(اس سلسلے کی پہلی قسط کے لیے ملاحظہ فرمائیں زندگی نو شمارہ دسمبر 2021)
کمیونزم کے سقوط اور تاریخ کےخاتمے (End of History) کے اعلان کے بعد ہنٹنگٹن نے فوکویاما کےEnd of History کے نظریے سے متفق ہوتے ہوئے مستقبل کی دنیا کی تعریف تہذیبوں کے تصادم (Clash of Civilization) کے ذریعے کرنے کی کوشش کی اور دعوی کیا کہ اب مغربی تہذیب کی روایات دائمی ہیں، لیکن اسے دوسری تہذیبوں کی روایات سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔ اور یہ دیگر تہذیبیں باہمی طور پر بھی متصادم ہوںگی۔
چناں چہ مستقبل کی عالمی سیاسی بساط کو رخ دینے کے لیے مغرب نے نہ صرف بقیہ تہذیبوں کو اپنے نشانے پر رکھ لیا، بلکہ ان تہذیبوں کو آپس میں بھڑانے کے لیے بھی اکسایا۔ ہنٹنگٹن نے اپنے مقالے میں اس بات کا عندیہ دیا کہ اب دنیا میں تصادم کی بنیاد نظریہ اور معاش نہیں ہوں گے بلکہ تہذیبیں یا اس سے وابستہ روایات تصادم کی بنیادیں بنیں گی۔ یہ تصادم قومیت پر مبنی ریاستوں (nation states)، ملکوں اور مختلف تہذیبی گروہوں کے درمیان ہوگا۔ ہنٹنگٹن کی خاص بات یہ ہے کہ جہاں انھوں نے اسے ایک نظریے کے طور پر پیش کیا وہیں اسے مفروضہ (hypothesis) بھی کہا، یعنی جو ممکنات میں سے ہے وہ غلط بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ آج تقریباً 28 سال بعد اس نظریے پر گفتگو کی جاسکتی ہے اور پچھلے 28 سال کی اتھل پتھل کو اس روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے کہ آیا یہ ایک فطری نظریہ تھا یا اس کو امریکی سیاست دانوں اور پالیسی سازوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے گڑھا تھا۔ افغانستان میں مغرب کی ملٹری مشین اور جیو پولیٹکل ماڈل کی ناکامی نے اسے خاصا معنی خیز اور دل چسپ بنادیا ہے۔ ہنٹنگٹن نے لکھا ہے:
’’It is my hypothesis that the fundamental source of conflict in this new world will not be primarily ideological or primarily economic. The great divisions among humankind and the dominating source of conflict will be cultural. Nation states will remain the most powerful actors in world affairs, but the principal conflicts of global politics will occur between nations and groups of different civilizations. The clash of civilizations will dominate global politics. The fault lines between civilizations will be the battle lines of the future.‘‘
یعنی،‘‘میرا مفروضہ یہ ہے کہ اس نئی دنیا میں تصادم کا اہم مصدر بنیادی طور پر نظریاتی یا اقتصادی نہیں ہوگا۔ بنی نوع انسان کے درمیان عظیم انتشار اور تنازعے کا اہم سبب تہذیبی ہوگا۔ قومیت پر مبنی ممالک عالمی امور میں سب سے طاقت ور تو ہوں گے، لیکن عالمی سیاست میں آویزش کی بڑی وجہ ممالک اور مختلف تہذیبی گروہوں کے نزاع ہوں گے۔ تہذیبوں کا تصادم عالمی سیاست پر غالب آجائے گا۔ تہذیبوں کے بیچ کی دراڑیں مستقبل میں میدان جنگ کی صفیں بن کر ابھریں گی۔‘‘
