یہ بات مسلم ہے کہ کارخانہ قدرت کی کوئی چیز عبث نہیں ہے ، رب کائنات کی کوئی تخلیق بے مقصدا ور بے کار نہیں ہے ۔،یہاں ہر ایک وجود کسی مقصد کے تحت ہے ،زمین و آسمان، شمس وقمر، کواکب وسیارے ،ہوا، پانی آگ کسی کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا کہ ان کا وجود بے کار اور عبث ہے ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الألْبَابِ الَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللّہَ قِیَاماً وَقُعُوداً وَعَلَیَ جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلاً سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّار
(اٰل عمران : ۱۹۰-۱۹۱)
’’زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں ہوش مندوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں ۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور زمین اور آسمانوںکی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں ۔ (وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں ) پروردگار!یہ سب کچھ تونے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے ۔ تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے ۔‘‘
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَد(الحشر:۱۸)
’’اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے ۔‘‘
ایک مومن دنیوی زندگی میں اخروی کامیابی کے لیے جد و جہد کرتا ہے اور وہ اس کے لیے وہ منصوبہ بندی کرتا ہے جو اس کو منزل مقصود تک پہنچادے۔
انسانی زندگی میں مقصد ، ہدف ، لائحہ عمل اور نصب العین کی بڑی اہمیت ہے ۔ دنیا میں کسی کام کو بحسن خوبی پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے مقصد اور لائحہ عمل کا ہونا ضروری ہے ، مقصد واضح ہو، منزل متعین ہو ، لائحہ عمل تیار ہو تو انسانی زندگی کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے ۔ بامقصد آدمی محروم نہیں ہوتا، محروم وہ لوگ ہوتے ہیں جو مقصد سے محروم ہو ں ۔ دنیا میں کامیاب لوگوں کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ ان کے سامنے مقصد واضح تھا ، منزل متعین تھا ، راستے معلوم تھے ،جب کہ ناکام لوگوں کی ناکامی کا ایک بڑا سبب ان کی کتاب حیات میں کسی مقصد ، منزل اور ہدف کا نہ ہونا ہے ۔
انسانی تاریخ کا یہ بڑا المیہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت بلا مقصد زندگی گذارتی ہے ، قوم ہو یا افراد ، ادارے ہوں یا تنظیم ان کی اکثریت اپنا کوئی مقصد اور ہدف نہیں رکھتی ۔ قوم کے پاس کوئی مقصد نہیں ہوتا جس کے حصول کے لیے نوجوانوں کی توانائی کا صحیح استعمال کرسکے ، افراد کے پاس کوئی منزل نہیں جس تک پہنچنے کے لیے جد و جہد اور تگ ودو کریں ۔ ایک طالب علم کی زندگی میں کوئی واضح منزل نہیں جس تک پہنچنے کے لیے رات جاگ کر سفر کرے ۔
بے مقصدیت کے نقصانات
زندگی میں مقصد واضح نہ ہو ، منزل متعین نہ ہو، عمل کی راہیں غیر واضح ہوں اور راستے معلوم نہ ہوں ، نتائج کی پرواہ نہ ہو تو اس کے کئی نقصانات ہیں ۔
(۱)انسان کے پاس مقصد ہوتا ہے تو اس کی تکمیل کے لیے جد و جہد اور کوشش کرتا ہے اور کامیاب لوگوں کے زمرے میں شامل ہوجاتا ہے ۔ جب کہ مقصد اور ہدف نہ ہونے کی صورت میں محض تماشائی بنارہتا ہے۔ اس کی زندگی غیر ضروری ، پست اور لایعنی کاموں میں گز ر جاتی ہے ، اس کا دل محض خواہشا ت ، آرزؤں اور تمناؤں کی آماجگاہ بن جاتا ہے ، وہ خواہشات کے پیچھے اندھا دھند بھاگنے لگتا ہے، اور بسا اوقات انسانیت کے اعلی درجے سے حیوانیت کی سطح پر اتر آتا ہے، اور اللہ کی طرف سے ودیعت کی گئی اپنی فطری صلاحیت و استعداد کو پائے تکمیل تک پہنچا نےسے رہ جاتا ہے ۔
