غزہ کے خلاف جنگ کے معاملے میں نتنیاہو اور اس کا حکمراں الائنس ایسی ’’ڈھٹائی کی حالت‘‘ سے دوچار ہے جو اسرائیلی وجود پر اس سے پہلے کبھی نہیں گزری۔ غاصب ریاست کے حکم رانوں کو ہزیمت اور ناکامی کی عادت نہیں رہی، کیوں کہ ان کے پاس ’’کام یابیوں‘‘ اور علاقائی اور عالمی سطح پر اپنی بالادستی تھوپنے کا طویل تاریخی ریکارڈ رہا ہے۔ پھر انھیں یہ خوش گمانی بھی ہو چلی تھی کہ اب وہ گھڑی آپہنچی ہے جب فلسطینی فائل بند کردی جائے گی اور پورا علاقہ ’’امریکی اسرائیلی‘‘ عہد میں داخل ہو جائے گا۔
نتنیاہو، جو خود کو اسرائیل کا بے تاج بادشاہ سمجھنے لگا تھا، اب بھی اس حقیقت کو قبول کرنے سے قاصر ہے کہ اس کی فوج کو قسام بریگیڈ، سرایا قدس اور دیگر “کم زور” مزاحمتی قوتوں کے ہاتھوں بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس وقت، وہ اور اس کی حکومت ایک بڑے گیپ کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کی خواہشات اور مقاصد ایک طرف ہیں، جب کہ حقیقت کی دنیا میں انھیں حاصل کرنے کی صلاحیت اور امکانات دوسری طرف ہیں۔ دن بدن، ان دونوں کے درمیان فاصلے میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ ڈھٹائی اور بے عملی کا یہ ماحول مزید بدحواسی اور بے سمتی کو جنم دے رہا ہے۔ جتنا زیادہ وقت “پیڑ سے نیچے اترنے” میں صرف ہوگا، اتنی ہی زیادہ قیمت اور نقصان بھی بڑھتا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر کو براہ راست مداخلت کرنے پر مجبور ہونا پڑا تاکہ حماس کے ساتھ ایک مؤثر ڈیل کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ بعض تجزیہ کاروں کے بقول یہ ’’اسرائیل کو خود اسی سے بچانے‘‘ کی کوشش ہے۔
۱۔ اہداف کی حصول یابی میں ناکامی
اسرائیلی بدحواسی کی کیفیت کے کئی مظاہر سامنے آ رہے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں یہ ہے کہ غاصب اسرائیل جنگ کے اعلان کردہ اہداف میں سے کسی ایک بھی ہدف کے حصول میں ناکام رہا ہے، حالاں کہ یہ اہداف بیان کیے ہوئے گیارہ مہینے گزر چکے ہیں۔ چاہے وہ حماس کو کچلنے کا ہدف ہو، غزہ پٹی پر قبضے کا مقصد ہو، یرغمالیوں کی آزادی کا معاملہ ہو یا جنگ کے بعد کی صورت حال کا تصور ہو، فلسطینیوں کو ملک بدر کرنے کی کوشش ہو، کوئی بھی ہدف حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ حالاں کہ اسرائیل نے وحشیانہ قتل و بربریت اور تباہی کے تمام طریقے آزما لیے ہیں اور دوسری طرف مزاحمت نے بہادری کی ایک افسانوی تاریخ رقم کی ہے۔
اس ناکامی کے ساتھ ہی تین نمایاں مفروضے ساقط ہوگئے جن پر غاصب اسرائیل نے اپنی امیدیں استوار لی تھیں:
حماس اور مزاحمت کو روند ڈالنے کا مفروضہ
عوامی آغوش کو الگ تھلگ کرںے اور اسے مزاحمت دشمن ماحول میں تبدیل کرنے کا مفروضہ۔
مزاحمت کو ناتواں کرنے کے لیے وقت کے عامل پر انحصار کرنے کا مفروضہ۔