ہنٹنگٹن کے اس نظریے کے بعد عالمی سیاست کو تہذیبوں کے تصادم کے چشمے سے دیکھا جانے لگا۔ خاص طور سے مسلم ممالک اور مغرب کے تعلقات کی تشریح اسی تناظر میں کی جانے لگی۔ ہنٹنگٹن نے آرنلڈ ٹوئن بی (Arnold Toynbee) کے تصوراتِ تہذیب کو مانتے ہوئے انسانی تاریخ میں اکیس تہذیبوں کی نشان دہی کی، اور بتایا کہ اس وقت اب بس سات یا آٹھ تہذیبیں وجود میں ہیں: مغربی، کنفیوشین، جاپانی، اسلامی، ہندو، سلاوی آرتھوڈوکس (Slavic Orthodox)، لاطینی امریکی اور شاید افریقی تہذیب۔ ہنٹنگٹن نے صاف طور سے اشارہ کیا کہ ان تہذیبوں کے درمیان اختلافات نہ صرف حقیقی (real)ہیں بلکہ بنیادی (fundamental)بھی ہیں۔ اپنے اس نظریے میں انھوں نے اسلام پر خاص طور پر توجہ مرکوز کی اور دعویٰ کیا کہ اسلام پچھلے تیرہ سو سال سے یوروپ اور مغرب سے برسرپیکار ہے۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اسلامی تہذیب نہ صرف داخلی طور پر بلکہ اپنے پڑوسیوں سے بھی متصادم ہے ، نیز اسلام خونیں سرحدیں رکھتا ہے۔ انھوں نے افریقی اور لاطینی امریکی تہذیبوں پر کوئی روشنی نہیں ڈالی اور نہ ہی وجہ بتائی کہ یہ اپنے آپ میں کیوں کر مکمل تہذیبیں ہیں۔ جاپانی اور ہندو تہذیبوں کے ساتھ مغرب کے تعلقات پر بھی خاموشی اختیار کی۔ ہاں، انھوں نے ہندو اور اسلامی تہذیبوں کے تصادم پر کچھ تفصیل ضرور دی ہے۔ لیکن ہندو تہذیب پر کوئی تفصیلی گفتگو نہیں کی۔ انھوں نے چین کے بجائے کنفیوشین (Confucian) تہذیب پر تفصیل سے بات رکھی ہے اور آنے والے وقت میں مغرب کے لیے اسے ایک خطرہ قرار دیا ہے۔ یہی بات انھوں نے روس کے بجائے سلاوی آرتھوڈوکس تہذیب کاذکر کرتے ہوئے مغرب اور روس کے تعلقات پر کہی ہے اور اسے بھی مغرب کے لیے ایک خطرہ قرار دیا ہے۔ انھوں نے سرد جنگ کے بعد کی تہذیبی کشمکش کو من حیث المجموع مغرب بمقابلہ تمام تہذیبیں (West vs. the Rest) قرار دینے کی کوشش کی ہے، جس میں اسلام، سلاوی آرتھوڈوکس اور کنفیوشین تہذیبوں پر مغرب کے ساتھ کشمکش کے تصور کو پیش کیا ہے، جب کہ ہندو، افریقی، لاطینی امریکی اور جاپانی تہذیبوں کے ساتھ مغرب کے تعلقات پر کھل کر کوئی بات نہیں کی ہے۔ بحیثیت مجموعی سرد جنگ کے بعد کے عالمی نظام میں اسلام، روس اور چین کو مغرب کے لیے خطرے کے طور پر پیش کیا ہے۔
تہذیبیں کیا ہیں اور اس وقت دنیا میں کل کتنی مکمل اور ادھوری تہذیبیں وجود رکھتی ہیں یہ ایک لمبی بحث ہے۔
یوں تو تہذیبوں کی مختلف طریقوں سے تعریف کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس میں پہچان، مذہب، روایات، نسل اور جغرافیہ کو بنیاد بنایا گیا ہے، لیکن اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: مذہبی تہذیب اور غیر مذہبی تہذیب۔ مذہبی تہذیب میں مذہب کا کردار بنیادی ہوتا ہے اور اس عقیدے کو ماننے والے لوگ ایک مکمل تہذیب کے گروہ کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ غیر مذہبی تہذیب میں مذہب کو یا تو رد کردیا جاتا ہے یا اس کا کردار آزادانہ طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، کیوں کہ مذہب کا تعلق الٰہ سے ہوتا ہے تو خدا کی رہ نمائی کی حیثیت بھی کلیدی ہوتی ہے۔ اس میں مذہبی کتاب سب سے اہم ثبوت یا مصدر (source) ہوتی ہے۔ کسی تہذیب کے لیے ضروری ہے کہ وہ انسانی زندگی کا مکمل ضابطہ پیش کرے، خواہ وہ سماجی ہو، سیاسی ہو، مذہبی ہو یا معاشی ہو۔ محض چند تمدنی رسومیات کے نبھانے کا نام تہذیب نہیں ہے، بلکہ تہذیب وہ ہے جو دائمی ہو اور بدلتی ہوئی اقدار میں انسانی زندگی کی مکمل رہ نمائی پیش کرے۔ ہنٹنگٹن نے جن تہذیبوں کا تعارف کرایا ہے ان میں صرف دو مکمل طور پر پہچانی جاسکتی ہیں: اسلام اور مغرب۔ باقی تہذیبیں یا تو ماضی کے باقیات ہیں یا مکمل طور پر تصوراتی ہیں، یا ان میں دوسری تہذیبوں کی آمیزش بہت زیادہ ہے اور وہ انسانی زندگی کی مکمل رہ نمائی کا دعویٰ پیش نہیں کرتی ہیں۔ چین میں اس وقت کمیونسٹ تصور کی حکم رانی ہے اور کنفیوشینزم کے احیا کی کوئی تحریک نہیں ہے۔ کنفیوشین کے بارے میں بھی ابھی کوئی مکمل معلومات حاصل نہیں ہیں، جس کی بنیاد پر کسی مکمل تہذیب کا احیا ہوسکے یا کسی نئی تہذیب کو قائم کیا جاسکے۔ سیاسی طور پر چین کمیونزم کا پیرو کار ہے اور سماجی طور پر وہاں پوری طرح مغرب کی لبرل اقدار کے غلبے کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، اور اگر مستقبل میں وہاں کمیونسٹ سیاسی نظام گِر بھی جائے تو زیادہ سے زیادہ وہ ایک قومی ریاست میں تبدیل ہوسکتا ہے، جو پہلے ہی سے ایک مغربی نظام ہے۔ کنفیوشین کو ایک عظیم چینی فلسفی کے طور پر تو پیش کیا جاسکتا ہے اور اسے چینی قومیت کو ابھارنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، لیکن ایک مکمل تہذیب کو قائم کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ جاپان یا جاپانی بھی ایک مکمل تہذیب نہیں ہیں، کیوں کہ وہاں کچھ مقامی رسوم کی موجودگی ہوسکتی ہے لیکن مکمل تہذیبی ڈھانچے کی موجودگی، جس کو خالص جاپانی کہا جاسکتا ہو، نہیں ہے۔ اس وقت جاپان کو مغربی تہذیب کی نظریاتی توسیع کہا جاسکتا ہے اور اس میں مغربی تہذیب کے حوالے سے کوئی منفی تاثرات بھی نہیں پائے جاتے، کیوں کہ پڑوسی چین اور روس سے جاپان کے تعلقات لمبے وقت تک خراب رہنے کے اثرات ہیں اس لیے وہ ابھی مغربی سیاسی بلاک کا حصہ تو بنا رہے گا لیکن تہذیبی طور پر وہاں کسی نئی تہذیب کے ابھرنے کے امکانات موجود نہیں ہیں۔
ہندو تہذیب ہندوستانی تہذیب—جس کو سندھ کی تہذیب (Indus civilization) بھی کہتے ہیں—کا حصہ رہی ہے۔ ہندوستانی تہذیب کے مرکزی جغرافیائی علاقے پر تو اسلام پہلے سے ہی ہےاور اب وہ ایک الگ ملک کے طور پر بھی، جس کو پاکستان کہتے ہیں، موجود ہے۔ ہندوستانی تہذیب اپنے جغرافیائی مرکز میں ڈھہنے کے بعد مختلف دھاروں میں بٹ گئی اور اس کی ایک شاخ ہندو تہذیب کی شکل میں سامنے آئی۔ ہندو تہذیب کو ہندوستان میں آریوں کے آنے اور رِگ وید کی تشکیل سے بھی جوڑا جاتا ہے، جس سے اس کی حیاتیاتی اور بشریاتی پہچان بنتی ہے۔ لیکن رِگ وید اور بعد کی مذہبی تحریکیں اور تحریریں اسے ایک مذہبی پہچان دیتی ہیں۔ ہندو تہذیب مختلف ادوار سے گزرتی ہوئی پچھلے ایک ہزار سال سے زوال پذیر ہے اور ایک نسلی اور اسطوری (mythological) تمدن میں تبدیل ہوچکی ہے۔ کیوں کہ کتاب اور پیغمبر مذہبی تہذیب کی بنیاد ہوتے ہیں اور ہندو تہذیب دونوں سے منحرف ہوچکی ہے۔ پیغمبروں کی تو پہلے سے ہی پہچان گم ہے اور کتاب بھی اپنی اصل شکل میں موجود نہیں ہے۔ اور بنیادی کتاب وید کی جگہ مختلف افسانوی و رزمیاتی کتابوں نے لے لی ہے۔ اس لیے اس کے عقیدے میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ سماجی ڈھانچہ پوری طرح زوال آمادہ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، اور معاشی تصور کا تو پہلے ہی سے کوئی ذکر نہیں ہے۔ ہندو تہذیب کا صرف ایک ستون ہندو مذہب وجود میں ہے اور وہ بھی نہ صرف زوال آمادہ ہے بلکہ دن بدن متنازع ہوتا جارہا ہے، جس میں مذہب کی متشدد پہچان پر زور ہے۔ اس کی بنیاد پر جو سیاسی اور سماجی تحریکیں ابھر رہی ہیں وہ تہذیب پر گفتگو کرنے کے بجائے ایک غیر واضح ماضی کے احیا پر زور دے رہی ہیں، جس سے اس میں نہ صرف ایک سطح پر اندرونی تضاد اور تعارض پیدا ہورہا ہے بلکہ ملک کے مسلمانوں یا اسلام کو مصنوعی طور سے نشانے پر لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مذہب انسان کی جس ضرورت کو پورا کرتا ہے وہ انسان کا خدا سے تعلق، خدا کی رہ نمائی اور نجات ہے۔ ہندو مذہب میں انسانوں کی بڑی تعداد کو ذات پات اور اونچ نیچ کے نظام میں بانٹ کر نہ صرف کچھ لوگوں کو نجات کی ضمانت دی گئی ہے، بلکہ باقی لوگ تمام تر کوششوں کے باوجود اس درجے سے محروم کردیے گئے ہیں۔ جیسے جیسے ہندوستان میں تعلیم اور حقوقِ انسانی کا شعور بیدار ہوگا، ہم دیکھیں گے کہ یا تو بڑی تعداد کوئی دوسرا مذہب تلاش کرلے گی یا مذہب سے ہی بے زار ہوجائے گی۔ اگر ہندو مذہبی سیاست یا ہندوتوا کی سیاست اسی زور شور سے باقی رہی تو سیاسی اور سماجی طور سے ہندوستان ایک ہزار سال پہلے والے دور میں پہنچ سکتا ہے، کیوں کہ ہندو تہذیب اور مذہب کا جغرافیہ بھی ایک ہی ہے، اسی لیے اس کے احیا کی باہر سے کوئی کوشش نہیں ہوسکے گی۔
ہر چند کہ لاطینی امریکہ نے کئی مشہور تہذیبوں کو جنم دیا ہے، تاہم ان کے تاریخی مقامات کو چھوڑ کر اب کچھ نہیں بچا ہے۔ نہ صرف لاطینی امریکہ کی بیشتر آبادی نابود ہوچکی ہے، بلکہ ان کی ریاست و سیاست پر غیر لاطینی امریکیوں کا قبضہ ہے۔ اگرچہ ان کے بعض ممالک کے تعلقات مغرب اور امریکہ سے کشیدہ ہیں، لیکن اس کے وجوہ تہذیبی کشمکش کے بجائے سیاسی و نظریاتی ہیں۔ لاطینی امریکہ کے بیشتر ممالک کمیونزم کے زیر اثر رہے ہیں اور اب بھی ہیں، جس کی بنا پر ان کی سیاست میں مغرب کے تئیں تصادم اور آویزش نظر آتی ہے۔ ادھر افریقی تہذیب بھی کوئی وجود نہیں رکھتی کیوں کہ افریقہ کا مکمل شمال اسلام اور مشرقی تہذیب کا حصہ ہے، دیگر ممالک یا تو مغرب کے بہت نزدیک ہیں یا باہمی و اندرونی نزاعات کا شکار ہیں۔ ایک مکمل تہذیب کے جو عناصر ہونے چاہئیں جن کی بنیاد پر افریقی تہذیب کی تعریف متعین کی جاسکے، وہ افریقہ میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔
آرنلڈ ٹوئن بی نے تہذیبوں کے عروج و زوال کا تجزیہ کرتے ہوئے زوال آمادہ تہذیبوں اور معاشروں کی علامات کی نشان دہی کی ہے۔ اس نے کچھ خاص باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس کے بقول زوال آمادہ تہذیبوں اور معاشروں میں اپنے ہی بنائے ہوئے اداروں (institutions)کی پرستش کا مرض پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ معاشرے خود ساختہ اداروں کو خدائی کے درجے پر رکھ دیتے ہیں۔ ٹوئن بی نے پارلیمنٹ کی مثال پیش کی تھی۔ اِن دنوں ہندو معاشرہ بھی اسی دلدل میں بہت اندر تک دھنس چکا ہے اور ملک یا نیشن جو خالص ایک انسانی ادارہ ہے، اسے نہ صرف خدائی کے درجے پر فائز کردیا ہے بلکہ دیگر تمام قوموں سے بھی یہی مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اس سے پہلے گائے کے حوالے سے بھی ان کا یہی رویہ تھا۔ ان باتوں کو نہ صرف ملک میں رہنے یا نہ رہنے کی بنیاد قرار دیا جارہا ہے بلکہ فساد اور خون خرابے کے ماحول کو بھی ہوا دی جارہی ہے۔ ٹوئن بی نے زوال آمادہ معاشروں اور قوموں کی ایک اور علامت یہ بتائی ہے کہ وہ اپنے مزعومہ سنہرے ماضی کے احیا کے خوابوں میں جیتی ہیں جسے اس نے آرکائیوزم (archivism) کہا ہے، نیز مستقبل میں چھلانگ لگانے کی کوشش کرتی ہیں، جسے اس نے فیوچرزم (futurism)کا نام دیا ہے۔ ٹوئن بی کے مطابق یہ دونوں ہی مقاصد ناممکن الحصول ہیں۔ اس مرض میں اس وقت ہندو معاشرے کا بڑا حصہ مبتلا ہے؛ گاندھی اور نہرو اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ وہ ناکام ثابت ہوں گے۔ آرکائیوزم اور فیوچرزم نے معاشرے میں بے سمتی اور لامقصدیت پیدا کردی ہے جس سے وہ اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار (implode) ہوسکتا ہے۔ قرائن کہتے ہیں کہ یہ عمل اسی صدی میں مکمل ہوجائے گا۔
ہنٹنگٹن نے روس کو براہ راست دشمن قرار دینے کے بجائے سلاوی آرتھوڈوکس کو بھی مغربی تہذیب کے مدمقابل ایک تہذیب کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ سلاوی آرتھوڈوکس رومن کیتھولک سے کچھ معاملوں میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن وہ تہذیبی طور پر کم و بیش یکساں ہیں۔ روس میں بوڑھے افراد چرچ میں تو جاتے ہیں لیکن سیلوک آرتھوڈوکس کے ایک تہذیب کے طور احیا کرنے کے کوئی آثار موجود نہیں ہیں۔ روس کا مغرب سے تصادم تہذبیی نوعیت کی بنیادوں پر نہیں ہے بلکہ مکمل سیاسی مفاد پر مبنی ہے۔ اس کی تازہ مثال یوکرین اور روس کے درمیان جنگ ہے، حالاں کہ یوکرین اور روس دونوں ہی سیلوک آرتھوڈوکس چرچ کے پیرو ہیں، لیکن سیاسی طور پر اور بین الاقوامی سیاست کے اعتبار سے ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ روس تہذیبی وجوہ کے بجائے تاریخی و سیاسی وجوہ سے مغرب کے ساتھ متصادم رہے گا۔
