رمضان کی روح

اپنی شخصيت کی تعمير کريں

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ سوال یہ ہے کہ آنے والے رمضان کو ہم کس طرح اپنی زندگی کا ایک مختلف اور یادگار رمضان بنا سکتے ہیں جو ہماری زندگی کے لیے ایک مثبت موڑ ثابت ہو۔ اس مضمون میں ہم وقت کے اس اہم موضوع پر گفتگو کریں گے۔

دنیا کے بدلتے حالات اور پیچیدہ مسائل کے درمیان، رمضان کی منصوبہ بندی ایسی ہو جس کے نتیجے میں ہم روحانیت کے میدان میں ترقی کرسکیں، صبر، قوتِ برداشت میں پختہ تر ہوں اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت ہمیں حاصل ہو۔ لیکن اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہر سال ہم رمضان گزاردیتے ہیں مگر ہماری شخصیت میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آتی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم رمضان کی آمد سے پہلے منصوبہ بندی (planning) نہیں کرتے۔

رمضان کی منصوبہ بندی پر گفتگو کرنے سے پہلے ہم وقت کے دو اہم مسئلوں پر روشنی ڈالیں گے جو ہماری نئی نسل کو درپیش ہیں۔

پہلا مسئلہ:  شخصی آزادی کا خاتمہ

آج کی دنیا، خاص طور پر نوجوان نسل، ڈیجیٹل دنیا کے جال میں بری طرح الجھ چکی ہے۔ یہ مسئلہ صرف چند افراد کا نہیں بلکہ پوری نسل کا ہے، اور اس کے اثرات ہر گھر میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ آزادی، جو انسان کا بنیادی حق اور اللہ کی طرف سے عطا کردہ نعمت ہے، آج کے دور میں ختم ہوتی جا رہی ہے۔

انسانی آزادی، چاہے وہ سوچنے کی ہو، سمجھنے کی ہو، یا فیصلہ لینے کی، مذہب کو اختیار کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ہو، سب مجروح ہو رہی ہے۔ گیجٹوں اور ڈیجیٹل پلیٹ فارموں نے ہمیں اس قدر جکڑ لیا ہے کہ ہم اپنی زندگی کے اہم فیصلے بھی آزادانہ طور پر نہیں کر پاتے۔

ڈیجیٹل دنیا میں بڑھتی مصروفیات نے نوجوانوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر متاثر کیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ:

ذہنی امراض:  ذہنی دباؤ، بے چینی اور ڈپریشن عام ہو چکے ہیں۔

خاندانی مسائل: نوجوانوں کی زندگی میں پیدا ہونے والے یہ مسائل والدین کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ خاص طور پر ماؤں اور باپوں کے لیے بچوں کو سمجھنا اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنا مشکل ہو رہا ہے۔

ذاتی معلومات کی غیر محفوظ حالت: ہم میں سے ہر ایک کی زندگی کی تفصیلات گوگل، فیس بک، اور دیگر پلیٹ فارموں پر موجود ہیں۔ گوگل اور دیگر کمپنیوں کے پاس ایک انسان کے تقریباً 5000 ڈیٹا پوائنٹ موجود ہیں، جن کے ذریعے وہ ہماری دل چسپیوں، عادتوں، اور ضروریات کا اندازہ لگاتے ہیں۔

ہماری آزادی اس حد تک متاثر ہو چکی ہے کہ ہم اپنی مرضی سے کوئی چیز منتخب کرنے کے قابل نہیں رہے۔ ہم جو کپڑے خریدتے ہیں، جو دوائیں استعمال کرتے ہیں، حتیٰ کہ جو معلومات پڑھتے ہیں، سب کچھ ڈیجیٹل دنیا کے پروپیگنڈا / پرامپٹ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ پلیٹ فارم ہماری عادوںت اور رجحانات کا پیشگی اندازہ کر کے ہمیں وہی دکھاتے ہیں، جو ہمیں ان کا محتاج بنائے رکھے۔ ہمارے فیصلے، چاہے وہ خریداری کے ہوں، علاج کے ہوں یا کسی اور موضوع کے، آزادی کے بجائے مارکیٹنگ اور اشتہارات کے زیرِ اثر ہوتے ہیں۔

