انفاق کے معنیٰ ہیں مال خرچ کرنا۔اسلام کا تصور یہ ہے کہ مال اللہ تعالی کا ہے ۔ قرآن کریم میں کثرت سے آیات آئی ہیں ،جن میں بار بار اہلِ ایمان کو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے پر ابھارا گیا ہے؛
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ ۔(البقرۃ:۲۵۴)
(اے لوگو، جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہو !اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تم کو دیاہے۔)
وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِيْنَ فِيْہِ(الحدید:۷)
( اور اس میں سے خرچ کرو جس پر ہم نے تم کو خلیفہ بنایا ہے۔)
’خلیفہ بنانے‘ کا مطلب یہ ہے کہ مال کا اصل مالک اللہ تعالی ہے۔ اسے خرچ کرنے کے لیے اس نے تم کو اپناجانشین بنایا ہے ۔ جانشین اور نائب کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ اصل مالک جس طرح کہے گا اسی طرح اس کو خرچ کرنا ہے۔ہم کسی کو خادم رکھیں ،پھراسے کچھ مال دیںاور کہیں کہ جاکر اس کو فلاں فلاں جگہ خرچ کردو ، فلاں سامان لے آئو، فلاں کو دے آئو،توخادم کویہ حق نہیں ہوتاہے کہ اپنے طور پر اس میں کچھ تصرف کرے ،بلکہ مالک جو ہدایت کرے گا اگر وہ اسی کے مطابق خرچ کرے گا تو اچھا خادم سمجھا جائے گا اور اگر اس کے مطابق خرچ نہیں کرے تو اس کو خیانت کرنے والا سمجھاجائے گا۔
’انفاق‘ کا لفظ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں آیا ہے۔صرف ایک آیت میں ہے کہ جو تم نے کمایا ہے اس میں سے اچھا مال خرچ کرو۔(اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ۔البقرۃ:۲۶۷) دوسری آیات میں کہا گیا ہے کہ جو ہم نے تم کو دیاہے اس میں سے خرچ کرو۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام مال کو کیا حیثیت دیتاہے؟اور آدمی کو اس پر کس حد تک تصرف کا حق دیتاہے؟
مال سے ہر شخص کو فطری طور پر محبت ہوتی ہے۔وہ چوں کہ اسے محنت سے کماتاہے اس لیے اس پر اپنا تسلّط قائم رکھنا چاہتاہے۔ مال سے محبت اسلام میں معیوب نہیں ہے۔ غربت کا شکار ہونا اور فقر و فاقہ میں مبتلا رہناا اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے۔ کچھ احادیث اور روایت ایسی ملتی ہیں جن سے لگتاہے کہ اسلام میں مال داروں کو ناپسند کیاگیاہے اور غریبوں کے بارے میں تعریف و توصیف کے الفاظ آئے ہیں۔اس طرح كے ارشادات كا منشا ان بُرے اوصاف سے انسانوں كو بچانا هے جن میں عموماً مال دار مبتلا هوجاتے هیں، مثلاً’تكبر‘وغیره۔اس کا مطلب بهر حال یہ نہیں ہے کہ غربت ، مطلقاً پسندیدہ ہے، بلکہ اسلام میں خود كفیل هونے كی غرض سے مال کمانے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس نے جو کچھ کمایا ہے اس پر اس کا تصرف باقی رہے اور اس کی مرضی چلے۔اس بات کو مانتے ہوئے اللہ کی راہ میں انفاق پر ابھارنے کے لیے قرآن مجید میں بڑی لطیف تعبیر اختیار کی گئی ہے:
من ذاالذی یقرض اللہ قرضاً حسنا۔(البقرۃ:۲۴۵)
( کون ہے جواللہ تعالیٰ کو قرض دے اچھا قرض۔)
قرض کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ آدمی کسی سے قرض مانگتاہے تو یہ سمجھتے ہوئے مانگتا ہے کہ وہ مال اسی شخص کا ہے جس سے وہ قرض مانگ رہا ہے ۔قرآن میں کثرت سے ایسی آیتیں ہیں جن میں’ قرض‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔انسان کو مال و دولت سے اللہ تعالی نے نوازا ہے اور خود وہی انسانوں سے قرض مانگ رہاہے ۔ کتنی لطیف ہے یہ تعبیر!!
