تنظیم کی قوت کا انحصار افراد تنظیم کے فکر و عمل میں یک رنگی اور پختگی پر ہے۔ لیکن انسان تضادات کا مجموعہ ہے۔ وہ عقیدہ کچھ رکھتا ہے عمل کچھ اور کرتا ہے، اس کا فکر کچھ ہوتا ہے اور کردار کچھ اور ہوتا ہے، وہ سوچتا کچھ ہے اور بولتا کچھ اور ہے۔ انھی تضادات کو کم سے کم تر کرنے کا عمل تربیت ہے۔
تربیت ایک صبر آزما کام ہے۔ صحبت صالح کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن اصل اہمیت خود آمادگی اور امید پسندی کو حاصل ہے۔ جو شخص اپنی تبدیلی کے لیے آمادہ ہی نہ ہو وہ تربیت کا ہر موقع ضائع ہی کر سکتا ہے۔ اسی طرح جو شخص خرابیوں کی یلغار سے ناامید ہو کر بیٹھ جائے اسے خیر کی طرف چلانا مشکل ہے۔
تربیت و تزکیہ کا عمل انسانی مزاج و کردار کی سمجھ بھی چاہتا ہے اور ان کی رعایت ملحوظ رکھنے کا بھی تقاضا کرتا ہے۔
تربیت کے ہمہ جہت پہلو
انسانی شخصیت کے گوناں گوں پہلو اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ تربیتی عمل میں تمام پہلوؤں کا خیال رکھا جائے۔ انسانی وجود کی اصل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس میں فجور اور تقوی دونوں ہی کی طرف مائل ہونے کی قدرت رکھی ہے۔ اسی کے ساتھ فطری طور پر فجور و تقوی کی پہچان بھی رکھی ہے (فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا )۔ تربیت کا عمل فرد کو بخشی گئی آزادی ارادہ سے دو باتوں کا مطالبہ کرتا ہے: اوّل یہ کہ وہ اپنے داخلی وجود میں کارفرما فجور سے پاکی اختیار کرنے کی کوشش کرتا رہے، دوم یہ کہ وہ تقوی کی افزائش کے لیے کوشاں رہے۔ افراد کی تربیت کے تین نمایاں پہلو ہیں: –
نفس کا تزکیہ
عملی رویے کی اصلاح
صلاحیتوں کی نشو و نما
نفس کا تزکیہ
انسان کے اندر خیر اور شر کی رزم گاہ قائم ہے۔ خارجی دنیا میں خیر و شر کا جو معرکہ برپا ہے وہ اس معرکۂ خیر و شر سے چھوٹا ہے جو ہمارے اندر مسلسل جاری و ساری رہتا ہے۔ کبھی ہم جیت جاتے ہیں، کبھی ہار جاتے ہیں۔ ہر آن برپا اس معرکہ میں آخری جیت فلاح سے ہم کنار کرتی ہے اور آخری ہار خسران سے دوچار کرتی ہے۔ اس کشمکش میں اگر صرف خیر کے لیے کی جانے والی سرگرمی ہی مطلوب ہوتی تو مرحلہ قدرے آسان ہوتا۔ لیکن عملِ خیر کی کوشش ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ قلب کی پاکیزگی اور نیت کا خلوص بھی درکار ہے۔ مشکل یہ ہے کہ دست دل ہر دم رضائے الہی کا دامن تھامے نہیں رہتا۔ دل ہے کہ گزرگاہ خیال ہے، کبھی دولت کی حرص تو کبھی شہرت کی چاہ تو کبھی اقتدار کی ہوس آئینۂ دل کو غبار آلود کرتی رہتی ہے۔ قلب کی پاکیزگی کے لیے لازم ہے کہ اسے ذکر الہی سے منور رکھا جائے اور ذکر بھی وہ جو بے ساختہ ہو، ہر کلفت و راحت میں اللہ یاد آ جائے، ایک گہری سانس اس کی یاد کو دل میں سمیٹ لے۔ ہر شخص کے شب و روز میں ایسے مواقع بار بار آتے ہیں، کبھی کوئی اپنا بچھڑتا ہے تو دل اللہ سے انجام خیر کا طلبگار ہوتا ہے، جب کوئی نعمت حاصل ہوتی ہے تو دل جذبۂ شکر سے معمور ہو جاتا ہے، جب کوئی مشکل آن پڑتی ہے تو اسی کے در پر دستک دیتا ہے۔ یہ سب کچھ بہت سہج، فطری طور پر ہوتا ہے اگر دل زندہ اور حساس ہو۔ دل کو زندہ رکھنے کی بالارادہ کوشش بھی ضروری ہے۔ کوششیں ہزار طرح کی ہوسکتی ہیں، یہ ہر شخص کے اپنے احوال، اپنی طبیعت پر منحصر ہے۔ لیکن نبی اکرم ﷺ نے بنیادی طریقہ بتا دیا کہ قرآن کی تلاوت اور موت کی یاد سے دل کو زندہ رکھو، اسے زنگ آلود نہ ہونے دو۔ قلب اگر زنگ آلود نہ ہو تو آئینۂ وجود نور الہی سے روشن ہو جاتا ہے۔ اسی نور سے عقل حقیقت کا ادراک کرتی ہے اور روح اسی نور سے جلا پاتی ہے۔ ہمارا وجود اسی وجود مطلق کا مرہون منت ہے۔ اس نور سے وابستگی کے بغیر ہمارا علم حجاب، ہماری تگ و تاز بے کار، ہماری ترقی وبال جان ہے اور ان سب کا نتیجہ خسران ہے۔
کردار سازی: شخصی پہلو
انسان کو ارادے کی آزادی تو حاصل ہے لیکن ارادے کے مطابق عمل بھی انجام پا جائے یہ انسان کے بس میں نہیں۔ مشیت ایزدی کے بغیر انسانی ارادہ عمل کی صورت گری نہیں کر سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسان جب کسی عمل خیر کا ارادہ کرے تو توفیق الہی کا طلبگار ہو۔ اللہ تعالی نیک ارادے کو قبول کرتا ہے اور اگر اس ارادے کے مطابق عمل میں خیر ہو تو اسے صادر ہونے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ اور جب نفس کی اکساہٹ کسی شر کی طرف مائل کرے تو اللہ کی پناہ کا طلبگار ہو۔ اللہ تعالی اس نفسانی ارادے پر گرفت نہیں کرتا جب تک انسان اس کے مطابق عملِ شر میں مبتلا نہ ہو جائے اور یہ بھی اللہ کی مشیت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اگر انسان برے ارادہ کا احساس ہوتے ہی پناہ الہی طلب کر لے تو اللہ تعالی اسے برے عمل سے بچا لیتا ہے۔ اور اگر انسان ارادۂ شر پر قائم رہے تو اللہ تعالی اسے سوئے عمل کی طرف جانے سے زبردستی نہیں روکتا لیکن اسی حد تک ڈھیل دیتا ہے جتنی اللہ کی مشیت ہو۔
انسان کے عقیدہ، ارادہ اور عمل کے درمیان باہمی تعامل کی یہی حرکیات (dynamics)ہیں جواس کے کردار میں رونما ہوتی رہتی ہے۔ کبھی اس کا عمل اس کے ارادے کا اور اس کا ارادہ اس کے عقیدے کا مظہر ہوتا ہے تو کبھی ان میں باہم دگر تضاد رونما ہوتا ہے۔ نیت اور عمل کا سلسلہ مشیت الہی سے انسان کو وہ کچھ بناتا چلا جاتا ہے جس کا نتیجہ خیر یا شر کی صورت میں جہانِ حاضر اور جہانِ غائب میں ظاہر ہوگا۔ انسانی کردار کی یہ شخصی جہت حسن عمل کی مسلسل کاوشوں سے نکھرتی چلی جاتی ہے جس کی چمک اسے معاشرہ میں نیک نامی کی پہچان بخشتی ہے، لوگ اس پر بھروسا کرتے ہیں اور اس سے خیر کی امید کی جاتی ہے۔
کردار سازی: اجتماعی پہلو
کردار کے اس شخصی پہلو کا امتحان اجتماعی زندگی کے نشیب و فراز میں ہوتا ہے۔ اجتماعیت میں شخصی کردار کو دوسرے بہت سارے کرداروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ مختلف کرداروں کے مابین تعلق کے نتیجے میں ٹکراؤ، نباہ یا ہم آہنگی کا انحصار درج ذیل عوامل پر ہوتا ہے:
تہذیب، رجحان و مزاج
فہم و شعور اور کامن سنس
