حضرت عروہ بن زبیرؓ بتاتے ہیں کہ عمیر بن وہب قریش کے شیطانوں میں سے ایک بڑا شیطان تھا۔ وہ اللہ کے رسول ﷺ کو تنگ کرتا تھااور آپ کے ساتھیوں کو تکلیفیں دیتا تھا۔ وہ کسی دن چین سے نہیں بیٹھتا تھا ، انھیں ہر دم ستاتا تھا۔
عمیر کا شمار مکہ کے بہادروں میں ہوتا تھا۔ وہ خطرناک قسم کا جنگجو انسان تھا۔ اس کی بہادری کے قصے بھی مشہور تھے۔ عمیر کا دوست صفوان بن امیہ تھا۔ صفوان کا باپ امیہ اسلام کا سخت دشمن تھا۔ صفوان بھی اسلام دشمنی میں پیش پیش تھا۔
عمیر خطرناک جنگجو تھا، جب کہ صفوان بہت مال دار تھا۔ایک نے اپنی طاقت اور دوسرے نے اپنی دولت اسلام کے خلاف لگارکھی تھی۔
جب مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ ہجرت کرلی، تب بھی عمیر بن وہب کی اسلام دشمنی برقرار رہی۔ بدر کے موقع پر وہ اپنے بیٹے کے ساتھ جنگ کے لیے نکلا ۔ صفوان خود تو نہیں گیا مگر اس کا باپ اور بھائی دونوں گئے۔
جب بدر کے مقام پر فوج نے پڑاؤ ڈال دیا، تو عمیر بن و ہب کو بھیجا گیا کہ اندازہ لگائے مسلمانوں کی سپاہ کتنی ہے؟ اس نے اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر ایک چکر لگایا اور واپس آکر بتایا کہ وہ تین سو سے کچھ کم یا زیادہ ہیں۔ پھر اس نے کہا، ٹھہرو میں دیکھ کر آتا ہوں ان کی کوئی کمین گاہ تو نہیں ہے اور پیچھے سے کمک تو نہیں پہنچ رہی ہے؟ پھر وہ گھوڑے کو وادی میں دور تک سرپٹ دوڑاتا چلا گیا، لیکن اسے کچھ دکھائی نہیں دیا۔ وہ واپس لوٹا اور کہا: میں نے کچھ اور تو نہیں پایا، لیکن میں نے یہ ضرور دیکھا کہ یثرب کی اونٹنیوں پر موت سوار ہوکر آرہی ہے۔ ان لوگوں کے پاس اپنی حفاظت کے لیے صرف ان کی تلواریں ہیں، اور کچھ نہیں۔ خدا کی قسم مجھے لگتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی تم میں سے ایک کو مارے بغیر نہیں مارا جائے گا۔ اگر ہمارے اتنے لوگ مارے گئے تو پھر زندگی کا لطف کیا رہ جائے گا۔ اچھی طرح سوچ لو۔
فوجیں آمنے سامنے آکھڑی ہوئیں ، تو عمیر نے آگے بڑھ کر جنگ کا بگل بجادیا۔ سب سے پہلے وہ خود آگے بڑھا، اور مسلم سپاہ میں گھس کر گھوڑے سے کود پڑا اور نعرے لگاتے ہوئے جنگ چھیڑ دی۔
اس جنگ میں اسلام کے دشمنوں کو سخت ہزیمت ہوئی، مکہ کے بہت سے سردار مارے گئے۔ عمیر بھی شدید زخمی ہوا، لیکن کسی طرح بھاگنے میں کامیاب ہوگیا، اس کا بیٹا گرفتار ہوا اور قیدی بنالیا گیا۔ مکہ میں کہرام مچ گیا۔ جنگ بدر کے زخم اتنے گہرے تھے کہ وقت گزرنے کے باوجود بھر کے نہیں دے رہے تھے۔ روز کسی کی یاد آجاتی اور غصہ و انتقام کی انگیٹھیاں دہک اٹھتیں۔ عمیر بن وہب کو بہت گہرا زخم آیا تھا، تلوار پیٹ میں گھس کر پیٹھ سے نکل گئی تھی، اس کا وہ گہرا زخم بھی بھر گیا تھا۔ مگر دل میں انتقام کی آگ مسلسل بھڑک رہی تھی۔ اس کا دوست صفوان بن امیہ بھی دشمنی کی آگ میں جل رہا تھا، کیوں کہ اس کا باپ اور بھائی دونوں جنگ میں مارے گئے تھے۔ ایک دن دونوں بیٹھے تھے، صفوان نے کہا: بدر میں مارے جانے والوں کے بعد اب زندگی بہت بد مزہ ہوگئی۔ عمیر نے کہا: صحیح کہتے ہو، میرے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ میرے اوپر قرض بہت زیادہ ہے، پھر بال بچوں کا خرچ بھی بہت ہے، میرے پیچھے کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے،اگر یہ بوجھ نہ ہوتا تو میں تو جاکر کے محمد کو قتل کردیتا۔ میرے پاس وہاں جانے کا بہانہ بھی ہے۔ میرا بیٹا ابھی تک ان کی قید میں ہے۔میں کہتا کہ اسے چھڑانے کے لیے آیا ہوں۔صفوان نے کہا: لیکن تم ان سب کے بیچ محمد پر کیسے حملہ کرسکوگے؟ عمیر نے کہا: تم تو جانتے ہی ہو، میں تو جرأت و ہمت کا پتُلا ہوں، خطروں میں کود پڑنا میراشوق ہے، پھر میری برق رفتاری بھی تم کو معلوم ہے۔محمد پر حملہ کروں گا اور وہاں سے تیر کی طرح بھاگ کر پہاڑوں میں نکل جاؤں گا۔ کوئی میری گرد بھی نہیں پاسکے گا۔ صفوان کو لگا کہ جیسے اس کی دلی مراد بر آنے والی ہے اور اب اس کا کلیجہ ٹھنڈا ہوجائے گا۔ اس نے خوش ہوکر کہا: دوست تم کسی بات کی فکر نہ کرو، تمھارا سارا قرض میرے ذمے اور تمھارے بال بچوں کی مکمل کفالت بھی میرے ذمے۔ میں جتنا اپنے گھر پر خرچ کروں گا ،تمھارے گھر پر بھی اتنا ہی خرچ کروں گا ۔ صفوان نے اس کے لیے سامانِ سفر تیار کیا ۔ ایک تلوار کو زہر میں بجھا یا اور اس کی دھار خوب تیز کرکے اسے دی۔ زہر میں بجھی ہوئی تلوار بہت خطرناک ہوتی ہے، اگر ہلکا سا بھی زخم لگ جائے تو پورے بدن میں زہر پھیل جاتا ہے۔ عمیر کے ارادے نہایت خطرناک تھے اور صفوان کا دل خوشی سے بلیوں اچھل رہا تھا۔دونوں نے طے کیا کہ یہ باتیں بس ان کے درمیان راز رہیں گی، کسی اور کو ان کی بھنک بھی نہ لگنے پائے گی۔
عمیر مدینہ پہنچا، اور مسجد نبوی کے دروازے پر جاکر اونٹ کو بٹھادیا، اتنے میں حضرت عمرؓ کی نظر اس پر پڑ گئی۔وہ مسجد کےصحن میں بیٹھے تھے۔ ان کے ساتھ کچھ انصار صحابہ بھی تھے۔ بدر کے واقعات کا تذکرہ ہورہا تھااور اللہ کے احسانات کو ایک ایک کرکے یاد کیا جارہا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے اس کے ساتھ تلوار دیکھی تو ان کا ماتھا ٹھنکا۔ بے اختیار ان کی زبان سے نکلا: ارے یہ کتا، یہ تو وہی دشمن خدا ہے جس نے ہماری فوج کی گنتی کی تھی، اسی نے لوگوں کو بھڑکایا تھا اور اسی نے جنگ چھیڑی تھی۔یہ ضرور کسی برے ارادے سے آیا ہے۔
وہ جلدی سے اٹھ کر اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں پہنچے، عرض کیا کہ عمیر بن وہب تلوار لٹکائے مسجد میں آیا ہے، یہ بڑا دھوکے باز اور بدعہد ہے۔ آپ اس پر ذرا بھی بھروسا مت کیجیے گا۔ آپ نے کہا: اسے میرے پاس آنے دو، عمر ؓگئے اور ساتھیوں سے کہا :اس خبیث کو اللہ کے رسولﷺ کے پاس جانے دو ، اور بالکل چوکنا رہو، اس کی ہر حرکت پر نظر رکھو، یہ بہت خطرناک قسم کا حملہ آور ہے۔
حضرت عمرؓ اور عمیر دونوں اللہ کے رسولﷺ کے حجرے میں داخل ہوئے۔ عمیر نے کہا : انعم صباحا، آپ کا دن اچھا گزرے، آپ نے فرمایا: عمیر، اللہ نے ہمیں اس سے اچھےالفاظ عطا کیےہیں ہے، اور وہ سلام کے الفاظ ہیں۔ یہ کہہ کر اللہ کےرسولﷺ نے اسے یہ پیغام دیا کہ یہاں سلامتی کا دور دورہ ہے، یہ دین سلامتی کا دین اور اس کو ماننے والے سلامتی کے علم بردار ہیں۔ سلام کے الفاظ اپنے آپ میں دینِ اسلام کی بہترین دعوت ہیں۔
