دنیا اپنی تاریخ میں جتنی مذہبی تھی، جدید دور میں اس سے کہیں زیادہ مذہبی ہو گئی ہے۔ آپ اس دعوے پر یقین کریں یا نہ کریں لیکن روڈنی اسٹارک (Rodney Stark)اپنی کتاب The Triumph Of Faith (ایمان کی فتح) میں یہی کہتے ہیں۔ روڈنی اسٹارک کئی بیسٹ سیلر کتابوں کے مصنف اور بیلر یونیورسٹی، ٹیکساس میں مذہبی سماجیات کے پروفیسر ہیں۔
ڈیڑھ صدی سے کچھ کم عرصہ گزرا ہے کہ فریڈرک نیطشے نے ’خدا کی موت‘ کا اعلان کیا تھا۔ اس کا یہ جملہ کہ ’’خدا مر چکا ہے‘‘ انیسویں صدی سے آج تک جدید فلسفے کا معروف ترین جملہ سمجھا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کسی مافوق الفطرت ہستی کے ذریعے نہیں چلائی جا رہی ہے، بلکہ چند طبیعیاتی قوانین کے ذریعے کائنات کا نظا م چل رہا ہے۔
یہ جملہ ملحدین کے افکار کی اساس قرار پایا اور اس کی بنیاد پر ہر روز یہ دعوی فخر کے ساتھ کیا جانے لگا کہ دنیا سیکولرزم (لادینیت) کی طرف بڑھ رہی ہے اور لادینیت کو ماننے والوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن روڈنی اسٹارک کی مذکورہ کتاب ان کے اس دعوے کی نہ صرف نفی کرتی ہے، بلکہ دلائل و شواہد کے ذریعے یہ ثابت کرتی ہے کہ دنیا اتنی مذہبی شاہد پہلے کبھی نہیں رہی ہو، جتنی اب ہو گئی ہے۔
روشن خیالی کا دور آیا تو سیکولرزم (لادینیت) کے علم برداروں نے جدیدیت کے سہارے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ انھوں نے انسان کی گردن سے مذہب کا ’طوق‘ ہٹا کر اس کو’دورِ ظلمات‘سے رہائی عطا کردی ہے۔ روڈنی اسٹارک کہتے ہیں کہ روشن خیالی کے دور میں اس کے نمائندہ گردانے جانے والے اکثر فلاسفہ نے کوئی علمی کارنامہ انجام نہیں دیا اور جان بوجھ کر اس حقیقت سے چشم پوشی کی گئی کہ سائنسی اکتشافات کرنے والوں سائنس دانوں میں سے اکثریت کا تعلق مذہب سے تھا، یا یہ کہ وہ مذہبی لوگ تھے۔ مثال کے طور پر اسحاق نیوٹن کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس نے لاہوتی مسائل پر طبیعیاتی مسائل سے زیادہ بحث کی ہے۔ اسی طرح’سائنسی انقلاب‘(۱۵۴۶۔ ۱۶۸۰ء) کے زمانے کے ۵۲ سائنس دانوں کے بارے میں ایک جدید تحقیق یہ کہتی ہے کہ ان میں سے بیشتر مذہبی تھے۔ صرف ایڈمنڈ ہالی (Edmond Halley) واحد سائنس داں تھا جو بے دین تھا۔
کتاب بنیادی طور پر اس سوال کا جواب فراہم کرتی ہے کہ موجودہ دنیا پہلے سے زیادہ مذہبی کیوں ہے؟ یہ سوال اور اس کا جواب لازمی طور پر اس پروپیگنڈے کے برخلاف ہے کہ موجودہ دنیا عقیدہ و مذہب سے بے زار ہے اور خود کو مذہب سے آزاد کر رہی ہے۔ مغربی مورخین و محققین کے حلقوں میں یہ نظریہ قبول عام حاصل کر چکا ہے کہ سیکولرزم نے دنیا سے مذہب کا صفایا کر دیا ہے۔ اس دعوے کی دلیل میں سیکولر طبقے نے جن دلائل کو پیش کیا ہے، روڈنی اسٹارک انھیں شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’وہ مختلف اعداد و شمار جو مذہبیت کے انحطاط کی بات کہتے ہیں، غلط ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب کے مفہوم کو اُن باقاعدہ مذہب سمجھے والے ادیان تک محدود کر دیا گیا ہے جو کسی عقائدی نقطۂ نظر کے پابند ہیں۔ لیکن اس مذہبی قوت دافعہ کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جو کسی مخصوص عقائدی نقطہ نظر سے آزاد ہے۔ (اسی طرح ان اعداد وشمار میں) مذہب سے وابستگی ظاہر کرنے والے ظاہری عوامل کو نگاہ میں رکھا گیا ہے۔ ‘‘
روڈنی اسٹارک نے پہلے پوری دنیا کی مذہبی صورت حال کا نقشہ کھینچتے ہوئے ایک عمومی رپور ٹ پیش کی ہے۔ اس کے بعد یوروپ ولاطینی امریکہ، عرب و مسلم ممالک، افریقہ، جاپان، چین، ایشیائی شیر کہے جانے والے ممالک یعنی سنگاپور، ہونگ کونگ، تائیوان، جنوبی کوریاکے علاوہ ہندستان کی مذہبی صورت حال پیش کی ہے۔ آخر میں امریکہ کے مذہبی حالات بیان کیے ہیں۔ انھوں نے شواہد کے طور پرایک سروے سے حاصل ہونے والی معلومات پیش کی ہیں۔ یہ سروے ۲۰۰۵ء میں گیلپ ورلڈ پول کی جانب سے ۱۶۳ ممالک میں کیا گیا تھا، جس میں ایک لاکھ لوگوں نے شرکت کی تھی۔ اس سروے نے اپنی رپورٹ میں یہ بات کہی تھی کہ پانچ میں سے چار افراد نے عقیدے کے اعتبار سے اپنا تعلق کسی باقاعدہ مذہب سے ظاہر کیا تھا۔ باقی ماندہ ’پانچویں‘ میں سے بھی اکثر وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنا تعلق ایسے عقائد سے بتایا تھا جو کسی باقاعدہ مذہب کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کی ۸۱ فی صدآبادی صراحت کے ساتھ اپنا تعلق کسی مذہب یا عقیدے سے جوڑتی ہے۔ اسی سروے رپورٹ کے مطابق مذاہب کو ماننے والوں میں ۵۰ فی صد اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ ہفتے میں کم از کم ایک بار اجتماعی طور پر مذہبی عبادات میں شریک ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلا نمبر عالم اسلام کا ہے۔ اس میں بھی سرفہرست مغربی افریقہ کا ایک چھوٹا سا ملک’سیرالیون‘ ہے، جہاں کی مسلم آبادی ۶۲ فی صد اور عیسائی آبادی ۲۸ فی صد ہے۔ اس ملک کے ۸۸ فی صد لوگوں نے ہفتہ وار اجتماعی عبادات میں شرکت کرنے کا اعتراف کیا۔ دوسرے نمبر پر افریقہ کا ہی ایک ملک ’جیبوتی‘ ہے، جہاں کی ۸۴ فی صد آبادی نے یہی بات کہی ہے۔ تیسرے نمبر پر بالترتیب بنگلہ دیش (۸۲ فی صد)، کویت (۸۱ فی صد)، اور انڈونیشیا (۸۰ فی صد ) ہیں۔ کتاب میں اس سروے کے حوالے سے کچھ اور بھی اعداد و شمار دیے گئے ہیں۔ مثلاً سروے میں شامل افراد میں سے ۸۴ فی صد نے یہ کہا کہ مذہب کا ان کی زندگی میں اور وسائلِ معیشت کو اختیار کرنے یا نہ کرنے میں بہت اہم کردار ہے۔ ۵۶ فی صد نے یہ کہا کہ دنیا کے معاملات اللہ کی مرضی و اقتدار سے طے پارہے ہیں۔ اسٹاک لکھتے ہیں : ’’ان تمام حقائق کے باوجود میڈیا پابندی سے امریکہ اور بیرون امریکہ مذہب کی پسپائی کے ‘شواہد‘ پیش کرتا رہتا ہے۔
پیو ریسرچ سنٹر نے مذہب کی بنیاد پر جو زمینی سروے کیا ہے، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پیو کے مذہبی شعبے کے ڈائرکٹر کوپرمین کا دعویٰ ہے کہ امریکہ مجموعی اعتبار سے غیر مذہبی، یعنی بے دین یا مذہب بے زار ہوتا جا رہا ہے۔ پیو کی اس رپورٹ کو گمراہ کن اور یکسر غلط قرار دیتے ہوئے اسٹارک لکھتے ہیں کہ ’’صرف اس ایک حقیقت پر غور کرلیں کہ مذہب سے اظہار لاتعلقی کرنے والے امریکیوں کی بھاری اکثریت عبادت بھی کرتی ہے اور فرشتوں کے وجود پر ایمان بھی رکھتی ہے۔ یہ کس قسم کی لادینیت ہے؟‘‘
لادینیت کا اعلان و اقرار کرنے والے ممالک، مثلاً چین، ویتنام اور جنوبی کوریا میں سروے کے دوران جوابات دینے والوں کی صرف ۲۰ فی صد تعداد نے یہ کہا کہ وہ مذہب کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ویتنام میں محض ۵ فی صد لوگو ں نے اپنے ملحد ہونے کا اقرار کیا، جب کہ چین اور کوریا میں بھی محض ۲۰ فی صد لوگوں نے ہی اپنے تعلق سے ملحد ہونے کا اعتراف کیا۔ حالانکہ چین کے بارے میں جو اعداد و شمار سروے میں دیے گئے ہیں، انھیں ہم بالکل درست نہیں کہہ سکتے۔ یعنی اس بات کا امکان ہے کہ چین میں خود کو ملحد بتانے والوں کی تعداد سروے رپورٹ میں بیان کی جانے والی تعداد سے بھی کم ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین اپنے یہاں سروے کرنے والی غیر ملکی ایجنسیوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے، خاص طور سے اگر سروے مذہب سے تعلق کے ضمن میں کیا جا رہا ہو۔ چنانچہ وہاں کے جو اعداد و شمار رپورٹ میں بیان کیے گئے ہیں، وہ سروے رپورٹ کے نہیں، بلکہ ایک چینی ایجنسی کے فراہم کردہ ہیں، جس نے ۲۰۰۷ء میں ایک سروے سے یہ نتائج حاصل کیے تھے۔ چینی حکومت کے اسی رویے کی وجہ سے چین میں کوئی آزاد سروے مذہب کی بنیاد پر نہیں ہو پایا۔ اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسٹارک نے یہ با ت لکھی ہے کہ گزشتہ صدی کے پچاس کے عشرے میں چین کے اندر عیسائیوں کی تعداد پانچ لاکھ تھی، لیکن اِس وقت تقریباً ایک کروڑ ہے: ممکن ہے چین جلد ہی عیسائی اکثریت کا گڑھ بن جائے۔ اسی طرح لاتینی امریکہ میں مذکورہ عشرے کے دوران محض ۲۰ فی صد عیسائی ہی عشائے ربانی کی رسم میں شریک ہوتے تھے، جب کہ اس وقت اس کا تناسب ۵۰ فی صد کا ہے۔
روڈنی اسٹارک کا یہ بھی کہنا ہے کہ لادینیت کے فروغ کے سلسلے میں جو تحقیقات پیش کی گئی ہیںان میں غیر جانب داری سے کام نہیں لیا گیا ہے۔ انھوں نے مثال کے طور پر روس کو پیش کیا ہے۔ روس وہ ملک ہے جس نے ’مذہبی اوہام‘ سے آزاد’ بے دین‘ لوگوں کی تعداد میں اضافے کے لیے اپنے طلبہ پر ’سائنسی الحاد‘ کی تعلیم کو ناگزیر کر دیا تھا۔ لیکن ساٹھ سالہ تلقینِ الحاد بھی روس کو اس کی مراد نہیں دلا سکی۔ چنانچہ ۱۹۹۰ء میں محض ۶۔ ۶ فی صد نے ہی اپنے ملحد ہونے کی بات قبول کہی۔ یہی حال امریکہ کا ہے، جہاں صرف ۴۔ ۴ فی صد لوگوں نے اپنے سلسلے میں الحاد کا اعتراف کیا ہے۔
جو لوگ کسی باقاعدہ مذہب سے وابستہ نہیں ہیں، لیکن کسی بھی طرح کے غیبی عقائد و تصورات رکھتے ہیں، ان کو بھی اسٹارک نے لادینی طبقے سے الگ رکھ کر انھیں بہر حال مذہبی رجحان رکھنے والوں میں شمار کیا ہے۔ مثال کے طور پروہ کہتے ہیں کہ روس میں روحانی علاج کرنے والوں کی تعداد جدید ڈاکٹروں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ فرانس جو کہ مکمل طور پر سیکولر ریاست ہے، وہاں کے ۳۸ فی صد لوگ علم نجوم پر یقین رکھتے ہیں۔ سویٹزرلینڈ میں ۳۵ فی صد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قسمت کا حال بتانے والے غیب کے حالات سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔
دراصل لادینیت کے اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والوںنے محض ظواہر کی بنیاد پر اپنی رائے قائم کی ہے۔ یعنی اگر کسی ملک میں چرچ کی زیارت کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے، یا نہ کے برابر ہے، اس ملک کو انھوں نے بے دین شمار کر لیا ہے۔ حالانکہ یہ اپروچ غلط اور حقائق سے آنکھیں موندنے کا نتیجہ ہے۔ مثال کے طور پر آئس لینڈ کو محققین لادینیت کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک قرار دیتے ہیں، اس لیے کہ وہاں انھیں لوگ مذہبی عبادت گاہوں کی طرف جاتے ہوئے نظر نہیں آتے، حالانکہ وہاں کی ۳۴ فی صد آبادی تناسخ ارواح کے عقیدے پر ایمان رکھتی ہے اور ۵۵ فی صد ’مخفی روح‘ کو مانتے ہیں۔
اسٹارک نے دنیا کے بڑے مذہب میں سے ایک ’اسلام‘ کے سلسلے میں کچھ اہم باتیں بھی بیا ن کی ہیں۔ عیسائیت اور اسلام کے درمیان موازنہ کیا ہے۔ عالمی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافے کو تسلیم کرتے ہوئے اس نے لکھا ہے کہا اسلام کے بالمقابل عیسائیوں کی تعدادجو کہ ابھی دو ارب دوکروڑ ہے، اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس وقت مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب ہے۔ اس کی وجہ انھوں نے ایک تو یہ بتائی ہے کہ عیسائیوں کے اندر شرح پیدائش اور افزائش نسل کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، جب کہ مسلمانوں کے درمیان شرحِ پیدائش میں گرواٹ آئی ہے۔ دوسری وجہ یہ بیان کی ہے کہ عیسائی اپنے مذہب کی توسیع و اشاعت کے مشنریز کا سہارا لیتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان شرحِ پیدائش کی گراوٹ کے ضمن میں انھوں نے ایران، شام اور اردن کے نام پیش کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں : ’’اسلام اگرچہ اتنی تیزی سے نہیں بڑھ رہا ہے جس تیزی سے عیسائیت بڑھ رہی، تاہم اسلام کے ماننے والوں کی اسلام سے وابستگی کی سطح گزشتہ چند صدیوں کی بنسبت بلند ہوئی ہے۔ ‘‘
سروے ایجنسیوں کی گمراہ کن تحقیقات کے مقابلے میں اسٹارک نے جو کچھ بھی تحقیق پیش کی ہے، اس کے بارے میں وہ کہتے ہیں : ’’میں جو بھی اہم دعویٰ کرتا ہوں وہ انتہائی محتاط انداز میں پیش کردہ نستحک۔ و مضبوط شواہد پر مبنی ہوتا ہے۔ مثلا حج کی ادائیگی کے لیے مکہ آنے والے مسلمانوں کی تعداد میں زبردست اضافے کی تصدیق ان سالانہ اعدادوشمار سے ہوتی ہے جنھیں سعودی عرب کا امیگریشن آفس ہر سال شائع کرتا ہے۔ اسی طرح سنگاپور میں عیسائیوں کی تعداد سنگاپور کے سرکاری اعداد و شمار سے لی گئی ہے۔ ‘‘
ایک اہم بات یہ کہی ہے کہ اگرچہ مذہب کے بارے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ کی تفصیلات مختلف ہیں، تاہم کہانی سب جگہ کی ایک ہی ہے، یعنی مندر، مساجد، مٹھ، بڑے گرجا گھر اور چرچ لوگوں سے بھرے رہتے ہیں۔ یہاں تک جو کبھی ان عبادت گاہوں میں نہیں جاتے وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ وہ مذہبی، یعنی مذہب کے پیرو ہیں۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2019