جس طرح انبیاء ورسل اللہ تعالیٰ کے منتخب کردہ ہوتے ہیں۔ اور ان کا انتخاب اللہ تعالیٰ کی محبوبیت پر دلالت کرتا ہے اسی طرح ان کے اصحاب بھی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی قسمت میں نبی اور رسولؐ کی صحبت لکھی ہوتی ہے اور یقیناً یہ ایک فضیلت کی بات ہے۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے جتنے انبیاء اور رسول آئے سبھی کے کچھ نہ کچھ اصحاب رہے ہیں۔ جو ان کی رسالت ونبوت پر ایمان لائے اور ان کا ساتھ دیا۔ اسی طرح آخری رسول حضرت محمدﷺ کے بھی اصحاب تھے جو آپؐ پر ایمان لائے۔ آپؐ کے ساتھ ہجرت کی اور دکھ سکھ میں آپؐ کے ساتھ رہے اور آپؐ کے ساتھ جنگ بھی کی۔ بہت سے اصحاب کا شمار سابقون الاولون میں ہوتا ہے۔ کچھ مہاجرین ہیں کچھ انصار ہیں۔ بہت سے اصحاب غزوۂ بدر اور غزوۂ اُحد میں شریک ہوئے۔ بہت سے صلح حدیبیہ کے بعد ایمان لائے اور بہت سوں کو فتح مکہ کے بعد ایمان لانے کی توفیق ملی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ کے ساتھ ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ کرامؓ موجود تھے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مقام ومرتبے کو سمجھنے سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ومرتبے کو سمجھنا ضروری ہے۔ آپ کو رحمۃ للعالمین کا خطاب دیاگیا اور آپؐ کو اخلاق عظیم کے مرتبے پر فائز ہونے کی سند دی گئی۔ آپؐ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوا اور قرآن مجید جیسی عظیم کتاب آپ پر اتاری گئی۔ ظاہر ہے کہ ایسے جلیل القدر رسول اور نبی کریمﷺ کے صحبت یافتہ گروہ کا مقام و مرتبہ صرف اسی کی قسمت کا حصہ تھا۔ اب کوئی اس شرف سے بہرہ ور نہیں ہوسکتا۔ امت میں اسی وجہ سے اس گروہ کو خاص فضیلت حاصل ہے اور اس کو نبیؐ کے بعد اسوہ قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْہُدٰى وَيَتَّبِـعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ۰ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا (النساء:۱۱۵)
’’جوشخص رسول کی مخالفت پر کمربستہ ہوا اور اہل ایمان (صحابہ کرامؓ) کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے حالاں کہ اس پر راہ راست واضح ہوچکی ہو تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جائے قرار ہے‘‘۔
آیت میں ’’سبیل المؤمنین‘‘ سے مراد صحابہ کرامؓ کا طریقہ ہے کیوں کہ نزول قرآن کے وقت مومنین کی جماعت صحابہ کرامؓ ہی کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کو یہ مقام کیوں حاصل ہوا؟ کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کیوں اسوہ قرار دیے گئے؟ اس سلسلے میں درج ذیل اسباب ووجوہ گنائے جاسکتے ہیں۔
صحابہ کرامؓ کے ایمان اور تقویٰ کی تصدیق وتوثیق کی گئی ہے
قرآن مجید میں جن لوگوں کے ایمان تقویٰ اور نیکی کی تصدیق وتوثیق کی گئی ہے ان میں انبیائے کرام علیہم السلام کی جماعت اور ان کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت ہے۔ ظاہر ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ صحابہ کرامؓ کی جماعت عنداللہ مقبول جماعت ہے اور جو عنداللہ مقبول ہوجائے ان کا طریقہ بھی مقبول ہوگا۔ ارشاد ہے:
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا۰ۭ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ۷۴ (سورہ الانفال:۷۴)
’’جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ تعالیٰ کی راہ میںجہاد کیا اور جنھوںنے پناہ دی اور مدد پہنچائی یہی لوگ سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی ہے۔ ‘‘
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰى۰ۭ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ۳ (الحجرات:۳)
’’یہی وہ لوگ ہیں (صحابہ کرامؓ) جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے پرہیزگاری کے لیے جانچ لیا ہے۔ ان کے لیے مغفرت ہے اور بڑا اجر ہے‘‘۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان وتقویٰ کی تصدیق وتوثیق کے ساتھ انہیں رضائے الٰہی کی خوشنودی بھی سنائی گئی ہے ۔ ارشاد ہے:
وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍ۰ۙ رَّضِيَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ۔(التوبہ:۱۰۰)
’’سابقون اولون صحابہ کرامؓ جنھوں نے ہجرت کی اور انصار اور وہ لوگ جنھوں نے ان کی پیروی اختیار کی اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوئے‘‘۔
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:
لَقَدْ رَضِيَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ ۔ (سورہ الفتح: ۱۸)
صحابہ کرامؓ نہ ہوتے تو دین کی تبلیغ نہ ہوپاتی