یہ ایک سنگین مسئلہ ہے، جس سے نمٹنے کے لیے ہمیں نہ صرف اپنی ذات بلکہ اپنے خاندان اور معاشرے کو بھی متحرک کرنا ہوگا۔ آزادی کا یہ نقصان ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کو دوبارہ کنٹرول میں لینا چاہیے۔ نوجوانوں کی رہ نمائی کے لیے ہمارے اور ان کے درمیان پائے جانے والی دوریوں کو ختم کرنا ہوگا اور ہمیں ان کے قریب آنا ہوگا۔ ہمیں اپنی عادات پر غور کرنا ہوگا اور ان ڈیجیٹل زنجیروں کو توڑنے کی کوشش کرنی ہوگی جو ہماری زندگی کو قید کیے ہوئے ہیں۔

دوسرا مسئلہ:  گیجٹ کی لت

آج کے دور میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل گیجٹ اور ڈیجیٹل دنیا میں اس قدر مشغول ہو چکی ہے کہ اس کا مستقبل غیر یقینی نظر آ رہا ہے۔ ان کی تعلیم، مذہب، والدین اور حتیٰ کہ خود اپنے مستقبل سے بھی دل چسپی کم ہوتی جا رہی ہے۔ رات کے دو تین بجے تک موبائل فون پر ریل (Reel) دیکھنے کی عادت نے ان کی توجہ کے دورانیے (attention span) کو نہایت کم کر دیا ہے۔ اس کو ہم توجہ کا بحران کہہ سکتے ہیں اور یہ نئی نسل کے ذہنی مسائل میں سے ایک تشویش ناک مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ صرف ایک اخلاقی یا سماجی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک ذہنی اور حیاتیاتی مسئلہ ہے۔ اس کی بعض خرابیاں حسب ذیل ہیں:

ریل کی عادت:  ایک منٹ کی ویڈیو دیکھنے کا بچوں کا دماغ اس قدر عادی ہو چکا ہے کہ وہ کسی بھی سنجیدہ بات یا موضوع پر زیادہ دیر توجہ مرکوز نہیں کر سکتے۔

کتابوں اور نصیحتوں سے دوری:  بچوں کے لیے اب کسی کتاب کو پڑھنا یا کسی تقریر کو سننا ایک مشکل کام بن چکا ہے۔ وہ جمعہ کے خطبے جیسی سنجیدہ باتوں میں دل چسپی نہیں لے پاتے، کیوں کہ ان کی عادت صرف مختصر اور سطحی مواد پر مرکوز ہو چکی ہے۔

ذہنی استحکام کا فقدان:  یہ عادت ان کی شخصیت کو غیر مستحکم بنا رہی ہے۔ وہ نہ سنجیدگی اختیار کر پا رہے ہیں اور نہ ہی اپنے اندر کے امکانات (potential) کو مکمل طور پر پہچان پا رہے ہیں۔

رمضان:  خود کو دوبارہ دریافت کرنے کا موقع

رمضان المبارک کا مہینہ اپنے جلو میں بے شمار مواقع لے آتا ہے اور ہر وہ شخص جو رمضان کی شعوری منصوبہ بندی کرے وہ اس سے خوب استفادہ کرتے ہوئے اپنی شخصیت کی باز یافت کر سکتا ہے۔ رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے جو ہمیں نظم و ضبط اور خود احتسابی سکھاتا ہے اور اپنی شخصیت کو بہتر بنانے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ بالخصوص نئی نسل کے لیے یہ ایک زریں موقع ہوتا ہے کہ وہ حالات کے دباؤ اور گیجٹ کی اختیاری غلامی سے آزادی پا سکے اور اپنی ذات کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے سکے۔ ریل کی لت اور ڈیجیٹل دنیا میں شخصی آزادی کی جکڑ بندی کے الگورتھم سے نجات پانے میں رمضان نئی نسل کی مدد کرسکتا ہے۔ انھیں آزادی کی بلند فضا میں پرواز کرنے کے لیے والدین کو بھی اپنے پر بچھانے ہوں گے۔

ان حوالوں سے دیکھا جائے تو رمضان سے بہت زیادہ فیض اٹھایا جاسکتا ہے:

توجہ مرکوز کرنے کی تربیت:  رمضان کا روزہ ہمیں اپنی خواہشات اور جذبات پر قابو پانے کا درس دیتا ہے۔ یہ موقع ہے کہ ہم اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی میں ارتکاز (focus) پیدا کرنے کی کوشش کریں۔

