مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی علیہ الرحمہ (۱۹۰۳ء تا ۱۹۷۹ء) نے کارتجدید واحیائے دین یا امت مسلمہ کی نشاۃثانیہ کی مساعی کو حسب ذیل نوشعبوں میں بیان کیاہے:
- ’’۱)اپنے ماحول کی صحیح تشخیص یعنی حالات کاپورا پورا جائزہ لے کر یہ سمجھناکہ جاہلیت کہاں کہاں کس حد تک سرایت کرگئی ہے۔ کن کن راستوں سے آئی ہے۔ اس کی جڑیں کہاں کہاں اور کتنی پھیلی ہوئی ہیں اور اسلام اس وقت ٹھیک کس حالت میں ہے۔
- ۲)اصلاح کی تجویز یعنی یہ متعین کرنا کہ اس وقت کہاں ضرب لگائی جائے کہ جاہلیت کی گرفت ٹوٹے اوراسلام کو پھر اجتماعی زندگی پر گرفت کا موقع ملے۔
- ۳)خود اپنے حدود کا تعین یعنی اپنے آپ کو تول کر صحیح اندازہ لگاناکہ میں کتنی قوت رکھتاہوں اور کس راستے سے اصلاح کرنے پر قادر ہوں۔
- ۴)ذہنی انقلاب کی کوشش یعنی لوگوں کے خیالات کو بدلنا، عقائد و افکار اور اخلاقی نقطۂ نظر کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنا نظام تعلیم و تربیت کی اصلاح اور علوم اسلامی کا احیاء کرنا اور فی الجملہ اسلامی ذہنیت کو ازسرنو تازہ کردینا۔
- ۵)عملی اصلاح کی کوشش یعنی جاہلی رسوم کو مٹانا، اخلاق کا تزکیہ کرنا، اتباع شریعت کے جوش سے پھر لوگوں کو سرشار کردینا اور ایسے افراد تیار کرنا جو اسلامی طرز کے لیڈر بن سکیں۔
- ۶)اجتہاد فی الدین یعنی دین کے اصول کلیہ کو سمجھنا، اپنے وقت کے تمدنی حالات اور رتقائے تمدن کی سمت کااسلامی نقطۂ نظر سے صحیح اندازہ لگانا اور یہ تعین کرناکہ اصول شرع کے ماتحت تمدن کے پرانے متوارث نقشے میں کس طرح ردو بدل کیاجائے جس سے شریعت کی روح برقرار رہے۔ اس کے مقاصد پورے ہوں اور تمدن کے صحیح ارتقاء میں اسلام دنیا کی امامت کرسکے۔
- ۷)دفاعی جدوجہد یعنی اسلام کو مٹانے اور دبانے والی سیاسی طاقت کا مقابلہ کرنا اور اس کے زور کو توڑکر اسلام کے لئے ابھرنے کاراستہ پیدا کرنا۔
- ۸)احیائے نظام اسلامی یعنی جاہلیت کے ہاتھ سے اقتدار کی کنجیاں چھین لینا۔ اور ازسرنو حکومت کو عملاً اس نظام پر قائم کردینا جسے صاحب شریعت علیہ السلام نے خلافت علی منہاج النبوۃ کے نام سے موسوم کیا ہے۔
- ۹)عالمگیر انقلاب کی کوشش یعنی صرف ایک ملک یا ان ممالک میں جہاں مسلمان پہلے سے موجود ہوں اسلامی نظام کے قیام پراکتفا نہ کرنا بلکہ ایک ایسی طاقتور عالمگیر تحریک برپا کرنا جس سے اسلام کی اصلاحی و انقلابی دعوت عام انسانوں میں پھیل جائے وہی تمام دنیا کی غالب تہذیب بنے ساری دنیا کے نظام تمدن میں اسلامی طرز کا انقلاب برپا ہو اور عالم انسانی کی اخلاقی ، فکری اور سیاسی امامت و ریاست اسلام کے ہاتھ میں آجائے۔‘‘
مولانا مودودیؒ کا یہ نو نکاتی لائحہ عمل ابتداً بریلی کے جریدہ ’’الفرقان‘‘ میں شائع ہواتھا۔ چند برس بعد اگست ۱۹۴۱ء میں برصغیر ہند وپاک میں ’جماعت اسلامی ‘ کا قیام عمل میں آیا۔ مولانا پوری زندگی احیائے دین کی سعی میں مصروف رہے۔ ۱۹۷۹ء میں ان کی رحلت تک مذکورہ کارتجدید کِس حد تک انجام پایا اِس سلسلے میں حسب ذیل مطالعہ فرمائیں:۔