(۲) بے مقصد لوگوں کی زندگی معاشرے اور سماج کے سانچوں میں ڈھل جاتی ہے ۔ وہ معاشرے کی برائیوں اور خودساختہ ضابطوں اور رسم ورواج کو قبول کرنے لگتا ہے۔جبکہ یہ انسانی وقعت و عظمت اور بلندی کے منافی ہے ۔اللہ تعالی نے مطلق طور پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو معاشرے کی اتباع کرنے سے منع کر تے ہوئے فرمایا:وَإِن تُطِعْ أَکْثَرَ مَن فِیْ الأَرْضِ یُضِلُّوکَ عَن سَبِیْلِ اللّہِ (الانعام:۱۱۶)
’’اور اے نبی! اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے ۔‘‘
اور دوسری جگہ فرمایا :
وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَن ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہ وکَانَ أَمْرُہُ فُرُطا (الکہف:۲۸)
’’کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے ۔‘‘
اپنی صلاحیت کو پہچانیے
اللہ رب العالمین نے ہر انسان کے اندر کوئی نہ کوئی خاص خوبی ، صلاحیت و قابلیت اور استعداد رکھی ہے ، لیکن انسانیت کی اکثریت کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی ذاتی رجحان و میلان سے ناآشنا اور نا بلد ہوتی ہے ، اسے معلوم نہیں ہوتا کہ فطرت کی طرف سے وہ کون سی خاص صلاحیت و استعداد اسے ملی ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی زندگی کے کمال کو پہنچ سکے ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی دلچسپی اور رغبت کو دیکھے، جو چیز اس کی رغبت اور دلچسپی کی ہو ، جو فن اسے محبوب ہو وہی اس کی خاص صلاحیت و استعداد ہوگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے ’’کل یعمل لما خلق لہ او لما ییسر لہ ‘‘(صحیح بخاری :۶۵۹۶)اور مسلم میں ہے : ’’ہر شخص وہی کرتا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے یا جو اس کے لیے آسان کر دیا جاتا ہے ۔‘‘(صحیح مسلم :۶۷۳۳)اسی طرح وہ دیکھے کہ اس کی زندگی میں کیا زیادہ اہم اور ضروری ہے، جو زیادہ اہم اور ضروری ہو اسی کو اپنا مقصد قرار دے ، غیر اہم کاموں سے احتراز کرے۔
مقصد کیسا ہو
ایک انسان کو مقصد مقرر اور منزل متعین کرتے وقت درج ذیل باتوں کو ذہن نشین رکھنا چاہیے ۔
جس میں اللہ کی رضا ہو
ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے سفر حیات میں ایسے مقصد اور منزل کو اختیار کرے جس میں اللہ کی رضا ہو، جو اللہ کے نزدیک محبوب ہو، اور حصول مقصد کے لیے ایسے راستے پر چلے جو اس کو رضاء الٰہی کی طرف لے چلے اور ان راستوں سے احتراز کرے جن پر اللہ کا غضب ہو ۔
ارشاد باری تعالی ہے:
لاخَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّن نَّجْوَاہُمْ إِلاَّ مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَۃٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلاَحٍ بَیْنَ النَّاسِ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ ابْتَغَاء مَرْضَاتِ اللّہِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ أَجْراً عَظِیْما۔ (النساء:۱۱۴)
’’لوگو ں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر وبیش تر کوئی بھلائی نہیں ہوتی ۔ ہاں اگر کوئی پوشیدہ طور پر صدقہ و خیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لیے یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لیے کسی سے کچھ کہے تو یہ البتہ بھلی بات ہے ، اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کرے گا اسے ہم بڑا اجر عطا کریں گے ۔‘‘
سورئہ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے اس کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے والوں کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا :
الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَہَاجَرُواْ وَجَاہَدُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ أَعْظَمُ دَرَجَۃً عِندَ اللّہِ وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْفَائِزُون، یُبَشِّرُہُمْ رَبُّہُم بِرَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَّہُمْ فِیْہَا نَعِیْمٌ مُّقِیْم۔ (التوبہ:۲۰-۲۱)
’’اللہ کے ہاں توا نہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنھوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑ ا اور جان ومال سے جہاد کیا ، وہی کامیاب ہیں ، ان کا رب انہیں رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ان کے لیے پائیدار عیش کے سامان ہیں ۔ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے یقینا اللہ کے پاس خدمات کا صلہ دینے کو بہت کچھ ہے ۔ ‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد جیسے عظیم عمل میں رضاء الٰہی کو بنیادی حیثیت قرار دیا :
’’ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سوال کیا کہ ایک آدمی مال غنیمت کے لیے جہاد کرتا ہے ، ایک آدمی شہرت کے لیے جہاد کرتا ہے اور ایک آدمی اپنی قوت اور مرتبے کو دکھانے کے لیے جہاد کرتا ہے تو ان میں سے کون اللہ کی راہ میں ہوگا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: جس نے اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کیا وہی اللہ کی راہ میں جہاد ہے ۔ (صحیح بخاری : ۲۸۱)
آفاقیت
آرزوئیں ، تمنائیں اور مقاصد شخصیت کے آئینہ ہوتے ہیں ۔ شخصیت جتنی بلند ہوگی اس کے مقاصد اسی قدر بلندہوں گے ،اس کے اہداف اسی قدر عظیم ہوں گے ، مقاصد اور اہداف کو اعلیٰ سے اعلیٰ ہونا چاہیے ۔ منزل جتنی دور ہوتی ہے اسی کی نسبت سامان سفر مہیا کیا جاتا ہے ۔ امریکی صدر بننا ابراہم لنکن کے سفر حیات کی منزل تھی ، وہ زاد راہ لے کر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو گیا اور با لآخر کئی بار انتخابات ہارنے کے بعد ایک دن وہ صدارتی انتخاب میں اپنے حریف کو شکست دے کر امریکہ کا صدر بن گیا ۔
کوئی چیز جب مقصد حیات بن جاتی ہے تو پھر اسے حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ، چاہے وہ مقصد کتنا ہی بڑا اور کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو ۔ مقصد کے اعلیٰ ہونے کے ساتھ ضرور ی ہے کہ وہ عالمگیر ہو جس سے پوری انسانیت کی افادیت مقصود ہو اور آپ کی کتاب حیات کی تکمیل کے بعد بھی اس کے حصول کے لیے جد و جہد جاری ہے ۔ انتخاب مقصد اور تعین منزل کے بعد بڑا سوال یہ پیدا ہواتا ہے کہ اس کا حصو ل کیسے ممکن ہو ، منزل تک پہنچنے کے راستے کیا ہیں ؟ اس کے بغیر اس کی حیثیت محض حسرتوں ، آرزوؤں اور تمناؤں کی ہو گی ۔ کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے درج ذیل بنیادی وسائل کو زاد راہ کے طور پر اپنا نا ضروری ہے ۔
(۱) عزم مصمم
مقصد کے حصول اور منزل تک پہنچنے کے لیے صرف منزل مقرر کرنا اور ارادہ کرنا کافی نہیں ہے ، بلکہ اس کے لیے عزم مصمم ، قوت ارادی ، پامردی اور جوش و لولہ ضروری ہے جو راہ میں آڑے آنے والے مصائب و مشکلات ، پریشانیوں اور رکاوٹوں کو طالب اور مسافر کی نظر میں ہیچ کردے ۔ ماسوا منزل کے تمام چیزیں اس کی نظر میںبے وقعت معلوم ہو ں۔ منزل اور مقصد کو پانے کے لیے عزم کی مثال گاڑی کے ایندھن کی ہے، عزم مصمم حیات انسانی کی کامرانی کا ابتدا ئی پڑاؤ ہے ۔ درخشندہ اور مایہ ناز شخصیات کا نام روشن ہے ان کی کامیابی کے خاص رازوں میں سے ایک قوت ارادی اور عزم مصمم بھی ہے۔
عزم صمیم ہو تو نظر آئے کوہ کاہ
(۲)جد و جہد اور عمل
