہیں رکھتا، اسلامی تہذیب کی جگہ مغربی قوانین کو رواج دیاگیا، عرب قوم پرستی کو خوب ہوا دی گئی اور العزۃ للعرب ﴿برتری عربوں کے لیے﴾ اور نحن آل فرعون ﴿ہم فرعون کی اولادہیں﴾ کے نعرے لگائے گئے۔ ان حالات میں حسن البنائ شہیدؒ ﴿پیدائش ۱۹۰۶ء﴾ نے آنکھیں کھولیں۔ ان کی حسّاس طبیعت پر ان غیراسلامی رجحانات نے گہرا اثر کیا۔ انھوں نے ۱۹۲۸ء میں الاخوان المسلمون کے نام سے تحریک کی بنیاد ڈالی۔ الاخوان المسلمون نے اعلان کیاکہ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے۔ وہ انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں میں مکمل رہ نمائی فراہم کرتا ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیاکہ مصر میںاسلامی قوانین نافذ کیے جائیں اور ملک کے دستور اور قانون کا ماخذ یورپی ممالک کے دستوروں اور قوانین کو بنانے کے بجائے کتاب و سنت کو بنایاجائے۔ جلد ہی مصر کے طول و عرض میںان کی بہت سی شاخیں قائم ہوگئیں۔ طلبہ، اساتذہ، ڈاکٹروں، وکلائ اور مزدوروں کی انجمنیں بن گئیں، عورتوں کا علاحدہ شعبہ قائم ہوگیا۔ اخوان نے رفاہ عام کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد انھوں نے عوامی پیمانے پر سیاسی مسائل میں بھی حصہ لینا شروع کردیا۔ چنانچہ دورانِ جنگ انگریزوں نے آزادیٔ مصر کا جو اعلان کیاتھا اس کو فوری طورپرپورا کرنے کامطالبہ کیا۔ اس سے اخوان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ دوسال کے اندر ان کے ارکان کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ گئی۔ ہم دردوں کی تعداد اس کی دوگنی تھی۔ اخوان کی اس روزافزوں مقبولیت کی بنا پر اسلام دشمن طاقتیں ان سے خطرہ محسوس کرنے لگیں اور ان کی سرکوبی کے لیے نت نئی تدبیریں سوچنے لگیں۔
الاخوان المسلمون کو اپنی تاریخ میں متعدد مرتبہ سخت آزمائشوں سے دوچار ہوناپڑا ہے۔ خاص طور سے تین مواقع بڑے دردناک اور الم انگیز ہیں:
﴿۱﴾ ۱۹۴۸ء میں جب برطانیہ نے فلسطین کی تقسیم کا اعلان کیااورانگریزی فوجوں نے فلسطین خالی کردیا تو عوام کے دباؤ کے تحت دیگر عرب ملکوں کے ساتھ مصر بھی اسرائیل کی نئی صہیونی مملکت کے خلاف جنگ میں شریک ہونے پر مجبور ہوگیا۔ اس موقع پر اخوان نے جہاد فلسطین میں عملی حصہ لیا اور ان کے رضاکاروں نے سرکاری فوج سے زیادہ شجاعت کامظاہرہ کیا۔ حسن البنائ شہیدؒ اور ازہری عالم شیخ محمد فرغلیؒ کی تقریروں نے اخوانی رضاکاروں میں جذبۂ جہادکو بھڑکانے میں اہم کردار انجام دیا۔ لیکن بالآخر جنگ کاخاتمہ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر ہوا۔ جنگ کے بعد برطانیہ نے مصری حکومت پر دبائو ڈالنا شروع کیاکہ اخوان پر پابندی لگائی جائے۔ چنانچہ ۹/دسمبر ۱۹۴۸ء کو حکومت نے اخوان کو خلاف ِ قانون قرار دے دیا اور اس کے کئی ہزار کارکنوں کوگرفتار کرلیا، جو ڈیڑھ سال تک قید وبند کی صعوبتیں جھیلتے رہے۔ اس موقع پر اخوان کے بانی اورسربراہ حسن البناکوگرفتارنہیں کیاگیا۔ اس کے پیچھے دراصل ایک سازش تھی، جس کے تحت ۱۲/فروری ۱۹۴۹ء کی شب میں انھیں گولی مارکر شہید کردیاگیا۔ شہادت کے بعد حکومت نے ان کے گھر کے باہر اور قبرستان میں پہرے بٹھادیے اورکسی کو بھی ان کے گھرجانے، تعزیت کرنے، حتیٰ کہ کفن دفن میں ہاتھ بٹانے کی اجازت نہ دی۔ چنانچہ چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جب حسن البنا کا جنازہ اٹھا تو اسے ان کابوڑھا باپ اور گھر کی خواتین سہارا دیے ہوئے تھیں اور انھوں نے ہی ان کی تجہیز وتدفین کا کام انجام دیا۔
