اجالوں کا سفر

کیا محمد ﷺ قرآن کے مصنف ہیں!

قرآن عقیدے کی جستجو کو جتنی اہمیت دیتا ہے، خصوصاً اس زمانے اور مقام کے حوالے سے جہاں پر یہ نازل ہوا، وہ ایک حیرت انگیز امر ہے۔ دور جدید کے لیے بھی قرآن کا یہ اصرار کہ مذہب کے لیے عقلیت ناگزیرہے، ایک انقلابی تصور ہے۔ معاصر زمانے میں عقلیت اور مذہب کی کشمکش ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کشمکش منطقی کلیے کے طور پر “ثابت” ہوچکی ہو کہ خدا پر یقین ہمیشہ منطقی تناقض کی سمت میں لےجاتا ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ تناقض ذاتی تجربے اور تاریخ کے فہم سے پیدا ہوا ہے۔ ایک جانب مذہبی ادارے کے ذریعے فلاسفہ اور سائنس دانوں پر ظلم و بربریت کی ایک طویل تاریخ موجود ہے اور دوسری جانب عقلیت پسندوں کی مشترکہ مایوسی جنھیں ان کے الہیاتی مسائل کے تشفی بخش جواب نہیں ملتے۔ چناں چہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ضروری نہیں کہ عقل اور عقیدہ ایک دوسرے سے متعارض ہوں، انھیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا گیا ہے۔ بہرحال کچھ بھی ہو، موجودہ توحیدی مذاہب کی روایت میں کم ہی لوگ ہیں جو عقل و عقیدے کی یکجائی پر زور دیتے ہیں۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ دور جدید کے اکثر مسلمان، خصوصاً علمائے کرام، اسلام میں عقلی نقطہ نظر اختیار کرنے میں انتہائی محتاط ہیں۔ وہ درایت کے بجائے روایت پر تکیہ کرتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں ایسا ہمیشہ نہیں تھا، خصوصاً پہلی چند صدیوں میں۔

اس زمانے میں جزیرہ نما عرب کسی بھی طرح علوم و فلسفہ کا گہوارہ نہیں تھا۔ عرب جذبات سے عاری، غریب، ناخواندہ اور غیر متمدن قوم تھے، اور اکثر اپنی بقا کی جد و جہد اور جو کچھ بھی تھوڑے بہت وسائل انھیں میسر تھے انھیں بچانے کے لیے اپنے سخت ماحول کے ساتھ ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتے تھے۔ جہاں دیگر بڑے عالمی مذاہب کے صحیفے ترقی یافتہ اور نفیس معاشروں میں اتارے گئے، وہیں قرآن کو ایسی جگہ نازل کیا گیا جسے بجا طور پر “ثقافت کا خرابہ” کہا جاسکتا ہے۔ تاریخ داں اس بات پر متفق ہیں کہ عرب ایک خام قوم تھے جنھیں نہ فنون لطیفہ کا ذوق حاصل تھا، نہ علمی و سائنسی ورثہ۔ وہاں نہ فلسفے کے مکاتب تھے، نہ بصری فنون لطیفہ کے شاہ کار تخلیق کیے گئے، اور نہ ادب ہی کا کوئی قابل ذکر کام ہوا تھا۔ وہ اعلی تر ریاضی سے بے خبر تھے، نیز کوئی صحیفہ یا مقدس کتاب ان پر نہیں اتاری گئی تھی۔ فن کے نام پر ان کے پاس واحد صنف شاعری تھی، جسے شفوی وسیلے سے سینہ بہ سینہ آگے پہنچایا جاتا تھا۔ ایسے ماحول سے کسی عبقری اور ادبی قوت کی تخلیق کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ فطری طور پر کہ قرآن کے نزول کے بعد عرب میں بتدریج ایک طویل عرصے تک ثقافتی پختگی کا ظہور ہوا۔

اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ محمد عربی ﷺنے کوئی رسمی تعلیم پائی تھی۔ اپنی عمر کی دوسری دہائی میں انھوں نے چند تجارتی قافلوں کی مہموں کی قیادت ضرور کی تھی، لیکن اس تجربے سے اس قدر اعلی معیار کی عقلی صلاحیت کا پیدا ہوجانا بعید ہی نہیں ناممکن تھا۔ قرآن کا اسلوب، عقل و تدبر پر اس کا زور، اس کی منطقی ہم آہنگی، ابہام اور علامت استعمال کرنے کی اس کی بے پناہ مشاطگی، اس کا حسن اور سلاست، ایک ایسے مصنف کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کی بصیرت اور دانائی اس وقت کے جزیرہ نما عرب کی پس ماندہ غیر متمدن قوم کی رسائی سے بہت پرے ہے۔

مجھے خیال آیا کہ ہوسکتا ہے قرآن کے ایک سے زیادہ مصنفین رہے ہوں، تاہم دیگر صحیفوں کے بخلاف، اس کی تائید میں کوئی داخلی ثبوت موجود نہیں۔ قرآنی کلام میں درپردہ متکلم کی شخصیت واضح طور پر ایک ہے اور اس کی ہم آہنگی ایسی اعلی پائے کی ہے جسے اجتماعی مساعی سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن خود کہتا ہے:

کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی۔ (4: 82)

کہہ دو اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اُس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لا سکیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مدد گار ہی کیوں نہ ہوں۔ (17: 88)

اس کی واحد معقول وضاحت جو مجھے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یقیناً محمد ﷺ انسانیت کے عبقری ترین دماغ رہے ہوں گے کہ تاریخ نے بہت سے غیر معمولی ذہانت کے حامل لوگ پیدا کیے ہیں۔ لیکن ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کا اثر زمان و مکان کی قیود سے اتنا آگے تک گیا ہو۔ آئن اسٹائین ایک حیرت انگیز ماہر طبیعیات تھا، لیکن اس کے نظریہ اضافت سے پہلے سائنس صدیوں کی ریاضتوں اور دریافتوں کے بعد اس مقام تک پہنچ سکی جس کی بنیاد پر آئن اسٹائین اپنا نظریہ پیش کرسکا۔ اگر آئن اسٹائین اس وقت اپنا نظریہ پیش نہ کرتا تو یقیناً اس کے معاصرین میں سے کوئی نہ کوئی ان نتائج تک پہنچ جاتا۔ فرمیٹ کی آخری تھیورم کا حالیہ ثبوت جسے اینڈریو وائلز نے پیش کیا ہے، یقیناً ایک شان دار ریاضیاتی کارنامہ ہے۔ لیکن اس کام میں سیکڑوں برسوں کی ریاضیاتی فہم و ترقی اور دوسروں کے اس مسئلے پر کام نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ موزارٹ، وان گو اور شیکسپیئر یقیناً غیرمعمولی لوگ تھے، لیکن ان کے کام ان کے ثقافتی ماحول اور رجحانات کے عکاس ہیں۔ عرب کے حجاز میں قرآن کا اچانک ظہور مجھے کسی صحرا میں یکایک گلاب کھلنے کے مانند لگتا ہے جو عرب کے بے آب و گیاہ بیابان میں اپنی بہاریں دکھا رہا ہے۔

میں نے محسوس کیا کہ اگر محمد ﷺ قرآن کے مصنف ہیں تو انسانی تاریخ کی ذہین ترین ہستی ہونے کے علاوہ وہ دنیا کی نیک ترین اور پرہیزگار ہستی بھی ہیں۔ قرآن عقیدہ توحید کی خالص ترین شہادت ہے، اور یہ انسانیت کی مدد کرنے، مردوں اور عورتوں کی محبت الہی کی سمت رہ نمائی اور راست بازی کی زندگی گزارنے کے لیے اپنی گہری، ہمدردانہ عزم بستگی کا اظہار کرتا ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ پیغمبر اسلام ﷺ غایت درجہ کے منکسر اور بے نیاز شخص تھے، کیوں کہ صحیفہ بار بار اصرار کرتا ہے کہ محمد ﷺ محض ایک انسان ہیں، ان کا واحد کردار ہمارا پیغام پہنچا دینا ہے، انھیں کسی قسم کی مافوق الفطرت قوت حاصل نہیں ہے، اور یہ کہ ہر شخص کی طرح انھیں بھی اپنی ہدایت اور مغفرت کی دعا کرنی چاہیے۔ قرآن کئی مقامات پر ان کی تنقید اور اصلاح بھی کرتا ہے۔ ایسی عاجزی اور انکسار ان لوگوں میں ناپید ہوتا ہے جو عقلی و فکری لحاظ سے اپنے ساتھیوں اور معاصرین سے بہت آگے ہوتے ہیں۔