صحابۂ کرام کا شوقِ انفاق
ہمارے لیے غور کرنے کی بات یہ ہے کہ قرآن کریم کی یہ آیات جب صحابہ کرام ؓ کے سامنے نازل ہوئیں اور انھوں نے ان کو سنا تو ان کا کیا رد عمل ہوا؟ان کے اوپر کیسی کیفیات طاری ہوئیں؟ان آیات کو سن کراور پڑھ کر انھوں نے عملاََ کیا کیا؟اس سلسلے میں کثرت سے صحابہ کرامؓ کے واقعات کتابوں میں ملتے ہیں۔ذیل میں چند واقعات پیش کیے جائیں گے:
قرآن کریم کی یہ آیت جب نازل ہوئی: مَن ذَا الَّذِی یُقرِضُ اللّٰہَ قَرضاً حَسَناً۔ (البقرۃ:۲۴۵)’’ کون ہے جو اللہ کی راہ میں قرض دے ؟‘‘ایک صحابی، جن کا نام ابو دحداح تھا، اللہ کے رسولﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ’’ اے اللہ کے رسولﷺ! اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگ رہاہے!اسی نے ہم کو مال سے نوازا ہے اوروہی ہم سے قرض مانگ رہاہے!تو ہمارا فلاں باغ ہے وہ میں اللہ کی راہ میں صدقہ کرتاہوں۔‘‘راوی بیان کرتے ہیں کہ ان کا کھجور کےچھ سو(۶۰۰)درختوں کا ایک باغ تھا، وہ پورا کا پورا انہوں نے اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔روایت میں اور بھی تفصیل آئی ہے۔صدقہ کرنے کے بعد جب وہ گھر گئے ، جواسی باغ میں تھا اور اس میں ان کے بیوی بچے رہتے تھے، تو وہ گھر میں داخل نہیں ہوئے ،باہر ہی سے زور زور سے کہنے لگے : اے ام دحداح!گھر سے باہر نکل آئو۔میں نے یہ باغ اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کردیاہے۔اس سے باہر نکل کر آئو۔ اب اس میں ہم کو رہنے کا حق نہیں ہے۔‘‘ (مجمع الزوائد، ہیثمی، ۹؍۳۲۷)
قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی :لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۔(آل عمران:۹۲)
(ہرگز تم کو نیکی نہیں مل سکتی جب تک کہ تم (اللہ کی راہ میں) وہ کچھ نہ خرچ کرو جو تم کو محبوب ہو۔)
قرآن کریم کی اس تعبیر پر غور کرنا چاہیے۔’لن ‘عربی زبان میں کسی چیز کا شدّت کے ساتھ انکار کرنے کے لیے آتا ہے۔ اس آیت میں کہا گیا ہے کہ ہرگز نیکی نہیں مل سکتی اگر اللہ تعالی کی راہ میں وہ چیز نہ خرچ کی جائے جوآدمی کو سب سے زیادہ محبوب ہو۔ یہ آیت سن کرایک صحابی، جن کا نام ابو طلحہؓ تھا،اٹھے۔انہوں نے اپنے اموال کا جائزہ لیا۔انہوں نے پایا کہ ان کا فلاں باغ بہت زیادہ مالیت کا ہے ۔ سیرت کی کتابوں میں اس باغ کا نام ’بیرحاء ‘مذکور ہے۔ مسجدِ نبوی کے قریب وہ بہت بڑا باغ تھا۔حضرت ابو طلحہؓ اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا :’’اے اللہ کے رسولﷺ! اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جب تک تم اپنا اچھے سے اچھا مال صدقہ نہیں کرو گے تب تک تم کو نیکی نہیں ملے گی۔یہ میرا مال ہے،باغِ ’بیرحاء‘۔میںاس کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتاہوں۔‘‘اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ایسا کرو کہ اس کو تم اپنے رشتے داروں میں تقسیم کردو۔‘‘انہوں نے پورے باغ کو اپنے رشتے داروں میں تقسیم کردیا۔راوی کہتے ہیں کہ اس کا ایک چھوٹا سا حصہ حضرت حسانؓ کے حصے میں آیاتھا۔ بعد میں اس کو حضرت معاویہؓ نے چھ لاکھ درہم میں خریدا تھا۔(صحیح بخاری، ۱۴۶۱، ۲۳۱۸، ۲۷۶۹، ۴۵۵۴، ۵۶۱۱، صحیح مسلم:۹۹۸)اس سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس باغ کی مالیت کتنی رہی ہوگی ؟!اس کو انہوں نے قرآن کی اس ترغیب کے نتیجے میں صدقہ کردیا۔
