قاہرہ کی معروف خاتون ڈاکٹر امیرہ دسوقی بتارہی تھیں رات ۲ بجے پولیس کی بھاری نفری نے ہمارے گھر اور ملحقہ علاقے کو ہر جانب سے گھیر لیا۔ پھر پولیس والے گھر کے اندر بھی آگئے، تلاشی لیتے اور پوچھ تاچھ کرتے رہے۔ میں نے محسوس کیاکہ پولیس والوں کا رویۂ خلاف معمول بدتمیزی سے پاک اور مؤدبانہ ہے۔ ان کا سربراہ آفیسربھی باربار معذرت کررہاتھا۔ میں نے اپنے شوہر ڈاکٹر محمد الدسوقی سے اس کی وجہ پوچھی تو انھوںنے بتایاکہ اس آفیسر کی والدہ شدید بیمار ہے اور وہ اس کا علاج مجھ سے کروارہا ہے۔ کچھ دیر تلاشی کے بعد وہ میرے شوہر کو گرفتارکرکے لے گئے۔
۸/فروری۲۰۱۰ کی شب صرف ڈاکٹر محمد ہی نہیں مصر کے مختلف شہروں سے اخوان المسلمون کے ۶۱ اہم رہ نمائوں کو گرفتارکیاگیا۔ ڈاکٹر الدسوقی کی طرح ان کی اکثریت معاشرے کے نمایاں ترین اور خدمت گزار افراد پر مشتمل تھی۔ ڈاکٹر محمود عزت طویل عرصے تک اخوان المسلمون کے سکریٹری جنرل رہ چکے ہیں۔ ڈاکٹر محمد البرحدیث میں پی ایچ ڈی ہیں۔ حدیث کے مختلف موضوعات پر ان کی ۳۱ کتب شائع ہوچکی ہیں۔ یونیورسٹی میں تدریس کے دوران وہ طلبہ کی بڑی تعداد کو پی ایچ ڈی اور ایم اے کے مقالہ جات لکھواچکے ہیں۔ اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح ان کا قصور بھی صرف یہ ہے کہ وہ اخوان المسلمون سے منسلک ہیں اور اخوان کے ۱۶ رکنی مکتب ارشاد کے منتخب رکن ہیں۔ ان کے ہم راہ گرفتار ہونے والے دیگر حضرات میں احمد عباس معروف انجینئرہیں۔ ڈاکٹر محمد سعد پروفیسر ڈاکٹر اور شعبہ امراض البول ﴿یورالوجی﴾ کے سربراہ ہیں۔ ڈاکٹر محمد عبدالغنی آئی اسپیشلسٹ ہیں، ولید شلبی معروف دانش ور ہیں، ڈاکٹر ایہاب ابراہیم میڈیکل کالج میں پروفیسر ہیں، ڈاکٹر علی عبدالرحیم اسیوط یونیورسٹی کی کلیہ ہندسہ ﴿انجیئرنگ﴾ میں استاد ہیں، مسعد علی قطب انجینئرہیں اور جیساکہ پہلے ذکر گزرچکا ، محمد الدسوقی ڈاکٹر ہیں۔ یہی مصر کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ اخوان المسلمون کا علم و مرتبہ اور ان کی خدمت گزاری سب سے پرعیاں ہے، لیکن چونکہ وہ ’اخوان‘ یعنی بھائی بھائی ہیں اورحکومت کی غلط پالیسیوں کی اصلاح چاہتے ہیں، اس لیے گردن زدنی ہیں۔
اخوان المسلمون کے نومنتخب مرشد عام ڈاکٹر محمد البدیع بتارہے تھے کہ گزشتہ ۱۰ برسوںمیں اخوان کے ۳۰ ہزار سے زائد افراد کو گرفتارکیاگیا اور اگر ان سب کی گرفتاری کی مدت کو جمع کیاجائے تو وہ مجموعی طورپر ۱۵ ہزار سال سے متجاوز ہوجاتی ہے۔ گزشتہ تقریباً تین عشروں سے اقتدار پر قابض مصری صدر حسنی مبارک، اپنی قوم کے ان بہترین ۱۵ ہزار برسوں کو جیلوںکی نذر کردینے کاجواب اپنے رب کو جودے گا سو دے گا، لیکن اس نے اپنے قریب ترین ساتھیوں کو بھی ضمیر کامجرم بنایاہے۔ ایک سابق وزیراعظم عزیزصدقی، اپنی اس خلش کااظہار پوری قوم سے معذرت کرتے ہوئے کرچکے ہیں۔ مرشد عام کے بقول وزیراعظم صدقی نے کہا:
‘‘ہم نے اخوان المسلمون کے ساتھ جو بھی زیادتیاں کی ہیں ، ہم پورے مصر سے اس کی معذرت چاہتے ہیں۔ ہم نے مصر کو ایسے شہ دماغ افراد سے محروم رکھاکہ جو اسے ترقی اور بلندی کی اعلیٰ منزلوں تک پہنچاسکتے تھے۔‘‘
مرشد و بانی امام حسن البنا شہیداور صاحبِ تفسیرقرآن سید قطب سے لے کر موجودہ مرشد عام اور ان کے ساتھیوں تک کسی بھی شخضیت کاجائزہ لے لیجئے، یکے بعد دیگرے آنے والے ہرفرعون مصر نے دنیا کو ان نابغۂ روزگار ہستیوں سے محروم رکھا۔ ۱۹۹۹ئ میں مصر کی طرف سے سرکاری سطح پر شائع ہونے والی سائنسی انسائیکلوپیڈیا میں پورے عالمِ عرب کی چوٹی کی ۱۰۰علمی شخصیات کا ذکر ہے۔ نومنتخب مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع ان ۱۰۰ میں سے ایک ہیں۔ عالمِ عرب میں، پیتھالوجی میں ان کے پاے کی کوئی اور شخصیت ملنامحال ہے۔ پوری دنیامیں وٹرنری سائنسز کے ماہرین کی فہرست بنی تو ان کا شمار چوٹی کے پہلے دس افراد میں ہوا۔ ایسی اعلیٰ علمی شخصیت اور اخوان سے تعلق؟ اُٹھاکر جیل میں پھینک دو۔ فرعونِ مصر نے فیصلہ صادر کیا۔ انھیں سب سے پہلے ۱۹۶۵ئ میں سید قطب کے ہمراہ گرفتار کیاگیا۔ سید صاحب کو تختۂ دار پر لٹکادیاگیا اور ڈاکٹر محمد بدیع کو ۱۵ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ نو سال کی سزا بے گناہی کے بعد رہاکردیے گئے۔ پھر چند ماہ کے لیے متعدد بارگرفتارکیے گئے، لیکن ۱۹۹۹ میں دوبارہ جو گرفتار ہوئے تو سوا تین سال گرفتار رہے۔ایک وہی نہیں اخوان کی پوری تاریخ میں جو جتنابلند پایہ عالم، جتنا زیادہ ذمے دار، جتنا فعال و مخلص و مصلح کارکن تھا، معاشرے کو اس کے خیر سے اتنا ہی زیادہ محروم رکھاگیا۔
ان تمام عقوبتوں، مظالم اور قیدوبند کی صعوبتوں کے باوجود منتخب مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع نے ۱۶/جنوری کو اپنے انتخاب کے بعد پہلے خطاب میں کہا: ‘‘اخوا ن کبھی بھی حکومت کے حریف اور دشمن نہیں رہے۔ ہم کبھی بھی مخالفت براے مخالفت پر یقین نہیں رکھتے۔ خیر میں تعاون اور شر کی مخالفت کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے اور ہم اسی بنیاد پر حکومت کی طرف تعاون کاہاتھ بڑھاتے ہیں۔’’ اس خطاب کو ابھی ایک ماہ بھی پورا نہیں ہواتھا کہ تین ہفتے کے اندر اندر مکتب ارشاد کے تین بزرگ ارکان سمیت مزید درجنوں رہنما و کارکنان گرفتار کرلیے گئے۔ ساتھ ہی نومنتخب مرشد عام اور اخوان کے خلاف پروپیگنڈا عروج پر پہنچادیاگیا۔ اخوان میں اختلاف کی بات کو بڑھاچڑھاکر پیش کیاگیا۔ مرشد عام کو سید قطب کے ہمراہ گرفتار ہونے پر قطبی کہہ کر پکارا گیااور اس سے مراد یہ لی جارہی ہے کہ وہ تشدد پر یقین رکھتے ہیں۔ سید قطب شہید پر یہ الزام سراسر ظلم اور صریح زیادتی ہے۔
مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے اپنے اولیں انٹرویومیں اس موضوع پر تفصیل سے بات کی ہے۔ انھوں نے کہاکہ سیدقطب کی تحریروںاور تشدد کی قائل جماعتوں کے مابین ربط پیدا کرنے کا قطعاً کوئی جواز نہیں ہے۔ الاخوان المسلمون خاص طورپر جناب حسن الہضیبی نے ان تمام لوگوں کو اخوان سے خارج کردیاتھاجنھوں نے تبدیلی کے لیے پُرتشدد راہ چھوڑنے سے انکار کیا۔ انھوں نے اس ضمن میں ایک شاہکار کتاب لکھی دعاۃ لاقضاۃ ﴿جج نہیں داعی﴾ اور میں ان چار افراد میں سے ایک تھاکہ جنھوں نے اپنے ہاتھوں سے اس کتاب کے قلمی نسخے تیارکیے۔ مرشد عام محمد بدیع نے مزید کہا: ‘‘یہ سراسر بہتان اور جھوٹ ہے کہ الاخوان المسلمون نے حکمرانوں میں سے کسی کے خلاف تکفیرکے فتوے جاری کیے ہیں۔ یہ بات اخوان کے منہج سے متصادم ہے۔ سیدقطب کو کسی متشدد یا تکفیری نہج کا ہم نوا قرار دینا کسی طور درست نہیں ہوسکتا۔ مرشد عام نے کہا: میں نے ایک امریکی دانش ور مسٹر روگن کی کتاب The Arabپڑھی ہے۔ اس میں وہ لکھتاہے : ’’سیدقطب کو ڈکٹیٹر حکومتیں اور ظالم شخصیتیں اس لیے ناپسند کرتی تھیں کہ وہ ان کے ظلم واستبداد کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے تھے۔ وہ عوام کو خوابِ غفلت سے بیدارکرکے ان کا مقابلہ کررہے تھے۔‘‘ مرشد عام نے حکمرانوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہاکہ : ’’جب بھی ہمیں اسلام کی میانہ رواور مبنی براعتدال دعوت پھیلانے سے روکا گیا تو یہاں ہرجانب خاردار جھاڑیاں اُگ آئیں اور مصر میں دہشت گردی نے جنم لیا۔ ہم آج بھی حکمرانوں کوخبردار کررہے ہیں کہ اگر وہ اسی طرح شخصی اقتدار پر اصرارکرتے رہے اور کسی دوسرے کی نصیحت پر کان نہ دھرنے کی پالیسی پر گامزن رہے تو مصر ایک ایسے بند کمرے میں بدل جائے گا کہ جس میں گیس بھر گئی ہو، ایسے میں کہیں سے بھی کوئی ادنیٰ سا شرارا بھی سب کچھ بھسم کرکے رکھ دیتا ہے۔‘‘
اخوان اور ان کی قیادت پر تشدد کے الزامات اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے، لیکن خود مصری عوام نے اس پورے پروپیگنڈے کو مسترد کردیاہے۔ حال ہی میں ایک امریکی ادارے نے مصر میں سروے کروایاتو ۹۶ فیصد عوام نے کہاکہ ‘‘اخوان المسلمون جمہوریت اور پُرامن جدوجہدپر یقین رکھنے والی جماعت ہے۔’’ ۵۷ فیصد عوام نے ملک میں حقیقی جمہوری نظام کو ترقی اور خوش حالی کااصل راستہ قرار دیا۔ اخوان المسلمون کے حالیہ جماعتی انتخابات نے اخوان کی حقیقی جمہوری شناخت کو مزید واضح کیا ہے۔ خود اخوان کے لیے بھی یہ انتخابات کئی نئی روایات کاباعث بنے۔ اخوان کی ۱۸ سالہ تاریخ میں پہلی بارایک مرشد عام کی زندگی میں، خود ان کی بہ اصرار معذرت کے بعد نئے مرشد عام کاانتخاب ہوا۔ اس سے پہلے بانی مرشد عام امام حسن البنا کو توشہید کردیاگیاتھا۔ پھر حسن الہضیبی ﴿۱۵۹۱ئ سے نومبر ۳۷۹۱ئ تک﴾، عمر التلمسانی ﴿۴۷۹۱ئ سے ۲۲/مئی ۱۹۸۶ تک﴾، محمد حامد ابوالنصر﴿مئی ۱۹۸۶ سے ۲۰/جنوری ۱۹۶۹ تک﴾، مصطفی مشہور ﴿فروری ۱۹۹۶ سے ۷۱/اکتوبر ۲۰۰۲ تک﴾ اور مامو الہضیبی ﴿۲۶/نومبر۲۰۰۲ سے ۹/جنوری ۲۰۰۴ ﴾ اپنی وفات تک مرشد عام رہے۔ تب اخوان کے بعض احباب یہ ذاتی سوچ بھی پیش کیا کرتے تھے کہ مشاورت اور اجتماعی جدوجہد تو یقینا اسلامی تحریک کاخاصا ہے لیکن سربراہ کو باربار بدلنا مناسب نہیں ہے۔ اس لیے منتخب مرشد عام ہی دوبارہ منتخب ہوجاتا۔ محمد مہدی عاکف اخوان کی تاریخ میں پہلے مرشد عام ہیں، جنھوںنے اپنی زندگی ہی میں خود اپنا جانشین منتخب کروایا۔
اخوان کے حالیہ انتخابات اس حوالے سے بھی منفرد تھے کہ جب ذرائع ابلاغ میں اخوان کے بارے میں پروپیگنڈا عروج پر تھا تو اخوان نے اپنے اس تنظیمی طریق کار کا بھی کھلم کھلا اعلان کردیا جو امن وامان کی مخدوش صورت حال کے باعث، اس سے پہلے صرف تنظیمی ذمے داران کی حد تک محدود رہتاتھا۔ اس اعلان کردہ طریق کار کے مطابق اخوان کے ارکان، مجلسِ شوریٰ کاانتخاب کرتے ہیں، مجلسِ شوریٰ مکتب ارشاد کا انتخاب کرتی ہے اور مکتب ارشاد مرشد عام کا انتخاب کرتا ہے۔ نئے مرشد عام کے اعلان کے وقت منعقد کی گئی پریس کانفرنس میں، مکتب ارشاد کے تمام ارکان بھی وہاں موجود رہے۔ اخوان کایہ نیا طرزتمام تر مشکل حالات کے باوجود کھل کر کام کرنے کے عزم کااظہار ہے۔ گزشتہ تین سال میں اخوان کے ساڑھے سات ہزار سے زائد کارکنان گرفتار کیے گئے۔ تقریباً اڑھائی سو کارکنان کے پورے کے پورے کاروبار، جایدادیں اور کمپنیاں ضبط کرلی گئیں۔ اس سب کچھ کے باوجود اب مزید کھل کر کام کرنے کا جذبہ کسی روحانی اور الوہی توفیق کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
ملک کی عمومی صورت حال دیکھیں تو مصری عوام اس وقت تک شدید مایوسی کے عالم میں ہیں۔ آیندہ برس کے آغاز میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ سب تجزیہ نگار یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اخوان کے مزید قائدین و کارکنان گرفتار کیے جاسکتے ہیں۔ اخوان کے خلاف پروپیگنڈے کامحاذ بھی گرم تر کیاجارہا ہے۔ اخوان ہی نہیں اسلام کی بنیادوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایاجارہا ہے۔ اب وہ پرانے زمانے کی طرف واپس نہیں جاسکتی۔‘‘ ایک طرف یہ ہذیان ہے اور دوسری جانب حکومتی جبرو تشدد لیکن اخوان کے لیے ان میں سے کوئی بھی بات ہمت شکن نہیں۔ ان کے حالیہ جرأت مندانہ اور مبنی برحکمت اقدامات روشنی کے ظہور کی اطلاع دے رہے ہیں۔