نہ تو مزاحمت کم زور ہوئی ہے، نہ عوامی حمایت نے مزاحمت سے دست برداری اختیار کی ہے بلکہ یہ اور بھی زیادہ مضبوطی سے اس سے جڑ گئی ہے۔ گیارہ مہینے گزرنے کے بعد بھی مزاحمت کی کارکردگی پہلے دن کی طرح اعلیٰ اور شاندار ہے، اور اس میں ذرا بھی کمی نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ غاصب اسرائیل بے بسی اور بدحواسی کی تصویر بن کر رہ گیا ہے۔ غصے اور ڈھٹائی کی کیفیت اسے جنگ جاری رکھنے پر مجبور کر رہی ہے، لیکن اس کے نتیجے میں بدحواسی اور بے سمتی کے سوا کچھ نہیں مل رہا۔
۲۔ ذخیرہ اہداف کا ختم ہوجانا
ایک طرف اہداف کی حصولیابی میں واضح ناکامی ہے، تو دوسری طرف ذخیرہ اہداف ختم ہو چکا ہے۔ کوئی ایسا علاقہ نہیں بچا جہاں فوجی کارروائی نہ ہوئی ہو۔ جتنے عسکری، سیکیورٹی اور شہری ٹارگٹ ہو سکتے تھے اور جتنا انفراسٹرکچر موجود تھا، سب پر بمباری کی گئی اور انھیں نشانہ بنایا گیا۔
غاصب اسرائیل نے اس جارحیت کے دوران اپنے خفیہ وسائل، مصنوعی ذہانت اور عالمی معاہدوں کا بھرپور استعمال کیا۔ رفح پر ہونے والا حملہ بھی ناکام ثابت ہوا۔ اس وقت اسرائیلی اور مغربی سیاسی و عسکری قیادتوں پر حیرانی چھائی ہوئی ہے، کیوں کہ رپورٹوں کے مطابق اس جارحیت کے دوران اتنا اسلحہ اور بارود استعمال کیا گیا کہ یہ غزہ کو دس مرتبہ مکمل طور پر تباہ کرنے کے لیے کافی تھا، اور اس کی تباہ کاری کی صلاحیت ہیروشیما پر گرائے گئے سات ایٹم بموں کے برابر ہے۔
۳۔ حماس کی صحت یابی پر قدرت
بے شمار ثبوت موجود ہیں کہ مزاحمت کے عمل کو کنٹرول کرنے اور عوامی ماحول کی نگرانی کے معاملے میں حماس کی قوت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ کنٹرول اور قبضے کا پورا نظام ابھی بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ جن علاقوں سے غاصب نے مہینوں تک تسلط، خون خرابہ، اور تباہی مچائی اور اس گمان کے ساتھ واپس ہوا کہ اس کے اہداف پورے ہو چکے ہیں، وہاں بھی حماس نے صحت یاب ہو کر دوبارہ اقتدار سنبھال لیا۔
اسرائیلی قیادت نے اپنی آنکھوں سے شمالی اور وسطی غزہ میں اس کی مثال دیکھی ہے۔ اسرائیلی رپورٹیں یہ بتا رہی ہیں کہ شمالی غزہ میں سات ہزار سے زیادہ جنگجو مزاحمت کار ابھی بھی موجود ہیں۔ یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اسرائیل کا فوجی آپریشن بے سود رہا ہے۔ بہت سے سیاسی اور عسکری مبصرین اور ماہرین اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں۔
۴۔ داخلی بحران
اسرائیل کا داخلی بحران مسلسل بڑھتا جا رہا ہے، اور اس کا بدترین پہلو یہ ہے کہ فیصلہ سازوں، چاہے وہ اقتدار میں ہوں یا مخالف محاذ پر، کے سامنے غزہ کے ساتھ بہتر تعامل کے سلسلے میں کوئی واضح وژن یا سمت موجود نہیں ہے۔ جنگ کے بعد کی صورت حال کے بارے میں کوئی عملی اور حقیقت پسندانہ تصور نہیں ہے۔ حماس کو غزہ پر حکومت کرنے سے کیسے روکا جائے گا اور اس سے ہتھیار کیسے لیے جائیں گے، اس بارے میں کوئی قابل عمل منصوبہ نہیں ہے۔ غزہ کے نواحی علاقوں میں امن کیسے قائم کیا جائے گا، اس کا تسلی بخش جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