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا دین کی تبلیغ و اشاعت میں کیا کردار رہا ہے؟ اس کی وضاحت اس بات سے ہوتی ہے کہ اگر صحابہ کرامؓ کی جماعت نہ ہوتی تو دین کی اشاعت نہ ہوپاتی۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔ چنانچہ جنگ بدر کے موقع پر جب کفار اور مسلمانوں کے درمیان معرکہ برپا تھا اس وقت آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو فرمایا:
’’اللہ ! تونے مجھ سے وعدہ کیاہے (نصرت کا) وہ پورا کردے، اے اللہ! اگر یہ چھوٹی جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین پرپھر کبھی تیری عبادت نہیں ہوگی‘‘۔(مسلم، کتاب الجہاد)
صحابہ کرامؓ نے مشکل اوقات میں نبیؐ کا ساتھ دیا
خوش حالی اور کشادگی میں کسی کی پیروی کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے مگر اس وقت جب کہ حق اختیار کرنے کے معنی اپنی دنیاوی خوشحالی سے دست برداری ہو، پانے سے زیادہ کھونا پڑے اور مال ودولت کی قربانی دینی پڑے حتیٰ کہ جان کے لالے پڑجائیں ایسی صورت میں حق کو اختیار کرنا ، اس پر ثابت قدم رہنا، اس کی تبلیغ کرنا اور اس کی طرف لوگوں کو بلانا ،عزیمت کا کام ہے۔ صحابہ کرامؓ کی اکثریت نے ان ہی حالات میں حق کو اختیار کیا اور اس پر جمے رہے۔ اللہ تعالیٰ نےقرآن مجید میں اس کی صراحت فرمائی ہے کہ انھوں نے ان نازک ترین حالات میں حق کو اختیار کیا جب مشکلات سے جان حلق کو آنے لگی تھی۔ ارشاد ہے:
لَقَدْ تَّابَ اللہُ عَلَي النَّبِيِّ وَالْمُہٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْہُ فِيْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ ۔ (التوبہ: ۱۱۷)
’’اللہ نے معاف کردیا نبی کریم ﷺ کو اور ان مہاجرین و انصار کو جنھوںنے بڑی تنگی کے وقت نبی ﷺ کا ساتھ دیا‘‘۔
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:
اِذْ جَاۗءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللہِ الظُّنُوْنَا۱۰ ہُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا۱۱ (الاحزاب:۱۰)
’’جب دشمن اوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھراگئیں اور کلیجے منھ کو آگئے اور تم اللہ کے بارے میں طرح طرح گمان کرنے لگ گئے اس وقت ایمان والے خوف آزمائے گئے اور بری طرح ہلا مارے گئے‘‘۔
صحیح روایات میں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس حال میں دنیا سے گئے کہ وہ بھوکے پیٹ تھے اور مرنے کے بعد ان کو پورے بدن کا کفن تک میسر نہیں آیا۔ بعض مواقع پر ایسا بھی ہوا کہ کفن اتنا مختصر ہوتا کہ سر ڈھانکا جاتا تو پائوں کھل جاتا اور پائوں چھپایا جاتا تو سر کھل جاتا‘‘(بخاری)
صحابہ کرامؓ نے دین کی اشاعت کے لیے جان ومال کی قربانی دی
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نہ صرف مشکلات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دیا بلکہ دین کے راستے میں اپنی جان ومال کی قربانی پیش کی۔ چنانچہ عہد نبویؐ میں ہونے والی مختلف جنگوں میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی ایک بڑی تعداد شہید ہوئی۔ جنگ اُحد میں ستر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے شہادت پائی، اتنے ہی زخمی ہوئے۔ بیرمعونہ اور واقعہ رجیع میں بھی ستر صحابہ کرامؓ شہید کیے گئے۔ عہد نبویؐ کے غزوات کے علاوہ جنگ یمامہ اور دوسری جنگوں میں بھی صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی تعدادشہید ہوئی۔ جان کے ساتھ مال کی بھی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بے مثال قربانیاں پیش کیں۔ مہاجرین نے اپنا وطن چھوڑ دیا جہاں ان کا گھر بار اور آرام و آسائش کے سامان تھے۔ انصار نے مہاجرین کے درمیان اپنے مال کو نصف نصف تقسیم کردیا۔اس کے علاوہ انفرادی طور پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے دین کے راستے میں مال خرچ کرنے کی مثالیں پیش کیں۔ چنانچہ ایک غزوہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے گھر کا کل اثاثہ، حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نصف اثاثہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حسب استطاعت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنا مال پیش کردیا۔ ایک موقع پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ہزار اونٹ حضور اکرمﷺ کی خدمت میں فی سبیل اللہ پیش کیے۔ ان ہی حقیقتوں کی قرآن مجید میں صراحت کی گئی ہے۔ ارشاد ہے:
اِنَّ اللہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ۰ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ فَيَقْتُلُوْنَ وَ يُقْتَلُوْنَ۰ۣ وَعْدًا عَلَيْہِ حَقًّا فِي التَّوْرٰىۃِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ۰ۭ وَمَنْ اَوْفٰى بِعَہْدِہٖ مِنَ اللہِ فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِہٖ۰ۭ وَذٰلِكَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۱۱۱ (التوبہ:۱۱۱)