چناں چہ مجھے محسوس ہوا کہ اگر محمد ﷺ نے قرآن کی تصنیف کی ہے تو کسی ذاتی غرض اور مفاد کے بجائے انھوں نے اپنی زندگی مکمل طور پر خدا اور انسانیت کی خدمت اور اسے نیکی اور ہدایت کی راہ دکھانے کے لیے وقف کردی تھی۔ لیکن پھر بھی، میرے دل میں شکوک تھے کہ انھوں نے ایسا صحیفہ گھڑ لیا تھا جو دعوی کرتا ہے کہ وہ انھیں براہ راست خدا نے انسانیت کے نام پیغام کے طور پر دیا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ فریب کرنے والا شخص حق اور خیر کی جانب ایسی طاقت ور دعوت بھی دے۔ مجھے یہ بھی خیال آیا کہ پیغمبر کی متعدد شخصیتیں (multiple personalities) بھی تو ہو سکتی ہیں۔ لیکن قرآن کسی بکھری ہوئی شخصیت کا واہمہ نہیں ہوسکتا، اور نہ ہی ایسا ممکن ہے کہ اس پر متعدد افراد نے مل کر کام کیا ہو۔

بالآخر مجھے قرآن کے انسانی تصنیف ہونے کا خیال ترک کرنا پڑا۔ ویسے بھی میری تحقیق کے لیے یہ ایسی اہم بات نہیں تھی۔ میں نے سوچا اگر محمد ﷺ قرآن کے مصنف ہوں بھی تب بھی کیا فرق پڑتا ہے، وہ بلاشبہ انسانیت کی عظیم ترین شخصیت قرار پاتے ہیں، اور اگر وہ اس کے مصنف نہیں ہیں تو اصل مصنف تاریخ کی نظروں سے اوجھل ہوچکا ہے جو کسی طور نظر نہیں آسکتا۔

ایک مشکل فیصلہ

مجھے اپنی پانچویں جماعت کی مذہبی کلاس کا ایک دن یاد آتا ہے جب ہم اپنے مذہبی عقائد (کیٹکزم) کی کتاب سے مل کر گارہے تھے۔جب  ہم اس بیان پر آئے  کہ ’’کیتھولک عقیدہ ہی واحد سچا مذہب ہے،‘‘  تو میں نے اپنا ہاتھ بلند کرلیا۔

’’کہو جیفری؟‘‘سسٹر برناڈیٹ نے مجھ پوچھا۔

’’سسٹر، کیا ہر مذہب کا استاد اپنے طلبا کو یہ نہیں بتاتا کہ ان کا مذہب واحد سچا مذہب ہے؟ میرا مطلب ہے کہ میں یہ تصور نہیں کرسکتا کہ وہ انھیں یہ بتائیں گے کہ کوئی دوسرا مذہب واحد سچائی ہے۔ ہمیں واقعی طور پر کیسے معلوم ہوگا کہ کون سا مذہب سچ ہے؟‘‘

چند ثانیوں کے لیے سسٹر برناڈیٹ مجھے خالی نظروں سے دیکھتی رہیں۔ پھر آہستگی سے محتاط لہجے میں گویا ہوئیں:’’مجھے اس تعلق سے فادر ہینوور سے پوچھنا پڑے گا، لیکن میں تمھیں اس کا جواب دینے کے لیے واپس آؤں گی۔‘‘

