بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قربانی خالص مالی عبادت ہے، اس غلط فہمی سے بعض غلط نتائج فکر برآمد ہوتے ہیں۔ اس لیے قربانی کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔ اللہ تعالی نے اہلِ اسلام پر زکات کی عبادت فرض کی، جو ایک مالی عبادت ہے۔ تاہم زکات کے علاوہ قربانی کی عبادت بھی عائد کی۔ ان دونوں عبادتوں کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ قربانی کی امتیازی حیثیت سامنے آسکے۔ زکات دراصل اپنے مال میں میں موجود غریبوں کے حصے کو ادا کرنا ہے۔ مال اللہ کا ہے۔ بندہ مال کا مالک نہیں بلکہ امین ہے۔ مال میں اللہ نے دوسروں کا حق متعین طور پر رکھا ہے۔ اس حق کی ادائیگی کا نام زکات ہے۔
◌ ◌ ◌
زکات کا تعلق انسان کے مال سے ہے لیکن قربانی کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ قربانی یادگار ہے اس امتحان کی جس سےحضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو گزارا گیا تھا۔ قربانی میں امتحان کا مفہوم پوشیدہ ہے۔ جولوگ عہد وفا پورا کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں وہ ہر قسم کی قربانی کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ قربانی کے ہر موقع کو وہ اپنی وفا کا امتحان سمجھتے ہیں اور پورے شوق کے ساتھ بڑی سے بڑی قربانی دیتے ہیں۔ عید قرباں میں کی جانے والی قربانی دراصل خدا کے ساتھ عہدِ وفا اورجذبہ قربانی کی تجدید ہے۔ قربانی یاد تازہ کرتی ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جو ہر امتحان میں کام یاب رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے راہِ خدا میں ہر قسم کی قربانی دی۔ سماجی عہدہ و منصب نہیں رہا، رشتے داروں نے رشتے توڑ لیے، باپ دشمن ہوگیا، آگ میں ڈالے گئے، وطن چھوڑنا پڑا، اتنے سخت امتحانوں کے بعد پھر نہایت سخت امتحان یعنی جوان بیٹے کی قربانی کا مطالبہ ہوا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی بتاتی ہے کہ عشق کے راستے میں قربانیوں کی کوئی آخری حد نہیں ہوتی ہے۔
◌ ◌ ◌
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پورا خاندان قربانی کے جذبے سے سرشار تھا۔ وہ، ان کی بیویاں اور ان کے بچے۔ بوڑھے ابراہیم سے بیٹے کی قربانی ممکن نہیں ہوتی اگر جوان بیٹا اسماعیل قربان ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ حضرت ابراہیم کی دونوں بیویاں بھی قربانی پیش کرنے کے لیے ہر دم تیار رہتی تھیں۔ راہِ وفا میں شوہر کا ہر قدم پر ساتھ دینا اور شدید ترین حالات میں بھی ساتھ نہ چھوڑنا قربانی کی شان دار مثال ہے۔ معلوم ہوا کہ جذبہ وفا کو صرف اپنے دل میں پالے رہنا کافی نہیں ہے، مطلوب یہ ہے کہ اپنے قریبی دائرے کے ہر فرد کو اس جذبے میں شریک کیا جائے۔
◌ ◌ ◌
زکات اور قربانی میں ایک فرق مصرف کا بھی ہے۔ زکات آپ اپنے اوپر یا کسی مال دار پر خرچ نہیں کرسکتے، لیکن قربانی کا گوشت خود بھی کھاسکتے ہیں اور دوسرے مال داروں کو بھی کھلاسکتے ہیں۔ ساتھ ہی غریبوں کا حصہ بھی اس میں ہوتا ہے۔ گویا قربانی کا اصل مقصود غریبوں کے لیے کھانے کا انتظام کرنا نہیں ہے۔ قربانی کے ضمنی مقاصد میں یہ بات شامل ہے۔ اس لیے ان لوگوں کی بات بہت کم زور ہے جو یہ کہتے ہیں کہ قربانی کے بجائے غریبوں میں رقومات بانٹ دی جائیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس کے لیے تو زکات و صدقات کی مد پہلے سے موجود ہے۔ قربانی محض مالی عبادت نہیں ہے، بلکہ یہ عبادت مخصوص اور بھرپور جذبات سے عبارت ہے۔ جانوروں کی قربانی کیے بغیر انسان اس جذباتی کیفیت سے گزر نہیں سکتا جو قربانی کا حاصل ہے۔