اس کے بعد آپ نے پوچھا: کہو عمیر، کیسے آنا ہوا۔ اس نے کہا: میں اپنے قیدی کو چھڑانے آیا ہوں، آپ لوگ تو ہمارے بھائی بند ہیں، ہمارا قیدی آپ کا قیدی ہے، اسے فدیہ لے کر چھوڑدیں۔ آپ نے کہا: یہ تمھاری گردن میں تلوار کیسی لٹکی ہوئی ہے؟ اس نے کہا : برا ہو اس تلوار کا، یہ بدر میں کہاں ہمارے کام آئی، دراصل بات یہ ہے کہ جب میں اندر آیا تو اسے اپنے سامان میں رکھ کر آنا بھول گیا۔ آپ نے کہا: سچ سچ بتاؤ کس نیت سے آئے ہو؟ اس نے کہا: میں اپنے قیدی کے سلسلے میں ہی آیا ہوں۔تب آپ نے اس کی اور صفوان کی ساری گفتگو اس کو سنادی۔ اور کہا: دیکھو مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ تم مجھے قتل کرنے کے ارادے سے آئے ہو، لیکن اللہ میری حفاظت فرمائے گا۔ یہ سن کر عمیر کے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی ۔ اس کی آنکھوں پر پڑا پرد ہ ہٹ گیا۔ اس نے بے اختیار کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کےرسول ہیں۔ اے اللہ کے رسولؐ، ہم تو آپ کی یہ بات جھٹلاتے رہے کہ آپ کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ لیکن یہ تو ہماری بالکل راز کی بات تھی جو آپ کو معلوم ہوگئی۔
پھر عمیر نے کہا: اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس راستے پر ڈالا اور یہاں تک لے آیا۔ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتا ہوں۔ عمیر ؓکو اللہ کی ہدایت ملتے دیکھ کر مسلمان بہت خوش ہوئے۔ وہی مسلمان جنھیں اس نے سخت تکلیفیں دی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، عمیر جب یہاں نمودار ہوا تھا تو اس سے مجھے اتنی شدید نفرت تھی جتنی خنزیر سے نہیں ہے۔ مگر آج وہ مجھے اپنے کچھ بیٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: عمیر ؓ بیٹھو ہم تمھاری دل لگی اور انسیت کا سامان کریں۔ پھر آپ نے صحابہ سے کہا: اپنے بھائی کے ساتھ رہو، اس کے اندر دین کا فہم پیدا کرو، اسے قرآن کی تعلیم دو اور اس کے قیدی کو آزاد کردو۔
کچھ ہی دنوں کی تعلیم وتربیت کے بعد ، حضرت عمیرؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! میرے پاس جتنی طاقت تھی وہ میں نے اللہ کا نور بجھانے کے لیے جھونک دی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ہلاکت و تباہی سے بچاکر ہدایت سےنواز دیا۔ اے اللہ کے رسولؐ! مجھے اجازت دیجیےکہ میں قریش کے پاس جاؤں، انھیں اللہ کی طرف بلاؤں اور انھیں اسلام کی دعوت دوں۔ کیا پتہ اللہ انھیں ہدایت دے دے اورانھیں بھی ہلاکت سے بچالے۔اللہ کے رسول ﷺ نے انھیں جانے کی اجازت دے دی۔ وہ مکہ پہنچے۔ وہاں صورت حال یہ تھی کہ صفوان نے قریش کے لوگوں سے کہنا شروع کردیا تھا کہ ابھی جلد ہی ایسی زبردست خوش خبری ملنے والی ہے جو بدر کے سارے غم بھلادے گی۔ وہ ایک ایک دن گن رہا تھا، مدینے کی طرف سے آنے والے ہر شخص سے پوچھتا کہ کوئی بڑی خبر سنی ہے؟
