دعوت دین ایک فریضہ ہے۔ اس فریضہ کو انجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس دین کی حقیقت، اس کے مزاج اور اس کی روح سے بہ خوبی واقف ہوں جس کی دعوت ہم دنیا کو دینا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ واقفیت کے بغیر دین کا صحیح تعارف ہم نہیں کرا سکتے۔ یہ وہ دین ہے جس کے ذریعے سے خود انسان کی اپنی قدر و قیمت کا تعین بھی ہوتا ہے اور اس قدر و قیمت کی محافظت بھی اسی دین کے ذریعے سے ممکن ہے۔ دعوت دین کا مفہوم و منشا یہ ہے کہ انسان کو صحیح معنی میں اپنی قدر و قیمت کا علم و احساس ہو جائے اور وہ جان لے کہ دین کی پیروی کا مفہوم اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ انسان اپنے آپ کو پہچان لے اور اس کے خالق نے اسے جو عظمت بخشی ہے اسے وہ ضائع نہ ہونے دے۔ اس دین کے اتباع میں انسان کی اپنی بھلائی اور اس کی خلاف ورزی میں اس کا اپنا ہی نقصان ہے۔
دین کی تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو اپنی فطرت کے مطابق زندگی بسر کرنی آجائے اور وہ اس طرز زندگی کو اختیار کرے جس کی تلاش و جستجو ہمیشہ انسان کو رہی ہے۔ جس کسی نے اسے اختیار کر لیا تھا بقا اور خوش تر حیات اس کی تقدیر بن گئی۔ اس کی زندگی نے فطری پاکیزگی اور اس کے وجود نے یہ استحقاق حاصل کر لیا کہ خدا کی دائمی نوازشات اس کے حصے میں آئیں۔ اور وہ حرف غلط کی طرح کبھی مٹایا نہ جا سکے۔ دین کی پیروی کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ آدمی تاریکیوں سے نکل کر روشنی میں آگیا۔ اب وہ سب کچھ اس کے لیے ہے جس کی طلب اور آرزو سے زندگی عبارت ہے۔ یعنی خوشیاں اور مسرتیں، قربِ خداوندی اور حیاتِ جاوداں!
دین کی طرف دعوت دینے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو ایسے فکر سے آشنا کیا جائے جس سے بلند کسی فکر کا ہم تصور نہیں کر سکتے اور انھیں اس چیز کا آرزومند بنایا جائے جس سے بڑھ کر کوئی شے انسان کے لیے مطلوب نہیں ہوسکتی۔ دین وہ طریق زندگی اور اسلوب حیات ہے جو نہایت پرکشش اور جاذب قلب و نگاہ ہے۔ جس کی طرف آدمی کھنچے تو کھنچتا چلا جائے۔ دین کا وقوف اس کے لیے ایک جمالیاتی احساس بن جائے جس سے صرف نظر کرنا اپنی فطرت کی اہانت ہے۔ اگر کوئی اس سے صرف نظر کرتا ہے تو حقیقت کی نگاہ میں ظالم اور مجرم ٹھہرے گا۔
دین خدا کی اطاعت بھی ہے اور خدا کے تصور اور اس کی یاد سے لذت گیر ہونا بھی۔ یہ دین علم بھی ہے اور عمل بھی۔ یہ دین بنی آدم کو اس کے مقام بلند سے آشنا کرتا اور اسے ہر قسم کی نکبتوں اور ہلاکتوں سے نجات دلاتا ہے۔ دین شناسی حقیقت میں خود شناسی سے مختلف کوئی چیز نہیں ہے، اسی لیے علامہ حمید الدین فراہی دین کو سیر باطن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس سے ان کی فکری گہرائی کا بہ خوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ دین بے حسی کا نام ہرگز نہیں ہے۔ نہ یہ خشک مزاجی سکھاتا ہے۔ دین نام ہے لطافت احساس کا۔ خدا کی حمد اور اس کی محبت دین کی اصل اساس ہے۔ خدا کی تحمید ہی ہماری اصل زندگی ہے۔ یہ حمد و ثنا خدا کی محبت سے لبریز ہوتی ہے۔ اس حمد و ثنا سے اس کا بھی پتہ چلتا ہے کہ بندہ خدا کا انتہائی شکر گزار ہے۔ خدا نے اس پر جو عنایات کی بارش کی ہے اس کا اسے پورا احساس ہے۔ اس نے ذرہ کو آفتاب کے درجہ تک پہنچایا اور اسے وہ کچھ عطا کیا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس نے انسان کے مستقبل کو اس کے حال سے زیادہ معتبر اور بہتر بنایا۔ اس نے موجودہ زندگی کو اس کے مستقبل سے وابستہ کیا۔ اور دونوں کے درمیان گہرا رشته قائم فرمایا کہ بندہ اپنے حال کے آئینہ میں اپنے شان دار اور وجد آفریں مستقبل کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو مومنوں کی زندگیوں میں ایمان کی قوت بن کر کارفرما ہوتی ہے۔ اور آدمی کو شک اور ریب اور بے یقینی کی زندگی سے نجات دلاتی ہے۔ اور بندہ زندگی ہی نہیں موت کے بھی راز سے واقف ہو جاتا ہے۔ وہ جان جاتا ہے کہ موت زندگی کے خاتمہ کا نام ہرگز نہیں بلکہ موت سے دوام حیات کی ابتدا ہوتی ہے۔
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی
یہ دین اخلاق بھی ہے اور کردار بھی ہے۔ لیکن اخلاق وہ جو اپنے اندر آفاقیت لیے ہوئے ہوتا ہے اور کردار وہ جس میں انسانوں ہی کو نہیں پوری کائنات کو مسخر کرنے کی قوت ہوتی ہے۔ یہاں بے دلی اور بے حوصلگی نہیں پائی جا سکتی۔ یہاں بے کیفی اور اداس شامیں نہیں ہوتیں۔ یہاں یقین ہوتا ہے، اعتماد ہوتا ہے۔ یہاں زندگی کی عمارت کی بنیاد خدا کے تقوی اور اس کی رضا پر رکھی گئی ہوتی ہے، جس سے بڑھ کر کسی مضبوط چٹان کا بھی تصور نہیں کر سکتے۔ یہاں یاس اور شکستگی نہیں۔ یہاں ایسا کوئی نقص اور عیب نہیں پایا جاتا جسے لوگوں کی نگاہوں سے چھپانے کی ضرورت پیش آئے۔ یہ وہ دین ہے پوری انسانیت کو جس کی ضرورت ہے۔ یہ انسان کی نفسیاتی اور روحانی ضرورت بھی ہے اور اس کی اخلاقی اور سماجی ضرورت بھی۔ یہ دین زندگی کے اُلجھے ہوئے حل طلب مسائل کا حل بھی ہے۔ اور انسانی روح کے طرب اور سکون و مسرت کا سامان بھی ہے۔ اسلام کے نام سے تو سبھی واقف ہیں لیکن اسلام کی معنویت اور اس کی قدر و قیمت سے لوگوں کو واقف کرانا امت مسلمہ کی منصبی ذمہ داری ہے۔ کاش، اس کی طرف توجہ دینے کی ہمیں توفیق ہو سکے۔n
(کلام نبوت، جلد ۵، ص۱۳-۱۵)
مشمولہ: شمارہ جولائی 2024