اسلام دین فطرت ہی نہیں ایک مکمل نظام حیات ہے جو فطری اور شرعی تقاضوں کا بھی خیال رکھتا ہے۔ ساتھ ہی زندگی کے ہر شعبے اور میدان میں مکمل رہ نمائی بھی کرتا ہے ۔دراصل اسلام نے مغرب کی طرح انسان کو صرف حیوان ناطق اور نفسانی خواہشات کا غلام نہیں مانا ،بلکہ اسے اشرف المخلوقات کادرجہ دیا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی دنیاوی زندگی اس کے شایان شان گزرے ،تاکہ ہر طرف ماحول اچھا ہو، صاف ستھرا اور پاکیزہ معاشرہ کی تشکیل ہو، جس میں کسی کوکسی سے کوئی پریشانی نہ ہواور برائی نہ پھیلے ۔ اسی لیے اسلام جتنا زور عبادات پر دیتا ہے اتنا ہی معاملات پر بھی دیتا ہے ۔تمام مذاہب میں یہ اسلام ہی کی خصوصیت ہے کہ اس نے ہر عمل میں ثواب اور جزا کا پہلو رکھا ہے اور بتایا ہے کہ صرف عبادت سے ہی ثواب نہیں ملتا بلکہ ہر کام ٹھیک سے کرنے سے بھی ثواب ملتا ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے ۔ یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب انسان کے اچھے اخلاق وعادات ہوں اور وہ ان تمام رسوم و رواج سے دور رہے جو فتنہ وفساد کا محرک بنتے ہیں ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام امن پسند مذہب ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ معاشرہ امن کا گہوارہ بنار ہے ۔ وہ انسان کے جذبات کا احترام کرتا ہے اور ایک بشر کی حیثیت سے مردو عورت میں پائے جانے والے فطری میلانات کا بھی خیال رکھتاہے لیکن ان کوبے لگام اور پراگندہ نہیں چھوڑتا کہ ان کا ناجائز استعمال ہو اور اس سے معاشرہ میں برائیاں پھیلے ۔ اسی لیے وہ اپنے پیروکاروں کی تربیت اس طرح کرتاہے کہ وہ اپنے جذبات اور خواہشات کااستعمال صحیح جگہ پر صحیح طریقے سے کریں، پھر بھی اگر کہیں گڑبڑی کااندیشہ ہوجس کا امکان فطری میلانات اورخواہشات کی وجہ سے ہوتاہے تو تطہیر وتہذیب کا بھی نظم کرتاہے ، چنانچہ وہ قدم قدم پر ایسی رہ نمائی کرتاہے کہ سوچ اور احساسات پاکیزہ رہیں اور کوئی غلط راستے پر چل نہ سکے ۔اسلام کے ان ہی رہ نمااصولوں میں سے ایک حجاب(پردہ) ہے جو معاشرے میں بے حیائی اور بے راہ روی کے درمیاںایک دیوار کاکام کرتاہے اور عر یانیت کودور بھگاتاہے ۔ پردہ نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کے لیے بھی بہت سی سماجی برائیوں کے خلاف ایک ڈھال کاکام کرتاہے اور انھیں قریب آنے سے روکتاہے ۔ اس سے سنجیدگی ، وقار اور پاکیزہ ذوق کے فروغ میں مدد ملتی ہے ۔اسلام نے خواتین کوپردے کاجو حکم دیا ہے اس کامطلب ہرگز نہیں کہ وہ ان کے حسن وجمال کے خلاف ہے یاوہ نہیں چاہتاکہ ان کے حسن وجمال کا کہیں استعمال نہ ہو،بلکہ صرف صحیح جگہ پر استعمال چاہتاہے جونہ صرف اس عورت بلکہ پورے معاشرے کے حق میں ہے ۔وہ چاہتاہے کہ عورتیں اپنی معاشی ومعاشرتی ضرورتوں کے ساتھ فطری تقاضوں کی تکمیل اس طرح کریں کہ کسی پر کوئی آنچ نہ آئے ۔ اسلام مغرب کی طرح صرف انفرادی زندگی جس میں ہرطرح کی آزادی ہو، کاقائل نہیں بلکہ چاہتاہے کہ انسان اس طرح زندگی گزارے کہ اجتماعی زندگی پر اس کے منفی اورغلط اثر ات نہ پڑیں، کیوںکہ انسان جب معاشرے میں رہتاہے تو وہ اجتماعی زندگی کو نظر انداز کرکے صرف اپنے بارے میں کیسے سوچ سکتاہے؟ اور خود غرضی کی زندگی کیسے گزار سکتاہے ؟ معاشرے میں برائیاں بھی اسی وقت پھیلتی ہیںجب انسان معاشرے اور اجتماعی زندگی سے بے پروا اپنی نفسانی خواہشات کاغلام ہوجاتاہے ۔ اسی لیے اسلام خاندانی نظام پر زور دیتاہے اور معاشرے میں فطرت اور جسمانی ساخت اور قوت کے اعتبار سے مر دوعورت کی الگ الگ ذمہ داریاں مقرر کرتاہے، تاکہ وہ آسانی سے نبھا سکیں ، ان کو ٹھیک سے ادا کرنے پر دونوں کی دنیا اور عاقبت سنور سکتی ہے ۔
اسلام نے اجتماعی زندگی کانگراں مردوں کوبنایاہے اورمستقبل عورتوں سے جوڑ دیا ہے ۔چنانچہ کسب معاش اور باہر کی دیگر ضروریات کی تکمیل کی ذمہ داری مردوں پر عائد کی ہے اور عورتوں کواس سے مستثنی رکھا ہے ۔مردوں اور عورتوں کی فطری صلاحیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسلام نے مردوں پر کسب معاش اور عورتوں پر امور خانہ داری کانظم و نسق اور پرورش وتربیت اولاد کی ذمہ داری عائد کی ہے ۔ عورتوں کے فرائض اس قدر اہم ، وسیع اور ہمہ گیر ہیں کہ اگر وہ ان کی طرف کماحقہ توجہ دیں تو ان کو دوسری سرگرمیوں کے لیے وقت نہ ملے۔شرعی پردہ کے دو پہلو ہیں : ۔ا یک ہے گھر کا پردہ ،جسے احکام ستر کہتے ہیں ۔ دوسرا ہے گھر کے باہر کا پردہ جو احکام حجاب کہلاتاہے۔
پردے کے تعلق سے عموماًلوگ ستر وحجاب میں فرق نہیں کرتے حالانکہ شریعت میں ان دونوں کے احکام علاحدہ علاحدہ ہیں ۔ستر جسم کاوہ حصہ ہے جس کا ہر حال میں دوسروں سے چھپانا فرض ہے سوائے زوجین کے، یعنی خاوند اور بیوی اس حکم سے مستثنی ہیں ۔ مرد کاستر ناف سے لے کر گھٹنوںتک ہے ۔ جب کہ عورت کا ستر ،عورت کاہاتھ ، پائوں اور چہرے کے علاوہ پوراجسم ہے ۔ ستر کایہ پردہ ان حضرات سے ہے جن کو شریعت نے محرم قرار دیا ہے ۔ حجاب عورت کا وہ پردہ ہے جسے گھر سے باہر کسی ضرورت کے لیے نکلتے وقت اجنبی مردوں سے اختیار کیا جاتا ہے ۔
گھر کے اندر کا پردہ
۱۔ کسی کے گھر میں داخل ہوتے وقت اجازت طلب کرنااللہ تعالیٰ کاارشاد ہے : ’’ اے ایمان والو دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوجب تک اپنی پہچان نہ کرالواور گھر والوں پر سلام نہ بھیج دو یہی تمھارے لیے بہتر ہے ، شاید کہ تم یاد رکھو۔‘‘ (سورۃ النور آیت ۲۷)
اس آیت میں ہدایت کی گئی ہے کہ اچانک اور بلااطلاع کسی کے گھر میں داخل نہ ہوجایا کرو ۔ اسلام سے پہلے عرب میں رواج تھا کہ لوگ بے تکلف دوسروں کے گھروں میں داخل ہوجاتے اور بسا اوقات اہل خانہ اور خواتین کو ایسی حالت میں دیکھ لیتے ہیںجس میں دیکھنا خلاف تہذیب ہے ۔ اس لیے حکم دیا گیا کہ لوگوں کے گھروں میں نہ داخل ہوجب تک کہ تین مرتبہ مناسب وقفوں سے باآواز بلند سلام کیا جائے یا دستک دی جائے، اگراجازت نہ ملے یاکہا جائے کہ چلے جائو تو دروازے پر جم جانا یا اصرار کرنا درست نہیں ہے، بلکہ برامانے بغیر لوٹ جانا چاہیے ۔ ان امور کی مزید وضاحت درج ذیل احادیث سے ہوتی ہے ۔
’’بنی اکرم کا اپنا قاعدہ تھاکہ جب کسی کے یہاں تشریف لے جاتے تو دروازے کے عین سامنے کھڑے نہ ہوتے ،کیوںکہ اس زمانے میں پردے نہ لٹکائے جاتے تھے ۔ آپ دروازے کے بائیں یا دائیں جانب کھڑے ہوکر اجازت طلب فرمایا کرتے ۔ (ابودائود) اجازت لینے کے لیے آپ ؐ نے تین دفعہ پکارنے کی حد مقرر کی ہے اور فرمایا اگر تیسری بار پکارنے پر بھی جواب نہ آئے تو واپس ہوجانا چاہیے ( متفق علیہ)