ریل کی عادت پر قابو:  والدین کو چاہیے کہ رمضان کے دوران بچوں کو ڈیجیٹل ڈسپلن سکھائیں۔ ان کے اسکرین ٹائم کو محدود کریں اور انھیں قرآن، اسلامی کتب اور عبادات میں مشغول کریں۔

شناخت کی بازیابی:  رمضان ہمیں اپنی اصل شناخت (identity) کو دوبارہ دریافت کرنے کا موقع دیتا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ ان کی حقیقی پہچان ان کی عبادات، اخلاق اور مثبت کردار میں ہے، نہ کہ اس میں جو سوشل میڈیا پر نظر آتا ہے۔

نئی نسل آپ سے مدد کی خاموش طلب گار ہے:

  1. روحانیت کا فروغ: بچوں کو قرآن کی تلاوت، نماز اور ذکر و اذکار کی طرف راغب کریں تاکہ ان کی روحانی بنیاد مضبوط ہو۔
  2. مطالعے کی عادت: انھیں رمضان کے دوران ایسی اسلامی کتب پڑھنے کی ترغیب دیں جو ان کی شخصیت کو سنوارنے والی ہوں۔
  3. گفتگو کا وقت: روزانہ بچوں کے ساتھ رمضان کے فضائل اور حکمت پر بات کریں تاکہ وہ اس مہینے کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔
  4. ڈیجیٹل ڈسپلن: ریل اور گیجٹ کی عادت کو کم کرنے کے لیے رمضان کو بطور محرک استعمال کریں۔
  5. نئے اہداف: بچوں کو رمضان کے دوران نئے اہداف مقرر کرنے پر آمادہ کریں، جیسے کہ عبادات کا اہتمام، والدین کی مدد، یا کسی تعلیمی یا سماجی کام میں حصہ لینا۔

یہ سچ ہے کہ ڈیجیٹل دنیا نے ہماری زندگیوں پر گہرا اثر ڈالا ہے، لیکن رمضان کا مہینہ ہمیں ان چیلنجوں سے نمٹنے کا ایک نیا زاویہ فراہم کرتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں خود شناسی (self-discovery) اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کا موقع دیتا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو رمضان کی تربیت کے ذریعے ذہنی استحکام (stability)، نظم و ضبط (discipline) اور روحانیت (spirituality) کی طرف لے جانا ہوگا تاکہ وہ اپنی حقیقی پہچان اور زندگی کا مقصد سمجھ سکیں۔

روحانی وجود کی بازیافت:  رمضان کا پیغام

آج ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں مادیت (materialism) ہماری زندگیوں پر حاوی ہو چکی ہے اور ہم اپنی روحانیت (spirituality) کو بھلاتے جارہے ہیں۔ ہم انسان ہونے کے بجائے مشین بن گئے ہیں۔ ہماری زندگی، ہمارے خیالات اور ہمارے جذبات سب مشینی ہوچکے ہیں۔ ہمارا وجود محض ایک نمبر بن کر رہ گیا ہے۔ یہ صورت حال اس سوال کو جنم دیتی ہے:  ہم اپنی انسانیت اور روحانی وجود کو کیسے دریافت کریں؟

اللہ تعالیٰ نے ہمیں محض جسمانی وجود نہیں، بلکہ روحانی وجود کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ ہمارا جسم فانی ہے، 50 یا 70 سال بعد یہ ختم ہو جائے گا، لیکن ہماری روح (soul) ہمیشہ باقی رہے گی، قیامت کے بعد بھی۔

بدقسمتی سے، ہم اپنی اور اپنے بچوں کی روحانیت پر توجہ نہیں دیتے۔ ہماری ساری توجہ ان کی جسمانی ضروریات پر ہوتی ہے۔ اچھے کپڑے، اچھے جوتے، اچھا کھانا اور اچھا لائف اسٹائل۔ لیکن ان کی روحانی تربیت، اخلاقی مضبوطی اور اللہ سے تعلق کو بہتر بنانے پر ہم غور نہیں کرتے۔ ہمارا حقیقی مقصد تو یہ ہونا چاہیے کہ جب ہم اللہ کے پاس جائیں، تو ایک راضی برضا روح لے کر جائیں۔ ہم پر یہ واضح ہو کہ رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جو ہمیں اپنی روحانیت کو دوبارہ دریافت کرنے کا موقع دیتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں ہماری اندرونی دنیا (internal existence) اور روحانی وجود (spiritual existence) پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ رمضان کا مقصد صرف روزہ رکھنا اور بھوک برداشت کرنا نہیں، بلکہ اپنی روح کو تقویت دینا اور اللہ کے قریب ہونا ہے۔