’’یہ جو پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کا اعلان ہوا، ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہوا، افغانستان میں علماء مشائخ اور افعانی نوجوان اسلام کے تحفظ اور اس کی سربلندی کے لئے سردھڑ کی بازی لگائےہوئے ہیں اور پورا عالم اسلام شریعت محمدی کے نفاذ اور اسلام کی سربلندی کی صدائوں سے گونج رہاہے اور اسلام، اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب غیرمسلم دنیا کے لئے غورو فکر کا موضوع بن گیا ہے تو اس خوش آئند صورت حال کے پیدا ہونے میں مولانا مرحوم کی ایمان افروز کتابوں اور انقلابی تصانیف نیز عملی سرگرمیوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔‘‘ (تعزیتی قرارداد مرکزی مجلس شوریٰ، جماعت اسلامی ہند ماخوذازروداد مجلس شوریٰ حصہ دوم صفحہ ۲۶۴۔ ۲۶۲)
سید مودودیؒ نے اپنی کتاب ’’تجدید احیائے دین‘‘میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے لے کر حضرت سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسمٰعیل شہیدؒ تک مجدددین کے کاموں پر اختصار مگر جامعیت سے تبصر کیا ہے یہ تبصرہ درکار مساعی اور جدوجہد کے لیے ایک مثالی خاکہ فراہم کرتا ہے اِس پس منظر میں گزشتہ صدی کے مجدددین کے کام کاجائزہ لیا جاسکتا ہے۔ کارِ تجدید کے ذیل میں چند اہم نام یہ ہیں:
محمد بن عبدالوہابؒ، سعیدنورسیؒ، حسن البنا شہیدؒ، علامہ خمینیؒ۔ برصغیر ہندو پاک کے علماء درج ذیل ہیں: علامہ شبلی نعمانیؒ، علامہ حمیدالدین فراہیؒ، علامہ محمد اقبالؒ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ۔ کچھ دانش وروں نے اپنی تحریروں میں اہم نکات اٹھائے ہیں مثلاً جناب وحیدالدین خان، جناب راشد شاز اور جناب سید وقار احمد حسینی۔ اِن حضرات نے مسلمانوں کے عروج و زوال کے تاریخی اسباب پر گفتگوکی ہے اور مستقبل میں امت کا منصوبہ تشکیل دیا ہے۔ اِن افکار کو نقدو احتساب کی نظر سے پر کھاجاسکتا ہے۔
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی کتابیں ’مسلمانوں کے عروج و زوال کااثر انسانی زندگی پر‘‘ اور ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ اِس سلسلے میں قابلِ ذکر ہیں۔ علامہ اقبال کی ’’الہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید‘‘ جناب وحیدالدین خاں کی کتب، جناب وقار احمد حسینی کی کتاب ’’علم، تعلیم اور تمدن کا اسلامی قالب‘‘ اور جناب راشد شاز کی کتب بالخصوص ’’متحدہ اسلامی کا منشور‘‘ کا جائزہ ضروری ہے۔
اِس اصولی نکتے کا استحضار لازم ہے کہ کسی شخص کا صاحب تصنیف ہونا محض فکری صلاحیت کی علامت ہے لازم نہیں کہ وہ شخص صاحبِ بصیرت بھی ہو اور اپنی حیات میں اس فکرو نظر کا نمونہ بھی ہو۔ کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو فکرو نظر کو عام انسانیت تک پہنچانے کے لیےتحریک برپا کریں اور مرحلہ بہ مرحلہ اُس کو فتح و نصرت سے ہمکنار کرسکیں گویا عملی حیثیت میں وہ داعی و مبلغ بھی ہوں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دانشوران کی پرواز فکر ایک تجزیہ نگار، نقاد اور فلسفی کے کام سے آگے نہیں جاتی وہ داعی سے زیادہ مدعی اور مجدد کے بجائے متجدد نظرآتے ہیں وہ ماضی کے ہررشتے کو توڑکر ملت اسلامیہ کو ترقی یافتہ مغرب کا اتباع کرنے والی قوم بنادینے پر تُلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ
اپنی ملت کو قیاسِ اقوام مغرب پر نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی!
