سورۃ التوبہ کانزول مدنی زندگی کے آخری دور میں ہوا ۔ اس کی ان آیات سے قتال کا مقصود سا منے آتا ہے ۔
قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ (التوبہ ، آیت :۲۹)
’’(مسلمانو ں ) ان لوگوں سے جنگ کرو جن کا یہ حال ہے کہ نہ تو خدا پر ( سچا ) ایمان رکھتے ہیں ، نہ آخرت کے دن پر ،نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرا دیا ہے اور نہ سچے دین پر عمل پیرا ہیں ۔‘‘
اسی سورۃ میں دوسری جگہ فرمایا :
يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــُٔـوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَيَاْبَى اللہُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَ۳۲ ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۳۳ ( توبہ ، آیت نمبر : ۳۲،۳۳)
’’ یہ لوگ چاہتے ہیں اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھادیں ، حالانکہ اللہ یہ روشنی پوری کیے بغیر رہنے والا نہیں اگرچہ کا فروں کو پسند نہ آئے ۔ ( ہاں ) وہی ہے جس نے اپنے رسول کو حقیقی ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجاتا کہ اس دین کو تمام ( ٹھہرائے ہوئے ) دینوں پر غالب کردے اگرچہ مشرکوں کو ایسا ہونا پسند نہ آئے ۔‘‘
غزوۂ خیبر میں جب آپﷺنے حضرت علیؓ کو اسلام کا علم عطا کیا تو یہ ہدایت فرمائی :
نقا تلھم حتی یکونوا مثلنا فقال علی رسلک حتیٰ تنزل بسا حتھم ثم ادعھم الی الاسلام واخبر ھم بما یجب علیھم فواللہ ان یھدی بک رجلا واحد خیر لک من حمر النعم۔ (بخاری ) ’’ ہم ان سے اس لئے لڑتے ہیں کہ وہ ہماری طرح (مسلمان) ہوجائیں۔پس نرمی کے ساتھ جاؤ ۔جب ان کے میدان میں پہنچ جاؤ تو ان کو اسلام کی دعوت دو اور ان کو بتاؤ کہ ان پر اللہ کے کیا حقوق ہیں ۔ پس خدا کی قسم اگر تمہارے ذریعہ سے اللہ ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے تو یہ متاعِ گراں مایہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے ۔‘‘
حضرت سلیمان بن بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والدِماجد نے فرمایا جب رسول اللہ ﷺ کسی کو لشکر یا سریہّ کا امیر مقرر فرماتے تو خاص طور سے اسے اللہ کا تقویٰ اور اس کے ساتھی مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے وصیت فرماتے اور یہ کہتے کہ اللہ کے نام سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور جو اللہ کا انکار کرے اس سے لڑو۔ مگر خیانت نہ کرنا ، عہد شکنی نہ کرنا ، مُثلہ نہ کرنا اور بچوں کو قتل نہ کرنا ۔ (مسلم ) حضرت عصام مزّنی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺنے ایک سریّہ میں بھیجتے ہوئے فرمایا کہ جب تم مسجد دیکھو یا موّذن کی آواز سنو تو کسی ایک کو بھی قتل نہ کرنا۔ ( متفق علیہ )
آپﷺجنگ کے دوران مجاہدین ِاسلام کی اخلاقی و روحانی حالتوں کی نگرانی خود فرماتے ۔ ان کی بے اعتدالیوں پر گرفت کرتے ۔ انھیں نصیحت کرتے ۔ کسی غزوے میں ایک مقتول عورت پر نظر پڑی تو آپﷺ نے کسی صحابیؓ کو بھیج کر بچوں اور عورتوں کے قتل سے منع فرمادیا ۔ نھیٰ رسول اللّٰہ ﷺ عن قتل النساء والصبیان۔( متفق علیہ) اس طرح کی ایک تصریح ابوداؤد میں بھی ملتی ہے: لا تقتلن امراۃ ولا عسیفا عورت اور مزدور قتل نہ کئے جائیں۔ حضرت انس ؓ کی روایت سے بھی اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے : لا تقتلوا شیخا فانیاً وطفلا صغیرا ولا امراۃ۔(ا بوداؤد)بہت بوڑھے ، چھوٹے بچے اور عورت کو قتل نہ کرنا ۔ آپﷺنے دشمنوں کو آگ میں جلانے سے مطلق منع کردیا تھا۔ آپﷺ کا فرمان ہے کہ آگ کا عذاب تو صرف خدا ہی دے سکتا ہے : لا ینبغی ان یعذب بالنار الارب النار۔ ( ابو داؤد) ۔ اگر صحابہ لڑائی کے وقت زور سے تکبیر و تحلیل کے نعرے لگاتے تو آپ ﷺ اسے بھی سخت نا پسند کرتے ۔کسی غزوے میں آپﷺنے فرمایا کہ: اربعوا علیٰ انفسکم فانکم لا تدعون اصمولا غائباً انہ معکم۔اے لوگو! اپنی جانوں پر ترس کھاؤ کیوں کہ تم بہرے یا غائب کو نہیں پکارتے وہ تو تمہارے ساتھ ہے ۔ (بخاری) آپﷺنے یہ بھی کہا کہ دشمنوں کے مقابلہ کی آرزو نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو لیکن جب سامنا ہوجائے تو ثابت قدم رہو: لا تتمنو لقاء العد وواسأ لواللّٰہ العافیۃ فاذا لقیتم فاصبرو۔( متفق علیہ ) جنگ کے دوران جو دشمن گرفتار کرکے لائے جاتے ان کو تیروں کا نشانہ بنانے یا قتل کرنے سے منع فرمادیا اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی تاکید کی۔ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ جب آپ ﷺنے اسیران ِ بدر کو صحابہ ؓ کے حوالے کیا تو یہ تلقین کی کہ انھیں تکلیف نہ پہنچنے پائے ۔ ان کے کھانے پینے کا اہتمام کیا جائے ۔ غزوۂ حنین میں تقریباً چھ ہزار مشرکین گرفتار کیے گئے تھے لیکن آپﷺ نے ان سب کو چھ ہزار کپڑے کے جوڑے عنایت فرما کرآزاد کردیا ۔اسی طرح آپ ﷺنے کسی قاصد کو قتل کرنے سے منع فرمادیا تھا ۔ ایک غزوے میں آپ ﷺنے یہ بھی منادی کرادی تھی کہ جو دوسروں کو گھروں میں بلا وجہ تنگ کرے گا اور ان کا مال و اسباب لوٹے گا ان کا جہاد قبول نہیں ہوگا : من ضئق منزلہ وقطع طریقافلا جھادلہ۔(ابو داؤد) کسی نے آپ ﷺ سے یہ سوال کیا کہ ایک شخص خدا کی راہ میں اس لئے جہاد کرنا چاہتا ہے کہ اس کو کچھ دنیاوی فائدہ بھی حاصل ہوجائے ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو کچھ ثواب نہیں ملے گا ۔ یہ سوال لوگوں کے اصرار پر سائل نے تین بار پوچھا اور تینوں بار آپ ﷺنے یہی فرمایا کہ لا اجر لہ یعنی اس کو کچھ ثواب نہیں ملے گا ۔( ابوداؤد) آپ ﷺ اپنے حریفوں سے جو معاہدہ فرماتے اس پر سختی سے عمل کرتے اور صحابہ ؓ کو بھی اس پر سختی سے عمل کرنے کی تاکید فرماتے حدیث اور سیرت کی کتابوںمیں پابندی عہد کی کئی حیرت انگیز مثالیں محفوظ ہیں ۔ یہ حقائق آپ ﷺکے نظریۂ جنگ کو واضح کرتے ہیں ۔ اسلام کے ’’ قانونِ جنگ‘‘ کا تعین بھی کرتے ہیں ۔
عدل وانصاف:
مکہ مکرمہ کے برعکس مدینہ اور اطراف و اکناف ِ مدینہ میں اہلِ ایمان کے معاشرے کی تشکیل ہوچکی تھی لہٰذا مسائل و معاملات کا سر اٹھانا ناگزیر تھا ۔ یہی سبب محکمۂ قضا یا نظامِ عدالت کے قیام کا محرک ہے ۔ معاشرے میں جتنے بھی نزاعی معاملات پیدا ہوتے وہ سب نبی کریمﷺکے سامنے آتے اور آپﷺ ان کا فیصلہ قانونِ خدا وندی کے مطابق فرماتے ۔ جو سزا کے مستحق ہوتے انھیں سزا دیتے اور حدود جاری فرماتے ۔ اللہ تعالیٰ نے براہِ راست آپﷺکو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا ہے :
وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ (سورہ المائدہ ، آیت نمبر : ۴۹)( اے پیغمبر) آپ لوگوں( کے نزاعات و معاملات ) کا فیصلہ اللہ کی نازل کی ہوئی ہدایت اور اس کے قانون کے مطابق کیا کریں ۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا :
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰىكَ اللہُ ( النساء ، آیت نمبر: ۱۰۵) ہم نے آپ کی طرف کتاب حق ( کی ہدایت ) کے ساتھ نازل کی تاکہ آپ لوگوں کے باہمی معاملات کا فیصلہ کریں اللہ کی رہنمائی کے مطابق۔‘‘
آپﷺان ہی احکام کی روشنی میں ہر معاملہ کا جائزہ لیتے۔آپﷺکی عدالت گاہ کا دروازہ ہر شخص کے لئے ہمیشہ کھلا رہتا ۔ لوگ بلا روک ٹوک آپﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے معاملات و مقدمات پیش کیا کرتے ۔ عورتیں زنان خانے میں اپنے معامالات آپﷺکے سامنے رکھا کرتیں ۔ آپﷺمدعی اور مدعا الیہ کے بیانات کو سکون و اطمینا ن سے سن لینے کے بعد انتہائی سنجیدگی سے شریعت ِ مطہرہ کی روشنی میں فیصلہ صادر فرمایا کرتے ۔ا س سلسلے میں اپنے پرائے میں تمیز نہیں کرتے ۔ مشہور واقعہ ہے کہ قریش کے ایک معزز خاندان کی مخزومی خاتون فاطمہ بنت قیس چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی تو آپﷺنے اس کاہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ۔ اس سے معاشرے میں بے چینی پھیل گئی ۔ چند صحابہ نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو سفارش کے لئے آپﷺ کی خدمت میں بھیجا ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ سابقہ امتوں کی تباہی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جب کوئی معزز شخص جرم کرتا تو اس کو چھوڑ دیا جاتا لیکن کوئی غریب اور معمولی آدمی جرم کرتا تو اس کو سزا دی جاتی ۔ قسم خدا کی اگر فاطمہ بنت محمد بھی جرم کرتی تو میں اس کے ہاتھ کا ٹ دیتا ۔ (بخاری ) یہ واقعہ بھی آپﷺکے بے مثال عدل و انصاف کا مظہر ہے ۔ ایک مرتبہ آپﷺ لوگوں میں مال تقسیم فرمارہے تھے کہ ایک شخص اس کے حصول کے لئے آپﷺکے اوپر ٹوٹ پڑا ۔ اس گستاخی پر آپﷺ نے اسے اپنے ہاتھ کی چھڑی سے کونچ دیا جس کے باعث اس کا چہرہ زخمی ہوگیا ۔ آپﷺنے دیکھا تو فرمایا کہ آؤ مجھ سے قصاص لے لو ۔ اس نے کہا یا رسول اللہ میں نے صدق دل سے آپﷺ کو معاف کردیا ۔( ابو داؤد )
عمال کا تقرر :
فتح مکہ ( ۸ہجری ) کے بعد اسلام پورے عرب میں تیزی سے پھیل گیا ۔ اطراف و اکناف کے تمام قبائل نے نبی کریم ﷺ کی اطاعت قبول کرلی ۔ یمن ، صنعاء ، حضر موت ، نجران ، تیما ، عمان ، بحرین وغیرہ دائرہ ٔ توحید میں شامل ہوگئے ۔ اس وسعت کے پیش ِ نظر آپﷺ نے مختلف علاقوں میں اپنے حاکم،قاضی اور والی مقرر کئے۔ ا س کا بنیادی مقصد بھی انسداد شر ، قیام امن، اقامت ِعدل اور اشاعت ِاسلام تھاآپﷺعاملوں کا انتخاب خود فرماتے۔ اگر کوئی خود کو اس خدمت کے لئے پیش کرتا تو اس کی درخواست نا منظور فرمادیتے اور کہتے کہ خدا کی قسم جو لوگ خود خواہش کرتے ہیں اور اس کی طمّع رکھتے ہیں ، ہم ان کو عامل مقرر نہیں کرتے ۔( متفق علیہ)آپﷺ والی یا قاضی یا عامل مقرر کرتے وقت عہد حاضر کی اصطلاح میں پہلے انٹرویولیتے۔جب اس کی علمی اور اخلاقی صلاحیت سے مطمئن ہوجاتے تو اس کو نصیحت و وصیت کرکے روانہ فرماتے ۔چنانچہ حضرت معاذ بن جبلؓ کو قاضی و والی بنانے سے پیشتر آپﷺنے ان سے حسب ِذیل سوالات کیے:
عن معاذ بن جبل ان رسول اللّٰہﷺ لما بعثہ الی الیمن قال کیف تقضی اذا عرض لک قضا ؟ قال اقضی بکتاب اللّٰہ۔ قال فان لم تجد فی کتاب اللّٰہ ؟ قال فبسنۃ رسول اللّٰہﷺ ۔ قال فان لم تجد فی سنۃ رسول اللّٰہ ﷺ ؟ قال اجتھد برائی ولا آلو قال فضرب رسول اللّٰہﷺ علیٰ صدرہ و قال الحمد اللّٰہ الذی وفق رسول رسول اللّٰہﷺ لما یر ضیٰ بہ رسول اللّٰہ۔(ترمذی ، ابوداؤد ، دارمی) ’’حضرت معاذ بن جبل ؓسے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺنے ان کو قاضی بناکر یمن کی طرف روانہ کیا تو آپ ﷺنے ان سے دریافت کیا کہ جب تمہارے سامنے کوئی مقدمہ اور قضیہ پیش ہوگا تو تم اس کا فیصلہ کس طرح کروگے ، انھوں نے جواب دیا کہ میں اللہ کی کتاب (قرآن مجید کی ہدایت) کے مطابق فیصلہ کروں گا۔رسول اللہﷺنے فرمایا کہ اگر کتاب اللہ میں تمہیں (اس بارے میں کوئی حکم وہدایت ) نہ ملے ( تو کیا کروگے ) انھوں نے عرض کیا کہ پھر میں اللہ کے رسول ﷺکی سنت سے فیصلہ کروں گا ۔ آپ نے فرمایا اگر اللہ کے رسول اللہﷺکی سنت میں بھی تمہیں( اس بارے میں ) حکم اور ہدایت نہ ملے ( تو کیا کروگے ؟ ) انھوں نے عرض کیا تو پھر میں اپنی رائے اور قیاس سے کام لوں گا اور اجتہاد کروں گا اور صحیح نتیجہ تک پہنچنے کی کو شش میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھوں گا ۔ یہ جواب سن کر رسول اللہﷺنے ان کا سینہ ٹھونکتے ہوئے شاباشی دی اور فرمایا کہ حمد و شکر اس اللہ کے لئے جس نے اپنے رسول ﷺ کے فرستادہ کو اس بات کی توفیق دی جوا س کے رسول کو پسند ہے۔‘‘
اس کے بعد آپ ﷺنے ان کے فرائض متعین فرمائے اوررخصت کرتے وقت اہلِ یمن کو اسلام کی دعوت دینے کے متعلق ہدایت و نصیحت فرمائی ۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے جب معاذ بن جبل ؓ کو یمن کی طرف بھیجا تو رخصت کرتے وقت ان سے فرمایا :
انک ستاتی قوم من اھل الکتاب فاذا جئتھم فاد عھم الیٰ ان یشھد وا ان لا الٰہ الاللّٰہ وان محمد رسولاللّٰہ ، فان ھم اطاعوالک بذالک فاخبر ھم ان اللہ قد فرض علیکم خمس صلوٰت فی کل یوم ولیلۃ فان ھم اطاعوالک بذالک فاخبر ھم ان اللّٰہ قد فرض علیکم صدقۃ تؤخذ ومن اغنیا ئھم فترد علی فقرائھم فان ھم اطاعو ا لک بذالک فایاک و کرائم اموالھم واتق دعوۃ المظلوم فانہ لیس بینہ و بین اللّٰہ حجاب۔( بخاری و مسلم ) ’’تم وہاں اہل ِ کتاب میں سے ایک قوم کے پاس پہنچو گے، پس جب ان کے پاس جاؤ تو ( سب سے پہلے ) ان کو اس کی دعوت دینا کہ وہ شہادت دیں ( یعنی دل و زبان سے قبول کریں ) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمدﷺاللہ کے رسول ہیں ، پس اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں اور یہ شہادت ادا کردیں تو پھر تم ان کوبتلانا کہ اللہ نے دن رات میں تم پر پانچ نمازیںفرض کی ہیں۔پھر جب وہ اس میں بھی تمہاری اطاعت کریں تو اس کے بعد تم ان کو بتلانا کہ اللہ نے تم پر زکوٰۃ بھی فرض کی ہے جو قوم کے مالداروں سے لی جائے گی اور اسی کے فقرا ومساکین کو دے دی جائے گی۔ پھر اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو ( زکوۃ وصول کرتے وقت چھانٹ چھانٹ کے ) ان کے نفیس نفیس اموال نہ لینا اور مظلوم کی بددعا سے بہت بچنا کیوں کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے ۔ ‘‘
حضرت ابو موسیٰ ؓ نے فرمایا کہ جب رسول اللہﷺکسی صحابی ؓ کو کسی کام کے لئے بھجتے تو یہ فرماتے کہ خوش کرنا اور متنفر نہ کرنا ۔ آسانی پیدا کرنا اور مشکل میں مبتلا مت کردینا ۔ (متفق علیہ)
(جاری)
مشمولہ: شمارہ مارچ 2016