حضرت سعد بن ابی وقاصؓاللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھے اللہ تعالیٰ نے خوب مال و دولت سے نوازا ہے۔میری صرف ایک بیٹی ہے۔میں چاہتاہوں کہ پورا مال اللہ کی راہ میںصدقہ کردوں۔اللہ کے رسولﷺ نے ان کو منع کیا۔انہوں نے کہا: اچھا تو آدھا مال صدقہ کردوں؟اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: نہیں۔انہوں نے پھر عرض کیا: اچھا، تو میں ایک تہائی صدقہ کردوں؟تب اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:’’ الثُلْثُ، وَالثُّلْثُ کَثِیْرٌ۔‘‘(ہاں،ٹھیک ہے، تم ایک تہائی صدقہ کردواور ایک تہائی بھی بہت ہے۔)اس کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اِنَّکَ أنْ تَذَرَ وَرَثَتَکَ أغْنِیَاءَ خَیرٌ مِّنْ أَنْ تَذَرَھُمْ عَالَۃً یَتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ۔ (صحیح بخاری، کتاب الجنائز: ۱۲۹۵، و دیگر ابواب، صحیح مسلم: ۱۶۲۸)
(تم اپنے وارثوں کو مال داری کی حالت میں چھوڑ کرجائو،یہ اس سے بہتر ہے کہ تم( پورا مال اللہ کی راہ میں صدقہ کردواور) ان کو اس حال میں چھوڑو کہ وہ تمہارے بعد در بہ در مارے مارے پھریں اورلوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔)
انفاق میں مال دار صحابہ کی مسابقت
جب الله كی راه میں مال كی ضرورت هوئی تو ایسا بھی هوا كه صحابۂ کرام نے اللہ کی راہ میں اپناپورامال صدقہ کردیا۔ان کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے تحسین کا اظہار فرمایا۔مشہور واقعہ ہے۔غزوئہ تبوک کے موقع پر بہت دور کا سفر درپیش تھا۔سرمایہ کی ضرورت تھی۔رومیوں کی بڑی فوج سے جنگ متوقع تھی۔اللہ کے رسول ﷺ نے اعلانِ عام کردیا اور لوگوں کو انفاق اور صدقہ و خیرات کی ترغیب دی۔اس موقع پر جس سے جو ہوسکا ،وہ مال لے کر ـآیا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے بارے میں آتاہے کہ وہ اپنے گھر کا پورا اثاثہ لے کرآگئے۔حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں:’’ میں ہر معاملے میں ابو بکرؓ سے پیچھے رہ جاتاتھا ۔اس بارسوچا کہ ان سے آگے نکل جائوں گا۔میں نے اپنے گھر کا سارا سامان اکٹھا کیا ،پھر آدھا سامان لے کر اللہ کے رسول ﷺؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! میں اپنے گھر کا آدھا سامان اللہ کی راہ میں صدقہ کرتاہوں۔میرے بعد ابوبکرؓ آئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا:’’ اے ابو بکر!گھر والوں کے لیے کچھ چھوڑ کر آئے ہو؟انہوں نے عرض کیا: کچھ نہیں، اے اللہ کے رسولﷺ! میں کل اثاثہ لے کر آگیا ہوں۔حضرت عمرؓ نے كها:’’ میں کبھی ابو بکرؓ سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔‘‘(سنن ابی داؤدـ ۱۶۷۸، سنن ترمذی:۳۶۷۵)