رمضان اور زندگی کی تعمیر:  چار اہم پہلو

رمضان المبارک ہمیں اپنی زندگی کو سنوارنے اور بہتر بنانے کے لیے چار اہم پہلوؤں پر کام کرنے کا موقع دیتا ہے۔ ان پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے ہمیں اپنی ذات اور اپنے گھروں میں تبدیلی لانے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

روحانیت:  رمضان کا سب سے اہم پہلو

رمضان المبارک کا سب سے بنیادی پیغام روحانیت ہے، جو انسان کے اصل وجود کا مرکز ہے۔ روحانیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے اندر موجود روح، یعنی اللہ تعالیٰ سے عطا کردہ نورانی جوہر کو پہچانے اور اسے مضبوط کرے۔ اگر انسان کا جسم صحت مند ہو لیکن اس کی روح بیمار ہو، تو وہ حقیقی کام یابی حاصل نہیں کر سکتا۔ ہماری روح تب ہی طاقتور ہوتی ہے جب ہمارا اللہ سے تعلق مضبوط ہو۔ خدا سے تعلق ہی وہ ذریعہ ہے جو ہماری روح کو زندگی بخشتا ہے اور رمضان کا مہینہ وہ بہترین موقع ہے جس میں یہ تعلق مزید مضبوط کیا جا سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے روزے کی فرضیت کے حوالے سے قرآن میں ارشاد فرمایا:  كُتِبَ عَلَیكُمُ الصِّیامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِینَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ(تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کیے گئے، تاکہ تم متقی بن جاؤ)۔ یہاں تقویٰ کا مطلب روحانیت کی وہ کیفیت ہے جو انسان کو مادی اور روحانی خطرات سے محفوظ رکھتی ہے اور آخرت میں کام یابی کی ضمانت بنتی ہے۔ تقویٰ شعور، بیداری اور محتاط طرز زندگی کا نام ہے، جس کے ذریعے انسان اپنے اعمال اور ان کے اثرات پر نظر رکھتا ہے۔

تقویٰ کو بعض مترجمین نے mindfulness سے تعبیر کیا ہے، یعنی اپنی زندگی میں حاضر دماغ اور محتاط رہنا، اپنے انجام پر نگاہ رکھنا اور مادی و روحانی نقصانات سے خود کو بچانا۔ جیسے بڑے الیکٹریک ٹرانسفارمر کے پاس بورڈ پر ’’Beware – High Voltage‘‘ لکھا ہوتا ہے، اسی طرح متقی شخص زندگی کے ہر قدم پر چوکنا رہتا ہے۔

حاضر دماغی کا مطلب ہے کہ انسان اپنے ذہن اور ضمیر کو اس طرح دیکھے جیسے وہ اسے اپنی ہتھیلی پر رکھ کر غور کر رہا ہو۔ یہ جانچ کرے کہ اس کے خیالات اور جذبات کیا ہیں اور وہ کس سمت جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی غلط جذبہ یا خیال جنم لے، تو اسے پہچانے اور اس پر قابو پانے کی شعوری کوشش کرے۔ یہ وہ کیفیت ہے جو رمضان میں روزے کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔

رمضان میں بھوک اور پیاس کی شدت کے باوجود کھانے اور پانی سے خود کو روکنا حاضر دماغی کی عملی مثال ہے۔ کھانے کی خواہش دماغ کے حصے میں محسوس ہو رہی ہوتی ہے، کھانا اور پانی سامنے موجود ہوتے ہیں، لیکن انسان شعور کے ساتھ اپنے جذبات پر قابو پاتا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ یہ خدا کا حکم ہے۔ یہ تقویٰ کی اعلیٰ شکل ہے، جہاں انسان اپنی خواہشات کو خدا کی رضا کے تابع کر دیتا ہے۔