اسلامی تہذیب ساتویں صدی میں وجود میں آئی جب حضرت محمد ﷺ نے نبوت کا اعلان کیا اور انسانوں کی رہ نمائی کے لیے قرآن و سنت کو پیش کیا۔ تب سے اب تک تمام تر نشیب و فراز کے باوجود اسلامی تہذیب اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے جب اسلامی تہذیب نے اپنی آنکھیں کھولیں تھیں تو اس وقت اس کے اردگرد بہت سی زوال زدہ تہذیبیں تھیں۔ مشرق میں چینی و ہندو تہذیبیں اور مغرب میں یونانی و رومی تہذیبیں تھیں۔ یہ تہذیبیں تاریخ کا کھنڈر بن چکی تھیں اور اپنی توانائی کھو چکی تھیں، چناں چہ سیاسی و سماجی اتھل پتھل سے گزر رہی تھیں۔ صرف یوروپ میں عیسائی تہذیب باقی تھی۔ اپنے ابتدائی دور میں اسلامی تہذیب نے ایک معرکہ آرا کردار ادا کیا اور ان زوال پذیر تہذیبوں کے ورثے کو تحفظ بخشا۔
ہندوستانی اور یونانی تہذیب کے سرمائے کو نہ صرف محفوظ کیا بلکہ اسے دنیا کے سامنے پیش بھی کیا اور اسے نئی بلندیوں سے روشناس کرایا۔ اگرچہ صلیبی جنگیں ہوئیں، جنھیں بعض یوروپ اور مسلم حکم رانوں کے درمیان آویزش کہا جاسکتا ہے، لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ کبھی پوری دنیا کے مسلمان یکجا ہوکر یوروپ سے متحارب نہیں ہوئے۔ اس میں کچھ علاقائی سیاست کی کارفرمائی بھی تھی، جو خالص مفادات پر مبنی تھی۔ جہاں اسلام نے زوال آمادہ ہندوستان میں ایک نئی روح پھونکی، جغرافیائی اعتبار سے یکجا کیا، ایک نئی سیاسی رہ نمائی دی، ایک نئے سماج کی بنیاد رکھی اور سب سے اہم یہ کہ اسے ایک مکمل دین پیش کیا جو اس کے زوال زدہ دین کے کافی قریب تھا۔ بعد میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی تہذیب کی پھونکی ہوئی روح سے ہندوستان نہ صرف دوبارہ کھڑا ہوا بلکہ آج یہ ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ جو طاقت ایک ہزار سال پہلے اس کے زوال کے لیے ذمہ دار تھی اگر وہ دوبارہ حاوی ہوگئی تو پھر ویسے نتائج دیکھنے پڑ سکتے ہیں۔
مغرب نے جو آج ترقی کی ہے وہ اس کی نشأة ثانیہ کا ثمرہ ہے اور تمام معتبر مؤرخین اس میں اسلام کے کردار کو کلیدی مانتے ہیں۔ یونانی تہذیب کا سب سے بڑا کارنامہ اس کا فلسفہ تھا جس نے ہزاروں برسوں میں ارتقا کیا تھا۔ یونان کے زوال کے بعد اسلام نے اس سرمائے کو نہ صرف سنبھالا بلکہ اس کو سنوارا بھی اور اس کو ترقی دے کر یوروپ تک پہنچایا بھی۔ یہی فلسفہ بعد میں مغربی تہذیب کے ابھرنے کا سبب بنا۔ ہنٹنگٹن کا یہ دعویٰ کہ اسلام اور مغرب تیرہ سو سال سے متصادم ہیں نہ صرف خلاف واقعہ ہے بلکہ زہرناک بھی ہے۔
چین اور روس اسلامی تہذیب کے شمال مشرق اور مشرقی کناروں پر موجود ہیں۔ تاریخی طور پر دونوں کے تعلقات اسلام سے نہ صرف بہت گہرے رہے ہیں بلکہ دونوں ملکوں کی سیاسی تاریخ میں اسلام نے کلیدی رول ادا کیا ہے۔ دونوں ملکوں کی جغرافیائی سیاست اور کمیونزم کی آمد کے بعد اس صورت حال میں ایک منفیت آگئی تھی لیکن اب کمیونزم کے زوال اور عالمی سیاست میں تبدیلی کے بعد دونوں ملک اسلام کے ساتھ اپنے تعلقات کی تجدید کر رہے ہیں اور کافی خوش آئند اشارے دے رہے ہیں۔