کسی بھی مقصد اور ہدف کو حاصل کرنے کے لیے جہد مسلسل ، محنت ، کدو کاوش ، سخت کوشی اولین شرط ہے ۔ اس کے بغیر نہ راستہ طے ہوسکتا ہے نہ منزل سر ہوسکتی ہے ۔ مس خام جہد مسلسل اور طویل جد و جہدکی بھٹی میں تپ کر کندن بنتا ہے ، اپنے من میں ڈوب جاپا کر سراغ زندگی ۔
بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا
جتنا بڑا مقصد ہوگا ، جتنی دور منزل ہوگی، جتنی لمبی مسافت ہوگی اس کے بقدر محنت کی بھٹی میں تپنا ضروری ہے ۔
منزل مقصود کے حصول کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذوق و شوق ، ایثار و قربانی ، جہد مسلسل ، محنت پیہم فقید المثال ہے ۔ آپﷺ کی محنت اور جدو جہد کی ترجمانی قرآن کریم ان الفاظ کے ساتھ کرتا ہے :
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ أَلَّا یَکُونُوا مُؤْمِنِیْنَ (الشعراء : ۳)
’’اے نبی !شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دوگے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے ۔‘‘
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلَی آثَارِہِمْ إِن لَّمْ یُؤْمِنُوا بِہَذَا الْحَدِیْثِ أَسَفا (الکہف:۶)
’’اچھا تو اے نبی !شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔‘‘
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخ زندگی کی انگبین
(۳)مستقل مزاجی
پانی اپنی لطافت کے باوجود مستقل گرنے سے سخت چٹان کے جگر میں دراڑ پیدا کر دیتا ہے ، گرد و غبار اڑکر کسی جگہ مستقل جمع ہوتو پہاڑ کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ غرض تسلسل اور استقلال سے بڑےسے بڑا کام وجود میں آسکتا ہے ۔ مستقل مزاجی اور تسلسل کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے بنیاد ہے ۔ مستقل مزاجی کے ذریعہ صحراء کو گلشن میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ، فضا ؤں پر قبضہ کیا جاسکتا ہے، عناصر کو مسخر کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کامیابی کی ماں ہے ۔ انسان کو حصول مقصد اور راہ منزل میں بڑی پریشانیا ں اور دشواریاں لاحق ہوسکتی ہیں ۔ راستے میں کبھی کانٹے ملیں گے ، کبھی سخت چٹان راہ روکے گی ، کبھی سمندروں کی لہروں کا سامنا ہوگا ، کبھی پہاڑ کی آڑ ہوگی اور کبھی بظاہر راستہ بند نظر آئے گا تمام صورتوں میں استقلال ، استقامت ، ثابت قدمی ، پامردی ضروری ہے تب جاکے منزل آپ کا پر تباک استقبال کرے گی ۔استقلال اور ثابت قدمی کی اسی اہمیت کے پیش نظر اللہ رب العالمین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو استقامت اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :
فَلِذَلِکَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَا أُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ أَہْوَاء ہُم۔ (الشوریٰ: ۱۵)
’’اے! محمد اب تم اسی دین کی طرف دعوت دو اور جس طرح تمھیں حکم دیا گیا ہے اسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جائو اور ان لوگو ں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو ۔ ‘‘
اور اہل استقامت کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا :
إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلَائِکَۃُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنتُمْ تُوعَدُون۔ ( حم السجدۃ : ۳۰)
’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو ، نہ غم کرو اور خوش ہوجائو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔ ‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دائمی اور تسلسل کے ساتھ کئے جانے والے عمل کو اللہ کے نزدیک اور ا پنے نزدیک سب سے محبوب عمل قرار دیا : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’ان احب الاعمال ادومھاالی اللہ وان قل ‘‘(صحیح بخاری : ۶۴۶۴) اللہ کے نزدیک اعمال میں سے سب سے محبوب ہمیشہ کیا جانے والا عمل ہے اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو ۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے محبوب عمل وہ تھا جس پر صاحب عمل مداومت برتے ‘‘۔(صحیح بخاری : ۶۴۶۲)