بندہ اپنے جانور کا خون بہاتے ہوئے اپنے رب سے کیے ہوئے اس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ اس کی زندگی کا ہر لمحہ، اس کی توانائیوں کی ہر اکائی اور اس کے خون کا ہر قطرہ اللہ کی رضا کے لیے وقف ہے۔ جانور کی قربانی اس جذباتی کیفیت کے اظہار کا نہایت بلیغ استعارہ ہے۔ ان جذبات کے اظہار کے لیے اس سے زیادہ بلیغ کوئی اور استعارہ نہیں ہوسکتا ہے۔
اسی لیے علمائے کرام نے مستحب قرار دیا ہے کہ آدمی اپنے ہاتھ سے قربانی کرے۔ اس طرح وہ شعور و جذبات کی سطح پر قربانی کی کیفیت سے گزرے۔ اپنے ہاتھ سے کرنا مشکل ہو تو وہیں سامنے کھڑا رہ کر دیکھے۔ یہ بھی نہ ہوسکے تو تصور میں قربانی کا مشاہدہ کرے اور اس کی جذباتی کیفیت کو محسوس کرے۔
◌ ◌ ◌
قربانی اصل میں تو مناسک حج میں سے ہے۔ حج میں قربانی کے لیے یوم النحر(قربانی کا دن) مخصوص ہے۔ باقی پوری دنیا کے لیے بھی قربانی کا وہی دن ہے۔ یوم النحر کے بعد دوسرے اور تیسرے دن بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے بندوں کے لیےرعایت ہے۔ شریعت میں ایسی رعایتیں بہت سی ہیں۔
قرآن مجید میں قربانی کو حج کے موقع اور مقام سے جوڑ کر ذکر کیا گیا ہے۔
وَأَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ یأْتِینَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ. لِیشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَیذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِی أَیامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِیمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِیرَ . [الحج: 27، 28]
(اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمھارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں۔ تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں اُن کے لیے رکھے گئے ہیں اور چند مقرر دنوں میں اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے انھیں بخشے ہیں، خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں۔)
آگے فرمایا: ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَیتِ الْعَتِیقِ [الحج: 33]
(پھر اُن (کے قربان کرنے) کی جگہ اسی قدیم گھر کے پاس ہے۔)
غرض حج میں جو قربانی کے دن ہیں وہی پوری دنیا میں قربانی کے دن ہیں۔ قربانی کرتے ہوئے معمولی درجے میں سہی حج میں شریک ہونے کا ایک روح پرور احساس ہوتا ہے۔ حج کے دوسرے اعمال ایسے نہیں ہیں کہ کہیں اور سے انجام دیے جاسکیں، لیکن قربانی کا عمل کسی بھی جگہ انجام دیا جاسکتا ہے۔ بہرحال یہ احساس بڑا فرحت بخش ہوتا ہے کہ جن ایام میں حجاج کرام منی میں قربانی کررہے ہیں، ٹھیک انھی دنوں میں پوری دنیا میں قربانی کی جارہی ہے۔ قربانی کے دنوں میں کچھ لوگ قربانی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں، لیکن انھیں بھی قربانی کے احساسات کو اپنے دل میں بسانا چاہیے۔
اسلامی فقہ کی یہ رائے دل چسپ ہے کہ جس کے پاس قربانی کی استطاعت نہ ہو وہ مرغی یا مرغے کی قربانی بھی کرسکتا ہے۔ اس کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے عمل اور اس سے وابستہ جذباتی کیفیت میں مستطیع و غیر مستطیع تمام لوگ شریک ہوجائیں۔
◌ ◌ ◌