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی راہ میں لڑتے او رمارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے اللہ تعالیٰ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے (جنت کا وعدہ) توریت، انجیل اور قرآن حکیم میں۔ اور کون ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ سے بڑھ کراپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو۔ پس خوشیاں منائو اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے۔ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے‘‘۔
صحابہ کرامؓ نے بے مثال اخوت اسلامی کا ثبوت پیش کیا
اصحاب رسول ﷺ کے دو گروہ تھے۔ ایک وہ جو اپنا گھر بار چھوڑ کر آئے تھے، دوسرا وہ جنھوں نے اپنا گھر بار ان کے حوالے کردیا۔ دونوں دین کے خاطر ایثار وقربانی کی عظیم مثال پیش کر رہے تھے۔ اگر مہاجرین نے دین کے لیے اپنے وطن کو خیربادکہا تو دین ہی کی خاطر انصار نے انھیں اپنا بھائی بنایا اور اپنے مال و جائداد میں ان کو حصے دار قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا۰ۭ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ (سورہ انفال:۷۴)
’’جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں گھربار چھوڑ دیا اور جہاد کیا اور جنھوںنے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے مغفرت اور پاکیزہ روزی ہے‘‘۔
سورہ الحشر کی آیت ۸۔۱۰ میں مزید تفصیل پیش کی گئی ہے کہ اصحاب رسولؐ ایک دوسرے کیلیے کس طرح ایثار وقربانی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ دراں حالیکہ وہ خود ضرورت مند ہیں۔ ارشادہے:
لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُہٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا وَّيَنْصُرُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ۸ۚ وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَيْہِمْ وَلَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ كَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ۔ (سورہ الحشر:۸۔۹)
’’ان غریب مہاجرین کے لیے جو اپنے گھروں اور جائدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں یہ لوگ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی حمایت پر کمربستہ رہتے ہیں۔ یہی راست باز لوگ ہیںاور وہ لوگو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لاکر دارالہجرت میں مقیم تھے۔ یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے اس کی ان کو کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسو س نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں‘‘۔
صحابہ کرامؓ دین کی سچی تصویر تھے
صحابہ کرامؓ نے دین کو سچے دل سے قبول کیاتھا۔ وہ اس کی سچی تصویر تھے،ایمان کے اعتبار سے ہر صحابی مضبوط پہاڑ تھا۔ اس کو کوئی ان کی جگہ سے نہ ہلاسکتا تھا۔ صحابہ کرامؓ کے اعتبار سے دین کے چھوٹے بڑے ہر حکم پر پورے جوش وجذبے کے ساتھ عمل کرتے تھے۔ ان کے صبرو ثبات کے سامنے باطل کے قدم اکھڑ گئے ۔ وہ اپنے ہم مذہب اور ایمان والوں کے حق میں آبریشم کی طرح نرم اور گداز تھے، ان کا دن گھوڑوں کی پٹھوں پر اور راتیں اللہ تعالیٰ کے حضور گزرتی تھیں۔ حکومت و اقتدار اور جاہ ومنصب ان کے پائوں کی ٹھوکروں کا گریہ وزاری کرتے رہتا تھا۔ زروسیم کی چمک ان کے ایمان کے سامنے ماند پڑگئی تھی۔ حسن وجمال کے جلوے ان کے لیے راہ حق کے کانٹے تھے۔ انھوں نے رضائے الٰہی اور جنت کے سوا کسی چیز کی تمنا نہیں کی تھی۔ جفاکشی ان کا آرام تھا، فی سبیل اللہ جدوجہد ان کا مستقبل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ان ہی صفات کی تصویرکشی ذیل کی آیت میں کی ہے۔
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ تَرٰىہُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَ رِضْوَانًا۰ۡسِيْمَاہُمْ فِيْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ۰ۭ ذٰلِكَ مَثَلُہُمْ فِي التَّوْرٰىۃِ۰ۚۖۛ وَمَثَلُہُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ۔ (الفتح:۲۹)
’’محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔ تم انہیں دیکھوگے رکوع وسجود کی حالت میں اور اللہ کے فضل اوراس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پائوگے۔ سجدوں کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔ یہ ہے ان کی صفت تورات وانجیل میں ان کی مثال یوں دی گئی ہے‘‘۔
(جاری)
مشمولہ: شمارہ جولائی 2014