مقصد سے وابستگی
ہر شخص کو اللہ تعالی نے منفرد بنایا ہے۔ ہر شخص کی طبیعت، رجحان اور مزاج الگ الگ ہے۔ لیکن انسان کو یہ صلاحیت عطا کی گئی ہے کہ وہ تہذیبِ نفس کی مسلسل مشق سے اپنی طبیعت، رجحان اور مزاج کو اجتماعیت کے لیے فائدہ مند بنا سکے اور اس کے منفی پہلوؤں پر قابو پا سکے۔ جو لوگ اس مشق میں کام یاب ہوجائیں وہ اجتماعیت کے لیے بوجھ نہیں بنتے۔ اس مشق کے لیے اس سوچ کو تازہ رکھنا ضروری ہے کہ اگر یہی چیز وہ دوسروں میں پائے تو اس کے لیے وہ خوشگوار ہوگی یا ناگوار۔ جو چیز دوسروں میں اچھی نظر آئے اسے پانے کی خواہش اور جو چیز دوسروں میں بری نظر آئے اسے چھوڑنے کا جذبہ ہمارے نفس کی تہذیب کرتا چلا جاتا ہے۔
دوسروں کے ساتھ نباہ کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا فہم و شعور بالیدہ ہو اور ہمارا کامن سنس اجتماعی معاملات و مسائل کی نزاکتوں اور افراد کے انداز و اطوار اور اسلوب و گفتگو کو سمجھنے میں مددگار ہو۔ ہر معاملہ اور ہر بات کو صحیح سیاق اور تناظر میں لینے اور دل کے بجائے دماغ سے پرکھنے کا ملکہ ہو۔ بحث و گفتگو میں دل کی تپش کے بجائے ٹھنڈے دماغ سے کام لینے کی عادت ہو۔ بلند آہنگی کے بجائے افہام و تفہیم اور استدلالی انداز باہمی گفتگو کو با معنی اور نتیجہ خیز بناتا ہے۔ اس طرح دماغ رد عمل سے اور دل تکدر سے پاک رہتا ہے۔
اجتماعی زندگی میں ہر شخص کو یہ سمجھ ہونی چاہیے کہ معاملات اور مالیات کی درستی کا انحصار دیانت اور شفافیت پر ہے۔ رشتوں میں نباہ کے لیے در گزر کا رویہ اور تعلقات میں مضبوطی کے لیے قدر دانی کا رویہ ضروری ہے۔ اس کے لیے دل کی کشادگی ضروری ہے۔ یہ رویے ہماری عادت کا حصہ بن جائیں، اس کے لیے بالارادہ کوشش ضروری ہے۔
اجتماعیت میں کردار کی سطح کا تعین اور اس کی قبولیت کے لیے بیباکی اور حق گوئی سے زیادہ دوسروں کے لیے رعایت اور خود کے لیے عزیمت کا رویہ درکار ہے۔ اجتماعی زندگی میں کردار اسی وقت معقول و مناسب ٹھہرتا ہے جب اصول پسندی اور مداہنت پسندی کی صحیح سمجھ بھی ہو اور ان کے تقاضے بھی واضح ہوں۔ اصول پسندی اگر مقصد کے بنیادی تقاضوں کی پاسداری سے آگے بڑھ کر سخت گیری کے رویے کی طرف لے جائے یا مصالحت پسندی مصلحت کے ضروری تقاضوں سے آگے بڑھ کر زمانہ سازی کے رویے کا خوگر بنائے تو یہ دونوں ہی رویے اجتماعیت کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ اعتدال پسندی کا رویہ ہر شخص کی سمجھداری پر منحصر ہے۔ اسی لیے اجتماعی زندگی میں صحیح رویے کا دار و مدار فہم و شعور اور کامن سنس پر ہے۔
کسی بھی اجتماعیت کا اصل سرمایہ اس کی افرادی قوت ہوتی ہے۔ اور افرادی قوت کی قدر و قیمت کا تعین افراد کے شخصی اور اجتماعی کردار کی بنا پر ہوتا ہے۔ شخصی کردار میں بلندی اور اجتماعی کردار میں گہرائی مطلوب ہے۔ تواضع و انکسار (مَاتَوْاضَعَ أَحَدٌ لِلَّہِ اِلَّا رَفَعَهُ اللّٰہُ : مسلم: ۸۸۵۲) شخصیت کی بلندی کا اور عفو و درگذر (خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِینَ: اعراف، ۱۹۹) اس کی گہرائی کا پتہ دیتے ہیں۔ شخصی کردار آسمان کی طرح اونچا ہو کہ لوگ نگاہ اٹھا کر دیکھیں اور اجتماعی کردار سمندر کی طرح گہرا ہو کہ ناموافق حالات میں بھی شانت رہے۔
