عام طور پر کام یاب زندگی کی جب بات ہوتی ہے تو ذہنوں میں یہ تصویر بنتی ہے کہ عالی شان بنگلہ ہو، شان دار سی گاڑی ہو، بڑا بینک بیلنس ہو، عمدہ لباس ہو، قیمتی موبائل ہو، اعلی تعلیم اور اونچا عہدہ ہو، وغیرہ۔
لیکن یہ کام یابی کا بہت ہی محدود اور ناقص تصور ہے۔جب تصور ناقص ہوتا ہے تو عمل کی بنیادیں بھی محدود اور ناقص ہوتی ہیں-
ایسی جزوی کام یابی کو حاصل کرنے کے لیے شخصیت کی تعمیر اور ارتقا کی ضرورت بھی بہت جزوی اور تھوڑی ہوتی ہے۔ جب کہ الله تعالی نے انسانی فطرت میں بیش بہا خزانے اور بے شمار امکانات رکھے ہیں جو اپنا ظہور چاہتے ہیں لیکن کام یابی کا جزوی تصور قائم کرلینے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ فطرت انسانی کے خزانے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
کام یابی کا یہ جزوی تصور انسان کے محض ظاہری وجود کو اپنا مخاطب بناتا ہے جب کہ انسان کا ظاہری وجود تو بے حد محدود ہوتا ہے اور اس کا باطن لامتناہی اور عظیم الشان ہوتا ہے اور اسی باطنی وجود میں انسانی ترقی اور شرف کے خزانے ودیعت کیے گئے ہیں۔کیسا ظلم ہوگا اگر انسان باہر کے چند خزف ریزوں کو جمع کرنے میں اپنی زندگی کھپا دے جب کہ خزانوں کی ایک پوری دنیا اس کے اندر آباد تھی۔کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہوگی اگر وہ زندگی بھر ان سے لاعلم ہی رہے۔
کام یابی تو انسان کے لیے وہی ہوسکتی ہے جو اس کے ظاہر و باطن دونوں کو اپنا مخاطب بنائے اور دونوں کو لائق تحسین بنانے کا انسان سے تقاضا کرے۔
دوسرا بڑا نقص اس جزوی تصور کا یہ ہے کہ یہ کام یابی انسانی فطرت سے میل نہیں کھاتی۔ انسانی فطرت ایسی کام یابی کی طالب ہے جو مکمل ہو جس میں کوئی موت نہ ہو، نہ کوئی پریشانی ہو اور نہ کوئی مشقت ہو، جو ہمیشہ ہمیش کے لیے ہو اور اس سے کبھی جدا ہونا مقدر میں نہ ہو۔
تیسرا بڑا نقص اس جزوی تصور کا یہ ہے کہ یہ تصور خلاف حقیقت ہے۔انسانوں کی زندگی کا عمومی مشاہدہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ دنیا امتحان اور عمل کی جگہ ہے۔ یہاں کوئی ایک حالت بھی مستقل نہیں رہتی اور نہ کوئی انسان بغیر مشقت اور مسائل کے رہ سکتا ہے۔ جو لوگ اس دنیا میں کام یابی اور ناکامی ڈھونڈتے ہیں وہ سخت دھوکے میں رہتے ہیں اور ایسی چیز کی تلاش میں رہتے ہیں جو اس دنیا میں میسر ہی نہیں ہے۔
انسان کی حقیقی خوشی اور اطمینان کا تعلق دراصل اس کے اندرون میں اس کی فطرت سے ہے۔جب انسان اپنے خالق حقیقی سے ربط بنالیتا ہے اور اس کے بتائے ہوئے راستے کو اپنالیتا ہے اور اسی کی رضا کو اپنی منزل قرار دے لیتا ہے تو اسے دریافت اور خوشی و اطمینان نصیب ہوتا ہے اور وہ اپنی غایت کو پالیتا ہے۔
تاریخ انسانی میں اگر عظمت انسانی کی کھوج لگائی جائے تو شاید ایک بھی شخصیت ایسی نہیں ملے گی جس کی عظمت صرف اس وجہ سے ہوکہ وہ اپنے زمانے میں بڑی مال دار شخصیت رہی ہو یا بڑی بارعب اور خوب صورت شخصیت رہی ہو یا اس کا خاندان اور حسب نسب بڑا اعلی رہا ہو۔ بلکہ یہ عظمت تو انھی کے حصے میں آئی جنھوں نے انسانوں کی سچی خیر خواہی کی اور ان میں بھی سب سے عظیم انسان انبیا علیہم السلام ہیں جنھوں نے انسانوں کا رشتہ اپنے مالک حقیقی سے استوار کیا اور اپنی اس عظیم الشان خدمت و خیرخواہی کا کوئی صلہ قبول نہ کیا۔اس بےغرضی و بے نفسی کا عظمت سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ انسانی عظمت و رفعت اس بات میں پوشیدہ ہے کہ خالق حقیقی کی رضا پیش نظر ہو جو انسانوں کی سچی خیرخواہی اور خدمت کا تقاضا کرتی ہے۔