غزوئہ تبوک ہی کے موقع پر ایک بہت مثالی کردار سامنے آتاہے۔اللہ کے رسولﷺ نے انفاق کی ترغیب دی تو حضرت عثمان بن عفّانؓ نے کہا: ’’اے اللہ کے رسولﷺ ! میں سو(۱۰۰) اونٹ، ان پر لدے ہوئے مال و متاع کے ساتھ اللہ کی راہ میں صدقہ کرتاہوں۔‘‘اللہ کے رسول ﷺ نے اس کو قبول فرمایا،پھر آپؐ نے لوگوں کو صدقہ کی ترغیب دی۔حضرت عثمانؓ نے پھر کہا : ’’میں مزید سو(۱۰۰) اونٹ دیتاہوں۔اللہ کے رسولﷺ نے اس کو بھی قبول فرمالیا۔اس کے بعد آپؐ نے دوسرے صحابہ کو انفاق کی ترغیب دی۔حضرت عثمانؓ نے پھر کہا: میں مزید سو(۱۰۰) اونٹ ان پر لدے ہوئے مال و متاع کے ساتھ اللہ کی راہ میں پیش کرتاہوں۔‘‘اللہ کے رسول ﷺ آب دیدہ ہوگئے۔آپؐ نے بڑے جذباتی انداز میں فرمایا:
’’آج کے بعد عثمانؓ جو کچھ کریں ان کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔‘‘( سنن ترمذی: ۳۷۰۰)
ایک دوسری روایت میںہے کہ اس موقع پر حضرت عثمانؓ نے ایک ہزار دینار اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں پیش کیے تھے۔ (سنن ترمذی: ۲۷۰۱)
انفاق کا تعلق دل کی مال داری سے ہے
صدقہ کرنے اورمال خرچ کرنے کی باتیں جب کی جاتی ہیں تو ایسا سمجھا جاتاہے کہ اس کے مخاطب صرف مال دار لوگ ہیں۔ جو لوگ مالی اعتبار سے اوسط درجے کے ہوں، یاجو لوگ غریب ہوں،وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے مخاطب ہم نہیں ہیں،حالاں کہ انفاق اور صدقہ کاتعلق مال و دولت سے نہیں ہے، اس کا تعلق دل کی مال داری سے ہے۔غریب سے غریب آدمی بھی صدقہ کرسکتاہے۔
سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ غزوئہ تبوک کے موقع پر جب اللہ کے رسول ﷺ نے انفاق کی ترغیب دی توکئی صحابہ نے سوچا کہ ہمارے پاس تو صدقہ کرنے کے لیے کچھ ہے نہیں،پھر ہم کیا کریں؟ وہ گئے اور رات بھر مزدوری کی، کھجوروں کا باغ سینچا۔ اس کی اجرت کے طور پر جوتھوڑی سی کھجوریں حاصل ہوئیں وہ انہوں نے صبح میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کردیںکہ ہماری طرف سے حاضر ہے ،اس کو قبول کرلیجئے۔(صحیح بخاری: ۴۶۶۸، صحیح مسلم: ۱۰۱۸)
اصل چیز ہے جذبہ ۔اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ آدمی کس جذبے سے اپنا مال دے رہا ہے؟ اس کے یہاں کیفیت دیکھی جاتی ہے، کمّیت نہیں۔
ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’ایک درہم ایک لاکھ درہم پر سبقت لے گیا۔‘‘ صحابہ نے پوچھا:’’ اے اللہ کے رسولﷺ !اس کا مطلب کیاہے؟آپؐ نے فرمایا:’’ ایک شخص کے پاس دو درہم تھے۔اس نے ایک درہم صدقہ کردیا۔(اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنی آدھی دولت اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش کردی۔)دوسرے شخص کے پاس ڈھیر سا مال تھا۔ اس نے اس میں سے ایک لاکھ درہم اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا ۔( اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے کل مال میں سے تھوڑا سا حصہ اللہ کی راہ میں صدقہ کیا۔‘‘(سنن نسائی: ۲۵۲۸)
انفاق کی عمومی ہدایات