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برپا کردہ انقلاب نے دورِجاہلیت کے مشرکانہ و بت پرستانہ افکار، تہذیب و تمدن کو ختم ہی نہیں کیا بلکہ توحید، رسالت و آخرت کی اساس پر ایک نیا انسانی معاشرہ تعمیر کیا۔ دور جاہلیت کی خرافات کاخاتمہ کیا، عقل انسانی پر پڑے ہوئے توہمات کے پردے چاک کیے، علم و حقائق کے نئے انکشافات کے دروازے کھولے۔ حیوان نما انسانوں کو مہذب اور تمدن سےآشنا بنایا، خدا اور انسانوں کے باہمی تعلق کو استوار کیا اور انسانوں اور انسانوں کے تعلقات کو عدل و قسط اور رحمت و مواساۃ کی بنیادوں پر منظم کیا۔ استحصال اور ظلم سے پاک ماحول عطا کیا۔ یہ ماحول مغرب کی نقالی اور مادہ پرستانہ ترقی سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا بلکہ انسانیت نواز، خدا پرست فلاحی ریاست کے قیام سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔
جناب راشد شاز کا انداز فکر:
نہایت اہتمام سے شائع ہونےوالی راشد شاز صاحب کی اہم کتابیں درج ذیل ہیں:
۱) ادراک زوال امت
۲) اسلام۔ مسلم ذہن کی تشکیل جدید
۳) ہندوستانی مسلمان۔ ایام گم شدہ کے پچاس برس
۴) کتاب العروج
۵) متحدہ اسلام کا منشور
لکھتے ہیں:
’’اس امت میں ان ہزار برسوںمیں نہ جانے کتنے علماء و مفکرین پیدا ہوئے۔ نہ جانے کتنے شارحین اور متکلمین نے جنم لیا، آخر ان لوگوں نے اس انحراف عظیم کی طرف کیوں نہ اشارہ کیا جس کی نشاندہی آج مَیں کوئی ہزار سال بعد کررہاہوں؟ اس دوران امت میں غزالی اور ابن تیمیہ جیسےمتکلمین پیدا ہوئے تو شاہ ولی اللہ اور محمد بن عبدالوہاب جیسے احیائی بھی اور پھر بیسویں صدی میں سقوط خلافت کے بعد افغانی کے شاگردوں، اقبال کے مداحوں، حسن البناء، مولانا الیاسؒ اور ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریکوں نے بھی اس انحراف کو بیخ و بُن سے اکھاڑ پھینکنے کی دعوت نہ دی۔‘‘ (متحدہ اسلام کا منشور صفحہ ۲۲)
ایک دوسرے مقام پر انہوں نے لکھا ہے:
’’حسن البناء کی اخوان المسلمین ، مولانا الیاس کی تحریک ایمان اور ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی جماعت اسلامی جو ابتداًاسلام کے اجتماعی نظام کے احیاء کے لئے اُٹھی تھیں اور جن کا مقصد امت کو ایمان واخلاص اور اس کے اصلی مشن پر ازسرنو منظم کردینا تھا، ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ یہ تنظیمیں فی نفسہ گروہی نفسیات کی اسیر بن گئیں‘‘ (ایضاً صفحہ ۶۵)
مگر خود راشد شاز صاحب اپنے اس نادر تجزیہ پر قائم نہیں رہ سکے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