عالمی استعماری طاقتیں اعتراف کررہی ہیں کہ ان کے لیے حسنی مبارک کی ڈکٹیٹر شپ یا اسلامی تحریک کی ’بنیادپرستی‘ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اب اس‘‘مشکل’’ کاحل وہ یوں نکالنے کی کوشش کررہی ہیں کہ کسی نئی شخصیت کو متعارف کروایاجائے۔ بین الاقوامی ایجنسی براے ایٹمی توانائی (IAEA)کے سربراہ محمد البرادعی دو مرتبہ اس کے چیئرمین رہنے کے بعد حال ہی میں ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ۱۵/فروری کو پہلی بار مصر واپس آئے، تو ان کے بھرپور استقبال کاانتظام کیاگیا۔ انھیں ایک متبادل کے طورپر پیش کیاگیا۔ عالمی ذرائع ابلاغ انھیں ایک نجات دہندہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ البرادعی صاحب نے بھی آتے ہی بیانات اور انٹرویوز کا سلسلہ شروع کردیاہے کہ ہاں، میں آیندہ صدارتی انتخاب میں امیدوار ہوسکتا ہوں۔ ان کی سب سے بڑی ‘‘خوبی’’ یہ ہے کہ ایٹمی ایجنسی کامسلمان سربراہ ہونے کے ناطے سے انھوں نے عراق اور ایران کے خلاف ایٹمی ہتھیار رکھنے کے الزامات ثابت کرنے کی جدوجہد میں بھرپورکردار ادا کیا۔ صدام حسین کے محلات اور ان کی ایٹمی تنصیبات کی تلاشی میں ان کاکردار قائدانہ رہا، انھوں نے کبھی اپنا دامن اس الزام سے آلودہ نہیں ہونے دیاکہ وہ اسرائیلی ایٹمی ہتھیاروں پر کوئی اعتراض رکھتے ہیں۔
تمام عالمی سرپرستی اور بین الاقوامی امور پر مہارت و تجربات کے باوجود، مصری سیاست میں حصہ لینا برادعی صاحب کے لیے کوئی بازیچۂ اطفال نہیں ہوگا۔ حسنی مبارک نے اپنے اور اپنے وارث کے اقتدار کے لیے ‘‘مضبوط’’ انتظامات کیے ہیں۔ مصری دستور کے مطابق کسی بھی صدارتی اُمیدوار کے لیے تقریباً ناممکن الحصول اور کڑی شرطیں رکھی گئی ہیں۔ اُمیدوار اگر کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے تو شرط ہے کہ وہ کسی باقاعدہ رجسٹرڈ پارٹی کی مرکزی قیادت میں سے ہو اور اسے اس ذمے داری پر انتخاب سے پہلے کم از کم ایک سال کی مدت گزارنا چاہیے۔ خود اس سیاسی پارٹی کو بھی انتخاب سے کم از کم پانچ سال پہلے رجسٹرڈ ہوناچاہیے ۔ واضح رہے کہ اخوان سمیت کسی بھی قابل ِ ذکر جماعت و رجسٹرڈ نہیں کیاگیا، بل کہ اخوان کو ویسے ہی کالعدم قرار دیاہواہے اور امیدوار اگر آزاد ہو تو اس کے لیے شرط ہے کہ و ہ کم از کم ۲۵۰ /ارکان پارلیمنٹ یا ضلعی کونسلوں کے تائیدی دستخط حاصل کرے اور ظاہر ہے کہ ان نام نہاد منتخب اداروں میں دو تہائی سے زائد اکثریت حکمران پارٹی کی ہے۔
﴿بہ شکریہ ترجمان القرآن لاہور﴾
مشمولہ: شمارہ جون 2010