لبرل اکانومی اور اب نیو لبرل اکانومی خاص طور پر اپنی استحصالی نوعیت اور صارفیت کی بنا پر ہمیشہ تنازعات کے گھیرے میں رہی ہیں۔ اب ان کے بنیادی تصورات پر گفتگو کی جانے کی ضرورت ہے۔اسلام کے ساتھ مغرب کا مثبت انگیجمنٹ مغربی تہذیب کو بنیادی اصلاحات کی طرف لے جاسکتا ہے۔
اس وقت دنیا میں بس ڈھائی تہذیبیں اپنا وجود رکھتی ہیں: اسلامی، مغربی اور دیگر تمام باقی ماندہ تہذیبی دھارے۔ اسلامی تہذیب نہ صرف دنیا کے جغرافیائی وسط میں واقع ہے بلکہ تہذیبوں کی بحث کے مرکز میں بھی ہے۔ اسلام ’تصادم ’کے بجائے ’تفاہم‘ پر یقین رکھتا ہے اور برے سلوک کا جواب دوستانہ رویے سے دینے کو عین دین قرار دیتا ہے۔ لہذا اسلام اپنی طرف سے کسی بھی طرح کے تصادم کا حامی نہیں ہے۔ اگر دوسری تہذیبیں اور باقی ماندہ تہذیبی دھارے مثلاً ہندو، چین، روس اگر کسی قسم کی تصادمی پالیسی اختیار کرتے ہیں، تب بھی اسلام اس سے بچنے کا حامی ہے اور افہام و تفہیم کو ترجیح دیتا ہے۔ چناں چہ ہم نے دیکھا کہ جب یوروپ کے بیشتر ممالک اپنی اپنی فوجوں کو افغانستان میں جنگ میں جھونک رہے تھے اور بے شمار عام افغانیوں کو قتل کر رہے تھے، تب بھی طالبان نے یوروپ کے عام شہریوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی، جب کہ ان کے لیے ایسا کرنا آسان تھا۔
اس دور میں اسلام مغرب کے ساتھ سب سے گہرے طور پر وابستہ ہے، اور مغرب بھی تہذیبی اعتبار سے سب سے زیادہ اسلام ہی کے ساتھ انگیج ہے۔ مغربی تہذیب کی تین بنیادیں ہیں: جمہوریت، سیکولرزم اور لبرلزم۔ اور تینوں اس وقت بحرانی دور سے گزر رہی ہیں۔ جمہوریت پر لابی نے قبضہ کرلیا ہے جس کے بدترین مظاہر عراق و افغانستان کی جنگیں اور مختلف ممالک میں لابی کے اثرات پر مبنی فیصلے ہیں۔ اسرائیل کے تعلق سے مغرب کا جو رویہ ہے وہ بھی اسی صورت حال کا عکاس ہے۔ افریقہ اور لاطینی امریکہ میں جو بحران ہے وہ مختلف ادوار میں آمروں، فوجی تختہ پلٹ (military coup d’etat) اور خانہ جنگیوں کی مغربی حمایت ہی کا شاخسانہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کی جمہوری اقدار کو سنجیدہ خطرہ لاحق ہے اور اسے اس سے نکال کر نئی اقدار عطا کرنے اور نئے جمہوری نظام میں لائے جانے کی ضرورت ہے، جو لابی، مفاد اور مادہ پرستی کے بجائے سچائی کی بنیاد پر فیصلے کرسکے۔ مذہب اور سماج کی علیحدگی سیکولرزم کا خاصہ ہے اور مغربی تہذیب اب بھی اس پر مضبوطی سے قائم ہے۔ تاہم بعض واقعات اشارہ کرتے ہیں کہ اس موقف میں کچھ تخفیف بھی واقع ہوئی ہے۔
تازہ صورت حال یہ ہے کہ اسلامی تہذیب اب مغربی تہذیب اور باقی ماندہ تہذیبی دھاروں کے ساتھ تہذیبی تعاملی رابطے میں آگئی ہے۔ اگر اسلامی دنیا اور اس کے دانش ور سنجیدہ کوششیں کریں تو ایک تہذیبی یک جہتی پیدا کرنے اور نئے منظرنامے کے نمودار ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے اور اسلامی تہذیب وہی کردار ایک بار پھر ادا کرسکتی ہے جو اس نے اپنے عروج کے دور میں کیا تھا۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2022