﴿۲﴾ ۱۹۵۱ء میں وفد پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد اخوان کو قید وبند سے رہائی ملی۔ جولائی ۱۹۵۲ء میں مصری فوج کے بعض افسران کے ذریعے فوجی انقلاب برپا ہوا۔ نئے کمانڈر ان چیف جنرل نجیب وزیراعظم بنائے گئے، پھر جب مصر کو جمہوریہ قرار دیاگیا تو وہ صدر ہوگئے اور ان کی سربراہی میںایک انقلابی کمانڈ کونسل تشکیل دی گئی۔ جنرل نجیب پارلیمانی نظام حکومت اور جمہوریت جلد ازجلد بحال کرناچاہتے تھے، لیکن کرنل جمال عبدالناصر ،جو اس انقلاب کی پشت پراصل طاقت تھے، جمہوریت کی بحالی کے خلاف تھے۔اخوان نے انقلاب کا پُرجوش خیرمقدم کیا، لیکن ساتھ ہی سیاسی جماعتوں کی بحالی اور آئینی حکومت کے قیام کے لیے مہم بھی چلائی۔ ان حالات میں ان کے اور فوجی حکومت کے درمیان تصادم ناگزیر ہوگیا۔ چنانچہ ۱۹۵۴ء میں ان کو خلافِ قانون قرار دے دیاگیا۔ اخوان کی سرگرمیاں اس پابندی کے بعد بھی ختم نہیں ہوئیں۔ جولائی ۱۹۵۴ء میں مصری حکومت نے انگریزوں سے معاہدہ کیا تو اخوان نے اس کی شدّت سے مخالفت کی۔ حکومت نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ان کے ترجمان روزنامہ الاخوان المسلمون کو بند کردیا۔ ۲۶/اکتوبر کو کرنل ناصر پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ حکومت نے اس حملے کا ذمے دار اخوان کو قرار دیا اور ان کے کارکنوں کی گرفتاریاں شروع کردیں۔ چندہفتوں میں گرفتار ہونے والوں کی تعداد پچاس ہزار تک پہنچ گئی۔ پھر فوجی عدالت میںان کے چھ رہ نمائوں پر مقدمہ چلاکر انھیں صفائی کی سہولت فراہم کیے بغیر ۷/نومبر ۴۵۹۱ئ کو سزائے موت دے دی۔ یہ سزا پانے والے اخوانی رہ نمائوں میں جسٹس عبدالقادر عودہ کے علاوہ درج ذیل افراد شامل تھے:
۱- محمود عبداللطیف: اخوانی کارکن، پیشے سے پلمبر
۲- یوسف طلعت: الاخوان المسلمون شام کے نگران اعلیٰ
۳- ایڈوکیٹ ابراہیم طیب: قاہرہ زون کی خفیہ تنظیم کے سربراہ
۴- ایڈوکیٹ ہنداوی دویر
۵- شیخ محمدفرغلی: ازہری عالم، اخوان کے مشہور مبلّغ۔
﴿۳﴾ اخوان کی ابتلا وآزمائش کا تیسرا دور ۱۹۶۵ء میں شروع ہوا۔ مارچ ۱۹۶۴ء میں جب مصر میں ہنگامی حالت کاخاتمہ ہوا تھا تودیگر سیاسی قیدیوں کے ساتھ اخوان کو بھی رہائی مل گئی تھی، لیکن جولائی ۱۹۶۵ء میں حکومت کاتختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں پھر پکڑدھکڑ شروع ہوگئی۔ اس کے دوران سرکاری اعداد وشمار کے مطابق چھ ہزار اخوان گرفتار کیے گئے، جن میں تقریباً آٹھ سو خواتین بھی تھیں۔ ﴿غیرسرکاری اعداد وشمار کے مطابق گرفتار ہونے والوں کی تعداد پچاس ہزار تھی﴾ اس موقع پر بعض اخوانی رہ نمائوں پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایاگیا اور صفائی کاکوئی موقع دیے بغیر حکومت کاتختہ پلٹنے کے الزام میں انھیں ۲۵/اکتوبر ۱۹۶۶ء کو پھانسی دے دی گئی۔ ان سزا یافتہ لوگوں میں شیخ یوسف ہواش اور شیخ عبدالفتاح اسماعیل کے علاوہ مشہور ادیب، دانش ور اور مفسر سید قطبؒ بھی تھے۔