’’ٹرین میں بیٹھا مسافر جس طرح ہر نئے آنے والے کے لئے تنگ دلی اور تحفظات کا اظہار کرتا ہے کچھ یہی صورت حال ان تحریکوں کے ساتھ بھی رہی مثال کے طورپر جمعیت العلماء اور مسلم لیگ کی مقبولیت کے زمانے میں امت کے علماء اور سواد اعظم دونوں کا رویہ جماعت اسلامی کی طرف مکمل استراد کا تھا۔ لیکن جب رفتہ رفتہ جماعت نے اپنا خیمہ مستحکم کرلیا تو ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی جماعت بھی سبیل المومنین کا حصہ سمجھی جانے لگی‘‘ (ایضاصفحہ ۶۶)
جناب راشد شاز صاحب کی ایک تصنیف ’’کتاب العروج‘‘ یعنی تہذیب کے قرآنی سفر کاایک چشم کشا تذکرہ ہے۔ یہ کتاب طباعتی ، دلکشی اور چشم کو خیرہ کردینے والے مندرجات سے معمور ہے مگر یہ کوئی انوکھا ذخیرہ معلومات نہیں ہے حسب ذیل کتب بھی کم و بیش ایسا اور اتنا علمی مواد اپنے دامن میں رکھتی ہیں:
۱) سوعظیم مسلم سائنس : از رفیق انجم اور ابراہیم عمادی
۲) عہد اسلامی میں ٹکنالوجی : ازانوار احمد خاں اور ذکی احمد کرمانی
۳) مسلمان سائنس داں اور ان کی خدمات: از ابراہیم عمادی ندوی
اسی طرح زوال امت کے اسباب ووجوہات پر بھی کتب دستیاب ہیں:۔ مثلاً : ’’تاریخ تہذیب اسلامی‘‘ جلد اول و دوم از یٰسین مظہر صدیقی ’’مسلمان کے عروج و زوال کا اثر انسانی دنیا پر‘‘ از علی میاں ۔ یہ موضوع قدیم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ لکھنے والا چونکادینے والا انداز اختیار کرے یہ واقعہ ہے کہ امت کا سواد اعظم ’’فرقہ بندی‘‘ کے افسانے کوتوجہ کے لائق نہیں گردانتا حج بیت اللہ ،عیدین اور دوسرے مواقع امت مرحومہ کے ظاہری اختلاف مسالک کے باوجود ’امت محمدی‘ کے مقام اعلیٰ کا مظہر ہیں۔ یہ خاتم الانبیاء کا ایک دائمی معجزہ ہی ہے جس کا انکار نہیں کیاجاسکتا:
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
جناب شاز صاحب ابتداً ایرانی انقلاب کے زبردست حامی اور اُس کے مبلغ کی حیثیت میں اُبھرے۔ ہندوستان میں کارِ تجدید و احیائے دین کےآغاز کے طورپر ’’ملی پارلیمنٹ‘‘ بنائی۔ افراد کے صرف نام اور پتے حاصل کرکے اُن کو ملی پارلیمنٹ کا ممبر بھی بنالیا۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوںگے، جنہوںنے آج تک شاز صاحب سے ملاقات بھی نہیں کی ہوگی۔ اُمت مسلمہ کی ہزار سالہ تاریخ کے ناقد نے کبھی غور کیا یا نہیں کہ ملی پارلیمنٹ کے ۲۸ سالہ سفر کی کیا داستان ہے۔ اور وہ کس مرحلہ میں ہے۔سارے جہاں کاجائزہ اپنے جہاں سے بے خبر۔ اسی بھولی بھالی اُمت کا کا کیا کہنا اِس کاحافظہ بہت کمزور ہے جنہوں نے کہا:
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
احیائے امت کے علمبردار ملی پارلیمنٹ کاجائزہ لے کر یہ بتائیں کہ کیا وہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ تھا یا کوئی وقتی جوش تھا۔ ہر تیسرے چوتھے مہینہ ایک دو خوبصورت تصانیف منظرِعام پر آتی ہیں پھر غائب ہوجاتی ہیں نہ جانے کتنے وسائل اُمت کے ضائع ہوتے ہیں۔
غلبہ دین حق اور تحریک اسلامی