یہاں تک کہ بنی گانتس، جو اسرائیلی حکومت کا اگلا دعویدار ہے، اور لبید، جو موجودہ اپوزیشن لیڈر ہے، ان کے پاس بھی کوئی متبادل آئیڈیا نہیں ہے جنھیں وہ صیہونی سماج میں پیش کر سکیں۔ ہر کوئی اس نئی صورت حال کو تسلیم کرنے سے گریز کر رہا ہے جو مزاحمت نے مسلط کی ہے اور ان بھاری قیمتوں کو ماننے سے انکار کر رہا ہے جو انھیں بہرحال ادا کرنی ہیں۔
گانتس نے صورت حال سے نجات پانے کے لیے جس چھ نکاتی منصوبے کا اعلان کیا، وہ نہ تو عملی ہے اور نہ حقیقت پر مبنی، کیوں کہ وہ بھی اسی ڈھیٹ ذہنیت سے نکلا ہے، اگرچہ اس میں نتنیاہو کے موقف کے مقابلے میں خرابی کچھ کم دکھائی دیتی ہے۔
اس کی روشنی میں ہم جان سکتے ہیں کہ گانتس اور ایزنکوت کے اسرائیلی حکومت سے باہر نکلنے کا پس نظر کیا تھا، حالاں کہ وہ دونوں ہی اس سے پہلے اسرائیلی فوج کی ہائی کمان (کمانڈر انچیف) سنبھال چکے ہیں۔ اسی طرح ہم یہ بھی جان سکتے ہیں کہ نتنیاہو جنگ کونسل کو تحلیل کرنے کے لیے کیوں مجبور ہوا۔ اس بدحواسی کا ساتھ دینے کے لیے حکومت میں ایک طرح کی بد انتظامی کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ جیسے حکمراں لیکوڈ پارٹی اور فوج کے درمیان رفح میں فوج کی کاکردگی کو لے کر میڈیا میں ایک دوسرے پر الزام بازی کرنا۔ یا (چینل 14 کے نمائندے کے مطابق) نتنیاہو کا یہ کہنا کہ اسے نہیں معلوم ہے کہ جنوبی غزہ میں ٹیکٹیکل جنگ بندی کا فیصلہ کس نے جاری کیا اور عزیز دویک کی رہائی کا فیصلہ کس نے کیا۔
۵۔ معاشی بحران
غزہ پر عسکری جارحیت جاری رکھنے کے نتیجے میں اسرائیل کے بے تحاشا بڑھتے معاشی بحران اور قیمتوں میں بھاری اضافے کا کوئی علاج نظر نہیں آتا ہے۔ اس سے جنگ کو فائنانس کرنے کی قدرت پر بھی گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ مزید یہ ہے اسرائیل خطرناک قسم کے عدم استقرار کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس بحران کی تفصیلات میں جانے کی گنجائش نہیں ہے۔ اتنا کافی ہے کہ جنگ کا بل ساٹھ ارب ڈالر سے آگے بڑھ چکا ہے، سیاحت معطل ہو گئی ہے، معاشی سرگرمی ٹھپ پڑ گئی ہے، قومی آمدنی کا گراف گرتا جا رہا ہے اور سرمایہ کاریاں راہ فرار اختیار کر رہی ہیں۔
۶۔ اسرائیل فوج بری طرح تھکن سے چور ہے
اسرائیلی فوج جس تکان کا شکار ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی سیاسی اور عسکری ادارے کسی قدر بے چینی اور بدحواسی سے دو چار ہیں۔ اس پر مزید وہ کھلی ناکامی ہے جو فوج کو اپنی تاریخ کی سب سے طویل جنگ میں دیکھنی پڑ رہی ہے۔ ’حصولیابی‘ کے نام پر کچھ بھی نہیں ہے، سوائے اپنے بارے میں ایک بدترین اور قبیح ترین خونی تصویر بنانے کے جو کوئی فوج اپنے تمام تر وحشیانہ ہتھیار آزمانے کے بعد بنا سکتی ہے۔ جس کے پاس دیواروں سے سر ٹکراتے رہنے کے سوا کوئی کام نہیں بچا ہو۔