شیخ عبدالقادر عودہ کی ولادت ۱۹۰۶ء میں مصرکے علاقہ شربین کے ایک گائوں کفرالحاج شربینی میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے مدرسۃ المنصورۃ میں حاصل کی۔ پھر کھیتی باڑی میں لگ گئے۔ کچھ عرصے کے بعد دوبارہ تعلیمی سلسلہ بحال کیا۔ ۱۹۲۷ء ﴿۱۳۴۸ھ﴾ میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد قاہرہ میںکلیۃ الحقوق میں داخلہ لیا، جہاں سے ۱۹۳۰ء میں امتیازی نمبروں سے فراغت حاصل کی۔تعلیم سے فراغت کے بعد وہ نیابۃ اور قضاء کے مختلف مناصب پر فائز رہے۔ ان کی عدالت میں جو مقدمات پیش ہوتے تھے ان میں وہ ہمیشہ عدل وانصاف کو ملحوظ رکھتے تھے اور صاحب حق کے حق میں اپنا فیصلہ سناتے تھے۔ اخوان پر پہلی پابندی کے بعد ان کی عدالت میں بارہا ایسے مقدمات پیش ہوئے جن میں اخوانی کارکنان پر مختلف الزامات لگائے گئے، مگر انھوں نے پابندی کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے ملزمین کو بری کردیا۔ ایک مرتبہ مصری حکومت نے انھیں مشرقی خطۂ سویز میں ایک انتخابی حلقے کا نگراں بنایا۔ اس موقع پر شیخ حسن البنا اسماعیلیہ سے مصری پارلیمنٹ کے لیے انتخاب لڑرہے تھے۔ انگریزوں کی شہ پاکر حکومت انھیں شکست دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی تھی اور ہر طرح کے جبرو اکراہ اور مکر وفریب کو کام میں لارہی تھی۔ عبدالقادر عودہ خود اسماعیلیہ پہنچے اور وہاں ایک عظیم الشان جلسہ کرکے زوردار تقریر کی، جس میں عوام کو جرأت اور آزادی سے حق رائے دہی استعمال کرنے پر ابھارا اور انھیں اطمینان دلایاکہ ان پر کوئی تشددہوا تو وہ مظلومین کی پوری مدد کریں گے۔
شیخ عبدالقادر عودہ کا شمار مصر کے عظیم ماہرین قانون میں ہوتاتھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جنرل محمد نجیب کے عہد میں ملک کا دستور تیار کرنے کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی گئی، اس کا انھیں رکن نام زد کیاگیا۔ اس موقع پر انھوںنے عوام کے حقوق کادفاع کرنے اور ملکی دستور کو اسلامی اقدار اور قرآنی تعلیمات کی بنیادوں پر استوار کرنے کے معاملے میں قابل قدر خدمت انجام دی۔۱۹۵۳ءمیں لیبیا کی حکومت نے انھیں ملک کا دستور تیار کرنے کے لیے مدعوکیا۔
شیخ عودہ نے متعددکتابیں تصنیف کی ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں:
﴿۱﴾ الاسلام و أوضاعنا القانونیۃ ﴿۲﴾ الاسلام وأوضاعناالسیاسیۃ ﴿۳﴾الاسلام بین جہل أبنائہ و عجزعلمائہ ﴿۴﴾المال والحکم فی الاسلام۔
ان کی جس کتاب کو عالمی سطح پرغیرمعمولی شہرت ملی اس کا نام ہے: التشریع الجنائی الاسلامی مقارناً بالقانون الوضعی۔ دنیا کے قانون داں حلقوں میں اس کتاب کو قدر وتحسین کی نظر سے دیکھاگیا۔ اس کی اولین اشاعت ۱۹۴۹ء میں دوجلدوں ﴿۱۵۷۶صفحات﴾ میں ہوئی۔ اس کی اہمیت کی بنا پر حکومت نے فیصلہ کیاکہ اس کے مصنف کو ملک کے ایک بڑے انعام ’جائزۃ فؤاد الأوّل‘ سے نوازا جائے۔ساتھ ہی یہ شرط لگائی گئی کہ کتاب سے دو جملے حذف کردیے جائیں: ﴿۱﴾اسلام موروثی بادشاہت کاقائل نہیں ہے ﴿۲﴾اسلام میں کوئی حاکم قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ شیخ عودہ نے یہ جملے حذف کرنے سے انکارکردیا اور اس انعام کوٹھکرادیا۔ اس طرح انھیں نہ صرف اس خطیر رقم سے محروم ہوناپڑا جو ایک ہزار مصری پونڈ کی شکل میں انھیں ملتی، بل کہ شاہ فاروق کی ناراضی بھی مول لینی پڑی۔