انسان اطمینان اور خوشی کو جب اسبابِ دنیا میں تلاش کرتا ہے تو وہ گویا ریگستان کے اس مسافر کی طرح ہوجاتا ہے جو سراب کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے اور ہر سراب کا دھوکہ اس کی پیاس اور بڑھا دیتا ہے۔
اس جزوی کام یابی کے تصور کا چوتھا بڑا نقص یہ ہے کہ یہ صرف انفرادی منشا اور ذاتی فائدوں تک محدود ہے، جب کہ تاریخ انسانی کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ سارے عظیم مقاصد اجتماعی مقاصد اور اجتماعی جدوجہد کے متقاضی رہے ہیں۔ ایسی اینٹ جو دیوار کا حصہ نہ بن سکتی ہو چاہے کتنی ہی مضبوط ہو بہرحال کسی کام کی نہیں ہوسکتی۔ جن لوگوں کی ساری سرگزشت صرف اپنی ذاتی ضروریات تک ہی محدود رہی وہ کبھی عظیم انسان نہیں کہلائے۔اپنی موت کے ساتھ ہی وہ بھلا دیے گئے۔
انسانی خیرخواہی کا یہ عین تقاضا ہے کہ اجتماعی مقاصد کو انفرادی آرزوؤں پر فوقیت دی جائے۔انسانی خیر خواہی اور نافعیت کا دائرہ جتنا بڑا ہوتا ہے عظمت بھی اسی کے بقدر بڑی ہوتی ہے۔انبیائے کرام کا پیغام آفاقی اور تمام انسانوں کے لیے ہوتا تھا اسی لیے وہ عظمت انسانی کے گل سرسبد ہیں۔
حقیقی کام یابی تو وہی ہوسکتی ہے جو انسان کا رشتہ اپنے خالق حقیقی سے استوار کرے اپنے رب رحیم کی رضا کے راستے بتائے مخلوق کی خیر خواہی و خدمت کو اپنا شعار بنائے ، اجتماعی جدوجہد میں کارگر رول ادا کرے اور اپنی تخلیق کے ہر امکان کو ظہور بخشے۔
اسلامی تعلیمات کام یابی کا ایسا بھرپور اور اعلی تصور دیتی ہیں جو عین انسانی فطرت کے مطابق اور پوری انسانی شخصیت کو محیط ہوتا ہے جو انسانی شخصیت کو عظمت و بلندی عطا کرتا ہے، عظیم الشان کام یابی سے ہم کنار کرتا ہے اور جس کا دروازہ ہر انسان کے لیے کھلا ہے۔
صرف دنیا کے چاہنے والے کو دنیا اتنی ہی ملتی ہے جو اللهُ تعالی نے اس کے مقدر میں لکھ دی ہے۔
لیکن جو شخص الله تعالی کی رضا اور آخرت کا طالب ہوتا ہے اس کو دنیا میں بھی حسنات و طیبات ملتے ہیں، سکون و اطمینان اور خوشی کی دولت ہاتھ آتی ہے، عظمت و بلندی اس کا مقدر ہوتی ہے اور پھر آخرت کی عظیم الشان کام یابیاں اس کی منتظر ہوتی ہیں۔الله تعالی اس کی کھیتی میں مزید اضافہ فرماتے ہیں۔
مَنْ كَانَ یرِیدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِی حَرْثِهِ وَمَنْ كَانَ یرِیدُ حَرْثَ الدُّنْیا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِی الْآخِرَةِ مِنْ نَصِیبٍ.
اور جو آخرت کی کھیتی کا طالب ہوتا ہے ہم اس کی کھیتی میں افزونی دیتے ہیں۔ (اور دنیا میں سے بھی اس کا حصہ دیتے ہیں) او جو دنیا کی کھیتی کا طالب ہوتا ہے ہم اس کو اس میں سے کچھ دیتے ہیں اور آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہیں۔( الشورى: 20)
وَقِیلَ لِلَّذِینَ اتَّقَوْا مَاذَا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قَالُوا خَیرًا لِلَّذِینَ أَحْسَنُوا فِی هَذِهِ الدُّنْیا حَسَنَةٌ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَیرٌ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِینَ.