وہ کبھی میرے پاس واپس نہیں آئیں۔ شاید بھول گئی ہوں۔ میں نے بھی یہ سوال دوبارہ کسی سے نہیں پوچھا، تاہم مجھے یہ ہمیشہ پریشان کرتا رہا۔

کسی دوست نے ایک مرتبہ مجھے بتایا تھا: ’’جتنا بڑا ذہن ہو، فیصلہ کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔‘‘ قرآن آدم و حوا کے قصے میں یہی نقطہ نظر پیش کرتا ہے (سورۃ البقرۃ: 30-39)۔ یہ طے کرنے کے فوراً بعد کہ انسان اپنی عقل کی وجہ سے فرشتوں سے فائق تر ہے، قرآن آدم و حوا کے پہلے آزادانہ فیصلہ و اختیار کے مظاہرے کی اسٹیج تیار کرتا ہے۔ قرآن ہمیں دکھاتا ہے کہ انسانوں کو شیطانی وساوس اور فرشتوں کے الہام آئیں گے، اور آخرت میں ان کے انجام کا تعین ان کے انھی فیصلوں کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ انسانی ارادے کو انسانی عقل کے فوراً بعد اجاگر کیا گیا ہے، کیوں کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرے کا کوئی وجود نہیں۔ عقل کا استعمال بغیر ارادے کے نہیں کیا جاسکتا اور ارادہ ایک عقلی عمل ہے۔

دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے، صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کا اِنکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا ہے) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ (سورۃ البقرہ: 256)

قرآن کہتا ہے کہ ایمان برضا و رغبت ہونا چاہیے۔ سچا ایمان اختیاری فیصلے سے ہوتا ہے۔ اسے مرضی والا اور عقلی عمل ہونا چاہیے کیوں کہ درست بات کو غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔” قرآن کہتا ہے کہ خدا کو یہ قدرت حاصل تھی کہ وہ اپنی رضا کے تابع کرنے کے لیے انسانیت کو پروگرام کردیتا، لیکن اس کا منصوبہ کچھ اور ہے۔

بے شک اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا۔(سورۃ الانعام: 149)

اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟ (سورۃ یونس: 99)

کیا اہل ایمان (ابھی تک کفار کی طلب کے جواب میں کسی نشانی کے ظہور کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور وہ یہ جان کر ) مایوس نہیں ہو گئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا؟ (سورۃ الرعد: 32)

اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے۔ (سورۃ السجدۃ: 13)

اگر تمھارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک امت بھی بنا سکتا تھا۔ (سورۃ المائدہ: 48)

خدا پوری انسانیت کو یک قلم اس طرح اپنے تابع کرسکتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے روحانی کلون بن جاتے۔ لیکن ایسا کرنے کے بجائے خدا نے ہمیں فیصلہ کرنے کی عقلی صلاحیت بخشی اور ہمیں اپنے ارادہ و اختیار کے استعمال سے چیزوں کو متوقع انجام تک پہنچانے کا اختیار دیا۔ اگرچہ ہمارے فیصلے دوسروں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، لیکن ان کے بنیادی مستفید ہم ہی ہیں۔

دیکھو تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں آگئی ہیں، اب جو بینائی سے کام لے گا اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنے گا خود نقصان اُٹھائے گا۔(سورۃ الانعام: 104)

اب جو ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنے ہی بھلے کے لیے ہدایت اختیار کرے گا اور جو گم راہ ہو اس سے کہہ دو کہ’’میں تو بس خبردار کر دینے والا ہوں۔‘‘ (سورۃ النمل: 92)

(اے نبی ﷺ) ہم نے سب انسانوں کے لیے یہ کتاب برحق تم پر نازل کر دی ہے۔ اب جو سیدھا راستہ اختیار کرے گا اپنے لیے کرے گا اور جو بھٹکے گا اُس کے بھٹکنے کا وبال اُسی پر ہوگا، تم اُن کے ذمّہ دار نہیں ہو۔ (سورۃ الزمر: 41)