اس ضخیم کتاب پر مصنف نے صرف ایک صفحہ کا مختصر ترین پیش لفظ لکھاہے۔ اس میں تحریر کیاہے:
أرجوأن القاری لاینتہی من قرائ تہ الاّ وقدأصبح یعتقد بما اعتقدہ، وھو ان الشریعۃ الاسلامیۃ ھی شریعۃ کل زمان و مکان
’’مجھے امید ہے کہ قاری جب اس کتاب کو ختم کرے گا تو میری طرح اس کا بھی یہ پختہ خیال ہوجائے گا کہ اسلامی شریعت ہرجگہ اور ہرزمانے کا ساتھ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘‘
اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ شیخ عودہ نے اس میں اسلام کے تعزیراتی قوانین کاموازنہ وضعی قوانین سے کرتے ہوئے ان پر شریعت اسلامی کی برتری ثابت کی ہے۔ انھوں نے ایک جگہ لکھاہے:
’’جب میں عصری قانون کاموازنہ شریعت سے کرتاہوں تومیرے موازنے میں ایک طرف ایک ایسا قانون ہوتاہے جو برابرتبدیلی اور ارتقاءکے مراحل طے کرتاہوا دھیرے دھیرے کمال کی طرف بڑھتاہے اور دوسری طرف وہ شریعت ہوتی ہے جو تیرہ صدیوں پیش تر نازل ہوئی تھی اورجس میں نہ ماضی میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے اور نہ مستقبل میں ہوگی۔ وہ ایسی شریعت ہے جس کی فطرت تغیر وتبدیلی سے ابا کرتی ہے، اس لیے کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور اللہ کے کلمات میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ اور اسے اللہ نے وجود بخشا ہے، جس نے ہرچیز کی تخلیق بہترین ساخت پرکی ہے، اس میں مزید بہتری کی اب کوئی گنجائش نہیں۔ اس موازنے سے ہم دیکھیں گے کہ ناقابل تغیر قدیم ہمہ آں متغیر جدید سے بہتر ہے اور وضعی قوانین ، ان میں نئی آراء اور نئے احوال ونظریات شامل ہونے کے باوجود ، شریعت کے معیار سے فروتر ہیں۔‘‘
شیخ عودہ نے الاخوان المسلمون میں باقاعدہ کب شمولیت اختیار کی؟ اس کازمانہ معلوم نہ ہوسکا۔لیکن اخوان کے بانی شیخ حسن البنا اور دیگر چوٹی کے قائدین سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔ محمود عبدالحلیم نے اخوان کی تاریخ پر اپنی تصنیف’’الاخوان المسلمون- أحداث صنعت التاریخ‘‘ میں لکھاہے کہ حسن البناان کا تذکرہ اکثر بڑے فخر اور احترام سے کیاکرتے تھے۔ دوسرے مرشد عام حسن الھضیبی بھی ان سے بہت محبت کرتے تھے اور انھیں قدرو عظمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ۱۹۵۱ء تک شیخ عودہ ہائی کورٹ کے جج کے منصب پر فائز رہے۔ ایک موقع پر شیخ ہضیبی نے انھیں منصبِ قضا سے مستعفی ہوکر تحریک کے لیے ہمہ تن وقف ہوجانے کامشورہ دیا تو انھوں نے فوراً استعفا دے دیا اور گزراوقات کے لیے پرائیویٹ وکالت کرنے لگے۔
اخوان کے درمیان شیخ عبدالقادر عودہ کو بلند مقام حاصل تھا۔ ان کا شمار چوٹی کے قائدین میں ہوتاتھا۔ انھیں نائب مرشد عام منتخب کیاگیاتھا۔ اخوان کے تمام کارکنان ان کی بات کو اہمیت دیتے تھے اور ان کے اشاروں پر چلتے تھے۔ ۲۸/فروری ۱۹۵۴ء کو ایک زبردست مظاہرہ ہوا۔ ہزاروں افراد، جن میں اخوان کے کارکنان بھی شامل تھے، میدان عابدین میں جمع ہوئے۔ ان کے مطالبات یہ تھے کہ حکومت عوام پر ظلم سے باز آئے، گرفتاروں کو رہا کیاجائے، سابق مظاہروں میں شریک ہونے والوں پر گولیاں چلانے والوں کو سزا دی جائے اور اسلامی شریعت نافذ کی جائے۔ حکومت کوشش کے باوجود مظاہرے کو کنٹرول نہیں کرپارہی تھی۔ جنرل نجیب نے عبدالقادر عودہ سے اپیل کی کہ مظاہرین کو کنٹرول کریں اور انھیں واپس کریں، ان کے مطالبات پورے کردیے جائیں گے۔ شیخ عودہ کے ایک اشارے پر مظاہرین کا جوش ٹھنڈاہوگیا اور وہ واپس چلے گئے۔ حکومت کو اندازہ ہوگیاکہ جو شخص اتنے بڑے مجمع کو واپس بھیج سکتاہے وہ انھیں اکٹھا بھی کرسکتا ہے، چنانچہ اسی شام انھیں دیگر افراد کے ساتھ قید کرلیاگیا اور سخت جسمانی سزائیں دی گئیں۔
شیخ عبدالقادر عودہ پر الزام عائد کیاگیاتھا کہ انھوں نے جمال عبدالناصر کے قتل کی سازش تیار کی تھی۔ لیکن حقیقت میں ان کو پھانسی کی سزا دیے جانے کے دیگر اسباب تھے:
1- شیخ عودہ ابتدا میں کرنل ناصر سے حسن ظن رکھتے تھے۔ اسی لیے جب اخوان اور ناصر کے درمیان اختلافات رونما ہوئے تو انھوں نے باہم مفاہمت کرانے کی کوشش کی۔ اس دوران کرنل ناصر نے شیخ عودہ کو اپنا ہم نوا بناکر تحریک اخوان کے دو ٹکڑے کرنے کی سازش کی۔ لیکن شیخ نے اپنی دانائی اور ذہانت سے اس سازش کو ناکام بنادیا۔ اس چیز نے کرنل ناصر کے دل میں عداوت کا بیج بودیا۔
2- جولائی ۱۹۵۴ء میں جب مصری حکومت نے انگریزوں کے ساتھ معاہدہ کیا تو اخوان کی مرکزی قیادت نے شیخ عودہ کو اس معاہدے کا قانونی پہلو سے جائزہ لینے کی ذمّے داری سونپی۔ شیخ نے اس معاہدے کو مصری مفاد کے خلاف قراردیا۔ اس سے حکومت ناراض ہوگئی۔
3- انقلابی کونسل نے جنرل محمد نجیب کو صدر جمہوریہ کے منصب سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تو شیخ عودہ نے اس کی مخالفت کی اور اخوان کو متحرک کرکے زبردست مظاہرہ کروایا۔ چنانچہ جنرل نجیب کو بحال کیاگیا۔ اس چیز نے بھی ان کو حکومت کی نظر میں معتوب بنادیا۔
فوجی عدالت میں مقدمے کی کارروائی کے دوران شیخ عودہ نے غیرمعمولی جرأت اور بے باکی کا مظاہرہ کیا۔ ایک موقع پرانھوںنے جج کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’مجھ پر جوالزامات ہیں، اگر وہ صحیح ہیں تومیں ظالم ہوں اور تم مظلوم۔ اور دنیا کا کوئی قانون ایسا نہیں ہے جو مظلوم کو ظالم کے خلاف فیصلہ کرنے کا حق دیتا ہو، جوفریق مخالف کو جج کے منصب فائز کردے۔‘‘
شیخ عبدالقادر عودہؒ نے اپنی جان راہِ حق میں قربان کردی، لیکن ان کاخون رائیگاں نہیں گیا، بل کہ اس سے تحریکِ اسلامی کی آبیاری ہوئی۔ آج کل مصر میں عوامی بیداری کی جو لہر آئی ہوئی ہے، اس میں شیخ عودہ اور ان جیسے ہزاروں شہیدانِ راہِ وفا کا قابل قدر حصہ ہے۔
شیخ عودہؒ کی زندگی میں پیغام ہے تحریک اسلامی کے ہر کارکن کے لیے کہ وہ اپنے میدانِ کار میں اختصاص پیدا کرے اور دوسروں، حتیٰ کہ اپنے مخالفین سے بھی اپنی صلاحیت کا لوہا منوالے،تحریک اسلامی کو اس کی خدمات کی ضرورت ہوتو وہ بڑے سے بڑے منصب کو ٹھکرادے اور جی جان سے تحریک کی خدمت میں لگ جائے، بڑے سے بڑا لالچ اس کی راہ کو کھوٹا نہ کرنے پائے اور بڑی سے بڑی آزمائش اسے راہ حق سے نہ ہٹاسکے، حتیٰ کہ اس راہ میں اپنی قیمتی جان کا نذرانہ پیش کرنے میں بھی اسے ادنیٰ تامل نہ ہو۔ ہے کوئی جو اس پیغام کوسنے اور اس اسوہ کو اختیار کرے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2012