عصر حاضرمیں تحریک اسلامی کی نشاۃ ثانیہ ہوئی ترکی، مصر،برصغیر ہندو پاک اور ایران میں۔ احیائے اسلام کی مساعی کاآغاز ہوا ۔ علامہ سعید نورسی، حسن البناء شہید، مولانا مودودیؒ اور امام خمینی جیسی عبقری شخصیات ان مساعی کی سرخیل رہی ہیں۔ متعلقہ ممالک ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اِن کے اثرات نمایاں طورپر محسوس کئے جانے لگے ہیں۔ ان شخصیات نے علمی و فکری سطح پر جدید نظریات، معاشی و سیاسی فلسفوں کا جواب دیا ہے اور دین حق کی بالاتری ثابت کی ہے۔
مذکورہ بالا شخصیات میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا دینی و فکری مقام نہایت بلند اور ممتاز ہے۔ عالم اسلام میں برپا احیائی و انقلابی تحریکات نے ان کے فکرو نظر سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ۱۶؍ذی الحجہ ۱۳۸۲ھ کو مکہ معظمہ میں ’’دنیائے اسلام کی تحریکات اسلامی کے لئے طریق کار‘‘ کے عنوان پر تقریر فرمائی تھی وہ عالم اسلامی میں مطلوبہ صالح انقلاب کی حکمت عملی کا واضح نقشہ پیش کرتی ہے اس تقریر کے ذیلی عنوانات یہ ہیں:
(۱)اسلام کا صحیح علم حاصل کرنا (۲)اپنی اخلاقی اصلاح (۳)مغربی تہذیب وفلسفہ پر تنقید (۴)صالح افراد کی مضبوط تنظیم (۵)عمومی دعوت اصلاح (۶)صبرو حکمت کے ساتھ مطلوبہ صالح انقلاب کے لئےجدوجہد (۷)قیادت و وابستگان کا مسلح اور خفیہ تحریکوں سے اجتناب۔ (تفہیمات حصہ سوم صفحہ ۴۵۹ تا ۴۷۶ مطبوعہ مرکزی مکتبہ اسلامی۔ نومبر ۱۹۷۱ء)
یہ نقشہ کار علمی، اخلاقی، دعوتی، تنظیمی پہلوئوں سے مبسوط و جامع ہے۔ ہمیں سید مودودیؒ کے طرزفکرو عمل میں محض منطقی بحث نہیں ملتی بلکہ آپ کے لائحہ عمل میں فکرو نظر اور عملی جدوجہد شانہ بشانہ دستیاب رہتے ہیں۔ ایک موقع پر آپ نے اس لائحہ عمل کی مفصل وضاحت کرتے ہوئے فرمایاتھا:
’’کسی نظریہ حیات کے مطابق سیاسی انقلاب رونما ہونے کی واحد صورت یہ (سمجھی جاتی) ہے کہ اس سے پہلے اس نظریہ کے مطابق فکری انقلاب رونما ہوجائے۔ حالانکہ ایسا ہونا کچھ ضروری نہیں ہے‘‘
اس کے آگے مولانا فرماتے ہیں:
’’اسلام کی اپنی تاریخ بتاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداً صرف ایک مٹھی بھر جماعت، اسلامی طرزفکر کی حامل تیار کی تھی اس کے بعدسیاسی انقلاب ، فکری و اخلاقی انقلاب کے ساتھ ساتھ اس طرح متوازی چلتارہاکہ دونوں کی تکمیل ایک ساتھ واقع ہوئی۔ وہاں ان دونوں قسم کی مساعی کو ہم ایک دوسرے کا ایسا مددگار پاتے ہیں کہ ہمارے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتاہےکہ آیا سیاسی انقلاب، فکری و اخلاقی انقلاب کا نتیجہ تھا یا فکری و اخلاقی انقلاب سیاسی انقلاب کا نتیجہ‘‘
(’’تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل‘‘ از مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ صفحہ ۱۹۵ شائع کردہ اسلامک پبلی کیشنز لاہور ۱۹۵۷ء)
’’غلبہ دین حق، کے بارے میں قرآن حکیم کی آیات اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن (مقصد بعثت) کے طورپر پیش کرتی ہیں۔ یہ آیات سورہ التوبہ (آیت۱۲، ۲۲) اور سورہ الصف (آیت ۸،۹) میں یکساں الفاظ میں موخرالذکر جنگ احد کے بعد اور اول الذکر فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی۔ اِس طرح کی ایک آیت سورہ الفتح (آیت ۲۸) کی بھی ہے جو صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی تھی۔ اس پس منظر (Perspective)میں ’اظہار‘ اور ’الدّین‘ کے الفاظ خصوصی معنویت کے حامل ہیں جن کی تشریح مذکورہ آیات کے علاوہ سورہ ’الزمر‘ (آیت۲) اور سورہ الشوریٰ (آیت ۱۳) کے حواشی میں کی گئی ہے۔ مجموعی طورپر ان آیات کے سیاق و سباق سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ مروج مذاہب، فلسفہ حیات اور طرزہائے زندگی کے درمیان دین اسلام کا جامع نظام زندگی نبی آخرالزماں کے ذریعہ بھیجا گیا ہے ۔ یہ دین فرد کے ارتقاء، معاشرہ کی تعمیراور ریاست کی تشکیل کے سلسلہ میں کامل الٰہی ہدایات پر مشتمل ہے۔ نبی کا کام ان ہدایات کو بندگان خدا تک علمی و تبلیغی انداز میں محض پہنچادینا نہیں ہے بلکہ اپنی ہمہ جہتی جدوجہد کے ذریعہ اقامت و غلبہ دین کا فریضہ انجام دینا بھی ہے۔ اسی فریضہ کی ادائیگی پر حج الوداع کے موقع پر اِس آیت کا نزول ہوا:
الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً (سورہ المائدہ آیت:۳)
بہ اعتبار نزول یہ آیت قرآن حکیم کی آخری آیت ہے جو نبی مکرم ﷺ کے مشن کی تکمیل اور کفر و شرک پر اسلام کے غلبہ کا اعلان کررہی ہے۔ اقامت دین حق کا نصب العین پورا ہوا اور اس کے حصول کے لئے جو طریق کار اپنایا گیاتھا وہ امت مسلمہ کے لئے مثالی (Ideal) رہے گا۔ کلام الٰہی کو محفوظ کیاگیا اور اسوۂ رسول، شخصیت و سیرت نبی خاتم اور آپؐ کے قول وعمل کو بھی محفوظ و مامون کردیاگیا۔
عصر حاضر میں جو ہر اقتدار (Substance of Power) کسی ایک جگہ پر مرکوز نہیں ہے۔ (قدیم دور میں قبیلہ کی سرداری موروثی تھی یا بزور تلوار حاصل کی جاتی تھی۔ تہذیب و تمدن بھی زیادہ تر رواج اور سماج کے رجحانات و روایات پر منحصر ہوتے تھے)آج اقتدار عوام اور ان کی رائے عامہ خواص (Elite) اور ان کے اثرات ، وسائل ترسیل و ابلاغ، ریاست اور اس کے ادارہ جات، مقننّہ، عدلیہ ، انتظامیہ (نوکر شاہی، بیورو کریسی) اور فوج وغیرہ میں تقسیم ہے۔ پھر عوام بھی مختلف طبقات میں منقسم ہیں۔ محنت کار و مزدور، منظّم اور غیرمنظّم گروہ ، متوسط کارندے و ملازمت پیشہ افراد، طلبہ و نوجوان وغیرہ مختلف طبقے ہیں۔ خواص میں سرمایہ دار، تجار، صنعت کار و زمیندار اور منقولہ و غیرمنقولہ جائیدادوں کے مالکین، بینکرز (Bankers) ، بڑے تعلیمی اداروں کے مالکین، دانشوران و ماہرین علوم جدیدہ شامل ہیں۔ یہ اپنے مفادات کے لئے اثرو رسوخ استعمال کرتے ہیں اور تہذیب و تمدن میں اپنے پسندیدہ رجحانات کوپھیلاکر جوہراقتدار کے مراکز پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنا شکنجہ مضبوط رکھتے ہیں۔