محولہ بالا آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرد و خواتین مکمل طور پر آزاد ہیں اور خدا دنیا کو بغیر کسی مداخلت کے اپنے راستے چلنے دیتا ہے۔ اگرچہ ایک ملحد کی حیثیت سے صحیفے کے اس موقف کو میں ترجیح دیتا، لیکن مکمل طور پر ایسا نہیں ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے، اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا، وہ اکثر لوگوں کے ادراک اور فیصلے پر اثر انداز ہوتا ہے، مومنوں کو ہدایت دیتا ہے اور کافروں کو گم راہ ہونے کی آزادی دیتا ہے، اور انسانی ڈرامے میں تصرف کرکے نازک حالات یا “آزمائشیں” پیدا کرتا ہے۔ قرآن کے نزدیک، مخلوق پر خدا کا کنٹرول اتنا وسیع ہے کہ کچھ بھی اتفاقی طور پر واقع نہیں ہوتا، بلکہ ہر ذاتی یا دنیاوی واقعے میں روحانی ارتقا کے مدارج طے کرنے کے مواقع ہوتے ہیں۔ قرآن اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ مرد و خواتین کو آزادی ارادہ حاصل ہے، لیکن وہ اتنے آزاد نہیں جتنا کہ وہ خود کو سمجھتے ہیں۔ تاہم ان کے لیے اخلاقی و روحانی فیصلے کرنے کے مواقع مسلسل پیدا کیے جا رہے ہیں۔

ہوسکتا ہے انسانی آزادی کا یہ واہمہ انسانی ترقی اور سیکھنے کے لیے اہم ہو کیوں کہ اگر ہم مستقل ہر شے پر خدا کی قدرت کو مستحضر رکھتے تو گناہ میں پڑنے اور اس کے نتیجے میں روحانی و اخلاقی ترقی کے امکان قریب قریب معدوم ہوجاتے۔ ہمارے خیر و شر کے فیصلوں پر جو چیز اثر انداز ہوتی ہے اس میں جزوی طور پر یہ خیال بھی شامل ہے کہ ہم خدا سے دور ہیں۔ آدم و حوا (علیہما السلام) سے “جنت کے باغوں” میں جس خطا کا صدور ہوا تھا اس میں اس گمان کو بھی دخل تھا کہ خدا انھیں نہیں دیکھ رہا ہے۔ اسی طرح جب وہ اپنی تخلیق کے اگلے مرحلے میں جانے کے لیے تیار ہوگئے، تو خدا نے ان سے کہا: “اب تم سب نیچے اتر جاؤ۔” یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اب وہ خدا سے الگ ہو جائیں گے۔ البتہ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ خدا ہمیشہ ہمارے بہت قریب ہے۔

میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو انھیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھ پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔(یہ بات تم انھیں سنا دو) شاید کہ وہ راہِ راست پالیں۔ (سورۃ البقرۃ: 186)

کہو ‘‘ اگر میں گم راہ ہوگیا ہوں تو میری گم راہی کا وبال مجھ پر ہے، اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو اُس وحی کی بنا پر ہوں جو میرا رب میرے اُوپر نازل کرتا ہے، وہ سب کچھ سنتا ہے اور قریب ہی ہے۔’’ (سورۃ سبا: 50)

ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اُس کے دل میں اُبھرنے والے وسوسوں تک کو، ہم جانتے ہیں۔ہم اُس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں، (سورۃ ق: 16)

تو جب مرنے والے کی جان حلق تک پہنچ چکی ہوتی ہے اور تم آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہو کہ وہ مر رہا ہے۔ اُس وقت اُس کی نکلتی ہوئی جان کو واپس کیوں نہیں لے آتے؟ اُس وقت تمہاری بہ نسبت ہم اُس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ مگر تم کو نظر نہیں آتے۔(سورۃ الواقعۃ: 85-87)