لیکن جب اسے عمیر کے اسلام لانے کی خبر ملی تو اس کے ارمانوں پر اوس پڑگئی ، اس کی ساری خوشی خاک میں مل گئی، اس کے غصے کی انتہا نہ رہی ۔ اس نے قسم کھالی کہ وہ عمیر سے کبھی بات نہیں کرے گا اور نہ کبھی اس کے کسی کام آئے گا۔ مکہ والوں نے بھی عمیر کو بہت لعنت ملامت کی، مگر حضرت عمیرؓ نے اس کی ذرا پروا نہ کی۔ ان کے اوپر تو بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ میں مکہ والوں کو آخرت کی تباہی سے بچالوں۔ مکہ میں اب نہ اللہ کے رسول ﷺ تھے اور نہ ہی آپ کے صحابہ تھے۔ اب یہاں حضرت عمیرؓ تنہا دینِ اسلام کے داعی تھے، جب کہ باقی لوگ زیادہ تر وہ تھے، جن کے رشتے دار جنگ بدر میں مارے گئے تھے، ظاہر ہے وہ سب دشمنی اور انتقام کی آگ میں جل رہے تھے۔ ایسے میں دین کی دعوت دینا کتنا مشکل اور پرخطر کام تھا ۔ صفوان نے تو اعلان کردیا تھا کہ چاہے ساری دنیا یہ دین قبول کرلے لیکن وہ قبول نہیں کرے گا۔ حضرت عمیر بن وہبؓ دین کی دعوت کا کام دیوانہ وار کرتے رہے۔ اللہ نے محنت میں برکت دی اور بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ دین کی دعوت تو تمام ہی صحابہ دیتے تھے، اور لوگ دین میں داخل بھی ہوتے تھے، لیکن خاص بات یہ ہے کہ سیرت کی کتابوں میں کسی اور کے بارے میں یہ تذکرہ نہیں ملتا کہ بہت سے لوگوں نے اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ حضرت عمیر بن وہبؓ کے بارے میں یہ تذکرہ سیرت کی کتابوں میں خاص طور سے ملتا ہے۔
صفوان نے حضرت عمیرؓ سے تعلق ختم کرلیا۔ لیکن وہ اس کی ہدایت کے لیے بے چین رہے۔ وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ فتح مکہ کی گھڑی آپہنچی۔ اللہ کے رسولﷺ بہت بڑی فوج کے ساتھ پر امن طریقے سے مکہ میں داخل ہوئے۔ دوسری طرف صفوان مکہ سے بھاگ کھڑا ہوا اور ساحل سمندر کی طرف نکل گیا۔حضرت عمیرؓ کی بے چینی بڑھ گئی، وہ اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: اللہ کے رسولؐ! آپ نے تو آج سب کو امان دے دی ہے۔ صفوان اپنی قوم کا سردار ہے، وہ آپ سے بھاگ کر سمندر کی سمت نکل گیا ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ وہ سمندر میں کود کر جان دے دے گا۔ آپ اسے امان دے دیجیے میں کسی طرح اسے واپس منالاؤں گا۔ آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے اسے امان دے دی گئی۔ عمیرؓ نے کہا: کوئی نشانی دےدیجیے، آپ نے اپنا عمامہ دے دیا، جسے سر پر باندھ کر آپ مکہ میں داخل ہوئے تھے۔
عمیر ؓ اسے ڈھونڈنے نکلے اور سمند کے قریب اسے جالیا۔ وہ سمندر میں اترنے جارہا تھا۔ عمیرؓ نے پکارا: سنو صفوان! میرے ماں باپ تم پر قربان جائیں، خدا کے لیے، اپنے آپ کو ہلاک مت کرو۔ یہ دیکھو میں اللہ کے رسولﷺ کی طرف سے امان کا پروانہ لے کر تمھارےپاس آیا ہوں۔ اس نے کہا: برا ہو تمھارا، میرے سامنے سے ہٹ جاؤ، مجھ سے بات مت کرو، تم بڑے جھوٹے انسان ہو، اس سے پہلے بھی مجھے دھوکہ دے چکے ہو۔