حاضر دماغی دراصل تقویٰ کی بنیاد ہے، جہاں انسان ہر وقت اپنے اعمال اور خیالات پر نظر رکھتا ہے۔ حاضر دماغی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ غصے، مایوسی، یا کسی غلط عمل کے دوران شعوری طور پر رکیں اور سوچیں کہ یہ رویہ ہمیں خدا سے دور لے جائے گا۔

رمضان ہمیں یہ عادت بھی پیدا کرنے کا موقع دیتا ہے کہ ہم صرف خدا کی رضا کے لیے اپنی زندگی میں شعوری فیصلے کریں۔

رمضان کے بعد بھی اس حاضر دماغی کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر رمضان کے بعد ہم غصے میں جلدی آ جاتے ہیں، غلط کام کر بیٹھتے ہیں یا دوسروں کے ساتھ جھگڑتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے رمضان کے تقویٰ اور حاضر دماغی کو برقرار نہیں رکھا۔ خدا سے تعلق کا سب سے بڑا اثر یہ ہونا چاہیے کہ ہم بندوں کے ساتھ محبت اور خیرخواہی سے پیش آئیں۔ اگر خدا سے لو لگانے کے باوجود بندوں کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہیں، تو یہ روحانیت کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔

رمضان کا مہینہ روحانیت کو پروان چڑھانے اور اللہ سے محبت کا گہرا تعلق قائم کرنے کا بہترین وقت ہے۔ اس مہینے میں ہم فجر سے کچھ پہلے اٹھتے ہیں، تہجد پڑھتے ہیں، کثرت سے نوافل ادا کرتے ہیں اور جب بھی وقت ملے ذکرِ الٰہی کرتے ہیں۔ اللہ کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے کوئی حد نہیں اور جتنی زیادہ نمازیں، جتنی زیادہ قرآن کی تلاوت اور جتنی زیادہ گداز دل کے ساتھ عبادات کریں گے، اتنی ہی آپ کی روحانیت میں اضافہ ہوگا۔ اس مہینے کو اختلافات اور بحث و مباحثے کا مہینہ نہ بنائیں اور اگر کوئی آپ کو الجھانے کی کوشش کرے تو نرمی سے پہلو بچالیں۔ امت کے اندر ہمیشہ وسعت رکھنی چاہیے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا شیوہ تھا۔ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق عبادت کرے اور اللہ سے لو لگائے، کیوں کہ اصل مقصد محبتِ الٰہی ہے اور نماز اس محبت کو ظاہر کرنے کا ایک طریقہ ہے۔

خدا سے ہم کلام ہونے کی سعادت تلاوت قران سے ہوتی ہے جس میں ایک طرف خالق کائنات آپ سے ہم کلام ہے تو دوسری طرف آپ ہمہ تن گوش اس کی بات کو سن رہے ہوتے ہیں اور سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ قران سے حقیقی معنوں میں وہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو سمجھ رہے ہوں کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ قرآن کی تلاوت ایسے انداز میں کرنا کہ محسوس ہو جیسے یہ آپ پر نازل ہو رہا ہے ہم کلامی کی اصل کلید ہے۔ اللہ کی باتوں کو ایسے پڑھیں جیسے وہ آپ کو ذاتی طور پر مخاطب کر رہا ہو، آپ کو دنیا کے مسائل حل کرنے اور انسانیت کی اصلاح کا حکم دے رہا ہو۔ قرآن کا ترجمہ پڑھنا اس شعور کو بڑھا دیتا ہے کہ اللہ آپ سے کیا چاہتا ہے۔ یہی وہ روحانیت ہے جہاں آپ خدا کو پہچانتے ہیں اور اس کے پیغام کو سمجھتے ہیں۔

روحانیت کو بڑھانے کا ایک اور ذریعہ دعا ہے۔ دعا کرنا نہ صرف اللہ سے قربت کا ذریعہ ہے بلکہ اپنے دل کی گہرائیوں کو اللہ کے سامنے پیش کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ دعا کیسے کی جاتی ہے؟ یہ جاننا رمضان کا اہم حصہ ہونا چاہیے۔ قرآن اور حدیث کی دعاؤں کو یاد کریں اور ان کا کثرت سے استعمال کریں۔ دعاؤں کی کتابیں ڈاؤن لوڈ کریں، مطالعہ کریں اور انھیں اپنی زندگی کا حصہ بنائیں تاکہ آپ کی نمازوں میں گہرائی آئے اور آپ تہجد اور دیگر عبادات کو مزید معنی خیز بنا سکیں۔