صلاحیتوں کی نشو و نما
تربیت کا تیسرا دائرہ صلاحیتوں کی نشو و نما ہے۔ اللہ تعالی نے کسی بھی انسان کو بے صلاحیت پیدا نہیں کیا۔ لیکن صلاحیتوں کی پہچان، ان کی نشو و نما اور ان کا صحیح استعمال کئی چیزوں کا تقاضا کرتا ہے۔
نہ تو ہر شخص کے اندر یکساں مخفی صلاحیتیں ہوتی ہیں، نہ ان صلاحیتوں کی نشو و نما کے لیے یکساں ماحول میسر ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے صحیح استعمال کے یکساں مواقع ملتے ہیں۔ اس ہمہ جہت تفاوت کے ساتھ ہی انسانی معاشرہ موجود ہوتا ہے۔ جو کچھ اور جیسی کچھ بھی مخفی صلاحیتیں ہیں ان کی نشو و نما میں بنیادی عامل تو ذاتی ارادہ ہے۔ لیکن دو عوامل ایسے ہیں جو نہ صرف ذاتی ارادے کو کسی فیصلے تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ خود مخفی صلاحیتوں کی پہچان اور ان کی اٹھان پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ وہ دو اہم عوامل کیا ہیں؟ (۱) سماجی ماحول اور (۲) رہ نمائی کا نظام۔ ان دونوں کی ابتدائی یونٹ کا نام خاندان ہے۔ اس کے بعد درجہ بہ درجہ صلاحیتوں کی نشو و نما کے رسمی اور غیر رسمی ادارے جس میں صحبتیں، تعلیم گاہیں، تربیت گاہیں، انجمنیں، تنظیمیں، تحریکیں، وغیرہ شامل ہیں۔
اس بحث کو تنظیمی دائرے میں محدود رکھتے ہوئے اس بات پر غور کیا جائے کہ تنظیم سے وابستہ افراد کی کن کن صلاحیتوں کی نشو و نما ہو اور کیسے ہو؟ یہ بات تو طے ہے کہ سماجی تبدیلی کی کسی تحریک کو کئی طرح کی صلاحیتوں کے افراد درکار ہیں- صرف دماغی صلاحیتوں کے افراد نہیں بلکہ عملی صلاحیتوں کے حامل افراد بھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہر شخص کی صلاحیت اتنی ہی فروغ پا سکتی ہے جتنی کی وہ خود کوشش کرے اور حالات اجازت دیں۔ تیسری اصولی بات یہ ہے کہ سماجی تبدیلی کی تحریک کو مطلوبہ تبدیلی کے لحاظ سے ہی اپنی ترجیح کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ سماج تو ہر طرح کی صلاحیتوں کی آماجگاہ ہے لیکن سماجی تبدیلی کے لیے برپا تحریک و تنظیم ہر طرح کی صلاحیتوں کے فروغ پر اپنی انرجی صرف نہیں کر سکتی۔ اسے لازمی(essential)، ضروری (necessary) اور ضمنی (additional)کی درجہ بندی کے ساتھ ہی صلاحیتوں کا انتخاب اور انھیں پروان چڑھانے کا نظم کرنا ہوتا ہے۔ یہ تعین آسان نہیں۔ کبھی ایک صلاحیت کی چمک دمک نگاہوں کو خیرہ کرتی ہے تو کبھی دوسری صلاحیت کی رنگا رنگی اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ درکار صلاحیتوں کا تعین نہ کیا جائے تو سماجی تبدیلی کی منصوبہ بندی منتشر عناصر کا مجموعہ بن سکتی ہے۔ اس لیے صلاحیتوں کے تعین، فروغ اور استعمال میں ایک چست درست منصوبہ بندی درکار ہے۔