کوئی تحریک (دینی یا غیردینی) اپنی فکرو نظرکے غلبہ کے لئے محض تبلیغ و تلقین اور اشاعت افکار پر انحصار نہیں کرسکتی وہ ان ذرائع سے اپنے مطلوبہ صالح انقلاب کے لئے حلقہ وابستگان کو عمومی اثرو رسوخ کو بڑھاتو سکتی ہے مگر سماجی و سیاسی فعالیت (Socio – Political Activism)کے بغیر وہ اقتدار کی جانب نہیں بڑھ سکتی۔ علمی و تحقیقی مساعی، تعلیمی و تربیتی کاوشوں اور تبلیغی جدوجہد سے وہ اپنے پیش نظر نظام زندگی کو بطور متبادل پیش تو کرسکے گی مگر ہمہ جہتی عصری چیلنجوں کا جواب ملکی سماج میں فعال شمولیت (Active Participation)کے بغیر نہیں دےسکتی۔
قرآن حکیم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مثالی کردار (Role Model) سے عصری تحریکات اسلامی کو بہت کچھ اخذ کرنا ہے۔ ان کی روشنی میں اپنی اجتہادی فکری صلاحیت و استعداد کو بڑھاتے ہوئے عملی جدوجہد کو زیادہ سے زیادہ وسعت دینا ہے تب غلبہ دین کی منزل تک رسائی ہوسکے گی ورنہ محض علمی واخلاقی مساعی تو صدیوں سے جاری ہیں۔
ہندوستان جیسے ملکوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ غلبہ اسلام کی مساعی کا آغاز دعوت اور اصلاح فرد و معاشرہ سے ہوگا۔
ضروری ہے کہ :
٭ تمام بندگان خدا کو’’بندگی رب‘‘ کی دعوت دی جائے ۔ اپنے خالق و مالک، پروردگار کی عبادت اور اس کے احکام کی اطاعت پر زندگی استوار کرنے کی دعوت سے یہ مساعی شروع کی جائیں۔
٭جو افراد قوم و ملت اس دعوت کو قبول کریں ان سے کہاجائے کہ اپنے افکار و اعمال کی اصلاح کریں اور جو اُمور اس دعوت کے تقاضوں کے خلاف ان کی زندگیوں میں پائے جاتے ہوں انہیں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی سے خارج کردیں۔
٭تبلیغ و تلقین اور اشاعت افکار کے ذریعہ ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح اِس لائحہ عمل کاجزو لاینفک ہوگی۔ اس طرح ملک کی اجتماعی زندگی میں مطلوبہ صالح انقلاب لانے کے لئے رائے عامہ کی تربیت کی جائے گی۔ چونکہ مقصود یہ ہے کہ یہ مساعی ایک صالح انقلاب پر منتج ہوں اس لئے ان مساعی کی انجام دہی اخلاقی حدود کی پابند ہوگی کبھی ایسے ذرائع اور طریقے اختیار نہیں کیے جائیں گے جو صداقت و دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فرقہ وارانہ منافرت، طبقاتی کشمکش اور فساد فی الارض رونما ہونے کا اندیشہ ہو۔
ان پابندیوں کے علاوہ مساعی قرآن اور سنت کو اساس کار کے طورپر تسلیم کرکے انجام دی جائیںگی، علمی و عملی ترقیات کے اس دور میں جدید افکار و طریقوں سے صرف اس حد تک استفادہ کیاجائے گا جس حد تک قرآن و سنت میں ان کی گنجائش ہو۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2013