عمیرؓ نے کہا: صفوان! عقل کے ناخن لو، تم مجھے اپنے ماں باپ سے زیادہ عزیز ہو، دیکھو، محمد ؐسب سے اچھے انسان ہیں، سب سے افضل ہیں، سب سے زیادہ بردبار، کشادہ ظرف اور معاف کرنے والے ہیں۔ پھر سوچو وہ تمھارے چچا زاد بھائی بھی ہیں۔ ان کی شان و شوکت تمھاری شان و شوکت، ان کی عظمت و بلندی تمھاری عظمت و بلندی، ان کا اقتدار تمھارا اقتدار۔ یہ سن کر صفوان نرم پڑ گیا، اس نے کہا: مگر مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے قتل کردیں گے۔ عمیرؓ نے کہا: تم بالکل نہ ڈرو، وہ تمھارے اندیشوں سے کہیں زیادہ سخی اور کشادہ ظرف ہیں۔ غرض کسی طرح وہ صفوان کو ساتھ لے آئے۔ دونوں اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے کھڑے ہوئے، صفوان نے کہا: عمیر کہہ رہا ہے کہ آپ نے مجھے امان دے دی، آپ نے فرمایا: ہاں عمیر نےسچ کہاہے۔ صفوان نے کہا: مجھے دو مہینے کی مہلت دیجیے، آپ نے کہا: تمھیں چار مہینے کی مہلت ہے۔
صفوان کی بیوی پہلے ہی اسلام قبول کرچکی تھی، لیکن آپ ؐنے نکاح ختم نہیں کیا ، باقی رہنے دیا۔ دعوتی پہلو سے یہ بہت کارگر ترکیب تھی، بیوی مسلمان ہوکر اپنے مشرک شوہر پر بڑا اچھا اثر ڈال سکتی ہے۔صفوان نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا تھا، تاہم اللہ کے رسول ﷺ نے اس سے قریبی تعلق رکھا۔ صفوان کے پاس ہتھیار بہت تھے۔ جنگ حنین کے موقع پر آپ نے صفوان سے ہتھیار مستعار مانگے، اس نے کہا: زبردستی یا میری آمادگی سے؟ آپ نے فرمایا: نہیں تمھاری آمادگی سے، اور واپسی کی ضمانت کے ساتھ۔ اس نے کوئی ۱۰۰ زرہیں اور دیگر سازو سامان دیا۔ پھر اس کی خواہش پر آپ نے اسے جنگ میں شریک ہونے کی اجازت بھی دی اور جنگ کے بعد مال غنیمت میں اس کے لیے بھی حصہ لگایا۔
صفوان کی اسلام دشمنی کی طویل تاریخ تھی، اس کی جھولی میں کوئی ایسی بھلائی نہیں تھی جو اس کے حق میں سفارشی بن جائے۔ لیکن پھر بھی اللہ کے رسول ﷺ کی شدید خواہش تھی کہ وہ اسلام کی نعمت سے مالا مال ہوجائے اور جہنم کے عذاب سے بچ جائے۔ آپ نے نہ صرف اس کو امان دی، بلکہ اس کو مال غنیمت میں سے خوب خوب نوازا۔ صفوان کے لیے یہ زندگی کا انوکھا تجربہ تھا کہ اس نے جس ہستی کو قتل کرنے کی سازشیں رچی تھیں، اس ہستی سے عشق رکھنے والے حضرت زید بن دثنہؓ کو اپنے باپ کے انتقام میں بے رحمی سے قتل کرایا تھا،آج وہی ہستی اس پر نوازشوں کی بارش کررہی ہے۔ وہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم جب نبی ﷺ نے مجھے نوازنا شروع کیا تو وہ میرے نزدیک سب سے مبغوض انسان تھے۔ لیکن ان کی نوازشوں کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ وہ میرے محبوب ترین انسان بن گئے۔ صفوان نے اللہ کے رسولﷺ کو قریب سے دیکھا، آپ کے عظیم کردار سے متاثر ہوا اور بالآخر اسلام قبول کرلیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت صفوان ؓ کو مسلمانوں کے درمیان بھی سرداری کا مقام حاصل رہا، جس طرح پہلے وہ مشرکوں کے سردار تھے۔
یہ ہے مکّہ کے دو سرداروں کی کہانی، جو اسلام دشمنی میں اندھے ہوچکے تھے، ان کے جرائم انتہائی سنگین تھے، لیکن اللہ کے رسول ﷺ کے داعیانہ کردار نے ان کے دلوں کو جیت لیا اور وہ جو اسلام کے شدید دشمن تھے، اسلام کے جاں نثار سپاہی بن گئے۔ سیرت کے ان روشن اوراق میں اہل فکر و نظرکے لیے بہت سے قیمتی اسباق ہیں۔n
مآخذ
السیرۃ النبویۃ : ابن ہشام
اسد الغابۃ: ابن اثیر
سیر اعلام النبلاء: شمس الدین ذہبی
البدایۃ والنہایۃ: ابن کثیر
مشمولہ: شمارہ جون 2022