اور جو تقوی والے ہیں ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تمھارے رب نے کیا چیز اتاری ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ خوب چیز اتاری ہے۔ جن لوگوں نے بھلائی کی راہ اختیار کی ان کے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور دار آخرت تو اس سے کہیں بہتر ہے اور کیا ہی خوب ہے اہل تقوی کا گھر ! (النحل: 30)
قرآن مجید میں ایسی عظیم الشان کام یابی کے مناظر کثرت سے ملتے ہیں:
مگر اللہ کے چیدہ بندے (اس انجام بد سے) محفوظ ہوں گے۔ ان کے لیے جانا بوجھا رزق ہے۔ ہر طرح کی لذیذ چیزیں جن میں وہ عزت کے ساتھ رکھے جائیں گے۔اور نعمت بھری جنتیں۔ وہ تختوں پر آمنے سامنے بیٹھیں گے۔ شراب کے چشموں سے ساغر بھر بھر کر ان کے درمیان پھرائے جائیں گے۔چمکتی ہوئی شراب، جو پینے والوں کے لیے لذت ہوگی۔ نہ ان کے جسم کو اس سے کوئی ضرر ہوگا اور نہ ان کی عقل اس سے خراب ہوگی۔اور ان کے پاس نگاہیں بچانے والی، خوب صورت آنکھوں والی عورتیں ہوں گی۔ایسی نازک جیسے انڈے کے چھلکے کے نیچے چھپی ہوئی جھلی۔(الصافات-آیت نمبر 40 تا 49)
یہ ہمیشہ ہمیش کی کام یابی ہوگی۔
یقیناً یہی عظیم الشان کام یابی ہے۔ایسی ہی کام یابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔(الصافات60-61)
سچ فرمایا الله تعالی نے کہ عمل کرنے والوں کو ایسی ہی عظیم الشان کام یابی کے لیے عمل کرنا چاہیے۔
ایسی عظیم الشان کام یابی انسانی زندگی میں زبردست بدلاؤ اور تبدیلی چاہتی ہے۔ انسانی شخصیت کی ہمہ گیر تبدیلی جو انسانی زندگی کے ہر گوشے میں ہو اس کے ظاہر و باطن تمام کو بدلنے کا تقاضا کرتی ہے۔ انسان کی خواہشات، احساسات، خیالات، نظریات، رویے، ترجیحات، تعلقات، معاملات گویا ہر چیز میں پاکیزگی اور نکھار چاہتی ہے۔ ایسی ہی ہمہ گیر اور ہمہ جہت تبدیلی کے عمل کو قرآن مجید تزکیے سے تعبیر کرتا ہے۔
قرآن مجید بتاتا ہے کہ انسانی شخصیت میں اصل مرکز دل ہوتا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت کا جب قرآن مجید تعارف کرواتا ہے تو انسانوں کو ان کے دل کا تعارف کرواتا ہے۔
إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِیمٍ
جب وہ اپنے رب کے حضور قلب سلیم لے کر آیا۔(الصافات: 84)
نزول قرآن کا مقصد تزکیہ ہے۔ قرآن مجید کی ہر ہر آیت تزکیے کی دعوت دیتی ہے اور نزول قرآن کا محل قلب انسانی ہے۔
قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِمَا بَینَ یدَیهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِینَ
ان سے کہو جو کوئی جبرئیل سے عداوت رکھتا ہو، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جبرئیل نے اللہ ہی کے اذن سے یہ قرآن تمھارے قلب پر نازل کیا، جو پہلے آئی ہوئی کتابوں کی تصدیق و تائید کرتا ہے۔ اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور کام یابی کی بشارت بن کر آیا ہے۔(البقرة: 97)
قرآن مجید جس عظیم الشان اور ہمہ جہت تبدیلی کی دعوت دیتا ہے اس میں قلب انسانی کی پاکیزگی کو اولیت حاصل ہے۔ قرآن مجید سے استفادےکی اولین شرط قلب کی پاکیزگی کا اہتمام ہے۔
دل کا بدل جانا دراصل پوری انسانی شخصیت کا بدل جانا ہے۔
حضورنبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا
بے شک حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہات ہیں جنھیں اکثر لوگ نہیں جانتے پس جو شبہ میں ڈالنے والی چیز سے بچا اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ کرلیا اور جو شبہ ڈالنے والی چیزوں میں پڑگیا تو وہ حرام میں پڑگیا اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو کسی دوسرے کی چراگاہ کے ارد گرد چراتا ہے، تو قریب ہے کہ جانور اس چراگاہ میں سے بھی چر لیں خبردار رہو ہر بادشاہ کے لیے چراگاہ کی حد ہوتی ہے اور اللہ کی چراگاہ کی حد اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں آگاہ رہو جسم میں ایک لوتھڑا ہے جب وہ سنور گیا تو سارا بدن سنور گیا اور جب وہ بگڑ کیا تو سارا ہی بدن بگڑ کیا آگاہ رہو کہ وہ دل ہے۔ ( صحیح مسلم)
قلب انسانی کو انسانی شخصیت میں مرکزیت حاصل ہے اور یہی مرکزیت زبان کو بھی حاصل ہے کہ وہ قلب کی ترجمان اور اس کی نمائندہ ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا
جب ابن آدم صبح کرتا ہے تو سارے اعضاء چشم زبان کے سامنے عاجزی کرتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ ہمارے حق میں اللہ سے ڈر کیوں کہ ہمارا تعلق تجھ ہی سے ہے اگر تو سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگی تو ہم بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے۔ (ترمذی)
الله تعالی نے کام یابی کے بیج انسانی فطرت کے اندرون میں رکھے ہیں۔ فطرت جتنی نکھرے گی فطرت انسانی کے پوشیدہ قیمتی خزانے اسی کے بقدر دریافت ہوں گے۔ انسان کو الله تعالی نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تو اپنی فطرت کے خزانوں سے اپنی شخصیت کو سجالے یا پھر اپنے گناہوں کی گندگیوں میں انھیں دفن کردے۔
جس طرح صاف و شفاف پانی میں آسمان کا عکس صاف نظر آتا ہے اسی طرح صاف و شفاف فطرت انسانی ملکوتی صفات سے زیادہ قریب تر ہوتی ہے۔ صاف و شفاف آئینہ فطرت پر انسانی جواہر اپنی تمام تر رعنائیوں اور حسن بلاخیز کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ اصل حسن دراصل یہی حسن ہوتا ہے۔
قرآن مجید کا نظام تزکیہ انسانی شخصیت کو اس کی تمام جہتوں میں انتہائی حسین بناتا ہے اور عظمت و بلندی سے سرفراز کرتا ہے۔ یہاں تک کہ انسان مقام محمود کے اعلی مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ خالق و مخلوق دونوں کا محبوب بن جاتا ہے۔ ایسا حسن اور ایسی عظمت قرآن مجید کے سوا کہیں اور سے حاصل نہیں کی جاسکتی۔
الله تعالی نے انسانوں کے امتحان کے لیے انھیں الگ الگ حالات میں رکھا ہے۔ الگ الگ حالات اور منفرد صلاحیتیں انسانوں سے منفرد کردار کا تقاضا کرتی ہیں۔
قرآن مجید میں تفصیل سے یوسف علیہ السلام کی سرگزشت بیان کی گئی ہے۔اس سرگزشت کے اہم حصے میں یوسف علیہ السلام قحط کے سنگین بحران سے اپنے ملک کو نکالنے کی تدبیر و انتظام کرتے نظر آتے ہیں۔
داود اور سلیمان علیھما السلام کی سرگزشت میں تعمیر ارضی اور تمدن انسانی کی پیش رفت میں ان انبیائے کرام کا سرگرم اور مرکزی رول ابھرا ہوا ہے۔
حضرت ذوالقرنین عدل و انصاف کا قیام کے لیے انتھک اور بےغرضانہ اقدامات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
موسی و ہارون علیھما السلام استبداد اور غلامی سے جھوجھ رہی اس وقت کی امت مسلمہ میں اپنے منصب کا شعور جگاتے نظر آتے ہیں وہیں وقت کے سب سے بڑے آمر و ظالم حکمراں اور اس کے تمام اعیان سلطنت کو حق و عدل کی دعوت دیتے اور ظلم و ناانصافی کے خلاف بے خوف آواز بلند کرتے نظر آتے ہیں۔
لوط علیہ السلام اپنی قوم کی بدکاری اور کھلی بے حیائی کے خلاف جدوجہد کرتے اور اس پر بند باندھتے نظر آتے ہیں۔