رمضان کو عبادت، تعلیم اور سماجی اصلاح کے لیے استعمال کریں، نہ کہ شاپنگ اور غیر ضروری کاموں میں ضائع کریں۔ رمضان شاپنگ یا بازاروں کی رونق کا مہینہ نہیں بلکہ روحانیت کے فروغ کا مہینہ ہے۔ ضروری سامان رمضان سے پہلے خریدیں اور وقت کو عبادات، ذکر اور سماجی بھلائی کے لیے وقف کریں۔ دن کے اوقات کو کام، مسجد، گھر اور سماجی اصلاح کے میدان میں تقسیم کریں۔ عید کی حقیقی خوشی یہ ہے کہ رمضان میں آپ نے اپنی روحانیت کو بڑھا لیا، نہ کہ نئے کپڑے اور کام و دہن کی لذتیں۔

رمضان:  ذہنی صحت کی بحالی کا موقع

آج کے دور میں ذہنی صحت ایک عام مگر پیچیدہ مسئلہ بن چکی ہے، جس کا شکار ہر دوسرا انسان ہے۔ کوئی غصے پر قابو نہیں پا سکتا، تو کوئی مایوسی یا ڈپریشن میں مبتلا ہے۔ کچھ لوگ تنہائی پسند ہو گئے ہیں، جب کہ کچھ اپنے اندر ایک خلا محسوس کرتے ہیں، جیسے زندگی میں سب کچھ ہونے کے باوجود کوئی کمی ہو۔ یہ احساس کہ ’’کچھ کھویا ہوا ہے‘‘ ذہنی مسائل کی ابتدا ہے۔ اس میں اسٹریس، انگزائٹی اور عبادت میں دل نہ لگنے جیسے مسائل بھی شامل ہیں۔ رمضان ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ان مسائل کا سامنا شعوری طور پر کیسے کیا جائے اور انھیں حل کرنے کے لیے مضبوط بنیاد کیسے رکھی جائے۔

رمضان ہمیں سکھاتا ہے کہ بھوک، پیاس اور دیگر خواہشات پر قابو کیسے پایا جائے۔ یہ مہینہ صبر اور برداشت کا بہترین عملی تربیتی موقع ہے، جہاں ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ دباؤ یا یا چھوٹے چھوٹے اشتعال پر کیسے قابو پائیں۔ جب ہم بھوک اور پیاس کے باوجود روزے کو قائم رکھتے ہیں، نیند کے باوجود رات کی عبادات میں کھڑے ہوتے ہیں اور اپنی خواہشات پر قابو پاتے ہیں، تو یہ سب ذہنی سکون پانے اور خود پر قابو رکھنے کی مشق ہے، جو ایک صحت مند زندگی کی بنیاد رکھتی ہے۔

ذہنی مسائل کا ایک بڑا سبب دوسروں سے اپنا موازنہ کرنا ہے۔ جب ہم یہ سوچنے لگتے ہیں کہ دوسروں کے پاس کیا ہے اور ہمارے پاس کیا نہیں، تو ہم اپنی زندگی سے مطمئن نہیں رہ پاتے۔ یہ عادت بے سکونی اور ذہنی دباؤ کا باعث بنتی ہے۔ انسان کو اپنی بساط اور حالات کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے، نہ کہ دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے۔ شادیوں میں بڑے تحائف دینا، مہنگے کپڑے پہننا یا اپنی حیثیت سے زیادہ دکھاوا کرنا ہماری اصل شخصیت کو چھپا دیتا ہے اور ہمیں ذہنی طور پر بوجھل کر دیتا ہے۔ ہماری اصل پہچان ہمارے کردار، سماجی خدمت اور دین داری سے ہونی چاہیے، نہ کہ گاڑی، زیور یا لباس سے۔