منصوبہ بندی کیا ہے؟ کسی مقصد کے حصول کے لیے ناگزیر ضروریات اور اقدامات کا تعین۔ اقدامات یا کاموں کی انجام دہی کے لیے کیا کچھ درکار ہے؟ (۱) افرادی وسائل، (۲) مادی وسائل، (۳) وقت۔ اگر ان چیزوں سے کام لے کر مطلوبہ سرگرمی انجام دی جائے تو توقع کی جا سکتی ہے کہ حصول مقصد کی طرف پیش رفت تیز ہوجائے۔ کوئی شک نہیں کہ افرادی اور مادی وسائل اور اوقات کا استعمال نظم جماعت میں جاری و ساری رہتا ہے کیوں کہ اجتماعی کوشش اس کے بغیر ہو نہیں سکتی۔ لیکن محض وسائل و اوقات کا استعمال منصوبہ بندی نہیں ہے۔ منصوبہ بندی تو اس عمل کا نام ہے کہ کم سے کم وسائل اور اوقات کے استعمال سے زیادہ سے زیادہ مقصد کے حصول میں مدد ملے۔ یعنی وسائل اور وقت کا بھرپور (optimal) استعمال۔ Optimality کا تصور جس رجحان کی تشکیل کرتا ہے وہ کم سے کم وسائل، مطلوبہ صلاحیت اور درکار وقت میں کام انجام دینے کی طرف مائل رکھتا ہے۔
اب اگر تنظیم کی قوت ہر طرح کی صلاحیتوں کے فروغ اور ان کے لیے پروگرام سازی میں صرف ہونے لگے تو منصوبہ بندی میں optimality نباہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لیے صلاحیتوں کے تعین، ان کے فروغ اور استعمال میں منصوبہ بندی کا مطلب ہے مطلوبہ تبدیلی کے عمل میں درجہ بدرجۂ اثر انداز ہونے والی صلاحیتوں کی ٹھیک ٹھیک نشان دہی۔ ظاہر ہے نشان دہی کا یہ عمل تحریک اور سماج کی حرکیات (dynamics)پر گہری نگاہ رکھتے ہوئے ہی انجام دیا جا سکتا ہے۔ مشاورت کے ذریعے تربیت کے لیے جو لائحہ عمل بنتا ہے اس میں ان تمام پہلوؤں کا خیال رکھنا زیادہ ممکن ہوتا ہے اور حسب ضرورت تبدیلی کی گنجائش بنی رہتی ہے۔
ایک آخری بات جسے ذہن نشیں رکھنا ضروری ہے کہ تربیت تکمیل ذات (perfectionism) کا نام نہیں بلکہ تطہیر ذات کا عمل ہے۔ تربیت وہ راستہ ہے جس میں بار بار ٹھوکر کھا کر گرنا بھی پڑتا ہے اور بار بار انجانی راہوں میں بھٹکنا بھی پڑتا ہے۔ واحد چیز جو تربیت کی راہ پر گامزن رکھتی ہے یہ شعور و ارادہ ہے کہ گرنے اور غلطیاں کرنے کے باوجود سنبھلنے اور غلطیوں پر قابو پانے کی کوششیں جاری رہیں گی۔ تربیت کا عمل دل شکستگی کا نہیں حساسیت اور حوصلہ مندی کا تقاضا کرتا ہے۔ دل میں گناہ پر ندامت کا احساس بھی پیدا ہو اور یہ عزم بھی کہ ہار نہیں مانیں گے، سبق بھولیں گے پھر دہرائیں گے۔ خیر و شر کی اسی کشاکش سے قلب کو جلا ملتی ہے۔ حدیث میں جو یہ بات کہی گئی ہے کہ اگر تم سے گناہ سرزد نہ ہو تو اللہ تمھاری جگہ وہ مخلوق پیدا کرے گا جن سے گناہ سرزد ہوں گے اور پھر وہ اپنے گناہوں سے توبہ کریں گے، پھر گناہ کریں اور پھر توبہ کریں گے، تو اس میں گناہ کی اہمیت بتانا مقصود نہیں بلکہ فجور و تقوی کی کشمکش میں ہارنے جیتنے کے مرحلوں سے گزرتے ہوئے دل کو حساس اور اصلاح کے لیے آمادۂ پیکار رکھنے کی تلقین پنہاں ہے۔ اور خیر و شر کے اس معرکہ میں جنگ جیتی نہیں جا سکتی اگر رب غفور و رحیم کا دامن بار بار تھام لینے کی کوشش نہ کی جاتی رہے۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2022