اسرائیلی فوج اپنے پے درپے بڑے خسارے چھپانے کی کوشش کر رہی ہے، تاکہ مغصوبہ زمین پر قائم صیہونی سماج پر منفی اثر نہ پڑے۔ وہ شروع سے ہی معلومات کے ذرائع کو اپنے کنٹرول میں لیے ہوئے ہے۔ تاہم وقفے وقفے سے لیک ہوکر جو خبریں آرہی ہیں وہ بتاتی ہیں کہ جانی اور مادی دونوں پہلوؤں سے کئی گنا زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ غزہ میں جارحیت کو جاری رکھنے کے لیے فوجی یونٹیں مہیا کرنا مشکل ہورہا ہے اور ریزرو فوج کے سلسلے میں بحران کا سامنا ہے، اس طرح کے بیانات تو کثرت سے آرہے ہیں۔
جس طرح صیہونی حکومت نے ریزرو افواج کی سروس کی مدت میں اضافہ کیا ہے، فوج اور کئی سیاسی پارٹیوں نے حریدیم (یہودیوں کا ایک فرقہ جو جنگ میں شامل ہونے کے لیے تیار نہیں ہے) کو جبری فوجی سروس میں داخل کرنے کی کوشش کی ہے، 96 بٹالین کے نام سے نئی فوجی بٹالین کی تشکیل کی گئی ہے جو ریٹائرمنٹ کی عمر نکل جانے والے رضاکاروں پر مشتمل ہے، جن علاقوں پر اسرائیلی فوج قبضہ کرتی ہے ان پر قبضہ برقرار نہیں رکھ پاتی ہے، یہ سب باتیں اشارہ کرتی ہیں کہ اسرائیلی فوج بری طرح تھک چکی ہے اور دلدل سے نکلنے کے لیے اس کے سامنے کسی افق کا وجود نہیں ہے۔
۷۔ عالمی الجھن
دوسری طرف، اسرائیلی حکومت غزہ پر جنگ کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر سخت ترین الجھن کی شکار ہے۔ اس سے پہلے اسے بڑے پیمانے پر اپنے زبردست عالمی رسوخ پر اطمینان تھا۔ پچہتر سال سے وہ ’’قانون سے بالاتر حکومت‘‘ کے نشے میں مست تھی۔ اس کیفیت نے اسے اس طرح دھوکے میں رکھا تھا کہ وہ بے محابا سنگین قسم کے قتل عام اور بدترین قسم کی انہدامی کارروائیوں کا ارتکاب کرتی رہی۔ دنیا کی آنکھوں کے سامنے غزہ والوں کے خلاف نسل کشی اور بھوک کی گندی جنگ اس کی شرم ناک مثال ہے۔
اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر عالمی غصہ بھڑک اٹھا۔ اسرائیل اور صیہونی لابی کی مٹھی میں موجود صحافتی، سیاسی اور مالی نفوذ کے تمام وسائل اسے روکنے میں ناکام رہے۔ اسرائیل عالمی سطح پر ایک اچھوت وجود بن گیا۔ اقوام متحدہ نے اسے بچوں کی قاتل ریاست کی کٹیگری میں ڈال دیا۔ بین الاقوامی عدالت برائے انصاف کے سامنے اسے مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔ اس کے حکم رانوں کا کیس بین الاقوامی فوج داری عدالت تک لے جایا گیا۔ غاصب ریاست اب تک اپنی ترویج کے لیے جن باتوں کا سہارا لیتی رہی اور جن کی بنیاد پر دنیا بھر میں اپنی شبیہ بنائی وہ سب ساقط ہو گئیں۔ وہ ’’تنہا مظلوم‘‘ ہے، اس کے خلاف ہر بات ’’سامی دشمنی‘‘ ہے، اسے ’’اپنی حفاظت کا حق‘‘ حاصل ہے، مشرق وسطی میں وہ تنہا ’’جمہوریت کا نخلستان‘‘ ہے، یہ سب باتیں اپنا اثر کھو چکی ہیں۔ اسرائیل اب امریکہ اور مغربی دنیا پر ایک بوجھ بن چکا ہے۔