(۴) خود اعتمادی و یقین
مقصد کو حاصل کرنے ، ہدف کو پانے کا راز خود اعتمادی ، یقین اور self confidenceہے۔ خود اعتمادی اور یقین انسان کا بڑا سہارا ، ہے ۔ خود اعتمادی سے مسلح انسان مقصد کے حصول سے محروم نہیں ہوسکتا ۔ یہ شمع ہے جو اندھیر ے راستوں میں صحیح سمت کی طرف رہنمائی کرتی ہے ، یہ زندہ قوموں کی علامت ہے۔ کسی بھی کامیاب قوم وملت کی ترقی میں خود اعتمادی کی اہمیت ہمیشہ سے مسلم رہی ہے ، جب کہ زوال پذیر قوموں کے اسباب زوال میں سے ایک خود اعتمادی و یقین کا ختم ہونا اور احساس کمتری کا شکار ہونا ہے ۔
اللہ رب العالمین نے قرآ ن مجید میں فرمایا :
قُلْ ہَـذِہِ سَبِیْلِیْ أَدْعُو إِلَی اللّہِ عَلَی بَصِیْرَۃٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ وَسُبْحَانَ اللّہِ وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْن (یوسف : ۱۰۸)
’’تم ان سے صاف کہہ دوکہ میرا راستہ تو یہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہاہوں اور میرے ساتھی بھی اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں ۔‘‘
اہل اسلام دور اول میں اپنی قلت تعداد و وسائل کے باوجود کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ اہم وجہ اللہ کی نصرت و مدد کے ساتھ ان کے اندر اعتماد و یقین کا کوٹ کوٹ کر بھرا ہونا ہے ۔ لہٰذ ا مقصد کو حاصل کرنے اور ہدف کو پانے کے لیے اعتماد و یقین ضروری ہے ۔
(۵)صحیح سمت
ہدف کو پانے اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے صحیح سمت اور درست راہ اختیارکرنا ضروری ہے ۔ تاکہ وہ قدم بقدم منزل کے قریب تر ہوتا چلاجائے ورنہ عین ممکن ہے کہ غلط سمت اختیار کرنے کی وجہ سے منزل تک پہنچنے سے رہ جائے ۔ قرآن کریم میں منزل تک لے جانے والی راہ پر چلنے کی ہدایت کی گئی ہے اور غلط راہ اختیار کرنے کے انجام سے واقف کرایا گیا ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
وَأَنَّ ہَـذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوہُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَن سَبِیْلِہِ ذَلِکُمْ وَصَّاکُم بِہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ(۱۵۳)
’’نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کردیں گے ۔ یہ وہ ہدایت ہے جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم کجروی سے بچو ‘‘۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے ایک خط کھینچا اور فرمایا یہ اللہ کا راستہ ہے ۔پھر دائیں اور بائیں جانب خطوط کھینچے اور فرمایا یہ متفرق راستے ہیں ان میں سے ہرایک میں شیطان بیٹھا ہوا ہے اور وہ اس کی طرف دعوت دے رہاہے ۔پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ’’ان ھذا صراطی مستقیما ۔۔۔۔‘‘ (مسند احمد : ۴۱۴۲ ۔ قال شعیبؒ :اسنادہ حسن)
(۶) اللہ کی نصرت و مدد کی طلب
مذکورہ تمام شرائط کو بروئے کارلانے کے ساتھ اللہ رب العالمین کی نصرت و مدد اور اس کی توفیق طلب کرنا ضروری ہے ۔کیوں کہ رب ذو الجلال کی توفیق ، اس کی استعانت و مدد کے بغیر( تمام تر وسائل اور جد و جہد کے باوجود )مقصد کو پانا ، کامیابی سے ہمکنار ہونا اور منزل تک پہنچنا ناممکن ہے ۔ لہٰذا کثرت سے اللہ رب العالمین سے کامیابی کی دعا کرتے رہنا چاہیے ۔ خود ، سید الانبیاء والرسل ہر آن اللہ رب العالمین کی توفیق اور اس کی نصرت کے لیے دعا کرتے رہتے تھے ۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2018