رمضان کا مہینہ ہمیں دنیاوی دکھاوے اور غیر ضروری فکروں سے آزادی کا درس دیتا ہے۔ اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ دنیا کو خوش کرنا ممکن نہیں اور لوگوں کی رائے کی فکر چھوڑ دیں، تو ہم ذہنی سکون حاصل کر سکتے ہیں۔ رمضان ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنے اندر یہ شعور پیدا کریں کہ ہماری اصل پہچان ہمارے اعمال اور کردار میں ہے، نہ کہ ظاہری چیزوں میں۔ یہی ذہنی سکون کا راز ہے اور رمضان اس سکون کو پانے کا بہترین وقت ہے۔

رمضان ہمیں سکھاتا ہے کہ ذہنی سکون اور صحت کے لیے شکر گزاری سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ جب ہم اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو پہچانتے ہیں اور ان کے لیے شکر ادا کرتے ہیں، تو یہ رویہ ہمیں دنیاوی بے چینی، مایوسی اور ڈپریشن سے نکالنے میں مدد دیتا ہے۔ قرآن بھی رمضان کو شکر گزاری کا ذریعہ قرار دیتا ہے:  وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (اور تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اور شکر گزار بنو)۔ رمضان میں جب ہم بھوکے رہنے کے بعد کھانے کی نعمت کو محسوس کرتے ہیں، تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اللہ نے ہمیں سال کے باقی دنوں میں کس قدر نعمتوں سے نوازا ہے۔ شکر گزاری ہمیں اپنی زندگی میں میسر نعمتوں کو دیکھنے کی عادت ڈالتی ہے اور ہم دوسروں سے موازنہ کرنے کے بجائے اپنی نعمتوں پر قناعت کرتے ہیں۔

شکر گزاری کے نفسیاتی فوائد پر ماہرین نفسیات بھی متفق ہیں۔ جدید دور میں gratitude therapy ایک مؤثر علاج کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے، جس میں مریضوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی مثبت چیزوں پر توجہ مرکوز کریں۔ ڈپریشن کے شکار افراد اکثر اپنی زندگی میں کمیوں اور ناکامیوں پر زیادہ سوچتے ہیں، جب کہ شکر گزاری کا رویہ انھیں اپنی مثبت چیزوں کو دیکھنے کی طرف راغب کرتا ہے۔ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ روزانہ شکر گزاری کے اظہار سے دماغ میں مثبت تبدیلی آتی ہے، ذہنی سکون میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان زیادہ خوش اور مطمئن زندگی گزارنے کے قابل ہوتا ہے۔ شکر گزاری نہ صرف ڈپریشن کم کرتی ہے بلکہ انسان کو اللہ کے قریب بھی لاتی ہے اور یہی رمضان کا مقصد ہے کہ انسان اپنی نعمتوں کو پہچانے اور ان کے لیے شکر گزار بنے۔

صحت مند رویے:  رمضان کا عملی سبق

ماہِ رمضان نہ صرف روحانیت اور ذہنی سکون کا مہینہ ہے بلکہ صحت مند رویوں اور عادتوں کو اپنانے کا بہترین موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی ایک مثالی نمونہ ہے۔ آپ کا سونا، جاگنا، کھانا اور روزمرہ کے معمولات مکمل توازن اور صحت مند طرزِ زندگی کا عکاس تھے۔ رمضان ہمیں ان عادتوں کو اپنانے اور اپنی زندگی میں شامل کرنے کا موقع دیتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ تہجد کے لیے جلدی اٹھتے تھے۔ رمضان بھی ہمیں جلدی اٹھنے کی تربیت دیتا ہے۔ آپ عشاء کے بعد جلد سونے کو پسند کرتے تھے اور رمضان کی تراویح کے بعد نیند کا یہی معمول ہمیں اپنانا چاہیے۔ آپ نے کھانے کے معاملے میں بھی اعتدال کو سکھایا۔ کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھاتے، بلکہ ایک تہائی کھانے، ایک تہائی پانی اور ایک تہائی خالی رکھنے کی نصیحت فرمائی۔ رمضان میں دن بھر روزہ رکھ کر شام کے وقت افطار کا موقع آتا ہے، جو ہمیں سادہ اور متوازن غذا لینے کی عادت سکھاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، بعض لوگ افطار میں دن بھر کی کمی پوری کرنے کے لیے حد سے زیادہ کھا لیتے ہیں، جس سے روزے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ رمضان کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے کھانے کی عادتوں پر قابو پائیں اور ایک صحت مند طرزِ زندگی اپنائیں۔

رمضان ہمیں رات میں جاگنے اور دن میں سونے جیسی غیر صحت مند عادتوں کو چھوڑنے کا سبق دیتا ہے۔ اس مہینے میں ایک ایسا معمول بنائیں جو رمضان کے بعد بھی برقرار رکھا جا سکے۔ تہجد کے لیے وقت پر اٹھیں، سحری کریں اور پھر روزمرہ کے کاموں کو انجام دیں۔ یہ مہینہ ہمیں وقت کی قدر کرنا، سادہ غذا لینا اور متوازن زندگی گزارنا سکھاتا ہے۔

جدید سائنس بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ انسانی جسم کی جسمانی گھڑی (circadian cycle) قدرتی طور پر رات کے 11 بجے سے صبح 4 بجے تک خاص طور پر فعال ہوتی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب انسانی جسم صحت کے لیے اہم ہارمون اور کیمیکل جاری کرتا ہے، جن میں میلاٹونن(melatonin) اور دیگر ہارمون شامل ہیں جو جسم کی مرمت، ذہنی سکون اور مدافعتی نظام کی بہتری کے لیے ضروری ہیں۔

رمضان میں تراویح اور تہجد کے اوقات پر عمل کرکے ہم اس قدرتی گھڑی کو متوازن کر سکتے ہیں اور اپنی زندگی میں صحت مند تبدیلی لا سکتے ہیں۔

رمضان کے بعد ان عادتوں کو برقرار رکھنا ہماری صحت اور طرزِ زندگی میں دیرپا خوشگواری لاسکتا ہے۔ رمضان کا یہ پیغام ہے کہ ہم اپنی زندگی کو متوازن اور صحت مند بنائیں اور سرکاڈین سائیکل کے مطابق اپنے روزمرہ کے معمولات کو ترتیب دیں۔ یہ نہ صرف ہمارے جسم کو بیماریوں سے محفوظ رکھے گا بلکہ ہماری روحانی ترقی کا ذریعہ بھی بنے گا۔

رمضان:  انسانیت کا درس

رمضان المبارک ہمیں صرف عبادات اور روحانی ترقی کا موقع ہی نہیں دیتا بلکہ انسانیت نوازی اور خدمت خلق کا عملی درس بھی دیتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنے دلوں میں دوسروں کے لیے محبت، ہمدردی اور خیرخواہی پیدا کریں۔ رمضان میں ہم صدقہ و خیرات کرتے ہیں، غریبوں کے لیے افطار اور سحری کا انتظام کرتے ہیں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔ یہ سب اعمال ہمیں انسانوں کے دکھ درد کو محسوس کرنے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کی طرف مائل کرتے ہیں۔

قرآن نے ہمیں بہترین امت کا خطاب دیا: كُنْتُمْ خَیرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (تم بہترین امت ہو، جو لوگوں کے فائدے کے لیے نکالی گئی ہے) اور یہ خطاب تب ہی ہمارے لیے موزوں ہے جب ہم تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کی فکر کریں، نہ کہ صرف اپنی قوم یا ملت کے لیے۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی اس بات کی بہترین مثال ہے کہ آپ ہمیشہ ضرورت مندوں، غریبوں اور مظلوموں کی مدد کرتے تھے۔ بی بی خدیجہؓ نے بھی آپ کے بارے میں کہا کہ آپ غریبوں کا خیال رکھتے ہیں اور ناداروں کی مدد کرتے ہیں۔ یہی وہ صفت ہے جو ہمیں بھی اپنانا چاہیے۔

رمضان کا اصل پیغام یہ ہے کہ ہمارے دل انسانیت کے لیے دھڑکیں۔ ہم انسانوں کے مسائل کو اپنی فکر کا مرکز بنائیں، ان کے لیے دوڑ دھوپ کریں اور ان کی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ اگر رمضان کے بعد ہمارے اندر یہ تبدیلی نہ آئے، تو ہمارے روزے اور عبادات کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ انسانیت کی خدمت اور انسانوں کی بھلائی کے لیے خود کو وقف کرنا ہی رمضان کا سب سے بڑا درس ہے اور یہی ہمیں حقیقی معنوں میں ’’خیر امت‘‘ بناتا ہے۔

مشمولہ: شمارہ مارچ 2025

مزید

حالیہ شمارے

فروری 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223