نماز اور قربانی میں گہرا تعلق ہے۔ نماز میں آپ سجدہ ریز ہوتے ہیں اور قربانی میں قربانی کا جانور سجدہ ریز ہوتا ہے۔ نماز میں بھی بار بار تکبیر کہی جاتی ہے اور قربانی میں بھی تکبیر کہی جاتی ہے۔ قربانی کا مرکزمکہ کی سرزمین ہے، جس طرح سے نماز کا مرکز سرزمینِ مکہ میں خانہ کعبہ ہے۔ پوری دنیا میں نماز خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے ادا کی جاتی ہے اور پوری دنیا میں قربانی بھی جانور کو قبلہ رخ کرکے کی جاتی ہے۔ اسی لیے فصل لربک وانحر کہہ کر دونوں کو ایک ساتھ ذکر کردیا گیا۔ اگر نماز ایمان کی عملی تعبیر ہے تو قربانی اسلام کا استعارہ ہے۔
◌ ◌ ◌
حج قربانی والی عبادت ہے۔ اللہ سے قریب ہونے کی خاطر انسان اپنا گھر بار چھوڑتا ہے، کاروبار چھوڑتا ہے، گویا ساری دنیا کو پیچھے چھوڑ کر اللہ کے گھر کی طرف نکل پڑتا ہے۔ زکات میں تو انسان اپنے مال کا ڈھائی فی صد نکالتا ہے، حج کے لیے تو انسان پوری زندگی پائی پائی جوڑ کر جمع کرتا ہے اور بسا اوقات اپنے پورے سرمائے کو حج کے سفر پر لگادیتا ہے۔ حج کا طویل سفر قربانی ہے، اس سفر کے لیے ہونے والا سارا صرفہ قربانی ہے، اس راہ میں جووقت لگے، جو توانائی لگے، جو تھکان ہو، جو پریشانیاں پیش آئیں سب قربانی ہی ہیں۔ مختصر یہ کہ پورا سفر حج قربانی کی کیفیت سے معمور رہتا ہے۔
◌ ◌ ◌
قربانی مویشیوں کی کی جاتی ہے۔ کیوں کہ قربانی کے لیے سب سے زیادہ مناسب مویشی ہی ہیں۔ انسانوں کو قربان کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔ اللہ کے نزدیک انسانی جان کی حرمت بہت زیادہ ہے۔ اللہ تعالی نے اسماعیل کی قربانی روک کر اس اصول کو مستحکم کردیا کہ کسی انسان کو قربان نہیں کیا جاسکتا ہے۔ وہ جانور جو کھائے نہیں جاتے ہیں انھیں قربانی کے نام پر ذبح کرنا ایک نا مناسب عمل معلوم ہوتا۔ ایسے جانوروں کا وجود ماحولیاتی توازن کو قائم رکھنے کے لیے ہے۔ البتہ مویشیوں کو اللہ تعالی نے انسانوں کے کھانے کے لیے بنایا ہے۔ انھیں کھانے سے ان کی تعداد پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ پالتو ہوتے ہیں۔ انسان کا قیمتی مال بھی ہوتے ہیں اور انسان کے دل کو عزیز بھی ہوتے ہیں۔ ان کی قربانی کرتے ہوئے اپنی کسی قیمتی اور محبوب متاع کی قربانی کا احساس ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنے گھر کے پلے ہوئے جانور کی قربانی کرتے ہیں انھیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر کے ایک عزیز کی قربانی دے رہے ہیں۔ غرض قربانی کے لیے جو چیز سب سے مناسب ہوسکتی تھی اللہ تعالی نے اسے اختیار کیا۔
◌ ◌ ◌
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ایک ہی دن میں لاکھوں جانوروں کو ذبح کردینا غیر مہذب عمل ہے۔ لیکن یہ بہت کم زور اعتراض ہے۔ اگر قربانی کے دن ایسے جانوروں کو ذبح کیا جاتا جو کھائے نہیں جاتے ہیں، تب تو یہ اعتراض قابل غور ہوتا۔ اگر اتنی بڑی تعداد میں جانور ذبح کرنے سے ان جانوروں کی تعداد گھٹ جانے اور ماحولیاتی مسائل پیدا ہوجانے کا اندیشہ ہو تو بھی یہ اعتراض قابل غور ہوتا۔ لیکن اگر ایسی کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے اور قربانی کا گوشت انسانوں کی ضرورت پوری کرنے والا ہےاور اس گوشت کا ضیاع نہیں ہوتا ہے تو پھر یہ اعتراض کسی درجے میں بھی وزن نہیں رکھتا ہے۔
ایک ہی دن میں بڑی تعداد میں مویشیوں کی قربانی کرنا ایسا ہی ہے جیسے کہ بہت سے کھیتوں کی فصلیں ایک ہی دن کاٹ لی جائیں۔ جس طرح کھیت کی فصلیں کاٹنے کے لیے ہیں اسی طرح مویشی جانور ذبح کرنے کے لیے ہیں۔ یہ دونوں ہی انسانوں کے رب کی طرف سے ان کی روزی کے زبردست انتظامات ہیں۔ یہ خصوصی انتظامات صرف انسانوں کے لیے ہیں۔