ابراہیم علیہ السلام توحید خالص کی عالمی سطح پر عظیم الشان کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک عظیم الشان منصوبے کے ساتھ دنیا کے نقشے پر ایک شہر کی تعمیر کا صرف خواب ہی نہیں دکھاتے بلکہ اس کی بنیاد رکھتے ہوئے اور اس کی پالیسی سازی کرتے ہیں اور عالمی امت کی تعمیر کا خواب اور اس کے لیے دعا فرماتے ہیں-
آخری رسول حضرت محمدﷺ عالمی انقلابی امت کی تعمیر فرماتے ہیں۔دنیا کی پہلی ایسی ریاست کو قائم فرماتے ہیں جو مخلتف مذہبوں اور تہذیبی گروہوں کے وفاق سے قائم کی جاتی ہے اور رہتی دنیا تک عدل و انصاف کے قیام کی بنیادوں کو واضح فرمادیتے ہیں۔ آپ اتنے متنوع اور کام یاب ترین کرداروں میں نظر آتے ہیں کہ وہ صرف آپ ہی کا امتیاز ہے۔ وہ بلندی جس تک کوئی دوسرا نہیں پہنچ سکتا۔عظیم و بہترین حکمراں، سپہ سالار، مدبر و منتظم، داعی ومصلح، رہ نما، منصف و مربّی، کام یاب ترین شوہر، شفیق ترین باپ، غرض رسول اکرم ﷺ کی عظمت کا ہر پہلو انتہائی روشن اور تابناک ہے۔
الله تعالی کے برگزیدہ بندے ہر زمانے میں الله تعالی کی اس کائنات میں اس کی مرضی پوری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
قرآن مجید کا ہر حکم الله تعالٰی کی عین مرضی کے مطابق ہوتا ہے اور الله تعالٰی کی مرضی و کو جاننے اور دنیا میں جاری سنن الاہیہ کو سمجھنے کا مصدقہ ذریعہ بھی ہوتا ہے۔
الله تعالی کی جہاں یہ مرضی ہے کہ تمام انسانوں کو ہدایت پہنچے، اسی کی عبادت ہو، اسی کی حاکمیت ہو، وہیں الله تعالی کی مرضی یہ بھی ہے کہ عدل و قسط قائم ہو، زمین کی تعمیر و تزئین کی جائے، دولت کی عادلانہ تقسیم ہو اور دولت کے بہاؤ کا رخ امیروں سے غریبوں سے جانب ہو تاکہ زندگی کی بنیادی ضروریات ہر انسان کو میسر آئیں، انسانوں کو صحت مند زندگی ملے، مریضوں کو شفا ملے، انسانی تمدن ترقی کرے، کائنات کے خزانے دریافت ہوں۔
ان بڑے مقاصد کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک الله تعالٰی کی عبادت سے متعلق اور دوسرے خلافت انسانی سے متعلق. اسی طرح الله تعالی کی مرضیات انسان کے انفرادی دائرے سے بھی متعلق ہیں اور اجتماعی دائرے سے بھی متعلق ہیں۔ان مقاصد کے حصول میں ذیلی مقاصد بھی ہوسکتے ہیں جیسے اولاد کی بہترین تربیت، خاندان کے ادارے کی مضبوطی، زوجین کے خوشگوار تعلقات، ماں باپ کی عزت و احترام، رشتوں اور ناطوں کا پاس و لحاظ، انسانی آبادی میں امن و امان، انسانی سماج میں عفت و پاکدامنی وغیرہ۔
تزکیہ نفس کی ایک عظیم اور انقلابی جہت یہ ہے کہ الله تعالٰی کے مقاصد و مرضیات کو زمین پر پورا کرنے میں ایک مومن اپنے آپ کو جھونک دے۔ ایسے بندے الله تعالی خصوصی لطف و کرم کے حق دار ہوتے ہیں۔
انفرادی اور اجتماعی تزکیے کا یہ ہدف قرار پاتا ہے کہ اہل ایمان اپنے اندر وہ صلاحیتیں، صفات اور کردار پیدا کریں کہ وہ تہذیب و تمدن کی گاڑی کو الله تعالی کی مرضیات کی طرف موڑ سکیں، چاہے وہ نظریات و تحقیق کا میدان ہو یا سیاست و اقتدار کا، تمام تر انفرادی و اجتماعی جد و جہد کو اللہ تعالی کی مرضیات کا پابند بنائیں۔ اپنے ہر رول میں الله تعالی کی مرضیات کو پورا کرنے میں اپنی جانوں کو جھونک دیں۔
صلاحیتوں اور فطرت انسانی کے خزانوں کی دریافت میں جہاں قلب کی صفائی کی ضرورت ہے وہیں الله تعالی کی مرضیات پوری کرنے میں جان توڑ محنت کی بھی ضرورت ہے کہ عظیم تر مقاصد کے لیے جاں گسل اجتماعی کوششوں ہی کے بعد فطرت انسانی اپنے خزانوں کے دہانے کھولتی ہے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2023