آزادی و اختیار کا واہمہ زندگی میں ہمارے سیکھنے کے تجربات کو مہمیز کرتا ہے۔ یہ ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ جو کچھ سیکھا گیا ہے اس کا انطباق آزادانہ طور پر کریں۔ کلاس روم ہو یا بیرونی دنیا، سیکھنے کے دو اہم مراحل ہوتے ہیں: آموزش (سکھانا) اور آزمائش (جانچنا)۔ علم کو جب جانچا جاتا ہے تبھی یہ بلند تر سطح پر پہنچتا ہے۔

اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں۔ اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ ‘‘ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے ’’ انھیں خوش خبری دے دو۔‘‘(سورۃ البقرۃ: 155-56)

مسلمانو! تمھیں مال اور جان دونوں کی آزمائشیں پیش آکر رہیں گی، اور تم اہلِ کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے۔ (سورۃ آل عمران: 186)

آزادی و اختیار کے بارے میں ہمارے ادراک کو وقت کے بارے میں ہمارے ادراک سے بھی بڑھایا گیا ہے، جس سے ہمیں یہ احساس ہوتا ہے گویا ہمارے فیصلے کے ذاتی نتائج اور آخرت میں خدا سے ہماری ملاقات مستقبل بعید میں کہیں ہوگی۔ چناں چہ ہم نہ صرف مکان کے حوالے سے بھی بلکہ زمان کے حوالے سے بھی خدا سے فاصلہ محسوس کرتے ہیں۔ تاہم قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ وقت کے بارے میں ہمارا تصور حقیقی نہیں ہے، جب ہم اگلی زندگی میں داخل ہوں گے تب ہمیں اس بات کا احساس ہوگا۔

جس روز یہ لوگ اسے دیکھ لیں گے تو انھیں یوں محسوس ہو گا کہ (دنیا میں یا حالتِ موت میں) بس ایک دن کے پچھلے پہر یا اگلے پہر تک ٹھہرے ہیں۔(سورۃ النزعت: 46)

(آج یہ دنیا کی زندگی میں مست ہیں) اور جس روز اللہ ان کو اکٹھا کرے گا تو (یہی دنیا کی زندگی انھیں ایسی محسوس ہوگی) گویا یہ محض ایک گھڑی بھر آپس میں جان پہچان کرنے کو ٹھہرتے تھے۔ (سورۃ یونس: 45)

جس روز وہ تمھیں پکارے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے اس کی پکار کے جواب میں نکل آؤ گے اور تمہارا گمان اُس وقت یہ ہو گاکہ ہم بس تھوڑی دیر ہی اس حالت میں پڑے رہے ہیں۔’’(سورۃ بنی اسرائیل: 52)

وقت کا ادراک زندگی کے دیگر واہموں میں سے ایک واہمہ ہے۔ ہمارے لیے تاریخ کا سست رو دھارا جو طویل زمانے پر محیط ہے، خدا کے نزدیک محض آنکھ جھپکنے جیسا ہے۔ ہماری نظر میں جس چیز کا ظہور کئی دنوں یا برسوں میں ہوتا ہے، وہ خدا کے محض حکم کن کا مظہر ہے: ” اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے، اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ ‘‘ہو جا ’’ اور وہ ہو جاتی ہے۔ ” قرآن وقت کے واہمے کو “خدائی دن” اور “ارضی دن” کے موازنے سے بھی پیش کرتا ہے جہاں خدا کا ایک دن ہمارے حساب سے ہزار سال پر محیط ہے (سورۃ السجدہ: 5) اور “پچاس ہزار سال کے برابر” ہے (سورۃ المعارج: 4)۔ لہذا، جس وقت کو ہم جانتے ہیں وہ بھی دیگر مخلوقات میں سے ایک تخلیق ہے جس کے اندر ہم موجود ہیں۔ وقت سے باہر خدا کا علم اور ارادہ ہے جو زمان و مکان سے ماورا ہے اور جس کی تعمیل پلک جھپکتے میں ہوجاتی ہے۔

ہم نے ہر چیز ایک تقدیر کے ساتھ پیدا کی ہے۔ اور ہمارا حکم بس ایک ہی حکم ہوتا ہے اور پلک جھپکاتے وہ عمل میں آ جاتا ہے۔(سورۃ القمر: 49-50)