◌ ◌ ◌
قربانی شریعت کا حکم ہے۔ شریعت کے احکام کی تعمیل کرتے ہوئے اس کے حسن و جمال کا اظہار ہونا چاہیے۔ یہ احسان کا تقاضا ہے۔ قربانی کے نتیجے میں اگر محلے میں گندگی اور ماحول میں بدبو پھیلتی ہے تو یہ بہت خراب بات ہے۔ یہ مسئلہ انفرادی احساسِ ذمے داری اور اجتماعی توجہ کا طالب ہے۔ بقرعید کے موقع سے اگر مسلم محلوں میں گندگی پھیلتی ہے تو اس کی وجہ قربانی نہیں ہے بلکہ صفائی کے سلسلے میں مسلمانوں کی عام بے حسی ہے جو قربانی کے دنوں میں نمایاں ہوجاتی ہے۔
یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ قربانی کرنے والوں کی لاپرواہی اور غفلت کے نتیجے میں خود قربانی کی شبیہ خراب ہوجائے۔
◌ ◌ ◌
قربانی انسان کو مادی سوچ سے اوپر اٹھاتی ہے۔ اپنی روحانی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے مادی تقاضوں کے دباؤ کو کم کرنے کا درس دیتی ہے۔ قربانی کا جذبہ انسان کو مادی حصار سے آزادی عطا کرتا ہے۔ وہ اعلی مقاصد کی خاطر اپنی قیمتی چیزوں کو تج دینے کے قابل بنتا ہے۔ دور حاضر میں مادہ پرستی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ مادہ پرستی کے اس دور میں قربانی کے جذبے کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔
انسانی شخصیت کی معراج یہ ہے کہ اسے قربانی کا جذبہ اور مزاج حاصل ہوجائے۔ وہ ہر معاملہ کو مادی سود و زیاں کی عینک لگاکر نہ دیکھے۔ وہ اپنے ہر عمل کا صلہ دنیا ہی میں لے لینا نہ چاہے۔ دوسروں کی بے لوث خدمت کرنا قربانی والے مزاج کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ انسان بڑا تھڑدلا اور کم ظرف واقع ہوا ہے۔ قربانی کا مزاج اسے دل کی کشادگی سے ہم کنار کرتا ہے۔ قربانی کا جذبہ ہو تو انسان بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتا ہے اور قربانی کے جذبے سے دل خالی ہو تو انسان کچھ نہیں کرسکتا ہے۔
◌ ◌ ◌
اللہ تعالی اپنے بندے کو قربانی کی توفیق دے کر اس کا مقام بلند کرتا ہے۔ قربانی انسان کی عظمت میں بے پناہ اضافہ کردیتی ہے۔ اللہ تو غنی اوربے نیاز ہے۔ اپنی بے نیازی کے باوصف جب وہ اپنے محتاج بندے کو اس کا موقع دے کہ وہ اس کے حضور کچھ پیش کرے اور پھر وہ اسے قبول بھی کرلے تو دراصل وہ اپنے بندے کو بہت بڑا شرف عطا کرتا ہے۔ قربانی حصولِ شرف کی جستجو کا نام ہے۔ قربانی بہت اونچے مقام پر سرفراز ہونے کا نام ہے۔ اتنے اونچے مقام پر پہنچنے کے لیے تقوی ضروری ہے۔ اسی لیے کہا گیا: إِنَّمَا یتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِینَ[المائدة: 27]
قربانی کے لیے تقوی ضروری ہے۔ تقوی کیا ہے؟ تقوی نفسانی خواہشات کی قربانی ہے۔ گویا جانور کی قربانی سے پہلے اپنے نفس کی قربانی مطلوب ہے۔ جانور کی قربانی اللہ سے قریب کرتی ہے اور نفس کی قربانی اللہ سے قریب ہونے کا اہل بناتی ہے۔ اس زمانے میں نفس پرستی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اخلاق کی تمام حدیں توڑ رہا ہے۔ خواہشات پوری ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں اور اخلاق کی پامالی کی بھی کوئی حد نہیں رہی ہے۔ نفس پرستی کے اس زمانے میں تقوی کی ضرورت اور خود غرضی کے اس زمانے میں قربانی کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔
مشمولہ: شمارہ جون 2025