غزہ میں جنگ ایک جال کی شکل اختیار کر گئی جس میں اسرائیل بری طرح پھنس گیا۔ اب جنگ جب تک جاری رہے گی، اسرائیل کی عالمی پوزیشن کو کھاتی اور تباہ کرتی رہے گی۔ اسی طرح مزاحمت کے حق میں ہم دردی اور تائید میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ جب کہ جنگ کا بند ہو جانا حقیقت میں اسرائیل کی اب تک کی سب سے بڑی ناکامی ہوگا اور اس صورت میں مزاحمت کو اپنی شرطیں منوانے اور اپنی فتح یابی کا اعلان کرنے کا موقع ملے گا۔
۸۔ بیرون ملک مزاحمت کی قوتیں
لبنان میں حزب اللہ کا کردار اور یمن میں انصار اللہ (حوثی) کا کردار بڑھنے کے نتیجے میں اسرائیل کا ناطقہ بند ہوتا جارہا ہے۔ یہ چیز غاصب ریاست کو کم زور کر رہی ہے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے درپے ہے۔ اگرچہ اسرائیل میں غصے اور انتقام کا ماحول ہے اور بار بار شمالی محاذ کھولنے اور پھیلانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، لیکن غاصب اسرائیل اپنی دھمکیوں کو کر گزرنے کے تعلق سے الجھن اور بے بسی کی کیفیت سے دوچار ہے، کیوں کہ وہ غزہ میں اپنی توانائی کھو چکا ہے۔ شمال کے ساتھ محاذ کھولنے کے لیے درکار بشری اور مادی تیاری اسے میسر نہیں ہے۔ مزید یہ کہ امریکہ اور مغربی حلیف جنگ کو وسعت دینے اور پورے خطے کی جنگ بنا دینے کے خلاف ہیں۔
خلاصہ
اس سب کی بنا پر، اسرائیل جب تک ڈھٹائی کے ساتھ حقائق کا انکار کرتا رہے گا، بدحواسی کی کیفیت اس کے رویے پر سوار رہے گی۔
غاصب ریاست آگے کی طرف جست لگانے اور مزید وقت حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہے گی، اس امید پر کہ اس کی عسکری اور مذاکراتی پوزیشن بہتر ہوجائے، نتنیاہو بھی یہی چاہتا ہے تاکہ اس کی مدت اقتدار جتنی ہوسکے بڑھتی رہے۔
غاصب ریاست یہ بھی کوشش کرے گی کہ بدحواسی پر کچھ قابو پائے تاکہ کچھ خیالی موقعے مل سکیں۔ لیکن لگتا نہیں کہ آنے والا وقت اس کے حق میں ہوگا۔ یہ صحیح ہے کہ غزہ میں ہمارے لوگ ہول ناک قسم کی آزمائشوں سے دوچار ہیں، لیکن لگتا ہے کہ وقت مزاحمت کے حق میں جا رہا ہے، اور جب تک اس کی کارکردگی طاقت ور ہے امید ہے کہ اسے اپنی شرطیں منوانے کی بہتر پوزیشن ملے گی۔
امریکہ، مغرب اور بعض عرب حکومتیں بھی اسرائیلی موقف کو سہارا دینے کی کوشش کرتی رہیں گی، تاکہ مزاحمت کی حصول یابیوں کو بے وقعت کر سکیں اور اسے دوبارہ محاصرے اور بلیک میلنگ کے سائے میں رکھ سکیں۔ یہاں مزاحمت پر فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی معرکے میں بھی اسی مہارت و لیاقت سے داخل ہو جس مہارت و لیاقت کا ثبوت وہ اپنے عسکری معرکے میں دے رہی ہے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2024