زمان و مکان میں خدا سے علیحدگی کے واہمے اکیلے واہمے نہیں جن کے ہم زیر اثر ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ ” دنیا کی زندگی ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے۔” (آل عمران: 185، سورۃ الحدید: 20) قرآن کے ہر صفحے کے ساتھ جو میں نے پڑھا یہ تصور راسخ ہوتا چلا گیا کہ زندگی آزمائش ہے اور دنیا ایک امتحان گاہ ہے، جسے نوعِ انسانی کی اخلاقی، عقلی اور روحانی تربیت کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ایک ایسے استاد کی طرح جو امتحان گاہ میں طلبا کو امتحان دینے کے لیے چھوڑ دے اور خود کسی یک طرفہ آئینے (one-way mirror) کے پیچھے سے ان کا مشاہدہ کرتا رہے، خدا ہمارے لیے ہم سے الگ ہونے کا واہمہ پیدا کرتا ہے تاکہ ہم اپنا ذاتی ارتقا کرسکیں۔ ہمیں عقل و ارادے کے ہتھیاروں سے لیس کرکے ناموافق ماحول میں چھوڑ دیا گیا ہے، جو بظاہر ہمارا اپنا ہے۔ یہاں ہم اپنی قسمت آزمائی کرتے ہیں۔

اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟ کوئی متنفس اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا، اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے۔(سورۃ یونس: 99-100)

یہ آیات خدائی اور انسانی اختیار کے بارے میں قرآن کے موقف کا خلاصہ پیش کرتی ہیں۔ خدا کی مرضی یہ نہیں کہ انسانیت کو ایمان لانے پر مجبور کرے۔ اس کے بجائے ایمان ایک آزادانہ ارادے سے آنا چاہیے۔ اگرچہ یہ فیصلہ آزادانہ طور پر کیا جانا چاہیے، تاہم یہ کبھی خدا کی مشیت سے آزاد نہیں ہوتا، کیوں کہ وہ واضح اور لطیف دونوں طریقوں سے اس ارادے کی پرورش کرتا ہے، اسے قبولیت کا درجہ دیتا ہے اور اس کا جواب دیتا ہے۔ لیکن جو لوگ ہٹ دھرمی اور ناعقلی سے اس ارادے اور فیصلے کا انکار کرتے ہیں، خدا ان کو ابدی پشیمانی کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ حقیقی ایمان کے لیے ارادہ، خدائی مدد اور عقل تین کلیدیں ہیں۔

لیکن ایسا کیوں اور کیسے ہے؟ یہ کیسا عقیدہ ہے جس میں لازمی طور پر عقل و ارادے کا استعمال ہونا چاہیے؟ میں یہ ماننے کا عادی ہوگیا تھا کہ عقیدہ مزعومہ سچائی کی توثیق و تطبیق کا نام ہے، جسے انسانوں کے ذہنوں میں ڈالا جاتا ہے۔ درحقیقت قرآن اشارہ دیتا ہے کہ دیگر مخلوقات کا فطری مزاج یا وجدان خدا کی اطاعت کرنا ہے (سورۃ الحج: 22، سورۃ النور: 41)، تاہم انسانوں کے لیے تو عقیدے کے معنی اس سے فائق تر اور پیچیدہ تر ہونے چاہئیں، تو پھر اس کے کیا معنی ہیں؟

مجھے محسوس ہوا گویا میں ایک ٹیلی ویژن کی اسکرین کے سامنے ہوں، جس کی تصویریں مسلسل کبھی واضح ہوجاتی ہیں اور کبھی دھندلا جاتی ہیں۔ بعض اوقات مجھے لگتا کہ میں مکمل تصویر دیکھنے کے قابل ہوں، لیکن اگلے ہی لمحے کسی دوسرے زاویے سے عکس مبہم ہوجاتاہے۔ زمین پر انسانی مصائب میرے لیے ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ آخر اس کا کردار ممکنہ طور پر کیا ہوسکتا ہے؟ (جاری)

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2021

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau