زینب الغزالی – مفسرۂ قرآن

مخالفینِ اسلام اور خاص طورپر اہلِ مغرب کی جانب سے یہ بات بڑے زور و شور سے کہی جاتی رہی ہے کہ اسلام نے حصولِ علم کے میدان میں عورت کی حوصلہ شکنی کی ہے اور اسے تعلیم وثقافت کی مجلسوں سے دور رکھاہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام کی پوری تاریخ میں علوم وفنون کے ارتقا میں مسلمان عورت کا کوئی قابل ذکر کردار نظرنہیں آتا، دینی علوم ہوں یا طبیعیاتی علوم، دونوں میدانوں میں وہ حاشیہ پر نظرآتی ہے اور کہیں بھی اس کی موجودگی نظر نہیں آتی۔ یہ بات اتنی قوت اور تسلسل سے کہی جاتی رہی کہ اسے ایک ثابت شدہ حقیقت تسلیم کرلیاگیا اور اس کے نقد و جائزہ اور محاکمہ کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ حالانکہ اسلام نے حصول علم کے معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیاہے۔ مردوں کی طرح عورتیں بھی تمام طرح کےعلوم حاصل کرسکتی ہیںاور اپنی علمی و عقلی صلاحیتوں سے سماج اور انسانیت کو فائدہ پہنچاسکتی ہیں۔ صدر اول میں خواتین نے اس میدان میں سرگرم کردار انجام دیا ہے۔ بعد کی صدیوں میں اگر ان کا کردار محدود ہوگیا اور وہ پس پردہ چلی گئیں تو اس کا قصوروار اسلامی تعلیمات کو قرار دینے کے بجائے اس کے اسباب ان تمدنی اور سماجی حالات میں تلاش کرنے چاہئیں جو اس کے ذمہ دار ہیں۔

بہ ہرحال اس وقت ہم قرآن کریم کی ایک ایسی تفسیر کا تعاف پیش کرتے ہوئے خوشی و مسرت محسوس کررہے ہیں، جو ایک خاتون کی علمی وذہنی کاوش کانتیجہ ہے۔ ہماری مراد عصرحاضر میں سرزمینِ مصر سے تعلق رکھنےوالی عظیم داعیہ و مجاہدہ زینب الغزالی الجبیلی (م ۲۰۰۵) کی تفسیر ’نظرات فی کتاب اللہ‘ سے ہے۔

زینب الغزالی کی ولادت جنوری ۱۹۱۷ء میں مصر کے ایک گائوں میںہوئی۔ ان کے والد علمائے ازہر میں سے تھے۔ انھوںنے ان کی بہت اچھی دینی تربیت کی۔ وہ ان کے سامنے نام ور صحابیات کے واقعات بہت اثرانگیز انداز میں بیان کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انھوںنے زینب کے سامنے مشہور صحابیہ حضرت نُسیبہ بنت کعب المازنیہؓ، جنھوںنے غزوہ اُحد میں نہایت بے جگری سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیاتھا، نام ور عرب خاتون باحثہ البادیہ اور آزادی ٔ نسواں کی علم بردار مصری خاتون ھُدیٰ شعراوی کے حالات بیان کیے، پھر سوال کیاکہ تم ان میں سے کس کو اپنا نمونہ بنائوگی؟ زینب نے فوراً حضرت نُسیبہؓ کا نام لیا۔ ابھی زینب گیارہ سال کی تھیں کہ والد کا سایہ ان کے سر سے اٹھ گیا۔

زینب الغزالی نے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ذاتی طورپر علمائے ازہر سے بھی کسبِ فیض کیا۔ ان کے اساتذہ میں شیخ عبدالمجید اللّبان، شیخ محمد سلیمان  النجار اور شیخ علی محفوظ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ ابتدا میں زینب کا تعلق ہُدیٰ شعراوی کی قائم کردہ تنظیم الاتحاد النسائی سے ہوگیا، جو آزادیٔ نسواں کے میدان میں بہت سرگرم تھی، لیکن جلد ہی انھوںنے اس سے علیٰحدگی اختیار کرلی اور ۱۹۳۷ء میں جمعیۃ السیدات المسلمات قائم کی۔ اس وقت ان کی عمر صرف بیس سال تھی۔ اس تنظیم نے مصری خواتین کی دینی تربیت و اصلاح کے میدان میں اہم خدمات انجام دیں۔ پورے مصر میں اس کی شاخیں قائم تھیں۔السیدات المسلمات کے نام سے اس کا ایک مجلّہ نکلتاتھا، جو خواتین کے درمیان بہت مقبول تھا۔ اس تنظیم کی خدمات ربع صدی کے عرصہ کو محیط ہیں۔ اس سے وابستہ خواتین کی تعداد تیس لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ زینب مسجد ابن طولون میں ہر ہفتہ خواتین کے درمیان قرآن مجید کادرس دیا کرتی تھیں، اس میں تین ہزار سے پانچ ہزار تک خواتین شریک ہوتی تھیں۔

اسی زمانے میں مصر میں اخوان المسلمون کے نام سے ایک تحریک ابھری، جسے نوجوانوں میں بہت مقبولیت حاصل تھی۔ اس کے بانی حسن البناشہیدؒ نے خواتین میں کام کرنے کے لیے ایک الگ شعبہ قائم کیا تو ان کی خواہش ہوئی کہ زینب الغزالی اپنی الگ تنظیم ختم کرکے اخوان کے شعبۂ خواتین ’الاخوات المسلمات‘ کی ذمہ داری سنبھال لیں۔ اس وقت موصوفہ اپنی تنظیم کی مجلس شوریٰ سے مشورے کے بعد اسے توڑنے پر آمادہ نہ ہوئیں۔ بعد میں جب شاہ فاروق کے دور میں پہلی مرتبہ اخوان حکومتی عتاب کا شکار ہوئے تو زینب الغزالی نے حالات کی نزاکت کو دیکھتےہوئے سیدات مسلمات کو ختم کرکے اخوات المسلمات کی قیادت کے تحت کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس وقت امام حسن البناؒ نے دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے موصوفہ کو مشورہ دیاکہ وہ اپنی علیحدہ تنظیم قائم رکھیں، اس لیے کہ مستقبل میں اس کا علیٰحدہ وجود ضروری ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہواکہ ۱۹۴۸ء میں اخوان کو جب خلافِ قانون قرار دیاگیا، پھر جب ۱۹۵۴ء میں جمال عبدالناصر کے زمانے میں اخوان پر دوبارہ کاری ضرب لگائی گئی توان حالات میں سیدات مسلمات ہی واحد تنظیم تھی جو میدان میں سرگرم عمل تھی اور قیدو بند کا شکار اخوان کے خاندانوں کو سہارا دے رہی تھی۔ اس وقت پورے مصر میں اس کی ایک سو بیس شاخیں تھیں اور غریب اور ضرورت مند خاندانوں کی مالی امداد اس کاشعار تھا۔ آخرکار جمال عبدالناصر نے ۱۹۶۴ء میں السیدات المسلمات پر بھی پابندی عائد کردی اور زینب الغزالی کو داخلِ زنداں کردیا۔ جیل میں ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے اور تشدد اور ایذا رسانی کا ہر حربہ آزمایاگیا، لیکن ان کے پائے ثبات میں ذرا بھی لرزش نہ آئی اور وہ صبرو عزیمت کا پہاڑ بنی رہیں۔ انھیں پچیس سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی، مگر چھ سال کے بعد ۱۹۷۱ء میں انور السادات کے زمانۂ صدارت میں رہائی مل گئی۔

جیل سے رہائی کے بعد زینب الغزالی اخوان کے ترجمان الدعوۃ میں خواتین اوربچوں کے کالم کی ایڈیٹر رہیں۔ انھوںنے دعوت و اصلاح، خواتین کی ذمہ داریاں اور دائرۂ کار ، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے مسائل اور دیگر تحریکی موضوعات پر خوب لکھا۔ ان کی متعدد کتابیں اور مقالات کےمجموعے شائع ہوچکے ہیں اور مختلف زبانوں میں ان کا ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔

زینب الغزالی کے علمی کاموں میں سب سے زیادہ اہمیت ان کی تفسیر ’نظرات فی کتاب اللہ‘ کو حاصل ہے۔اس کا شمار بیسویں صدی عیسوی میں دعوتی و تحریکی اسلوب میں لکھی جانے والی اہم تفسیروں میں ہوتا ہے۔ لیکن ایک دوسرے پہلو سے بھی اس کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ غالباً یہ کسی خاتون کے قلم سے لکھی جانے والی واحد مکمل تفسیر ہے۔ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں یہ شرف اور کسی خاتون کو حاصل نہیں ہواہے۔ جیل کی تنہائیوں میں قرآن کریم ہی زینب الغزالی کا روحانی سہارا تھا۔ وہ تلاوت قرآن کے دوران برابر اس کے معانی میں غور وخوض کرتی رہتیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ ان پر القا کرتا اسے مصحف کے حواشی اور بین السطور میں لکھ لیتیں۔ جیل سے رہائی پر ان کا وہ مصحف تو انھیں نہیں مل سکا، لیکن بعد میں جب انھوںنے تفسیر لکھنی شروع کی تو حافظہ پر زور دے کر ان معانی و افکار کا استحضار کیا اور انھیں اپنی تفسیر میں شامل کیا۔ محترمہ غزالی گزشتہ صدی کی نویں دہائی کے اوائل ہی میں اس تفسیر کو مکمل کرچکی تھیں۔ جامعہ ازہر کے استادِ تفسیر ڈاکٹر عبدالحی الفرماوی نے اس کا مراجعہ کیا اور اس کی پہلی جلد (۷۱۱؍ صفحات) جو سورۂ ابراہیم تک کی تفسیر پر مشتمل تھی، دارالشروق قاہرہ سے ۱۹۹۴ء ؍ ۱۴۱۴ھ میں شائع ہوئی۔ بعد میں اس کے مالک الاستاذ محمد المعلم کے انتقال کے بعد دوسری جلد شائع نہیں ہوسکی تھی۔ ابھی حال میں مکمل تفسیر (۱۳۰۰؍صفحات) کی اشاعت دارالتوزیع و النشر الاسلامیۃ قاہرہ سے ہوئی ہے۔

تفسیر ’نظرات فی کتاب اللہ‘ کی امتیازی خصوصیات کو درج ذیل نکات کی شکل میں بیان کیاجاسکتا ہے:

۱۔             اس تفسیر میں قدیم ماثور کتبِ تفسیر سے استفادہ کیاگیاہے، مثلاً تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر ابی سعود وغیرہ۔ خاص طور سے محترمہ نے تفسیر ابن کثیر سے اپنے گہرے تاثر کا اظہار کیا ہے۔ جدید تفسیروں میں تفسیر آلوسی اور تفسیر قاسمی سے استفادہ کیا ہے۔ تفسیر رازی بھی ان کے پیش نظر رہی ہے۔ سید قطب کی تفسیر ’فی ظلال القرآن‘ کا بھی وہ جابہ جا حوالہ دیتی ہیں، بلکہ دعوتی اور ادبی اسلوب دونوں میں قدرمشترک ہے۔

۲۔           یہ تفسیر، ماثور تفسیر کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ آیات کی تفسیر میں اسی مضمون کی دیگر آیات پیش کی گئی ہیں، صحیح احادیث اور اقوال صحابہ کی روشنی میںتشریح کی گئی ہے اور تائید میں تابعین اور علمائے سلف کے حوالے دیے گئے ہیں۔ مثلاً سورۂ بقرہ کے آغاز میں ’تقویٰ‘ کی تشریح میں پہلے سورۂ آل عمران کی ایک آیت پیش کی ہے، پھر ایک حدیث نقل کی ہے اور آخر میں حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کے اقوال ذکر کیے ہیں۔

۳۔           اس تفسیر میں عموماً لغوی اور تاریخی تفصیلات اور فقہی اختلافات سے گریز کیاگیا ہے اور آیات کے عام مفہوم پر اکتفا کیاگیا ہے۔ مثلاً آیت  حَافِظُواْ عَلَی الصَّلَوٰتِ والصَّلوٰۃِ الْوُسْطَیٰ (البقرہ:۲۳۸) کی تفسیر میں محترمہ نے لکھاہے:

’’صلوٰۃ وسطیٰ سے کون سی نمازمراد ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خود اسے متعین نہیں کیاہے، تاکہ مسلمان تمام نمازوں کی حفاظت کریں۔ کون سی نماز دوسری نمازوں سے افضل ہے؟ اس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔‘‘

۴۔           اس تفسیر کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں آیات کی تفسیر حالاتِ حاضرہ سے جوڑکر کی گئی ہے۔ مثلاً سورۂ بقرہ کی آیات (۲۶۱۔۲۷۴) میں تفصیل سے انفاق اور صدقہ و خیرات کا تذکرہ ہوا ہے، پھر سود کی حرمت بیان کی گئی ہے۔ (آیات ۲۷۵۔ ۲۷۶) اس کے بعد زکوٰۃ ادا کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے اجرو انعام کا وعدہ کیاگیا ہے۔ (آیت ۲۷۷) اس ذیل میں محترمہ نے لکھاہے:

’’ہمارے درمیان اب فریضۂ زکوٰۃ کی ادائی میں بہت زیادہ لاپروائی ہونے لگی ہے اور یہ چند نیک لوگوں کا انفرادی عمل بن کر رہ گیا ہے، جسے وہ کھلے یا چھپے انجام دیتے ہیں اور سود پر مبنی نظام کی تاریکیاں سماج میں چھاگئی ہیں، جن میں لوگ ٹامک ٹوئیاں مار ررہے ہیں اور اس کے کڑوے کسیلے پھل کھارہے ہیں۔‘‘

۵۔           دیگر تفسیروں کے مقابلے میں اس تفسیر کاایک امتیاز یہ ہے کہ یہ ایک خاتون کی تحریر کردہ ہے۔ اسی لیے اس میں حقوق نسواں سے تعلق رکھنے والی آیات کی عمدہ تفسیر ملتی ہے اور قاری کے سامنے نسائی اپروچ نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے۔ مثال کے طورپر سورۃ البقرۃ: ۲۳۴ میں جن عورتوں کے شوہروں کی وفات ہوجائے ان کی عدّت چار ماہ دس دن بیان کی گئی ہے، اس کی تفسیر میں محترمہ لکھتی ہیں کہ ’’حاملہ عورت کا حکم اس سے مختلف ہے۔ اگر شوہر کی وفات کے چند دنوں کے بعد وضع حمل ہوجائے تو اس عورت کی عدّت مکمل ہوگئی۔ اب وہ آزاد ہے، سوگ کا لباس پہننا ضروری نہیں، وہ اب زیب و زینت اختیار کرسکتی اور دوسری شادی کی خواہش کا اظہار کرسکتی ہے۔ اس کے اس رویے پر ہمیں اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔‘‘ تائید میں انھوںنے حضرت سبیعہ الاسلمیہؓ (بیوہ حضرت سعد بن خولہؓ) کا واقعہ نقل کیاہے کہ ان کے شوہر کی وفات کے چند دنوں کے بعد ان کا وضع حمل ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایاکہ تمھاری عدّت پوری ہوگئی۔ اب اگر تم چاہوتو دوسرا نکاح کرسکتی ہو۔ (مسلم)

۶۔           حقیقت میںیہ ایک دعوتی تفسیر ہے۔ محترمہ نے قرآن کریم کے معانی اور احکام کو حالاتِ حاضرہ سے جوڑکر بیان کیاہے۔ وہ مسلمانوں میں پائی جانے والی کم زوریوں کی نشان دہی کرتی ہیں اور اللہ کے دین کی طرف رجوع کرنے اور کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کو ان کا علاج بتاتی ہیں۔ فرد کی اصلاح و تربیت، خاندان اور سماج کی صالح بنیادوں پر تعمیر اور امت مسلمہ کی تشکیل کا پہلو کبھی ان کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوتا۔ گزشتہ قوموں کے واقعات اور خاص طورپر اہل کتاب سے متعلق آیات کی تشریح و تفسیر کرتے ہوئے وہ مسلمانوں کے لیے درس وعبرت کے پہلو کو ضرور نمایاں کرتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ مرحومہ زینب الغزالی کو جزائے خیرعطا فرمائے۔ انھوںنے فہم قرآن کے میدان میں ایک اہم خدمت انجام دی ہے اور ثابت کردیاہے کہ اسلامی علوم کے فروغ و ارتقا میں خواتین کا کردار مردوں سے فروتر نہیں ہے۔ کاش کوئی باہمت نوجوان اس تفسیر کا اردو ترجمہ کردے، تاکہ اردو خواں طبقہ بھی اس سے بھی بہ آسانی استفادہ کرسکے۔

مشمولہ: شمارہ نومبر 2013

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223