۲۔نگاہ نیچی رکھنا
سورۃ النور آیت ۳۰ ؍میں فرمایا گیا ہے: ’’ اے نبی !مومن مردوں سے کہو کہ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔‘‘ اسی سورۃ کی آیت ۳۱؍میں ارشاد ہوتاہے : اے نبی ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔‘‘نگاہوں کی حفاظت کاحکم گھر سے باہر بھی ہے تاکہ نامحرموں پر نگاہ نہ پڑے، لیکن اصلاًیہ حکم گھر کے اندر کے لیے ہے کیوں کہ باہر جاتے ہوئے نگاہیں نیچی رکھنے سے بسااوقات کسی شئی سے ٹکرانے کااندیشہ رہتاہے ۔گھر کے اندر اس حکم کامدعا یہ ہے کہ محرم خواتین پربھی نگاہ نہ ڈالی جائے ، چونکہ جنس مخالف ہونے کے سبب سے مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لیے کشش ہے اور نگاہوں کی بے احتیاطی فتنہ کاسبب بن سکتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بد نظری ہی بدکاری کے راستے کی سیڑھی ہے ۔اسی لیے اس آیت میں نظروں کی حفاظت کے حکم کو حفاظت شرم گاہ کے حکم پر مقدم رکھا گیاہے ۔
نظروں کی حفاظت کامطلب یہ ہے کہ اس چیز سے پرہیزکیا جائے جس کو حدیث میں آنکھوں کازنا کہا گیا ہے ۔ اجنبی عورتوں کے حسن اور ان کی زیب وزینت کو دیکھ کرلطف اندوز ہونا مردوں کے لیے اور اجنبی مردوں کو نگاہ میں بسانا عورتوں کے لیے فتنے کاسبب ہے ۔ چونکہ بالعموم فتنے کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے ۔ اس لیے سب سے پہلے اسی دروازے کو بند کیا گیا ۔یہ ناممکن ہے کہ مرد کی نظر عورت پر اور عورت کی نظر مرد پر نہ پڑے ۔ اسی لیے شارعؑ نے فرمایا کہ اچانک نگاہ پڑجائے تو معاف ہے البتہ ممانعت اس کی ہے کہ ایک نگاہ میںجب کسی کی خوب صورتی محسوس ہو تو باربار اس کو دیکھے۔ حضرت بریدہؓکی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت علی ؓ سے فرمایا :اے علی! ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالو ، پہلی نظرتمہارے لیے معاف ہے ، مگر دوسری کی اجازت نہیں ۔( ابو دائودباب مایومربہ من غض البصر)
یہ حکم جس طرح مردوں کے لیے ہے ، اسی طرح عورتوں کے لیے بھی ہے ۔چنانچہ حدیث میں حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ وہ اور حضرت میمونہ ؓ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں ۔ اتنے میں حضرت ابن ام مکتوم آئے جو نابینا تھے ۔ حضور ؐنے فرمایا ان سے پردہ کرو ۔حضرت ام سلمہ ؓ نے عرض کیا یہ نابینا نہیں ہیں ؟ نہ وہ ہم کو دیکھیں گے نہ ہمیں پہچانیں گے ، حضور ؐ نے جواب دیا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟کیا تم انھیںنہیں دیکھتی۔(ترمذمی باب ماجاء فی احتجاب النساء من الرجال )
عام حالات میں عورت اور مرددونوں کے لیے ایک دوسرے کو دیکھنے کی ممانعت ہے ،لیکن بعض حالات میں اور ضرورت کے تحت عورتوں کو اس معاملے میں تھوڑی سی رعایت دی گئی ہے ۔ مثلاً راستہ چلتے وقت ،کسی اہم ضرورت کے وقت یا کسی جائز کھیل ، کرتب یا فوج کو دیکھتے وقت وہ مردوں کو دیکھ سکتی ہے ۔ حدیث : حضرت عائشہؓ کی یہ روایت مشہور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے موقع پر ان کو حبشیوں کاتماشا دکھایا تھا۔
۳۔ ستر کی حفاظت
سورۃ النور آیات ۳۰اور ۳۱ میں عورتوں اور مردوں کو تلقین کی گئی ہے کہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔مفسرین نے شرم گاہوں کی حفاظت کے دومطلب لیے ہیں :ایک یہ کہ وہ خود کو جنسی بے راہ روی اور زنا سے بچا کر اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کریں اور دوسرے یہ کہ وہ اپنا ستر کسی کے سامنے نہ کھولیں اس کی تشریح درج ذیل کی احادیث سے ہوتی ہے:’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے ستر کو اپنی بیوی اور لونڈی کے سوا ہر ایک سے محفوظ رکھو ۔ سائل نے پوچھا :جب میں تنہائی میں ہوں تو بھی ؟ فرمایا :اللہ تعالیٰ اس کازیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے‘‘۔(ابودائو، ترمذی،ابن ماجہ )
نبی اکرمؐ نے فرمایا کہـ’’ اللہ کی لعنت ہے ان عورتوں پر جو لباس پہن کربھی برہنہ رہیں‘‘ حضرت عمر ؓ اس حدیث کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اپنی عورتوں کو ایسے کپڑے نہ پہنائوجو جسم پر اس طرح چست ہوں کہ سارے جسم کی ہیئت نمایاں ہوجائے (المبسوط)
۴۔سینہ پر اوڑھنی ڈالنا
سورۃ النور آیت ۳۱؍میں خواتین کوسینوں پر اوڑھنی ڈالنے کاحکم دیا گیا ہے :’’ اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈال لیں ‘‘ یعنی چادر سے اپنا گریبان چھپا ئے رکھیں ۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب سورۃ النور نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو سن کر لوگ اپنے گھروں کی طرف پلٹے او ر جاکر انھوں نے اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور بہنوں کو اس کی آیات سنائیں ۔ انصاری عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی جوآیت مذکورہ کے الفاظ سن کر اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی ہو ، ہرایک اٹھی اور کسی نے اپنا کمر پٹہ کھول کر اور کسی نے چادر اٹھا کر اس کا دوپٹہ بنایا اور اوڑھ لیا۔ دوسرے روز صبح کی نماز کے وقت جتنی عورتیں مسجد بنوی میں حاضر ہوئیں سب دوپٹے اوڑھے ہوئی تھیں ۔
۵۔عورتوں کے لیے اپنی زیب وزینت پوشیدہ رکھنے کی ہدایت
سورۃالنور ۳۰ میں ارشاد ہے ’’عورتیں اپنی زیب وزینت کسی پر ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے جواز خود (بغیر ان کے اختیارکے)ظاہر ہوجائے ۔ زینت سے مراد جسم کے وہ حصے ہیں جن میں مرد کے لیے کشش ہے ۔ اس آیت کی روشنی میں عورت نامحرم مردوں کے سامنے اپنی زینت ظاہر نہیں کرسکتی ، سوائے اس زینت کے جوخود سے ظاہر ہوجائے مثلاً عورت کے جسمانی ساخت یعنی کاٹھ ، بیرونی لباس ، چادر سر سے ڈھکی ہوئی یا ہاتھ پائوںکی کسی زینت کا اظہار ہوجائے تو اس پر گرفت نہیں ہے ۔
اسی آیت کے دوسرے حصے میں وضاحت ہے کہ عورتیں اپنی زیب وزینت کن لوگوں کے سامنے ظاہر کرسکتی ہیں: ’’اور عورتیں اپنی زیب وزینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں اور باپ اور خسر اور بیٹوں اور شوہروں کے بیٹوں اور اپنے بھائیوں ، بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی جان پہچان کی عورتوں اور اپنی کنیزوں وغلاموں کے نیز ان خدام کے جو عورتوں سے کوئی غرض نہیں رکھتے یا ایسے بچوں سے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہیں ہوئے ۔‘‘آیت کے اس حصے سے معلوم ہواکہ عورت صرف انہی رشتے داروں کے سامنے اظہارزینت کرسکتی ہے۔ ان کے علاوہ دیگر مردوں کے سامنے وہ اپنی زیب وزینت اور خاص طور پر زینت کے مرکز یعنی چہرہ کو ظاہر نہیں کرسکتی ۔
۶۔ مخلوط معاشرت کی ممانعت
سورۃ النور کی اس آیت میں جہاں محرم مردوں کے سامنے اظہار زینت کی اجازت ہے وہیں غیر مردوں کے ساتھ میل جول کی ممانعت کردی گئی ہے ۔ ارشاد نبوی ہے:’’ جوشخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ کسی عورت کے ساتھ اپنی خلوت میں نہ ہو جہاں کوئی محرم موجود نہ ہو کیوں کہ ایسی صورت میں اس کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتاہے ۔( مسند احمد)
۷۔مخفی زیب وزینت کے اظہار کی ممانعت
سورۃ النور آیت نمبر ۳۱؍کے آخر میں فرمایا گیا: اور عورتیں اپنے پائوں ( اس طرح زمین پر ) نہ ماریں کہ ان کی پوشیدہ زینت ( زیور کی جھنکار ) ظاہر ہوجائے اور مومنو!سب اللہ کے حضور توبہ کرو تاکہ تم فلاح پائو۔ پیارے رسول ؐ نے زیب وزینت کو صرف زیور کی جھنکار تک محدود نہیں رکھا ہے، بلکہ ان تمام چیزوں سے منع فرمایا ہے ،جو مرد کے جنسی جذبات کو ابھارنے کا سبب ہوسکتی ہیں ۔ اس تعلق سے آپ ؐ نے حسب ذیل ارشادات فرمائی ہیں ۔
۱۔ مردوں کے لیے وہ عطر مناسب ہے جس کی خوشبو نمایاں اور رنگ مخفی ہو اور عورتوں کے لیے وہ عطر مناسب ہے جس کا رنگ نمایاں اورخوشبو مخفی ہو( ترمذی ۔ابودائود )
اللہ کی بندیوںکو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے منع نہ کرو مگر وہ خوشبو لگاکر نہ آئیں ( ابودائود ۔ مسند احمد)
گھر سے باہر کا پردہ
۱۔ نامحرم سے سیدھے سادہ اور خشک لہجے میں گفتگو کرنا
سورۃ الاحزاب کی آیت ۳۲ میں حکم دیا گیا : ’’ نبی کی بیویو !تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو ۔اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو (نامحرم ) سے بات میں نرم انداز اختیار نہ کرومبادادل کی خرابی میں مبتلا شخص (جنسی) لالچ میں پڑ جائے بلکہ بات کرو کھری۔‘‘ یو ں تو اجنبی عورت نامحرم مرد سے بات کرنے سے گریز کرے لیکن ایسی نوبت آجائے کہ نامحرم سے بات کرنا پڑے تو سیدھے سادے اور کسی حدتک خشک اسلوب میں گفتگو کرے آواز میں ایسی شیرینی اور مٹھاس نہ ہوکہ سننے والا کسی قسم کی غلط فہمی میںمبتلا نہ ہوجائے ۔
۲۔ خواتین گھروں کے اندر رہیں، بلا ضرورت باہر نہ جائیں
سورۃ الاحزاب کی آیت ۳۳میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :’’ اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ رہو اور دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھا تی پھرو۔‘‘اس آیت سے معلوم ہواکہ عورت کے لیے زیادہ پسندیدہ عمل یہ ہے کہ وہ اپنے گھروں میںسکون و وقار کے ساتھ قیام کرے ۔دراصل اسلام میں مردوں اور عورتوں کی صلاحیتوں کے اعتبار سے کاموں کی تقسیم کی گئی ہے ۔مردوں کو ان امور کی ذمہ داری دی گئی جن کا تعلق گھر کے باہر سے ہے اور عورتوں کو ان امور کی جن کا تعلق گھر کے اندر سے ہے۔ اسلام نے عورت کو یہ امتیاز اس لیے عطا فرمایا ہے تاکہ وہ کسب معاش کی الجھنوں میں نہ رہے اور گھر میں رہ کر قوم کی تعمیر کی خدمت انجام دے ۔ گھر کا ماحول معاشرہ کی وہ بنیاد ہے جن پر تمدن کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے ۔ اگر یہ بنیاد خراب ہوجائے تو فساد پورے معاشرے میںپھیل جائے گا ۔ اس کے برعکس اگرعورت گھر کے ماحول کو سنوارکر ان نونہالوں کی صحیح تربیت کرے جنھیں آگے چل کر قوم و ملک کا بوجھ اٹھانا ہے تو ساری قوم خود کار طریقے پر سنور سکتی ہے اور اس طرح مردو عورت کی عزت و آبرو کاپورا تحفظ ہوگااوردوسری طرف ایک ایسا صاف ستھر اگھریلو نظام وجود میں آئے گا جو پورے معاشرے کی پاکیزگی کاضامن ہو گا۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ ایک خاتون چھپانے کے لائق ہے جب وہ گھر سے نکلتی ہے توشیطان اس کو تاکتاہے اور وہ اپنے رب کی رحمت کے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کے اندرونی حصہ میں ہوتی ہے ۔‘‘ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اوروہ اپنی رعیت (اولاد ) کے لیے جواب دہ ہے (ترمذی)
۳۔چہرے کا پردہ کرنا
’’ اے نبی ! اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مسلمان عوتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادر وں کی گھونگٹ لٹکا لیا کریں ۔ یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جائیں ، ان کو ایذا نہ پہنچائی جائیں‘‘۔اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ ناگزیر حالات میں اگر عورتوں کو گھر سے باہر جانا پڑے تو وہ چادریں اوڑھ کر اس کے ایک حصے سے گھونگٹ نکال لیں ۔ جلباب بڑی چادر کو کہتے ہیں جو دوپٹے کے اوپر اوڑھی جاتی ہے ۔ جیسا کہ شرفا ء عرب کی خواتین گھروں سے باہر نکلتے وقت اپنے جسم پر دوپٹے کے اوپر اوڑھا کرتی تھیں ۔ اس کی تائید حضرت عبداللہ بن مسعود کے قول سے بھی ہوتی ہے ۔ انھوں نے فرمایا: ’ ’ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں کے اوپر سے یہ چادر لٹکاکر چہروں کو چھپا لیں اور صرف ایک آنکھ راستہ دیکھنے کے لیے کھلی رکھیں (ابن کثیر)
مسلم اور غیر مسلم عورتوں میں امتیاز کے لیے یہ حکم دیا کہ مسلم عورتوں کو باہر نکلنا ہوتو ایک سادہ چادر میں اپنی ساری زیب وزینت کو چھپا کر اور چہرے پر گھونگٹ ڈال کر نکلے تاکہ ہر دیکھنے والوں کویہ معلوم ہوجائے کہ یہ عفت مآب ، پاک دامن مسلم خواتین ہیں جو اپنی شرم وحیا اور پاک دامنی میں دوسروں سے بالکل ممتاز ہیں ۔اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ کوئی شخص ان کی طرف گندی نگاہ سے دیکھنے کی جرأ ت نہیں کرے گا۔
موجودہ معاشرہ
آزادی نسواںکے دل فریب نعروں نے پردہ نشیں خواتین کو گھروں سے نکال کرسڑکوں پر لے آیا، ذرائع ابلاغ کے ذریعے پروپگنڈہ کرکے مساوات مردوزن کو ان کے دل ودماغ میں بٹھایا گیا ۔ آزادیء نسواں کے نام پر انھیں نوع بہ نوع سبز باغ دکھائے گئے ۔ ان سے کہا گیا کہ تم اب تک گھروں کی چہار دیواری میں قید وبند کی زندگی گزاررہی تھیں اب تمھیں ہرقسم کی آزادی ہے، جہاں او رجس جگہ چاہو اپنی قسمت آزما سکتے ہو ، حکومت وسیاست میں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں اونچے اونچے مناصب تمہارے لیے منتظر ہیں ۔ زندگی کی جدوجہد میں تم مرد وںکے مساوی ہو۔ ان دل فریب نعروں کی آڑ میں عورتوں کو سڑکوں پر لایا گیا اور انھیں چھوٹے چھوٹے عہدوں پر فائز کیا گیا ۔جس دین فطرت نے عورت کے سر پر عزت و آبرو کاتاج رکھا تھا او رجس کے گلے میں عفت وعصمت کے بار ڈالے گئے تھے وہ تجارتی اداروں کے لیے ایک تفریح کاسامان بن کررہ گئی ہے ۔
مردوزن کے بے محابا اختلاط سے پورے معاشرے میں بد اخلاقی ،جنسی جرائم ، بے راہ روی اور آوارگی کی جوتباہ کن وبائیں پھیلیں ان سے عائلی نظام کی اینٹ سے اینٹ بج گئی ۔حسب ونسب کا کوئی تصور باقی نہیں رہا۔ طلاق کی کثرت نے گھر کا گھر ویران کردیا۔ فحاشی اور جنسی جرائم نے انسانی اقدار کو پامال کردیا۔ یہ حالات تو مغربی ممالک کے ہیں ۔
مغربی تہذیب و تمدن کاجب فروغ ہوا تو اس کی چمک دمک سےمسلم سماج بھی متاثرہوا ۔ ذرائع ابلاغ ، ٹی وی ، انٹر نیٹ او دیگر تشہیری ذرائع کے خطرناک اثرات مرتب ہوئے اور وہ بھی کلی طور پر تو نہیں لیکن جزوی طور پر ضروربے پردگی ، بے حجابی اور بے محابا مردوزن کے اختلاط کے روش پر چل پڑا ، جس نے مغر ب کو معاشرتی تباہی اور اخلاقی دیوالیہ پن کے آخری دہانے پر پہنچادیا ہے ۔
ایک زمانہ تھا جب مسلم خواتین کی سواریوں پر پردے بندھے ہوتے تھے ۔ پردہ شرافت اور تمدن ، عالی نسبی کی علامت سمجھاجاتاتھالیکن آ ج اسے پس ماندگی کی علامت سمجھا جارہاہے۔ یہی سبب ہے کہ خواتین بازاروں میں عریاں سر گھومتی نظر آتی ہیں ۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ برقع اور نقاب خال خال نظر آتا ہے اگر کہیں ہے بھی تو اس میں وہ پردہ نہیں ہے جو درکارہے ۔ بے حجابی اور بے پردگی کے سیلاب نے شرم وحیا کا جنازہ نکال دیا ہے ۔ حدتو یہ ہے کہ دین دار گھرانوں میں بھی پردے کااحساس دن بدن گھٹ رہاہے ۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جو دین مسجد کے بارے میں یہ ہدایت دیتا ہے کہ مردوں کی صفیں الگ بنائی جائیں اور عورتوں کی صفیں الگ ، عیدگاہ کے بارے میں یہ ہدایت ہے کہ عورتوں کا اجتماع الگ ہو اور مردوں کا الگ ۔ حج کے موقع پر ہر ممکن یہ ہدایت ہے کہ عورتوں اورمردوں میں آزادانہ اختلاط نہ ہونے پائے اور جو دین یہ بھی گوارا نہیں کرتاکہ عورتیں جنازے میں شریک ہوں اورمردوں کے ساتھ قبرستان جائیں۔ وہ یہ کیسے گوارا کرے گاکہ اسکولوں ، کالجوں ، دفتروں ، پارکوں ،انجمنوں ، جلسوں ، دعوتوں اور تقریبوں میں عورتیں اورمرد ایک ساتھ رہیں اور بے محابا خلط ملط ہوں ۔
اسلام دراصل ایک ایسا پاکیزہ اور مثالی معاشرہ وجود میں لاناچاہتاہے جو اخلاقی قدروں کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط قلعہ ہو، جس کے چاروں طرف شرم وحیا ، غیرت وشرافت کی فصیل ہوجس میں کسی جانب سے بھی فواحش، منکرات، بداخلاقی، آوارگی اور عیاشی کے گھس آنے کی گنجائش نہ ہو۔
افسوس کامقام یہ ہے کہ پروپیگنڈہ اور خراب ماحول کے اثرات سے رفتہ رفتہ بے پردگی اور بے حجابی کی برائی ذہنوں سے محو ہوتی جارہی ہے۔ جو لوگ بے پردگی کو برا سمجھتے ہیں وہ بھی اس سیلاب کے آگے سپر انداز ہورہے ہیں ۔ لیکن بفضلہ تعالیٰ ہمارا معاشرہ اس جگہ پر نہیں پہنچا ہے جہاں پر اصلاح کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ خدانہ کرے کہ ہمارے معاشرے میں وہ صورت حال پیدا ہو جس سے مغربی ممالک دوچار ہیں ۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2018