انفاق اور صدقہ و خیرات کی یہ باتیں عہد نبویؐ کے پس منظر میں جب پیش کی جاتی ہیں تو ایک تاثر یہ بھی ابھرتاہے کہ اس وقت اسلامی حکومت حالتِ جنگ میں تھی ۔ فوج کو اسلحہ کی ضرورت تھی۔سامانِ جنگ فراہم کرنے تھے۔ اس لیے انفاق کی یہ ساری تعلیم و تلقین وسائل ِ جنگ فراہم کرنے کے لیے کی جاتی تھی۔لیکن یہ بات صحیح نہیں ہےكه اِنفاق، محض جهاد كے لیے دركار هے۔ صدقہ وخیرات کی تعلیم زندگی کے عام معاملات کےلیے بھی تھی۔ احادیث میں عمومی طور پر صدقہ و خیرات کی ترغیب دی گئی ہے اوراس کی تاکید کی گئی ہے۔ احادیث میں بیان کیا گیاہے کہ آدمی کن لوگوں پر خرچ کرے ؟ان میں رِشتے داروں کو ترجیح دینے کی بات کہی گئی ہے۔سب سے پہلے آدمی یہ دیکھے کہ اس کے قریبی رشتے داروں میں کون لوگ ضرورت مندہیں؟ان کے اوپر خرچ کرے۔ایک حدیث میں ہے کہ ایک صحابی اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولﷺ!میرے پاس صرف ایک درہم ہے۔ میں اسے کہاں خرچ کروں؟ آپؐ نے فرمایا:’’ اپنے اوپر خرچ کرو۔‘‘ انہوں نے کہا:’’ میرے پاس ایک اور درہم ہے۔‘‘ فرمایا: ’’اسے اپنے گھر والوں پر خرچ کرو۔‘‘ انھوںنے عرض کیا:’’میرے پاس ایک اور درہم ہے۔‘‘ فرمایا:’’ اسے اپنے رشتے داروں پر خرچ کرو۔‘‘انہوں نے کہا:’’ میرے پاس ایک اور درہم ہے۔‘‘ آپؐ نے کہا:’’ اسے جہاں چاہو،خرچ کرو۔‘‘ (سنن نسائی: ۲۵۴۶)
ایک صحابی خدمت ِ نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:’’ اے اللہ کے رسول ﷺ!میں صدقہ کرناچاہتا ہوں۔ میرے کچھ رشتے دار ضرورت مند ہیں ۔کیا میں ان کو صدقہ دے سکتاہوں؟‘‘ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’ان کو ضرور دو۔ ان کو دینے سے تم کو دوگنا ثواب ملے گا۔‘‘صدقۃ و صلۃ۔یعنی ایک ثواب صدقہ کرنے کا اور دوسرا ثواب صلہ رحمی کرنے کا۔(سنن ترمذی: ۶۵۸)
انفاق کے معاملے میں صحابہ کرام کی طرح صحابیات بھی پیش پیش رہتی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی اہلیہ، جن کا نام زینب تھا، کچھ کام کرتی تھیں، جس سے کچھ رقم پس انداز کر لیتی تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہر سے کہا:’’ جائیے ، اللہ کے رسولﷺ سے پوچھ کر آئیے ،کیا میں آپ پر اور آ پ کے بچوںپر خرچ کرسکتی ہوں؟انہوں نے کہا : تم ہی جاکر پوچھ آئو۔وہ اللہ کے رسولﷺکی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنا مسئلہ بتایا ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے جواب دیا:ہاں، تم اپنے شوہر پر اور اپنے بچوں پر خرچ کر سکتی ہو۔‘‘( صحیح بخاری:۱۴۶۲)
حضرت زینب بنت حجشؓ نہایت فیاض تھیں۔ چمڑے کی دباغت کرتی تھیں۔ جو کچھ آمد نی ہو، سب مساکین پر خرچ کر دیتی تھیں۔ (الاصابۃ، تذکرہ زینب بنت جحش) حضرت عائشہؓ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ جو کچھ ہاتھ میں آتا سب صدقہ کر دیتی تھیں۔ ان کے بھانجے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے انھیں اس قدر فیاضی سے روکنا چاہا تو سخت برہم ہوئیں۔ (صحیح بخاری، کتاب المناقب، ۳۵۰۵)
ایک مرتبہ عید کے موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نماز اور خطبہ سے فارغ ہونے کے بعد عورتوں کے مجمع کی طرف تشریف لے گئے اور ان سے خطاب کیا۔ آپ نے انھیں صدقہ و خیرات پر ابھارا۔ اس موقع پر حضرت بلال ؓ آپؐ کے ساتھ تھے۔ انھوں نے اپنی چادر پھیلا ئی اور عورتیں اپنے زیورات(گلے کے ہار، کان کی بالیاں، انگلیوں کے چھلّے، پازیب وغیرہ) نکال کر بہ طور صدقہ چادر میں ڈالنے لگیں۔ (صحیح بخاری: ۹۷۸، صحیح مسلم: ۵۵۸)
مشمولہ: شمارہ جون 2019